ابوطالب نے فرمایا عجب اُلٹازمانہ ہے
یہ اچھّی دوستی ہے واہ کیا عمدہ بہانہ ہے
وہ صبحِ نورجس کے چہرہ انورکی برکت سے
کیاکرتے ہیں باراں کی تمنّا ابرِ رحمت سے
وہ دامن جویتیموں کو پناہیں دینے والاہے
جواندھوں کوبصیرت کی نگاہیں دینے والاہے
وہ جس نے اجڑی پُجڑی آدمیت کو سنواراہے
جو بے یاروں کایارابے سہاروں کا سہاراہے
وہی جوابررحمت بن کے جانوں کوبخشے
چمن کو رنگ بخشے اوربُلبل کو زباں بخشے
وہی جونوعِ ِ انساں کو غُلامی سے رہائی دے
وہی جو پنجہ مرگ دوامی سے رہائی دے
یہ انسان دامِ ِ مرگ اس کے غلاموں پربچھاتے ہیں
حرم کے طائروں کوشانِ ِصیّادی دکھاتے ہیں
اسی کے باغ پریہ برق شُعلہ ریزہوتی ہے
اسی کے بے زبانوں پرچُھری اب تیزہوتی ہے
وہ جس کا نام لینے سے پلٹ جاتی ہیں تقدیریں
اسی کو قتل کردینے کی اب ہوتی ہیں تدبیریں
کریں بیدادہم پر اورہمیں سے دادبھی چاہیں
ہمارا قتل ہواورہم سے پھر امدادبھی چاہیں
ہمیں منظورہے قطعِ ِ تعلّق اہلِ مکہ سے
نہیں ہم چاہتے رسمِ ِ تملّق اہلِ ِمکہ سے
یہ کہہ کر آلِ ِ عبدالمطّلب کو گھر میں بلوایا
کیاکنبہ اکٹاّاورساراحال بتلایا
بنی ہاشم اگرچہ آج تک ایماں نہ لائے تھے
مگراہل ِ ہمیت ہاشمی ماؤں کے جائے تھے
اکٹھے ہوگئے شعب ابی طالب میں آآکر
یہیں پر تھے رسولِ ِ پاک واہل ِ بیت پیغمبرؐ
فقط اک بُولہب سب سے الگ تھاسب کا دشمن تھا
نہایت سنگدل،بے رحم،بے ایمان وپرفن تھا