بڑھے انبوہ درانبوہ پتھر لے دیوانے
لگے مینہ پتھروں کا رحمتؐ عالم پہ برسانے
وہ ابرِ لطف جس کے سائے کوگلشن ترستے تھے
یہاں طائف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے
وہ بازوجو غریبوں کا سہارادیتے رہتے تھے
پیاپے آنے والے پتّھروں کی چوٹ سہتے تھے
وہ سینہ جس کے اندر نورِ حق مستورہتا تھا
وہی اب شقّ ہواجاتاتھااس سے خون بہتاتھا
فرشتے جن پہ آآکرجبینِِ ِ شوق رکھتے تھے
نارنیں زخموں کی لذت آج چکھتے تھے
جگہ دیتے تھے جن کو حاملانِ عرش آنکھوں پر
وہ نَعلین مبارک خاک وخوں سے بھرگئیں یکسر
بشر کی عیب پوشی کے لیے جس کواتاراتھا
بشر کی چیرہ دستی سے وہ دامن پاراپاراتھا
زمیں کا سینہ شق تھا اورفلک کارنگِ رخ فق تھا
کہ ساری عمر کاحاصل شکارِ جورِ ناحق تھا
حضورؐ اس جور سے چور ہوکربیٹھ جاتے تھے
شقی آتے تھے بازوتھام کراوپراٹھاتے تھے
اسی مہماں نوازی کا نمونہ پھردکھاتے تھے
خدائے قاہروقہّار کا صبر آزماتے تھے
یہ جسمانی عقوبت اس پہ طرہ رنجِ ِ رُوحانی
خدامضحکہ کرتے تھے یہ بیداد کے بانی
کوئی کہتاتھا میں ایسے خداسے ڈر نہیں سکتا!
کہ جواپنے پیمبرؐکی حفاظت کرنہیں سکتا!!
غرض یہ بانیانِ ِ شریہ فرزندانِ تاریکی
نبیؐ پرمشق کرتے جارہے تھے سنگباری کی
مگر اس رنگ میں جب تک زباں دیتی رہی یارا
دعائے خیر ہی کرتارہا اللّہ کا پیارا
بالآخر جان کر بے جان ،ان لوگوں نے منہ موڑا
لہُومیں اس وُجودِپاک کو لتھراہواچھوڑا