اب ہر صبح ناشتہ بنانے کے لیے سبین اورعلیشہ بھی آ جاتی تھیں۔سو سب مل کر ناشتہ بناتی تھیں جو ظاہر ہے جلدی بن جاتا تھا۔حرا نانو کو لے کر ہر صبح پارک میں جانے کا سوچتی لیکن ٹائمنگ ہی سیٹ نہیں ہو رہی تھی۔آج بھی وہ سب ناشتے کی میز پر تھے جب باسط سیڑھیاں اترتا ہوا نظر آیا۔غیر محسوس طریقے سے حرا کچن میں چلی گئی تھی۔
’’ارے کیا بات ہے۔۔کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا،سب لوگ ایک وقت میں میز پر اور ساری کام چور لڑکیاں بھی موجود ہیں‘‘ اسے آج اسلام آباد کام کے سلسلے میں جانا تھا اور اس کی آخری معلومات کے مطابق اس کی ماں اس وقت کچن میں ہی پائی جاتی تھی سو وہ ان سے ملنے وہیں چلا آیا تھا۔
’’بھائی۔۔۔‘‘ رابی چلائی تھی۔
’’اچھا سوری۔۔‘‘شیری کی پلیٹ سے آملیٹ کا ٹکڑا اٹھا کر اس نے منہ میں ڈالا۔
’’اب تو یہ خواب مہینہ پرانا ہو چلا اور آپ آج دیکھ رہے ہیں‘‘ سبین نے کہا۔
’’ مجھے تو کسی نے جھوٹے منہ نہیں پوچھنا تھا۔ اب واپس آ جاؤں تو میں بھی سب کے ساتھ ہی ناشتہ کیا کروں گا‘‘ اس کا موڈ خوشگوار ہوا تھا۔
اندر کھڑی حرا نے تب ہی سوچ لیا تھا کہ اب وہ کم از کم ناشتے کے وقت کچن میں نہیں آئے گی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی باسط کی موجودگی کے ساتھ اس کی غیر موجودگی کا سرا جوڑے اس لیے باسط کے آنے کے آنے سے پہلے ہی اگلی صبح ہی وہ نانو کے ساتھ پارک آگئی تھی۔آج چھٹی کا دن تھا۔پارک میں معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔اتنے دن بعد اس نے تازہ ہوا میں سانس لیا تھا۔زندگی ایسے تر و تازہ لگ رہی تھی جیسے بھیگی گھاس میں اگے ڈیزی کے سفید اور گلابی ننھے پھول۔صبح کی نرم ہوا نے ذہن و دل پہ طاری ساری کثافت کو اڑا دیا تھا۔نانو پارک میں کھیلتے بچوں کو طرف دیکھ رہی تھیں۔کچھ ہی فاصلے پر جاگنگ ٹریک تھا۔’’کتنے دن ہو گئے ایکسر سائز کیے بغیر‘‘ وہ بے اختیار ہی وارم اپ کرنے لگی۔’’نانو میں زرا ایک راؤنڈ لے کر آئی‘‘نانو نے بے توجہی سے سنا اور دیکھے بنا ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کی اجازت دی تو وہ جاگنگ ٹریک کی طرف بھاگی۔
۴۰۰ میٹر کے ٹریک پر دو راؤنڈ لگانے کے بعد ہی وہ نڈھال ہونے لگی تھی۔ٹریک کے عین بیچوں بیچ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکے ہوئے وہ سانس درست کرنے لگی۔
وہ اس سے کہیں زیادہ دوڑ لیتی تھی لیکن اتنے دن بعد اتنی سی دوڑ نے اسے بے حال کر دیا تھا۔سیاہ لائننگ والی شرٹ کی آستین اس نے ہمیشہ کی طرح کہنیوں سے زرا آگے تک تک فولڈ کر رکھی تھیں۔ گلابی چہرہ سرخ ہو کر دہک رہا تھا۔گہرے سیاہ سلکی بالوں کی لٹیں چہرے کے اطراف میں چپکی تھیں۔گہرے سانس لیتے سیدھے کھڑے ہو کر اس نے ناک پر دھرا چشمہ درست کیا اور دائیں ہاتھ سے پسینہ پونچھ کر ہاتھ جھٹکا۔ تب ہی اس کے عقب سے کسی نے کندھے پر سے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی۔بے ساختہ اس کی گردن پیچھے گھوم گئی۔
نرم سی نظروں سے تکتا ذیشان اس کے پیچھے کھڑا تھا۔’’پی لیں پانی جوٹھا نہیں ہے‘‘نظروں سے پانی کی سطح جانچتی وہ جھینپ گئی۔بڑا دلکش سا لمحہ تتلی کی رنگین اڑان بھر گیا تھا۔
ٹریک سے ہٹ کر وہ اوس میں بھیگی گھاس پر بیٹھ کر پانی پینے لگی۔اسے سچ میں اس وقت پانی کی شدید طلب محسوس ہو رہی تھی۔پانی کی بوتل منہ سے لگائے وہ سامنے جھولتے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھا ذیشان کسی وقت نظر چرا کر اسے دیکھ لیتا۔اچانک کچھ جھجھک کر اس نے حرا کی گردن کی طرف ہاتھ بڑھایا۔وہ الجھ کر خود میں سمٹ سی گئی تھی۔
اس کی شرٹ کے کالر پر گھاس کا ٹڈا تھا جو ذیشان نے پکڑ کر گھاس پر دور پھینک دیا تھا۔
’’آپ شرما رہی تھیں؟‘‘ وہ دلچسپی سے اس کے چہرے کے رنگ دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کا میرا شرمانے کا کوئی تعلق ہی نہیں تو شرمانا کیسا؟‘‘وہ حیران ہوئی ۔
’’کیا مطلب؟شرمانے کا تعلق کونسا ہوتا ہے؟؟‘‘ وہ اس سے بھی زیادہ حیران ہوا تھا۔
’’شرمانے کا تعلق کسی ایک سے ہوتا ہے،وہ ایک جو اپنا ہوتا ہے باقی تو سب سے تھپڑ کا تعلق ہوتا ہے‘‘
ا سکی بات سمجھ کر وہ بے ساختہ ہنسا تھا۔
’’مجھے لگا آپ ڈر جائیں گی‘‘
’’نہیں۔۔میں نہیں ڈرتی ان بے ضرر مخلوقات سے‘‘اسے بے اختیار ہی یاد آگیا جب گھر میں کوئی چھپکلی،چوہا یا کاکروچ آ جاتا تو ماما اسے سپرے لینے اوپر کمرے میں چلی جاتیں اور ان کے آنے تک حرا جھاڑو،وائپر یا جو بھی اس وقت میسر ہوتا،اس سے اس کا کام تمام کر چکی ہوتی۔’’میں لا رہی تھی اسپرے‘‘ وہ جتاتے ہوئے کہتیں۔اصل میں وہ بہت ڈرتی تھیں ان چیزوں سے۔
’’اور اس کے بعد سارا دن میں چھینکتی رہتی‘‘وہ لا پرواہی سے کہتی۔
’’لڑکی ہو نازک تو ہو گی ہی‘‘
’’تو آپ کو میرے لڑکی ہونے ہر افسوس ہے؟‘‘
نفی میں سر ہلاتے وہ اسے سینے سے لگا لیتیں۔
آنکھوں کی نمی نے حال دھندلایا تو شکریے کے ساتھ اس کی بوتل تھما کر وہ نانو کی طرف چلی گئی۔ذیشان کے ہاتھوں نے نرمی سے بوتل کے دہانے کو چھوا جسے کچھ دیر پہلے ہونٹوں سے لگا ئے وہ پانی پی ر ہی تھی۔وہ وہیں بیٹھا اسے جاتے ہوئے دیکھتار ہا۔آنکھوں میں بہت سے خواب تھے جن کے پورے ہونے کا خود اسے بھی یقین نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے آئے ہوئے چار ماہ ہو گئے تھے اور گھر میں آنیوالی خوش کن تبدیلیاں بھی ماموں کی نظر سے پوشیدہ نہیں تھیں۔ وہ لڑکیاں جو کمروں میں بیٹھ کر کھانا کھاتی تھیں اور ذراسی دیر پر واویلا مچا دیتی تھیں اب صبح سویرے ناشتہ بنانے میں مدد کے لیے کچن میں موجود ہوتی تھیں۔ آئے دن جن میں کپڑوں جوتوں اور فیشن پر تلخ کلامیاں ہوتی تھیں۔ اب اکٹھی بیٹھی جانے کن باتوں پر قہقے لگا رہی ہوتیں تھیں۔لاؤنج آباد ہونے لگا تھا۔ اماں جو سارا دن اکیلے رہتی تھیں اب وہ بھی ان کے درمیان موجود ہوتی تھیں۔ بچیوں کا ان کے ساتھ رویہ بھی بہتر نظر آتا تھا۔ علیشہ جو کسی کو کچھ سمجھتی نہیں تھی وہ بھی حرا کا دم بھرتی تھی۔(ماہ جبین بھی تو ایسی ہی تھی۔ جادوئی شخصیت والی۔ یہ سحر اسے اپنی ماں سے ہی ملا ہوگا) گھر کی عورتیں بھی اب تو جانے کن مسئلوں پر تبصرے کرتے پائی جاتی تھیں۔اور تو اور لڑکے بھی اب کم از کم ساتھ بیٹھے نظر آتے تھے۔ چاہے ابھی ان میں کزنز والی بے تکلفی نہیں ہوئی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ایک نیکی ہی سب الجھی ڈوریں سلجھا جاتی ہے۔ حرا وہ با برکت نیکی تھی انھیں بھی اس کے لباس پر اعتراض تھا۔ ہاں تھا۔ اب نہیں تھا۔ لاؤنج میں سب کے درمیان بیٹھی وہ کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی۔
’’ادھر آؤ میرے پاس۔‘‘ ماموں کے کہنے پروہ اٹھ کر ان کے پاس آگئی۔ ’’کوئی پریشانی ہے تو بیٹا کہو۔ اتنی اداس کیوں ہو۔‘‘
‘‘وہ۔۔۔ماموں میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ کچھ چیزیں لینی ہیں۔‘‘ قدرے سوچ کر اس نے جواب دیا۔۔۔ ’’ہاں بیٹا ضرور چلے جانا۔ بتا دینا کب جانا ہے باسط یا ذیشان تمھیں لے جائے گا۔‘‘ انہوں نے شفقت سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرا۔
’’میں تو آفس سے کسی صورت چھٹی نہیں کر سکتا۔ ذیشان سے کہیں وہ لے جائے گا اسے ،یوں بھی آپ ہیں تو اس کی جگہ کام دیکھنے کے لیے۔‘‘ موبائل کی روشن سکرین پر اگلیاں پھیرتے باسط نے قدرے تحقیر آمیز لہجے میں جواب دیا تھا جسے ماموں نے نظر انداز کر دیا تھا۔
’’چلو میں ذیشان کو بھیج دیتا ہوں۔کب جانا ہے؟‘‘بہ ظاہر لاعلم بنے ذیشان کے دل کی دھڑکن رکی تھی۔
’’کل۔۔کل چلی جاتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔ذیشان تم کل آفس سے آف لے لو۔ حرا کو گھر لے جانا‘‘
’’جی ٹھیک‘‘ اس نے فرمانبرداری سے اثبات میں سر ہلایا۔ساتھ ہی ساتھ شکر بھی ادا کیا کہ اس وقت مما نے کچھ نہیں سنا ورنہ کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کسی نا کسے بہانے اسے روک ہی لیتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹے سے گھر کی مختصر دیوار انگور کی بیل نے ڈھک رکھی تھی۔کپکپاتے ہاتھوں سے تالاکھول کر حرا اندر داخل ہوئی تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی اندر آیا تھا۔ہوا کے جھونکے نے یکدم گلے لگ کر جیسے خوش آمدید کہا تھا۔چھوٹے سے صحن کا آدھے سے زیادہ حصہ تو بیل نے ڈھک رکھا تھا۔گر د کی تہہ نے ہر چیز کو ڈھانپ رکھا تھا۔دیوار کے ساتھ ایک قطار میں پڑے گملوں پر بے وقت خزاں اتری تھی۔ایک طرف مٹیالے کپڑے سے بائیک ڈھکی ہوئی تھی۔صحن عبور کر کے چھوٹا سا برآمدہ تھا جس کا ایک حصہ کچن کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔سامنے الماری میں ترتیب سے برتن لگے تھے۔پاس ہی فریج پڑی تھی۔بائیں طرف لکڑی کا ایک تخت پڑا تھا جس پر بستر بچھا تھا۔سامنے کی دیوار پر تسبیح ٹنگی تھی۔آخر میں ایک کمرہ تھا۔ڈبل بیڈ کی طرفین میں چھوٹی چھوٹی میزیں تھیں۔سامنے کی دیوار کے ساتھ ڈریسنگ مرر پڑا تھا۔برآمدے سے ملحق دیوار کے ساتھ چائنیز صوفہ رکھا ہوا تھا جس کے سامنے شیشے کی میز رکھی ہوئی تھی۔مخالف دیوار میں ایک کھڑکی تھی جس کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔یہی وجہ تھی کہ کمرہ گرد سے اٹا پڑا تھا۔’’آپ ایک منٹ یہیں پر رکیں‘‘ اسے کمرے کے دروازے میں روک کر وہ باہر بھاگی۔واپسی پر اس کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جو وہ یقیناًجھاڑ پونجھ کے لیے لائی تھی۔وہ باہر صحن میں نکل آیا۔سرخ اینٹوں کی دیوار پر کائی جمی ہوئی تھی۔تو یہ وہ گھر تھا جہاں جبین پھوپھو نے اپنی زندگی گزاری،جہاں حرا کا بچپن کھیلا۔۔اور کون جانے کھیلا بھی تھا یا۔۔۔۔۔
’’اندر آجائیںآپ۔‘‘ حرا کی آواز سے اس کی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا۔وہ اندر چلا گیا تواسے بیٹھنے کا کہہ کر وہ خود باہر چلی گئی۔اگلے ہی لمحے وہ پھر اس کے سامنے تھی۔
’’مجھے یاد نہیں رہا ورنہ کھانے کا انتظام کر کے آتی۔اگر تکلیف نہ ہو تو کارنر شاپ سے انڈے اور کچھ چیزیں لا دیں تا کہ میں کھانا بنا سکوں۔‘‘
’’لا دیتا ہوں بلکہ اگر آپ کہیں تو ریڈی میڈ کھانے کا بھی آپشن موجود ہے‘‘
’’بلکل بھی نہیں۔آپ پہلی بار ہمارے گھر آئے ہیں اور میں آپ کو بازار کا کھانا کھلا دوں۔کبھی بھی نہیں‘‘ اس کے لہجے میں اپنے گھر کا مان تھا۔اس کا یہ انداز ذیشان کو بہت بھلا لگا تھا۔
’’ٹھیک۔۔بتا دیں پھر کیا کیا منگوانا ہے‘‘
اسے فہرست بتا کر وہ دوبارہ کمرے میں آ گئی۔سارے کمرے کو جھاڑنے کے بعد وہ ڈریسنگ مرر کی طرف آ گئی۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اگلی بار جب وہ یہاں آئے تو یہ کمرہ اسے اسی طرح ابتر حالت میں ملے اس لیے ٹوٹی کھڑکی کے آگے کارٹن لگا کر وہ مرر کو گھسیٹ کر کھڑکی کے آگے کرنے لگی۔گھسیٹتے ہوئے ڈریسنگ مرر کا ایک کونہ فرش پر پڑے چھوٹے سے کھڈے میں پھنس گیا۔اس نے کچھ زور لگا کر ڈریسنگ کو اوپر کھینچا۔تب ہی کھڑکی کا پردہ اس کے منہ پر آن گرا۔اس کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔عین اسی وقت دروازے میں ذیشان نمودار ہوا اور حرا کی نظر بھٹک کر اس کی طرف چلی گئی۔جانے کیسے اس کے ہاتھ سے ڈریسنگ کا کونہ چھوٹا اور ایک چیخ کے ساتھ وہ نیچے بیٹھ گئی۔ذیشان تیزی سے اس کی طرف لپکا۔پاؤں کو ہاتھ سے دبوچے وہ درد برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔اس کے گال آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔چشمے کے نیچے اس کی آنکھیں گلابی پڑ رہی تھیں۔چہرے پر بڑے تکلیف دہ تاثرات تھے۔ذیشان نے پاس بیٹھ کر نرمی سے اس کا پاؤں اپنی طرف کھینچا جسے اس نے فوراََ سمیٹ لیا۔
’’ادھر دکھائیں مجھے۔۔‘‘ اب کی بار اس نے سختی سے کہتے دوبارہ پاؤں اپنے سامنے کیا۔دایاں انگوٹھا پوری طرح نیلا پڑ چکا تھا۔ایک طرف سے ناخن بھی آدھے سے زیادہ اکھڑچکا تھا۔
’’سپر گرل بننا ضروری تھا کیا ؟ میں آ جاتا تو مجھ سے کہہ دینا تھا‘‘ اسے سچ میں غصہ آ رہا تھا۔اس کی سسکیاں اسے حد سے زیادہ تکلیف دے رہی تھیں۔’’اٹھیں اب ڈاکٹر کے پاس لے چلوں‘‘
’’نہیں ۔۔ہلدی باندھتے ہیں ‘‘ رندھی ہوئی آواز میں اس نے کہا تھا۔کھڑی وہ اب بھی نہیں ہوئی تھی،ہوا ہی نہیں جا رہا تھا۔چوٹ اگرچہ انگوٹھے پر لگی تھی لیکن اس وقت تکلیف پورے پاؤں میں ہو رہی تھی۔۔وہ اس کے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔پاؤں چھونے سے وہ اس کا گریز سمجھ گیا تھا اس لیے ا ب چھو نہیں رہا تھا۔کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وہ جیسے سمجھ گیا تھا۔جھک کر ایک بازو اس کی کمر کے گردحمائل کرتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔اسے سہارا دیتے ہوئے وہ بیڈ کی طرف لے جا رہا تھا۔وہ اس کے اتنے قریب تھی اس کے باوجود وہ وقت ٹھہرنے کی دعا بھی نہیں کر سکا۔اس کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو وہ دعا کرتا یہ وقت بار بار آئے۔
بہت تکلیف سے وہ بیڈ تک پہنچی تھی۔’’سائڈ ٹیبل کی دراز میں فرسٹ ایڈ باکس ہے۔ذرا پکڑا دیں مجھے‘‘پاؤں پر ابھی بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔
نشاندہی کی گئی دراز میں سے باکس نکال کر وہ اس کے پاس آ بیٹھا۔وہ اس کی پٹی کرنا چاہتا تھا لیکن اب وہ کافی حد تک خود پر قابو پا چکی تھی۔’’ایک گلاس پانی پلیز‘‘
وہ اس کے پاس سے اٹھ کر پانی لینے چلا گیا۔اس کے واپس آنے تک وہ کسی چیز سے ناخن اکھاڑ کر الگ کر چکی تھی۔چہرے پر اذیت،بھنچے ہونٹ اور آنکھوں سے بہتا پانی اسے لگا وہ اسے جانتا ہی نہیں۔
’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘ اسے شاک لگا تھا۔
’’ان کا تعلق ہمیشہ رہنے والا نہیں تھا اور جب تک رہتا تکلیف ہی دیتا۔سو اپنے لیے تکلیف کا دورانیہ مختصر کیا ہے۔‘‘انگوٹھے اور پاس پڑے ناخن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاؤں پرپٹی لپیٹتے وہ کہہ رہی تھی۔
’’میرا خیال ہے اب گھر چلا جائے‘‘ گہری سانس بھر کر اس نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا تھا۔کیا تھی یہ لڑکی۔ناقابل یقین ۔
’’ٹھیک کہا ۔کھانا توا ب میں بنا نہیں سکوں گی‘‘ وہ زبردستی مسکرائی۔
’’اتنا بھی ضبط کرنے کی کیا ضرورت ہے حرا ؟ میں جانتا ہوں آپ تکلیف میں ہیں پھر ہنسی کا تکلف کیوں؟‘‘اسے حرا کی ہنسی سے دکھ پہنچا تھا۔
’’آپ نے سنا نہیں مرہم ہر گھر میں ہو نہ ہو،نمک ہر گھر میں ہوتا ہے‘‘
’’میرے پاس آپ کے لیے مرہم ہی ہو گا،نہیں تو اتنا یقین کر لیں میں نمک پاشی کرنے والوں میں سے نہیں۔ اگر بوجھ اتنا بڑھ جائے کہ اپنا آپ دب جانے کا،کھو جانے کا خدشہ ہو تو بانٹ لینے میں کوئی حرج نہیں۔بعض اوقات جو بات ہمارے لیے بوجھ بنی ہوتی ہے سننے والا اسے آپ کے لیے ہوا سے ہلکا کر دیتا ہے۔۔۔نہ تھکائیں خود کو پلیز‘‘اس کا دھیما لہجہ،اس کے لفظ ایسے آنچ تھے جو جلاتے نہیں تھے لیکن پگھلا دینے کی صلاحیت رکھیے تھے اور کون جانے حرا منصور نے پگھلنا شروع کر دیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علیشہ کا رشتہ دیکھنے کچھ لوگ آ رہے تھے۔گھر میں اچھی خاصی رونق ہو رہی تھی۔رشتہ ماموں کے کسی دوست کے بیٹے کا تھا اور بہت امید تھی کہ رشتہ ہو جائے گا۔اسی لیے بہت اہتمام کیا جا رہا تھا۔نانو بھی ڈرائنگ روم میں مہمانوں کے ساتھ تھیں۔پاؤں میں تکلیف کی وجہ سے وہ کمرے میں ہی تھی۔درد اتنا بھی نہیں تھا لیکن مامی نے خود ہی اسے آرام کا کہہ کر باہر آنے سے منع کر دیا تھا سو ابھی وہ اکیلی نانو کے کمرے میں بیٹھی بیزار ہو رہی تھی۔بیٹھے بیٹھے اسے نیند آنے لگی تھی۔ابھی اس کی آنکھ لگی ہی تھی جب کمرے میں کسی کی موجودگی محسوس کر کے وہ اٹھ بیٹھی۔ذیشان دروازے میں کھڑا تھا اور اس کی نظریں حرا کے چہرے پر تھیں۔
’’آپ سو رہیں تھیں ،میں بس جانے ہی لگا تھا۔‘‘حرا کو لگا جیسے وہ وضاحت دے رہا تھا۔
’’سو نہیں رہی تھی۔۔ہاں بس ابھی آنکھ لگی تھی۔‘‘ معصومیت سے اس نے جیسے غلطی کا اقرار کیا۔عینک کے شیشوں کے پیچھے آنکھوں میں کچی نیند کا خمار گلابی ڈوروں کی صورت تیر رہا تھا۔وہ ہمیشہ آرگنائزڈ ہی دکھائی دیتی تھی۔چاہے رات کے بارہ کا وقت ہوتا یا صبح کے پانچ کا۔یہ پہلی بار تھا جب ذیشان نے اسے بکھری بکھری حالت میں دیکھا تھا۔پونی سے نکل کر بال بے ترتیبی سے چہرے کے گرد گرے ہوئے تھے۔شرٹ پر بے شمار سلوٹیں نظر آ رہی تھیں۔و ہ بے ساختہ ہنسا۔
’’خیریت‘‘ اس نے بایاں ابرو اٹھا کر پوچھا۔
’’وہی تو پوچھنے آیا ہو۔ ٹھیک ہیں آپ۔‘‘
’’جی ٹھیک ہوں اللہ کا شکر۔۔۔۔‘‘
’’ویسے جس بہادری سے آپ نے ناخن کو کھینچا تھا اس ظلم کی مجھے آپ سے توقع نہیں تھی‘‘ جانے شکوہ تھا یا کیا۔
’’بہادری بھی کہہ رہے ہیں اور ظلم بھی پہلے سوچ لیں آپ کو لگتا کیا ہے اور توقع تو آپ کو رکھنی ہی نہیں چاہیے، تو قعات ٹوٹیں تو بہت رکھ ہوتا ہے۔یہ بتانے ضرروت تو نہیں ناں۔‘‘
وہ پھر ہنسا۔’’میں تو سب بھول گیا ہوں۔ اب نئے سبق پڑھ رہا ہوں۔‘‘ آہستگی سے کہتے وہ واپس مڑ گیا۔ دروازے کے سامنے سے گزرتے عبدالباسط نے ایک نظر ٹھٹھک کر ذیشان کو اور ایک نظر اس کے پیچھے بستر پر نیم درازحرا کو دیکھا اور بنا کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔