ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ (T.S. ELIOT ,1888-1965) سینٹ لوئیس میسوری (امریکہ) میں ایک تاجر ہینری ویر ایلیٹ (Hendry ware Eliot) کے گھر پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم سمتھ اکیڈمی
سینٹ لوئیس میں مکمل کرنے کے بعد اس نے ملٹن اکیڈمی میسا چوسٹس میں کالج تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے سال 1906ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں پیہم تین برس تک فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد وہ فرانس چلا گیا اور سو بورن یونیورسٹی پیرس میں دو سال (1910-1911) فرانسیسی ادب اور فلسفہ کی اعلا تعلیم حاصل کی۔ سال 1914ء میں وہ یورپ چلا گیا اور کچھ عرصہ جرمنی میں قیام کرنے کے بعد وہ برطانیہ چلا گیا۔ یہاں اس نے میٹرون کالج آکسفورڈ میں یونانی فلسفہ کی تعلیم کے شعبہ میں داخلہ لیا۔ وہیں اُس نے سال 1915ء میں اپنی محبوبہ ویون ہے وڈ (Vivienne Haigh-Wood Eliot, 1888-1947) سے شادی کر لی۔ اس کے بعد اسے لندن کے نواح میں لڑکوں کے سکولوں میں معلم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ اور سال 1927ء میں امریکی شہریت کو خیرباد کہہ کر برطانوی شہریت حاصل کر لی اور انگلستان میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ شادی ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی اس ذہنی مریض عورت سے بیزاری کے باعث سال 1933میں علاحدگی پر منتج ہوئی۔ اس کی پہلی بیوی ویون ہے وڈ نے 1947ء میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ اپنی پہلی بیوی ویون ہے وڈ کی وفات کے بعد ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے سال 1957ء میں اپنی پرائیویٹ سیکرٹری والری فلچر (1926-2012: Valerie Fletcher)سے عقد ثانی کیا۔
عالمی تنقید کے افق پر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا نام ایک درخشاں ستارے کے مانند ہے۔ معاصر ادبی تنقید پر اس کے فکر پرور خیالات کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے ادبی تنقید کے دائرۂ کار، تخلیق کار اور نقاد کے فرائض منصبی، ادیب کے تجربات، مشاہدات، مطالعات اور تاثرات کا نقد و نظر کے ساتھ تعلق اور ادبی کلاسیک کے موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا ان سے تقلید کی روش کو بیخ و بن سے اکھاڑنے میں مدد ملی۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تخلیقی ادب میں روایت کی ضرورت و اہمیت، شعر و شاعری میں آہنگ و صوت اور موسیقیت کے مقام و مفہوم، ادب اور کلچر کا ربط باہمی، سماجی زندگی میں شاعری کا مقام، ادیان عالم اور ادبیات کا تعلق، اظہار و ابلاغ کے اندازکے اسالیب، تخلیق کی اقسام اور تخیل کی نوعیت جیسے اہم موضوعات پر جن بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے فکر و خیال کے متعدد نئے دریچے وا ہوئے اور جمودکا خاتمہ ہوا۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے خیالات سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں ہر نسل اپنی خدا داد صلاحیتوں اور ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لا کر اقتضائے وقت کے مطابق ادبی تنقید کا نظام خود وضع کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ پرانے اور فرسودہ تقلیدی تصورات سے بچتے ہوئے اس نے برطانیہ اور امریکہ کے ادیبوں کو اس جانب مائل کیا کہ ادب کو ایک خود مختار شعبہ سمجھنا چاہیے۔ شاعری، مضمون نگاری، ڈرامہ نگاری، تنقید اور فروغ علم و ادب کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دینے اور علمی و ادبی خدمات اور تخلیقی کامرانیوں کے اعتراف میں اُسے سال 1948ء میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ سال 1948ء میں اُسے برطانیہ کا سب سے بڑا اعزاز ’آرڈر آف دی میرٹ‘ ملا۔
ماضی پرستی اور روایت کی پاس داری میں جو حد فاصل ہے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے قارئین ادب کو اس سے آگاہ کیا۔ روایت کو جامد و ساکت، اٹل اور ناقابل اصلاح سمجھنا ایسی غلط سوچ ہے جو حقائق کی تمسیخ کر کے بے عملی کو تحریک دیتی ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنانے والے سستی جذباتیت کا شکار ہو کر خوب اور زشت میں امتیاز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ زندگی کے مثبت شعور اور عصری آگہی سے مزین روایت کے اعجاز سے معاشرتی نظام کو صحت مند بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ماضی کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں آنے والے دور کے لیے لائحہ عمل مرتب کرتے وقت ترک و انتخاب پر توجہ دینا ضروری ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سی اشیا کا وجود ناگزیر ہے اور کون سی اشیا سے گلو خلاصی حاصل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ روایت کے احساس کے لیے تاریخی شعور کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ایام گزشتہ کے واقعات کو طاقِ نسیاں کی زینت بنانا غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ اپنے رفتگاں کی تخلیقات کو زمانہ حال میں یاد رکھنا دلوں کو ان کے عہد کے واقعات سے آباد کرنے کے مترادف ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے پر تاریخی شعور انسان کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر مہیب سناٹوں کے خاتمے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے ہوئے جہانِ تازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ آئینۂ ایام میں اپنی ادا پر غور کرتے وقت محض اپنے زمانے پر نظر رکھنا کوتاہ اندیشی کے مترادف ہے۔ تاریخی شعور ایک تخلیق کار کو وہ فقید المثال بصیرت عطا کرتا ہے جو قدیم یونانی ادیب ہومر (Homer) کے عہد سے لے کر لمحۂ موجود تک کے علمی و ادبی اثاثے اور فکری میراث کو اپنے فکر و خیال کی اساس بناتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا خیال ہے کہ محض گزرے ہوئے زمانے کے ’ماضی پن‘ کے احساس کو تاریخی شعور نہیں کہا جا سکتا بل کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی فکری میراث کو زمانہ حال کے لیے لائق صد رشک اثاثہ سمجھتے ہوئے روشنی کے سفر میں ساتھ لے کر چلیں۔ اپنے تنقیدی اسلوب کے ایک اہم اور نمائندہ مضمون روایت اور انفرادی ذہانت (TRADITION AND THE INDIVIDUAL TALENT) مطبوعہ 1917ء میں اس نے روایت کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی کی ہے۔ ماضی اور حال کے شعور سے عبارت روایات کے بارے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے لکھا ہے:
"if you want it, you must obtain it by great Tradition is a matter of much wider significance. It cannot be inherited, and labour. It involves in the first place, the historical sense, which we may call nearly indispensible to anyone who would continue to be a poet beyond his twenty-fifth year; and the historical sense, involves a perception, not only of the pastness of the past, but of its presence; the historical sense compels a man to write not merely with his own generation in his bones, but with a feeling that the whole of the literature of Europe from Homer and within it the whole of the literature of his own country has a simultaneous existence and composes a simultaneous order. This historical sense, which is a sense of the timeless as well as of the temporal and of the timeless and of the temporal together, is what makes a writer traditional."
"And it is at the same time what makes a writer most acutely conscious of his place in time of his contemporancity. (1)
روایت کا جو تصور ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے پیش کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے بے بصری پر مبنی کورانہ تقلید جدت اور خیال آفرینی کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے۔ گو سفنداں قدیم کے مانند ایک ہی ڈگر پر چلنا اور شتر بے مہار کی طرح پامال راہوں پر گامزن رہنا اور بز اخفش کی صورت ہر بات پر اثبات میں سر ہلادینا ذہنی افلاس کی دلیل ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اس قسم کی کیفیت کے خلاف آواز بلند کی اور تخلیق ادب میں ندرت و تنوع کو زاد راہ بنانے پر زور دیا۔ تقلید کی اس روش پر گرفت کرتے ہوئے شاعر نے سچ کہا تھا:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
ایک رجحان ساز ادیب اور نقاد کی حیثیت سے 1920ء سے لے کر 1930ء تک کے عرصے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے جو مضامین لکھے وہ اس کے تنقیدی خیالات اور ادبی نصب العین کے مظہر ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بیسویں صدی کے وسطی عشروں میں نئی تنقید کی ادبی تھیوری جس نے مروّج امریکی ادبی تنقید پرغلبہ حاصل کر لیا، اس نے چشم کشا صداقتوں کے امین ان مضامین کی اساس پر اپنے افکار کی بنیاد رکھی۔ رومانوی تنقید نے تخلیق شعر کے اس تصور پر گرفت کی جس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری کی تخلیق کا مقصد تخلیق کار کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تخلیق فن کو غیر شخصی نوعیت کی فعالیت سے تعبیر کیا۔ استعارے کو شاعری کا حقیقی جوہر قرار دینے کے معاملے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ایذرا پاونڈ کے خیالات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ استعارے کے متعلق جہاں تک ایذرا پاونڈ کا تعلق ہے اس کے خیالات چینی خط تصویری سے نمو پاتے ہیں جب کہ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی تنقید میں استعارے کے بارے میں جو احساس جلوہ گر ہے اس کے سوتے فرانس کے علامت پسندوں، سٹیفن میلارمے (Stéphane Mallarmé,)، پال ورلین (Paul Verlaine)، آرتھر رمباڈ (Arthur Rimbaud)، جولیس لیفورگ (Jules Laforgue)، ہینرائڈریگنر (Henri de Régnier) اور سترہویں صدی کے ’مابعد الطبیعاتی‘ فکر کے علم بردار انگریزی کے شعرا سے پھوٹتے ہیں۔
تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی تمنا میں ہر تخلیق کار پامال راہوں سے بچ کر نئے انداز اور نئے موضوعات کی جستجو کرتا ہے یہی اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ اٹھارہویں صدی کے خاص حالات میں جب عقلیت پرستی کے مظہر معاشرتی نظم و ضبط کے کڑے معائر کے خلاف شدید ردِ عمل سامنے آیا تو متعدد مشاہیر نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا کہ فطرت نے تو انسان کو آزاد پیدا کیا ہے مگر معاشرے کی طرف سے عائد کی گئی ناروا پابندیوں کے نتیجے میں انسان ہر جگہ پا بہ جولاں ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ حقائق کی دنیا تو محدود ہے مگر تخیل کی جولانیاں حدِ ادراک سے بھی باہر ہیں۔ جنیوا سے تعلق رکھنے والے فلسفی، مصنف اور فنون لطیفہ کے نقاد روسو (1712-1778: Jean-Jacques Rousseau) نے اس جانب متوجہ کیا کہ مادی دور میں صنعتی ترقی کے باعث ہوسِ زر میں ہونے والے اضافہ نے افراد کو غیر یقینی حالات اور اضطراب کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ یہ زوال پذیر معاشرہ ہی ہے جو پیدائشی طور پر خوش خصال بچے کو بُری عادات و نا پسندیدہ اطوار اور تباہ کن خصائل کی دلدل میں پھینک دیتا ہے۔ بیسویں صدی میں بھی حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ مجبور انسانوں کی کوئی امید بر نہ آئی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دی۔ معاشرتی انتشار کی جس لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت حال نے وکٹورین عہد کے برطانوی شاعر اور ادبی نقاد میتھیو آرنلڈ (1822-1888: Matthew Arnold) کے زمانے میں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی تھیں بیسویں صدی میں انھوں نے انتہائی گمبھیر صورت اختیار کر لی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں روسو کے افکار کے خلاف جن ادیبوں کا رد عمل سامنے آیا اُن میں امریکی ادیب ارونگ بیبٹ (1865-1933: Irving Babbitt)، امریکی نقاد ایذرا پاونڈ (1885-1972: Ezra Pound) اور برطانوی فلسفی ٹی۔ ای ہیوم (1883-1917: T. E. Hulme) شامل ہیں۔ ارونگ بیبٹ نے رومانوی سوچ کی وضاحت کرتے ہوئے اس امر کی صراحت کر دی کہ رومانویت نے ’تغیر‘ کو اِس عالمِ آب و گِل کی مسلمہ صداقت قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ’ثبات‘ اور ’تغیر‘ کا تعلق ہے بادی النظر میں دونوں ہی ارض و سما کے جملہ حقائق کے مظہر ہیں۔ ان شواہد کے پیش نظر چشمِ بینا سب گورکھ دھندوں اور سرابوں سے بچ کر آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری میں ’ثبات‘ میں ’تغیر‘ اور ’تغیر‘ میں ’ثبات‘ کی جلوہ گری کے حیران کن مناظر دیکھ لیتی ہے۔ شاید اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اپنی ادبی زندگی کے آغازمیں میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے دیکھاکہ معاشرتی زندگی کے افق پر رومانویت کے تصورات چھائے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے انفرادیت کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے ارفع معائر کی جستجو کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا۔ اپنی ادبی زندگی میں ٹی ایس ایلیٹ نے جدیدیت کو زادِ راہ بنایا۔ اپنے اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے سال 1928 میں کہا تھا:
’’میں سیاست میں شاہ پسند، مذہب میں کیتھولک اور ادب میں کلاسیکیت کا قائل ہوں۔‘‘ (2)
تخلیقی فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ممتاز نقاد ایذرا پاونڈ اور برطانوی فلسفی ٹی۔ ای ہیوم کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے تخلیق کار کے بجائے تخلیقی فن پارے کے عمیق مطالعہ پر اصرار کیا۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون ہے جو کچھ کہہ رہا ہے بل کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا کہا گیا ہے۔ اس کی توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ ادب پارے کی غواصی کرنے سے مفاہیم کے کون سے گوہر نایاب دستیاب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تنقید میں ادب پارے کی تحلیل، تجزیہ اور وضاحت کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد کی نسل اپنا ذوق سلیم ساتھ لاتی ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں اقتضائے وقت کے مطابق تخلیق کار سے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کر نے کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اقدار کے تعین کے سلسلے میں تنقید کے ارتقائی مدارج پر بھی نظر ڈالی ہے۔ اُس کاخیال ہے کہ تنقید میں لچک اور نظر ثانی کی گنجائش موجود ہے اسی لیے تنقیدی فیصلے اور محاکمے اکثر بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار میں جو ادب تخلیق ہوا، نئے دور میں اس کا تجزیاتی مطالعہ ضروری ہے تا کہ وہ تمام تخلیق کار اور ان کے ادب پارے جو ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے ہیں یا جن کے مقام اور مرتبے کے تعین میں حقائق کو ملحوظ نہ رکھا گیا اُنھیں ایک نئے آہنگ کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تنقید کے منصب کو زیر بحث لاتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا کہ نقاد کوئی انقلابی مفکر نہیں ہوتاجس کی کار گہ فکر میں حالات کی کایا پلٹنے کی قدرت ہو۔ اس نے ماضی کے ادب پاروں پر تنقیدی کام کرنے والے ادیب و شارح کے کام کو ایسی فعالیت سے تعبیر کیا جو گلدستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے، نئی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے اور تنظیمِ نوسے سنوارنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتی ہے۔ انگریزی ادب میں جن نقادوں نے اس قسم کی تنظیم نو کو شعار بنایا ان میں برطانوی شاعر اور نقاد جان ڈرائیڈن (1631-1700: John Dryden)، برطانوی شاعر اور ڈرامہ نگار سموئیل جانسن (1709-1784: Samuel Johnson) اور میتھیو آرنلڈ شامل ہیں۔ اپنی تنقیدی تحریروں میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے واضح کیا کہ تقابل اور تجزیہ کی اساس پر ادب پارے کی تشریح، تفہیم اور توضیح کے سلسلے میں نقادکاعالمانہ کام قارئین، ادب کے لیے خضر راہ ثابت ہوتا ہے۔ زندگی اور ادب میں ارفع معائر کی جستجو کو ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے بہت اہمیت دی۔ اس سلسلے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے معروضی تلازمہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے معجز نما اثر سے مشاہدات، تجربات اور واقعات گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔ زندگی کے متعدد خارجی حقائق بالعموم ایک خاص حسی تجربے کی صورت میں نہاں خانۂ دِل میں موجود ہوتے ہیں۔ تخلیقِ فن کے لمحوں میں تخلیق کار کے جذبات کا اظہار کس طرح ممکن ہے اس کے متعلق ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ہومر کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
"The only way of expressing emotion in the form of art isby finding an objective correlatiove; in other words, a set ofobjects,a situation, a chain of events which shall be the formula of that particular emotion; such that when the external facts,which must terminate in sensory experience,are given, the emotion is immediately evoked." (3)
اپنے تنقیدی مضامین میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تاریخی شعور کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اسے نئے اور جامع مفاہیم عطا کیے۔ اس کا خیال ہے کہ فنا سے نا آشنا تاریخی شعور مہ و سال کی گردش کی زدمیں نہیں آتا اور اسے اندیشۂ زوال نہیں۔ تاریخی شعور کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں لافانی (Timeless) اور وقتی (Temporal) نوعیت کے احساسات کا خزینہ موجود ہے۔ تخلیق کار کی روایت سے رغبت کے پس پردہ بھی تاریخی شعور کے اثرات کار فرما ہیں۔ ایک وسیع المطالعہ، فعال اور مستعد نقاد کی حیثیت سے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ادبی تنقید کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کروچے کاخیال تھا کہ ادبی تنقید فلسفے کی ایک شاخ ہے جب کہ رچرڈز نے سائنسی اندازِفکر کواپنانتے ہوئے ادبی تنقید کو نفسیات کی ایک شاخ سے تعبیر کیا۔ درج ذیل شعرا کو نئی شاعری کے بنیاد گزار کی حیثیت سے انگریزی ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے:
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ، ولیم ورڈزورتھ (1770-1850: (William Wordsworth اور کالرج Samuel Taylor Coleridg: 1772-1834))
اپنے تنقیدی مضامین میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے جس تنوع، جدت، وسعت نظر اور مدلل انداز کو ملحوظ رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اگرچہ وہ نئی شاعری کا فعال تخلیق کارہے مگر وہ کہیں بھی روایت سے انحراف نہیں کرتا۔ اسے اپنی روایت پسندی اور اپنے کلاسیکی انداز پر ناز ہے۔ اپنے تنقیدی مضامین میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے پامال راہوں سے بچ کر نئے اسالیب کو مد نظر رکھا ہے۔ رومانی تنقید میں ’تخیل‘ کی جولانیوں پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ کولرج نے اپنی تحریروں میں تخیل کو گہری معنویت عطاکی اور اسے رومانی تنقید کی خشت اوّل کا درجہ دیا۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تخیل (Imagination) کے بجائے ادراک (Sensibility) کے لفظ کو زیادہ جامع قرار دیتے ہوئے اسی کو اپنے فکر و خیال میں جگہ دی۔ اس نے صریر خامہ کو ایسی نوائے سروش تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو متلاطم جذبات کی روانی کے نتیجے میں بے اختیار منصۂ شہود پر آ جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ فن پارہ ایک ایسی چیزہے جس کی تخلیق میں قلزم افکار کی غواصی، تجربات و مشاہدات کی جلوہ گری، سعیِ پیہم، دیانت و صداقت اور فغان صبح گاہی کے اعجاز سے روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے ثروت مند بنایا جاتا ہے۔
تخلیقی فعالیت اور تخلیق کار کی صلاحیت کے موضوع پر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے خیالات اس کی انفرادیت کے آئینہ دار ہیں۔ اس نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ کوئی بھی تخلیق کار اپنی اپنی ذات میں اس قدرکامل نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کمالِ فن کی بنا پر ادبی سطحِ فائقہ پر فائز ہو جائے۔ کسی بھی فن میں ستاروں پر کمند ڈالنے اور اوج کمال تک رسائی کے لیے ماضی کے تخلیق کاروں کے اسالیب اور حیات کے افسانے تک رسائی ناگزیر ہے۔ اس طرح کا تقابل اور تفاوت ایسے معتبر ربط کو یقینی بنائے گا جو نئے لکھنے والوں کو جہانِ تازہ تک رسائی حاصل کرنے پر مائل کرے گا۔ تاریخی تنقید اور جمالیات کا یہی اہم اصول درخشاں روایات کا امین بن کر سامنے آتا ہے۔ تاریخی شعور کو رو بہ عمل لا کر ایک زیرک، فعال، مستعد اور محنتی تخلیق کار عصری آگہی پروان چڑھانے کی خاطر گزشتہ ادوار کی ممتاز شخصیات اور اہم واقعات سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ ادیب کا قابل قدر کام یہی ہے کہ وہ تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے درخشاں روایات کی اساس پر جدت، تنوع اور وسعت نظر کا مظہر ادب تخلیق کرے۔ تیشۂ حرف سے تقلید پر کاری ضرب لگاتے ہوئے ادبی نوعیت کی فعالیت میں سوچ اور احساس کی ہمہ گیر اثر آفرینی کے موضوع پرٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے برطانوی نقاد اور ادبی تھیورسٹ ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) نے لکھا ہے:
"What Eliot was in fact assaulting was the whole ideology of middle-class liberalism, the official ruling ideology of industrial capitalist society. Liberalism, Romanticism,protestantism, economic individualism: all of these are the perverted dogmas of those expelled from happy garden of the organic society,with nothing to fall back on but their own paltry individual resources. Eliot’s own solution is an extreme right-wing authoritarianism: men and women must sacrifice their petty personalities, and opinions to an impersonal order.In the sphere of literature, this impersonal order is theTradition." (4)
ادبی تنقید میں حرف صداقت سے مزین دیانت کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اس امر کی صراحت کی کہ اپنی زندگی میں دیانت اور صداقت کا علم تھام کر منزلوں کی جستجو کرنے والا نقاد اپنی اصول پسندی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مدلل مداحی سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دے اور تخلیق کار کے بجائے اس کی تخلیقات پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے شاعری کو ایک خاص نوعیت کی زندہ وحدت کا درجہ دیا۔ حقیقی شاعری ہر حال میں اپنی اثر آفرینی کا لوہا منوا لیتی ہے اسے اخباری نقادوں کی چیخ پکار اور پمفلٹ باز شارحین کی کوئی احتیاج نہیں۔ جزیرۂ جہلا میں کرتب دکھانے والے مسخروں نے ستائش باہمی کو وتیرہ بنا رکھا ہے۔ اس قسم کے ماحول میں تخلیقی عمل کو صحیح سمت میں جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔
بعض نقادوں کی رائے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے بیسویں صدی کے میتھیو آرنلڈ کی حیثیت سے ادب اور تنقید کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ اس کا خیال ہے کہ روایت کسی صورت میں بھی آبائی میراث کی طرح نہیں ملتی بل کہ اس کے لیے بہت محنت اور جگر کاوی کی ضرورت ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا خیال ہے کہ نظم کا مطالعہ کرتے وقت اس کی ہئیت اور تکنیک سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ تخلیق فن کے لمحات میں اظہار و ابلاغ کو یقینی بنانے کے لیے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے معروضی تلازمات (Objective Correlatives) کی جستجو پر اصرار کیا ہے۔ معروضی تلازمات سے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی مراد گرد و پیش کے ماحول، حالات و واقعات کی مختلف کڑیاں، داخلی اور خارجی کیفیات، آثار مصیبت کا احساس، سلسلۂ روز و شب کے نشیب و فراز اور جذبات کا زیر و بم ہے جوہر دکھ گوارا کر کے اور خسارا کر کے بھی زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے شاعری کی تخلیق میں مابعد الطبیعاتی ادراک کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ اپنی تحریروں میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ’نصابی تنقید‘ پر گرفت کی ہے۔ اس قسم کی تنقید کے مسموم اثرات سے گلشن ادب میں تخلیق ادب کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو گئی ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے موجودہ زمانے میں سائنس کے عوامل میں قارئینِ ادب کی دلچسپی بڑھنے لگی ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تنقیدی مسائل میں گہرے غور و فکر کے بعد اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے ہوئے ایک مثال دی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ اگر کسی تجربہ گاہ میں عمل انگیز کے طور پر پلاٹینم کا چھوٹا سا ٹکڑا کسی ایسے مرتبان میں رکھا جائے جس میں آکسیجن(O2 ) اور سلفر ڈائی اوکسائڈ (SO2) گیس موجود ہو تو عمل انگیز کے طور پر کام کرنے والا پلاٹینم کا تار اپنا اثر دکھاتا ہے اور سلفیورس ایسڈ گیس پیدا ہوتی ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تخلیق کار کے دماغ کو پلاٹینم کے تار کے مماثل قرار دیا ہے۔ اس نے واضح کیا ہے کہ حالات و واقعات، زندگی کے نشیب و فراز، تضادات و ارتعاشات اور مختلف کیفیات تو ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔ شاعر کا دماغ اِنھیں پیرایۂ اظہار عطا کرنے کی غرض سے زیبِ قرطاس کرنے پر مائل کرتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے لکھا ہے:
’’شاعر کا دماغ بھی پلاٹینم کے ٹکڑے کی طرح ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جزوی یا قطعی طور پر، بذات خود، آدمی کے تجربے پر اثر انداز ہو لیکن فن کار جتنا جامع ہو گا اسی قدرمکمل طور پر اس میں وہ آدمی جو دُکھ اُٹھا رہا ہے اور وہ دماغ جو تخلیق کر رہا ہے الگ الگ ہوں گے اور اتنے ہی جامع طور پر دماغ ہضم کرنے اور جذبات کو (جو اس کا مواد ہیں) بدلنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔‘‘ (5)
قحط الرجال کے موجودہ دور میں معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ بونے اپنے زعم میں مبتلا ہو کرباون گزے بن بیٹھے ہیں اور جاہل اپنی جہالت کا انعام بٹورنے میں لگے ہیں۔ مکتبی تنقید کی پیدا کردہ مسموم فضا کے اثر سے بونگے اور بو کھل قماش کے مسخرے اپنے مجنونانہ سنک کو انفرادیت اور ندرت پر محمول کر کے ہنہناتے پھرتے ہیں۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تنقید کی ایسی زبوں حالی پر گرفت کی اور یہ بات واضح کر دی کہ ایک حساس اور جری شاعر کا یہ منصب ہر گز نہیں کہ وہ نئے جذبات اور نئے اسالیب کی جستجومیں در در کی خاک چھانتا پھرے۔ صاحب نظر تخلیق کار معمولی نوعیت کے مانوس اور غیر مانوس جذبات کو بھی اپنی فنی مہارت اور تخلیقی بصیرت کے اعجاز سے غیر معمولی اثر آفرینی سے مزین کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ شاعری در اصل شعوری کاوش، ارتکاز توجہ اور غور و فکر کا ثمر ہے۔ ایک شاعر جب گل دستۂ معانی کو خوب صورت ڈھنگ سے آراستہ کرتا ہے اور ایک گل نو شگفتہ کے مضمون کو سیکڑوں رنگ و آہنگ عطا کرتا ہے تو اس کی شاعری کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن جاتا ہے۔ اس کے اسلوب کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے اور اس کی اثر آفرینی جامد و ساکت پتھروں، سنگلاخ چٹانوں اور بے حس بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔
تشریحی تنقید کے ذریعے قارئینِ ادب میں ادب فہمی اور مطالعۂ ادب کی عادات پختہ کرنے کے سلسلے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ہمیشہ اچھی رائے ظاہر کی۔ اس کاخیال تھا کہ تاثراتی تنقید ذوق سلیم کو غارت کر دیتی ہے اور فروغ ادب کے لیے کی جانے والی ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایک شاعر جب لوح و قلم کی پرورش پر مائل ہوتا ہے تو صریرِ خامہ کی تین آوازیں بہت اہم ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی آواز وہ ہے جس میں وہ تخلیق کار اپنی ذات سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اپنی ذات سے ہم کلام ہونے کا انداز اس قدر موثر ہوتا ہے کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ شاعری کی یہ پہلی آواز تخلیق کار کے داخلی کرب کو سامنے لاتی ہے۔
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کاف کرم ہے ہم کو (اسداللہ خان غالبؔ)
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
خبر مِلی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جِس زمین پہ ٹھوکر لگا کے لوٹ آیا (راحت اندوری)
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں (ساغر صدیقی)
اپنے معاشرے، ماحول اور اس سے وابستہ افراد سے تکلم کے سلسلے جاری رکھنے کی خاطر وہ دوسری آواز کا سہارا لیتا ہے۔ اس میں تخلیق کار ان صدموں کا احوال بیان کرتا ہے جو مختلف اوقات میں اُس پر گزرتے رہے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ عادی دروغ گو تو ہار لے کر گئے مگر راست گو بازی ہار گئے۔ اپنے ماحول سے وابستہر ہنے کی وجہ سے دیگر افراد کے ساتھ تکلم کے یہ سلسلے تخلیق کار کے متعدد تجربات اور مشاہدات کا احوال پیش کرتے ہیں:
نہ تُو جلا نہ کبھی تیرے گھر کو آگ لگی
ہمیں خبر ہے کہ جن مرحلوں سے ہم گزرے (رام ریاض)
تیرے ہوتے ہوئے جو مجھے یاد بھی آیا کوئی
میں نے موقوف اُسے وقتِ دِگر پر رکھا (مصحفیؔ)
زندگی کے اسرار و رموز سے لبریز تیسری آواز میں شاعر اپنے بجائے کوئی اور کردار تخلیق کرتا ہے اور اس کی زبانی شہرِ بے چراغ کی سب باتیں کہلواتا ہے:
آغشتہ ایم ہر سر خارے بہ خونِ دِل
قانونِ باغبانی ٔ صحرا نوشتہ ایم (عرفیؔ)
محبت میں وفاداری سے بچیے
جہاں تک ہو ادا کاری سے بچیے
ہر اِک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دِن
لہو کی شعبدہ کاری سے بچیے
شرافت، آدمیت، درد مندی
بڑے شہروں کی بیماری سے بچیے
ضروری کیا کہ ہر محفل میں بیٹھیں
تکلف کی روا داری سے بچیے (ندا فاضلی)
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے تخلیقی فعالیت کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ایسی تخلیقات جن کا تعلق بظاہر تخلیق کار کی ذات سے ہوتا ہے حقیقت میں وہ بھی کسی اور کو مائل بہ کرم کرنے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ بلندپایہ ادب پاروں کی تخلیق کے لیے خیالات کی تونگری لازمی ہے۔ ادبی نقاد اپنے منصب کا خیال رکھتے ہوئے تخلیق کار کے زندہ خیالات کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے وسعت نظر کو تخلیق کار کے لیے بہت اہم قرار دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک وسیع النظر تخلیق کار کو محض اپنی مادری زبان تک محدود نہیں رہنا چاہیے بل کہ دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد وہاں سے
زندہ خیالات اخذ کر کے اپنی مادری زبان میں انھیں محفوظ کرنا چاہیے۔ یونان اور روم سے تعلق رکھنے والے نابغۂ روزگار ادیبوں نے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ہے۔ ان کی تخلیقات کے تراجم سے دو تہذیبوں کو قریب تر لایا جا سکتا ہے۔ تخلیق ادب کے دوران میں ایک تخلیق کار اپنی زندگی کے متعدد تجربات، مشاہدات، مطالعات اور تجزیات کو اپنے فکر و فن کی اساس بناتا ہے۔ فکر پرور بصیرتوں کی امین تخلیقات جب منصۂ شہود پر آتی ہیں تو قاری کو ان کے دیگر مآخذ کے علاوہ تہذیبی، ثقافتی، سماجی، اقتصادی، معاشرتی اور عمرانی منابع کا علم ہوتا ہے۔ کلاسیکی ادب کے مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ہینس ایچ رڈنک (Hans H. Rudnick) نے تخلیق ادب کے حوالے سے لکھا ہے:
"The literary work of Art, had to be supplemented with a second, primarily epistemological, text on how literary works are organized --either preaesthetically,aesthetically, or postaesthetically. The preaesthetic cognition involves a description of the process by which a given reader prepares a concretization, of the multiply stratified work of art, which as an eidos, is structured phenomenologically by a series of concious acts founded one upon the other."
ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے بے بصر، جاہل اور کور مغز لوگوں کی کورانہ تقلید کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اسے ایک تباہ کن روش سے تعبیر کیا۔ تقلید کی مہلک روش حریت فکر و عمل کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے اور تخلیق کار کو حرف صداقت لکھنے کی صلاحیت اور جرأت سے محروم کر دیتی ہے۔ کوڑے کے ہر ڈھیر سے مفادات کے استخواں نوچنے والے لکیر کے فقیر بے ضمیروں، محسن کش درندوں اور ابن الوقت سفہا نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ہے۔ یہ ایک لرزہ خیز حقیقت ہے کہ پرانی فرسودہ رسوم کی اندھا دھند تقلید کرنے والوں نے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ اپنا اُلّو سیدھا کرنے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو وتیرہ بنایا ہے۔ یہاں تک کہ کورانہ تقلید کے باعث مذہب جس سے ہمارے اخلاق، کردار اور طرز عمل سے متعلق اہم فیصلوں کے تعین میں رہنمائی ملتی ہے اُس کی آفاقی تعلیمات کی طرف بھی کم توجہ دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے کورانہ تقلید کے مسموم اثرات سے متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کورانہ تقلید ذہنی صلاحیتوں کو سلب کر لیتی ہے تو اس کی جگہ مصلحت اندیشی اور رضائے حاکم لے لیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مادی فائدے کے لیے انسان اپنے دین و ایمان کو بیچ دیتا ہے۔‘‘ (7)
جہاں تک شاعری کی تخلیق کا تعلق ہے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ شاعری تخلیق کار کے جذبات کے سیل رواں سے عبارت ہے۔ اس کے بر عکس وہ جذبات سے گریز کے عمل کو شاعری کا نام دیتا ہے۔ وہ اس امر پر توجہ دیتا ہے تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرما محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینا چاہیے۔ اس کی تنقیدی آرا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ایک تخلیق کارشاعری کے ذریعے اپنی شخصیت کے مختلف گوشوں کے اظہار و انعکاس میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے شاعری تو تخلیق کار کی شخصیت سے گریز اور اخفا کا نام ہے۔
ادب اور فنون لطیفہ کی عظیم آفاقی تخلیقات کلاسیک کے متعلق ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے واضح کیا ہے کہ ایک کلاسیک کے منصۂ شہود پر آنے کے پس پردہ متعدد عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ عالمی کلاسیک کے حوالے سے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا خیال ہے کہ جب تہذیب اپنے اوج کمال تک پہنچ جاتی ہے تو کلاسیک کی تخلیق ہوتی ہے۔ تہذیب کی کاملیت اور زبان کا ارفع ترین معیار کلاسیک کے امتیازی اوصاف ہیں۔ جس وقت کوئی ترقی یافتہ، مہذب اور عبقری دانش ور اپنے ذہن و ذکاوت کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو وہ عظیم اور ابد آشنا تخلیق پیش کر کے ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ تمام ادبی اور فنی خوبیوں سے مزین ادب پارہ کلاسیک کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے کلاسیک کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کلاسیک کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسمی پابندیوں کے ساتھ جس قدر ممکن ہو زیادہ سے زیادہ احساسات کی ان وسعتوں کا اظہار کرے جن سے اُس زبان کو بولنے والی قوم کے مزاج اور کردار کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اس طرح کلاسیک اس قوم کی بہترین نمائندگی بھی کرے گا اور اس میں ان لوگوں کے لیے حددرجہ دِل کشی اور اثر آفرینی بھی ہو گی اور وہ ہر جماعت اور ہر قسم کے حالات میں مقبولیت عام بھی حاصل کر سکے گی۔‘‘ (8)
تخلیقی فن پارے کے مقاصد کے بارے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہر فن پارے کے اندر اس کے مقاصد تخلیق پنہاں ہوتے ہیں اور ہرفن پارہ اپنے مقاصد کاخود اثبات کرتا ہے۔ تخلیق اور تنقید کے میدان الگ الگ ہیں اور انھیں آپس میں ملانا مناسب نہیں۔ جب کوئی تخلیق موجود ہو تو اس کی تشریح کے لیے تنقید نا گزیر ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے خیال کو ایک منفرد تجربے سے تعبیر کیا۔ معاشرتی زندگی میں ہر شخص کے ذہن میں یہ تجربہ منتشر صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تخلیق کار کے ذہن میں عملی زندگی کے تجربات ایک خاص ترتیب کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہ سب تجربات فن کی صورت میں جذبے کے اظہارکی ایک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ تخلیق کار اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ معجزۂ فن کی نمود کے لیے خون جگر کی احتیاج ہے۔ تخلیقی عمل میں از خود نمو پانے والے معروضی تلازمہ کے امتزاج سے وہ آمد کی صورت میں سامنے آنے والی تخلیق کو رنگ، خوشبو، معانی اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں کا مخزن بنا دیتا ہے۔ تخلیقی فعالیت میں اگر شعوری کاوش سے معروضی تلازمہ کی جستجو کی جائے تو یہ آورد کی مثال ہو گی۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا خیال تھا کہ انفرادیت کی بالا دستی پر سوالیہ نشان لگانے اور ارفع معائر کی جستجو کو شعار بنانے سے عظیم ادب کی تخلیق ممکن ہے۔
بیسویں صدی کی مشہور نظم ویسٹ لینڈ (The Waste Land) کے خالق ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی تنقید اور ثقافتی فلسفہ کو طویل عرصہ تک بہت اہمیت حاصل رہی۔ اس کائنات کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں پیشہ ور مورخین کے بر عکس ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے ادب اور فلسفہ میں الگ انداز اپنایا۔ اس نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو ثقافت کے ارتقا کے تناظر میں دیکھا اس کا خیال تھا کہ ہر ثقافت کے سوتے مذہب کی آفاقی تعلیمات ہی سے پھوٹتے ہیں۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا خیال تھا کہ اقدار و روایات کی زبوں حالی کے باعث مغربی ثقافت انتشار اور عفونت کی پستی میں جا گری ہے۔ مغرب میں ثقافتی انہدام کے اسباب کی کھوج لگاتے ہوئے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے جن اسباب کی نشان دہی کی ہے ان میں مذہب کی آفاقی تعلیمات سے رو گردانی، روایات سے انحراف، ثقافتی انجماد اور بے حسی شامل ہیں۔ اس کے مزاج، فطرت اور نقطہ نظر میں پائی جانے والی سخت قدامت پسندی اور انفرادی نقطۂ نظر پر ارتکاز توجہ سے اُسے مابعد جدے دیت پر مبنی سوچ کا اہم نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ دیار مغرب میں معاشرتی زندگی کی دِل دہلا دینے والی خوف ناک اجنبیت، مایوس کن ہوس پرستی اور لرزہ خیز تنہائی کے باعث نچلے اور پس ماندہ طبقے کی آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں اور آلام روزگار نے اُن کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر کر دیں۔ عالمی جنگ کی تباہیوں نے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کو انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور مادی دور کی لعنتوں نے زندگی کی
اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو کچل کر فکری دیوالیہ پن اور تباہ کن مایوسی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس ماحول میں مجبور انسانوں کی زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ گیا مگر تہذیب و ثقافت کرچیوں میں بٹ گئی۔ ان حالات میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اپنی فطرت اور راسخ افکار کے مطابق تصوریت، جمالیات اور انسان دوستی کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں میں روشنی کا سفر جاری رکھتے ہوئے ثقافتی میراث کے ٹکڑے چن کر دامن میں لیے اور انھیں جوڑ کر تعمیر نو کے بارے میں سوچا۔ اس نے شاعری کی تخلیق کو انسانیت اور کائنات کے مسائل کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان خیالات کا اظہارکیا:
"But I am not writing for scholars, but people like myself; some defects may be compensated by some advantages; and what one must be judged by, scholar or no, is not particularised knowledge but one’s total harvest of thinking feeling, living and observating human beings. While the practice of poetry need not in itself confer wisdom or accumulate knowledge, it ought at least to train the mind in one habit ofUniversal valued: that analysing the meaning of words: of those that one employs oneself, as well as the words of others."(9)
ایک نقاد کی حیثیت سے ارسطو کی طرح ٹی۔ ایس۔ ایلٹ نے تنقید کے لیے کوئی باضابطہ قانون نہیں بنایا۔ اپنے طریق کار کے لیے اس نے اپنی حدود کا خود تعین کر رکھا تھا۔ وہ نہ تو نظریہ ساز ہے اور نہ ہی ادب کے بنیادی اصولوں کو زیر بحث لا کر ان پر تنقید کرنا اس کا نصب العین ہے۔ اس کی تنقید کوعلمی مباحث اور سخت نظریات کی کسوٹی پر جانچنا مناسب نہیں۔ اس نے تخلیق شعر میں اظہار کو اپنے عہد کی ترجمانی کے حوالے سے دیکھا۔ اس کا خیال ہے کہ ایک تخلیق کار جو ادب تخلیق کرتا ہے اسے اس کی شخصیت اور ماحول کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ معاصر ادب پر تاریخی تناظر کے حوالے سے اپنے عہد کے نمائندہ شاعر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے تنقیدی خیالات کے اثرات کا ایک عالم معترف ہے۔ اس نے شاعری کی جن تین مختلف نوعیت کی آوازوں کا ذکر کیا ہے قاری کے نہاں خانۂ دل میں ان کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
یہ زندگی کے تین ادوار ہیں جن کا تعلق مہ وسال سے ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ رخش عمر پیہم رو میں ہے بیس برس، تیس برس اور سنجیدہ استدلال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے فکر و خیال کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس کی تنقید میں وسعت نظر، پختگی، لچک اور قابل فہم انداز قاری کو فکر و خیال کی نئی دنیامیں پہنچا دیتا ہے۔ تخلیق اور تنقید کے مقام اور منصب کے بارے میں اس کے خیالات حقائق کے آئینہ دارہیں۔ اس نے واضح کیا کہ کسی بھی عہد کی بہترین شاعری کے استحسان کے لیے بلند پایہ تنقید کا وجود ناگزیر ہے۔ تہذیبی شائستگی اور ادبی ترتیب و تنظیم کے بارے میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے خیالات فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔
اس نے مسائلِ ادب کے بارے میں جو مثبت، قابل عمل اور تعمیری انداز اپنایا وہ اسے تاریخ ادب میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ معروضی حقائق کی بنا پر اس نے رومانویت اور وکٹورین ازم سے اختلاف کیا۔ قدیم نقادوں سے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کا اختلاف کسی عصبیت کے باعث ہر گز نہیں بل کہ اس نے اپنے اصولوں کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا۔ اس نے متلون مزاج اور منزل سے نا آشنا نقادوں کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا۔
مابعد الطبیعات میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی دلچسپی اس کے طرزِ احساس اور تنقید کے اہم پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اپنے بحر خیالات کی غواصی کرتے وقت ایک شاعر جذبات، احساسات اور تجربات کے جو گوہر بر آمد کرتا ہے وہ قاری کے لیے مسرت کا منبع بن جاتے ہیں۔ ایسی شعری تخلیق قاری کو شاعرکے احساس و ادراک کے بارے میں متعد حقائق سے روشاس کراتی ہے۔ تخلیق ادب میں جذبات کی تجسیم کے موضوع پرٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے مدلل انداز میں بات کی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے جن تین اہم مراحل کا ذکر کیا ہے ان میں حقیقی نوعیت کے تجربات، ان خاص تجربات میں تخلیق کار کا طرزِ عمل اور آفاقی نقطۂ نظر جوروح عصر کا ترجمان بن کر تخلیق میں سرایت کر جاتا ہے۔ تنقید کے منصب کے حوالے سے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ ایک زیرک نقاد اپنے تنقیدی مضامیں میں ذوق سلیم کو صحیح سمت عطا کرنے پر توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ تنقید اور نقاد دونوں کے منصب کو زیر بحث لاتے ہوئے اس نے سخت موقف اختیارکیا۔ خام تاثرات اور سستی جذباتیت سے اسے شدید نفرت تھی اس نے تنقیدمیں دیانت اور صداقت کو معمول بنایا۔ اس نے جمالیات کے اصولوں کو تخلیق ادب میں بہت اہم قرار دیا۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی تنقید نے نئے اندازسے ادب کے استحسان کی سوچ کو تقویت دی اور ادبی تنقید کو نئے معائر سے روشناس کیا۔
٭٭
مآخذ
1. T.S. Eliot: Selected Essays, Faber and Faber Limited, London ,1932, Page 14
2۔ سجاد باقر رضوی ڈاکٹر: مغرب کے تنقیدی اصول، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اول، جون 1987، صفحہ 321
3. T.S. Eliot: Selected Essays, page 145
4. Terry Eagleton: Literary Theory, An Introduction, Second Edition, Minnesota, US, 2003, Page 34
5۔ جمیل جالبی ڈاکٹر: ارسطو سے ایلیٹ تک، نیشنل بک فاونڈیشن، اسلام آباد، طبع ششم، 1997، صفحہ 509
6. Hans H.Rudnick: Analecta Husserliana, Kluwear, Academic Publishers, London, 1935, Page 123
7۔ وحید قریشی ڈاکٹر: جدیدیت کی تلاش میں، مقبول اکیڈمی، لاہور، سال اشاعت 1990ء، صفحہ 26
8۔ جمیل جالبی ڈاکٹر: ایلیٹ کے مضامین، رائٹرز بک کلب، کراچی، دوسر ایڈیشن، 1971، صفحہ 216
9. T.S. Eliot: Christianity and Culture, HBJ Publishers, London, 1977, Page 5
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید