“انعم میں سب کو بہت مس کر رہی ہوں سب کو ایک ساتھ ہی جانا تھا کیا؟ ” زمل افسرده لہجے میں بولی-
“مس تو میں بھی کر رہی ہوں۔۔ لیکن تم کچھ زیادہ جلدی نہیں کررہی؟ ابھی کل ہی کی فلائٹ سے تو پاپا، انکل اور شہریار بھائی میٹنگ کے سلسلے ميں اکھٹے گئے ہیں۔۔ چند دن میں آجائیں گے اور ماما کو خالہ نے بُلایا ہے لاہور سب کی مجبوری تھی تم دل چھوٹا نہیں کرو اور ہمارے ساتھ انجوائے کرو”
“پھر بھی یار تم کو پتہ ہے نا جب تک سب گھر میں موجود نہ ہو مجھے اچھا نہیں لگتا” زمل کا ہنوز ویسا ہی لہجہ تھا –
“زمل میری جان کیا ہوگیا ہے بڑی ہوجاؤ اب۔ ایسا لگتا ہے کہ تم ابھی بھی چھوٹی سی زمل ہو جو ہمیشہ ڈری رہتی تھی جیسے کچھ ہوجائے گا اور تم سب کُھو دوگی۔۔ تم اس سب سے خود کو نکالو پلیز” انعم نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
“پتہ نہیں انعم مجھے کبھی کبھی کیا ہوجاتا ہے میں چاہوں بھی تو خود کو اس سب سے نہیں نکال پارہی ہوں۔۔ تم جانتی ہو نا میں بچپن میں بابا سے کتنا اٹیچڈ ہونا چاہتی تھی۔ ماما کو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہمیشہ بابا کو ماما کی یادوں میں کھویا پایا تھا۔اور پھر ایک مرتبہ تم لوگ مجھے پارک میں چھوڑ آئے تھے تب میں بہت خوفزدہ ہوگئی تھی۔۔ مجھے لگتا تھا میں نے سب کو کُھودیا ہے جبکہ صرف میں کھوئی تھی-
تب بابا کو میرا احساس ہوا تھا اُنکو میرا خیال آیا تھا۔۔ ورنہ میں نے ہمیشہ ماموں ممانی اور شہریار بھائی تک اپنی زندگی کو محدود کر لیا تھا۔۔ تم لوگوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی ڈرتی تھی اور تب جب میں چھ سال کی ہوئی تب بابا کو میرے وجود کا احساس اور مجھے کھو دینے کے ڈر سے وہ پہلی بار مجھے ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھا۔ اور پارک کے باہر مجھے روتے ہوئے بھی اُنھوں نے دیکھا تھا جب وہ میرے پاس آئے تھے تب میں اُن سے بھی ڈر رہی تھی میں اتنی خوف زدہ تھی میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جب انھوں نے مجھے پیار سے بلایا اور کہا کہ ‘کیا میری بیٹی اپنے بابا کو معاف نہیں کرے گی مجھے لگا تھا شاید ۔۔
میرا انتظار
میری دعائیں
میری خواہش
صرف اس دن کے انتطار میں تھی اس وقت خوف کے باوجود میں سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ہے۔
لیکن وہ خواب نہیں تھا میری زندگی میں جو ایک کمی تھی وہ پوری ہوگئی تب میں اُنکے گلے لگ کر اتنا روئی تھی کہ شاید کبھی زندگی میں نہیں روئی میں بےہوش ہوگئ تھی کتنا بخار ہوا تھا مجھے۔۔ لیکن چاہ کر بھی اپنے اندر سے کُھو دینے کے خوف کو نکال نہیں پائی ہوں جبکہ تم سب کی محبت نے مجھے کتنا بدل دیا سب کے ساتھ نے مجھے یہاں تک لایا ہے ورنہ شاید میں خود کو پتہ نہیں کیا کر لیتی لیکن اللہ کا شکر ہے کے جو مجھے تم سب کا ساتھ دیا- بھابھی کے آنے سے میری چھوٹی سی دنیا مکمل ہوگئ جس میں ہمیشہ رہنا چاہتی ہوں –
“ہاں سب کچھ یاد ہے مجھے۔۔
اور
ہم نہیں بھائی چھوڑ کر آئے تھے جان بوجھ کر۔۔ پاپا نے بھائی سے کتنے ٹائم تک بات نہیں کی تھی اسکا قصور وار بھی بھائی تمہیں ہی سمجھتے تھے۔۔ کتنی مشکل سے انکل اور تمہارے کہنے پر پاپا نے بھائی سے بات کی تھی ۔
انعم نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
“زمل تم سے ایک بات پوچھوں سچ بتانا۔۔؟ انعم نے اُسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں پوچھو” زمل نے بنا دیکھے ہی کہا ۔
“تمہیں بھائی پر غصہ نہیں آتا۔۔؟
اُنکا بی ہیو کیسے برداشت کر لیتی ہو ہر وقت وہ تم سے روڈ رہتے ہیں۔ پچپن سے بلاوجہ تم سے نفرت کرتے ہیں” انعم نے اُسکے چہرے سے اُسکے دل کا حال جاننا چاہا کیونکہ اُس نے کبھی زمل کو شکوہ یا شکایت کرتے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ ایسے ہی ایکٹ کرتی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو-
“انعم ۔۔ میں نہیں جانتی کہ میں ایسا کیا کروں کے اُنکے دل میں میرے لیے موجود ہر غلط فہمی دور ہوجائے۔۔
اور
شاید ایسا کبھی ممکن بھی نہیں ہے تمہیں پتہ انجانے میں ہی سہی انہوں نے مجھے وہ دیا جسے شاید میں ساری زندگی نہیں حاصل کر پاتی میرے ‘بابا’ مجھے لوٹادیے نہ وہ مجھے پارک میں چھوڑتے نہ مجھے کھو دینے کے خوف سے بابا کے دل میں موجود محبت جاگتی ۔اُنکا یہ احسان ساری زندگی کا ہے میں کبھی نہیں اتار سکتی شاید یہی وجہ ہو اُنکی کسی بھی بات کا برا نہ لگنے کی۔” زمل نے اپنے تاثرات نادمل رکھتے ہوئے بولی ۔
“اور اگر تم کُھو جاتی تب۔۔؟ ” انعم نے مزید پوچھا۔
“پھر وہ میری قسمت ہوتی۔۔ بس مجھے افسوس ہے کہ وہ میچور ہیں اتنے ۔۔پھر کیوں نہیں بچپن کی باتیں بھول جاتے وہ ۔
مجھے دُکھ ہوتا ہے ۔۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک ان کے علاوہ سب ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں –
تم سب کی محبتوں کے آگے اُنکی نفرت بہت چھوٹی ہے اس لیے مجھے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔۔ اور
اُنکی بلاوجہ کی نفرت کی سزا میں باقی سب کو نہیں دے سکتی ہوں یہ اپنے ساتھ اور تم سب لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔۔
اور
اب تو سوچو بھی تو جان جاتی ہے تم میں سے کسی ایک سے بھی دور ہونے کا تصور بھی کرکے”
زمل نے جواب دے کر اُسکی طرف دیکھا۔
“پاپا صحیح کہتے ہیں کہ زمل اب بڑی ہوگئ ہے اور سمجھدار بھی۔۔ جب ہی تو شاید اُنہوں نے اتنا بڑا فیصلہ کیا تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنے پاس ہی رکھنے کا فیصلہ کر لیا ۔” انعم مسکراہٹ دبا کر مستی سے کہا ۔
“جسٹ شٹ اپ انعم”۔۔ زمل نے جل کر کہا ۔
“انعم کا قہقہ بہت بلند تھا ۔۔ ویسے کبھی بھائی نے کہیں اور جگہ پر جاکر رہنے کا ارادہ کر لیا تب کیا کرو گی ایسے ہی رویا کرو گی؟ انعم باز نہیں آئی ۔
“تب کیا ہوگا پاپا اپنے فیصلے پر پچھتائے گے اور یہ میڈم رو رو کر اور بھائی ان پر غصہ کر کر کے لوگوں کو اپنی کہانی بنانے کا موقع دیں گے۔ “حماد نے روم میں داخل ہو کر انعم کی بات کا جواب دیا ۔
“تم کیا ہر وقت دوسرں کی باتیں سنتے رہتے ہو ۔کوئی اور کام نہیں ہے تمہیں فارغ انسان ” زمل نے بات بدلنے کی غرض سے کہا ۔
“اور
تم دونوں کو دوسرں کی برائیوں کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہے؟ ابھی بھائی اپنی برائی سن کر گئے ہیں یہاں سے ” حماد نے ڈرانا چاہا ۔
“پہلی بات تو یہ کہ ہم اُنکی برائی نہیں کررہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ وہ خاموشی سے چلے جائیں ایسا ممکن ہی نہیں ہے ” زمل نے گھبرائے بنا جواب دیا ۔
“انعم چائے بناکر بھیجو باری اور میرے لیے ۔اور زرا آہستہ باتیں کرو ساری آواز باہر آرہی ہے ۔” بالاج نے دروازے میں کھڑے ہوکر کہا ۔
“حماد کے بچے تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ باری آئے ہیں کیا سوچتے ہوں گے کہ کیسے منہ پھاڑ کر ہنستی ہوں میں “انعم بالاج کے جاتے ہی حماد سے کہنے لگ گئی ۔
“میں یہی تو بتانے آرہا تھا کہ بیچارے اتنی بری طرح ڈرے۔پوچھنے لگے کوئی چڑیل بھی یہاں رہنے لگ گئی ہےکیا؟
میں نے کہا ایک نہیں بلکہ۔۔
“خبردار جو تم نے میرا نام لیا ” زمل نے پہلے ہی ٹوک دیا۔
“اب تم خود سمجھ گئ ہو تو میرے بتانے کی کیا ضرورت ” اُس نے بھی چڑایا ۔
“دفع ہو جاؤ حماد تم یہاں سے” زمل چیخی ۔
“آہستہ بولو۔۔ بھائی ایک بار خاموشی سے یہاں سے گئے ایسا نا ہو اگلی بار تمہاری کلاس کرکے جائیں ” حماد نے سنجیدگی سے کہا۔
“زمل بھائی تمہاری بات سن کر بھی چپ رہے تمہیں حیرت نہیں ہورہی ہے” انعم بے یقینی سے بولی۔
“تم دونوں اب اُنکی باتیں کرنا بند کر سکتے ہو پلیز۔۔ ” زمل نے انجان بنتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی ۔
“انعم مجھے تو بلکل بھی ہضم نہیں ہورہا ہے یہ ضرور ان دونوں کے درمیان کچھ چکر چل رہا ہے جس کی راز داری ہم سے کی جارہی ہے ” حماد کو برداشت نہیں ہوا ۔
“اُف حماد کتنا دماغ خراب کرتے ہو فضول باتوں سے تم ایسا کچھ نہیں ہے ” زمل چڑ کر بولی
“اتنی زبان ہمارے آگے چلاتی ہو اتنی بہادر بنتی ہو ۔اُنکے سامنے آتے ہی تمہاری زبان کو کون سے تالے لگ جاتے ہیں اس بات پر روشنی ڈالنا پسند کریں گی آپ۔۔؟ حماد نے ایک اور نقطہ اُٹھایا ۔
تم باز نہیں آؤ گے۔۔؟ ٹھیک ہے میں سونے جارہی ہوں مجھے تم دونوں سے بات نہیں کرنی ہے اب ۔ تم لوگوں کے پاس اُنکے علاوہ کوئی اور بات رہی ہی نہیں ہے ” زمل نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
“اچھا سوری نا۔۔ اب نہیں کریں گے تنگ تمہیں یہ بتاؤ چائے بناؤں تمہارے لیے؟
اور
دیکھو بھائی نے چائے کا کہا ہوا ہے اور میں بھول گئی ابھی مجھے ڈانٹ پڑ جاتی بھائی سے ۔ ”
“خیر اب تم اپنے اُنکے آنے پر چائے بنانا بھول جاؤ تو یہ جھوٹ ہوگا تم کو اچھے سے علم کے وہ چائے کے کتنے شوقین ہے پھر بھی ڈرامہ کر رہی ہو ہر دفعہ ہمارے کہے بنا بناتی ہو ” حماد نے انعم کو چھیڑا ۔
“بہت بدتمیز ہو تم زمل بلکل صحیح کرتی ہے تمہارے ساتھ ” انعم نے گھور کر کہا ۔
“انعم اسکی باتوں کے بعد چائے کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن فی الحال میرا ارادہ باہر جا کر کافی پینے کا ہے تم چائے بناؤپھر ہم حماد کے ساتھ چلتے ہیں ” زمل نے اپنا پروگرام بتایا ۔
“جبکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ جانا ہے زرا اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اُن پر بھی ڈالو جنھوں نے ساری زندگی تمہیں برداشت کرنا ہے ” حماد چھیڑنے سے باز نہیں آیا ۔
انعم باری اور بالاج کو جاتا دیکھ وہاں سے چلے گئی۔ زمل کا رخ اُنکی طرف نہ ہونے کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکی تھی ۔
“حماد شرافت سے ہمیں تم ہی لے جارہے ورنہ میں ابھی ماموں کو کال کر کے تمھاری شکایت کرتی ہوں اُن سے ” زمل نے دھمکانا چاہا۔
“جب تمہارا کوئی بس نہیں چلتا تو پاپا کو لے آتی ہو درمیان میں ۔۔” حماد نے منہ بنا کر کہا ۔
“تم قابو بھی اُن سے ہی آتے ہو” زمل نے ہنستے ہوئے جواب دے کر پلٹی تو سامنے بالاج اور باری کو کھڑے پایا ۔
“اسلام و علیکم”۔۔ زمل نے سلام کیا ۔
“وعلیکم اسلام” ۔۔کیسی ہو زمل۔۔؟ ”
باری نے پوچھا۔
“میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں باری بھائی۔؟؟
زمل نے بھی پوچھا –
“میں بھی ٹھیک ۔ کہاں جانے کے لیے کہا جارہا ہے؟
“کُافی پینے کا دل کررہا تھا ” زمل نے اپنی خفت چُپھانے کے لیے مختصر جواب دیا کیونکہ باری کی بات سے اندازہ ہوا کہ وہ دونوں حماد کی بات سن چُکے ہیں جو اُس نے آخر میں کہی ۔ زمل کو غصہ آیا حماد پر ۔
“ہمارے ساتھ چلو اگر حماد نہیں لے جارہا ہے”۔
باری نے آفر کی ۔ جس پر بالاج نے اُسے گُھورا جسے باری جان کر نظر انداز کر گیا ۔
“واہ باری بھائی آپ نے تو میرا مسئلہ ہی حل کردیا۔۔ یقین جانے اگر یہ اج نہیں گئی تو تین دن تک نہ خود سکون سے رہے گی نا مجھے رہنے دے گی اتنے طعنوں کا اسٹاک جمع کرلے گی
اور
بات یہاں ختم نہیں ہوگی بہت اوپر تک جائے گی تب جاکر سکون آئے گا انکو۔
“زمل نے گُھورا بھی لیکن حماد کہاں کسی کے دباؤمیں آنے والا تھا ۔”
“حماد شرم کرو جھوٹ بولتے ہوئے ۔۔ وہ بات کو بڑھا کر بتا رہا تھا اُسکی عادت تھی بات کو رائتے کی طرح جب تک نہیں پھیلا دیتا تھا چین سے نہیں بیٹھتا تھا ۔”
“باری بھائی اسکی باتوں پر دھیان نہیں دیجیئے گا اور کوئی بات نہیں رہنے دیں –
ہم حماد کے ساتھ چلے جائیں گے آپ تکلیف نہیں کریں ” زمل نے اُنہیں ٹالنا چاہا۔۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ باری بھائی کبھی بالاج کے بنا نہیں جاتے تھے ۔
“زمل اس میں تکلیف کی کیا بات باری بھائی اکثر جاتے ہیں ہمارے ساتھ اور پھر ویسے بھی یہ تو تیار رہتے ہیں جانے کو اور سچ میں یار میرے دوست کی برتھ ڈے پارٹی نہ ہوتی تو میں ضرور تم کو لے جاتا میری پیاری بہن تم لوگ ان کے ساتھ چلی جاؤ ابھی کل میں کہیں ضرور لے جاؤں گا ۔” حماد نے پیار سے سمجھانا چاہا کیونکہ زمل اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔
“زمل۔۔ بہن کے لیے بھی یہ کوئی تکلیف کی بات ہوتی ہے اور آئی نو کہ تم سب کو مس کررہی ہو اس لیے جانا چاہتی ہو اس لیے اب نو مور آرگیمنٹس جلدی سے تیار ہوجاؤ” باری نے اُسے کہا ۔
“میں تیار ہوں باری بھائی چلتے ہیں ” زمل نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔
“تم اس حلیے میں باہر جاؤ گی۔۔؟ حماد نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے پوچھا وہ اُسکا موڈ بنا دیکھ چُکا تھا اس لیے اُسے چھیڑا۔
“کیوں اس میں کیا برائی یے؟ اور تمہیں کیا تکلیف ہے میں جیسے بھی جاؤں ” زمل اس سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتی تھی ۔
“تھوڑا میک اپ کر لو لوگوں کو ڈراتی ہوئی آنا تمہارا موڈ اچھا ہو جائے گا ” حماد نے جان کر کہا تھا جانتا تھا وہ میک اپ نہیں کرتی اور جہاں جانا ہوتا اسی طرح چلی جاتی تھی لوگوں کی پرواہ نہیں کرتی تھی وہ۔
حماد کے کہنے پر چپ بیٹھے بالاج نے اُسکی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا تو بلیو جینز کے ساتھ بلیک لانگ شرٹ اور بلیک دوپٹہ گلے کے گرد دونوں طرف سے گُھما کر لیا تھا وہ اکثر ہی اُسے یہی ڈریسنگ کرتے دیکھتا آرہا تھا ۔ اور کمر تک آتے بالوں کو کیچر میں مقید کیا ہوا تھا اسکا ہمیشہ کا یہ اسٹائل بہت سمپل ہونے کے باوجود اُسے منفرد بنا دیتا تھا ۔
اور اُسکی بڑی بڑی ہری آنکھیں اور گالوں پر پڑتے ڈمپل اُسے الگ ہی بنا دیتے سب سے اور وہ اس سب سے ہمیشہ لاپرواہ نظر آتی تھی ۔
“تم ہمیشہ فضول بولنا بس۔۔ میں انعم کو دیکھتی ہوں ۔” زمل نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔
“بھائی شکر آپ نے میری جان چھڑوائی ان چڑیلوں سے لیکن یہ صرف آپ نے اپنے لیے کیا ہے ورنہ آپ مجھ پر کبھی ایسی مہربانی نہیں کریں یہ بھی بہتر جانتا ہوں ۔۔ لیکن کسی اور پر ضرور کر گئے ہیں مہربانی دوست جو ہے آپکا خیر میں بھی کباب میں ہڈی بن کر بددعائیں لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا مجھے اپنا فیوچر بھی بہت پیارا ہے آج مدد کروں گا تو کل مجھے بھی صلہ ملے گا ” حماد نے زمل کو جاتے جاتے بھی ستانا نہ چھوڑا۔
اس بات پر تینوں کا مشترکہ قہقہ وہاں سے جاتی زمل اور چائے لاتی انعم دونوں نے سنا تھا ۔
****
“زمل تم اتنی جلدی اُٹھ گئی ہو۔ آؤ تم بھی ناشتہ کر لو۔” انعم نے صبح صبح اُسے آتے دیکھ کر کہا ۔
“نہیں مجھے لیٹ ہورہا ہے یار۔۔میں تمہیں بتانا بھول گئی تھی مجھے یونیورسٹی جانا ہے۔ میم ندرت نے بلایا ہے آج اس لیے بس اب نکلوں گی میں ” زمل نے عجلت میں جواب دیا۔
“وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں نے تو ڈرائیور کو آج چھٹی دے دی تھی کہ ہمیں نہیں جانا ہے ۔” انعم نے زمل کو بتایا ۔
“مجھے تو جانا بہت ضروری ہے تم میم ندرت کو جانتی ہو نا؟ ” زمل نے پریشانی سے کہا ۔
“تم میری طرف دیکھنے کی کوشش بھی مت کرنا کہنا تو بہت دور کی بات ہے” حماد زمل کا رخ اپنی طرف مُڑتے دیکھ کر پہلے ہی اُسے ٹوک گیا۔
“کل کی تمہاری حرکت کے بعد تمہارے ساتھ جانے کا سوچنا بھی نہیں چاہتی ہوں جانا تو بہت دور کی بات ہے۔” زمل نے بھی بدلہ چُکایا ۔
“ویسے تم چاہو تو بھائی تمہیں ڈراپ کرسکتے ہیں اُنہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ہے نا بھائی۔۔؟ ” حماد نے چائے پیتے بالاج کو بھی شامل کیا اپنے ساتھ ۔
“نہیں کوئی بات نہیں انکو لیٹ ہوجائے گا میں خود ڈرائیو کر کے چلی جاؤں گی” ۔زمل نے حماد کو بری طرح گُھورتے ہوئے کہا ۔
“جی جی بلکل تاکہ کوئی بیچارا ہاسپٹل میں ہو آپ میڈم اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہوتے ہوئے پولیس والوں سے لڑرہی ہوں اور پھر آخر میں آنا بھی ہمیں ہی پڑے گا اس سے بہتر آپ خود ساتھ چلی جائیں ۔” حماد نے کچھ ٹائم پہلے کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے اُسے سنایا ۔
“شٹ اپ۔۔ ہر بار ایسا ہو ضروری نہیں ہے۔ وہ تو تب بس ایکدم سے ڈر کر ہوگیا تھا مجھے سے تم بات پکڑ کر ہی بیٹھ جایا کرو بدتمیز انسان ہو تم بہت ۔” زمل نے شرمندہ لہجے میں کہا حماد سے امید نہیں تھی کہ سامنے ہی کہہ جائے گا ۔
“میں باہر کار میں آپکا انتظار کررہا ہوں آجائیں آپ۔۔ ” بالاج زمل سے کہہ کر باہر چلا گیا زمل کے جواب کا انتظار کیے بنا ۔
“زمل ابھی تم چلی جاؤ تمہیں دیر بھی ہو رہی ہے ۔” انعم نے سمجھانے والے انداز میں کہا ۔
“تمہیں تو میں آکر پوچھوں گی ۔” زمل حماد کو دھمکی دیتی وہاں سے چلے گئی ۔
“حماد تم بہت تنگ کرتے ہو اُسے سُدھر جاؤ” انعم نے حماد سے کہا ۔
“تنگ ہوتی ہے وہ جب ہی تو اُسے تنگ کرنے میں مزہ آتا ہے۔۔ ویسے انعم تمہیں نہیں لگتا پاپا ان دونوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں زبردستی اپنا فیصلہ منوا کر؟ ۔۔ دونوں کے مزاج میں کتنا فرق ہے اور بھائی تو زمل کو ناپسند کرتے ہیں ۔” حماد نے انعم سے رائے چاہی۔
“کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو میں بھی انھیں دیکھ کر یہی سوچتی ہوں۔۔ لیکن پھر سوچتی ہوں کہ کیا پتہ بعد میں دونوں کے درمیان محبت ہوجائے ۔۔نکاح کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے حماد۔ اور زمل دل کی اتنی اچھی ہے کبھی نہ کبھی بھائی کا دل بدل ہی جائے گا دیکھنا تم۔” انعم ایک امید سے بولی۔
“انشا الله ۔۔ ایسا ہی ہوگا ” حماد نے بھی جواب دیا ۔ انعم نے بھی “آمین ” کہا ۔
“فی الحال دُعا کرو کہ دونوں بنا جنگ کیے خیریت سے آئے اور پھر خود ہی ہنس پڑا۔۔
“صحیح کہتی ہے زمل بہت ہی فضول بولتے ہو ہمیشہ ۔” انعم نے جھڑکا ۔
” تمہارے اتنے برے دن آگئے ہیں کہ اب اُس زمل کی باتوں پر یقین رکھو گی ۔۔باری بھائی کے ساتھ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہیں باری بھائی بھی تم دونوں کے جیسے عقل سے ۔۔ حماد کا جملہ پورے ہونے سے پہلے ہی انعم چیخ پڑی ۔
“دفع ہوجاؤ حماد “۔ حماد فوراً وہاں سے چلا گیا ۔
کار کی خاموشی میں دونوں اپنی اپنی سوچوں کی دنیا میں گُم بیٹھے تھے ۔ دونوں نے ہی ایکدوسرے کو مخاطب نہیں کیا۔
یونیورسٹی آنے پر زمل خاموشی سے اترنے لگی جب بالاج کی آواز آئی کہ وہ واپسی پر اُسے پک کرنے آئے گا”
“زمل کا دل چاہا کہ منع کردے لیکن وہ چپ رہی اور صرف ٹھیک ہے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گئی ۔”
“یہ لڑکی بچپن سے ہی میرے اپنوں کو مجھ سے دور کرتی آئی ہے۔۔ لیکن اس بار میں آسانی سے ایسا نہیں ہونے دوں گا چاہے کچھ ہوجائے ” اندر جاتی زمل کی طرف دیکھتے ہوئے بالاج نے سوچا اور کار وہاں سے لے گیا ۔
****
“رشیدہ بی ناشتہ لے آئیں پلیز جلدی۔” زمل نے بالوں کو کیچر لگاتے ہوئے اُن سے کہا۔
جی بیٹا ابھی لاتی ہوں۔۔ رشیدہ بی نے ان سب کو بچپن سے پالا تھا وہ اس گھر کے ہر فرد کی ہر عادت سے واقف تھیں ۔ بالاج سے سب سے زیادہ پیار کرتی تھی وہ ہمیشہ سے اُن کے قریب رہا تھا وہ جب بھی سب سے ناراضگی ہوتی تو وہ اپنا وقت رشیدہ بی کے پاس گزارتا تھا۔ اور اُنکے بہت سمجھانے پر بھی وہ بالاج کے دل سے زمل کے لیے غلط فہمی کو ختم نہیں کرسکی تھیں ۔
“ناشتہ ختم ہوتے ہی زمل کا ارادہ حماد کے روم سے اپنی بُکس لینے اور پھر ممانی سے مل کر گھر جانے کا تھا بھابھی کے ساتھ ۔
رشیدہ بی میں روم میں ہوں جب سب آجائیں مجھے بلا لیجئیے گا” زمل نے اُپر روم کی طرف جاتے ہوئے کہا ۔
“جی بہتر۔۔ ” رشیدہ بی نے جواب دیا ۔
حماد کا روم بالاج کے روم کے ساتھ تھا ۔ زمل وہاں ہی بیٹھ گئی تھی وہ اپنے اسائمنٹ کا کام کرنا چاہتی تھی ۔ جب اُسے بالاج کی آواز سنائی دی ۔
” کیا یہ ساتھ نہیں گئے۔۔؟ ” زمل خود سے مخاطب تھی۔ وہ یہاں سے جانے کے لیے اُٹھی تھی جب اپنے نام پر اُسکے قدم رُک گئے یہ اخلاقیات میں نہیں آتا تھا لیکن وہ لفظوں کے آگے خود کو ہلنے کے لیے مجبور نہیں کر پائی تھی ۔
“زمل نے یہاں سب پر پتہ نہیں کیا جادو کیا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ میری فیملی نہیں اُسکی فیملی ہے۔
اور
پاپا کا تو پوچھو ہی مت۔۔ خیر اس بار ایسا نہیں ہوگا میں نے پاپا کی ہر بات ہمیشہ مانی ہے لیکن میں اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی اجازت اُنھیں نہیں دے سکتا ہوں یہ صرف وہ اپنی چہیتی کی محبت میں کر رہے ہیں۔ جتنی محبت اُنکو زمل سے ہے اُس سے کہیں زیادہ نفرت میں زمل سے کرتا ہوں۔۔ میرے پاپا اُسکی بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کرسکتے ہیں لیکن میری نہیں۔۔ شہرین تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے شادی میں تم ہی سے کروں گا چاہئے کچھ ہو جائے۔۔
وہ اپنے ڈراموں سے پوری دنیا کو بیوقوف بنا سکتی ہے مجھے نہیں۔۔ میرے بس میں ہو نا اگر تو میں اُسے اپنوں کی زندگیوں سے ہی نہیں اس دنیا سے باہر نکال کروں میں اتنی نفرت کرتا ہوں اُس سے۔”
“حماد کے کمرے کے دروازے میں کھڑی زمل نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اپنی سسکی روکنے کے لیے۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بالاج اپنی نفرت میں اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے اُسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ بالاج کے ہی الفاظ ہیں ۔
وہاں سے بھاگتے ہوئے روم سے باہر پڑے ٹیبل سے ٹکرانے پر اُس پہ پڑا گلدستہ زمین پر گر کر ٹُوٹ گیا ۔”
گلدستہ ٹُوٹنے کی آواز پر بالاج روم سے باہر آیا اور اپنے سامنے زمل کو دیکھ کر ٹھٹکا۔۔ لیکن اُس نے زمل کو کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا اور زمل کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بالاج کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ سب سن چُکی ہے ۔
“زمل سامنے سے گزر کر جانے لگی تو بالاج نے اُسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اپنا توازن قائم نہ رکھتے ہوئے وہ بالاج سے ٹکرا جاتی لیکن زمل نے اپنے اور بالاج کے درمیان بازو کر لیا ۔
پنک کُرتی شلوار میں بالوں کو کیچر لگائے اور رونے سے اُسکی آنکھیں الگ ہی چہرے کو سادگی میں خوبصورتی دے رہا تھا ۔ بالاج اُسے یک ٹک دیکھے جارہا تھا ۔
“کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑیں میرا بازو “زمل نے بازو چھڑانے کی کوشش کی لیکن بالاج کی مضبوطی کے آگے اُسے اپنا آپ کمزور لگا۔
“تم میری باتیں سن رہی تھی یہاں کھڑی ہوکر۔۔؟” بالاج کو غصہ آیا تھا اُس پر اس نے بازو کو زور سے دبایا ۔
“بالاج مجھے درد ہو رہا چھوڑیں مجھے۔ ” زمل نے آنسو کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا وہ بالاج کے سامنے رو کر خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
“ہاں سن لی سب باتیں۔۔ کیوں آپ کو ڈر ہے کہ ماموں کو نا بتادوں میں۔۔ ؟”
“مجھے کسی بات کا کوئی ڈر نہیں ہے جو باتیں میں نے فون پر کہی ہیں میں تمہارے سامنے بھی کہہ سکتا ہوں کہ
تم وہ واحد ہستی ہو جس سے میں اتنی نفرت کرتا ہوں اور اگر تمہیں میری نفرت کا تھوڑا بھی اندازہ ہوجائے تو تم خود مرنا چاہو گی اس لیے کسی خوش فہمی میں مت رہنا تم ” بالاج اگلے پچھلے حساب برابر کرنا چاہتا تھا اُسکے بس میں ہوتا تو وہ اس نازک سی لڑکی کو کہیں اُٹھا کر پھینک دیتا ۔۔ وہ تکلیف دینا چاہتا تھا ۔
“زمل کی آنکھ سے آنسو نکل کر اُسکے گالوں پر بہہ گئے ” وہ سچ میں اُسے تکلیف ہی دے رہا تھا ۔
“میرے پر تمہارے اس ڈرامے کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔میں تمہاری اصلیت جانتا ہوں دفعہ ہوجاؤ یہاس سے اب ” بالاج نے زور سے جھٹکا دے کر پیچھے کو دھکا دیا وہ گرتے گرتے بچی تھی ۔ زمل وہاں سے فوراً بھاگی تھی ۔
11 بجے رشیدہ بی کو بتا کر وہ اپنی کار لے کر باہر آگئی تھی ۔ سمندر کے کنارے بیٹھے وہ آس پاس کو فراموش کر چُکی تھی ۔
سڑکوں پر گاڑی چلا چلا کر بلآخر وہ تھک چکی تھی ۔وہ کہیں بھاگ جانا چاہتی تھی ۔
“تین بجے وہ گھر آکر کمرے میں مقید ہوگئی تھی وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔”
****
“راشدہ بی۔۔ زمل کہاں ہے۔۔؟ ” انعم جو پورے گھر میں اُسے دیکھ چُکی تھی اور کہیں نا پاکر ان سے پوچھنے لگی ۔
“اپنے روم ہوں گی پڑھ رہی ہوگی ۔ ناشتہ کرنے کے بعد سے میری اُن سے ملاقات نہیں ہوئی۔” راشدہ بی نے جواب دیا ۔
“لیکن وہ تو کہیں نہیں ہے میں دیکھ چُکی ہوں ہر جگہ۔” انعم پریشان لہجے میں بولی ۔
“کیا ہوا انعم؟
“ماما پتہ نہیں زمل کہاں ہے گھر پر نہیں ہے ہر جگہ دیکھ چُکی ہوں ” انعم نے بتایا ۔
“تم نے اُسے کال کی۔۔ ؟” حماد نے پوچھا ۔
“ہاں۔۔سیل بھی آف ہے اُسکا “انعم نے بتایا ۔
“بھائی آپ تو گھر پر تھے آپکو بھی نہیں معلوم زمل کا؟ انعم نے بالاج سے پوچھا
“نہیں مجھے نہیں پتہ اُسکا” بالاج نے، مختصر سا جواب دیا۔
“حماد تم رحیم چاچا سے پوچھو وہ باہر گئی ہوگی تو اُنکو ضرور معلوم ہوگا” انعم پھر سے بولی۔
“ہاں میں پوچھ کر آتا ہوں تم اُس کے نمبر پر ڈائل کرتی رہو ۔” حماد نے اُسے کہا ۔
“خیریت ہے آپ سب اتنے پریشان ہے۔۔؟ ” اندر آتے ہوئے باری نے پوچھا۔
” زمل پتہ نہیں کہاں ہے وہ ہمارے ساتھ نہیں گئی تھی اُس کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی اب ہم آئے ہیں تو وہ کہیں نہیں ہے۔۔ اور اُسکا سیل بھی آف ہے ۔” زمل نے ثناء اور باری کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا ۔
“رحیم چاچا کہہ رہے ہیں زمل دوپہر میں گاڑی لے کر گئی تھی اور تین گھنٹے کے بعد وآپس آئی تھی پھر وہ اندر ہی تھی گھر میں ۔” حماد نے آکر سب کو بتایا ۔
“زمل ایسے بنا بتائے کیسے جاسکتی ہے وہ بھی خود ڈرائیو کرکے جب کہ اُسے سختی کے ساتھ منع کیا گیا تھا ۔اور اب کہاں ہے پھر؟
“مجھے لگ رہا ہے وہ شاید گھر میں چلی گئی ہے “انعم نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
“مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے زمل کی ”
“مامی آپ پریشان نہیں ہو ہم دیکھتے ہیں اُسے “ثناء نے تسلی دینا چاہی ۔
“ماما وہ دیکھ لے گے آپ بیٹھ جائیں “بالاج نے بے رخی برتتے ہوئے اُنکو اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھالیا ۔
“جلدی چلیں آپ سب”
انعم کو اسوقت زمل کی پریشانی تھی ورنہ اُسے بالاج کا ایسا بی ہیو بلکل اچھا نہیں لگا تھا۔
گھر کا مین ڈور اوپن ہونے سے اتنا تو پتہ چل گیا تھا کہ زمل اندر ہی ہے ۔زمل کاروم لاک تھا اور بار بار دستک پر بھی اُس نے نہیں کھولا تھا ۔
مجھے تو بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے” انعم پریشانی سے بولی ۔
“میرے پاس زمل کے روم کی ایکسٹرا چابی ہے میں لے کر آتی ہوں ۔”بھابھی فوراً یاد آنے پر لینے چلے گئیں۔
“روم کا لاک کھولا تو کمرے میں گُھپ اندھیر تھا۔حماد نے لائٹ آن کردی۔ بیڈ خالی تھا
لیکن
نیچے قالین پر زمل اوندھے منہ بے ہوش پڑی تھی ۔
“زمل” انعم کے منہ سے چیخ نکلی ۔
بھابھی اور حماد نے بھاگ کر اُسے سیدھا کیا ۔
“اسے تو بہت تیز بخار ہے اور، یہ بے ہوش کیوں ہے حماد۔۔؟ ” بھابھی نے روتے ہوئے پوچھا۔
“بھابھی پریشان نہیں ہوں ہم اسے ہاسپٹل لے کر جاتے ہیں۔۔ ” حماد نے دلاسا دینا چاہا ۔
“زمل کو اچانک ہوا کیا مجھے سمجھ نہیں آرہی ماما” انعم نے فون رکھتے ہوئے کہا ۔
“مجھے تو خود، اُسکی پریشانی ہورہی ہے لیکن شکر اللہ کا کہ ٹھیک ہے وہ ”
“صحیح کہہ رہی ہیں میں بھی ڈر گئی تھی ابھی تو ڈاکٹر نے کچھ بھی پوچھنے سے، منع کیا ہے اُس سے ”
“تمہارے پاپا لوگ کل رات کو آئیں گے ”
انعم نے پاس بیٹھے مصروف سے بالاج کو، دیکھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نا ہو “بھائی اللہ نہیں کرے کہ جو کچھ میں سوچ رہی ہوں وہ سچ ہو اور زمل کی اس حالت کے زمہ دار آپ ہوں ” انعم نے دُکھ سے دیکھتے ہوئے سوچا ۔
****
“زمل کو بلاؤ” مدثر صاحب نے انعم سے کہا ۔
“جی بابا بس آگئی ہے وہ” انعم نے زمل کو آتے دیکھ کر کہا ۔
“میری بیٹی کو کیا ہوگیا تھا کس بات کی ٹینشن لی اتنی آپ نے۔۔؟ ” انھوں نے زمل کو اپنے برابر میں بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“وہاں پر موجود سب نفوس کی نظر زمل پر تھی۔ مدثر، جمال اور شہریار شام میں ہی واپس آئے تھے اور سب کا ڈنر ثناء نے ہی تیار کرلیا تھا اس لیے سب وہاں موجود تھے ماسوائے بالاج کے وہ ابھی تک آفس سے وآپس نہیں آیا تھا۔”
“تمہیں اتنا شوق تو سب کی توجہ حاصل کرنے کا تو ویسے ہی بول دیتی یہ بیمار ہونے کا ناٹک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟ حماد نے اُسکی خاموشی ختم کرنے کے لیے اُسے چھیڑا۔
لیکن
مدثر صاحب کے گھورنے پر چپ ہوگیا۔ زمل پھر بھی خاموش رہی۔
“اب کیسی طبیعت یے میری بیٹی کی۔۔؟ جمال صاحب نے بھی فکر مند ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ٹھیک ہوں بابا۔” مختصر سا جواب دیا ۔
“گڑیا کوئی پریشانی یے تو ہمیں بتاؤ۔۔ ” شہریار کو بھی زمل کی پریشانی ہو رہی تھی رات سے ہی جب ثناء نے بتایا تھا ۔
“کہیں ہم تمہیں گھر پر اکیلا چھوڑ کر گئے بھائی سے ڈر کر تو نہیں بیمار ہوگئی تھی تم۔۔؟ ” حماد نے اندر آتے بالاج کی طرف دیکھ کر مذاق میں کہا ۔
بالاج سب سے سلام کرتا زمل کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
زمل کی نظر بالاج سے ملی اور اُسکی آنکھیں دُھندلا سی گئی ۔ چاہنے کے باوجود وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی ۔
اور
مدثر صاحب کے سینے سے لگ کر رو پڑی اور اس بری طرح روئی کے وہاں پر موجود سب لوگ اپنی جگہ ششد رہ گئے
“انھوں نے زمل کو کبھی ایسے روتے نہیں دیکھا تھا ”
زمل بیٹا آپ ہمیں پریشان کر رہی ہو آپ جب تک ہمیں کچھ بتاؤ گی نہیں ہمیں کیسے آپ کی تکلیف کا علم ہوگا؟
“زمل کو فوری اپنی جذباتیت کا احساس ہوا تھا کہ اپنی وجہ سے وہ سب کو پریشان کررہی تھی “۔
“آئی ایم سوری” ممانی ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے بس میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور پھر میں آپ سب کو بہت مس کررہی تھی میرا دل بہت عجیب ہورہا تھا” زمل نے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔
“ہماری بیٹی تو بہت بہادر ہے ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے والی تو نہیں ہے آئندہ ایسا مت کرنا بیٹا ہم سب کی جان ہو آپ ” مدثر صاحب نے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔
“ماموں بہادر ہونے سے ہر بار ہر بات کو اگنور نہیں کیا جاسکتا ہے اور کوئی کتنا بھی بہادر ہو۔۔ ہوتا تو انسان ہی ہے نا۔۔
لیکن آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔ آپ سب لوگ پریشان نہیں ہوں۔ ”
بالاج کی نظریں زمل پر ہی تھی ۔وہ جانتا تھا وہ اسے ہی سُنا رہی ہے بالاج کو اپنے رویے کا افسوس تھا۔
“بھائی مانا کہ وہ پیاری ہے لیکن ایسے بھی کیا دیکھنا کہ آس پاس بیٹھے بڑوں کا بھی خیال نہیں آپکو ” حماد نے قریب آکر سرگوشی میں کہا ۔
جو کہ پاس کھڑی انعم سن چکی تھی اور اپنی مسکراہٹ دبائی تھی ۔
“اور تم کبھی فضول بولنا بند مت کرنا ” بالاج نے گھور کر کہا۔
“چلیں میں کھانا لگاتی ہوں۔۔ ” ثناء نے سب سے مخاطب ہو کر کہا۔
“چلیں بھابھی میں بھی آپ کی ہیلپ کرواتی ہوں ۔”انعم بھی کھڑی ہوتے ہوئے بولی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...