عمیر اور عاصم چاند رات کو اپنی شاپنگ کے لیے نکلے تھے۔آفاق اور فہد اکھٹے جاتے تھے۔بلکہ آفاق ہی ڈیڈی کے لیے بھی شاپنگ کر لیتا تھا۔جبکہ باقی تینوں اکھٹے جاتے تھے۔
ہر کوئی مہنگائی کا رونا پورے سال روتا ہے مگر عید تو بہر حال سب نے ہی منانی ہوتی ہے۔سو سب ہی اپنی اپنی حیثیت کر مطابق خریداری کرتے ہیں۔اسی لیے چاند رات کو خاصا رش تھا۔کچھ من چلے ایسے بھی تھے جن کو لینا تو کچھ نہیں تھا بس دوسروں کی شاپنگ اور موڈ خراب کرنے کے لیے بازاروں کا رخ کرتے تھے۔
وہ دونوں اپنی ہی دھن میں چلتے جا رھے تھے جب کوئی بھر پور طریقے سے پہلے عاصم سے اور پھر عمیر سے ٹکرا یا۔
اوہ ایم سوری بھیا! ٹکرا تے والا جلدی سے سنبھلا اور آگے بڑھنے ہی لگا تھا جب عمیر نے اسے کالر سے پکڑ کر پیچھے کھینچا۔۔
ابے جاتا کدھر ہے۔عمیر نے اسکا رخ اپنی طرف موڑا
یہ۔۔۔یہ کیا بد تمیزی ہے؟ وہ پلٹا تو اسکے ہاتھ میں ایک لیڈیز بیگ بھی تھا۔بد تمیزی ! وہ تو میں تمہیں ابھی بتاؤں گا۔پہلے میرا والٹ نکالو۔عمیر نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
دیکھے آپ! مم مجھ پر خوامخواہ ۔۔شک کر۔۔۔
عمیر کے مکے نے اسے بات مکمل کرنے ہی نہیں دی ۔پھر عاصم اور عمیر نے اسکی دھلائ شرو ع کردی ان کے گرد مجمع اکھٹا ہو گیا۔مگر انہوں نے اپنا والٹ بھی نکلوا یا اور دوسروں کے بھی۔اور ساتھ ہی وہ بیگ بھی دے دیا۔
بھاگ جا! اب نظر آیا نا ۔۔۔۔وہ آدمی معافی مانگتا ہوا لوگوں کے ہجوم میں گم ہو گیا۔اور ساتھ ہی مجمع بھی چھٹ گیا۔
اب انکا کیا کرنا ہے بھائی؟ عاصم کا اشارہ ان بٹوو ں کی طرف تھا جو اس آدمی کی جیب سے نکلے تھے۔اور تعداد میں 8 تھے۔
ڈھونڈ تے ہیں یار یہیں کہیں سے اڑا ے ہوں گے۔عمیر والٹ چیک کرنے لگا
اور یہ بیگ۔عاصم نے اسکی تو جہ بیگ کی طرف دلائی جو ابھی تک اسکے ہاتھ میں ہی تھا
اوہ ۔عمیر نے بیگ اسکے ہاتھ سے لیا اسکا تو مجھے خیال ہی نہیں رہا۔
ساتھ ہی بیگ کھول کر دیکھنے لگا۔نجانے کس آنٹی کا ہوگا۔بیگ میں آئ ڈی کارڈ پڑا تھا۔اسکا منہ کھل گیا۔
اوہ تو یہ۔۔۔فائزہ ! آئ ڈی کارڈ پر لگی ہوئی تصویر اسے اپنا منہ چڑاتی ہوئی محسوس ہوئی۔
بھائی آپ جانتے ہیں انہیں؟ عاصم نے پوچھا
ہاں یار یونیورسٹی فیلو ہے۔عمیر نے بتایا تو عاصم معنی خیز انداز میں مسکرایا ۔
اوے یہ تو کس خوشی میں دانت نکال رہا ہے؟ اسنے اسکی گردن پکڑی
ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔یہ جنگلی بلی تو ہر وقت پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑی رہتی ہے۔ابھی تم خود دیکھ لینا اگر یہ ملی تو۔۔توبہ ۔وہ کہ کر ایک سمت بڑھنے لگا۔
تو ابھی کدھر جا رھے ہیں؟ آسم اسکے پیچھے لپکا۔
سیکورٹی کیبں کی طرف۔وہاں لاؤ ڈ سپیکر پر اعلان وغیرہ کروا دیتے ہیں۔عمیر نے کہا تو اسنے اثبات میں سر ہلا دیا
ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیے تھے کہ وہ نظر آگئی۔ایک سیکورٹی افسر پر چلا تی ہوئی۔
اف یہ بندی۔۔ہر وقت غصے میں رہتی ہے۔وہ بڑ بڑا یا ۔کبھی تو مسکرا کر بات کرے۔
آپ لوگوں کا کام کیا ہے یہاں؟ ہاں؟ چور اچکے آپکی نظروں کے سامنے لوگوں کو لوٹ کر لے جاتے ہیں اور آپ یہاں انکا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔آپ سے تو۔۔۔۔اچھا خاصا مجمع اکھٹا کیا ہوا تھا اسنے اپنے ارد گرد ۔
ایکسیوز می مس! اسکی آواز پر اسکی چلتی زبان کو بریک لگ گیے۔یہ بیگ شاید۔۔۔۔عمیر کے بیگ اگے کرتے ہی اسنے جھپٹ کر بیگ اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
یہ تمہارے پاس کہاں سے آگیا؟ اسنے مشکوک نظروں سے گھورا
ہاں بھی شیر جوان ذرا بتانا یہ بیگ تمہارے پاس کیا کر رہا ہے؟ کانسٹیبل کی جان میں جان آئ
مجرم خود چل کر جو آگیا تھا۔
ارے۔۔۔یہ تو لینے کے دینے پر گیے۔وہ بڑ بڑایا
دیکھے وہ بولنے لگا تو کانسٹیبل نے اسے گردن سے پکڑ لیا۔
دیکھ تو ہم خود ہی لیں گے ۔
اف یہاں تو نیکی کرنا بھی۔۔۔۔۔اب اگر باقی والٹ بھی نکل آے تو۔۔اوہ نو۔۔۔
دیکھے مسٹر۔۔۔عمیر نے جھٹکا دے کر اپنا آپ چھڑایا
یہ بیگ مجھے۔۔۔۔اسنے ساری بات بتائی اور ساتھ ہی باقی والٹ بھی نکال کر سامنے رکھ دئے ۔اتنے میں دوسرے افسر بھی آگے تو بات سنبھل گئی اور وہ لوگ والٹ لے کر واپس کیبں کی طرف مڑ گیے۔
بھائی آج تو آپ بال بال بچے ہیں۔عاصم جو کب سے خاموش تماشائی کی طرح کھڑا تھا بول پڑا۔
ہاں یار واقعی یہ نیکی تو گلے ہی پڑنے والی تھی۔وہ دونوں آگے بڑھے تو اسنے انھیں آواز دے کر روکا
ایکسیوز می مسٹر! عمیر فورن پلٹ کر بولا۔
مسٹر عمیر اور یہ چھوٹا بھائی عاصم ہے۔عمیر نے لگے ہاتھوں تعارف بھی کروا دیا۔
ناءس تو میت یو۔۔وہ عاصم کی طرف دیکھ کر مسکرا ی اینڈ تھنک یو سو مچ عمیر۔۔۔یہ کہ کر وہ واپس مڑ گئی اور عمیر کو جیسے سکتہ ہو گیا۔
آ ہم بھائی وہ چلی گئی ہیں۔عاصم نے اسے ٹہوکا دیا۔
ویسے لڑکی بری نہیں ہے اگر غصہ نا کرے تو۔اسنے سوچا۔۔۔۔۔
۔ میں نے کہا تھا نا کہ آپ بھول جاییں گے۔بھول گیے نا مجھے۔وہ رخ موڑے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔اور فہد کی سمجھ میں نہیں آرہا thا کہ میڈیسن کی اتنی موٹی موٹی کتابیں وہ کیسے یاد کر لیتا تھا۔
پورا دن میں نے اپکا انتظار کیا اگر نہیں آنا تھا تو کہ دیتے ۔دیکھ لیجیے گا اسی طرح آپ مجھے بھول جایں گے۔وہ بیٹھی روتی رہی اور فہد کے پاس کہنے کے لیے ایک لفظ تک نہیں تھا۔آخر وہ کہتا تو کیا کہتا؟
وہ ڈیڈی سے بات کرنا ہی بھول جاتا تھا۔جب وہ سامنے نہیں ہوتی تھی وہ واقعی ہی اسے بھولا رہتا تھا۔
*************************
بہت عرصے بعد وہ سب رات کے کھانے پر جمع ہوئے تھے ورنہ کبھی فہد کی ڈیوٹی ہوتی تو کبھی شہریار کا کوئی پروجیکٹ یا پھر شیراز صاحب یا آفاق کی کوئی میٹنگ ہوتی۔
ہاں بھئ بچو ! انہوں نے اچانک سب کو مخاطب کیا تو قاسم اپنے آگے پیچھے دیکھنے لگا۔
ڈیڈی! بچے کہاں ہیں؟ اسنے حیرت سے پوچھا
گدھے ! تم ہو بچے میرے۔انہوں نے کہا تو سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
لیکن ڈیڈی اب ہم بڑے ہو گیے ہیں۔قاسم نے اس عزت افزائی پر منہ بسورا۔
یہی تو میں کہنے والا تھا۔مگر تم اپنی چونچ بند کرلو تو!
اسکی ہر بات کے بیچ میں بولنے کی عادت سے سب ہی نالاں تھے۔مگر قاسم صاحب بھی اپنے نام کے ایک ہی تھے۔
ہاں بھئ ! تو میں کہ رہا تھا کہ اب تم لوگ بڑے ہو گیے ہو اور مجھے لگتا ہے کہ عورت کا وجود اس گھر کے لیے نا گزیر ہو گیا ہے۔فہد کے کان کھڑے ہو گیے۔مگر نظریں جھک گئی۔
آ ہم آ ہم! اب کے شہریار کو کھانسی ہوئی۔فہد نے اسکی کمر سہلائی ۔مگر چند لمحوں بعد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ کھانسی مصنوعی تھی۔
تو ڈیڈی! عمیر نے محتاط انداز میں بات شروع کی۔یہ خیال آپکو پہلے کیوں نہیں آیا جب ہم چھوٹے تھے؟
کیوں کہ اس وقت تم لوگ چھوٹے تھے۔انہوں نے فورن کہا ۔
اوکے ڈیڈی جیسے آپ چاہیں۔ہم کچھ نہیں کہیں گے۔آفاق نے کہا جو کافی دیر سے خاموش تھا ۔اور شیراز صاحب کا دل باغ باغ ہو گیا۔
جی ڈیڈ! آپ ہماری طرف سے بالکل فکر نا کریں اور آپ جس سے دل چاہے شادی کر لیں۔۔شہریار نے بھی سنجیدگی سے کہا تو شیراز صاحب کو اچھو لگ گیا۔
وہاٹ ؟؟ وہ زور سے چلا ے ۔مگر انھیں اور کھانسی ہوئی۔آفاق نے انھیں پانی ڈال کر دیا۔
ڈیڈی بالکل! شہریار ٹھیک کہ رہا ہے۔ہماری طرف سے آپ۔۔۔۔۔عزیر نے ابھی بولنا شرو ع ہی کیا تھا کہ شیراز صاحب دھاڑے ۔
ابے گدھے نا لائقو ! مجھے شادی کرنی ہوتی تو اس وقت ہی کر لیتا جب تم چھوٹے تھے۔۔
کوئی بات نہیں ڈیڈی! آپ یہی سمجھ لیں کہ ہم چھوٹے ہیں۔۔۔نو پرابلم۔۔۔عمیر نے فورن کہا۔
نو پرابلم کے بچے۔شیراز صاحب کا منہ غصے سے سرخ ہو گیا۔
میں اپنی نہیں آفاق کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔انکی بات پر سبکو سانپ سونگھ گیا۔اور کچھ لمحوں بعد جب سبکو ہوش آیا تو ہلچل مچ گئی۔شہریار کرسی پر چڑھ کر ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر ڈانس کرنے لگا۔عزیر فہد قاسم اور عاصم اسکا ساتھ دینے لگے
یاہو۔۔۔۔عمیر نے نعرہ لگایا
دیساں دا راجا میرے بابل دا
امڑی دے دل دس سہارا نی ویر میرا گھوڑی
آفاق ابھی تک حیران پریشان بیٹھا ہوا تھا۔
بس کرو بس۔آرام سے بیٹھ کر کھانا کھا لو۔کافی دیر انتظار کرنے کے بعد شیراز صاحب کو انھیں ٹوکنا پڑا تو سب آرام سے اپنی اپنی پوزیشن پر واپس آگے۔
مگر ڈیڈ! فہد نے سنجیدگی سے کہا
شادی کے لیے ایک عدد لڑکی کا ہونا ضروری ہے۔اسکی بات پر شیراز صاحب کچھ دیر آفاق کو جانچتی نظروں سے دیکھتے رھے۔جو فہد کے سوال پر انکی طرف ہی دیکھ رہا تھا
لڑکی ہے تو سہی ۔۔۔۔انکے اتنا ہی کہنے پر سب نے سوالات کی بو چھاڑ کر ڈی
اچھا کون ہے؟
کیسی ہے؟
کہاں ہوتی ہے؟
اور عاصم کا معصوم مگر معقول سوال۔بھابی کا نام کیا ہے؟
آفاق کے چہرے سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ ان تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے بیتاب ہے۔
اسکا نام ضوفشاں ہے وہ تمہاری مما کے ہی آبائی گاؤں میں رہتی ہے۔اور تمہارے ماموں کی ساس یعنی اپنی نانی کے پاس رہتی ہے۔تمہاری مما کی بھتیجی ہے اور کچھ؟
ڈیڈی وہ گاؤں میں۔۔۔۔۔شہریار کو حیرت ہوئی
آفاق بھائی کی دلہن گاؤں سے لا ییں گے۔قاسم نے شہریار کی بات مکمل کی۔
بالکل کیوں نہیں؟ کیوں گاؤں میں انسان نہیں رہتے؟
مگر آفاق اور وہ۔۔۔۔۔شہریار نے کہا تو آفاق وہاں سے اٹھ کر چلا گیا
جب کہ فہد سوچ رہا تھا کہ یہ ضوفشاں تو پھر انکی کزن ہے اس پر بھی اتنے اعتراض ہو رھے ہیں تو صبا؟
بھائی کو کیا ہوا ہے؟ قاسم نے پوچھا
بھائی کو شرم آرہی ہے۔مشرقی لڑکے ہیں نا۔۔عزیر نے اپنی انگلیاں مروڑ تے ہوئے ایکٹنگ کی۔
شیراز صاحب تھوڑے پریشان ہو گیے۔حلانکھ انھیں اندازہ تھا کہ آفاق کچھ ایسا ہی رد عمل ظاہر کرے گا مگر جیسے وہ بن کچھ کہے اٹھ کر چلا گیا تھا وہ اسکے لیے کافی فکر مند ہو چکے تھے۔لہٰذا کھانا کھانے کے بعد جب سب اپنے کاموں میں مصروف ہو گیے تو وہ آفاق کے کمرے میں چلے آے
وہ کمپیوٹر آن کیے بیٹھا تھا۔نظریں تو کمپیوٹر پر تھی مگر سوچ کا پنچھی کسی اور ہی جہاں کی سیر کر رہا تھا۔
میں اندر آ سکتا ہوں؟ کوئی ضروری کام تو نہیں کر رھے؟ انہوں نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا تو وھ چونک گیا اور پھر فورن کھڑا ہو گیا۔
اے نا ڈیڈی! اسمے پوچھنے کی کیا بات ہے؟ وہ شرمندہ ہو گیا۔
ایسے ہی! وہ آگے بڑھے۔جب اولاد جوان ہو جائے تو والدین کو بھی محتاط ہو جانا چاہیے کچھ بھی کرنے یا کہنے سے پہلے اولاد سے پوچھ لینا چاہیے۔
ڈیڈی کیسی باتیں کر رھے ہیں آپ پلیز ۔اوہ شیراز صاحب کی باتوں سے شرمندہ ہو رہا تھا
بات یہ ہے آفاق بیٹا! یہ رشتہ تمہاری مما نے اپنی زندگی میں ہی طے کیا تھا۔ تمہاری مما اور ماموں بس دو ہی بہن بھائی تھے۔جب ضو فشآن پیدا ہوئی تو اسی وقت لائلہ نے اسے تمہارے نام کی انگوٹھی پہنا دی کہ دونوں بہن بھائی کس رشتہ اور مظبوط ہو جائے مگر پھر تمہارے ماموں اور مامی کی ڈیتھ کے بعد ضو فشاں اور اسکی چھوٹی بہن اپنی نانی کے پاس رہنے لگی۔
لائلہ نے بہت کوشش کی کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں مگر تمہاری مامی بھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی سو انہوں نے اپنی بہن کی نشانیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہا جب تک تمہاری مما زندہ رہی وہان سے ملنے جاتی رہی مگر اسکی وفات کے بعد میں یہ ذمہ داری نا نبھا سکا۔میں نے تمہیں یہ سب اس لیے نہیں پہلے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بچپن کی باتیں کس نے یاد رکھی ہوں گی۔لیکن دو دن پہلے ضو فشاں کی نانی کا پیغام ملا جس میں انہوں نے اپنی گرتی صحت اور ضو فشاں کی طرف سے فکر مندی کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی کہ امانت حقدار تک پہنچ جانی چاہیے۔اتنا کہ کر وہ چپ ہو گیے۔
لیکن ڈیڈی! وہ گاؤں کی۔۔۔۔۔آفاق کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
بیٹا تمہاری مما بھی گاؤں کی تھی مگر شہر کی بہت سی لڑکیوں سے بہت اچھی بیوی اور ماں تھی۔خیر اگر تمہیں اعتراض ہے تو میں انکو منع کر دیتا ہوں۔میں تو بس تمہاری ماں کے خیال ۔سے۔۔۔۔شاید وہ واقعی مایوس ہو گیے تھے۔
زندگی تمہیں ہی گزارنی ہے ناں جو تم مناسب سمجھو۔وہ واپس جانے کے لیے مڑے
ایک منٹ ڈیڈی! آفاق کی پکار پر انہوں نے اپنے لبوں کی مسکراہٹ دبا لی۔
مجھے اپکا فیصلہ منظور ہے ان فیکٹ مما کا بھی۔لیکن مجھے تھوڑا ٹائم چاہیے ہوگا ایڈجسٹ کرنے کے لیے۔باقی آپ جو بھی کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔آفاق نے ٹھہر ٹھہر کر بات مکمل کی تو شیراز صاحب نے فورن آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔
آئی نو مائی سن ! تم کبھی میرا سر نیچا نہیں کرو گے
************""""""""""""
آفاق کی شادی کے لیے انھیں چھٹیاں لینی تھی۔عزیر آج بڑے دن کے بعد اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف آیا تھا۔یہاں اسکا ایک دوست ہوتا تھا جسے آفاق کی شادی کا کارڈ دینا تھا۔ شادی ویسے تو گاؤں میں تھی مگر ولیمہ کا فنکشن انھیں شہر میں ہی کرنا تھا۔۔
اسے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی وہ نظر آئی۔ جیسے ہی اسنے اسکی طرف دیکھا اور ادھر اسکا پاؤں مڑ گیا ۔اس سے پہلے وہ سیڑھیوں سے نیچے گرتی وہ تیزی سے اوپر پہنچا اور اسے سنبھال لیا۔ وہ بچ تو گئی مگر اب اس سے پاؤں پر وزن نہی ڈالا جا رہا تھا۔سو وہ وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔
اوہ آپکو زیادہ چوٹ تو نہیں آئی۔ یہ تو وہ جانتا تھا کہ اسے چوٹ آئ ہوگی۔عزیر نے اسکے ہاتھ سے پھسلنے والی چیزیں اکھٹی کی۔اسنے جواب دینے کے بجاے نفی میں سر ہلا دیا۔
آئی تھنک پاؤں میں موچ آگئی ہے۔ وہ اسکی آنکھوں میں جھلملا تے آنسو صاف دیکھ سکتا تھا۔یہ آنسو اسے ڈسٹرب کر رھے تھے۔
آئیے میں آپکو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔اسنے اسکے سامنے ہاتھ پھیلا یا مگر وہ نظر انداز کر گئی۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔ وہ بمشکل
خاک ٹھیک ہیں آپ؟ آپ سے چلا تک تو جا نہیں رہا پھر یہ سیڑھیاں کیسے اتریں گی۔عزیر نے جل کر کہا اور پھر ایک ہاتھ سے اسنے اسکی کتابیں پکڑی اور دوسرے ہاتھ بڑھا کر اسنے اسکا ہاتھ تھام لیا۔وہ لڑکی غصے سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔
غصہ بعد میں کر لیجیے گا مس؟
فائزہ۔وہ ناگواری سے بولی۔
جی مس فائزہ یہ غصہ تو بعد میں بھی ہو سکتا ہے ابھی آپ ڈاکٹر کے پاس چلیں ورنہ اپکا پاؤں غبارہ بن جائے گا۔عزیر نے اسکی توجہ اسکے سوجتے پاؤں کی طرف دلائی
پھر اسے سیڑھیوں کے پاس کھڑا کر کے خود گاڑی لینے چلا گیا۔
جب وہ واپس آیا تو وہ اچھی خاصی رو چکی تھی اور ساتھ شاید اپنی بہن کو کال کر کے اپنے جانے کا بتا رہی تھی۔وہ اسے لے کر فہد کے ہسپتال چلا آیا
ارے عزیر تم؟ فہد حیران ہوا
فائزہ یہ میرے بھائی ہیں اور فہد یہ میری یونیورسٹی فیلو ہیں فائزہ۔انکے پاؤں میں شاید موچ آگئی ہے۔تم ذرا چیک کرلو۔فہد نے ایک نرس کے ساتھ اسے دوسرے روم میں بھجوا دیا ۔
آ ہم صرف یونیورسٹی فیلو ہے یا۔۔۔۔۔فہد معنی خیز انداز میں بولا
فلحال ۔۔۔اسنے جھینپ کر جواب دیا
اں ہاں! یعنی کے آگے کا معملا مشکوک ہے؟ فہد کے کہنے پر عزیر نے قہقہہ لگایا
کہ سکتے ہیں
ڈریسنگ وغیرہ کے بعد وہ اسے گھر بھی چھوڑ آیا
۔ ۔ ۔اگلے دن صبح انکی روانگی تھی اور اس سے اگلے دن بارات اور ساتھ ہی واپسی۔
اگلے دن صبح تین گاڑیاں گاؤں کی طرف روانہ ہوئی۔سب سے اگلی گاڑی میں آفاق اور شیراز صاحب تھے اور ساتھ ہی سبکا سامان تھا۔
جب کہ دوسری گاری میں فہد کے ساتھ قاسم اور عاصم تھے۔اور تیسری میں شہریار کے ساتھ عمیر اور عزیر تھے۔
فہد نے آفاق سے کہا بھی تھا کہ وو ڈرائیو کر لیتا ہے اسے خود یوں ڈرائیو کر کے نسی جانا چاہیے لیکن اسنے منع کر دیا کہ۔
ابھی کون سا بارات لے کر جا رھے ہیں۔
ابھی انھیں لڑکی کے چھوٹے ماموں کے ہاں رہنا تھا پھر اگلے دن با قاعدہ بارات لے کر جانی تھی۔حلانکھ آفاق نے کہا بھی تھا کہ بس سادگی سے نکاح کر لیتے ہیں مگر ان لوگوں نے وھ شور مچایا کہ اسنے اپنی بات دوہرای تک نہیں۔اور اس وقت بے اختیار ہی فہد کو اپنا نکاح یاد آگیا۔
مجھے لگ رہا ہے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔تینوں گاڑیاں آگے پیچھے گاؤں میں داخل ہوئی تو قاسم اور عاصم حیرت اور اشتیاق سے ارد گرد پھیلے سر سبز کھیتوں کو دیکھ رھے تھے۔
ہم لوگ بھابی لینے جا رھے ہیں۔مجھے یقین نہیں آرہا۔قاسم بولا تو فہد کو بھی یک دم یاد آیا کہ انکی ایک عدد بھابی کو اپنی تمام مصروفیات میں وہ بھلا چکا ہے۔
اوہ شٹ۔اسکے منہ سے نکلا۔
کیا ہوا بھائی۔۔قاسم نے چونک کر پوچھا۔
آ ں کچھ نہیں۔۔۔وہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولا
اف کتنا ایڈیٹ ہوں میں بھی۔کم از کم اسے ایک موبائل ہی لے دیتا۔رابطے میں آسانی ہوتی۔اب واپس جا کر ہی بتا سکوں گا۔ہوسٹل کا نمبر لینے کی زحمت بھی نہیں کی۔صحیح کہتی ہے وہ۔حد ہوتی ہے لا پرواہی کی۔وہ سوچ رہا تھا کیوں کہ اس وقت وہ صرف سوچ ہی سکتا تھا۔
دو گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ آخر کار مطلوبھ گاؤں پہنچ گیے۔وہاں پر انکا پر تپاک استقبال ہوا۔گاؤں کے وسط میں دو بڑی حویلیاں بنی ہوئی تھی۔جن میں سے ایک میں انکے ٹھہر نے کا انتظام تھا۔
دونو حویلیاں ایک قدرے کم اونچای والی دیوار سے الگ کی گئیں تھی۔شیراز صاحب تو یہاں آکر یہاں کے رنگ میں ہی رنگ چکے تھے۔نجانے کن کن بچھڑے ہوں سے ملاقاتیں کرتے پھر رھے تھے۔ان لوگوں کو کافی دیر تک گاؤں کے لڑکوں نے کمپنی دی پھر آہستہ آہستہ سب انکے آرام کے خیال سے اٹھ کر چلے گیے۔
ہائے اللہ ! اتنے سارے گھبرو جوان۔۔۔۔۔۔ایک چہکتی ہوئی آواز پر ان سب نے مڑ کر دیکھا تو وہ بیچاری اپنا جملہ مکمل کرنا ہی بھول گئی اور غڑاپ سے دیوار کے پر گم ہو گئی۔وہ سب صحن میں ڈالی گئی چار پائیوں پر محفل لگے بیٹھے تھے۔انہیں ابھی معلوم ہوا تھا کہ ساتھ والی حویلی لڑکی والوں کی ہے اور یہ حویلی بھی لڑکی کے چھوٹے ماموں کی تھی ویسے تو دونو حویلیوں کے داخلی دروازے کافی دور تھے مگر گھر والوں نے آسان راستہ یعنی دیوار پھلانگ کر آنا جانا لگا رکھا تھا۔
پتہ نہیں یار! یہ سب کونسے زمانے کی بات کرتے ہیں۔گاؤں میں تعلیم آگئی ہے شعور آگیا ہے اب گاؤں گاؤں نہیں رھے مگر مجھے تو کوئی ایسا انقلاب نظر نہیں آرہا ۔سب کے سب ویسے ہی جاہل ہیں ال مینرڈ ۔۔شہریار نے تبصرہ کا تھا اور بے لاگ کیا تھا۔وہ اس وقت نیم دراز تھا۔فہد اور عمیر جس چارپائی پر بیٹھے تھے اسکا رخ دیوار کی طرف ہی تھا۔
سی۔۔۔۔مجھے نظر نہیں آرہا کون سا والا دولہا ہے؟ نسوانی آواز پر آفاق سمیت سب کے کان کھڑے ہو گیے۔
ارے نہیں بھئ! وہ والا نہیں ہوگا۔نجانے وہ کس سے مخاطب تھی
وہ جو لیٹا ہوا ہے نکما؟ گو کہ یہ سب سر گوشیاں تھی مگر اتنی اونچی ضرور تھی کہ ان سب تک آرام سے پہنچ رہی تھی۔شہریار اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اسکی شکل دیکھی ہے؟ وہ کہاں سے لگتا ہے اسکی تو شکل ہی دولہا والی نہیں ہے۔اتنا سڑیل لگتا ہے۔۔اب کے شہریار کے علاوہ باقی سب نے قہقہہ لگایا البتہ شہریار کی شکل دیکھنے والی تھی۔
کافی چہرہ شناس ہیں محترمہ ۔فہد بولا تو شہریار ایک جھٹکے سے اٹھا اور دیوار کے پاس چلا گیا۔ادھر محترمہ شہریار کو ate دیکھ کر غروب ہونے کو تھی۔کہ شہریار کی آواز نے اسے روک دیا۔
محترمہ سنیے ذرا! جج جی ۔۔۔وہ دوبارہ نظر آئ۔اب صرف آنکھیں ہی نظر آرہی تھی
کیا ہوا؟ کسی نے دوسری طرف سے پوچھا
ابھی کچھ نہیں ہوا۔اطمینان رکھیے ! جواب شہریار نے دیا تو ادھر خاموشی چھا گئی۔یہ لوگ بھی مڑ کر دیوار ہی کی طرف دیکھ رھے تھے۔
یہ کیا طریقہ ہے میڈم ؟
کون سا طریقہ؟ وہ اگر گھبرا ی بھی تھی تو اپنے لہجے سے ذرا بھی ظاہر نہیں ہونے دے رہی تھی۔
دوسروں کے گھروں مین جھانکنا ۔شہریار نے کہا تو اسنے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر شہریار کی اگلی بات نے اسے لب بھینچنے پر مجبور کر دیا۔
خیر۔اس مین اپکا بھی کوئی قصور نہیں۔آپکو تربیت ہی ایسے ماحول مین ہوئی ہے جہاں اخلاق و آداب کی کوئی ویلیو ہی نہیں اب جاہلوں سے اس بات کی تو قع کرنا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکی نے شہریار کی بات مکمل ہی نہیں ہونے دی تھی۔انتہائی شائستہ انگلش مین بولی تھی۔
ہیلو مسٹر! بہت بول چکے۔۔۔۔اب ذرا میری بھی سن لو۔پہلی بات یہ میرا اپنا گھر ہے۔اب وہ کھڑی ہو گئی تھی اور آدھی نظر آرہی تھی۔
اور دوسری بات۔۔۔۔شہر مین رھ کر پڑھ لکھ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔بات تو تب ہے جب انسان اندھیروں مین روشنی کی کرن بنے۔گاؤں میں رہ کر تم اگر اپنے موجودہ سٹیٹس تک پہنچتے تو تب تم پر یہ بات سوٹ بھی کرتی ۔ہنہ ۔۔۔۔
شہریار سمیت سب کے منہ کھل گیے تھے وہ دوسری طرف غائب ہو چکی تھی جب کہ وہ ابھی تک وہیں سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔اسکے تو وہم و گمان میں بھی یہ سب نہیں تھا۔
اللہ خیر کرے! او بھائی! رنگ میں بھنگ نا ڈال دینا۔عزیر نے ہنستے ہوئے اسکے سکتے کو نشانہ بنایا
ویسے اپکا کیا خیال ہے چودھری شہریار وڑائچ صاحب کافی سے بھی زیادہ نہیں ہو گئی؟عمیر نے رائے لینے والے انداز میں پوچھا تو سب کی ہنسی نکل گئی مگر شہریار غصے کے عالم میں اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
*************"*"*""***"*"*********
ڈیڈی ہمیں بھی بھابی کو دیکھنا ہے۔شیراز صاحب جب شام کو سب سے مل ملا کر اور تمام انتظام وغیرہ دیکھ کر آے تو وہ سب بھائی ان کے کمرے میں آن دھمکے ۔
تو دیکھ لو۔۔میں نے منع تھوڑی کیا ہے؟ شیراز صاحب اطمینان سے نوا ڑی پلنگ پر لیٹتے ہوئے بولے۔مگر کیسے؟ قاسم نے پوچھا
وہاں تو اچھی خاصی مخلوق جمع ہے سولہ تو میں نے خود گنی تھی۔عمیر نے کہا اسے دن والی گنتی یاد آگئی تھی۔
آج وہاں مھندی اور مایوں کی رسم ہے نا اس لیے۔
وہاٹ؟ وہ سب کے سب اچھل پڑے
ہمارے بغیر ہی مھندی ہو رہی ہے؟ شہریار بولا
ہم یہاں بور ہو رھے ہیں اور وہاں مھندی چل رہی ہے کمال ہے۔قاسم نے کہا۔
لیکن وہ تو لڑکیوں کا فنکشن ہے اور شاید وہ پسند نا کریں۔شیراز صاحب نے کہا تو قاسم اور عاصم کے منہ لٹک گیے
ارے واہ ایسے کیسے نا پسند کریں گے؟ شہریار نے کہا
بس ہمیں بھی فنکشن اٹینڈ کرنا ہے۔ڈیڈی پلیز آپ بات تو کریں نا۔عمیر ضدی لہجے میں بولا۔
اچھا اچھا چلو میں دیکھتا ہوں پھر۔شیراز صاحب اٹھ کر باہر چلے گیے تو وہ سب بھی کھڑے ہو گیے۔
چلو۔جلدی کرو۔تیار ہوتے ہیں۔شہریار بالوں مے انگلیاں چلاتے ہوئے سب سے مخاطب ہوا۔
ڈیڈی کو پوچھنے تو دو پہلے۔فہد نے کہا۔
اول تو وہ منع نہیں کریں گے اور دوسرا یہ کہ اگر منع کیا بھی تو بھی میں ضرور جاؤں گا۔اسنے آخری جملہ عمیر عزیر اور قاسم کی طرف دیکھ کر کہا
ہم بھی جایں گے۔وہ تینوں بھی بولے
تو پھر چلو۔وہ سب اپنے لیے مخصوص کیے گئے کمروں کی طرف بڑھ گیے۔اور آفاق کوبھی کھینچ کھانچ کر اٹھایا حلانکھ وھ جانا نہیں چاہتا تھا
شیراز صاحب جب واپس آے تو وہ لوگ تیار ہو کر برا مدے میں ہی انکا انتظار کر رھے تھے۔
تم لوگ تیار بھی ہو گیے؟ انہوں نے حیرت سے اپنے سپوتوں کو دیکھا
اور تم بھی جاؤ گے؟ انہوں نے آفاق کی طرف دیکھ کر پوچھا
جی ڈیڈی بھائی اکیلے یہاں کیا کریں گے ہم نے کہا ہمارے ساتھ ہی چلیں ۔عزیر نے مزے سے جواب دیا تو شیراز صاحب نے پہلے عزیر کو اور پھر لا تعلق سے آفاق کو دیکھا۔
تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ آفاق کہیں نہیں جا رہا تم لوگوں کی بات میں نے کرلی ہے۔
ڈیڈی آفاق کے جانے سے کیا ہو جائے گا؟ اچھا ہے نا combine مھندی ہو جائے گی ۔
شہریار نے آفاق کی طرف داری کی
بیٹا جی یہ گاؤں ہے شہر نہیں۔۔۔گو کہ ترقی یہاں بھی ہو چکی ہے مگر کچھ رسم و رواج ابھی بھی ویسے ہی چلے آرہے ہیں صدیوں سے۔
اچھا اب ہم لوگ تو چلیں یہ نا ہو وہاں فنکشن ہی ختم ہو جائے۔فہد نے کہا
وہ جیسے ہی لڑکی والوں کے گھر میں داخل ہوئے دروازے کے ساتھ قطار میں کھڑی بچیو ں اور انکی باجیوں نے ان پر پھولوں کی بارش کردی ۔اکثر یت نے اپنے چہرے دوپٹہ سے چھپا ے ہوئے تھے۔
وہ لوگ ادھر ادھر دیکھ بغیر آگے بڑھتے گیے آگے جا کر کچھ انٹی ٹائپ عورتوں نے انھیں گھیر لیا اور باری باری انکے سروں پر ہاتھ پھیر کر اپنا اپنا تعارف کروانے لگی۔عمیر اور شہریار بار بار اپنے ہیئر سٹائل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے رھے مگر۔۔۔
وے نچھو وے ادھر مر ایک عورت نے بڑھک ماری یا کم از کم انکو اس عورت کا اس طرح بولنا بڑ ھک ہی لگا
ان منڈ وں کو لے جا اماں کے پاس۔سلام کر آ ییں فیر واپس لے آنا ۔ایک حسینہ پراندہ لیہراتی ہوئی آئ تھی اب نجانے اسکا منہ ہی لال تھا یا پھر مےک اپ زیادہ کیا ہوا تھا۔
آ ییں جی ۔بیچاری یہ دو لفظ بول کر ہی دوہری ہو رہی تھی
سب سے آگے وہ لڑکی تھی پھر فہد شہریار اور پھر سب۔وہ لڑکی ایک دروازے کے پاس رک گئی اور دروازے پر دستک دئے بغیر اونچی آواز میں بولی
شہر والے منڈ ے آے نیں ۔اندر سے شاید کوئی آواز نہیں ای تھی مگر ان لوگوں کو سنائی نہیں دی۔
جاؤ جی اندر
اندر کمرہ بالکل روایتی سا تھا جیسے عام طور پر بڑی بڑی حویلیوں میں ہوتا ہے ایک پلنگ پر ایک بوڑھی سی عورت لیتی ہوئی تھی مگر دیکھنے سے تو کہیں سے بھی بیمار نہیں لگ رہی تھی۔یہ یقیناً انکے ماموں کی ساس اور بھابی کی نانی تھی۔کمرے میں ایک اور لڑکی بھی موجود تھی جو رخ موڑے ایک ٹیبل پر نجانے کس کام میں مصروف تھی انکے انے پر صرف ایک لمحے کے لیے اسنے مڑ کر دیکھا تھا یہ وہی لڑکی تھی جس نے دن کو شہریار کی اچھی خاصی عزت افزائی کی تھی۔شہریار نے کینہ تو ز نظروں سے اسے گھورا مگر تب تک وہ رخ موڑ چکی تھی۔
لو دلہن تو یہ بنی ہوئی ہے۔عمیر نے شہریار سے کہا وہ پہلے ہی اسکا جائزہ لے رہا تھا۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ فہد اپنی مسکراہٹ دبا تے ہوئے بولا
نانی قاسم اور عاصم کا انٹرویو لے رہی تھی جو انھیں ہر بات کا بہت تفصیل سے جواب دے رھے تھے عاصم تھوڑا کنفیو ز تھا مگر قاسم کا انداز ایسا تھا جیسے وہ نانی کی بچپن کی سہیلی ہو۔
نیک خیال ہے۔آپ ہاں کریں ڈیڈی کو ہم منا لیں گے عزیر نے کہا تو فہد اچھل پڑا میں اپنی نہیں عمیر کی بات کر رہا ہوں۔
مارو باجی! اتنے میں دروازہ دھماکے سے کھلا اور دو لڑکیاں گرتی پڑتی اندر آہیں ۔
ہاں کیا بات ہے؟ وہ مڑی تو انہوں نے دیکھا وہ مھندی لا تھال سجا رہی تھی۔
وہ بڑی تا ی کہ رہی ہیں آپ ہیں گی یا نہیں۔ضوفی باجی کی رسم کرنی ہے۔وہ اتنا کہ کر واپس بھاگی
ویسے میں بیمار تو نہیں مگر یہ انکی بڑی مامی نے ضو فی کا جینا حرام کیا ہوا تھا اور اسکی شادی اپنے آوارہ ۔۔۔۔۔نانی قاسم کو نجانے کونسا قصہ سنانے جا رہی تھی جب مارو اچانک بول پڑی
نانی آپ باہر آہیں گی؟ اسکا انداز ایسا تھا جیسے وہ نانی کو اس قصے کو سنانے سے منع رکھنا چاہتی ہو
نہیں میں تو نہیں آ سکتی نا ۔۔۔۔یہ گھٹنے ۔۔۔ہاں ان لڑکوں کو لے جاؤ یہ بیچارے کب سے یہاں بیٹھے میری کہانیاں سن رھے ہیں نانی صاحبہ کو ان پر رحم آ ہی گیا
جی ۔۔وہ سارے ایسے اٹھے جیسے اس قید سے رہائی ملنے پر شکر کیا ہو اور واقعی ایسا ہی تھا۔مارو نے مھندی کا تھال اٹھایا جس پر موم بتیاں روشن تھی موم بتیو ں کی لو اسکے چہرے کو جگمگا رہی تھی۔شہریار جو پہلے ہی اسے گھور رہا thآ بے خودی کے عالم میں اسے تکنے لگا۔۔۔
آ ہم ۔سب باہر نکل چکے تھے جب عزیر اسکے قریب کھنکھارا تو وہ بھی جیسے ہوش میں آگیا
دلہن کو رسم کے لیے صحن میں لایا جآ چکا تھا ایک بہت برا ہجوم تھا جو تقریباً دلہن کے سر پر ہی چڑھا ہوا تھا۔اور اس میںاکثر یت لڑکیوں کی ہی تھی۔ان سب کو آتا دیکھ کر نجانے کیا کھسر پھسر شرو ع ہو گئی تھی۔وہ لڑکے ہو کر کنفیوز ہو رھے تھے
غلطی کی یہاں آ کر۔فہد بڑبڑایا
انکے لیے وہاں کرسیاں منگوا دی گئی تھی۔وہاں ان لوگوں کے علاوہ کوئی لڑکا نا تھا اس لیے وہ بے چینی محسوس کر رھے تھے۔رسمیں تقریباً ہو چکی تھی۔اب دلہن کے گرد لڑکیاں ہی تھی
ہم یہاں بیٹھنے کے لیے آے ہیں؟ عزیر نے بے زاری سے کہا
میرا تو یہی خیال ہے۔فہد نے کہا
کوئی نہیں۔۔شہریار اٹھا
چلو بھئ لڑکیو ! ذرا پاسے پاسے ہو جاؤ۔اب لڑکے والوں کی باری ہے۔شہریار بلند آواز سے لڑکیوں سے مخاطب ہوا تو سب لڑکیاں حیرت سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔شاید اسکا پاسے پاسے ان سے ہضم نہیں ہو رہا تھا باقی بھائی بھی آکر شہریار کے ساتھ کھڑے ہو گیے تو لڑکیوں کو پاسے ہونا ہی پڑا
عاصم اور قاسم دلہن کے دائیں بائیں بیٹھ گیے
ایک طرف عمیر عزیر اور دوسری طرف فہد کھڑے ہو گۓ شہریار پنجوں کے بل دلہن کے سامنے بیٹھ گیا
بھابی! اتنا لمبا گھو نگھٹ نکالا ہوا ہے۔اپکا سانس تو نہیں رک رہا۔عاصم نے پوچھا تو بھابی صاحب نے جھٹ اثبات میں سر ہلا یا پھر نفی میں۔
تو تھوڑا سا اوپر کریں۔قاسم بولا اور ساتھ ہی آرام سے ضو فی کا دوپٹہ سرکا نے کی کوشش کی مگر شاید وہ فکس تھا۔
ارے ری یہ کیا کر رھے ہو ۔۔مارو کسی کونے کھد رے سے نکلی
بھابی کا سانس رک رہا ہے۔دوپٹہ پیچھے کر رہا ہوں۔قاسم نے جواب دیا
کوئی سانس نہیں رک رہا۔مایو ں کی دلہن کا چہرہ نہیں دکھا تے ورنہ روپ نہیں آتا ۔اسکا انداز بالکل تھانے داروں والا تھا
اچھا جی۔شہریار نے آگے بڑھ کر گھو نگھٹ ہی الٹ دیا۔ساری فضول کی بکواس ہے
او ۔مارو کا منہ کھل گیا۔یہ کیا کیا تم نے؟
لیکن وہ سب تو اپنی بھابی کو دیکھ کر سکتے میں آگے تھے۔
ارے اتنی چھوٹی سی بھابی۔عمیر کے منہ سے نکلا ۔نازک سی ضو فی انکے انداز وں کے بڑ عکس تھی۔وہ تو انجمن ٹائپ خوب توانا سی بھابی کا تصور لے کر آے تھے مگر یہ گڑیا سی نازک ضوفی ۔۔۔۔
یب بھابی ہماری۔۔۔۔۔فہد اٹک اٹک کر بولا۔صبا سے تھوڑی ہی بڑی ہوں گی یہ تو ۔۔۔
کس سے بڑی؟ قاسم کے کان کھڑے ہوئے مگر اسنے کچھ سنا ہی نہیں
بھابی۔۔۔اپ ہماری بھابی وابی نئی بہن ہوں گی۔۔۔۔ٹھیک؟ عزیر نے کہا
اور میری تو اپی ہوں گی۔۔عاصم بولا
اپی آپ بھی کچھ بولیں نا! قاسم نے کہا تو مارو پھر بول پڑی
مایو ں کی دلہن۔۔۔۔مگر موبائل پر بزی شہریار نے انکی بات کاٹ دی
کو بولنا بھی منع ہوتا ہے کیا؟ شہریار کے اس طرح ٹو کنے پر وہ غصے سے گھور نے لگی جب کہ ضو فی اتنی دیر میں پہلی بار مسکرائ
ارے واہ آپ تو ہنستی بھی ہیں۔عمیر کے کہنے پر وہ ہنس پڑی تو شہریار نے کھٹآ ک سے اسکی تصویر بنا لی
آپکے ان کو دکھاؤں گا
دیکھیے مسٹر میں کہ رہی ہوں کہ مایو ں کی دلہن۔مارو نے غصے سے بولنا شرو ع کیا تو شہریار نے ایک دفعہ پھر اسکی بات اچک لی
کیا مایو ں کی دلہن مایو ں کی دلہن لگی ہوئی ہے۔مایو ں کی دلہن نا ہو گئی کوئی خلائی مخلوق ہو گئی۔یہ کیا تو وہ ہو جائے گا وہ ہوا تو یہ ہو جائے گا ۔جایں محترمہ یہ ہمارا آپس کا معملا ہے apکو زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں اب ہم ہیں انکا خیال رکھنے والے کیوں بھابی ؟
شہریار نے ضو فی سے پوچھا جب کہ مارو پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ضو فی نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر پھر چپ ہو گئی
چلو بھی بھابی کے ساتھ گروپ فوٹو بنوا تے ہیں شہریار نے کہا تو وہ سب آگے پیچھے سیٹ ہو گیے
صبح تقریباً تین بجے انکی واپسی ہوئی وہ بھی تب جب انھیں لگا کہ ضو فی اب نیند سے بیہوش ہو جائے گی ویسے بھی ماہ رخ دس چکر لگا چکی تھی انھیں نکلآ لنے کے لیے
ضوفی یاد رکھنا ابھی تم نے مھندی بھی لگوا نی ہے
ضوفی ابھی ابٹن بھی لگانا ہے
ضوفی یہ بھی کرنا ہے ضو فی وہ بھی کرنا ہے۔وہ ہر بار آتی اور کچھ نآ کچھ یاد دلا تی لیکن ضوفی بیچاری ان کے قصے سن کر اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی بھلا کیا جواب دیتی
اس لڑکی کے تو دانت ہی اندر نہیں ہو رھے۔۔۔۔ایک یہ اور ایک اسکی نانی ہے۔۔۔اتنا اچھا لڑکا مٹھی میں دبا ے بیٹھی تھی اسی لیے تو میرے بھائی میں ہزار کیڑ ے نظر آتے تھے۔۔۔یہ بھی جیسے تیار بیٹھے تھے۔۔۔کیا پتہ لڑکے میں کوئی عیب ہو۔۔مگر یہ اسکے بھائی تو۔۔۔ہا ے میری نچھو کآ بھی ۔۔۔۔۔شہریار نے نچھو کی والدہ محترمہ کو کسی سے باتیں کرتے سنا تو ضوفی سے انکے بارے میں پوچھا
یہ ہماری بڑی مامی ہیں ۔۔۔ان کے گھر ہی ہم رہتے ہیں۔۔۔۔۔
خاصی پھا پھا کٹنی ٹائپ چیز ہیں یہ تو۔۔۔۔فہد نے اسے آنکھیں دکھا یبں مگر وہ قاسم ہی کیا جو اپنی بات مکمل کیے بغیر چپ کر جائے۔
آنکھیں کیوں دکھا رھے ہیں۔میں نے تو جو محسوس کیا وہی کہ دیا۔الٹا اسنے فہد کو بھی شرمندہ کر دیا۔ضوفی کی پھر ہنسی نکل گئی
********