سمبل انگڑائیاں بھرتی ہوئی نیند سے بیدار ہوئی، اپنے ارد گرد نظر گھما کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھا کر منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکتے کال ہسٹری چیک کی، جہاں فلحال شایان کا کوئی میسج نہیں تھا۔موبائل پر سائیڈ پر رکھ کر گھڑی پر نظر دوڑآئی جو دوپہر کہ تین بجا رہی تھی۔
افف اللّه میں اتنا زیادہ کیسے سو گئی۔”سمبل جلدی سے کمبل ایک طرف کو پھنکتی اٹھ کر واشروم کی جانب بھاگی۔منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی اور ساتھ ہی قدم کچن کی جانب بڑھاۓ جہاں صبح کہ ناشتے کہ گندے برتن اس کا منہ چڑھا رہے تھے۔
ایک گہری سانس بھرتی سمبل پھیلے ہوے کچن کو سمیٹنے کی غرض سے اگئی بڑھی۔محض پندرہ منٹ میں وہ پورا کچن چمکا چکی تھی۔پیٹ میں ڈورتے چوہوں سے تنگ آکر فرج کھول کر دو سیب اور چھری پلیٹ میں رکھتی وہیں لاونج میں آگئی ساتھ ہی ایل آئ ڈی کو ان کرتے وقت گزاری کہ لئے چینل سرچنگ کرتے پاکستانی ڈرامے دیکھنے میں اتنی محو تھی کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں لگا۔سامنے گھڑی پر نظر پڑی جہاں کچھ دیر میں عصر ہونے والی تھی۔سمبل کو ذرا حیرانی ہوئی تھی۔شایان نے تو کہا تھا کہ وہ اس کہ لئے پیزا آرڈر کردے گا۔لیکن یہاں تو ایسا کوئی سین ہی نہیں تھا۔اب تو بھوک بھی شدّت اختیار کر چکی تھی۔سمبل کو شایان پر شدید قسم کا غصّہ آرہا تھا جو صبح سے اسے یہاں بھوکا پیاسا چھوڑ کر اپنی ہی دنیا میں مگن ہوگیاتھا۔۔۔
سوفے پر پیر پسار کر بیٹھی سمبل اپنی ہو دنیا میں مگن تھی جب کوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔سمبل چونک کر کھڑی ہوئی دو قدم آگے بڑھا کر سامنے نظر ڈالی جہاں شایان ہاتھ میں بہت سی کھانے پینے کی چیزو سے بھرے شاپر لیکر اندر داخل ہو رہا تھا۔۔
السلام علیکم!!سمبل نے اس کہ ہاتھ سے سامان لے کر سلام جھاڑا۔۔
وعلیکم سلام!!شایان ایک گہری سانس بھرتا وہیں سوفے پر ٹک گیا تھا۔۔
سمبل نے ایک سرسری سی نگاہ تمام سامان پر ڈورآئی جس میں کچن کا سامان اور بھی بہت سی ضرورت کی چیزیں شامل تھیں۔۔
“یہ سب اٹھا کر کچن میں رکھو۔اور رات کہ لئے اس میں سے جو دل چاہے بنولو۔۔”اپنی طرف سے شایان نے احسان ہی کیا تھا۔۔
صرف رات کہ لئے۔اور میں جو یہاں صبح سے بھوکی بیٹھی ہوئی ہوں۔اس کا کیا۔۔”سمبل کو بھی تپ چڑ گئی تھی۔۔
“کیا مطلب ہے بھوکی بیٹھی ہوئی ہوں۔چھوٹی بچی ہو جیسے کوئی اور اکر فیڈر دے گا۔کچھ منگوا کر کھا لیتیں۔”شایان نے ذرا نا گواری سے طنزیہ لہجے میں ٹوکا۔۔
کیا منگوا لیتی؟؟آپ نے کہا تھا میں پزا آرڈر کر دوں گا۔پر یہاں تو اب تک کوئی پزا والا نہیں آیا آپ کا۔۔”سمبل نے غصّہ سے ماتھے پر تیوری چڑھاۓ کہا۔۔
شایان کو ذرا حیرانی سی ہوئی۔پھر یاد انے پر ایک دم اپنی نادانی پر ماتھا مسلتا رہ گیا۔وہ تو یہ بات بلکل بھول ہی گیا تھا کہ صبح سمبل کو وہ آرڈر کرنے کے بابت کہ آیا تھا۔اور وہ اس کہ انتظار کر رہی تھی۔۔
“اوہ ہو ۔۔۔سوری یار !!میرے ذہن میں ہی نہیں رہا۔۔”شایان کو اپنی غلطی پر افسوس ہوا۔
سمبل اس کی اس قدر لاپرواہی پر غصّہ میں دل مسوس کر رہ گئی۔اس نظر اس کہ شرمندہ سے چہرے پر ڈالتی سارا سامان اٹھا کر پیر پٹکتی ہوئی کچن کی جانب بڑھی۔۔
“یاد ہی نہیں رہا۔۔مطلب میں بھولنے والی چیز ہوں کیا۔۔”سمبل مسلسل بڑبڑآتی ہوئی سارا سامان اس کی جگہ پر رکھ رہی تھی۔جبھی پیچھے سے شایان کچن میں داخل ہوا۔۔
“سنو!!!تم یہ سارا سامان فرج میں رکھ کر جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔کہیں باہر چلتے ہیں۔کیوں کہ کھانا بنانے میں تو ابھی وقت لگ جائے گا۔”شایان کو اپنی غلطی اور اس کی بھوک کا احساس تھا۔جبھی پیشکش کی گئی تھی۔ سمبل نے بھی ایک بار اس کی جانب دیکھا ور اپنے کام میں لگی رہی۔۔شایان نے اس کا بے نیاز انداز فلحال نظر انداز کیا۔اور خود بھی اس کی مدد کروانے لگا۔۔
“چلو جلدی سے۔بھوک لگ رہی ہے مجھے۔۔”شایان نے اسے بلاوجہ کچن میں چیزو کو چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھ۔ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا۔
تو سمبل بھی اپنے پیٹ میں ڈورتے چوہوں کے پیش نظر غصّہ ایک طرف کو رکھتی۔جلدی سے دوپٹہ سر پر آوڑہ کر اپنی چادر کاندھوں پر ڈالتی اس کہ ہم قدم ہوئی۔جو اتنی دیر میں فریش ہوتا اسے لئے فلیٹ سے باہر نکلا۔۔
_________
ماہین اور نومی ایک دوسرے کے مد مقابل بیٹھے مزے سے اپنی باتوں کے ساتھ سامنے رکھے انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے میں مشغول تھے۔۔
“ماہی کیا تم سچ میں اس شایان خانزادہ سے شادی کروگی۔۔”نومی نے ماہی کہ خوبصورت سے چہرے پر نظر ڈال کر استفسار کیا۔۔
“اوہ کم ان۔۔کیا میں تمھیں شکل سے اتنی بیوقوف نظر آتی ہوں۔”ماہی نے نخوت سے نظریں پھیر کر سر جھٹکا۔
“نہیں شکل سے تو بہت ہی حسین ہو۔”نومی کہ انداز پر ماہی قہقاہ لگا اٹھی۔۔
“وہ تو میں ہوں۔۔”ماہی نے اترا کر گھنگھر یالے بالوں کی لٹ کو انگلی میں لپیٹ کر کہا۔۔
“وہی تو یار سریسلی ماہی میں تو شاکڈ رہ گیا تھا۔تم کسی کی سیکنڈ چوائس کیسے بن سکتی ہو۔”نومی نے ذرا حیرانی کا اظہار کیا۔۔
“ہنن میں اپنا ایک ڈریس پہنے کے بعد اسے دوبارہ ہاتھ نہیں لگاتی۔میں شادی کرونگی وہ بھی اس خان سے۔شادی کہ بعد اس کہ گاؤں میں جا کر رہو گی۔اپنی عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر اس بیوقوف سے شادی کروں گی اتنی بیوقوف نظر آتی ہوں تمھیں۔۔”ماہی کہ لہجے میں تفخر بول رہا تھا۔۔
“تو پھر یہ سب کیا ہے۔”۔اب کہ نومی کو حالیہ صورتحال جاننے کا جستجو ہوا۔۔
“ہاہاہاہا!!کچھ نہیں بس میں اور شایان بہت اچھے دوست ہیں۔”ماہین اس کہ جانچتے ہوۓ انداز پر خوب محظوظ ہوئی تھی۔۔
ہیلو ماہین !!ابھی وہ دونوں اپنی ہی باتوں میں مصروف تھے۔کہ پیچھے سے ایک گھمبیر آواز گونجی۔۔
ماہین نے ذرا سا چونک کر گردن گھومآئی۔تو نظر سیدھی دلکش شخصیت کہ مالک شایان خانزادہ پر گئیں تھیں۔جس کی کرسٹل گرۓ آنکھیں نومی کو ہی غصّہ سے گھور رہی تھیں۔جبھی ماہی کی بھی نظریں اس کہ ہمراہ کھڑی خوبصورت سی لڑکی پر پڑیں۔جس کی غیر معمولی حسن والی من موہنی سی صورت مہندی رنگ کہ دوپٹہ میں جگمگا سی رہی تھی۔اور یہی دیکھ ماہین کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔۔
اوہ خان!!ہاۓ۔ ۔تم یہاں کیسے ؟؟نومی کی نظریں اس کہ برابر میں کھڑی سمبل پر تھیں۔۔
“ماہی تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔”شایان نے اسے نظرانداز کر سیدھا ماہی سے سوال کیا تھا۔۔
“وہی جو تم یہاں کرنے آۓ ہو۔۔”ماہی کا جواب خاصہ جتاتا ہوا تھا۔
شایان نے چونک کر اس کا بگڑا ہوا انداز دیکھا تھا۔اور پھر برابر کھڑی سمبل کو،جو شاید نومی کی نظروں سے خآئف سی تھی۔۔
“تم بیٹھو وہاں جا کر۔میں دو منٹ میں آتا ہوں۔۔”شایان کے سر لہجے میں اشارے کرنے پر پر سمبل ایک خاموش نظر ان تینوں افراد پر ڈالتی ایک دوسری ٹیبل کی جانب بڑھ گئی۔۔
شایان اب مکمل طور پر انہی دونوں کی جانب متوجہ تھا۔جبکہ ماہین نے ایک آئبرو اٹھا کر شایان کا غصّہ کی تمازت سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھا تھا۔جو قہر برسآتی نظروں سے نومی کو گھور رہا تھا ۔
۔”تم سے میں کل یونیورسٹی میں بات کرتا ہوں۔”نومی کو دیکھ کر شایان کی غصّہ سے رگیں تک تن گئی تھیں۔ماہین پر اس کہ غصہ کا کوئی خاطر خوا اثر نہیں ہوا تھا۔جب کہ وہ جانتی تھی کہ شایان کی نومی سے کس قدر نفرت کرتا ہے۔۔اسے اپنی یونیورسٹی کا یہ عیاش قسم کا لڑکا ہر گز بھی پسند نہیں تھا۔۔
“ماہین کو ہنوز اس کہ ساتھ مگن دیکھ اپنے آپ کو نظر انداز کئے جانے پر غصّہ سے کھولتا سمبل کی جانب بڑھ گیا۔جبکہ ماہین اس کی پشت گھورتی تفخر سے سر جھٹک گئی۔شایان نے قریب آکر سمبل کو دیکھا ۔جو ارد گرد کو لوگوں کو بڑی اشتیاق بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔شایان کو یکدم اس پر بھی غصّہ آیا تھا۔جو شایان کو کسی اور لڑکی سے بات کرتا دیکھ وہاں توجہ دینے کے بجاۓ ارد گرد کے منظر سے خط اٹھانے میں مصروف تھی۔۔
“کیا ادھر ادھر نظریں گھوما رہی ہو۔ جاہلوں کی طرح پہلے کبھی ہوٹل نہیں آئیں کیا۔۔”شایان نے چیئر سمبھالتے غصّہ سے جھڑکا۔۔
سمبل جو اسے اپنی جانب آتا دیکھ جان بوجھ کر ادھر ادھر نظریں گھومانے لگی تھی کہ اس کا یہ انداز دیکھ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔جو ناجانے کیوں اتنا تیش میں تھا۔شاید ماہی کی وجہ سے۔جبکہ وہ غصّہ سے مینو کارڈ اٹھاتا دیکھ کچھ رہا تھا اور دماغ ابھی بھی پیچھے ہی کہیں ماہی اور نومی پر اٹک گیا تھا۔۔۔۔
“بیٹھی بیٹھی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو۔دوسرا مینو اٹھا کر دیکھو۔جو بھی کھانا ہے جلدی سے اپنے لئے آرڈر کردو۔ ۔اور گھر چلو یہاں قیام کرنے کا ارادہ ہے محترمہ کا۔”سمبل کو سمجھ نہیں آئی کہ شایان کو آخر اتنا غصّہ کیوں آرہا تھا۔نومی کہ ساتھ ماہی کو دیکھ کر یا پھر نومی کی نظریں سمبل پر دیکھ۔۔نہیں ماہی کو اس لڑکے کہ ساتھ دیکھ کر سمبل کے دماغ نے فوراً نفی کی تھی۔۔
“آپ کو جو منگوانا ہے۔منگوا لیں مجھ جاہل کو کیا پتہ یہاں کیا کیا ملتا ہے۔میں تو پہلی بار آئی ہوں ویسے بھی۔۔”سمبل کہ لفظوں پر شایان ذرا چونک کر سیدھا ہوا تھا۔جو بھرپور اعتماد کے ساتھ مقابل کہ چہرے پر نظریں گاڑے بہت کچھ جتا گئی تھی۔شایان کو فوری اپنے سخت لفظوں کا احساس ہوا تھا۔وہ کہیں کا غصّہ کہیں نکال گیا تھا۔۔ایک گہری سانس بھر کر چہرے پر ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوزڈ کیا۔پھر ہاتھ کے اشارے سے ویٹر کو پاس انے کا اشارہ کیا۔جو وہیں چند قدموں کے فاصلے پر مودب سا کھڑا تھا۔
ویٹر کہ قریب انے پر شایان نے ایک بار پھر اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھا۔پر سامنے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی سمبل ارد گرد میں نظریں ڈورانے میں ہی مگن تھی۔۔
شایان نے بیرے کو آرڈر لکھاوا کر خود کو سمبل سے معذرت کرنے کہ لئے تیار کیا۔جانے انجانے میں وہ اس کا دل دکھا چکا تھا۔۔
“سمبل۔۔دیکھو میں بس غصّہ میں تھا۔۔تو یونہی منہ سے نکل گیا۔میرا مقصد تمہارا دل دکھانا یا پھر تمھیں تکلیف پہچانا ہر گز نہیں تھا۔۔”شایان نے اپنی کان کی لو مسل کر بڑی مشکل سے لفظوں کی توڑ جوڑ کر کہ معذرت کی تھی۔۔
“اس میں معذرت کی کیا بات ہے مسڑ شایان خانزادہ۔غصّہ میں تو اکثر منہ سے سچ ہی نكلتا ہے۔ جاہل تو میں ہوں۔اپنی ماسٹر کی ڈگری کو یونہی بیچ میں ادھوری چھوڑ کر بیٹھی ہوں۔تو اس میں تو دو راۓ ہیں ہی نہیں۔دوسری کہ میں نے کبھی ہوٹلز کا ماحول نہیں دیکھا۔تو یہ بھی حقیقت ہے۔مجھ جیسی گاؤں کی رہنے والی کہاں ان اونچی بلڈنگوں میں رہنے والے لوگوں کی شان و شوکت سے واقف ہوگی۔۔”سمبل نے عجیب سی مسکراہٹ کہ ساتھ کہتے شایان کو مزید شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔
ابھی شایان اپنی صفائی میں کوئی جواب دیتا کہ اتنے میں ماہین وہاں ان دهمكی۔۔
“ہیلو!!کیا ہو رہا ہے۔ہیلو لڑکی۔کیا تم شایان کی دوست ہو۔۔”ماہین نے مزے سے وہاں ایک چیئر سمبھال کر جان بوجھ سمبل کو دیکھ معصومیت سے پوچھا۔۔
“میری چھوڑیں۔آپ بتائیں۔آپ محترمہ کون ہیں۔۔”سمبل کو اس کی دخل اندازی بہت ناگوار گزری تھی۔۔جبھی اس کا سوال نظر انداز کرتی۔سوالیہ انداز میں گویا ہوئی۔۔
“میں تو شایان کی یونیورسٹی فیلو اور بیسٹی ہوں۔۔۔”ماہین شایان کی جانب مسکرا کر دیکھ جتاتے لہجے میں گویا ہوئی۔۔
ان دونوں کے مابین ہوتی اس گفتگو میں شایان بلکل خاموش سا بیٹھا تھا۔۔
“تعجب کی بات ہے شایان ،کہ آپ کی یونیورسٹی کہ پڑھے لکھے لوگوں کو اتنی بھی تمیز نہیں کہ جب دو لوگ آپس میں مخاطب ہوں۔تو بغیر اجازت منہ اٹھا کر کسی کی پرآئیوسی میں داخل نہیں دیتے۔۔۔”سمبل نے استہزاہ سا مسکرا کر شایان کی جانب دیکھ ماہین کو مکمل نظر انداز کیا تھا۔۔
دوسری جانب شایان بہت خاموشی سے اس تیسری خاموش جنگ عظیم کو دیکھ رہا تھا۔سمبل کے چہرے پر مسکان اور اطمینان تھا تو ماہین کا چہرہ اپنی بےعزتی اور ذلت کہ باعث تپ اٹھا تھا۔
ماہین نے ایک غصّہ بھری نظر اٹھا کر شایان کو دیکھا جو اپنی اس جاہل گوار بیوی کو کچھ کہ ہی نہیں رہا تھا۔اور پھر غصّہ سے دانت کچکچا کر سمبل کو دیکھا جس نے بڑی معصومیت سے سمائل پاس کی تھی۔۔
“ایک اور بات مس اکس،وائی،زیٹ۔”سمبل اسے کچھ کہنے کہ لئے لب کھولتے دیکھ ذرا آگے کو ہوتی اس کی جانب متوجہ ہوئی۔۔
“یونیورسٹی میں لڑکوں سے بلاوجہ کی دوستیاں کرنا آپ جیسے فضول اور فارغ لوگوں کے کام ہوتے ہیں۔میں نا تو آپ کی طرح فارغ ہو اور ناہی پڑھی لکھی جاہل۔مجھے اپنی حدود کا علم ہے۔سمجھیں۔”سمبل کے لفظوں نے اسے اگ ہی تو لگا دی تھی۔۔
“شٹ اپ۔۔۔”ماہین ٹیبل پر ہاتھ مار کر دبی دبی آواز میں غرآئی تھی۔۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے ماہین،یہ تم سمبل سے کس انداز میں بات کر رہی ہو۔۔”اس بار شایان نے غصّے سے دبی دبی آواز میں جھاڑا تھا۔۔
“میں بات کر رہی ہوں اور یہ جو بکواس تمہاری بیوی کر رہی۔وہ نظر نہیں آرہی تمھیں۔۔”ماہی ہر چیز فراموش کئےپھاڑ کھاتے لہجے میں بولی۔۔
اوہ تو آپ کو معلوم ہے کہ میں شایان کی دوست نہیں۔پھر بھی اتنی ایکٹنگ کر رہی تھیں۔۔”سمبل نے بھی جیسے آج اس سے سارے بدلے لینے کی ٹھان لی تھی۔۔
“سمبل بس بہت ہو گیا۔خاموش ہوجاؤ۔۔”شایان اب تک اپنے پچھلے رویہ کی وجہ سے خاموش تھا۔شایان کی آج ایک خوش فہمی تو دور ہوگئی تھی۔وہ جو اسے معصوم اور سیدھی سادھی سی کم گو لڑکی سمجھتا۔وہ تو پوری پٹاخہ تھی۔۔
“تمھیں تو میں بعد میں دیکھ لونگی۔جاہل گنوار۔۔”ماہین شایان کے ہمآیتی انداز پر تلملا کر رہ گئی تھی۔
یہ کیا بدتمیزی تھی سمبل۔”شایان نے کڑے تیوروں سے اب اسے بھی اڑے ہاتھوں لیا تھا۔۔
“میں نے کیا کیا ہے؟”سمبل نے حیرانی کا مظاہرہ کیا۔
شایان اسکی لاپرواہی اور بے نیازی پر چند پل اسے گھورتا رہا۔جبکہ وہ خاموش اس کی گھورتی نظروں سے غافل ادھر ادھر نظریں گھمانے میں مصروف تھی۔
“سر آپ کا آرڈر۔”ویٹیر نے قریب آکر اس کی توجہ دلوائی تو وہ سر جھٹک کر سیدھا ہوا۔۔
اب وہ دونو ہی خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔۔
________________
واپسی پر دونوں کے بیچ ہی گہری خاموشی حائل رہی تھی۔سمبل کو واپس فلیٹ پر چھوڑ کر شایان پھر کہیں نکل گیا تھا۔جبکہ سمبل وقت گزاری کے لئے کچن میں رات کے لئے کچھ بنانے میں مصروف ہو گئی تھی۔۔
وہ مگن سی کڑاہی کا مصالحہ بھون رہی تھی کہ پیچھےآہٹ کی آواز پر چونک کر گھومی۔
کچن سے باہر جھانکا جہاں تھکا تھکا سا شایان خانزادہ رف سے حلیہ میں سوفے پر پیر پسارے بیٹھا تھا۔سمبل سر جھٹک کر واپس کچن کی جانب آتی اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
جبھی سائیڈ کاؤنٹر پر رکھا اس کا موبائل بج اٹھا۔سمبل کچن ٹوول سے ہاتھ صاف کرتی چولھا ہلکا کرتی وہیں کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
کال پک کر کہ موبائل کان سے لگایا۔تو دوسری جانب سے ایک چہکتی ہوئی آواز اس کہ کانوں میں پڑی۔جو اس کہ بیزار سے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی۔۔
“میں بلکل ٹھیک ہوں۔تم بتاؤ تم کیسی ہو؟”سمبل اپنی بیسٹی کی کال آجانے پر اس سے باتوں میں مصروف ہو چکی تھی۔جو کچھ عرصے سے اپنی فیملی کے ساتھ دبئی کے ٹور پر تھی۔وہ شاید آج کل میں ہی واپس آئی تھی۔اور پاکستان واپس اتے ہی سب سے پہلا کام سمبل کو کال کرنے کا کیا تھا۔ہر چیز سے بیگانہ دونوں باتوں میں مصروف ہوگئی تھیں۔
_____________
شایان کو وہیں بیٹھے بیٹھے ایک گھنٹہ ہوگیا تھا۔کھانے کا پوچھنا تو دور کی بات اس نے تو پانی تک نہیں پوچھا تھا۔شایان کو یکدم غصّہ نے ان گھیرا تھا۔وہ تلملا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کچن میں داخل ہوا۔جہاں کا منظر دیکھ اس کی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پھیل گئی تھیں۔۔
جبکہ سمبل اسے سامنے کچن کے دروازہ پر حیران و پریشان سا استازہ دیکھ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی۔جس کہ چہرے کے اتار چڑھاؤ میں تبدیلی آئی تھی اور وہ غصّہ سے اسے گھورتا آگے بڑھا تھا۔سمبل کرسی چھوڑ کر گھبرا کر اٹھی تھی۔۔
_________________
“ام خانم آپ نے شایان کو اطلاح کردی کہ وہ سمبل کے ہمرا کل ہی حویلی آجاے۔”آغا بھائی نے اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہو کر سوال کیا۔۔
“ہاں!! بچہ ہم نے تو بول دیا۔تم تو جانتے ہو۔ہماری بات تو وہ ٹال جاتا ہے۔تم کہو ہمیں یقین ہے تمہآرا کہا نہیں ٹالے گا۔”انہوں نے قرآن پاک چوم کر ایک طرف کو رکھتے جواب دیا۔۔
“یہ لڑکا بلکل باوالا ہوگیا ہے۔ام خانم حویلی مہمانوں سے بھری پڑی ہے۔ابھی ولیمے میں بھی دو دن باقی ہیں اور وہ یوں نئی نویلی دلہن کو بغیر پوچھے گچھے شہر لے گیا۔”آغا جان نے ذرا خفگی سے غصّہ کا اظہار کیا۔۔
“آپ فکر نہیں کریں۔میں بات کرتا ہوں کہ کل ہی حویلی اۓ۔بھلا یہ کوئی خاندانی لوگوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ابھی تو شادی ہوئی ہے۔پڑھ لیتی سمبل بعد میں۔یونیورسٹی کہیں بھاگی جا رہی ہے کیا۔”انہیں شایان خانزادہ کا روایہ ہر گز بھی پسند نہیں آیا تھا۔۔
“ہاں بچا دیکھ لو تم۔تمہاری بات تو سن لیتا ہے۔بس آرام سے کہنا غصّہ نا کرنا۔ہم ولیمہ سے پہلے کوئی بد مزگی نہیں چاہتے۔اس کہ غصّہ سے تو تم واقف ہی ہو۔”ام خانم نے اپنا دامن بچا کر انہیں تمبیہ کرنا لازمی سمجھا تھا۔کیوں کہ غصّہ کہ تو دونوں ہی تیز تھے۔وہ بڑا تھے تو وہ سب سے چھوٹا اور لاڈلا خان حویلی کا سب سے ضدی بیٹا تھا۔۔
“جی ام آپ فکر نا کریں۔۔”آغا جان جیب سے اپنا موبائل نکالتے کمرے سے باہر نکل گئے۔تو وہ بھی عصر کی اذان کی آواز سن نماز کے لئے وضو کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
اس عمر میں بھی وہ اپنے سارے کام خود ہی کرنے کی عادی تھی۔ان کا زیادہ تر وقت اللّه کے ذکر میں ہی گزرتا تھا۔اپنے حصّہ کے کام وہ سر انجام دے چکی تھیں۔ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکی تھیں۔گویا انہوں نے زندگی کے ہر رنگ سے لطف اٹھایا تھا۔اب بس وہ اپنی باقی کی زندگی اللّه کے ذکر میں گزارنہ چاہتی تھیں۔جبھی انہوں نے اپنی تمام تر ذمہ دریوں کا بوجھ اپنے بڑے بیٹے کے کاندھو پر ڈال دیا تھا۔جو وہ باخوبی نبھا رہے تھے۔۔
________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...