یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ گھر میں تین تین گاڑیاں ہیں اور ہمیں بازار لے جانے کے لیے ایک بھی میسر نہیں۔ سیزن ختم ہو رہا ہے۔ کیا سیلز لگی ہیں مال پہ۔‘‘ چشم تصور سے کھوئے کھوئے فریال بول رہی تھی۔
’’کونسی سیلز۔‘‘ یہ حرا کے علاوہ کون ہو سکتا تھا۔ ایک وہی تھی جسے ان لڑکیوں اور لڑکیوں کے موضوعات کا پتا نہیں تھا۔ اب سیلز کے بارے میں بھی اس کا نالج صفر نکل آیا تھا۔علیشہ ، سبین سمیت سب نے قدرے افسوس سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’ کیسی سیلز۔ کوئی بتائے بھی۔‘‘
’’کپڑوں کی،جوتوں کی۔۔میں نے توپاکٹ منی بچا بچا کر کافی پیسے اکٹھے کر رکھے ہیں۔سوچا تھا آف سیزن میں جی بھر کر شاپنگ کر لوں گی،اچھی ورائٹی پرففٹی سیونٹی پرسینٹ ڈسکاؤنٹ مل جاتا ہے۔‘‘ رابی کو بھی افسوس ہو رہا تھا۔
’’تو اب مسئلہ کیا ہے؟‘‘ حرا نے نا سمجھی سے پوچھا۔
’’لے کر کون جائے ہمیں؟ باسط ویسے ہی شہر سے باہر گیا ہے۔۔۔‘‘
’’وہ اگر ادھر ہوتا بھی تو کون سا لے جاتا‘‘ علیشہ نے منہ بنا کر بات کاٹی۔
سبین نظرنے انداز کر کے بات مزید آگے بڑھائی۔’’شیری کو گاڑی کوئی دیتا نہیں۔ذیشان پاپا سے گاڑی لے کر لے تو جاتا ہے لیکن اسے خود بخار ہے۔‘‘
’’وہ تو نہ ہی لے کر جائے۔اتنی جلدی مچاتا ہے جیسے صدر پاکستان کے ساتھ شاپنگ جا کر ان کا وقت برباد کر رہے ہوں‘‘ علیشہ کسی سے بھی راضی نہیں تھی۔
’’پھر بھی اسی کا حوصلہ ہے جو ہر بار ساتھ چلنے کو تیار ہو جاتا ہے‘‘ فریال بھائی کے بارے میں چپ کر کے کیسے کچھ سن لیتی۔
’’جو بھی ہے اگر اس ہفتے نہیں تو پھر میں نے جانا ہی نہیں ساری اچھی چیزیں تو پہلے ہفتے ہی نکل جاتی ہیں‘‘ سبین کا موڈ واقعی آف ہو گیا تھا۔حرا حیران ہوئی تھی۔توکیا سچ میں ان چیزوں کی اتنی ہی اہمیت تھی کہ نا ملنے پر افسردہ ہوا جائے۔
’’تو تم سب میں سے کسی کو گاڑی چلانی نہیں آتی؟‘‘ کچھ سوچ کر اس نے کہا تھا۔
’’نہیں۔۔اور اگر آتی بھی تو ہمیں کون سا کسی نے گاڑی دے دینی تھی‘‘
’’ لو سب سو رہے ہیں لے کر چپکے سے نکل جاتے اور کسی کے بھی جاگنے سے پہلے واپس آ جاتے‘‘
’’ویری فنی۔۔گیراج میں ذیشان کی کھٹارا بائیک کھڑی ہے۔گاڑی تو بس باسط ،پاپا اور بڑے پاپا کے پاس ہے‘‘ علیشہ نے بے زاری سے جواب دیا۔وہ اس موضوع سے بیزار ہونے لگی تھی۔
’’ویسے اگر کوئی ایک جا کر سب کے لیے کچھ لے آئے تو وہ کون ہو گا؟‘‘ سوچتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب مجھے بائیک کی چابی اور ہیلمٹ لا دیں اور کوئی ایک میرے ساتھ چل کر سب کے لیے شاپنگ کر آئے‘‘سب کے چہرے باری باری دیکھتے اس نے بم پھوڑا تھا۔
’’کیا؟؟‘‘ مشترکہ چیخ گونجی تھی۔
’’تم بائیک چلا لیتی ہو؟‘‘ سبین سب سے پہلے ہوش میں آئی تھی۔
’’ہاں چلا لیتی ہوں اور اب اگر جانے کا موڈ ہو تو چابی اور ہیلمٹ لے آئیں۔۔اور یہ بھی طے کر لیں کہ میرے ساتھ جائے گا کون؟‘‘
’’میں چلوں گی۔۔‘‘علیشہ کا بھی سکتہ ٹوٹا تھا۔‘‘ فریال جا کر ذیشان کے کمرے سے چابی اور ہیلمٹ لے آؤ،میں چینج کر کے آئی‘‘
’’مم۔۔میں؟؟ اگر بھائی اٹھ گئے تو میں کیا کہوں گی؟‘‘
’’گولی نہیں مارے گا تمہیں۔۔دوائی کھا کر سویا ہے اتنی جلدی نہیں جاگے گا‘‘بادل نخواستہ فریال کو اٹھنا ہی پڑا۔’’بتا رہی ہوں لا دیتی ہوں پر رکھنے میں نہیں جاؤں گی‘‘
جب تک وہ چابی اور ہیلمٹ لے کر آئی علیشہ بھی آ چکی تھی۔
’’تم چلا لیتی ہو بائیک‘‘ دروازے کے پاس کھڑے ہو کر علیشہ نے ایک بار پھر یقین دہانی چاہی۔
’’اند چل کر پہلے میرا انٹرویو لے لیں تب تک سب اٹھ جائیں گے۔اور بازار جانا کینسل ۔ اب جانا ہے تو بیٹھ جائیں‘‘
’’اف لڑکوں والے تیور‘‘ علیشہ ہنسی۔
یہ اس کی زندگی کی سب سے یادگارشاپنگ ہونے والی تھی۔مردانہ کپڑوں پر ہیلمٹ پہنے وہ واقعی کسی لڑکے سے کم نہیں تھی۔ہواؤں سے باتیں کرتی بائیک پر علیشہ اس سے چمٹ کر بیٹھی بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔آس پاس کے لوگ شاید اسے پاگل ہی سمجھ رہے تھے۔وہ بے پرواہ اور مست تھی۔خود حرا کو ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی قید سے رہائی ملی ہو۔جب وہ گھر پہنچے تو یہ پہلی دوپہر تھی جب نیند کی پیاری رابی بھی پوری آنکھیں کھولے ان کی منتظر تھی۔
’’سچ اتنا مزہ آیا۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے میں ہیلی کاپٹر میں بیٹھی ہوں۔‘‘ خریدے گئے لان کے دوسوٹ سامنے رکھے وہ ان سب کے شوق کو ہوا دے رہی تھی۔
کب اور کیسے سیکھی بائیک؟کس سے اور کیوں ؟ جیسے سوال کر کر کے وہ اس کا سر کھا رہی تھیں۔حرا منصور مسکرا رہی تھی۔وہ جانتی تھی وہ بتا بھی دے تو کون سمجھ سکے گا۔۔ماہ جبین نے مردوں کے معاشرے میں بیٹی کو تر نوالہ بننے کے لیے نہیں چھوڑا تھا۔ اس کا لباس ہی نہیں اس کی تربیت بھی وہ لڑکوں جیسی ہی تھی۔جبین نے اسے مضبوط رہنا سکھایا تھا۔خو دپر اعتماد اور کسی پر انحصار نہ کرنا سکھایا تھا۔اکیلی عورت اور پری جمال لڑکی۔۔۔۔معاشرے کے گدھ نوچ نہ کھاتے؟
وہ ابھی سکول میں تھی جب اسے کراٹے سکھائے تھے۔وہ بلیک بیلٹ تھی۔۔۔ماں کا خیال نہ ہوتا تو کئی بار بین الاقوامی مقابلوں کے لیے نامزد ہوئی تھی،ضرور جاتی۔ایک تو ماں کا خیال اور دوسرا یہ سب اس کی حفاظت کے لیے تھا اس نے اسے کیرئیر نہیں بنانا تھا۔ جبین کو ہسپتال لے جانے میں تنگی ہوتی تھی۔سر د گرم موسموں میں رکشوں کے دھکے،وقت کا ضیاع۔۔تب اس نے بائیک سیکھ لی تھی۔جبین نے کمیٹی ڈال کر اسے بائیک لے دی تھی۔مردانہ لباس اور ہیلمٹ سے وہ لڑکا ہی نظر آتی تھی۔مرتے مرتے جبین اسے اس معاشرے میں جینے کا ہنر سکھا گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو کا وقت تھا۔اندھیرے نے ہر خوش رنگ منظر کو سیاہی کا ایک دھبہ بنا ڈالا تھا۔وھاج ہاؤس کے باسی خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے لیکن کوئی تھا جو رات کے اس پہر گھٹ گھٹ کر رونے پر مجبور تھا۔گھٹنے سینے سے لگائے کروٹ پر لیٹی حرا بے آواز رو رہی تھی۔شام میں لاؤنج میں ہونے والی گفتگو اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔کیاتھا اگر وہ اتنی ہی لا علم ہوتی جتنا اسے ظاہر کرنا پڑ رہا تھا۔
علیشہ کا رشتہ پکا ہوا تھا اور گھر کے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے مامی کو باسط کی شادی کا بھی خیال آ گیا۔ باسط کے لیے انہوں نے حرا کی بات کی تھی۔باسط جو دوست کے ساتھ ڈنر پر جانے کے لیے نکل رہا تھا ان کی بات سن کر لاؤنج میں ہی چلا آیا تھا۔حرا کچن سے چائے بنا کر لا رہی تھی جب اس نے باسط کی آواز سنی۔آواز تھی یا صور اسرافیل۔۔وہ اپنی جگہ پر ہی سن ہو گئی تھی۔
’’علیشہ والا واقعہ آپ بھول گئیں؟شیری پر ڈورے ٹالتے میں نے اسے دیکھا ہے اور ذیشان کے ساتھ اس کے مراسم۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں بھول سکتا۔کم از کم لڑکی کے پاس کردار تو ہونا چاہیے۔اس لیے ایسا سوچنے کی غلطی بھی مت کیجیے گا۔‘‘
کوئی آسمان تھا جو سر پر گرا تھا۔۔کیسے بے بنیاد الزام لگا تھا اس پر۔علیشہ والا معاملہ تو اپنی دانست میں وہ ختم کر چکی تھی۔آج پتا چلا کہ اس کا دامن تو ابھی بھی داغدار ہی تھا۔۔۔اور شیری۔۔ وہ تو چھوٹا،بلکل چھوٹا سا بھائی تھا اس کا ۔اوہ میرے اللہ۔کون تھا کون نہیں تھا اسے کچھ پتا نہیں تھا۔کس نے کیا کہا کیا سنا وہ نہیں جانتی۔وہ چپ چاپ کمرے میں آ کر سوتی بن گئی تھی۔
یہ سچ تھا کہ ذیشان کے نرم لہجے اور پر شوق نگاہوں سے وہ بہت پہلے اس کے دل کا حال جان گئی تھی اور یہ بھی سچ تھا کہ اس نے کبھی اس کے جذبوں کی پزیرائی تو کیا اسے اس بات کا احساس بھی نہیں دیا تھا کہ وہ اس کی ہمراز ہو چکی ہے۔اگر وہ اسے خاموشی سے چاہ رہا تھا تو یہ اس کا اپنا فعل تھا اور وہ کیوں کسی کے فعل کے لیے جواب دہ ہوتی۔ اس نے پہلا فیصلہ ہی غلط کیا تھا سو اب سدھارنا بھی اسے ہی تھا۔بہت رو چکی تھی وہ پر اب نہیں۔چپکے سے اٹھ کر اس نے نانو کا فون اٹھایا اور مناسب الفاظ کے انتخاب سے ایک پیغام لکھا،ذہن نشین نمبر کو ایک بار دل میں دہرایا اور آنکھیں بند کر کے بھیج دیا۔بھیجا گیا پیغام مٹا کر فون اس نے واپس رکھ دیا تھا۔دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔’’اب اگر جواب نا آیا تو؟ ‘‘ اس سوچ نے معدے میں کھلبلی مچا دی تھی۔ساری رات اس نے انگاروں پہ گزاری تھی۔صبح نانو نے اس کے بھاری پپوٹے دیکھ کر پوچھا تو اس نے سر درد کا بہانہ بنا کر ٹال دیا۔اس نے جھوٹ نہیں بولا تھا۔ساری رات جاگنے اور رونے کے بعد واقعی اس کا سر کسی پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔نانو اندازہ نہیں کر پائیں کے اس کی طبیعت سچ میں ٹھیک نہیں یا بات کچھ اور ہے۔کل شام لاؤنج میں جو بھی ہوا وہ سب جانتی تھیں۔وہ وہیں موجود تھیں۔حرا کی عدم موجودگی پہ انہوں نے شکر ادا کیا تھا۔وہ کچن میں تھی اور پھر بعد میں کسی وقت آ کر لیٹ گئی تھی۔شاید واقعی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی۔اس نے کچھ نہیں سنا،اسے کچھ نہیں پتا۔انہوں نے خود کو تسلی دی تھی اور یہ تسلی انہیں پارک میں بیٹھے ہوئے بلکل جھوٹی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ ٹریک پر پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی۔صبح کی خنک ہوا میں بھی اس کا وجود پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا پسینہ بن کر بہہ جانے کا ارادہ ہو۔اوائل سرما کا سورج اونچا ہو کر اس پاگل لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔اس دائروی ٹریک پر بھاگتے وہ زندگی کے دائرے سے نکلنے کی کوشش میں تھی۔بے تحاشا بھاگنے کے بعد بھی وہ اسی مقام پر آجاتی تھی جہاں سے آغاز کیا تھا۔۔چہرے پر سخت پتھریلے تاثرات لیے بے نیازی سے وہ بھاگتی ہی چلی جا رہی تھی۔
’’میرے اللہ۔۔۔‘‘ گالوں پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ نانو نے بے اختیار اللہ کو پکارا تھا۔تھکے جسم نے ساتھ دینے سے انکار کیا تو شل ٹانگوں کے ساتھ وہ نانو کی طرف آ گئی۔دونوں کے درمیان کیسے خاموش معاہدہ تھا کچھ نہ پوچھنے اور کچھ نہ بتانے کا۔
چوڑی طویل گھر کو جاتی سڑک مڑتے ہی حرا کی نظر مین گیٹ کے سامنے بائیک پر بیٹھے ذیشان پر پڑی۔اس کے پاس ایک لڑکا کھڑا تھا جس کے چہرے پر سیاہ ماسک تھا۔قریب ہی ایک اور لڑکا ایسے ہی سیاہ ماسک میں بایئک پر بیٹھا تھا۔اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ۔اور توکچھ سمجھ نہیں آیا اس نے پولیس پولیس کا شور مچا دیا جس سے بد حواس ہو کربائیک پر بیٹھے لڑکے نے ذیشان پر گولی چلا دی۔نانو کو وہیں چھوڑ کر وہ چیختی ہوئی ذیشان کی طرف بھاگی۔پاس کھڑا لڑکا بھی بائیک پر بیٹھ چکا تھا۔ہوا کی رفتار سے بائیک اڑاتے وہ اس کے سامنے سے گزرے تھے۔اس کے ذیشان تک پہنچنے تک تائی زینب بھی شورسن کر باہر آئی تھیں۔وہ ذیشان کو آفس سے روکتے روکتے دروازے تک آئیں تھیں۔ اس کا بخار ابھی بھی اترا نہیں تھا اسی لیے وہ اسے منع کر رہی تھیں۔ابھی وہ اندر بھی نہیں پہنچی تھیں جب حرا کی چیخوں نے دہلا دیا تھا۔باہر نکلتے ہی خود ان کی بھی چیخیں نکل گئی تھیں۔ذیشان خون میں لت پت پڑا تھا۔حرا اس کا سر بازو پر رکھے زور زور سے چلا رہی تھی۔
’’شیری ۔۔شیری باہر آؤ۔ذیشان اٹھیں ۔۔آنکھیں کھولیں ہم آپ کو اسپتال لے جا رہے ہیں۔‘‘اس کے آنسوؤں نے ذیشان کا بھی چہرہ بھگو دیا تھا۔پوری ہمت سے ذیشان نے آنکھیں کھول کر اس پری وش کو دیکھا۔اس کے بعد اس کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں۔زینب اس کا چہرہ تھپتھپا رہی تھیں۔گھر میں موجود سب افراد باہر نکل آئے تھے اور بد قسمتی سے ان میں گھر کا کوئی مرد شامل نہیں تھا۔
’’شیری کہاں ہے؟‘‘
’’وہ تو کالج چلا گیا ۔۔مم۔۔ میں ایمبولینس کال کرتی ہوں‘‘ سبین اندر بھاگی۔
’’رکو ۔۔رکو باہر آؤ۔بہت خون بہہ رہا ہے۔‘‘ سینے میں گولی لگی تھی جبکہ بائیک سے گرنے کی وجہ سے سر گیٹ کے پہلو میں کھڑے ستون سے جا ٹکرایا تھا۔خون بے تحاشا بہہ رہا تھا۔وہ مضطرب سی اٹھی۔’’آپ مل کر انہیں بائیک پر بٹھائیں۔علیشہ تم سنبھال کر بیٹھ جانا میں بائیک پر لے جاتی ہوں‘‘ مامی سمجھ رہی تھیں وہ اپنے حواسوں میں نہیں جبکہ ابھی تو وہ حواسوں میں لوٹی تھی۔ جلدی سے اٹھ کر اس نے بائیک سیدھی کی اور بیٹھ کر ہیلٹ پہن لیا۔سب کی مدد سے ذیشان کوبائیک پر بٹھا یا گیا۔علیشہ نے اسے پیچھے سے گلے سے لگا کر قابو کر رکھا تھا۔اس کا چوڑا سینہ حرا کی پشت سے جڑا تھا۔دونوں کے لیے اس کا وزن سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا اس کے باوجود ہمت کر کے وہ اسے ایک پرائیویٹ ہسپتال لے آئی تھیں۔ اگرچہ پولیس کیس تھا لیکن پیسے کی اہمیت سے کسے انکار ہے؟
علیشہ نے سبین سے لیے فون سے گھر فون کر کے اسپتال کا بتا دیا تھا جس کی وجہ سے تھوڑی دیر میں ہی ماموں اور مامی وغیرہ آگئے تھے۔
ؔ ’’ گولی کندھا چیر کر نکل گئی تھی۔اب صرف زخم ہے جس کی پٹی کر دی گئی ہے اور سر پر لگی چوٹ سے زیادہ خون بہا تھا غالباََ اسی کی وجہ سے بے ہوشی ہوئی تھی۔وقت پر لے آنے کی وجہ سے بچت ہو گئی ہے۔ اب خطرے کی کوئی بات نہیں ۔‘‘ ڈاکٹر کے رٹے رٹائے جملے اس وقت کسی نعمت سے کم نہیں تھے۔سب نے اللہ کا شکر ادا کر کے شکریہ ادا کرنے کے لیے اسے دیکھا تھا مگر وہ وہاں تھی ہی کب؟
وہ تو ان سب کے وہاں پہنچتے ہی گھر واپس آ گئی تھی۔وجود شل اور طبیعت بری طرح مضمحل تھی۔اسے ڈھیر ساری تنہائی کی ضرورت تھی۔تھکے تھکے قدموں سے چلتے ہوئے وہ اندر داخل ہوئی۔دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ایک بار تو ٹھٹھک کر رک گئی۔
’’اسلام علیکم ! ابو‘‘ چار قدموں کا فاصلہ طے کرنے میں سانس پھولنے لگی تھی۔سامنے کھڑا شخص وہی تھا ،جس کا نام اس کے نام کی پہچان تھامنصور احمد ۔۔
سلام کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیتے ہوئے اسے پہلو سے لگایا۔نانو گنگ سی بستر پر بیٹھی تھی ۔ تو حرا منصور احمد کے زندہ ہونے سے باخبر تھی۔
’’میں تمھیں لینے آیا ہوں کتنا وقت لگے گا پیکنگ میں‘‘۔ نانو کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے نرم لہجے میں انہوں نے حرا سے پوچھا۔
’’بس پانچ منٹ‘‘ نانو سے نظر چراتے وہ اندر چلی گئی۔
حرا کی بات سے نانو کو اتنا شاک لگا تھا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے تو انہوں نے اتنے یقین سے منصور احمد سے کہا تھاکہ حرا اس کے ساتھ جانا تودور اس کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کریگی ۔ایک باپ کے ہوتے ہوئے اس نے یتیموں کی طرح زندگی گزاری تھی۔اب وہ کیسے اس باپ کے ساتھ جانے کو راضی ہو گی۔انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں تھاکہ وہ زندہ ہے۔ اور حرا جانتی ہے اور یہ بھی کہ اسی نے رات میسج کر کے انہیں بلایا تھا۔
’’مجھے معاف کیجیے گانانو میں نے کوشش کی تھی آپ کے ساتھ، آپ کے پاس رہنے کی لیکن ہر کوشش کامیاب تو نہیں ہو سکتی ناں۔‘‘اس کے لہجے میں صدیوں کی تھکن تھی۔ چند ماہ نے ہی اس لڑکی کو اتنا بے حال کر دیا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اسے روک نہ پائیں اور حرا منصور خاموشی سے ان کی زندگی سے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت پہلے ہی اس نے ماں کے دکھوں کا بوجھ بانٹ لیا تھا۔ منصور احمد کی طلب کوئی اور تھی لیکن گھر والوں نے زبردستی ماہ جبین ان کے پلے باندھ دی تھی۔ دو سال تک انہوں نے مختلف حیلے بہانے اپنے ان چاہے سسرال والوں کو تنگ کر کے رکھا۔ لیکن جانے وہ کس مٹی سے بنے تھے کہ ماہ جبین کو پھر بھی ان کے سنگ رخصت کر دیا۔ وہ نہیں جانتے تھے اس رخصتی کے لیے ماہ جبین نے کیا قیمت چکائی ہے۔ ماہ جبینکواگر ان کی دلی وابستگی کاعلم ہوتا تو شاید وہ اپنی ضد سے پیچھے ہٹ جاتیں۔ منصور احمد گھر والوں کے ہاتھوں مجبور انہیں بیاہ تو لائے لیکن بڑی مشکل سے ماں باپ کی زندگی تک اس اَن چاہے رشتے کو نبھاتے رہے۔ ساڑھے تین سال کی مختصر مدت کا یہ رشتہ ختم ہونے سے پہلے شاہینہ ان کی زندگی میں بیوی کی حیثیت سے آ چکی تھی۔انہیں لگا تھا ماہ جبین اپنے گھر لوٹ جائے گی۔ وہ نئی زندگی میں کھو کر اسے بھول چکے تھے اور بھلائے ہی رکھتے اگر شاہینہ انہیں اولاد دینے کے قابل ہوتیں۔ انہیں ما ہ جبیں کے پاس اپنی بیٹی کی یاد آتی۔ انہوں نے وہاج ہاؤس کا رخ کیا تو منہ کی کھانی پری۔ انہوں نے کچھ کہے سنے بغیر منصور احمد کو گھر سے نکال دیا تھا۔ پھر ایک اتفاق ہی تھاکہ وہ اپنے گھر اس گھر چلے گئے جہاں انہوں نے کرائے پر ماہ جبیں کو رکھا تھا۔ ما ہ جبیں اپنا زیور اور جہیز قیمتی چیز بیچ کر اس گھر کو خرید چکی تھیں۔ انہوں نے پہلی ملاقات میں ہی دروازے میں کھڑی ماہ جبیں کے پاؤں پکڑ لیے تھے۔حرا نے ماں کے پیچھے سے اس خوشحال شخص کو دیکھا تھا جس کی ایک تصویرکمرے کی دیوار پر ٹنگی تھی۔حرا کو دیکھ کر وہ ماہی بے آب کی طرح مچلا تھا لیکن ماہ جبیں نے اس کے منہ پر دروازہ دے مارا تھا۔ پھر وہ اکثر آنے لگا ۔ بند دروازے کے پارکھڑاصدائیں لگاتا وہ شخص بھکاری نہیں تھا لیکن بھکاری بن گیا تھا۔ اولاد کی خواہش کیسی ظالم تھی۔ وہ اور شادی کر لیتا لیکن شاہینہ کو اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ ماہ جبیں جس نے اتنی اذییتں اٹھائی تھی وہ اس شخص کو یہ سکون نہیں دے سکتی تھیں۔ انہوں نے حرا کو سب کچھ بتا دیا۔ اس چھوٹے سے ذہن میں ہر بات غیر جانبداری سے ڈال کر اس سے فیصلہ مانگا تھا اور اپنے حق میں جو اب سن کر آسودہ ہو گئی تھی۔انہیں یقین تھا منصور ان سے حرا کو چھین نہیں سکتا اس کے باوجود انہوں نے حرا کو ایک مرد کی طرح پالا تھا۔ نزاکت اس کے قریب بھی نہیں آنے دی تھی۔گھر کے سخت سے سخت کام کے لیے اپنے لفظوں سے ہمت دی تھی۔اس کے خود پر اعتماد کے پودے کو تناور درخت بنانے میں جان لگا دی تھی۔زمانے کے موسموں سے لڑنے کے لیے اس کا اندر مضبوط کیا تھا۔حرا ایک ایسا موم تھی جو اپنی ماں کے بنائے سانچے میں باآسانی ڈھلتا چلا گیا۔ماں کے بعد اس نے ماں کی خواہش کا احترام کرتے باپ سے دوری بنائے رکھنے کا فیصلہ کیا ۔مرنے سے پہلے ماہ جبین نے اسے منصور کا نمبر بمعہ پتا دے دیا تھا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے باپ کے پاس چلی جائے۔وہ اس وقت ان کے پاس جانا نہیں چاہتی تھی۔اس کے با وجود کئی راتیں وہ اس کارڈ کو ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی یہاں تک کے وہ نمبر وہ پتا اس کے ذہن میں محفوظ ہو گیا تھا۔منصور احمد ماہ جبین کی وفات پر شہر سے باہر تھا ورنہ عین ممکن تھا کہ وہ مرگ والے گھر میں آکر بہلا پھسلا کر اسے اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیتے۔اس نے جان بوجھ کر انہیں لا علم رکھا تھا۔اس نے اپنا فیصلہ خود کیا تھا۔اسے تسلیم تھا کہ یہ فیصلہ غلط تھا اور اب اس نے اس فیصلے کو سدھارنا تھا۔منصو راحمد اس کا باپ تھا،اسے اس کی چاہ تھی۔اس یہی بہتر لگا کہ وہ ان کے پاس چلی جائے۔ا ب اگر یہ بھی اس کا غلط فیصلہ تھا تو وہ دل و جان سے اس کے نتائج بھگتنے کو تیار تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان کو اگر علم ہوتا کہ حاثے سے حرا اس پر اپنا آپ کھول دے گی تو وہ بہت پہلے ان لڑکوں سے کہتا کہ وہ چند روپوں کے لیے آ کر اسے گولی ماردیں بلکہ وہ تو خوشی خوشی ان کی طلب پوری کر دیتا۔
اس پر جھکی روتی ہوئی حرا کے آنسو اس کے چہرے پر بھی گرے تھے۔وہ ذیشان حیدر کے لیے بے چین تھی۔ وہ اس کے درد پر روئی تھی۔ اس کے بازو پر سر رکھے اگر دم بھی نکل جاتا تو وہ یہ سمجھتا کہ اس کی زندگی نے اس کی آخری خوشی پوری کر کے اپنا حق ادا کر دیا۔ وہ گھر آیا تو پتا چلا حرا چلی گئی ہے۔ گو یا خوشیاں ذیشان حیدر کے لیے تھی ہی نہیں۔ علیشہ کی زبانی اسے وہ سب پتا چلا تھا جو تائی امی کی خواہش پر باسط نے کہا۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ باسط کے انکار پر خوش ہو یا حرا کی تزلیل پر روئے۔ علیشہ کہ منگنی والا معاملہ تو پاپا نے بند دروازے سے پیچھے ممااور اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ علیشہ نے اپنی غلطی قبول بھی کر لی تھی اور شیری۔۔۔نہیں۔ حرا منصور ایسی نہیں تھی۔ اس کا دل جانتا تھا۔ ہاں اگر اس کا نام ذیشان کے ساتھ لیا گیا تھا تو صرف وہی جانتا تھا کہ یہ سب بے بنیاد تھا۔ اسے اپنے لیے ایسے بے حال ہوئے دیکھنے سے پہلے تو وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کی حرا کی زندگی میں کوئی اہمیت ہے۔ ہو سکتا ہے یہ اس کی وہم ہی ہو۔شاید اس کی جگہ گھر کا کوئی اور فرد ہوتا تب بھی اس کا یہی رد عمل ہوتا لیکن دل تو خوش فہم ہی تھا ناں۔ اس نے انتظار کیا تھا کہ شاید زینب اس سے اس معاملے پر بات کریں۔ لیکن زینب اتنی پاگل نہیں تھیں۔ باسط جس لڑکی کو ریجیکٹ کر چکا تھا وہ اسے ذیشان کے لیے کیسے قبول کر لیتی اگرچہ ان کا دل نہیں مانا تھا کہ حرا کا شیری یا ذیشان سے کوئی ربط رہا ہو گا ۔حرا پر یقین نہ بھی کرتیں تو اپنے گھر کے بچوں پر انہیں پورا یقین تھا۔اور کچھ بھی ہو سکنے کے امکان کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے ذیشان سے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا اپنے منہ سے اقرار کر کے ان کا بھرم توڑ دے۔ ہاں یہ اور بات کہ ذیشان حیدر نے پہلی بار ماں کے سامنے اپنی خواہش سر اور نظر اٹھا کر رکھی تھی۔وہ تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔ان کے سامنے کھڑا ان کا اپنا بیٹا تھا انہیں خود کو یقین دلانا پڑا تھا۔وہ نہ تو اکھڑ تھا نہ ضدی لیکن اس کی بات میں ایک عزم تھا،التجا تھی۔انہوں نے بار بار اس کی خواہش کو رد کیا اور وہ بار بار ان کے پاس آتا رہا یہاں تک کہ الفاظ ختم ہو گئے تھے۔وہ ان کے پاس اب بھی آتا تھا لیکن اب اس کی زبان نہیں نظر سوا ل کرتی تھی۔