حرا منصور لڑکی نہیں اک ستارہ تھی جو ٹوٹ کر وھاج ھاؤس میں آ گرا تھا۔حرا منصور ماہ جبین پھوپھو کی بیٹی تھی۔وہ پھوپھو جن کو اس گھر کے بچے صرف نام اور تصویروں کی حد تک جانتے تھے۔جن سے ناراض ہو کر دادا نے کبھی نہ ملنے کی قسم کھا کر باقی سب کو بھی اسی قسم کا پا بند کر دیا تھا۔پہلے دادا اس قسم کا بوجھ لے کر مٹی تلے جا سوئے اور اب دو دن پہلے پھوپھوسب رشتوں کو اس قسم سے آزاد کر گئی تھیں۔
حرا منصور نے جب وھاج ھاؤس میں قدم رکھا تو ایک بارتو سب کو ہی چونکا دیا تھا۔پھر چاہے وہ نک چڑھی علیشہ تھی یا خود پرست عبدالباسط۔باقی تو سب کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے تھے۔اصل میں کم و بیش سب کی سوچ اس کے آنے سے پہلے تک یہ ہی تھی کہ جس کی ماں کا ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا،پسماندہ علاقے کی وہ لڑکی جس نے رشتے کے نام پر صرف ماں ہی ماں دیکھی تھی اور اب وہ بھی نہیں رہی،نا باپ نا بھائی۔۔۔کیسی دبو ہو گی۔ڈری سہمی ادھر ادھر آنسو بہاتی،چھپاتی پھرے گی۔جھوٹے اور کھوکھلے ہی سہی۔۔دلاسے بھی دینے پڑیں گے۔لیکن اس نے ان کے سب اندازے غلط ثابت ہو گئے تھے۔وہ اندازے بھی جو انہوں نے لگائے ہی نہیں تھے۔بڑے پاپا کی گاڑی سے نکلنے والی لڑکی مردانہ ٹراؤزر شرٹ میں دوپٹے سے بے نیاز خشک آنکھوں کے ساتھ پر اعتماد سی اندر آ رہی تھی۔کمر کے آدھ تک آتے بال بے ترتیبی سے پونی میں قید تھے۔آنکھوں پر بڑے بڑے شیشوں والی عینک چڑھائے وہ ان سب کو کسی اور سیارے کی مخلوق نظر آ رہی تھی۔اس گھر کے مکین کتنے ہی ماڈرن کیوں نہیں تھے۔لڑکیاں ہر طرح کا فیشن کرتیں،دوپٹے چاہے کندھے پر ایک طرف پڑے رہتے،قمیصیں چاہے اتنی چست ہوتیں کہ بدن کے نشیب و فراز ماپے جا سکتے۔پھر بھی۔۔۔۔۔پھر بھی اس گھر میں ایسے لباس کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس گھر کے لئے نا قابل قبول تھی۔پھر وجہ چاہے کچھ بھی تھی۔اور اس بات کا اندا زہ اسے پہلے ہی دن ہو گیا تھا۔بڑے ماموں کے پیچھے لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس نے سنا تھا۔
’’میں حیران ہوں جبین نے اس لڑکی کی کیا تربیت کی ہے۔لباس تو دیکھو ذرا۔۔باقی آنے والا وقت پتا نہیں اس لڑکی کے کیا کیا کرتوت دکھائے گا۔‘‘
یہ چھوٹی مامی کی آواز تھی۔کسی کی بھی ہوتی کیا فرق پڑنا تھا۔اندر سے آنے والی تائیدی آوازوں سے اس نے جان لیا تھا۔انہوں نے تو اتنا بھی لحاظ نہیں کیا تھا کہ ابھی دو دن پہلے اس نے ماں کھوئی ہے۔اس کا دل کچھ اور مضبوط ہوا تھا۔ذہنی طور پر وہ آنے والے ہر برے حالات کے لیے پہلے سے تیار تھی۔بہرحال دکھ پھر بھی اسے ہوا تھا۔
گزرتے دنوں میں سب کی نا پسندیدگی جاننے کے لیے اسے ریاضی کے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔علیشہ کا متکبرلہجہ،عبدالباسط کی نظروں میں تحقیر،رابی اور فریال کاعجیب نظروں سے اسے تکنا۔۔۔اسے کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونے دیتا تھا۔سبین کا رویہ متوازن تھا۔لیے دیے سے انداز والی سبین اس کے ساتھ اچھی نہیں تھی تو بری بھی نہیں تھی۔شیری لا ابالی بے پرواہ شرارتی سا زندہ دل لڑکا تھا۔اسے اس کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔باقی رہا ذیشان تو شاید اسے ہی اس کے آنے سے سب سے ذیادہ فرق پڑا تھا۔گندمی رنگت اور عام سے نقوش والے ذیشان حیدر کو اس گلابی چشمش نے بنا ڈور اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا تھا۔پہلی نظر کی محبت وہ بھی لا حاصل۔۔۔وہ جانتا تھا لاحاصل ہے اس کی چاہت اور اس کے باوجود اسے خود پر اختیار نہیں تھا۔
وہ اپنی ماں کی حرا کے لیے نا پسندیدگی جانتا تھا اور وہ خود بھی کبھی ان کا اتنا پسندیدہ نہیں رہا تھا کہ اس کی خوشی کی خاطر ہی ماما حرا کو قبول کر لیتیں۔ٹھنڈی مٹی سے اس کا خمیر اٹھا تھا۔ضد سے بات منوانا،اپنی بات پر اڑنا۔۔۔۔اسے کبھی آیا ہی نہیں تھا۔تب ہی تو وہ ہمیشہ زینب کے عتاب کا نشانہ بنا رہا۔عبدالباسط اس سے چھوٹا اور بے جا ضدی تھا۔بچپن میں اسے وہی کھلونا چاہیے ہوتا تھا جو ذیشان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ذیشان چپ چاپ اسے کھلونا دے دیتا۔کوئی لڑائی جھگڑا،رونا واویلا کچھ نہیں ۔ زینب چاہتیں تھیں وہ اپنی چیزیں اسے نہ لینے دیا کرے۔شروع میں وہ اسے اکیلے میں سمجھاتیں تھیں لیکن وہ اپنی فطرت کا کیا کرتا۔ایک تو واجبی سی شکل و صورت اور اس پر مزاج بھی ایسا ٹھنڈا۔۔۔زینب کو ذیشان کی صلح پسند فطرت اس کی باسط سے ہار لگتی تھی۔باسط اکھڑ مزاج اور شہنشاہ فطرت تھا۔اللہ نے شکل بھی شہزادوں سی عطا کی تھی اور مزاج بھی۔اس کے سامنے ذیشان کی شخصیت دب سی جاتی تھی۔یہی بات زینب کو برداشت نہیں ہوتی تھی۔پتا نہیں کیوں ان کے اندر جیٹھانی کے بیٹے کے ساتھ اپنے بیٹے کا موازنہ چلتا رہتا تھا۔وہ چھپ کر ذیشان کو پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتی تھیں ۔جب علیشہ ان کی گود میں آئی تو جیسے ان کا اندر ٹھنڈا ہوا تھا ۔وہ لڑکی ہو کر باسط سے بھڑ جاتی تھی۔ہاں وہی تو اس کی ٹکر کی تھی۔زینب کی ساری توجہ علیشہ نے لے لی تھی۔مزاج کی تندی اور ماں کی شہ نے اسے حد سے ذیادہ خود سر بنا دیا تھا۔ذیشان کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔بیٹا ہو کر بھی وہ ماں کی نظر میں کچھ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بعد میں آنے والی فریال بھی ان کی توجہ علیشہ سے ہٹانے میں ناکام رہی۔وقت گزر گیا وہ بڑے ہو گئے لیکن مقابلے کی فضا ختم نہیں ہوئی۔مضامین کے انتخاب سے لے کر ملنے والے گریڈز تک۔۔۔وہ کہیں بھی ماں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا تھا۔ہاں ایک بات ایسی تھی جس پر زینب نے پہلی بار اس کے فیصلے کو سراہا تھا۔باسط نے پڑھائی پوری کرنے کے بعد نوکری کو ترجیح دی تھی جب کے وہ گھر کے مشترکہ کاروبار کی طرف چلا آیا تھا۔اس سب کے بعد دل میں اک موہوم سی امید ہی تھی کہ شاید ۔۔۔ پہلی بار وہ اپنی کوئی خوشی حاصل کر لے۔وہ خوشی جو ایک دم سے زندگی بن گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حرا نام کی بلا لگتا ہے مرنے کے بعد بھی قبر میں سکون نہیں لینے دے گی‘‘ علیشہ کی آواز دروازے کے پیچھے سے ابھری تھی۔چوری چھپے باتیں سننے کی نہ تو اسے عادت تھی اور نا شوق۔اپنا نام سن کر ازخود اس کے قدم دہلیز پر رک گئے تھے۔
’’کیا ہوا؟؟‘‘ سبین نے پوچھا۔
’’ہونا کیا ہے ،دادو نے عذاب ڈال دیا ہے میرے گلے ۔ساری پرائیویسی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔اول تو اس کا اعتکاف ہی ختم نہیں ہوتا۔سارا دن کمرے کی جان نہیں چھوڑتی۔اب اگر کمرے سے نکلی ہی نکلی تھی تو میں نے سرمد کوسکائپ پہ کال کر لی۔میڈم بغیر ناک کیے کمرے میں آ دھمکی۔ جس دن سے یہ گھر آئی ہے میری سرمد سے بات ہی نہیں ہو پا رہی۔میسج پہ ٹرخا دیتی رہی ہوں۔اس کا اتنا موڈ بنا ہوا تھا۔‘‘ علیشہ کا موڈ بے حد خراب ہوا تھا۔
سبین کے کچھ کہنے سے پہلے وہ کمرے میں داخل ہو گئی۔علیشہ نے جتاتی سی ایک نظر سبین پر ڈالی یوں جیسے کہہ رہی ہو ’’ میں سچ کہا تھانا‘‘
امی کی تصویروں کا البم اپنے بیگ میں رکھ کر ایک دوستانہ مسکراہٹ ان دونوں کی طرف اچھال کروہ باہر نکل گئی۔اس کے انداز سے انہوں نے یہی اندازہ لگایا کہ اس نے کچھ نہیں سنا۔باہر نکل کر ایک گہری سانس بھر کراندر کی گھٹن باہر نکالتے خود کو نارمل کرتے وہ دوبارہ نانو کے کمرے میں چلی گئی۔آخراپنے محسنوں کی خاطر اتنا تو وہ برداشت کر ہی سکتی تھی۔اسے تو یوں بھی کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا۔اکیس برس پہلے ناراضی کی چھاؤں تلے رخصت ہونے والی بیٹی کو ساری عمر جنہوں نے گھر کی دہلیز نہیں چڑھنے دیا۔اس کی بیٹی کو گھر کا تحفظ دینے والوں کی وہ گویا بال بال مقروض تھی۔یہ قرض اس نے خود اپنے کندھوں پر ڈالا تھا۔زندگی نے اسے انتخاب کی سہولت دی تھی۔اس گھر میں آنا اس کی اپنی مرضی تھی،مجبوری نہیں ۔
یہ اسی شام کی بات ہے جب وہ علیشاء کے کمرے میں بیٹھی آنے والے سخت سے سخت حالات کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی تب ایک دم باہر شور بلند ہوا۔علیشہ کے ساتھ وہ بھی تیزی سے باہر بھاگی۔
نانو اوندھے منہ فرش پرپڑی تھیں۔ان کے گرنے کی آواز سن کر آنے والے بڑے ماموں اور شیری مل کر انہیں اٹھا رہے تھے۔نانو کئی سال سے فالج کی مریضہ تھیں۔کھانے پینے سے لے کر زندگی کی تمام تر ضروریات کے لیے وہ دوسروں کی محتاج تھیں۔کئی بار ان کے لیے کل وقتی ملازمہ رکھی گئی لیکن کوئی بھی ایک ڈیڑھ ماہ سے زیادہ نہیں نکالتی تھی۔کبھی وہ خود چھوڑ جاتی تو کبھی ماموں کو اس پہ اعتراض ہوتا۔کبھی نانو خود ہی کسی بہانے نکال باہر کرتیں۔انہیں بستر پر لٹا کر ماموں ان سب کی طرف متوجہ ہوئے جو شور سن کر آئے تھے۔
’’ہزار بار کہا ہے اماں کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی رہا کرے۔لیکن میری سنتا کون ہے۔اب جب تک نئی ملازمہ نہیں آجاتی سب باری باری اماں کے پاس بیٹھا کریں۔رات کو میں خود ان کے پاس سو جاؤں گا۔میں اماں کو اکیلا نہ دیکھوں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘وہ غصے میں تھے۔
ان کی بات پر اکثر جبینوں پر شکنوں کے جال بچھے تھے۔کئی آنکھوں میں ناگواری کی لہریں اٹھنے لگی تھیں لیکن پرواہ کسے تھی۔تب ہی دو قدم بڑھا کر وہ ماموں کے پاس ہوئی تھی۔’’اگر مناسب سمجھیں تو مجھے نانو کے پاس شفٹ کر دیں،میں پوری کوشش کروں گی کہ ان کا خیال رکھ سکوں۔‘‘
اس کی بات اتنی غیر متوقع تھی کہ ایک بار تو سب ہی حیرت ذدہ رہ گئے تھے۔ماموں کے رسمی اور کھوکھلے اعتراض رد کرتے اس رات وہ نانو کے کمرے میں بمعہ بیگ منتقل ہو گئی تھی۔
اس کے آنے کے بعد یہ پہلی رات تھی جب علیشہ سمیت اس گھر کی باقی عورتوں نے بھی اس کے فیصلے کو سراہا تھا۔اس کی موجودگی پر اطمینان کا سانس لیاتھا۔ورنہ ایک مفلوج بوڑھی عورت سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔اور اگر دلچسپی ہوتی تو کیا نوکرانی کاہی آسرا ڈھونڈا جاتا۔اس کمرے میں وقت گزارنا ایک قیامت تھی اور یہ قیامت حرا منصور نے خود پہ روک کی تھی۔سب کا شکر گزار ہونا تو بنتا تھا نا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی بس کمرے تک محدود تھی۔سبین اور علیشہ جب خود کھانا کھاتیں تو اس کے لیے بھی لے آتیں۔اس نے کچن میں کبھی قدم بھی نہیں رکھا تھا۔آج پہلی بار کچن میں نانو کے لیے فریش جوس لینے آئی تھی۔بڑی مامی کوکنگ رینج کے سامنے کھڑی جلدی جلدی ہاتھ چلا رہی تھیں۔اسے نظر انداز کرتیں وہ مصروف سی آملیٹ پلٹنے لگیں۔
’’نانو کے لیے جوس لینا ہے‘‘ ان کے متوجہ ہونے کا انتظار کرنے کے بعد وہ ڈھیٹ ہو کر خود ہی بول پڑی تھی۔
’’ناشتہ بنا رہی ہوں۔ابھی نہیں بنا سکتی۔کچھ دیر بعد آجانا۔‘‘بہت ناگواری سے جواب آیا تھا۔’’ابھی ہر ایک کا الگ الگ ناشتا بنے گا۔پھر اس میں سے بھی کیڑے نکلیں گے۔کسی کو یہ نہیں کھانا تو کسی کو وہ نہیں کھانا۔سب کام چور جمع ہوئے ہیں۔مجال ہے کوئی لڑکی کچن میں جھانک لے۔دس دس بجے تک ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔نوکرانی کے ہاتھ سے کھانا یہ نہیں کھا سکتے۔بڑی بہو ہونے کے سارے عذاب میری جان کو ہیں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ اندر کی کھولن نکال رہی تھیں۔
’’سارا کام آپ اکیلی کرتی ہیں؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔ٹرے میں گرم چائے کے بھاپ اڑاتے کپ رکھتیں مامی کا ہاتھ ایک لمحے کے لیے رکا تھا۔انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا جہاں بے پناہ حیرت تھی۔
’’میں۔۔ہاں ظاہر سی بات ہے اپنے بچوں کے لیے سب کرنا پڑتا ہے۔‘‘اب وہ بولیں تو لہجہ تھوڑا دھیما تھا۔کوئی تو تھا جس نے مانا کہ وہ اتنا کام کرتی ہیں۔ٹرے اٹھا کر وہ باہر نکل گئیں ۔حرا ابھی بھی ادھر ہی کھڑی تھی۔
ماما۔۔ناشتہ ملے گا یا یوں ہی چلا جاؤں؟‘‘ شیری اپنی دھن میں کہتا اندر آیا تھا۔اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گیا۔
’’سوری مجھے لگا ماما ہیں‘‘
’’کوئی بات نہیں۔۔تمہیں دیر ہو رہی ہے ۔مجھے بتاؤ کیا کھانا ہے میں بنا دیتی ہوں۔‘‘اس نے مسکرا کر نرمی سے آفر کی۔
شیری کا تو منہ ہی کھل گیا تھا۔ایک تو صبح صبح کچن میں ماما کے علاوہ گھر کی کوئی اور لڑکی،پھر مخاطب کرنے کا طریقہ۔ٹھیک ہے وہ چھوٹا تھا لیکن اتنا بھی نہیں۔طرز تخاطب اپنی جگہ۔۔اس کی ناشتے کی پیشکش۔کمال ہی ہو گیا تھا۔آج دن کدھر سے چڑھا تھا،اسے سوچنا پڑا۔
’’اگر کھانے کے قابل ہو تو ایک پراٹھا کم گھی والا اور ایک ہاف فرائی انڈہ‘‘
سر ہلا کر وہ جلدی جلدی پراٹھا بنانے لگی اور جب تک مامی واپس آئیں وہ نا صرف ناشتہ بنا چکی تھی بلکہ میز پر رکھ بھی چکی تھی۔
’’باسط کی شرٹ پر چائے گر گئی تھی۔دوسری استری کر کے دے کر آئی ہوں‘‘دونوں کی خاموشی کے باوجود انہوں نے وضاحت دی تھی۔
’’ماما اتنے مزے کا پراٹھا ہے۔میرے جانے کے بعد آپ بھی بنوا کر کھائیے گا۔ٹائم ہوتا تو ایک کر بنوا کر کھاتا۔سچ بہت مزے کا ہے۔‘‘ اس کا کھانے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔’’شکریہ پھوپھو۔۔آپ مجھے ایسی اچھی بہن دے گئیں‘‘ جاتے جاتے وہ شرارت سے بولا۔حرا مسکرائی تھی،بلکل مدھم سا ثروت بھی مسکرا دیں۔
’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں آپ کی مدد کروا دیا کروں؟‘‘ بڑی آس کے ساتھ اس نے پوچھا تھااور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ انکار کرتیں۔وہ خود اس زمہ داری کے بوجھ سے تھکنے لگیں تھیں۔باسط ،شیری اور سبین اور رابی ان کے بچے تھے۔اپنے بچوں کے انہوں نے خوب نخرے بھی اٹھائے تھے۔ رفتہ رفتہ گھر کے باقی بچوں کی زمہ داری بھی از خود ان پر آپڑی تھی جو نا چاہتے ہوئے بھی ا نہیں اٹھانی پڑ رہی تھی۔ناشتہ اور رات کا کھانا انہیں تیار کرنا ہوتا تھا جب کہ دوپہر کو گھر میں صرف وہی بچے ہوتے تھے جو پڑھ رہے تھے یعنی دوپہر کو کم کام ہوتا تھا جو ان کی دیورانی زینب دیکھتی تھیں۔کام کی اس غیر منصفانہ تقسیم پر ان کا دل دکھتا تھا۔اب عمر کے ساتھ ساتھ ہمت جواب دے گئی تھی۔نہ نام نہ نیکی،اوپر سے سب کے نخرے۔۔۔اب حرا نے پوچھا تو گویا آدھا بوجھ کندھوں سے سرک گیا تھا۔دل ہی دل میں وہ اس کی معترف ہوئی تھیں۔ایک یہ لڑکی تھی۔۔۔اور ان کے گھر کی بھی تو لڑکیاں ہی تھیں۔خود ان کی اپنی بیٹی ان کے بس میں نہیں تھی کسی کو کیا کہنا۔انہیں اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم عورتیں بہت عجیب ہوتی ہیں۔ساری زندگی مرضی کی زندگی کے لیے تڑپتی ،ترستی رہتی ہیں اور پھر اپنی بیٹیوں کو قربانی کے پاٹ پڑھانے بیٹھ جاتی ہیں،وہی بیٹیاں جو کل کی عورتیں ہیں۔‘‘ نیم گرم تیل سے وہ نانو کے سر میں مساج کر رہی تھی جب وہ ماضی کے اوراق پھولنے لگیں۔
’’یہ مت سمجھنا میں ماں ہوں اس لیے تعریف کر رہی ہوں،جبین واقعی ہیرا تھی۔ہر کام میں طاق تھی۔سلائی،کڑھائی،گھر کے کام کاج،کھانا پکانا۔۔۔یہی اس کے شوق تھے۔سارا سارا دن چولہے کے پاس گزرتا تھا۔کبھی کوئی شکایت نہیں،شکوہ نہیں،کبھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں۔۔۔۔۔سب کہتے تھے بڑے اونچے نصیب ہوں گے میری جبین کے‘‘ کہتے کہتے وہ رک گئیں۔چند لمحے دبے پاؤں گزرے تھے۔جھریوں ذدہ چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہوں نے آنسو صاف کیے۔
’’ہم عورتیں ہی اپنی بیٹیوں کوکمزور بناتی ہیں۔طلاق لفظ سے ہم یوں ڈراتی ہیں جیسے حرام کام ہو۔لڑکی حق پر ہوتے ہوئے بھی چپ رہ کر رو کر سب برداشت کر جاتی ہے،سہہ جاتی ہے کہ کہیں طلاق نا ہو جائے۔آخر گزری پشتوں میں کبھی کسی کو طلاق نہیں ہوئی۔لوگ کیا کہیں گے۔بھلا لوگوں کا تو کام ہی کہنا ہوتا ہے۔کچھ بھی کہیں گے۔۔۔غلطی تو اپنی تھی جس کی سزا اس نے کاٹی۔اس کا نکاح کر بیٹھے تھے۔دو سال وہ غلطی نبھا بھی لی پھر جب کوئی صورت نظر نہیں آئی تو سوچا فیصلہ ہی بہتر ہے۔مگر وہ نہیں مانی۔میرے پیروں میں آ بیٹھی۔‘‘سالوں پہلے کا وہ منظر آج بھی آنکھوں میں یوں تازہ تھا کہ انہیں لگا اب بھی وہ ان کے قدموں میں بیٹھی ہے۔بے اختیار انہوں نے پاؤں سمیٹے تھے۔’’کہتی تھی امی اگر دوسری جگہ شادی کر کے زندگی میں خوشیوں کی،عزت اور سکون کی گارنٹی دے سکیں تو ٹھیک ورنہ جو میرے مقدر میں ہے وہ ہی ادھر سے مل جائے گا۔مجھے میرا مقدر جینے دیں۔تب اس کے باپ نے قسم کھائی تھی کہ اگر یہ طلاق نا ہوئی تو جبین کہ مرتے دم کسی سے ملنے نہیں دے گا۔‘‘
ایک اداسی حرا کے دل پہ چھانے لگی تھی۔اس نے ایک ہی تو رشتہ دیکھا تھا’’ماں‘‘۔وہ چلی گئی تو نانو ملی۔۔۔ماں کی بھی ماں۔ماں کے سکھ دکھ سے آشنا،ان کی خواہشوں کی امین۔اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا۔شاید یہی وجہ تھی کہ وہ دانستہ کسی سے بھی امی کے ذکر سے گریز کرتی تھی۔
’’اللہ کا بندہ مرتے مر گیا لیکن مجھے اپنی قسم کا پا بند کر گیا۔جانے کس حال میں رہی ہو گی اس مردود کے ساتھ۔اچھا ہوا مر گیا،میری بچی نے اس کے مرنے پر تو سکون کا سانس لیا ہو گا۔‘‘
اس کے مساج کرتے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے تھے۔تو کیا انہیں لگتا ہے کہ منصور احمد مر گیا ہے؟ ہاں مر ہی گیا ہے وہ شخص۔۔اسے مرا ہی رہنے دینا چاہیے۔جان بوجھ کر اس نے ان کی غلط فہمی دور نہیں کی ۔اس گھر میں آنے کے بعد پہلی بار تھا جب کسی نے امی ابو کے بارے میں بات کی تھی۔دل بری طرح اداس ہوا تھا۔آنسو اندر اتارتے وہ بلا وجہ باہر نکل کھڑی ہوئی۔
لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس نے صوفے پر رابی کو بیٹھے دیکھا تو بلا ارادہ اس کے پاس رک گئی۔اس کے سامنے میز پر بیالوجی کی کتاب کھلی پڑی تھی جس میں بنی ڈائیگرام بنانے کے چکر میں رابی ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔حرا اس کے قریب ہی بیٹھ گئی۔نرمی سے اس کے ہاتھ سے پنسل پکڑکر نوٹ بک اپنی طرف کھسکاتے وہ نئے سرے سے ڈائیگرام بنانے لگی۔
’’یہ لو ۔۔بن بھی گئی۔‘‘مسکراتے ہوئے اس نے پنسل اور نوٹ بک اس کی طرف بڑھا دی۔ڈائیگرام دیکھ کر رابی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گلی تھیں۔وہ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے ساخت ہی ٹھیک نہیں بنا پا رہی تھی اور حرا نے چند منٹوں میں بہترین دائگرام بنا دی تھی۔’’امیزنگ‘‘ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا۔
’’یو ٹو لٹل اینجل‘‘
’’میں تو ایسی کبھی نہیں بنا سکتی‘‘ اس نے مایوسی سے سر ہلایا۔
’’کیوں نہیں ۔۔ضرور بنا سکتی ہو۔میں سکھا دوں گی‘‘
’’نہیں رہنے دیں۔‘‘صفحے پر انگلی پھیرتے وہ پھیکی سی ہنسی ہنسی۔
’’کیوں سیکھنا نہیں چاہو گی؟‘‘
’’چاہتی تو ہوں پر۔۔۔تذبذب کے عالم میں اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’لیکن کیا؟؟‘‘
’’آپ یہ لڑکوں جیسے کپڑے کیوں پہنتی ہیں؟‘‘
’’کیوں برے لگتے ہیں؟‘‘ جوابا اس نے بھی سوال پوچھا۔
’’نہیں۔۔ برے تو نہیں لگتے لیکن۔۔گھر میں کوئی ایسے کپڑے پہنتا نہیں تو عجیب لگتے ۔۔ہیں۔‘‘اٹک اٹک کر اس نے بات پوری کی تھی۔’’باسط بھائی تو بہت غصہ کر رہے تھے۔کہتے۔۔۔‘‘ جھجھک کر اس نے بات ادھوری چھوڑی تھی۔
’’کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ اس نے اتنے نارمل انداز میں پوچھا تھا جیسے کسی اور کے بارے میں بات چل رہی ہو۔
وہ کہہ رہے تھے۔۔آپ سے دور ہی رہیں،اور یہ بھی کہ خربوزے کو دیکھ کرخربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔‘‘ بہت شرمندگی سے اس نے بات پوری کی تھی۔
’’کوئی بات نہیں گڑیا۔جب ضرورت ہو چپکے سے مجھے دے دینا اور اگر موقع ملے تو چپکے سے سیکھ بھی لینا۔‘‘گہری سانس بھرتی وہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اس وقت اسے تنہائی کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔آنسوؤں کا گولہ سا حلق میں اٹک گیا تھا۔
اس نے شروع سے ایسے ہی کپڑے پہنے تھے۔جب وہ یہاں آئی تب بھی اس کے پاس ایسے ہی کپڑے تھے۔ڈھیلے ڈھالے یہ کپڑے ان کپڑوں سے تو کئی گنا بہتر تھے جو اس گھر کی لڑکیاں پہنتی تھیں۔لیکن یہ تو اس کی اپنی سوچ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کتنی گھٹیا نکلی تم۔۔تمہیں تو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ جن لوگوں نے تمہیں پناہ دی،اپنے گھر کی چار دیواری دی تم ان کے ہی گھر میں نقب لگا رہی ہو۔اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا گرا ہوا سلوک تم کیسے کر سکتی ہو؟‘‘وہ نہا کر تولیے سے بال خشک کرتی باتھ روم سے باہر نکلی ہی تھی جب بے چینی سے ٹہلتی علیشہ اس پر برس پڑی۔
’’کیا کیا ہے میں نے؟‘‘ اس نے الجھ کر پوچھا۔
یہ تو اب سب کو پتا چلے گا حرا بی بی۔تمہارا یہ معصومیت کا ڈرامہ زیادہ دیر نہیں چلنے والا۔تم نے میرا دل اجاڑا ہے،میں تمہیں اجاڑ دوں گی۔تمہیں بے گھر کر دوں گی۔‘‘
’’پہلی بات اجڑے ہوئے کو اور کیسے اجاڑیں گی آپ؟ دوسری بات میرے بے گھر ہونے میں ابھی آپ کو کوئی شک ہے؟ اب بتائیں میں نے کیا کیا ہے؟ ‘‘ بڑے ٹھہرے لہجے میں اس نے جواب دیا تھا۔
’’بہت جلد پتا چل جائے گا تمہیں بھی اور سب کو بھی۔چھوڑوں گی نہیں تمہیں۔‘‘
وہ عین حرا کے سامنے کھڑی تھی۔کالر سے شرٹ پکڑ کر ایک جھٹکا دے کر وہ باہر نکل گئی۔حرا کے چوڑے شیشوں والی عینک کارپٹ پر جا گری تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس نے کیا کیا ہے۔نانو بھی علیشہ کے رویے پر حیران تھیں..۔۔۔