مجھے نہیں جانا۔۔فہد منہ پھلآ کر بیٹھا ہوا تھا
کیوں؟ آفاق نے اسے گھورا
حد کرتے ہو یار میرے بھائی کی شادی ہے وہ بھی پہلی پہلی اور میں ہی موجود نا ہوں۔اس وقت فہد سمیت آفاق شہریار اور عمیر ڈیڈی کے کمرے میں موجود تھے۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی فہد کے کولیگ نے اسے کال کر کے بتایا تھا lh انہوں نے جس کورس کے لیے جانا تھا آج شام کو انکی روانگی ہے وہاں لیٹر کافی دن سے آیا پڑا تھا مگر اسے کسی نے انفارم نہیں کیا تھا۔سو اب افرا تفری میں جانا تھا لیکن وہ اب جانا نہیں چاہ رہا تھا
فہد شیراز صاحب نے کہا۔بڑے ہو جاؤ تم۔اتنے بڑے ڈاکٹر ہو مگر حرکتیں ۔۔۔۔۔
چلو سامان پیک کرو جلدی سے۔۔انہوں نے حتمی لہجے میں کہا تو وہ منہ بناے باہر چلا آیا ۔باقی بھی سب اسکے پیچھے ہی کمرے سے نکل آے۔
تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے آفاق کو ایک بڑے میاں نے چمکیلا بھڑکیلا سہرا پہنایا۔
بس ۔عزیر ہنستے ہوئے بولا۔اسی کی کمی رہ گئی تھی۔
قربانی کے بکرے لگ رھے ہو پورے۔شہریار اور عمیر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسے ۔آفاق انھیں سہر ے کے اندر سے گھور بھی نہیں سکتا تھا۔
آخر کار بارات روانہ ہوئی۔ڈھول کی تھاپ پر دولہا کے آگے آگے گاؤں کے لڑکے بھنگڑا ڈال رھے تھے۔
یار شرم کرو۔دولہا کے بھائی ہو۔لیکن ہم سے اچھے تو یہ لوگ ہیں۔عزیر نے کہا تو پھر وہ پانچوں بھی بھنگڑا ڈالنے والی ٹولی میں شامل ہو گیے
*******************
یہاں سے سیدھا انہوں نے واپس گھر جانا تھا ان لوگوں کا سامان تو پہلے ہی فہد لے جا چکا تھا اب ضوفی کا ایک سوٹ کیس تھا جو شہریار نے اپنی گاڑی میں رکھ لیا تھا۔اس کے ساتھ عزیر قاسم اور عاصم تھے جب کہ دوسری گاڑی کو عمیر ڈرائیو کر رہا تھا جس میں ضوفی آفاق اور شیراز صاحب تھے۔
دو گھنٹوں کے بعد جب وہ گھر کے نزدیک پہنچے تو شہریار کو خیال آیا۔
اوہو بھابی کے استقبال کے لیے کچھ تیاری ہی نہیں کی۔
تو یہ پہلے سوچنا تھا نا اب کیا ہو سکتا ہے۔عزیر نے منہ بنایا۔
گاڑیاں پورچ میں رکی شام بھی تقریباً ڈھل چکی تھی قاسم نے آگے بڑھ کر باہر کی لائٹس آن کی تو پورا گھر ایک جھماکے سے روشن ہو گیا۔اور وہ سب ٹھٹھک کر جہاں تھے وہیں رہ گیے۔
سیڑھیوں سے لے کر مین ڈور تک سرخ گلابوں کی پتیوں کی روش بنی ہوئی تھی اور عین مین ڈور کے سامنے ہلکی گلابی پتیوں سے ویلکم ہوم لکھا ہوا تھا۔
اس خوش گوار سے sarprise پر ڈیڈی اور آفاق نے حیران نظروں سے ان لوگوں کی طرف دیکھا تو وہ خود بھی انھیں حیران نظر آے۔
ویلکم ہوم بھابی۔وہ حیرت کی وادی سے نکلے تو اکھٹے بولے
ڈیڈی نے آگے بڑھ کر مین ڈور کھولا ۔
چلو بیٹا بسماللہ پڑھ کر اندر داخل ہو اور اب یہ تمہارا گھر ہے اور آج کے بعد سے اس گھر کا سارا نظام تمہارے ہاتھ میں ہوگا
ضوفی اور آفاق نے ایک ساتھ قدم اندر دھرے ۔کوریڈور میں بھی گلاب بچھے ہوئے تھے جو لاوُنج تک جا رھے تھے۔پورے گھر میں گلاب کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔لاوُنج کی دیواروں پر ننھی ننھی ایل ای ڈیز چمک رہی تھی ایسا معلوم ہوتا تھآ جیسے پورے لاوُنج میں جگنو گردش کر رھے ہوں۔اچھا خاصا رومانٹک مآ حول بنا ہوا تھا۔
فہد بھائی زندآباد ۔عمیر عزیر ور قاسم بولے۔
عاصم بیٹا بھابھی کو انکے کمرے ٹک چھوڑ آؤ
بھابی کا کمرہ کون سا ۔وہ پوچھنے لگا تو سب کا دل چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لیں
آہیں بھابی میں آپکو اپکا کمرہ دکھاتا ہوں۔عزیر نے اپنی خدمات پیش کی
عمیر تم بھابی کا سامان لے کر آؤ۔وہ تینوں اوپر چلے گیے تو قاسم ور عاصم بھی ان کے پیچھے لپکے ۔اب لاوُنج میں صرف شیراز صاحب ور آفاق ہی رہ گیے تھے ۔
بیٹا مجھے لگتا ہے تم نے میرا فیصلہ مان تو لیا ہے مگر اس پر خوش نہیں ہو۔
نہیں ڈیڈی ایسی کوئی بات نہیں بس میں تھوڑا سا تھک گیا ہوں۔ور ویسے بھی میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے تھوڑا ٹائم چاہیے ہوگا آہستہ آہستہ ایڈجسٹ ہو جاؤں گا۔
لیکن بیٹا۔دیکھ لینا اس بن ماں باپ کی بچی کا انتظار زیادہ لمبا نا کر دینا
جی! اسنے بس یھ کہا ور وہ کہ بھی کیا سکتا تھا۔
* ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ *
مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کتنا وقت درکار ہوگا کہ میں اپنے دل کو اپنے لیے راضی کر سکوں ۔۔۔آپ میری ممی ور ڈیڈی کی پسند ہیں مگر مجھ اس بارے میں کچھ دن پہلے ہی معلوم ہوا تھا ۔۔۔۔۔سو ۔۔۔میں ابھی تک ذہنی طور پر تمام حالات قبول نہیں کر پا رہا۔ ۔ گو ۔ ۔ میں نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا نا ہی کوئی میرا آئیڈیل تھا مگر ۔ ۔ ۔ اگر آئیڈیل ہوتا بھی تو وہ کم از کم آپ نا ہوتی ۔ ۔ ۔ امید ہے آپ میری باتوں کا برا نہیں مانیں گی ور مجھے کچھ وقت دیں گی۔اتنی لمبی تقریر کر کے وہ اسکا جواب سننے کے لیے رکا تک نہیں تھا۔
وہ گم صم سی اس بند دروازے کو گھور رہی تھی جس کے پیچھے وہ غائب ہوا تھا
ایک ور امتحان؟
اسکی سہیلیآن اسکی قسمت پر رشک کرتی تھی کہ وہ بیا ہ کر اتنے بڑے گھر میں جائے گی ور اسی امید پر وہ دونوں ممانیوں کے ستم برداشت کرتی رہی کہ ایک دن تو اسے یہاں سے چلے ہی جانا ہے حلانکہ بڑی ممانی کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس کی ہر امید ور آس پر پانی پھیر دیں
ہنہ ! اتنے عرصے بعد کیسے یاد ہوگا؟ تم بس انتظار ہی کرتی رہنا ور وہ وہاں بیا ہ رچآ کے بیٹھا ہوا ہوگا چہ چہ چہ
۔ ۔ ۔ اسکا دماغ تھوڑی خراب ہوگا کہ شہر میں رہتے ہوئے گاؤں کی لڑکی کو بیا ھنے آے ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن اسے یقین تھا کہ وہ آے گا ور نانی بھی تو اسے امید دلا تی تھی۔ور اسی امید پر اسنے اپنی پڑھائی جاری رکھی چاہے پرائیویٹ ہی سہی
تا کہ جب وہ اسے لینے آے تو وہ اسکے لیے کسی بھی طرح سے شرمندگی کا با عث نا بنے ۔جتنے بھی دن اسنے وہاں گزارے اچھے دنوں کی آس میں گزارے۔۔کبھی کبھی تو ماہ رخ مامی کی ہاں میں ہاں ملانا شرو ع کر دیتی ۔ ۔ ۔ وہ ایسی ہی تھی اپنا حق چھین کر لینے والی نڈ ر ور بے خوف مگر ضوفی اس جیسی کبھی نہیں بن سکی تھی جب اسکے سارے دیو ر اسکے پاس آے تھے مامی کے گھر تو اسے ذرا بھی اجنبیٹ محسوس نہیں ہوئی تھی اسے لگآ تھا جیسے اتنے عرصے بعد وہ اپنوں کے درمیان آگئی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ابھی ابھی ۔ ۔ ۔ ۔ جو آفاق کہ کر گیا تھا ۔ ۔ ۔
جہاں اتنا صبر کیا اتنا برداشت کیا وہاں کچھ دن اور سہی
اور مجھے تو ویسے بھی ایک نام اور چھت کی تلاش تھی وہ تو مل ہی گیا ۔ ۔ ۔ میرے لیے اتنا بھی کافی ہے ۔ ۔ اسنے سوچا ۔ ۔ ۔
شہریار سوئی جاگی کیفیت میں سیڑھیاں اتر رہا تھا۔فہد تو اب دو ماہ کے لیے بیرون ملک چلا گیا تھا جب کہ آفاق صاحب آج پہلے پہلے دن کے دولہا تھے سو آج سب کے لیے ناشتہ بنانا اسکی ذمہ داری تھی۔
کیا مصیبت ہے یار۔وہ سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔میرا خیال ہے چائے چڑھا کر بازار سے ہی سب کچھ لے آؤں۔اسنے بمشکل اپنی جمائ روکی اور دل ہی دل میں پلان بناتا ہوا وہ کچن کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایک نسوانی ہنسی نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا
یہ میرے کان بجے ہیں یہ واقعی کوئی ہنسی تھی؟ اسنے اپنے کانوں میں انگلی چلی نیند آنکھوں سے غائب ہو چکی تھی
اوہو تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔تمہیں پتہ ہے نآ بس میں جس کام کے لیے ٹھان لوں وہ کر کے رہتی ہوں مامی نے میرا کیا بگاڑ لینا تھا نانو بھی میرے ساتھ تھی۔اسی لیے بتول خالہ کو ساتھ لے آئ میں۔یہ آواز اسے سنی ہوئی لگی اور وہ تیزی سے کچن کی طرف آیا مگر پھر دروازے میں ہی رک گیا۔کچن میں شیراز صاحب ضوفی ماہ رخ اور کوئی خالہ ٹائپ خاتون تھی۔ماہ رخ مختلف باکس کھول کھول کر رکھ رہی تھی
بیٹا تم نے خوامخواہ زحمت کی۔۔۔۔شیراز صاحب بولے
آپ بھی کمال کرتے ہیں انکل۔اس میں زحمت کی کیا بات ہے یہ تو رواج ہوتا ہے کیا ہوا جو ہمارے والدین نہیں ہیں مگر ہم دونوں بہنیں خود ہی کافی ہیں اپنے لیے اپنا خیال رکھنے کے لیے۔ ۔ آخر میں اسکی آواز میں تھوڑی نمی کی آمیزش تھی مگر اسے اپنے تاثرات پر مکمل کنٹرول تھا
اچھا پلیز اب اپنے شہزادوں کی فوج کو جگائیں ورنہ ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا اتنی محنت کی ہے میں نے ۔ ۔ ۔
احساں جتا نا نہیں بھولتی محترمہ ۔شہریار نے سوچا
اتنے میں شیراز صاحب کی نظر اس پر پڑ گئی ۔
شہریار ذرا جلدی سے سب کو ڈائننگ ٹیبل پڑ حاضر کرو۔
جی اچھا کہ کر وہ وہاں سے بھگا۔۔۔پھر سب نے مل کر اکھٹے ناشتہ کیا سب نے ہی تعریف کی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے لگ رہا ہے میں زندگی میں پہلی دفعہ کھانا کہا رہا ہوں۔عمیر نے ندیدے پن کی انتہا کردی
ضوفی اور ماہ رخ نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
سچی بھابی اتنا مزیدار اور گھر کا بنا ہوا کھانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو وہ جو بوا جی بناتی ۔ تھی شہریار نے جل کر کہا
بھائی میرے میں نے مزیدار بھی کہا ہے بوا جو بناتی تھی وہ بس گزارے لائق ہی ہوتا تھا ۔
واقعی بیٹا ہر چیز بہت اعلی بنی ہوئی ہے۔شیراز صاحب نے بھی تعریف کی۔
آفاق بھائی کو شاید پسند نہیں آیا اس لیے کب سے چپ بیٹھے ہیں۔ضوفی نے حیرت سے اسے دیکھا مگر وہ شرو ع سے ایسی ہی تھی
نہیں نہیں ۔ ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ سب کچھ بہت اچھا ہے ۔ ۔ ۔ آفاق کو بھی ماہ رخ سے یہ امید نہیں تھی لہٰذا پہلے تھوڑا حیران ہوا پھر مسکرا کر بولآ
تو پھر میرا انعام ۔ ۔ آفاق سمیت سب کے منہ کھل گیے جب کہ ضوفی ماہ رخ کے اتاوُلے پن پڑ سر جھکا کر بیٹھی رہی
آں ہاں! آفاق نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر والٹ میں سے گنے بغیر کئی نوٹ ماہ رخ کی ہتھیلی پڑ رکھ دئے
توبہ ہے آفاق بھائی آپ کیا ہر کسی کو ایسے ہی گنے بغیر ہی نوٹ تھما دیتے ہیں۔اسنے ایک ہزار کا نوٹ رکھ کر باقی واپس کر دئے
ناشتے کے بعد ضوفی اور ماہ رخ نے برتن سمیٹنا شرو ع کیے
ارے رے ۔ ۔ یہ کیا کر رہی ہو ۔ ۔ ۔ شیراز صاحب نے بوکھلا کر کہا
بھابی آپ لوگ چھوڑیں۔ہم کر لیں گے۔۔۔عزیر نے کہا ۔آپ لوگ لاوُنج میں جا کر بیٹھیں
انکل اب دو لڑکیوں کے ہوتے ہوئے اچھا نہیں lgtآ نا کہ یہ لوگ کام کریں ۔ ۔ اسنے ایک جتا تی ہوئی نظر شہریار پڑ ڈالی جو نہایت پر سکوں انداز میں بیٹھا ہوا تھا ۔ ۔
سارا سامان وہ اب ٹرے میں منتقل کر چکی تھی سو کچن کی رہ لی۔
عاصم بھی انکے پیچھے کچن میں چلا گیا۔مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا۔شیراز صاحب اور آفاق اٹھ کر چلے گیے تو عمیر خواب کی سی کیفیت میں بولا
کس بات کا؟ شہریار نے پوچھا
کہ دو عدد خواتین ہمارے گھر میں گھوم رہی ہیں ۔ ۔ ہمارے گھر میں بھی خواتین آ چکی ہیں
بیٹا جی دو عدد نہیں ایک عدد ۔عزیر نے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرا یا
ایک آفیشلی ہیں اور ایک ان آفیشلی ۔قاسم بولا
تو دوسری کو بھی آفیشلی لے آتے ہیں نا۔عمیر بولا تو عزیر اور قاسم کے درمیان معنی خیز نظروں کا تبادلہ ہوا
آہم آہم عمیر میاں سب خیریت تو ہے نا؟ عزیر نے بڑے بزرگوں کی طرح اسکے سر پڑ ہاتھ پھیرا تو عمیر جیسے نیند سے جگا ۔۔۔
ہاں بالکل خیریت ہی ہے ۔ ۔ تم زیادہ میرے بڑے ابّا بننے کی کوشش نآ کرو۔یہ کہ کر عمیر بھی کچن میں چلا گیا تو شہریار کی الجھی ہوئی نظروں نے دور تک اسکا پچا کیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ارے آپ؟ آپ اتنے دنو ں سے کہاں غائب تھے؟ عزیر کافی دنوں بعد یونیورسٹی آیا تھا کہ راستے میں اسے وہ مل گئی
جی بس ایکچولی میرے بگ برو کی شادی تھی تو ۔ ۔ آپ سنا ییں آپکی چوٹ کیسی ہے؟ اسے دیکھ کر عزیر کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔
اللہ کا شکر ہے بالکل ٹھیک ہوں۔میں آپکو اسی لیے ڈھونڈ رہی تھی کہ اپکا شکریہ ادا کر سکوں۔سپ نے اس دن میری اتنی ہیلپ کی تھی
تو پھر کریں نا شکریہ ادا۔عزیر نے دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ حیران ہو کر پوچھنے لگی۔
مطلب کیسے شکریہ ادا کروں؟ وہ تھوڑی پریشان ہو گئی
جیسے اپکا دل چاہے ۔ ۔ ۔ ویسے ایک کپ کافی سے بھی شکریہ ادا ہو سکتا ہے ۔ ۔ عزیر نے اسکی پریشانی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے
اوہ اسکے سر سے جیسے بوجھ اترا تھااچھا مگر اسکے لیے آپکو میرے گھر آنا ہوگا میں ابھی گھر ہی جا رہی ہوں۔میری امی بھی اپکا شکریہ ادا کریں گی۔اتنے میں اسکا سیل بجنے لگا
ہاں ہیلو عائزہ بولو ۔ نہیں ۔ میں تو فری ہو چکی ہوں ۔ ۔ اب گھر جا رہی ہوں ۔ کم آن یار ۔ ۔ ۔ کیوں لڑتی ہو اس سے اتنا ۔ اسنے کنکھیوں سے عزیر کی طرف دیکھا جو تھوڑا پرے ہو کر جوتے کی ٹو ہ سے زمین کرید رہا تھا ۔
ہاں ہاں پتہ ہے وہ بھی کم نہیں ۔ ۔ ۔ ٹو تم کونسا کم ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر وقت اسکے پیچھے پڑی رہتی ہو اوکے بائے ۔۔۔۔۔سیل اسنے بیگ میں ڈالا اور دوبارہ عزیر کی طرف متوجہ ہوئی
میری سسٹر کا فونتھا ۔ ۔ ۔ آپکے ہی ڈیپارٹمنٹ کی ہے ۔ ۔ ۔ اب چلیں؟
چلیں ۔ ۔ ۔ عزیر کو بھلا اسکی بہن میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محترمہ ماہ رخ بی بی آپکو اپنے گھر مے سکون نہیں ملتا کہ آپ ہر دو دن بعد یہاں نازل ہو جاتی ہیں ہماری بھابی کو ورغلانے کے لیے ۔
عمیر سلیب پڑ چڑھا سیب کہا رہا تھا ۔تقریباً ہر ویک اینڈ پر ماہ رخ شام کو ضوفی کی طرف آجاتی تھی
مسٹر عمیر وڑائچ جب قپ نے اپنے ذاتی پیسوں سے گھر بنا لیآ نا تب آپ پڑ یہ طعنہ دینا سوٹ بھی کرے گا فلحال یہ میری پھوپھی کا گھر ہے۔مائنڈ اٹ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکے جواب نے جہاں عمیر کی بولتی بند کی وہیں قاسم اور ضوفی کو ہنسنے پڑ مجبور کر دیا
اور اندر آتے ہوئے شہریار نے حیرت سے پڑ اعتماد سی ماہ رخ عرف مارو کو دیکھا
عمیر صاحب کوئی بہت بستی نہیں ہو گئی ۔۔قاسم نے ہنستے ہوئے کہا ٹو عمیر منہ بنا کر سلیب سے اتر آیا
دیکھ لوں گا تمہیں غدار ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے قاسم کو آنکھیں دکھا ییں اور باہر جانے لگا مگر ماہ رخ نے فورن آواز دے کر روک لیا
او ہیلو اب جا کہاں رھے ہو یہ سلاد تم نے بنانا ہے ۔ماہ رخ نے ایک ٹرے اسکے سامنے کی تو وہ منہ بنا کر کچن ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پورے دو ماہ بعد فہد واپس آ رہا تھا وہ پہلی دفعہ اتنی دور اور اتنے سارے دنوں کے لیے گیا تھا سو سب ہی اسکے پڑ جوش استقبال کی تیارییوں میں مصروف تھے ۔ضوفی اسکا کمرہ ٹھیک کر کے بجب کچن میں آئ تو سب بھائی بمع آفاق کے کچن میں مصروف تھے اور سارا کچن الٹ پلٹ ہو رہا تھا
یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسنے چیخ کر پوچھا کیوں کہ ان لوگوں نے اتنا ہنگامہ مچایا ہوا تھا کہ اگر وہ آرام سے کہتی تو انکو بمشکل سنتا ۔اسکی چیخ کا خاطر خواہ اثر ہوا تھا وہ سب جہاں تھے اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گیے۔
یہ کیا ہنگامہ ہو رہا ہے؟ اب کے آواز مے ذرا سختی تھی۔اسنے خود اپنے تاثرات کو بھی سخت کیا ۔وہ سب پلٹ کر اسے دیکھ رھے تھے۔ضوفی نے غصے سے سبکو گھور نا چاہا مگر اگلے ہی لمحے سٹپٹا گئی۔
جب کچن کی چھت ان سب بھائیوں کے جناتی قہقہوں سے اڑنے والی ہو گئی۔
ہر کوئی اپنے اپنے سٹائل میں ہنس رہا تھا کوئی منہ پڑ ہاتھ رکھ کر ۔ ۔ ۔ کوئی پیٹ پڑ اور کوئی صرف دانت نکال کر
توبہ بھابی ۔ ۔ ۔ ۔ اپ غصہ بھی کرتی ہیں؟ عمیر نے کہا
لیکن بھابی غصہ کرنے سے پہلے ذرا اپنے آپ کو اور پھر ہمیں بھی دیکھ لیں۔شہریار کی ہنسی ابھی بھی نہیں رک رہی تھی۔
لیکن اثر ہوا تھا نا بھابی کے غصے کا ۔۔۔۔سب کو کیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔عزیر بولا
بھابی کی ایک للکار نے سبکو پتھر کآ بنا دیا تھا آفاق بھائی سمیت ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ قاسم نے بھی بولنا فرض سمجھا
یہ تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ شہریار نے تائید کی
اسنے دیکھا آفاق بھی اپنی مسکراہٹ دبانے کے چکروں میں تھا
چلو پتھر میں جونک تو لگی۔اسنے سوچا
بائی دا وے کوئی مجھے یہ بتانا پسند کرے گا کہ آج کچن پر یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے؟
ہم فہد بھائی کے ویلکم کی تیاری کر رھے ہیں ۔قاسم نے جواب دیا
مطلب؟ اسے سمجھ نا آیا یہ کس قسم کا ویلکم ہے؟
مطلب ہم انکی فیورٹ dishes بنا رھے ہیں۔عاصم نے بتایا
آپ مجھے بتاتے میں بنا دیتی ۔
لیکن انکو تو ہمارے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں پسند ہیں نا۔۔۔۔۔عزیر بتا کر چیزیں گنوانے لگا
ہوں! تو کیا ریڈی ہو چکا ہے سب؟ اسنے پوچھا
آپ ٹیسٹ کریں گی؟
جیسے جیسے وہ چکھتی گئی اسکے منہ کے زاویے بگڑتے گیے اور آفاق کا بنایا ہوا قورمہ چکھتے ہوئے شاید مرچیں اسکے گلے میں پھنس گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کھانسی تو سب کو خوامخواہ کی کھانسی شرو ع ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے دوبارہ آفاق کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قسم سے بھابی آج مجھے اپنا گھر گھر لگا ہے۔وہ سب فہد سمیت لاونج میں بیٹھے تھے فہد کو خاصا وی آئ پی protocol دیا جا رہا تھا۔
بھابی دیکھ لیں موصوف کو ایئر پورٹ پر سلام دعا سے پہلے اسنے اپکا پوچھا ہے۔عمیر نے کہا تو ضوفی مسکرا دی
یار دو ماہ ہو گیے tm لوگوں نے بھابی کو بولنا نہیں سکھایا ۔فہد نے پوچھا
یا جو بولنا آتا تھا وہ بھی بھول چکی ہیں۔۔وہ جب سے آیا تھا ضوفی نے ایک آدھ بات ہی کی تھی بس مسکرا نے پر اکتفآ کر رہی تھی
گ نہیں۔تمہیں کیا معلوم بھابی کو بولنا بھی آ گیا ہے اور غصہ کرنا بھی ۔عزیر نے دن والی بات کا حوالہ دیا toh وہ سب ہنس پڑے ۔
میں کھانا لگاتی ہوں۔کہہ کر ضوفی نے اپنی جان بچائی ورنہ اسکی اور کٹ لگ جاتی
ان سب کے بناے ہوئے کھانوں کے علاوہ میز پر تین چار اور ڈشز کا اضافہ ہو چکا تھا۔چکن کراہی کباب پلاؤ رائیتہ اور ساتھ رس ملائی ۔
وہ سب بار بار اپنی بنائی ڈشیں آگے کرتے مگر فہد نے صرف وہی تین چار چیزیں لی جو بعد میں بنائی گئی تھی ۔وہ ہر چیز کی تعریف کر رہا تھا
ویسے بڑے ہی طوطا چشم ہو یار ۔شہریار نے اسے مصنوعی غصے سے گھورا
کیوں بھائی میں نے کیا کیا ہے؟ فہد بیچارے کو اپنا قصور تک معلوم نا تھا
ہم نے اتنی محنت سے تمہارے لیے یہ سب بنایا اور تم نے چکھآ تک نہیں اور بھابی کی بنائی ہوئی چیزوں کی بڑھ بڑھ کر تعریف کر رھے ہو
فہد بھائی دس از ناٹ فیئر ۔قاسم نے بھی منہ بنایا
تو بھائی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم لوگوں نے کیا بنایا ہے میں تو فلحال صورت ہی دیکھ رہا تھا مگر یہاں تو سیرت بھی اچھی نکلی۔اسکے ایک ہی جملے نے انکی کار کردگی واضح کر دی تو ان سب کو نا چاہتے ہوئے بھی ہنسی آگئی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
واپس انے سے اگلے دن ہی فہد نے فورن صبا کی خبر لینے کی کی۔کیوں کہ جاتے ہوئے ایسی افرا تفری میں گیا تھا کہ اسے صبا کو بتانا تک یاد نہیں رہا تھا۔وہاں بھی کافی بار اسے صبا کآ خیال آیا مگر بس خیال انے کے سوا کچھ ہو بھی نہی سکتا تھا کیوں کہ اسکے راز میں کوئی شریک نہیں تھا سو اب وہ پوری رفتار سے گاrڑی بھگا ے چلا جا رہا تھا لیکن ہوسٹل پہنچ کر اسکے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی۔
ہوسٹل سیل ہو چکا تحق نجانے اسکے پیچھے کیا ہوا کہ ہوسٹل ہی بند کرنا پڑا اور ہوسٹل میں رہنے والی لڑکیوں کے بارے میں کوئی اتا پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں گئی کوئی کہتا تھا ہوسٹل کی مالکہ کرپٹ عورت تھی کوئی ہوسٹل کی لڑکیوں کو کرپٹ کہ رہا تھا مگر اسے اس سے کوئی سرو کار نہیں تھا اسے صبا کی فکر تھی ۔وہ کہاں گئی ہوگی۔
اسے لگا جیسے وہ اندھیرے میں کھڑا ہے جس سے نا آگے کا کچھ پتہ ہے نآ پیچھے کا
آخر وہ کہاں جا سکتی ہے؟ اسنے سوچا
نا تو اسکا کوئی رشتہ دار ہے نا کوئی اور۔۔۔۔پھر کہاں گئی ہو گی وہ۔۔۔جیسے جیسے وہ اسکے بارے میں سوچتا جا رہا تھا اسکی پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا
دنیا آگے جا چکی ہے اور میں بیوقوف ہی رہا ۔یہ نا ہوا کہ اسے ایک موبائل ہی لے دیتا کم از کم رابطے کی کوئی رہ تو رہتی ۔اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا ۔پھر اسنے شہر کے تمام دارلا مان چیک کرنے کی سوچی
اور جا بھی کہاں سکتی ہے ۔ڈرائیو کرتے ہوئے وہ بار بار اپنی پیشانی کو مسلتے ہوئے سڑک کے اطراف میں بھی نظریں دوڑا رہا تھا جیسے دو مہینے صبا اسکا انتظار روڈ پر ہی تو بیٹھی کر رہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھابی آپکی وہ تیس مار خانم بہن صاحبہ نہیں آئ کافی روز سے۔شہریار نے نا چاہتے ہوئے بھی نوٹس لیا اسکی غیر موجود گی کا۔ضوفی اسی وقت چا ے کی ٹرالی لیے اندر داخل ہوئی تھی۔لاونج میں شہریار فہد اور عمیر کوئی پرانا میچ دیکھ رھے تھے۔
محترمہ کی ناک خاصی اونچی ہے۔اس دن والی بات کافی سیر یس لے لی ہے سو اب با قاعدہ دعوت پر ہی ہیں گی ۔ضوفی کے بولنے سے پہلے ہی عمیر بول پڑا تو ضوفی ہنس پڑی
کمال ہے عمیر ۔۔۔تم اتنی جلدی اسکی طبیعت سے واقف ہو گیے ۔وہ بولی
بس بھابی ہم تو اڑتی چڑیا کے پر بھی گن لیتے ہیں پھر یہ ماھ رخ بی بی کیا چیز ہیں۔عمیر نے ہنستے ہوئے کہا تو شہریار اسے نا گواری سے گھور تے ہوئے اٹھ کر باہر چلا گیا
ہاں مگر ایک چڑیا ایسی ہے کہ ہر وقت چونچیں مارتی رہتی ہے۔پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی ۔عمیر نے منہ بنایا
ہر اسنے راز داری والے انداز میں کہا تو ضوفی نے حیران اور مصنوعی طعنے والی نظروں سے اسے گھورا
آ ہم آ ہم کیا تم واقعی سیر یس ہو ؟
میں تو ہوں بھابی مگر وہ ضونخوار جنگلی بلی ہر وقت پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑی رہتی ہے جہاں دیکھتی ہے قسم سے بھابی کوئی نا کوئی ایسی حرکت ضرور کرتی ہے کہ دل جل کر خاک ہو جتا ہے
عمیر نے بچارگی سے کہا تو ضوفی اسکے انداز پر ہنس ہنس کر لوٹ پاٹ ہو گئی
لیکن مینے بھی سوچ لیا ہے ۔وہ سنجیدہ ہو کر بولا
کیا ؟
یہی تجھ کو اپنا نا بنایا تو میرا نام نہیں۔اسنے یک دم پینترا بدلا اور گنگناتے ہوئے بولا
یہ تم اسکے سامنے کہتے تو زیادہ بہتر تھا۔
کیا بات کرتی ہیں بھابی ۔ اس بندی نے پوری یونیورسٹی کے سامنے بلا تکلف میری پٹائی شرو ع کر دینی تھی
تو پھر کیا پروگرام ہے دیور جی ؟ ڈیڈی سے بات کروں؟
پھر میں اس چڑیا کو شیشے میں اتار لوں پھر آپ ڈیڈی سے بھی بات کر لیجیے گا ۔ورنہ تو اسنے مجھے گھر سے ہی اٹھا کر پھینک دینا ہے۔
وو باہر چلا گیا تو ضوفی نے چائے کے برتن سمیٹنا شرو ع کر دئے ۔شہریار کی چائے آدھی پڑی ہوئی تھی جب کہ فہد کی ابھی تک ویسی ہی رکھی ہوئی تھی ۔
تین ماہ ہو گیے تھے اسے صبا کو تلاش کرتے ہوئے مگر اسکا نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔تھک ہار کر اسنے تمام اسپتالوں سی انفارمیشن حاصل کی مگر نا کمی ہی رہی
اسے رہ رہ کر اپنی ہی غلطیاں یاد آتی کہ کم از کم اسے صبا سے اس سکول کا تو پوچھنا چاہیے تھا جہاں وہ جاب کرتی تھی ۔لیکن اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھ سے ملتی ہے ایک لڑکی روزانہ
وہ میری دیوانی میں اسکا دیوانہ
سلاد بناتے ہوئے عزیر بڑے مگن انداز میں گا رہا تھا جب عاصم نے کھنکھارکر ضوفی کو اس طرف متوجہ کیا
مسٹر عزیر کیا آپ اس دیوانی کا حدود اربع بتا سکتے ہیں تا کہ دو دیوانوں کو پاگل خانے بھیجنے کا بندو بست کر سکیں
ابھی ملاقاتوں کی شروعات ہوئی ہے
آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ بات ہوئی ہے
وو مزے سے بولا
آ ہم آ ہم ۔عاصم نے آنکھیں مٹکائیں اور ضوفی نے عزیر کے کان پکڑ لیے
سیدھے سیدھے بتاؤ ۔ ۔ کیا چکر ہے؟
اچھا اچھا بتاتا ہوں ۔وہ یونیورسٹی کی ہی لڑکی ہے کسی اور ڈیپارٹمنٹ کی۔بہت اچھی ہے۔
ہوں۔پھر تم کیا چاہتے ہو؟ ضوفی نے بھی سنجیدگی سے پوچھا
بس آپ ڈیڈی کے کان میں بات ڈال دیں کوئی مناسب وقت دیکھ کر ۔ ۔ تا کہ کم از کم انکے علم میں ہو یہ بات ۔ ۔ پھر جیسے وہ مناسب سمجھیں
اسکے سیل پر بیل ہوئی تو وہ باہر بھا گا
ضوفی سمجھ گئی کس کی کال ہوگی
اسکے مسکرا تے لب سمٹ گیے ہر کسی کو خوش رکھنے والی ضوفشاں آفاق کی اپنی زندگی حقیقی خوشی سے نا آشنا تھی ۔۔وہ جس شخص کے حوالے سے اس گھر میں رہ رہی تھی اسے ہی اسکی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ اسے مخاطب تک نہیں کرتا تھا نجانے وہ پہلے سے ایسا تھا یا شادی کے بعد ایسا ہو گیا تھا ۔ ۔ حالانکہ جب وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوتا تھا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکی آنکھوں میں آنسو آگے تھے مگر وہ انھیں بہنے نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔۔ماہ رخ نے بھی تو کئی دفعہ آفاق کے روا یہ کے بارے میں پوچھا تھا اور وہ یہ کہ کر ٹال گئی تھی کے وہ ہیں ہی ایسے ۔ ۔ ۔ مگر خود کو کیا کہ کر بہلاتی
کچن کی طرف آتا آفاق دروازے میں ہی رک گیا تھا ۔اس نے کبھی اس لڑکی کے چہرے پر تھکن دکھ یا شکوہ نہیں دیکھا تھا مگر آج ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر بعد جب اسنے آنکھیں صاف کی تو وہ سر جھٹک کر واپس چلا گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاونج میں ایک ہنگامہ بر پا تھا۔آج چھٹی کے دن سب گھر پر ہی تھے۔ضوفی اور شیراز صاحب پچھلے لان میں اچار کے مرتبانوں کے ساتھ مصروف تھے ۔ آفاق لاونج میں ہی لیپ ٹاپ کھو لے کسی کام میں مصروف تھا ۔فہد بظاہر ٹی وی دیکھ رہا تھا مگر اسکی سوچ کا تا ئر کسی اور جگہ محو پرواز تھا جب کہ شہریار عمیر عزیر اور قاسم لاونج میں ہی کیرم کھیل رھے تھے اور عاصم سپپورٹر کا کام سر انجام دے رہا تھا لاؤنج میں میوزک بھی بج رہا تھا ۔
مین ڈور ایک دھماکے سے کھلا اور ماہ رخ روتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
ماہ رخ کیا ہوا ہے؟ عمیر جلدی سے آگے بڑھا مگر وہ روتی رہی اسکے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے روتی hرہی ے
فہد آفاق اور باقی سب بھی اسے اس طرح روتے دیکھ کر پریشان ہو گیے عاصم بھاگ کر شیراز صاحب اور ضوفی کو بلا لایا ۔ضوفی کے گلے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
ماہ رخ بیٹا کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو سہی ۔شیراز صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا باقی سب بھی پریشان صورت لیے اسکے گرد جمع تھے
وہ ممانی نے میرا نکاح ۔۔۔۔۔۔اپنے بھائی کے ساتھ طے کر دیا ہے ۔آج شام کو نکاح ہے کل جب میں گھر گئی تو انہوں نے زبردستی مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا اور کہا کہ اگر میں نے انکار کیا تو ۔ ۔ ۔ میں بہت مشکیل سے وہاں سے بھاگی ہوں ۔۔۔۔اسنے روتے روتے بتایا اور اب جا کر انھیں نظر آیا کہ اسکے چہرے اور بازو پر نیل پڑے ہوئے تھے۔
تو تم وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی؟ شیراز صاحب نے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا
تو کیا تم کسی اور کو ۔۔۔۔۔انہوں نے بات خود ادھوری چھوڑ دی ۔۔۔۔اور انکی اس bat پر شہریار کے اعصاب تن گیے اور نظریں بار بار عمیر اور ماہ رخ پر پڑنے لگی
ڈیڈی ایسی کوئی بات نہیں جواب ضوفی نے دیا۔مامی کے بڑے بھائی نیم پاگل ہیں اور وہ امی کے حصے کی جائیداد حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہی ہیں ۔اسنے نم لہجے میں ساری بات بتا دی۔تو شیراز صاحب سوچنے لگے
تو اب تو تمہیں یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے بیٹا تم اپنے آپ کو محفوظ سمجھو ۔تھوڑی دیر بعد وہ بولے
مگر انکل وہ مامی کے بھائی اور بیٹے ان کے آدمی مجھے ڈھونڈ رھے ہوں گے۔ماہ رخ نے ڈرتے ہوئے کہا شہریار کو یوں روتی سہمی سی ماہ رخ بہت عجیب لگ رہی تھی اول تو انکی جرات نہیں ہوگی انے کی کہ وہ یہاں آ ییں ۔اگر آ بھی گیے تو زندہ سلامت اپنے قدموں پر واپس نہیں جا سکیں گے ۔عمیر غصے سے بولا
ضوفی بیٹا تم ماہ رخ کو اپنے کمرے میں لے جاؤ یہ تھکی ہوئی ہے اور فہد تم ذرا اسکے زخم وغیرہ دیکھو کوئی دوا وغیرہ دے دو اسے ۔شیراز صاحب نے کہا تو وہ تینوں ضوفی کے کمرے کی طرف چلے گیے
لاؤنج میں خاموشی چھا گئی
دس منٹ بعد فہد بھی آکر انکے ساتھ بیٹھ گیا
ڈیڈی اگر آپ اجازت دیں تو ہم ابھی ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ انکی ہمت کیسے ہوئی ماہ رخ اپی کو۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم جوشلے انداز میں بولا
دیکھو بیٹا اس طرح جوش میں آنا مسلے کا حل نہیں ہے ۔اس بچی کو مکمل تحفظ چاہیے اور اسکا ایک ہی حل ہے۔انہوں نے کہا تو سب سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھنے لگے
اور اس پر فوری عمل در آمد بھی کرنا ہوگا تا کہ وہ لوگ کوئی فساد نا اٹھا سکیں ۔انکی نظریں شہریار پر تھی
مگر وہ حل کیا ہے۔فجد نے پوچھا
اگر شہریار اس سے نکاح کر لے تو۔۔۔۔شہریار کو لگا جیسے اس سے سننے میں غلطی ہوئی ہو
مم میں؟ وہ اچھل ہی تو پڑا
ہاں تم مگر فوری طور پر۔انکی نظریں اسکے چہرے کو جیسے کھوج رہی تھی
لیکن ڈیڈی وہ ۔۔۔۔میں کیسے؟ وہ جھجھک رہا تھا
ٹھیک ہے۔انہوں نے اسکی بات کاٹ دی
فہد تم کرلو کیوں کہ اس بچی کو ہم صرف اسی طرح بچا سکتے ہیں ۔فہد کے صوفہ کے نیچے جیسے بم پھٹا تھا
مم۔۔۔۔لیکن میں کیسے کر سکتا ہوں؟ وہ کھڑا ہو گیا تھا
کیوں تم نے شادی نہیں کرنی کیا؟
وہ تو میں کر چکا ہوں۔وہ جلدی میں بول گیا اور سب اچھل ہی پڑے تھے اور فہد کو ایسے دیکھ رھے تھے جیسے اس کے سر پر سینگ نکل آے ہوں۔
کیا مطلب؟ شیراز صاحب کو کم از کم فہد سے ایسی امید نہیں تھی
وہ ۔۔۔۔ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔وہ آہستہ آہستہ ساری بات بتاتا گیا اور شیراز صاحب ابھی والا مسلہ بھول کر اسکے پیچھے پر گیے ۔
تم نے مجھے بتانا تک گوارا نہیں کیا۔پوچھنا تو دور کی بات ۔۔۔۔۔وہ شدید غصے میں آ چکے تھے
وہ ۔۔۔۔۔مجھے خدشہتھا کہ آپ میرے اس اقدام سے ناراض ہوں گے ۔۔۔۔۔فہد کے لیے بولنا محال ہو رہا تھا وہ مجرموں کی طرح سر جھکاے کھڑا تھا۔
تو کیا اب میں بہت خوش ہو رہا ہوں؟ حد ہو گئی فہد تمہیں ذرا بھی میری طبیعت میری فطرت کا اندازہ نہیں۔کیا میں تمہیں نیکی کے کام سے روکتا ۔اگر تم مجھے بتاتے تو میں خود تمہاری شادی کرواتا تمہیں یوں چوروں کی طرح اپنی بیوی کو نا رکھنا پڑتا ۔۔شیراز صاحب نے تا سف سے کہا تو فہد کا دل چاہا کہ وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرے
بحر حال اب جو ہونا تھا ہو گیا تم جاؤ اور بہو کو لے کر آؤ جلدی ۔۔۔اب یہ صورت حال فہد کے لیے اور بھی خراب ہو گئی
وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔فہد ہکلانے لگا
کیا وہ وہ لگا رکھی ہے؟ غضب خدا کا چودھری شیراز وڑائچ کی بہو اور ہوسٹل میں؟ ابھی جاؤ اور اسے ابھی اور اسی وقت لے کر آؤ۔وہ دھاڑے
وہ تو گم ہو گئی۔شیراز صاھب سمیت باقی بھی اسے گھور کر دیکھنے لگے جیسے اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رھے ہوں۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ گم ہو گئی ۔آفاق نے پوچھا
وہ وہ ہوسٹل میں تھی وہاں سے۔آگے وہ ساری بات بتاتا چلا گیا
نا لائق ! گدھے کی دم ۔۔۔۔۔تم انسان ہو یا ۔۔۔۔۔ارے کوئی اپنی بیوی کو بھی بھولتا ہے ؟ شیراز صاحب کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا باقیوں کو حیرت کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آرہی تھی جاؤ اور ڈھونڈو اسے فورن۔انکا بس نہیں چل رجہ تھا کہ فہد کو دھکے دے کر باہر نکالےکہ وہ اپنی بیوی کو ڈھونڈ کر لاے
جج جی ۔وہ فورن باہر بھگا or یہ بات بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ پچھلے کی ماہ سے اسے ڈھونڈ رہا ہے مگر اسکا کوئی سراغ نہیں ملا
عمیر تم ماہ رخ سے نکاح کرلو۔عمیر جو فہد کی در گت بنتے ہوئے دیکھ کر ہنس رہا تھا یک دم حیران پریشان ہو کر شیراز صاحب کو دیکھنے لگا
مم میں؟
کیوں تم نے بھی کہیں کر رکھی ہے؟
جج جی نن نہیں ! وہ بوکھلا یا
ایک جواب دو
لیکن ڈیڈی میں نے کبھی ماہ رخ کے بارے میں اس طرح سے نہیں سوچا میں اسے بہن سمجتا ہوں ۔شہریار چونک اٹھا
نہیں سوچا تو اب سوچ لو۔کیا کمی ہے اس بچی میں؟ حالات کی وجہ سے مجبور ہے ورنہ اتنے اچھے کالج میں پڑھاتی ہے اپنا کماتی ہے مگر آج حالات اسے اس مقام پر لے آے تو۔۔۔۔۔۔
ڈیڈی میں ماہ رخ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔شہریار آخر بول ہی پڑا
کوئی ضرورت نہیں ہے اس پر ترس خانے کی۔شیراز صاحب ناراضی سے بولے
ڈیڈی میں ترس نہیں کہا رہا۔بس کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی ۔اسنے مسکرا تے ہوئے کہا
تو اب کیا ہو گیا ہے؟ دور ہو گئی تمہاری غلط فہمی؟
جی
ہوں! وہ سوچنے لگے۔اب سوچ لو تم نے خود ہی کہا ہے کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو بعد میں اگر طعنے دئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔اسکے لیے کمی نہیں ہے۔وہ اس وقت حقیقت میں لڑکی کے باپ لگ رھے تھے
انکی آخری بات پر شہریار نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا
جی میں یاد رکھوں گا کہ میں نے ہی آپ سے درخواست کی تھی اور مجھے معلوم ہے کہ اگر۔۔۔۔۔۔
کیا معلوم ہے؟ انہوں نے اسے گھورا
وہ کچھ نہیں! نکاح آج ہی ہوگا نا تو پھر رخصتی کب ہوگی۔شہریار کے سوال پر شیراز صاحب اور وہاں موجود اسکے بھائیوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی
بڑی جلدی ہے صاحب زادے ۔پہلے نکاح تو ہونے دو ۔۔عید پر رخصتی کر لیں گے تب تک وہ نا لائق بھی اپنی کھوئی دلہن ڈھونڈ لاے گا ۔پھر وہ آفاق کو مخاطب کر کے بولے
تم جاؤ کسی نکاح خواں کا بندو بست کرو۔میں ذرا گاؤں میں اسکی نانی کو اطلا ع کر دوں ۔آفاق چلا گیا
لیکن ڈیڈی اس طرح تو وہ لوگ۔۔۔۔۔عزیر نے کچھ کہنا چاہا
تمہیں کیا لگتا ہے وہ نہیں اس کار خیر میں شریک ہوں گی؟ انہوں نے پوچھا تو عزیر نے سر جھکا لیا۔وہ آفاق کے کمرے کی طرف بڑھ گیے جہاں ضوفی اور ماہ رخ موجود تھی
آ ہم آ ہم تو لوگ چھپ چھپ کر یہ کروائیآن کر رھے تھے۔عمیر نے عزیر کو اشارہ کیا
کیا مطلب ہے تمہارا؟ شہریار نے غصے سے پوچھا جو کہ مصنوعی تھا
بھائی اسکو کہتے ہیں چور کی داڑھی میں تنکا ۔قاسم نے دانت نکالے تو وہ خجل سا ہو گیا
عمیر کی ہمدردی میں اتنی بڑی قربانی دینے چلے تھے۔۔۔۔۔واہ بھئی ۔۔۔۔۔۔عزیر نے بے ساختہ ہنستے ہوئے کہا تو باقی سب بھی ہنسنے لگے جب کہ وہ بے چار گی سے سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا
ویسے ایک بات کہوں۔۔۔۔تمہیں صرف ماہ رخ ہی سیدھا کر سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھائی یہ چکر کب سے چل رہا تھا؟ قاسم پوچھتے ساتھ ہی بھگا تھا۔
کیوں کہ اسنے شہریار کو جوتا اٹھاتے دیکھ لیا تھا۔
چکر کے بچے تجھے بتاتا ہوں۔وہ اسکے پیچھے بھاگا