توبہ فہد بھائی آپ تو بہت گھنے نکلے ۔شہریار آج کسی کام سے آوٹ آف سٹی تھا اسی لیے ماہ رخ یہاں موجود تھی۔فہد صرف مسکرا کر رہ گیا۔اب پوری کہانی تو ضوفی اور ماہ رخ کو بھی معلوم نہیں تھی۔
اتنے آرام سے شادی کر لی اور ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔عزیر نے ماہ رخ کس جملہ مکمل کیا
دیور جی آپ تو یہ بات نا کریں نا آپ نے بھی تو ہوا نہیں لگنے دی ڈائریکٹ ایکشن کا مطالبہ کر دیا ۔ضوفی نے عزیر کو چھیڑا تو وہ جھیںپ گیا۔
اوے تم نے کونسا ایکشن لیا ہے۔بتانا ذرا۔عمیر کے کان کھڑے ہو گیے تھے۔
عزیر نے ایک لڑکی پسند کی ہوئی ہے اور جلد ہی ہم اسکے گھر جا رھے ہیں رشتہ لے کر۔ضوفی نے بتایا تل وہاں موجود تمام لوگوں کے منہ کھل گیے خاص طور پر عمیر وف آفاق حیرت کا شکار ہو گیے ۔
بیٹا ہم سے پردہ داریاں ہیں۔عمیر نے اسے گھورا۔ہے کون؟
تل تو بہت اچھی طرح جانتا ہے اسے۔ہر وقت تو تیری بے عزتی کرتی رہتی ہے فائزہ۔عمیر نے ایک لمحے کے لیے نا سمجھی کے عالم میں عزیر کی طرف دیکھا پھر اسکی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔
وہ۔۔عمیر کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی تو فہد بھی اسکی طرف متوجہ ہوا۔
ہاں وہی۔لیکن فکر نا کر اب وہ تجھے کچھ نہیں کہے گی ۔عزیر نے مسکرا تے ہوئے کہا۔
ہوں۔عمیر نے اپنے تاثرات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
عمیر تم بھی تو بتا رھے تھے کسی کا۔کیا بنا ؟ تم نے بات کی؟ ضوفی نے عمیر سے پوچھا
اب وہ کیا بتاتا کہ کل ہی اسنے فائزہ سے بات کی تھی اور اسکی توقع کے بر عکس اس نے نہایت تحمل سے اسکی بات سنی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہ دیا تھا کہ اس بارے میں فیصلہ اسکے والدین ہی کریں گے۔یعنی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔اور آج ضوفی سے وہ یہی کہنے والا تھا مگر شاید فائزہ اسے عزیر ہی سمجھ رہی تھی۔پہلی دفعہ اسے اپنے جڑواں ہونے پر شکوہ ہوا۔مگر اگلے ہی لمحے اسنے خود کو سنبھال لیا۔جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔شہریار ابھی تو اسکے لیے قربانی دے رہا تھا تو وہ کیوں نہیں۔
نہیں بھابی! میں بس موقع ہی ڈھونڈ تا رہا اور وہ لڑکی مجھے ٹاٹا کرٹی ہوئی کسی اور کے سنگ چلی گئی
اسنے جان بوجھ کر بات کا رخ موڑا
پر تھی کون؟ عزیر نے پوچھا
تھی ایک لڑکی۔تو نہیں جانتا اسے۔یہ کہ کر وہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا
جب کہ آفاق ابھی تک یہی سوچ رہا تھا کہ اسکے بھائی اس لڑکی سے اس حد تک اٹیچ ہو چکے ہیں کہ اپنے سیکریٹس بھی اس سے شیر کرنے لگے ہیں جب کہ پہلے تو ہر بات آفاق سے شیر کیا کرتے تھے۔
بھابی آپکو معلوم ہے پچھلے رمضان میں عمیر نے کتنا رولا ڈالا ہوا تھا کہ رمضان کی تیاری کرنی ہے۔پھر اسی کے اصرار پر ہم نے کُچھ پیشگی تیاری کی بھی تھی۔مگر اب آپکو دیکھ کر احساس ہو رہا ہے کہ واقعی رمضان شریف کیے استقبال کی تیاریآن ہو رہی ہیں۔عزیر نہایت مہارت سے سبزیاں کاٹ رہا تھا جب کہ ماہ رخ پکوڑوں کے لیے بیسں بنا رہی رہی۔اور ضوفی سموسے بنا بنا کر رکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ کافی چھوٹے چھوٹے کام بھی نپٹا رہی تھی۔روزانہ مسجد بھیجنے کے لیے اسنے الگ سے برتن نکالے تھے اور بڑے کور بھی۔اس سے پہلے اسنے سارے دیوروں کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی کی تھی۔
بھابی املی کی چٹنی بھائی بناے گا لاسٹ ٹائم فہد بھائی نے بنائی تھی ۔بس گزارے لائق ہی تھی۔قاسم نے اندر آتے ہوئے کہا۔
اوکے جی اور کچھ؟ ضوفی نے مسکرا تے ہوئے پوچھا
نہیں اور کچھ ضرورت ہی نہیں پہلے ہی آپ اتنا کچھ بنا رہی ہیں۔۔ہمارے فرج کیقسمت جاگ گئی ہے شاید۔
وہ بھی انکی مدد کرنے لگا۔
بھابی کل عزیر کی دلہن دیکھنے میں بھی جاؤں گا۔اسنے اچانک شو شا چھوڑا
مجھے یہ بتاؤ کہ دلہن میری تم دیکھ کر کیا کرو گے؟ جب مجھے ہی کوئی ساتھ لے کر نہیں جا رہا ۔عزیر نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔اسے یقین تھا کہ ادھر سے ہاں ہی ہوگی۔کیوں کہ فائزہ کے والد ڈیڈی کے بہترین دوستوں میں سے تھے اور انکے بیٹوں کی آفاق اور فہد سے شناسائی نکل آئ تھی سو انکار کا کوئی جواز نہیں تھا۔
شیراز صاحب ضوفشاں آفاق شہریار اور فہد رشتہ لے کر گیے تھے سب کو لڑکی بہت پسند آئ تھی۔ضوفی اور شیراز صاحب کو لڑکی کی دوسری بہن عمیر کے لیے پسند آگئی تو اسکے لیے بھی رشتہ بھی مانگ لیا۔انہوں نے رسمی طور پر سوچنے کا ٹائم منگا تھا
واپس آکر جب شیراز صاحب نے عمیر کو بتایا تو اسنے جیسے آپکی مرضی کہ کر وت ختم کردی
انھیں عمیر سے اس درجہ سعادت مندی کی امید نہیں تھی سو آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لر خوب پیار کیا
جیسے آپکی مرضی۔۔قاسم نے عمیر کی نقل اتاری ۔توبہ تم نے تو لڑکیوں کو بھی مات دے دی۔
تو اور کیا کہتا؟ ڈیڈی نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا ٹھیک ہی ہوگا اور بھابی کو بھی وہ پسند ہے تو پھر اور کس اعتراض کرنا۔
قاسم کو جواب دیتے ہوئے اسنے خود کو بھی تسلی دی۔
جسے وہ وقتی جذبہ سمجھتا رہا وہ وقتی ہرگز نہیں تھا۔لیکن یہ بات سمجھنے میں اسنے خود ہی بہت دیر کردی تھی اسکے لیے کوئی اور قصور وار نہیں تھا۔اسے وہ لڑتی لڑکی پہلی ہی نظر میں پسند آئ تھی جب اسنے لائبریری کا پوچھا تھا۔لیکن دل کی اس بات کو سمجھنے میں اس نے خود کوتاہی سے کام لیا۔تو اب کسی سے کیا کہتا۔وہ اٹھ کر جانے لگا تو ضوفی نے ایک خاکی لفافہ اسے تھما تے ہوئے کہا
یو لو اپنی ہونے والی دلہن کی تصویر ہی دیکھ لو ۔عائزہ نام ہے
ضوفی کی آنکھوں میں شریر سی چمک تھی۔فائزہ اور عائزہ کی ایک کزن نے اسے یونیورسٹی کے بہت سے قصے سنیے تھے ۔عمیر نے لفافہ اسکے ہاتھ سے لے کر اپنے کمرے کی رائٹنگ ٹیبل پر ڈال دیا
ایک دفعہ ہی دیکھ لوں گا۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الا رم کی تیز آواز سے آفاق ہڑبڑا کر اٹھا۔آج پہلا روزہ تھا۔اور الارم کے مطابق وہ پچیس منٹ لیٹ تھا۔وہ جلدی سے واش روم میں گھس گیا۔منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور تولیے سے چہرہ رگڑ تا ہوا باہر نکلا ۔اف ان لوگوں کو تو جگانا بھی عذاب ہے۔آج پہلی ہی سحر ی لیٹ ہو گئی۔وہ باہر جانے لگا تو کسی چیز سے ٹھوکر لگی۔وہ ضوفی کے جوتے تھے۔یکدم آفاق کا سویا ہوا دماغ جاگ گیا ۔اسنے اپنے بستر کی طرف دیکھا جہاں اسکے ساتھ کمرہ شیر کرنے والا دوسرا وجود نہیں تھا۔
اوہ ۔۔اسکے منہ سے اطمینان بھری سانس نکلی اور ساتھ ہی اسےاپنی پچھلی رمضان والی پریڈ یاد آگئی ۔سحر ی بنانا ساتھ ساتھ بھائیوں کو جگانا پھر برتن سمیتنا لیکن آج وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
اتنے میں دروازہ کھلا اور ضوفی اندر داخل ہوئی لیکن اسے جاگتا پا کر وہ دروازے میں ہی رک گئی
وہ آپ جلدی سے اجین۔سحری کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔وہ کہ کر واپس بھاگی تو وہ اپنے بال ہاتھوں سے درست کرتا ہوا نیچے چلا آیا۔
حیرت کا ایک جھٹکا تھا جو اسے لگا تھا سب ہی ٹیبل پر موجود تھے۔شہریار اور عزیر بھی ۔ ۔ اور بالکل فریش موڈ میں ۔یہ وہ تھے جنہیں سحری سے پانچ منٹ پہلے سحر ی کا خیال آتا تھا۔اور آج وہ اس کا انتظار کر rہے تھے۔
ارے واہ آج تو بڑے بڑے لوگ بھی نظر آرہے ہیں جو مردوں سے شرط لگا کر سویا کرتے تھے
کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے آفاق بولا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی
جب جگانے والے اتنے اچھے ہوں تو پھر شرط چھوڑنی ہی پڑتی ہے۔عزیر پر ٹھے لاتی ہوئی زوفی کو دیکھ کر بولا ۔آفاق کی نظرےں بھی ضوفی کی طرف اٹھی ۔صرف ایک لمحے کے لیے اسنے سوچا۔اگر وہ ہائی سو سائٹی کی اپنے جیسی ہی لڑکی سے شادی کرتا تو کیا وہ یہ سب کرتی۔یہ سب اس طرح خوش ہوتے۔اس بات کے فیفٹی فیفٹی چانس تھے اور فیفٹی پر سنت رسک بھی تھا۔اگر اس گھر کی بڑی بہو ہی ایسی ویسی آجاتی تو۔۔۔۔
تو ممی جاتے جاتے بھی میری زندگی بنا گئی۔اسنے مسکرا کر پوچھا
آہم آہم بھائی ۔کیا بھابی کو پہلی دفعہ دیکھ رھے ہیں۔شہریار نے آفاق کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرا یا تو شیراز صاحب کے سامنے ایسی بات پر وھ جھینپ گیا ۔شیراز صاحب کو بھی خوش گوار سی حیرت اور پھر خوشی بھی ہوئی۔
آ ں نہیں تو ۔۔۔وہ اور کیا کہتا۔اسنے تو اسکے بارے میں سوچا بھی پہلی دفعہ تھا۔
بھائی سحری کے لیے تھوڑا ہی ٹائم بچا ہے یہ سوچ بچار پھر کبھی کر لیجیے گا۔عزیر بولا تو وہ اپنے سامنے پڑے خانے کی طرف متوجہ ہوا
جاری ہےعزیر kکے سسرال والوں نے ہاں کر دی تھی ۔اب ان سب کا ارادہ آخری عشرے میں منگنی کرنے اور عیدی وغیرہ بھی دے انے کا ارادہ تھا ۔افطاری میں ابھی کچھ وقت تھا ۔
عمیر عزیر اور قاسم کی چھٹییاں تھی۔سو وہ سب ضوفی کے ساتھ روزانہ ہی شاپنگ کے لیے جاتے تھے۔
تین تین دلہنوں کی شاپنگ کرنی تھی۔بیچاری ضوفی گھر اور بازار کے بیچ گھن چکر بن چکی تھی ماہ رخ کا تو شاید اب رخصت ہو کر ہی انے کا ارادہ تھا ۔ایک بھی چکر نہیں لگایا تھا اسنے رمضان میں۔آج دلہنوں کے لیے منگنی کے جوڑے لینے تھے۔
او ہو تم لوگوں کو بھی بس ایک جیسی ہی چیز پسند آتی ہے۔کم از کم کلر ہی مختلف لے لو۔ضوفی سے غلطی ہو گئی کہ اسنے دونوں کو اپنی اپنی دلہن کے لیے خود سے جوڑے پسند کرنے کا کہ دیا۔اب دونوں کو ایک ہی جوڑا اور کلر پسند آیا تھا۔اور ضوفی نے اپنا سر پیٹ لیا تھا۔
بھابی یہی کلر فائزہ کا فیو رٹ ہے نا۔عزیر نے بتایا تو عمیر فورن اپنی پسند سے دست بر دار ہو گیا۔ضوفی نے ویسا ہی جوڑا دوسرے کلر میں لے لیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کمبا ئن منگنی کے لیے ایک ہال بک کروا یا گیا تھا افطا ری کے بعد ذرا لیٹ فنکشن تھا ۔شادی کے بعد وہ آج پہلی دفعہ تیار ہوئی تھی۔سی گرین اور براؤن کلر کے خوبصورت سی نگینوں والے سوٹ میں ہلکا میک اپ اسنے فنکشن کے لحاظ سی ہی کیا ہوا تھا۔سائیڈ سی مانگ نکال کر اسنے بالوں کو پیچھے کر کے کھلا چھوڑا ہوا تھا ۔اندر آتا آفاق ٹھٹھک کر رک گیا اسے آج معلوم ہوا تھا کہ ضوفی کے بال اتنے لمبے ہیں۔اس کے اندر آتے ہی وہ باہر چلی گئی
ہر لحاظ سی مکمل ہے پھر مجھے کس بات کا احساس کمتر ی ہے پڑھی لکھی ہے بات کرنے کا ڈھنگ اتا ہے ہر بات اس میں موجود ہے جو اچھی شریک حیات میں ہونی چاہیے پھر اور کیا چاہیے مجھے ؟ کس چیز کا انتظار ہے مجھے؟ اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتی تو جو رویہ میں نے اسکے ساتھ اپنا ے رکھا اس پر زمیں آسمان ایک کر دیتی مگر یہ تو ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سر پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رسم کے لیے دونوں دولہا وں کو اسٹیج پر لایا گیآ تو وہ اسٹیج پر آکر بت بن گیے ۔ٹکر ٹکر دونوں دلہنوں کو دیکھنے لگے۔
آہم آ ہم کیا بات ہے بچو؟ آج یہیں پوری رات گزرنے کآ پروگرام ہے۔آفاق پیچھے سی آکر بولا تو وہ سکتے سی باہر آے۔
مگر یہ دونوں ۔ ۔ ۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولے
اپنی شکلیں دیکھی ہیں کبھی آئینے میں؟ شہریار نے کہا
جب تم دونوں ہو سکتے ہو تو یہ کیوں نہیں؟ دوسروں پر پابندی ہے کیا؟ قاسم نے کہا تو وہاں کھڑے سب لوگ بے اختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیے کیوں کہ وہاں بیٹھی دونوں دلہنیں بالکل ایک جیسی تھی جیسے یہ دونوں ۔ ۔ ۔ ۔
بھائی یہ ضوفی بھابی کی پلاننگ تھی ۔فہد نے کہا
لیکن ایک مسلہ ہے ؟ اب پتہ کیسے چلے گا کہ فائزہ بھابی کونسی ہیں اور عائزہ بھابی کون؟ کہیں دلہنیں بدل نا جایں؟ عاصم کی اپنی ہی پریشانی تھی
او یہ تو ہمیں معلوم ہے۔وہ دونوں خوشی سی بولے اور جا کر اپنی اپنی دلہن کے ساتھ بیٹھ گیے
ارے۔تم لوگوں کو کیسے پتہ چلا؟ فہد نے حیرت سی پوچھا باقی سب بھی حیران تھے
ضوفی بھابی کی مہربانی سے ہم نے مل کر ہی اپنی پسند کے منگنی کے جوڑے لیے تھے ۔عزیر نے بتایا تو اسٹیج پر کھڑے ہجوم نے hooting شرو ع کردی
منگنی کی رسم کے بعد سب لوگ ادھر ادھر ہو گیے تو فائزہ اور عزیر باتوں میں لگ گیے
جب کہ عمیر سوچ رہا تھا کہ نا جانے عائزہ کون تھی اور فائزہ کون؟ اور اسے جو پسند تھی وہ فائزہ تھی یا پھر ۔۔۔۔۔شکل چاہے ایک جیسی ہی تھی مگر ایک خلش سی تھی۔وہ اسی خیال میں تھا جب کسی نے اسکے بازو پر چٹکی کٹی ۔
اسنے چونک کر اپنے پہلو میں بیٹھی ہوئی منگیتر کو دیکھا ۔
زبردستی کی ہے کسی نے؟ جو سڑے ہوئے بینگن جیسا منہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہو۔اگر ایسا ہی تھا تو وہ یونیورسٹی میں کیا بکواس کر رھے تھے؟ ہاں بولو
عمیر آنکھیں پھا ڑے عائزہ کو دیکھ جا رہا تھا
بالکل وہی انداز وہی باتیں تیز مرچ والی۔۔وہ بڑبڑایا ۔
اب ایسے آنکھیں پہاڑ کر کیا دیکھ رھے ہو! نظر لگاؤ گے کیا؟ عائزہ کو غصہ آگیا
یاہو ۔ ۔ وہ یک دم اچھل کر کھڑا ہو گیا
ارے رے! وہ بیچاری گھبرا کر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔فائزہ اور عزیر نے بھی گھبرا کر اسکی طرف دیکھا کہ اس وقت اس پر کیا دورہ پڑا ہے
کیا ہوا ہے؟ عزیر نے پوچھا مگر وہ اسٹیج سی اتر کر دوڑتا ہوا تھوڑی دور بیٹھی ضوفی کے پاس گیا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔بھابی آپکو معلوم تھا نا۔وہ بچوں کی طرح خوش ہو رہا تھا
بالکل! مگر تمہارے بقول اس لڑکی کی تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضوفی نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑا
ویسے اگر تم تصویر دیکھ لیتے تو تمہیں سارے سوالوں کا جواب مل جاتا
گھر واپس آتے ہی سب سی پہلے ان دونوں نے وہ تصویر والا لفافہ تلاش کیا اور تصویر دیکھ کر دونوں ہی سر پیٹ کر رہ گیے
کیا تھا اگر تم پہلے اسے دیکھ لیتے ۔عزیر نے عمیر سی کہا کیوں کہ وہ تصویر دونوں بہنوں کی تھی جس میں وہ ہنس رہی تھی۔تصویر کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔
ڈیر ٹوئنز
دوسروں کو اپنی شکلوں کی بدولت بے وقوف بنانے والو! کیسا لگا خود بے وقوف بن کر؟ ہماری ایک کزن نے ہمیں پہلے ہی تم دونوں کے متعلق وارن کر دیا تھا ۔سو اس دفعہ تم لوگوں کی چال تم پر ہی الٹ گئی۔اور تم لوگوں کو پہچاننے کے لیے اسنے ایک نشانی بھی بتا دی تھی۔عمیر کی پیشانی پر تل اور عزیر کی ٹھوڑی پر ۔ ۔ ۔ ۔ خیر! کیسا لگا خد اپنے ہی دام میں آکر
فائزہ اور عائزہ
خط پڑھ کر وہ دونوں ہی اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیے۔
یہ ٹو واقعی ہمارے ساتھ ہو گیا۔عمیر بولا ٹو عزیر نے بھی اسکی تائید کی۔
بالکل
آج ستائیسویں شب تھی۔سب عبادت کر کے اب سو رھے تھے۔سواے ضوفی اور فہد کے۔دونوں ہی اپنے اپنے کمروں میں ابھی تک عبادت میں مصروف تھے۔
ضوفی نے دوا کے لیے ہاتھ اٹھا ے ہوئے تھے۔مگر اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ مانگے ٹو کیا مانگے۔اتنا کچھ ٹو مل گیا تھا اسے سواے ۔۔۔۔
یا اللّه تو دلوں کا حال بہتر جانتا ہے۔تو سب جانتا ہے جو دعا میرے دل میں ہے مگر میرے لبوں پر نہیں آ پا رہی۔اے اللّه تو تو وہ بھی سن لیتا ہے۔
ادھر فہد کے لبوں پر بھی کچھ ایسی ہی دعا تھی
یا اللّه! وہ میری ذمہ داری تھی۔میں نے اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی کی۔یا اللّه تیرے بعد اس دنیا میں صرف میں ہی اسکا سہارا تھا۔میں ہی اسے بھول گیا اسے بیچ منجھدار میں بھول گیا یا اللّه ایک دفعہ وہ مجھے دوبارہ مل جائے میں اپنی ساری ذمہ داریاں نبھاوں گا۔اے اللّه صرف ایک دفعہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اپی! اپنے اس چھچھورے دیور کو سمجھا دو۔ورنہ میں اسکا سر پہاڑ دوں گی۔آج چاند رات تھی ۔تھوڑی دیر پہلے وہ لوگ ماہ رخ کو لے کر آگے تھے۔کیوں کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سی ہوسٹل خالی ہو چکا تھا۔اسکے ساتھ اسکی روم میٹ بھی آئ تھی۔جو کہ اب اسکی گہری سہیلی بن چکی تھی ۔
اس وقت لاؤنج میں ماہ رخ کا ہی سامان بکھرا پڑا تھا۔پرسوں اسکی رخصتی تھی۔شہریار ابھی باہر سے آیا تھا اور یہیں لاؤنج میں ڈٹ گیا تھا۔
لو بھائی عمیر۔دیکھ لو آج تمہاری خواہش کے مطابق عید کی تیاری بھی ہو گئی ہے۔چوڑیاں مھندی وغیرہ وغیرہ ۔شہریار نے ماہ رخ پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
بھابی اپ نے عید کے کیسے کپڑے لئے ہیں؟ قاسم نے اچانک ضوفی سے پوچھا تو ضوفی گڑ بڑ ا گئی۔جب آفاق سمیت سب اسکی طرف دیکھنے لگے۔
وہ۔۔۔۔میرے اتنے سارے نئے سوٹ پڑے ہیں۔اس لیے میں نے نہیں لئے ۔
جی ہمیں پتہ تھا۔اپکا یہی جواب ہوگا ۔کسی کو اپکا خیال ہی نہیں۔اس لیے ہم سب بھائیوں نے آپکے لیے عید کی شاپنگ کی ہے۔عمیر نے کہا اسکا سارا زور "کسی" پر ہی تھا ۔آفاق نے چونک کر ضوفی کی طرف دیکھا ۔یعنی اس نے سب کو بتایا ہوا تھا سب کچھ ۔
بھابی کی طرف کیا دیکھتے ہیں۔ہمیں نظر نہیں آتا کیا۔شہریار نے کہا تو وہ شرمندہ ہو گیا۔اتنے میں عاصم اور قاسم کچھ پیکٹ اٹھا لاے ۔
یہ لیں بھابی۔یہ ہماری طرف سی آپکے لئے عید گفٹ ۔انہوں نے وہ سارے پیکٹ ضوفی کے سامنے ڈھیر کر دئے۔خوبصورت سا سوٹ میچنگ سینڈل چوڑیاں جیولری اور بھی نا جانے کیا کیا۔اٹھا لاے تھے وہ۔ضوفی کی آنکھیں اتنی محبت پر بھیگ گئی۔ابھی وہ کچھ کہنا چاہتی تھی کہ شیراز صاحب اپنے کمرے سے نکل آے۔
ارے۔۔تم یہاں کیا کر رھے ہو۔۔۔جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔خبردار ۔۔بغیر کسی ضرورت کے اپنے کمرے سی باہر نکلے تو۔۔۔۔۔انہوں نے شہریار کو جھاڑا ۔شہریار منہ بنا کر اوپر جانے لگا تو عمیر نے اسے منہ چڑایا ۔اتنے میں فہد باہر سے آیا۔وہ شکل سے ہی تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔
تم؟ فہد کی حیران نظریں صو فے کے کونے پر چپ چاپ بیٹھی لڑکی پر پڑی ۔جو ارد گرد سے بے نیاز کسی اور جگہ ہی پہنچی ہوئی تھی۔فہد کی آواز پر گڑ بڑا کر کھڑی ہو گئی اور فہد کو دیکھ کر تو جیسے بت بن گئی۔
فہد بھائی! یہ میری روم میٹ ہے۔اسکا اس دنیا میں ایک شوہر کے سوا کوئی نہیں۔وہ مردود اسے بھول کر نجانے کہاں دفعان ہو گیا ہے بڑا ہی خبیث انسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماہ رخ نے تعارف ۔ کا فریضہ انجام دینا چاہا۔مگر فہد نے جیسے کچھ سنا ہی نا تھا۔اور تیر کی طرح اس لڑکی کی طرف بڑھا ۔
کہاں چلی گئی تھی تم؟ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تمہیں؟ بس پاگل ہونے کی کسر رہ گئی تھی۔اسنے صبا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔جب کہ ماہ رخ نے صورت حال سمجھ آتے ہی زبان دانتوں تلے دبا لی۔وہ فہد کو کیسے کیسے القابات سے نواز چکی تھی۔شہریار سیڑھیوں سے ہی پلٹ آیا تھا۔
بھابی نمبر تین۔ قاسم ہنستے ہوئے عمیر اور عزیر کے کانوں می بولا۔
اپ تو مجھے بھول ہی چکے تھے۔واپس ہی نہیں آے۔ہوسٹل بند ہو گیا تو کہاں جاتی میں؟ آخر کار صبا نے بھی زبان کھولی
تو بتا تو دیتیں ۔فہد نے ایک دفعہ پھر اسے جھنجھوڑ دیا۔تو وہ زور و شور سے رونے لگی۔جب کہ شہریار نے آکر فہد کو پیچھے کیا۔
فہد بس کردو۔غلطی تمہاری اپنی ہے۔اس پہ کیوں اپنی frustration نکال رھے ہو۔شیراز صاحب نے کہا تو وہ سر پکڑ کر دوسرے صو فے پر جا بیٹھا۔
اتنے مہینوں سے ڈھونڈ رہا ہوں اسے۔دماغ خراب ہو گیا تھا میرا یہ سوچ سوچ کر کہ نا جانے کہاں گئی ہو گی۔اسنے تھکے تھکے لہجے میں کہا تو صبا نے روتے ہوئے اسکی طرف دیکھا ۔واقعی وہ الجھا ہوا لگ رہا تھا۔
چلو اب بس کرو جو بھی ہو گیا۔ہماری بہو خیر خیریت سے اپنے گھر آگئی ہے ۔ہمارے لئے یہی کافی ہے۔شیراز صاحب نے صبا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اور تم اب بیٹھ کیوں گیے ہو؟ جاؤ۔جا کر صبا بیٹی کو عید کی شاپنگ کرواؤ ۔پرسوں ماہ رخ کی رخصتی کے ساتھ تم لوگوں کا ولیمہ بھی ارینج کر لیتے ہیں۔شیراز صاحب نے منٹوں میں سارا پروگرام ترتیب دے دیا۔
مگر ۔۔۔صبا نے کچھ کہنا چاہا مگر فہد کھڑا ہو چکا تھا۔
چلو!
گاڑی سٹارٹ کیے وہ فرنٹ ڈور کھولے بیٹھا تھا۔اسکے بیٹھتے ہی اسنے گا ڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھائی ۔
آئ ایم ریلی سوری۔مگر اپ ہی بتایں ۔میں کیسے آپکو بتاتی یہ سب حالات ۔۔فہد کی حالت دیکھ کر صبا نا چاہتے ہوئے بھی خود کو قصور وار ٹھہرا کر اس سے معافی مانگ رہی تھی۔
پلیز کچھ تو بولیں۔اسکے مسلسل چپ رہنے پر اسنے کہا
آج اتنے عرصے بعد تمہاری آواز سننے کو ملی ہے۔وہ گاڑی روک کر اسکی طرف مڑا ۔سو تم ہی بولتی رہو نا۔
جی۔۔۔وہ حیران رہ گئی۔اسے لگا تھا ابھی وہ اور غصہ کرے گا مگر۔۔۔۔۔۔
مجھے بہت غصہ تھا تم پر۔۔۔لیکن تمہیں دیکھتے ہی سب ختم ہو گیا۔سو اب سوری کی ضرورت نہیں۔کیوں کہ غلطی میری ہی تھی۔سب کو بتا دیتا تو۔۔۔۔
میں اکیلا تو پھر بھی بھول جاتا مگر یہ شیطانوں کی فوج بھولنے نا دیتی۔اسنے ہنستے ہوئے کہا۔
ویسے مسز اپ بھولنے والی چیز نہیں ہیں۔آنکھوں میں شرارت لیے وہ اسکی طرف جھکا تو وہ جھینپ کر باہر دیکھنے لگی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم لوگ کہاں جا رھے ہو؟ فہد کے جانے کےبعد شہریار کو اپنے کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔جب کہ ماہ رخ اوپر ہی دوسرے کمرے میں تھی۔اب آفاق نے عمیر عزیر کو اکھٹے باہر جاتا دیکھا تو پوچھا
بھائی سمجھا کریں نا۔۔۔۔عید کا چاند دیکھنے جا رھے ہیں۔۔۔۔عمیر نے کہا
کیا مطلب؟؟؟ آفاق نے پوچھا
آپکو کہاں مطلب سمجھ آتا ہے۔اپکا تو چاند آپکے آس پاس ہی ہے۔پر آپکو دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔عزیر نے کہا اور دونوں باہر نکل گیے۔عاصم اور قاسم نجانے کون سے کونوں کھدروں میں گھسے ہوئے تھے۔میدان صاف تھا۔کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھی۔
ضوفی جلدی جلدی صبح کے لیے چیزیں تیار کر رہی تھی۔وہ جا کر اسکے پیچھے کھڑا ہو گیا۔
آ۔۔۔۔آپ؟ وہ مڑی تو ڈر گئی۔
ہاں جی میں۔۔۔۔میں نے سوچا میں بھی عید کا چاند دیکھ لوں۔جو میرے آس پاس ہے۔اسنے ضوفی کے گیلے ہاتھ پکڑ لیے۔ضوفی کو گویا کرنٹ لگا تھا۔
مم۔۔۔مطلب؟ بولنا بھی محال ہو رہا تھا۔
صرف ایک بات کہنی ہے۔اگر ہزار واٹ کا بلب لے کر بھی ڈھونڈتا تو مجھے تمہاری جیسی لڑکی نہیں ملتی۔مجھے تم سے محبت نہیں تھی۔
اسکی اس بات پر ضوفی نے اسکی طرف دیکھا۔
مگر اب شدید قسم کی ہو گئی ہے۔نجانے کیا جادو ہے تم میں۔۔۔۔۔
وہ۔۔۔۔مجھے کام کرنا ہے۔۔۔اسنے گھبرا کر ہاتھ چھڑانا چاہا۔مگر آفاق کی گر فت کافی مظبوط تھی۔
اتنے عرصے کام ہی تو کرتی رہی ہو۔۔۔بس اب۔۔۔۔اور کچھ نہیں کرنا سواے ۔۔۔۔۔۔ضوفی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا
آفاق نہایت تسلی اور فرصت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
تم نے مھندی نہیں لگوا نی؟ اسنے پوچھا تا کہ وہ کچھ تو بولے۔
نہیں۔۔وہ جلدی اتر جائے گی نا۔۔
لیکن مجھے بہت پسند ہے۔شادی کی پہلی رات تمہاری مھندی کی خوشبو نے مجھے بہت ڈسٹرب کیا تھا۔اب وہ کیا کہتی ۔
چلو آؤ شاپنگ بھی تو کرنی ہے۔۔
مگر وہ تو سب نے۔۔۔
سب نے گفٹ دیا ہے مگر کل تو تم میری پسند کے کپڑے پہنو گی نا۔۔۔اسکے نا نا کرنے کے باوجود اسے کھینچتا ہوا لے کر باہر نکل آیا۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم؟ تم یہاں کیا کر رھے ہو؟ ماہ رخ اچھل پڑی۔شہریار اچانک ہی اسکے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
وہ عید کا چاند دیکھنے۔
مطلب؟ وہ حیران ہوئی۔
بھائی اپ عید کا یہ چاند باہر جا کر فرصت سے دیکھ سکتے ہیں ڈیڈی کسی بھی وقت آ سکتے ہیں۔باہر سے قاسم کی آواز آئی تو اسنے جھٹ ماہ رخ کا ہاتھ پکڑا اور باہر نکل آیا۔
انکل نے دیکھ لیا تو کیا کہیں گے؟ ماہ رخ رک گئی
اگر تم یہیں کھڑی رہی تو ضرور دیکھیں گے۔وہ اسے لیے باہر آ گیا ۔
مگر کہاں جانا ہے؟
بھئی شادی سے پہلے پہلی اور آخری چاند رات ہے اس پہ بھی ڈیڈی نے پہرہ لگا دیا تو کچھ نا کچھ تو کرنا تھا نا۔
وہ مزے سے بولا تو وہ بھی اسکی نرالی منطق سن کے ہنس پڑی
ارے اتنی جلدی ہے آپکو دی اینڈ کی۔ابھی تو اپ نے قصر لائلہ کی رونق دیکھی ہی نہیں۔چلیے پھر چلتے ہیں قصر لائلہ کا ایک اور روپ دیکھنے کے لیے۔۔۔
جی جی۔یہ آوازیں بالکل قصر لائلہ سے ہی آرہی ہیں۔اندر چلیے نا۔۔۔۔رستہ تو یاد ہی ہوگا آپکو۔ بالکل وہی والا۔
آج عید کا دن ہے اور ساتھ ہی شہریار صاحب کی ڈھولکی بھی۔او ہو اندر چلیں سب معلوم ہو جائے گا۔
جی تو یہ لاؤنج میں ہی سب جمع ہیں۔عمیر صاحب ڈھولک کم بجا رھے ہیں اور عائزہ کو زیادہ تاڑ رھے ہیں لیکن وہ بھی عائزہ ہی ہے برابر انھیں اگنور کیے جا رہی ہیں۔فائزہ صاحبہ ماہ رخ بی بی کے پاس گھسی بیٹھی ہیں۔سامنے والے صو فے پر فہد صاحب اپنی مسز کے ساتھ برا جمان ہیں۔اور آج تو انکی شوخیآں بھی عروج پر ہیں۔صبا بھی کل کی نسبت آج زیادہ پر اعتماد نظر آرہی ہے۔
فائزہ اگر ماہ رخ کے دائیں جانب براجمان ہے تو عزیر صاحب بائیں سائیڈ بیٹھے ہوئے ہیں۔قاسم اور عاصم پہلے تو گانے گانے می مصروف تھےمگر کچھ دیر پہلے سامنے والے اور ساتھ والے بنگلے سے دو مہمان لڑکیاں آئ تھی صو انکی توجہ اب ادھر زیادہ اور گانو ں پر کم تھی۔شیراز صاحب ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کو کمپنی دے رھے تھے۔
اوہ دولہا صاحب تو غائب ہیں۔یہی سمجھے نا اپ۔۔۔۔۔
ارے بھئی ۔انکے ساتھ کل رات بہت بری ہوئی۔واپسی پر شیراز صاحب نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔سو اب وہ شیراز صاحب کی نگرانی میں تھے یعنی ڈرائنگ روم میں بیٹھے جما ئیاں لے رھے تھے۔مگر خیر اتنے سیدھے تو وہ بھی نہیں ہیں۔کسی نا کسی کم سے باہر آجاتے اور پھر شیراز صاحب کو زحمت کرنا پڑتی انکے کان پکڑ کر واپس لے جانے کی۔
ارے یہ کون ہے؟؟
واو۔
وہاٹ آ کپل ۔۔۔۔
یہ اپنے۔۔۔۔۔آ ہم آفاق صاحب اور ضوفی بی بی ہیں۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیڑھیوں سے اتر تے ہوئے۔آفاق کی تو سرگوشیاں ہی ختم ہونے کو نہیں آرہی۔اور ضوفی کے چہرے کو آج کسی میک اپ کی ضرورت ہی نہیں۔
آج قصر لا ئلہ کے آنگن میں یکے بعد دیگرے کئی چاند اترے تھے اور قصر لائلہ وجود زن سے سج سا گیا تھا۔کہاں ایک سال پہلے تک یہاں کوئی صنف نازک نامی کوئی چیز ہی نہیں تھی اور آج تو جیسے اسکی قسمت جاگ اٹھی تھی۔
اچھا چلیں اب۔۔انھیں ایک خوش حال اور خوش گوار زندگی کی دعا دیں اور اپنے اپنے گھر جایں ۔دوسرے کے گھر بن بلا ے جانا اچھی بات نہیں ہوتی۔
اپنے گھر جا کر عید منا ئیں اور خوش
رہیں اپنے خرچے پر۔عید مبارک
ختم شد