گھر میں علیشہ کی شادی کا ہنگامہ جاگ اٹھا تھا۔ منگنی کے بعد سے ہی جہیز کی تیاری شروع ہو گئی تھی لیکن اب تو تمام لڑکیوں کو اپنے کپڑے اور کپڑوں کے ساتھ کی میچنگ چیزوں کی فکر ستا رہی تھی۔ بارات کے لیے ہال بک کروا لیا گیا تھا لیکن مہندی کے لیے لڑکیاں کسی طورپر بھی ہال کے لیے راضی نہیں ہوئی تھیں۔
’’دس بجے تو ہال کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے اور دس بجے تک تو ہمارا فنکشن شروع بھی نہیں ہوتا۔۔۔سب کی متفقہ رائے یہی تھی اسی لیے مہندی کے فنکشن کے لیے گھر ہی سجایا گیا تھا۔گیندے کے زرد پھولوں اور سرخ مہین کپڑے کے پردو ں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔فنکشن کے لیے لان میں انتظام کیا گیا تھا۔ وسیع لان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی سرخ کارپٹ کی رہ گزر بنائی گئی تھی جس کی اطراف میں خوابناک سبز روشنی کے گلوب تھے ۔ رہ گزر کے اختتام پر سرخ وسفید پھولوں سے نشست کی چھت بنائی گئی تھی ۔اطراف میں انہیں پھولوں کی لڑیا ں تھیں ۔ نشست کے علاوہ پورا لان نیم تاریک تھا۔نشست پر دودھیا سفید روشنی تھی۔ علیشہ روایتی پیلے رنگ کے جوڑے میں ملبوس خود بھی زرد پھول لگ رہی تھی۔ہر تھوڑی دیر بعد وہ مضطرب سی ادھر ادھر نظر دوڑاتی۔ اسے حرا کا انتظار تھا۔دادو سے منصور احمد کا پتہ لے کر اس نے حرا کے نام شادی کا کارڈ پوسٹ کیا تھا ۔ اور اسے یقین تھا کہ حرا ضرور آئے گی۔
تقریب شروع ہونے میں وقت تھا۔ مہندی لگانے کے لیے پارلر سے لڑکیاں بلوائی تھیں۔جب وہ آئیں تو ان کے ساتھ ایک اور لڑکی بھی تھی۔چہرہ شناسا تھا لیکن وہ پہچان نہیں پائی۔چند سیکنڈ کے بعد ذہن میں حرا کی شبیہ ابھری تو علیشہ کی چیخ نکل گئی۔جامہ وار کے پرنٹڈسرخ غراے پر آدھی آستین والی اوپن شارٹ شرٹ کمر تک آتے بالوں میں بڑے بڑے کرل لہریں سی پیدا کر رہے تھے۔مانگ سے نکلتی چھوٹی سی بندیا کشادہ ماتھے پر چمک رہی تھی۔وہ اس وقت وہ حرا لگ ہی نہیں رہی تھی جسے وہ سب جانتے تھے۔اس کے کپڑوں اور میک اپ کا لحاظ کیے بغیر علیشہ بری طرح اس کے گلے لگی تھی۔
’’مجھے یقین تھا تم ضرور آؤ گی‘‘اسے زور سے بھینچتے ہوئے وہ بولی توحرا مسکرا دی۔
باری باری وہ سب سے ملی تھی اور یہ بھی شکر کہ گزری باتوں کا کسی نے ذکر نہیں کیا تھا۔کسی نے بھی اس کے خاموشی سے چلے جانے کی وجہ نہیں پوچھی تھی۔جہاں سب ہی اس کے خالص لڑکی والے روپ پہ حیران تھے وہیں سب ہی نے جی بھر کر اسے سراہا بھی تھا۔آج تو اس کے چھب ہی نرالی تھی۔نانو تو ویسے بھی اس کے صدقے واری جاتے نہیں تھکتیں تھیں آج تو وہ لگ بھی اتنی پیاری رہی تھی۔اپنی بیس سالہ زندگی میں یہ پہلی شادی تھی جس میں وہ شریک ہوئی تھی۔سب کچھ بھلا کر وہ خوش تھی۔لان کے ایک کونے میں بیٹھی وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی جب رابی آ کر اس کے سر پر سوار ہو گئی۔’’چلیں میری تھوڑی ہیلپ کروا دیں،مہندی کی پلیٹیں نیچے لانی ہیں‘‘وہ اس گوشہ عافیت سے نکلنا نہیں چاہتی تھی۔یوں بھی اس کا لباس اس کے لیے امتحان بنا تھا۔بہت سے بہانے بناتے اس نے بہتیرا منع کیا لیکن وہ اسے لیے بغیر گئی نہیں۔بمشکل اپنے کپڑے سنبھالتی وہ اس کے ساتھ چل دی۔
دونوں ہاتھوں میں مہندی کی پلیٹیں پکڑے وہ سیڑھیوں سے اتررہی تھی۔دوپٹہ فریال نے کندھے سے لے جا کر کمر پر باندھ دیا تھا،اس کے باوجود غرارے سے الجھن ہو رہی تھی۔اس کا دھیان کپڑوں کی طرف ہوا تھا جب کسی لڑکی کے پاس سے گزرنے پر اسے ہلکا سا دھکا لگا اور اپنے غرارے سے الجھ کر وہ توازن کھو بیٹھی ۔مہندی کی پلیٹیں ہلکے سے شور سے زمین پر جا پڑی تھیں اور وہ اوپر آنے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھے باسط پر۔شاخ گل کی طرح لچکیلا بدن اپنی فطری خوشبو کے ساتھ اس کی بانہوں میں جھول رہا تھا۔اسے لگا جیسے وہ مہک سا گیا ہو۔اس کے حواس اس کے ساتھ نہیں تھے۔اگر وقت روکا جا سکتا تو وہ یہیں روک لیتا۔اس کی بند آنکھیں ایک دم سے کھلی تھیں اور باسط کو کرنٹ لگا تھا۔ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ مچھلی کی طرح تڑپ کر اس کی بازؤں سے نکلی تھی۔ایک نگاہ غلط بھی اس پر ڈالے بغیر وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔وہ کیوں اس کو کوئی وضاحت دیتی۔مہندی کی پلیٹیں وہیں پڑی تھیں اور وہ اسی سیڑھی پر کھڑا تھا۔’’حرا۔۔۔۔‘‘ سرگوشی کی صورت اس کے ہونٹوں سے اس کا نام ادا ہوا تھا۔تو یہ حرا تھی۔۔۔خوشگوار سی حیرت نے اسے گھیر لیا تھا۔حراکے جانے کے بعد مما نے باسط کے رویے پر بہت افسوس کیا تھا۔وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لے۔آخر اس کی ماں تھیں اور جانتی تھیں کہ اس کے لگائے سب الزام بے بنیاد اور جھوٹے تھے۔تب اس نے نخوت سے منہ پھیر لیا تھا۔اور اب ا س ایک لمحہ میں فیصلہ ا زخود ہو گیا تھا۔مسکراتے ہوئے گیا لمحہ سوچتے وہ آگے بڑھ گیا۔
تقریب دور سے دیکھتے ہوئے بھی وہ بے حد لطف اندوز ہوئی تھی۔باری باری سب لڑکیوں نے اسے بلایا بھی لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ان کپڑوں کی وجہ سے جو ہو گیا تھا وہ کافی تھا ۔ وہ مزید کوئی تماشہ نہیں چاہتی تھی۔سب لڑکیوں نے مہندی لگائی تو بے حد اصرار سے حرا کے ہاتھوں پر بھی مہندی لگا دی۔یہ پہلی بار تھا جب حنا نے اس کی ہتھیلی مہکائی تھی۔رات کافی بیت چکی تھی اور کسی کے سونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔پوری کوشش کے بعد بھی دو بجے تک اس کی آنکھیں نیند سے بند ہونے لگی تھیں۔نانو کو ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ نظر نہیں آئیں تو وہ ان کے کمرے میں چلی گئی۔اس کا اندازہ تھا کہ وہ اپنے کمرے میں ہوں گی لیکن وہاں کسی کو نا پا کر وہیں لیٹ کر سو گئی۔
مہندی کی تقریب ختم ہوتے ہوتے سحری کا وقت ہو گیا تھا۔سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے جا چکے تھے۔ذیشان بھی کام نمٹا کر سونے کے لیے کمرے میں آیا تھا جب ایک خواب کو بستر پر سوتے دیکھا۔کھلے بال اس کے تکیے پر بکھرے تھے ۔ایک ہاتھ تکیے پر اور دوسرا اس کے پہلو میں تھا۔۔ لمبی انگلیوں کی پوریں مہندی سے سرخ ہوئی تھیں۔وہ گہری نیندمیں تھی۔حرا۔۔۔یہاں۔۔۔اس کے کمرے میں ۔اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا۔شاید اس کی نیند کے احترام میں کہ کہیں دھڑکنیں اس پری وش کے آرام میں مخل نہ ہوں۔سردیوں میں دادو سے ہیٹر کی گرمائش برداشت نہیں ہوتی تھی اس لیے سردی کے کچھ مہینے وہ ان کے ساتھ کمرہ بدل لیا کرتا تھا۔اسی غلط فہمی کی وجہ سے وہ یہاں تھی۔سجا سنورا روپ لیے اس کی خواہش اس سے چند قدم کی دوری پر تھی۔وہ اس کے قریب ہوا۔۔اس کی پر شوق نگاہیں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔وہ سوئی ہوئی بھی کھل کر مسکرائی دی۔
’’کس لیے تم نیند میں شرما رہے ہو اس طرح
خواب میں کیا آگئے ہیں ہم تمہارے سامنے‘‘
بڑی آہستگی سے اس نے شعر گنگنایا۔مندی مندی سی آنکھیں کھل کر بندہوئیں اور اگلے ہی لمحے پوری کھل گئیں۔پلکو ں تلے خوابوں کی پوری وادی سانس لے رہی تھی۔چشمے کے شیشوں کا حجاب بھی اب تو حائل نہیں تھا۔اس کے دل کو گدگدی سی ہوئی۔
’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘
’’میں آپ کو سویا ہوا دیکھ چکا ہوں اس لیے میں یہ نہیں پوچھوں گا۔آپ بتائیں میرے کمرے میں کیوں سو رہی ہیں؟‘‘ اس کا لہجہ شریر ہوا تھا۔
’’آپ کا کمرہ؟‘‘ گردن گھما کر اس نے ارد گرد دیکھا۔’’یہ تو نانو کا کمرہ ہے۔‘‘
’’اطلاع کے لیے شکریہ لیکن آ پ کو اپنی معلومات اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کے سردیوں میں یہ کمرہ میرے استعمال میں ہوتا ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔سو سوری‘‘وہ ایک جھٹکے کے ساتھ بستر سے اٹھی تھی۔
’’آپ چاہیں تو یہاں سو سکتی ہیں‘‘
’’نن۔۔نہیں۔شکریہ۔مجھے پتا نہیں تھا۔‘‘ گھڑی پر نظر پڑتے ہی اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوئے تھے۔پاؤں میں ہائی ہیل اڑستے ہوئے اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جادو کے بل پر اس کمرے سے غائب ہو جائے۔چہرے پر آتے بال ،ہاتھوں کی مہندی ،اونچی ایڑھی اور آف کورس اس کا غرارہ،لڑکی ہونا کتنا مشکل ہے اسے آج اندازہ ہوا تھا۔ ۔۔پہلا قدم اٹھاتے ہی وہ ڈگمگا گئی۔
’’سنبھل کر۔۔‘‘ لو دیتی نظروں سے تکتے ذیشان نے اس کے بازو پکڑ کر سہارا دیا۔وہ اس سے چند قدم دورہو کر کھڑی ہوئی تھی۔۔کھڑکی سے مسکراتی چاندنی شریر نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے لمس کی گرمائش حرا منصور کی نرم بانہوں سے ہوتے ہوئے اس کا دل پگھلا رہی تھی۔وہ بری طرح نروس ہو رہی تھی۔جھک کر ہیلز اتار کر اس نے ہاتھ میں پکڑ لی۔جانے کے لیے وہ اس کے قریب سے گزر ی تھی جب بے اختیار ذیشان نے اس کا راستہ روک لیا۔
’’ایسے بھی بہت اچھی لگ رہی ہیں‘‘بوجھل لہجے میں کہہ کر اس نے راستہ چھوڑ دیا ۔سب نے اس کی تعریف کی تھی لیکن دل ایسے تو کسی کے کہنے سے نہیں دھڑکا تھا پھر اب کیوں۔۔۔اور اس کیوں کا جواب وہ جاننا نہیں چاہتی تھی یا جانتی تو تھی بس ماننا نہیں چاہتی تھی۔ دھڑکنیں سنبھالتی وہ باہر نکل گئی۔وہ اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔حنائی خوشبو میں بسے تکیے پر اسے باقی کی رات جاگ کر گزارنا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات آنے والی تھی۔ ثروت ہال کے دروازے میں کھڑی اسٹیج پر دلہن بنی علیشہ کو دیکھ رہی تھیں۔ڈیپ ریڈ کلر کے روایتی لہنگے میں اس کا روپ کسی شہزادی کی طرح دمک رہا تھا۔
’آپ پریشان ہیں ماما؟‘‘ انہیں ایسے گم صم کھڑے دیکھ کر اندر آتاباسط ان کے پاس روک گیا۔
’’ارے نہیں۔ پریشانی کس بات کی ۔سوچ رہی ہوں اگر میرا بیٹا ہاں کر دیتا تو آج اس کے بھی سہرے کے پھول کھل جاتے۔‘‘
’’آج ہاں کر دوں تو ؟وہ خوش مزاجی سے بولا تو ثروت کو حیرت کا جھٹکا لگا۔باسط اور ایسی خوش مزاجی۔ قرب قیامت کی نشانی تو نہیں۔
’’اب تو تھوڑا وقت تو دو۔ میں کوئی لڑکی دیکھ لوں۔پیاری۔۔۔۔‘‘
’’تو جو لڑکی پہلے ڈھونڈی تھی۔ وہ آفر ختم ہو گئی کیا؟‘‘ اس نے بات کاٹی۔ بظاہراس نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی لیکن ثروت بھی ماں تھیں۔وہ جانتی تھیں یہ سب بے وجہ نہیں اسی لیے ایک دم چونک اٹھی تھیں۔
’’تو کیا میں حرا کے لیے ہاں سمجھوں‘‘
’’بلکل۔۔۔ دل و جان سے ہاں ہے۔‘‘ سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ جھکا۔
’’لیکن۔۔تم تو کہا تھا۔۔۔‘‘ انہوں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔
’’بھول جائیں ماماوہ۔۔وہ سب جھوٹ تھا۔ آئی ایم ساری۔۔ میں اس سے بھی معافی مانگ لوں گا۔ آپ بس جلدی سے بات پکی کریں۔‘‘ ان کے پہلو میں کھڑے باسط نے ان کے گلے میں باہیں ڈال کر لاڈ سے ان کے کندھے پر سر رکھا۔
’’ضرور بیٹا ۔۔۔بس ذرا شادی سے فارغ ہو لیں تو میں اماں سے بات کرتی ہوں کہ وہ منصور سے بات کریں۔ ظاہر سی بات ہے حرا ان کی بیٹی ہے۔ اور ان کے پاس ہے تو ان سے پوچھنا پڑے گا‘‘ انہیں نے سوچتے ہوئے اسے تسلی دی۔
’’آئی لو یو ماما، یو ار دا بیسٹ ماما ان دا ورلڈ‘‘
اندر آتی ہوئی زینب نے ایک ایک لفظ بغور سنا تھا۔تو اب عبدالباسط بھی اس کا طلبگار ہوا تھا۔اس سے بہتر موقع انہیں کب مل سکتا تھا باسط کی خواہش پر ذیشان کی خوشی کو فوقیت دے کر جیٹھانی کو نیچا دکھانے کا۔بیٹی کی رخصتی کو بھول کر ان کا دماغ نئے جوڑ توڑ میں مصوف ہو گیا تھا۔انہیں جو بھی کرنا تھا پکے پیروں پر اور جلدی کرنا تھا۔ذیشان کئی بار ان کے سامنے اپنی خوشی کے لیے کھڑا ہوا تھا۔وہ جانتی تھیں اس کی طبیعت میں لہروں کی شوریدگی نہیں،وہ گہرا اور ٹھہرا سمندر ہے۔وہ تو کبھی اپنی ضرورت کے لیے بھی ان تک نہیں آیا تھا لیکن حرا ایک ایسی خواہش،ایسی خوشی تھی جس کے لیے وہ بار بار ان تک آتا رہا ،اس کی ہر نظر سوال بن گئی تھی۔اب وہ اس کی خواہش پوری کر کے پوری زندگی کے لیے اس کے آگے سرخ رو ہو سکتی تھیں۔حرا سے تو انہیں پہلے بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔وہ فوراََ ساس کے پاس جا پہنچیں تھیں۔ایک وہی تھیں جو اس معاملے میں ان کی مدد کر سکتی تھیں۔آخر ان کی اکلوتی اور پیاری نواسی کا معاملہ تھا۔پھر لڑکا بھی ذیشان جیسا ہیرا تھا وہ ہیرا جسے کسی تراش کی بھی ضرورت نہیں تھا۔
حسب توقع وہ سن کر ہی خوش ہو گئی تھیں۔ہتھیلی پر سرسوں جماتے وہیں ہال میں منصور احمد سے بھی بات کر لی گئی تھی۔ انہوں نے سارا اختیار حرا کو یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ اس کی زندگی ہے اگر اس رشتے سے اسے خوشی ملتی ہے تو انہیں وہ اس کی خوشی کے لیے دل و جان سے راضی ہیں۔
حرا سے بات کرنے کی زمہ داری بھی نانو کو سونپ دی گئی تھی۔زینب چاہتی تھیں کہ جلد از جلدسب کچھ طے پا جائے۔ان کے دل میں جیٹھانی کی طرف سے ایک خوف سا تھا کہ تاخیر کی صورت وہ جیتی بازی نہ ہار جائیں۔اسی لیے انہوں نے بار بار تاکید کے ساتھ جلد بات کرنے کا وعدہ لیا تھی۔
علیشہ کی رخصتی کے بعد جب گھر آئے تو سارے ہی لاؤنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔موضوع سخن بلا شبہ علیشہ کی شادی کی تقریب تھی۔کس نے کیا پہنا،کون کہاں سے تیار ہوا ،کون کیسا لگ رہا تھا،کل کیا پہنا جائے وغیرہ۔۔ایسے میں حرا کووہاں اپنا آپ مس فٹ لگ رہا تھا۔اسی لیے کچھ دیر زبردستی وہاں بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر نانو کے کمرے میں چلی گئی۔ہائی ہیل کی وجہ سے پیروں میں شدید درد ہو رہا تھا۔ہیل اتار کر اس نے بال پونی میں قید کیے اور تبدیل کرنے کے کپڑے نکالنے لگی۔شکر ہے کپڑوں کی وجہ سے آج کچھ تماشہ نہیں ہوا۔لائے ہوئے کپڑے چھوڑ کر وہ صبح اسٹون ورک کمیض شلوار لے آئی تھی سو کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔وہ چینج کرنے جا رہی تھی جب شیری نانو کو کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔انہیں بستر پر لٹا کر وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
’’اندر کیوں آگئیں تھیں؟‘‘
’’ویسے ہی۔۔مجھے ان جیسی باتیں نہیں آتیں اور نہ ہی مجھے ان کی باتوں کی سمجھ آتی ہے۔اس لیے سوچا وقت برباد کرنے سے بہتر ادھر آکر سو جاؤں۔‘‘ اس کے انداز میں ایسی بے ساختگی اور بھولا پن تھا اکہ انہیں بے اختیار اس پر پیار آ گیا۔وہ ذیشان کے ساتھ حرا کے رشتے کی بات پر اتنا خوش تھیں کہ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہی اصل بات کی طرف آگئی تھیں۔
’’زینب نے تمہارا رشتہ مانگا ہے ذیشان کے لیے اور منصورنے سب تمہاری مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔اب بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
اس کا چہرہ ایک دم بے تاثر ہوا تھا۔نانو اندازہ نہیں کر پائیں کہ ان کی بات پر وہ دکھی ہوئی تھی یا ناراض۔۔کیوں کہ خوش تو وہ بہرحال نہیں تھی۔
’’میرا اس گھر اور اس گھر کے افراد سے جو تعلق ہے میں اسے ہی برقرار رکھنا چاہتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ مجھے کسی بھی نئے رشتے کے لیے مجبور نہ کیا جائے‘‘آہستگی سے کہہ کر اپنے کپڑے اٹھاتی وہ تبدیل کرنے چلی گئی۔
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ خوب سارا رو لے۔خوشیوں کی دستک پر اس نے دروازہ تو بند کر لیا تھا لیکن اب محبت کی صدا پر کان کیسے بند کرے؟ذیشان کوئی ہیرو نہیں تھا۔عام سی شکل و صورت والا عام سا لڑکا تھا۔۔۔۔اور باسط جیسے خوش شکل کے سامنے کچھ زیادہ ہی عام لگتا تھا۔اب یہ تو حرا جانتی تھی یا اس کا خدا کہ وہ اس کے لیے کتنا خاص تھا۔ انجان دیس میں نظروں سے چھلنی کرتے لوگوں میں وہی تو تھا جو خاموش آنکھوں سے اس کی مسیحائی کرتا تھا۔اتنے پتھر لہجوں میں اکیلا پھول برسانے والا بھی خاص نہ ہوتا تو کون ہوتا؟وہ ان عام سی آنکھوں سے جھلکتے پر خلوص محبت کے جذبوں کی اسیر ہوئی تھی۔۔۔اور اب جب دل میں چھپی دعائیں مستجاب ہونے کا وقت آیا تھا تو اس نے خود انکار کر دیا تھا۔عبدالباسط سے اسے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔اس رات اس نے واپسی کی تیاری شروع کر لی تھی۔پاپا کو کوئی کام تھا جس کی وجہ سے انہیں آج ہی واپس جانا پڑ گیا تھا اور اگر نانو اس سے پہلے بات کر لیتیں تو یقیناًوہ بھی ان کے ساتھ ہی چلی جاتی۔بے دلی سے ولیمے کی تقریب دیکھ کر جب علیشہ کو گھر لے کر آئے تو اپنا مختصر سامان اٹھا کر نانو کو اللہ احافظ کہتی وہ وہاج ہاؤس سے باہر نکل آئی تھی۔پاپا سے کہہ کر اس نے گاڑی منگوا لی تھی۔باہر آکر اس نے گاڑی کی تلاش میں نظر دوڑانا شروع کی ہی تھی جب سیاہ وٹز اس کے عین سامنے آکر رکی۔
’’زیادہ وقت نہیں لوں گا بلکہ اگر کہیں گی تو آپ کو گھر تک چھوڑآؤں گا۔پلیز بیٹھیں‘‘
ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر گاڑی کا اگلا دروازہ کھولے ذیشان اس احترام سے کہہ رہاتھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم آگے بڑھ گئے۔اس سے بیگ پکڑ کر اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر رکھ دیا اور آ کر اس کے برابر بیٹھ گیا۔تار کول کی سیاہ سڑک پر گاڑی انجان منزلوں کی طرف چل پڑی۔خاموشی بڑی خاموشی سے ان کے ساتھ ساتھ تھی۔پہلے تو وہ چپ چاپ اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی لیکن جب کافی دیر تک وہ کچھ نہیں بولا تو خود ہی بات شروع کی۔
’’آپ کیوں آئے ہیں؟‘‘
’’یوں ہی۔۔۔‘‘ اس نے سرسری سا جواب دیا۔
’’ انکار کی وجہ جاننے آئے ہیں؟‘‘
’’نہیں انکار کو اقرار میں بدلنے‘‘ایک گہری نظر اس پر ڈال کر اس نے جواب دیا۔حرا نے دل مضبوط کیا تھا۔وہ کسی کو کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی اسی لیے خاموشی سے نکل رہی تھی۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’جب تک ڈاکٹر کو مرض نہ بتائیں وہ کس بیماری کا علاج کرے گا؟‘‘
’’ڈاکٹر قابل ہو تو مرض کی تشخیص بھی خود ہی کر لیا کرتا ہے۔‘‘
’’او کے۔۔اب سیدھی بات۔۔‘‘گاڑی اس نے ایک جگہ روک دی تھی۔’’اگر آپ باسط کے لگائے الزامات کی وجہ سے انکار کر رہی ہیں تو یقین کریں جتنا آپ کو ان کے جھوٹے ہونے کا پتا ہے ہم سب کو بھی آپ پر اتنا ہی یقین ہے۔تائی ثروت کے سامنے اس نے خود مانا ہے کہ وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزام تھے۔ماما نے خود سنا تھا ‘‘اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ کر کے زینب نے ذیشان سے بھی ان باتوں کا ذکر کیا تھا۔وہ اسے یہی تاثر دے رہی تھیں کہ باسط کی باتوں کی وجہ سے وہ اس رشتے سے انکاری تھیں۔
’’حرا۔۔آپ بے فکر رہیں میرے لیے میری خوشی اور چاہت سے بھی اہم آپ کی عزت ہے اور میں کیا یہاں سب ہی آپ سے محبت کرتے ہیں آپ کی عزت کرتے ہیں‘‘
اپنے ہاتھوں پر نظر جما کر بیٹھی حرا حیران ہوئی تھی۔اس نے تو آج تک خود سے بھی اعتراف نہیں کیا تھا کہ باسط کی باتوں سے دلبرداشتہ ہے۔وہ ان لوگوں کے ساتھ چار دن بھی اس الزام کے ساتھ نہیں رہ سکی تو عمر بھر کیسے رہ سکتی تھی۔وہ اعتراف کرتی بھی کیسے؟ اس کا ضمیر اسے ملامت نہ کرتا کہ وہ جو کردار کی بات پر لڑنے کو حق سمجھتی ہے وہ ایسے کیسے سب چھوڑ کر جا سکتی ہے۔
’’آپ کوان سب کی محبت اور عزت کا احساس کبھی نہیں ہوا؟‘‘
’’احساس ہے تب ہی تو میں بھی پیار کرتی ہوں‘‘ اس نے آہستگی سے جواب دیا۔نظریں اب بھی اپنے ہاتھوں پر تھیں۔
’’اور مجھ سے ؟‘‘
’’آپ سے بھی۔۔۔۔‘‘ بے ساختہ روانی میں کہہ کراس کی شرارت سمجھ آنے پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔وہ کھل کر ہنسا تھا اور اس کی ہنسی سے حرا بری طرح جھینپ گئی۔اس کا جھکا سے مزید جھک گیا۔اس کے شرمانے کا منظر ذیشان نے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔اس نے ہمیشہ اسے پر اعتماد اور سر اٹھا کر بات کرتے دیکھا تھا۔سواس کے لیے اس کے یہ انداز غیر متوقع تھا۔
’’آپ شرماتی بھی ہیں؟‘‘ اس کے شرمانے سے وہ شوخ ہوا تھا۔
’’کیوں ؟پر اعتماد لڑکیاں بے شرم ہوتی ہیں؟‘‘وہ سر اٹھا کر فوراََ بولی تھی۔اس کی حاضر جوابی سے ذیشان بہت محظوظ ہوا تھا۔دونوں کا مشترکہ قہقہہ ہواؤں میں مہکا تھا۔آسمان پر چاند نے ان کی نظر اتاری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرا کا اقرار نے گھر بھر میں برقی رو دوڑا دی تھی۔ابھی تو علیشہ کی شادی کا ہنگامہ تھما تھا کہ ایک اور شادی۔۔۔ارے بھئی نکاح ہی تو شادی ہوتی ہے نا۔علیشہ تو اتنی خوش ہوئی تھی کہ نئے نویلے دولہے کا بھی لحاظ کیے بغیر اسے بانہوں سے پکڑ کر گھما دیا تھا۔اگرچہ پاپا نے ایک دو بار اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ کیا تھا اگر چند دن پہلے یہ معاملات طے پا جاتے تو علیشہ کے ساتھ ذیشان کی بھی شادی کر دی جاتی لیکن علیشہ خوش تھی کہ بھائی کی شادی اس کی شادی کے ساتھ نہیں رکھی گئی ورنہ اپنے اکلوتے بھائی کی شادی اس نے خاک انجوئے کرنی تھی۔ثروت اور باسط کے علاوہ سب ہی خوش تھے۔ثروت پر تو یہ خبر بجلی بن کر گری تھی۔ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی ہاتھ سے سب نکل جائے گا۔ان کے لیے تو دوہرا صدمہ تھا۔وہ سبین کے لیے ذیشان کا سوچے بیٹھی تھیں۔اس بات کو بھلا کر کہ نند نے منہ سے کہا تھا علیشہ کا باسط کے لیے دیکھ لیں گھر کی بچی گھر میں رہ جائے گی۔علیشہ انہیں خود ہی پسند نہیں تھی سو انہوں نے اس بات کو آگے نہیں بڑھایا۔حرا کی جگہ کوئی اور ہوتی تو شاید ان کو اتنا دکھ نہ پہنچتا۔حرا تو انہیں بھی پسند تھی اور اب تو باسط بھی رضامندی دے چکا تھا۔اور باسط۔۔۔۔۔۔اسے حرا سے محبت تھی یا نہیں اس بات کا فیصلہ وقت پر بھی چھوڑ دیا جائے تو فی الحال وہ اس کی شدید ترین خواہش تھی۔وہ خواہش جو تشنہ رہ گئی تھی۔نا آسودہ خواہشیں شدید نہ بھی ہوں تو دل سے نکلنے میں وقت لیتی ہیں۔اب تو حرا کو رہنا بھی اسی گھر میں او ر اس کی نظر کے سامنے تھا۔یہ نامکمل خواہش اس کی ہار تھی اور ہار قبول کرنا کم از کم اس کے لے اتنا آسان نہیں تھا اس لیے کسی کے بھی علم میں لائے بغیر اس نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر میں کروا لی تھی۔ابھی تک کے لیے وہ اتنا ہی کر سکتا تھا۔ بہت جلد اس نے ملک سے باہر جانے کا بھی ارادہ باندھ لیا تھا۔حرا سے نفرت کے ساتھ رہنا اس کے لیے ذیادہ آسان تھا۔کاش وہ اس کے لیے قابل نفرت ہی رہتی۔کاش اس کے احساس اس کے لیے نا بدلتے۔کاش اس نے ماما سے بات نہ کی ہوتی۔لاتعداد کاش تھے جو اس کی زندگی مشکل بنا رہے تھے۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی جادو کے زور پر خود کو غائب کر لیتا۔کچھ خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو جتنے بھی مختصر ہوں تاوان میں پوری عمر لگ جاتی ہے۔حرا کی محبت بھی اس کے لیے وہی خواب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منصور احمد کے لاکھ انکار پر بھی نانو نے ان کی ایک نہیں چلنے دی اور حرا کے نکاح کی تقریب وہاج ہاؤس میں ہونا قرار پائی۔اصل میں ذیشان چاہتا تھا کہ نکاح کسی میرج ہال یا کہیں بھی اور نہ ہو بلکہ اس پاکیزہ رشتے کی بنیاد اس گھر میں ہی رکھی جائے تا کہ محبت کو امر کرتے ان لمحوں کو وہ جب چاہے کھلی آنکھوں سے جی سکے۔نانو نے جس طرح حرا کا انکار سب سے خفیہ رکھ کر اس سے بات کی تھی اور پھر اسے منانے اس سے بات کرنے کا موقع فراہم کیا تھا اسی طرح وہی اس وقت بھی اس کے کام آئیں۔اپنی بیماری کا بہانہ بنا کر انہوں نے سب کو چپ کروا دیا تھا اور اس طرح ایک بار پھر لان کو نئے سرے سے آراستہ کیا گیا تھا۔اس تقریب میں صرف قریبی رشتہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ارادہ تھا کہ رخصتی پر سب کو اکٹھا کر لیا جائے گا۔سو روشنیوں میں نہائے لان میں چند گنے چنے مہمانوں کی موجودگی میں ٹی پنک میکسی میں ملبوس دلہن بنی حرا کے جملہ حقوق ذیشان حیدر کے نام لکھ دیے گئے تھے۔
گلابی رنگت والی کانچ کی گڑیا ذیشان کی پر شوق نگاہوں سے بری طرح شرما رہی تھی۔اس نے وہاں سب کے سامنے کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔تب ہی ماموں کے کہنے پر اسے کھانا کھلانے کے لیے سبین اسے اندر لے جانے کے لیے آگئی۔بھاری زیور اور بڑے سے دوپٹے کے ساتھ کام والی میکسی اور اس پر اس کا میک اپ۔سب سے بڑھ کراس کی ہیل۔۔۔دلہناپے کے روپ سے الجھتے وہ اٹھی تو اس کی نظر دو قدم دور ہونٹوں میں دبی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ذیشان پر پڑی۔جلدی سے نظر جھکا کراس نے تیزی سے قدم بڑھائے اور بری طرح لڑکھڑا گئی۔اس کا ہاتھ سبین کی گرفت سے نکل چکا تھا۔عین ممکن تھا کہ وہ دلہن بنی زمین بوس ہو جاتی ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا آگے بڑھ کر ذیشان نے اسے سنبھال لیا۔قریب سے ہی ’’اوووووو‘‘ کی آواز بلند ہوئی۔ہونٹ کاٹتے وہ اپنے میکسی سیٹ کرنے لگی۔سبین اس کے پیچھے کھڑی اس کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی جب سب کی نظر بچا کر ذیشان اس کے قریب ہوا۔
’’آپ ٹراؤزر شرٹ ہی پہنا کریں پھر مجھے بھی آپ کے پیچھے بائیک پر بیٹھنے میں آسانی ہوگی۔ایسے کپڑے کمرے تک کے لیے رکھ لیتے ہیں تا کہ جب بھی گریں مجھ پر ہی گریں‘‘ اس کی شوخ نگاہیں حرا کی آنکھوں میں محبت نامے لکھ رہیں تھیں۔حرا کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا تھا۔اسی وقت فریال نے ہاتھ میں پکڑے کیمرے سے اس خوبصورت لمحے کا عکس قید کر لیا تھا۔محبت نے سنہری خوشبوؤں کی رہگزر پر قدم رکھ دیے تھے جہاں لمحہ لمحہ خوشیوں کے چراغ روشن تھے۔
ختم شد