اسے کیا ہوا ہے؟‘‘ نانو نے پوچھا تھا۔
’’مجھے کیا پتا‘‘ اس نے جھک کر اپنی عینک اٹھائی۔اب اسے اس ’’بہت جلد‘‘ کا انتظار تھا جس کا علیشہ کہہ کر گئی تھی۔اور یہ بہت جلد دو دن بعد آئی تھی۔وہ نانو سے گئے دنوں کے قصے سننے کے ساتھ انہیں دبا رہی تھی جب چھوٹے ماموں کمرے میں آئے تھے۔
’’علیشہ کے سسرال سے فون آیا تھا رات‘‘ ان کی آواز میں کچھ تھا جو غیر معمولی تھا۔وہ نا چاہتے بھی متوجہ ہوئی تھی۔
’’وہ کہہ رہے تھے سرمد علیشہ سے شادی پر راضی نہیں۔‘‘ ایک باپ اپنی بیٹی کے رشتہ ٹوٹنے کی خبر کس دل سے سنا رہا ہو گا،اسے اندازہ ہو رہا تھا۔
’’لیکن کیوں بیٹا؟‘‘ چند ماہ پہلے شہر کے مہنگے ترین میرج ہال میں ہوئی منگنی کی تقریب ان کی آنکھوں میں گھوم گئی تھی۔دونوں گھروں نے دل کھول کر پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا۔
مامو ں نے ایک نظر آنکھیں نیچے کیے نانو کو دباتی حرا کی طرف دیکھا تھا۔
’’وہ کہتے ہیں سرمد کہتا ہے۔۔۔۔۔وہ علیشہ سے نہیں حرا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘انہوں نے آہستگی سے اس کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
’’حرا سے؟؟‘‘ نانو بھی حیران رہ گئی تھیں۔’’حرا کو وہ کیسے جانتا ہے؟‘‘
’’یہ تو اب حرا کو ہی پتا ہو گا۔‘‘ اللہ کی پناہ کیسا الزام دیتا سرد شکستہ لہجہ تھا۔وہ سن رہ گئی تھی۔’’آپ اسے پوچھ کر بتا دیں کب تک شادی رکھیں‘‘وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’حرا‘‘ نانو کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔کتنا دکھ تھا اس ایک لفظ میں۔وہ ایک دم نیند سے جاگی تھی۔
’’علیشہ سکائپ پر اپنے منگیتر سے بات کر رہی تھی جب میں اچانک ان کے کمرے میں چلی گئی تھی۔‘‘اپنے کردار کی وکالت کتنا مشکل کام تھا اسے آج پتا چلا تھا۔اس کی بات پر ماموں کرنٹ کھا کر پلٹے تھے۔
’’میرے پاس کوئی فون،کوئی رابطے کا ذریعہ نہیں نانو یہ بات جانتی ہیں۔چوبیس گھنٹے میں ان کے ساتھ ان کے پاس گزارتی رہی ہوں۔‘‘
حیران کن بات وہ نہیں تھی۔بات تو یہ تھی کہ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ علیشہ کا سرمد کے ساتھ کوئی رابطہ بھی ہے۔وہ بھی صرف فون کال نہیں بلکہ ویڈیو کال پر۔۔۔اور یہ رابطہ کہاں تک تھا وہ خود نہیں جا نتے تھے۔میل ملاقات یا کہاں تک۔ان سے سوچا ہی نہیں گیا۔وہ تنگ نظر نہیں تھے لیکن زمانہ شناس تھے۔باہر کے حالات دیکھتے ہوئے انہوں نے بچوں کو سب سہولتیں دے رکھی تھیں لیکن ایک حد تک۔آج انہیں پتا چلا تھا کہ ان کی متعین کردہ حد تو کوئی حد تھی ہی نہیں اور کوئی حد تھی بھی یا نہیں وہ یہ جانتے نہیں تھے۔
’’میں کسی ایسے شخص کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتی جس نے محض ایک جھلک دیکھ کر اپنے سے منسوب لڑکی کے جذبات کی پرواہ نا کرتے ہوئے میرے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔باقی آپ مختار ہیں مجھے میرے نہ کردہ جرم کی کوئی بھی سزا دیں لیں،ان شاء اللہ ثابت قدم پائیں گے‘‘
ماموں بنا کچھ کہے نکل گئے تھے اور آج پہلی بار وہ نانو کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر روئی تھی۔’’مجھ سے قسم لے لیں میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔میں نے ماموں سے جو کہا ہے سچ کہا ہے۔میرا یقین کریں نانو‘‘
‘‘کچھ نہیں ہوتا میری بچی۔صبر رکھ بس صبر۔‘‘نانو نے ایک ہاتھ سے اسے مزید قریب کرتے تسلی دی تھی۔ایک عرصے سے وہ اس کمرے تک محدود تھیں لیکن انہوں نے دنیا دیکھ رکھی تھی۔گھر کے بڑوں سے لے کر بچوں تک سب کے رنگ ڈھنگ پہچانتی تھیں۔علیشہ کیا تھی اور کیسے تھی اس بات سے قطع نظر وہ جانتی تھیں حرا جھوٹ نہیں بول رہی۔
حرا کے لیے یہ رات اس گھر میں گزری ہر رات پر بھاری تھی۔آنکھوں میں نیند تو کیا نیند جیسا بھی کچھ نہیں تھا۔رہ رہ کر ماموں کا شکستہ الزام دیتا لہجہ یاد آ رہا تھا۔وہ اتنی بے اعتبار ٹھہری تھی ان کی نظر میں۔ایک چھوٹی سی غلطی کی اتنی بڑی سزا۔۔۔نہیں۔وہ ایسا نہیں ہونے دے گی۔اپنا دفاع کرنا اس کا پہلا حق تھا اور ماں کے پڑھائے اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی تھا کہ اپنا حق کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا۔
اگلی صبح ساری رات جاگنے کے با وجود وہ گزرے کئی دنوں کی طرح وقت پر کچن میں موجود تھی۔سب سے پہلے نانو کا جوس بنایا۔اس کے بعد باری باری سب کا ناشتہ بنانے لگی۔مامی کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے جیسے ہی ماموں اور باسط کا ناشتہ بنا وہ آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔اس نے جلدی جلدی کچن کا پھیلاوہ سمیٹا اور برتن دھونے لگی۔
’تائی ماں ایک کپ چائے بنا دیں،سر بہت درد کر رہا ہے۔‘‘کنپٹی دو انگلیوں سے مسلتی کچن کی میز پر آ کر بیٹھنے والی علیشہ ہی تھی۔اس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت کیے بغیر ہی آرڈر جاری کیا تھا۔
حرا نے گردن پیچھے موڑ کراسے دیکھا اور پھر سے برتن دھونے لگی۔کوئی جواب نا پا کر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔سیاہ ٹراؤزر پرنیلی چیک والی شرٹ پہنے تندہی سے برتن دھوتی وہ وہی تھی جس کی وہ شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ناک پر جمے چشمے کا فریم کانوں کے پیچھے سے بھی نظر آ رہا تھا۔اس کے جیسے خون میں ابال اٹھا تھا۔
’’اوہ۔۔۔تو غیرت نام کی کوئی چیز حرا منصور میں نہیں پائی جاتی۔کیسے تم۔۔۔۔‘‘
’’ایک منٹ۔۔‘‘انگلی اٹھا کر اس کی بات کاٹتے وہ ایک دم پیچھے مڑی تھی۔اس نے نل کھول کر ہاتھ دھوئے اور کچن ٹاول سے خشک کرتی اس کی طرف آ گئی۔تب تک پیر پٹختی علیشہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
اپنی انا کی جیت کے لیے،تسکین کے لیے ہم دوسروں کو اس وقت تنہا چھوڑ دیتے ہیں جب انہیں کسی سامع،کسی غم گسار کی صورت ہماری ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جو کندھے پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنی یقین دہانی کروا دے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔سو اپنی انا جلتے چولھے میں جھونک کر اس نے علیشہ کے لیے چائے کا پانی چڑھا دیا۔
چائے بنا کر بے جھجھک وہ اس کے کمرے میں لے آئی تھی۔وہ آنکھوں پر بازو رکھے جانے رو رہی تھی۔چائے اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی تھی۔
’’لوگ کہتے ہیں کردار پر بات آ جائے تو وہاں ہر بات ختم کر دینی چاہیے۔میں کہتی ہوں کردار پر بات آ جائے تو کھل کر بات کرنی چاہیے‘‘
’’مجھے کوئی غرض نہیں تمہارے اقوال زریں سے۔‘‘ وہ پھنکاری تھی۔
’’بلکل۔۔ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن میں ایک غلط فہمی کی وجہ سے زندگی بھر کے پچھتاوے نا لینا چاہتی ہوں نا دینا۔ماموں نے میرے کردار پر بات کی تھی ۔میں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش بھی کی تھی جو جانے کامیاب بھی ہوئی کہ نہیں لیکن میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گی ۔اس لیے کہ آپ خود سچ جھوٹ جانتی ہیں۔آپ جانتی ہیں میرا آپ کے منگیتر سے کوئی رابطہ یا رشتہ نہیں تھا اور جو آپ دونوں کے درمیان ہوا وہ بھی آپ ہی جانتی ہیں۔‘‘اس کی آنکھوں میں جھانکتے وہ اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ نظر چرا کر علیشہ نے بے ساختہ اذیت سے آنکھیں موند لی تھیں۔
’’آپ مان کیوں نہیں لیتیں کہ وہ شخص جس نے آپ کے فون پر ایک لڑکی کی محض ایک جھلک دیکھ کر آپ کی فیلنگز کی پرواہ کیے بغیر آپ سے رشتہ توڑ کراس سے رشتہ با ندھنے کا سوچا،وہ آپ کے قابل ہوہی نہیں سکتا ۔اللہ نے آپ کے لیے اس سے بہت بہتر کچھ رکھا ہو گا۔۔۔‘‘ وہ رکی۔اس کی نظریں ابھی بھی اسی پر تھیں۔’’فرض کریں اگر آپ کی شادی کے بعد میرا اس سے سامنا ہوتا اور وہ ایسا کچھ کہتا۔فرض کریں میں نہ ہوتی کوئی اور ہوتی۔فرض کریں۔۔۔‘‘
’’مجھے کچھ فرض نہیں کرنا۔خدا کے واسطے جاؤ تم یہاں سے‘‘گالوں پر بہتے سیال کے ساتھ اس نے سچ میں اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔
’’مقام شکر ہے علیشہ بی بی اللہ نے ایسے شخص کے ہاتھوں آپ کی زندگی محفوظ رکھی۔چند فیلنگز جو اس کے نام سے منسوب ہیں جھاڑ جھنکاڑ کی طرح دل کی سر زمین سے اکھاڑ پھینکیں۔میری مانیں تو سجدۂ شکر ادا کریں۔یقین کر لیں کہ وہ شخص آپ کے قابل نہیں ہے۔اپنا دل اور ذہن صاف کریں اور جب جب رونا آئے میری باتیں ذہن میں دھرا لیجیے گا۔ ‘‘ اس کا کندھا تھپتپھا کر وہ باہر چلی گئی تھی۔ اسے پتا تھا حرا غلط نہیں کہہ رہی۔ چار ماہ پہلے ان کی منگنی گھروالوں کی مرضی سے ہوئی تھی اور جب سبین سرمد کی خواہش لے کر اس کے پاس آئی تو اس نے منگنی کو جواز بنا کر دل میں چور کھڑکی کھول لی تھی۔ دن رات فون پر باتیں پھر ویڈیو کال۔ ہاں ملنے کی ہمت وہ بھی نہیں کر سکی تھی حا لا نکہ وہ کتنی بار کہہ چکا تھا۔ ناراض بھی ہوا تھا لیکن علیشہ جانتی تھی وہ یہ ہمت کبھی نہیں کر سکے گی اس لیے کبھی حامی نہیں بھری اور جب مزید نے اس سے بات کے دوران حرا کی جھلک دیکھی تو مذاق مذاق میں اس کا نمبر مانگنے لگا۔ جا پھر یہ مذاق اکثر ہی ہونے لگا۔ اتنا کہ وہ سیریس ہو گئی۔ ’’اس کے پاس کوئی فون نہیں اور میری اس کے ساتھ ایسی کوئی دوستی نہیں کہ اپنے فون پر بات کرواتی پھروں’’ کھولتے خون کے ساتھ اس نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا تھا۔
’’ہوں۔۔لڑکی کو ایسا ہی ہونا چاہئے’’ سنجیدہ سے لہجے میں کہہ کر اس نے مزید بات کیے فون کاٹ دیا۔ اور پھر اسی شام اس کے گھر سے فون آگیا۔ ’’علیشہ آذاد خیال لڑکی ہے اور سرمد کسی ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا، اسے حرا پسند ہے، اگر رشتے داری کرنی ہے تو حرا کا رشتہ دے دیں۔‘‘ ایکسٹنشن سے اس نے خود یہ الفاظ سنے تھے۔ حرا کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔ قصور تو اس کا اپنا تھا لیکن نقصان بھی تو اسی کا ہوا تھا۔ نقصان اپنے ہاتھوں بھی ہو تو تکلیف تو ہوتی ہی ہے ناں۔ اور وہ بھی ابھی اسی تکلیف کے فیز میں تھی۔ حرا ٹھیک کہہ گئی تھی۔ اسے تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ شادی کے بعد اگر یہ سب ہوتا تو واپسی ممکن ہی نہیں تھی۔ ابھی تو چار ماہ اور چند جذبوں کا ہی نقصان ہوا تھا۔ اس نے واقعی ہی دو گانہ ادا کر کے اللہ سے اپنے منفی رویے کی معافی مانگی تھی اور شکر ادا کیا تھا کہ وقت پر جان چھوٹ گئی۔
روتے روتے وہ تھک گئی تھی۔ نفل ادا کرنے کے بعد وہ اتنا پر سکون ہوئی کہ بنا کھانا کھائے سر شام ہی پڑ کر سو گئی۔اگلی صبح بڑی نکھری نکھری طلوع ہوئی تھی۔لیٹ نائٹ کالز کی وجہ سے وہ دن چڑھے تک سوتی رہتی تھی اور اب جب وہ ساری تھکاوٹ اور دل سے کثافت دور ہو چکی تھی تھی آنکھ بھی جلدی کھل گئی تھی۔منہ پر پانی کے چھینٹے مار کروہ کچن میں چلی گئی جہاں تائی اور حرا ناشتے کی تیاری کر رہی تھیں۔
’’ناک ۔۔ناک ‘‘ شہادت کی انگلی موڑ کر میز پر مارتے اس نے دونوں کو متوجہ کیا۔چہرے پر زردی لیکن ڈھیر سکون بھی تھا۔حرا سے نظر ملی تو وہ دونوں مسکرا دیں۔یہ دوستی کی ابتدا تھی۔
’’ایک کپ چائے ملے گی؟‘‘میز بجاتے اس نے پوچھا تھا۔
’’ٹھیک سات منٹ بعد کھانے کی ٹیبل پرلگے گی تب ہی ملے گی‘‘ حرا نے جواب دیا۔
’’کوئی آ رھا ہے کیا؟‘‘ تجسس سے آگے ہو کر اس نے پوچھا تھا۔تائی بے ساختہ ہنس دیں۔’’ہاں دیکھ لینا تم بھی‘‘
’’حرا تم مجھے آپ جناب مت کہا کرو اب اتنی بھی بڑی نہیں ہوں تم سے‘‘
’’اچھا نہیں کہتی۔۔ابھی تم یہ برتن اٹھا کر میز پر رکھ دو‘‘تیزی سے ہاتھ چلاتے اس نے جواب عیا تھا۔ ثروت نے ہاتھ روک کر ایک نظر اسے دیکھا تھا۔ کندھے اچکا کر ایک کرتی وہ چیزیں میز پر رکھنے لگی تھی۔ وہ غشں کھا کر گرنے کو تھیں۔ گھر کی باقی لڑکیاں کوئی کام کر دیتیں تو انہیں حیرت نہ کبھی ہوتی لیکن علیشہ۔۔۔۔۔ وہ بھی حرا کے کہنے پر ۔۔ وہ حرا جس کی وجہ سے ابھی دو دن پہلے اس کی منگنی ہوئی تھی۔
’’الہی۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے‘‘ وہ واقعی حیران ہوئی تھیں۔ حیران تو علیشہ بھی ہوئی تھی جب گھر کے مختلف کونوں سے، سیڑھیوں سے ایک ایک کر کے ساری لڑکیاں، لڑکے ناشتے کی میز پر آ بیٹھے تھے۔سب کی ٹائمنگ تھوڑے تھوڑے فرق سے تقریباََوہی تھی۔ سو اس نے باری باری سب کو قائل کر لیا تھا کہ وہ ایک وقت میں اکٹھے بیٹھ کر ناشتہ کر لیا کریں۔ باسط ذیشان اور چھوٹے ماموں ان سب میں شامل نہیں تھے۔
’’یہ کب ہوا اور کیسے‘‘ وہ کچن میں حرا کے پیچھے کھری حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
‘‘حرا ۔۔ تمھارا نام ھیرا ہونا چاہئے تھا۔‘‘نم آنکھوں سے وہ اس کے گلے لگ گئی۔
‘‘یہ کب ہوا اور کیسے۔‘‘عقب سے ابھرتی ذیشان کی آوزپر وہ دونوں الگ ہوئیں اور ذیشان کی بات پر ہنستی چلی گئیں۔
یقیناًیہ پہلی بار تھا جب حرا منصور اس گھر میں کھلکھلائی تھی اور ذیشان حیدر اس خوبصورت ہنسی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا تھا۔ آنے والی کئی راتیں اس نے اس ہنسی کے تعاقب میں گزارنی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘ حرا ۔۔۔ بیٹا ذرا میرے کندھے تو دبادو،ہر وقت لیٹے رہنے کی وجہ سے درد ہونے لگتا ہے۔‘‘
وہ دیوار گیر الماری درست کرے ہوئے رکی۔’’بس ایک منٹ نانو‘‘سارا پھیلاوہ لمحوں میں سمیٹ کر وہ ان کے پاس تھی۔
’’آپ سارا دن یہیں رہ رہ کر بور نہیں ہوتیں؟‘‘ نرمی سے ان کے کندھے بھینچتے ہوئے وہ ان سے پوچھ رہی تھی۔
’’بہت دل گھبراتا تھا شروع شروع میں۔ہمارا مشترکہ گھریلو نظام تھا۔شادی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ہر وقت آنا جانا لگا رہتا تھا۔اللہ بخشے بہت مہمان نواز تھیں میری ساس۔پھر اتنا بڑاخاندان۔۔بہت رونق ہوتی تھی ہمارے گھر میں۔بیمار ہوئی تو جیتے جی قبر جی لی میں نے۔‘‘ایک ٹھنڈی سانس بھر کر وہ خاموش ہوئیں تھیں۔
’’تو پھر آپ باہر کیوں نہیں۔۔۔‘‘اس نے سوال خود ہی ادھورا چھوڑ دیا تھا۔اگر وہ خود کہیں آنے جانے کے قابل ہوتیں تو اس ایک کمرے تک کیوں محدود رہتیں۔یہاں رہتے اسے اتنا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں کے رہنے والوں کے پاس اور تو کچھ ہو سکتا ہے لیکن ایک دوسرے کو دینے کے لیے وقت نہیں۔یوں بھی ایک بوڑھی عورت جس کی دنیا ایک کمرے اور گئے دنوں کی یادوں پر مشتمل تھی،اس سے نئی نسل کو کیا غرض ہو سکتی تھی۔ اور اس نسل کے لیے کمانے کی مشین بنے والدین کے پاس ان کے لیے وقت نکالنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا۔جنریشن گیپ کا مطلب اسے اب سمجھ میں آیا تھا۔ہم اپنی روایات کے اچھے امین نہیں کیوں کہ ہم اپنی اقدار اس صوت آگے منتقل نہیں کر سکے جیسے ہم تک پہنچی تھیں۔تب ہی تو احساس مر گیا ہم میں۔ہم اپنے بچوں کو زندگی میں کامیاب بننے کے بہت سے گر بتاتے ہیں لیکن اصل کامیابی کہیں پیچھے رہ جاتی ہے ۔وہ عجیب سی سوچوں کا شکار ہوئی تھی۔اس مسئلے کا حل اس نے یوں نکالا کہ اس شام جب ماموں نانو سے ملنے کمرے میں آئے تو نانو سو رہی تھیں، اس نے ماموں سے کہہ کر ا ن کے لیے وہیل چیئر منگوا لی تھی۔ماموں نے حیرانی سے اس لڑکی کی طرف دیکھا تھا۔ان کی ماں تھی اور دس سالوں سے بستر پر تھی جانے انہیں اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا تھا۔وہ روز رات ان کے پاس کچھ وقت گزار کر گویا اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے تھے۔آج احساس ہوا تھا کہانہوں نے کیسی سزا دیے رکھی اپنی ماں کو۔جب وہ سگی اولاد ہو کر ماں کے حقوق بھول بیٹھے تھے تو بیوی بچے کیسے ان کی ماں کی پرواہ کرتے ۔پرواہ کے لبادے میں چھپی بے پروائی جیسے لمحوں میں ہوا ہوئی تھی۔ہوتا ہے نا بعض اوقات ایک چیز روز مرہ میں شامل ہو کر اپنا احساس کھو دیتی ہے اورپھر کسی ایک لفظ،ایک اشارے سے پوری طرح جی اٹھتی ہے۔یہی ان کے ساتھ ہوا تھا۔اگلی سہ پہر وہ خود ان کے لیے وہیل چیئر لے کر آئے تھے۔نانو ایک لمبے عرصے کے بعد اس قید سے نکلی تھیں۔انہیں تو پتا ہی نہیں تھا کے یہ آزادی بھی حرا کی مرہون منت تھی۔بڑے عام سے منظر جو اب زندگی سے نکل ہی چکے تھے،ایک بار پھر لوٹ آئے تھے۔خوشی سے ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا۔دیر سے سہی پر ان کے بیٹے کو ان کا خیال تو آیا۔
ہموار سڑک پر ان کی وہیل چیئر دھکیلتے ماموں خود بہت دور تک گئے تھے۔انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود آج اس ہوا میں عرصے بعد سانس لے رہے تھے۔سورج اپنے آخری پڑاؤ کی طرف رواں دواں تھا۔پارک میں فٹ بال کھیلتے بچے جیسے ان کا بچپن تھے۔کچھ چھوٹے بچے غباروں کے ساتھ خوش ہو رہے تھے اور کچھ بچے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔یہی تو اصل زندگی تھی۔یہی تو فطری خوشیاں تھیں۔پھر وہ کیا تھا جس سے انہوں نے اپنا گھر اور زندگیاں بھر لی تھیں۔شاید ہوس اور لالچ۔۔ ان کے اندر سے ہی جواب آیا تھا۔ایک بھرپور شام اپنی ما ں کے ساتھ گزار کر وہ ہشاش بشاش گھر لوٹے تھے۔
’نانو باہر جا کر مجھے بھول گئیں نا‘‘ نانو کو دیکھ کر حرا نے مصنوعی دکھ سے کہا تھا۔
’’پتا ہے بچہ جب دنیا دیکھتا ہے تو سب بھول جاتا ہے۔میں تو اپنی زندگی گزار چکی ہوں اب تو یہ رونق میلے زندگی کا،زندہ ہونے کا احساس ہے۔اب کچھ نہیں بھول سکتی میں۔‘‘ محبت سے اپنا دایاں ہاتھ انہوں نے حرا کے سر پر رکھا۔وہ ہنس پڑی۔
’’تھینک یو حرا بیٹا‘‘ جاتے جاتے نم آنکھوں کے ساتھ ماموں اسے شکریہ کہنا نہیں بھولے تھے۔اس رات ایک عرصے بعد اس گھر کے دوا فرادسکون کی نیند سوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تھوڑا سا دائیں طرف کرو۔۔۔‘‘خوبصورت رنگوں سے مزین ایک فطری منظر کی پینٹنگ اٹھائے وہ میز پر چڑھااسے دیوار پر سیدھا لگانے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ نیچے کھڑی حرا اسے ہدایات دے رہی تھی۔ ہر بار فریم کبھی دائیں طرف زیادہ ہو جاتا تو کبھی بائیں طرف۔
’’بس آخری بار سیٹ کر رہا ہوں،ہو گیا تو ہو گیا ورنہ میں نیچے اتر جاؤں گا۔آپ خود کریں گی‘‘وہ جان بوجھ کر چڑا رہا تھا۔
’’ میں تو پہلے بھی خود ہی کرنے لگی تھی۔تمہاری ہی مردانہ انا ہرٹ ہو رہی تھی‘‘سیاہ چوڑے شیشے والی عینک ناک پر جمائے،میرون چیک والی شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے وہ بھی برابری کی بنیاد پر اسے تپا رہی تھی۔
’’ٹھیک ہے پھر اب خود ہی کریں،مجھ سے یہ لیفٹ رائٹ پریڈ نہیں ہوتی‘‘منہ بنا کر وہ میز سے نیچے اترنے لگا تھا جب میز سفید ماربل سے پھسل کر دور جا گرا اور وہ چھلانگ لگا کر بچنے کی کوشش میں اس سے آ ٹکرایا۔عین اسی لمحے باسط اندر داخل ہوا۔حرا شیری کو کندھے سے تھامے کھڑی تھی۔یہ منظر باسط کی برداشت کی حد سے بہت پرے تھا۔بجلی کی تیزی سے آگے بڑھ کر اس نے ان دونوں کو الگ کیا تھا۔
’’بھائی۔۔۔‘‘ شیری نے وضاحت کے لیے منہ کھولا تھا۔
’’شٹ اپ۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔دفع ہو جاؤ یہاں سے۔‘‘ شیری شاکڈ کھڑا تھا۔اسے وہیں کھڑا دیکھ کر وہ ایک بار پھر دھاڑا تھا۔’’سنا تم نے؟دفع ہو جاؤ یہاں سے‘‘ شیری منہ نیچے کیے اندر کمرے میں چلا گیا تھا۔
اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے باسط چلتا ہوا عین اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔’’باپ بھائی کے بغیر تم کیسے رہتی ہو گی تمہارے لباس اور رہن سہن سے اندازہ ہوتا ہے لیکن میری بہن کے ساتھ اتنا کچھ کرنے بعد میرے ہی بھائی کے ساتھ تم حیا کی حد پار کرو گی اور میں چپ چاپ دیکھتا رہوں گا یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔اب تم ایک گھر میں ہو۔گھر کا مطلب پتا ہے؟ ہم عزت دار لوگ ہیں۔یہاں رہنا ہے تو کم ازکم عزت کے معنی سیکھ لو‘‘
’’اس عزت دار گھر کی لڑکیوں کے بدن سے چپکے لباس دیکھ کر اور آپ سے بات کر کے مردوں کی ذہنیت کا اندازہ تو میں بھی لگا سکتی ہوں ،فی الحال میں ایسے کسی موڈ میں نہیں کہ یہ سب سیکھتی پھروں اس لیے اپنے سیکھنے پر فوکس کریں تو بہتر ہو گا۔‘‘ اس کے اطمینان سے کہنے پر اس کے تن بدن میں آگ سی بھر گئی تھی۔
’’لڑکی ہو لڑکی بن کر رہو،ورنہ اچھے سے دیکھ لوں گا تمہیں‘‘ اس نے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔
’’ہاں ضرور پر یہ بھی یاد رکھیے گا آپ کی بھی دو بہنیں لڑکیاں ہے،کہیں کوئی انہیں بھی دیکھ نہ لے ‘‘
’’یو۔۔۔۔۔۔‘‘لبوں پر آئی گالی اس نے بڑی مشکل سے روکی تھی۔پہلو کے بل گرے میز کوایک زور دار ٹھوکر مار کر وہ باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔