وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی ابا ابھی ابھی فجر پڑھ کر سیدھا اسکے پاس آئے تھے پھر اس پر دم کرکے آرام کرنے کا کہہ کر باہر چلے گئے تھے ۔۔
شاہنواز کو گئے پندرہ دن ہوگئے تھےابا اور اماں سے وہ تقریباً روز ہی فون پر بات کرتا تھا ۔
لیکن زلیخا سے اس نے عجیب سی لاتعلقی برتی ہوئی تھی۔
جب اماں بابا کو فون کرتا اگر وہ آس پاس ہوتی تو اماں اسے فون پر بلاتیں
آگے سے شاہنواز چند رسمی سے جملے بولتا جسکا وہ ہوں ہاں میں جواب دیتی اور فون بند.
وہ بچی نہیں تھی جو شاہنواز کا گریز بھانپ نا پاتی ۔۔
لیکن چاہ کر بھی وجہ جانے سے قاصر تھی شاہنواز کے ساتھ گزرا محبت کی انتہاؤں کو چھوتا ایک ہفتہ پھر جاتے ہوئے آخری رات میں اسکا رونا تڑپنا اور اب یہ لاتعلقی ان سب نے مل کر زلیخا کے ذہن کو بہت الجھا دیا تھا ۔۔
وہ جتنا سوچتی الجھتی چلی جاتی تھی ان سوچوں تو اسکے وجود پر خزاں طاری کردی تھی۔
پیچھلے چار پانچ دن سے اسکی طبعیت بھی گری گری سی تھی پرسوں شام کچن میں کام کرتے اسے تیز بخار نے آلیا تب سے اب تک اماں بابا نے اسے بیڈ پر بٹھا رکھا تھا۔
دو دن سے بیڈ پر پڑے پڑے وہ خود کو بیمار سمجھنے لگی تھی ۔
جبھی آج ساری سستی اور بیماری کو بھگانے کا ارادہ کرتے اس نے سارے گھر کی تفصیلی صفائی کروانے کا سوچا تھا ۔
اماں ناشتے کی ٹرے لے کر کمرے میں آئیں تو وہ نہا کر چینج کر چکی تھی ۔
ارےارے میرا بچہ یہ کیا کیوں اٹھ گئیں بھئی
کیوں تمہارے بابا جان نے میری کلاس کروانی ہے ۔
اماں ٹرے سائیڈ پر رکھتیں اسکی طرف آئیں پھر پیار سے اسکا ماتھا چوم کر اسے بیڈ تک لے آئیں ۔
اماں جی دو دن ہو گئے ہیں آرام کرتے کرتے اب مجھے لگتا ہے اگر لیٹی رہی تو سچی مچی کی بیمار پڑ جاؤں گی ۔
ہی ہی ہی اماں اسکے معصومیت سے کہنے پر ہنستے ہوئے بولیں
اسکا مطلب اب تک جھوٹی موٹی کی بیمار تھیں ۔
ہا ہا ہا یوں ہی سمجھ لیں وہ بھی اماں کی بات سمجھ کر جواب دیتے ہنس دی ۔
پھر ساس بہو نے ایک ساتھ ناشتہ کیا برتن وہ انکے نانا کرنے ہر بھی خود، کچن تک لے گئی پھر کام والی کے ساتھ مل کر سارا گھر چمکانے لگی ۔
گھر کا کونا کونا چمکانے کے بعد اب باری تھی اسکے اپنے کمرے جب سے شاہنواز گیا تھا وہ کمرہ صرف دن میں ہی استعمال کرتی تھی رات کو وہ اماں کے کمرے میں سوتی تھی۔۔
سارے کمرے کی سرسری سی جھاڑ پونچھ کی پھر الماری کی طرف چلی آئی اسکی اپنی تو ٹھیک ہی تھی اس لیے اس نے شاہنواز کی الماری کھول لی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ شاہنواز کی الماری اس سے زیادہ سلیقے سے سیٹ کی ہوئی تھی کئی دنوں کی کلفت خودبخود ایک پیاری سی مسکان میں ڈھل گئی
شاہنواز کے ساتھ رہتے ہوئے اسکے جانے کے بعد زلیخا نے اسے سوچا تھا بہت سوچا تھا دل میں کہیں،کہیں نئی امنگوں نے انگڑائیاں لینی شروع کی تھیں
یا شائد نکاح کے بولوں کا اثر تھا میجر شاہنواز اس پر اسکے دل و دماغ پر قابض ہونے لگا تھا ۔
نئی نئی بات تھی محبت کا نیا نیا خمار تھا ۔
آپ ہی آپ اسکے ہاتھ ایک ہینگر کی طرف بڑھے جس پر ٹی شرٹ ہینگ کی گئی تھی اس نے ٹی شرٹ پے ہاتھ پھیرا تو دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا۔۔
کچھ دیر وہ ٹی شرٹ ہاتھ میں لیے پریشان کن سوچوں کو جھٹک کر شاہ کے ساتھ گزرے خوش کن لمحات میں کھوئی رہی۔
پھر کچھ یاد آنے پر دھیمی مسکان کے ساتھ خود کو سرزنش کرتے شرٹ واپس ہینگ کرنے لگی تو اسکی نظر اندر چھپے انویلپ پر پڑی
اسے یاد تھا کہ یہ شاہنواز کے جانے سے ایک دن پہلے کورئیر سے آیا تھا ۔
تو وہ ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے دیکھوں تو کیا ہے اس سوچ کے ساتھ اسنے انویلپ اٹھایا. الماری بند کی اور بیڈ پر آگئی۔
متجسس ہوتے اس نے بہت آرام سے انویلپ کی ٹیپ ہٹائی آہ ہ ہ
ٹیپ ہٹتے ہی بہت سی تصویریں اسکی گود اور بیڈ پر گری تھیں اور اسکا ہاتھ بے اختار منہ پر گیا تھا۔۔
سلور نیٹ کے ڈوپٹے میں مقید سر میسی نے اسے تھام رکھا تھا دونوں کی نگاہیں ایک دوجے کو دیکھ رہی تھیں ۔
ان پر کچھ پھول بھی گرے تھے
پہلی نظر میں دیکھنے والے کو پرفیکٹ کپل کا رومانٹک فوٹو شوٹ لگتا تھا
ایک ہی پوز کو مختلف اینگلز سے کھینچا گیا تھا
زلیخا کو محسوس ہوا اسے چکر سا آیا ہے
کچھ تصویریں جھیل سیف الملوک کی تھیں جن میں سر میسی کو ایڈیٹ کیا گیا تھا
اسکی آنکھیں نم ہونا شروع ہوگئیں اسکے بعد ایک ڈاکومنٹ فائل تھی جس میں زلیخا کی گمشدگی کی رپورٹ درج تھی پھر دوسرے پیپر پر ایک رات بعد مل جانے کی تحریر درج تھی ۔
اور آخر میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ پوری رات زلیخا نے علی سبحان نامی پروفیسر کے ساتھ اسکے خیمے میں گزاری تھی
اسے لگا اسکا سانس بند ہونے لگا ہے
دا دادا اسکے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی تھی۔
اسنے جلدی سے سب سمیٹ کر الماری میں رکھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ ک باہر کی طرف بھاگی لیکن دروازے تک پہنچتے اسکے اعصاب نے جواب دے دیا وہ تیورا کرگری تھی ۔
ایک تکلیف نے اسکو، چاروں جانب سے گھیرا تھا ذہن ڈوبنے لگا تھا کے جب اسکی سوچوں میں وہ انجان ساحر آیا تھا۔
وہ پیڈ پائپر جو سانسوں سے جادو کرتا تھا جس نے اسکی جان بچائی تھی لیکن اسے بدنامی کے گڑھے میں دھکیل کر بھاگ گیا تھا۔۔
پہلی بار اس انجان ساحر نے اسکے خواب چھینے تھے اب وہ اسکی زندگی چھیننے آپہنچا تھا ۔
زلیخا کو ہوش کھونے سے پہلے جو آخری احساس محسوس ہوا تھا وہ نفرت تھی بے انتہا نفرت اس بزدل ساحر سے جو مسیحا تو تھا ہر مسیحا نہیں تھا۔۔
—————–
وہ ہوش میں آئی تو اماں اسکے سرہانے بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں بابا تھوڑی دور کرسی پر آنکھیں موندے سر ٹکائے ہوئے تھے ۔
اسے آنکھ کھولتا دیکھ کر اماں سیدھی ہوئیں
ارے میرا بچہ اٹھ گیا ۔
دو دن بعد ہوش آیا ہے تمہیں
بابا بھی اٹھ کر اسکے پاس آگئے اور دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولے
کیا ہوا تھا بھئی زلی خان
زلیخا جو اب تک غائب دماغی کی کیفیت میں تھی اچانک سے سب کچھ یاد آنے پر سسک اٹھی تھی ۔
اماں نے کچھ کہنا چاہا لیکن بابا نے انہیں منع کر دیا تو وہ چپ کرکے باہر چلی گئیں
کافی دیر رونے کے بعد اسکی سسکیوں میں کچھ کمی آئی تو بابا کی آواز گونجی
فوجی جوان کہ بیوی کو اتنی بزدلی سوٹ نہیں کرتی ویسے
اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا
انہوں نے آنکھوں میں نرم سا تاثر دے کر بات جاری رکھی۔
زلی پتر ایک فوجی جوان کی بیوی کو اتنا بہادر تو ہونا چاہئے نا کہ وقت آنے پر اپنے لیے آواز اٹھا سکے لڑ کر خود کو جیت سکے
وہ پھر سے سسکنے لگی اسکے نوخیز خواب داؤ پر لگے تھے کیسے نا تڑپتی
بابا اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے۔
زلی پتر ایک فوجی کی بیوی کو اتنا بہادر تع ہونا چاہئے نا کہ وقت آنے پر اپنے ساتھ ساتھ بوڑھے ماں باپ کو سنبھال سکے
با با
نا بابا کی جان ایسے نہیں روتے.
انہوں نے اٹھ کر زلی کو سینے سے لگا لیا تھا
بابا میں میں، نے کچھ نہیں، کیا
وہ جھوٹ ہے بابا وہ سب
بابا وہ
مجھے پتا ہے پتر
تم پریشان کیوں ہوتی ہوبچے بھائی علی کریم کو یقین تھا مجھے یقین ہے تمہاری اماں کو یقین ہے ہماری زلی میں کوئی برائی نہیں
نہیں بابا انہیں یقین نہیں ہے
وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے بابا
انہوں نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں
میرا جرم ثابت کیے بغیر
سزا دے گئے۔۔۔
انہیں کہیں نا بابا ایک بار بس ایک بار مجھ سے پوچھتے تو ؟
یوں نا کرتے مجھے اتنی بڑی سزا نا دیتے
وہ روئے جا رہی تھی
ربنواز صاحب خود بھی پریشان ہو گئے وہ جس مسلئے کو چھوٹا سا سمجھ رہے تھے وہ اچھا خاصہ بگڑ چکا تھا۔
وہ کل سے کئی بار کوشش کر چکے تھے شاہنواز سے رابطہ کرنے کی لیکن نہیں کر پائے تھے۔
،زلیخا کے رونے کی آواز سن کر اماں بھی گھبرائی ہوئی واپس بھاگیں تھیں لیکن زلیخا کی اگلی بات نے انہیں دروازے کے بیچو بیچ ساکت کردیا تھا تو دوسری طرف بابا بھی اسکے لہجے کی سردی محسوس کر کے چونکے تھے۔
بابا یہ مرد کو ہمیشہ سے عورت کے کردار کی فکر کیوں رہی ہے ؟
مرد سارے ایک سے ہوتے ہیں عام سے بہت خاص نظر آنیوالے مرد بھی آزمائش کی کسوٹی پر اپنا عامیانہ پن ظاہر کر دیتے ہیں ۔
وہ بھی خاص نظر آتا تھا لیکن وہ عام تھا جس کے نام نے مجھے بے نام کیا جس کے ذکر نے اب تک میرا پیچھا کیے ہوئے ہے
وہ بہت عام تھا ورنہ یوں بزدلوں کی طرح بھاگ کر نا جاتا ۔
اماں بے چینی میں آگے بڑھی تھیں ۔
شاہنواز بھی عام مرد ہی نکلے باباجان بلکل عام بغیر کچھ پوچھے بغیر کچھ سنے آدھی باتوں کا پورا مطلب نکالے یوں سزا دے کر بھاگ گئے۔۔۔
یہ قدرت کا کیسا انصاف ہے بابا غلطی مرد کرتا ہے بھرپائی بے چاری عورت کو کرنی پڑتی ہے۔.-
کیوں بابا
کیوں؟
بس میں نے سوچ لیا ہے مجھے نہیں رہنا کسی عام کمزور مرد کے ساتھ میں نہیں رہنا چاہتی آپکے بیٹے کے ساتھ انہیں کہیں مجھے آزاد کرے
وہ ہذیانی سی بولنے لگی تھی ۔
نا نا زلی ہوش کر بیٹا!
اماں روتے ہوئے اسے سمجھا رہیں تھیں جبکہ بابا چپ چاپ اسکی دہائیاں سن رہے تھے
وہ سوچ رہے تھے ایسی کون سی بات ان دونوں کےدرمیان ہے جس نے زلیخا کا یہ حال کر دیا اور یہ کہ انہیں جلد سے جلد شاہنواز سے بات کر کے ساری بات معلوم کرنی ہے کیونکہ زلیخا کی بے ہوشی کے دوران ڈاکٹر نے جو خوش خبری سنائی تھی اسکے پیش نظر یہ حالات زلیخا کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے تھے۔
——————–
زلیخا کو دوبارہ ہوش ایک دن بعد آیا تھا اور اماں نے اسے فوراً سے اسکے ہاں ہونے والی خوشخبری کا بتایا تھا تاکہ کچھ حوصلہ کرے اور الٹی سوچوں سے باہر نکل آئے
زلیخا نے سن کر کسی بھی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا ہاں اتنا ضرور تھا کہ وہ چپ کر گئی تھی ۔
ربنواز صاحب کہ بہت کوششوں سے تیسرے دن انکا رابطہ شاہنواز سے ہوا تھا لیکن اسکے جنگ ذدہ علاقے میں ہونے کی وجہ اسے وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں جتا پائے تھے کہ اسے پریشان کرتے یا کچھ پوچھتے
وقت گزرنے لگا تھا یہاں موجود تینوں لوگ اپنی اپنی سوچوں میں گم جیے جارہے تھے ربنواز صاحب اور انکی بیگم نے زلیخا سے کچھ نہیں پعچھا تھا مگر حد درجہ اسکا خیال رکھ رہے تھے کیونکہ وہ انکی آنیوالی نسل کی امین تھی ۔۔۔
شاہنواز کو ایک پوری کمان دے کر چھ ماہ کے لیے فرنٹ وار علاقے میں بھیجا گیا تھا بات نا ہونے کہ برابر ہوتی تھی
زلیخا کے اندر اسکے بچے کے ساتھ ساتھ ایک دکھ بھی پل رہا تھا
ناقدری کا دکھ بے اعتباری کا دکھ لیکن وہ خاموش تھی بلکل خاموش
——————–
زلیخا کو ساتواں مہینہ چل رہا تھا اب اسے اپنا آپ کافی تھکا تھکا سا لگنے لگا تھا
ڈاکٹر نے کم عمری اور خون کی کمی کی وجہ سے بہت احتیاط کرنے کا کہا تھا رات اماں دودھ لے کر اسکے کمرے میں آئیں تو کچھ دیر بعد بابا بھی چلے آئے انکا چہرہ شدت ضبط سے سرخ ہورہا تھا۔
شاہو کی ماں زلی میرا شاہو آرہا ہے ہرسوں صبح
اس جاں افزاء خبر نے جہاں اماں کے چہرت لو کھلایا تھا وہیں زلیخا کو اتنے دنوں سے بھولے ہوئے ڈر نے آلیا
ربنواز صاحب جو اسی کو دیکھ رہے تھے فوراً آگے بڑھے
نا نا زلی پتر اب نہیں رونا تمہارے سامنے اسکے کان کھینچوں گا بلکہ مرغا بناؤں گا دیکھنا تم
بچے ساتھ ہم نے بھی اسکا اتنا ہی انتظار کیا ہے اسکے عمل کی اسے پوری پوری سزا ملے گی
الو کا پٹھہ خود کو سمجھتا کیا ہے
ربنواز صاحب خوشی میں اور کچھ زلیخا کی محبت میں الٹا سیدھا بول گئے تھے احساس انہیں تب ہوا جب بیگم صاحبہ کو منہ پر ہاتھ رکھے اور زلیخا کو شرم سے سر نیچے کیے دیکھا
کچھ دیر بعد انکا قہہقہ کمرے میں گونجا تھا ساتھ اماں کی مسکراہٹ بھی شامل تھی لیکن زلیخا چاہ کر بھی ہنس نہیں پائی تھی۔
——————–
آج موسم ابر آلود تھا لیکن پھر بھی
برادری میں جس جس کو بھی ہتا چلا تھا آج میجر صاحب گھر آرہے ہیں سب اپنے اہل و عیال سمیت آگئے تھے ۔
آج ہی کے دن کو زلیخا کی گود بھرائی بھی رکھ لی گئی تھی
زلیخا کو اماں نے صبح صبح دونوں ہاتھوں پر زبردستی بھر بھر کے مہندی لگوائی تھی ۔۔
یہ کہتے میرا بیٹا اتنے دنوں بعد گھر آرہا ہے وہ تمہیں ایک ہفتے کی دلہن چھوڑ کر گیا تھا میرا دل چاہ رہا ہے تم اسے ایک ہفتے کی دلہن ہی ملو
خود وہ صبح سے کاموں میں لگیں تھیں مصروف سے انداز میں کل وقتی ملازمہ سے بولیں صغری جلدی سے جاکر زلی پتر کے ہاتھ دھلوا اور چوڑیاں پہنا کر تیار کر دے
خان جی آپ فون کریں نا کیا مسلہ ہے ابھی تک میجر صاحب پہنچے کیوں نہیں بھئی ؟
اللہ کی بندی فون بند جا رہا ہے موسم بھی تو دیکھوں کتنا خراب ہوا ہے آتا ہی ہوگا
بات انکے منہ میں تھی جب بادل گرجنے لگے تھے اور کوئی بھاگتا ہوا باہر سے آیا تھا۔
فوجی گاڑیوں لے مخصوص سے ہارن دور سے بجتے سنائی دیے تھے
———————-
صغری نے زلیخا کے ہاتھوں میں چوڑیاں بھر دیں تکچھ چوڑیاں جو پہناتے ہوئے ٹوٹی تھیں وہ اپنی جھولی میں ڈال لیں
اللہ سائیں سدا سہاگن رکھے بی بی کتنا گہرا دنگ آیا ہے جی آپکی مہندی کا شاہو خان بہت پیار کرتے ہیں جی آپ سے
پیار؟
زلیخا نے منہ میں بڑبڑایا پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی بادل زور سے گرجے تھے
بی بی جی میں گاڈی دیکھ لوں جی جھنڈے والی
فوجی گاڑیوں کے بجتے ہارن سن کر صغری نے زلیخا سے اجازت مانگی جسے اس نے مسکرا کر ہاں کہا۔
جاتے جاتے صغری نے اپنی جھولی دروازے کے پاس پڑے ڈسٹبن میں جھاڑی بہت سی چوڑیاں نیچے گری تھیں ۔
اس نے گزرے ساتھ ماہ بارہا شاہنواز سے علیحدہ ہونے کا سوچا تھا اور ہر بار اسکے وجود میں پلتی زندگی نے انگڑائی لے کر اس پر اسکی سوچ پر افسوس کیا تھا ۔۔
وہ چاہ کر بھی اس پیارے سے بندے سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کر پائی تھی دل ہر بار اسکے ذکر پر انوکھی سی لہہ پر دھڑکتا تھا آنکھیں خود ہی اسے دیکھنے کی چاہ کرنے لگتی تھیں ۔۔۔
دوسری طرف وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس جادوگر کے بارے میں سوچتی رہی تھی جس نے انجانے میں اسکی زندگی برباد کی تھی ۔
جس کا ذکر ہر بار نئے طریقے سے مارتا تھا ۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب باہر سے آتی بینڈ کی آواز نے اسے چونکنے پر مجبور کیا تھا
میجر صاحب پھر سے تو بارات نہیں لے آئے کہیں خوش کن سوچوں کے زیر اثر خود سے کہتے وہ باہر جانے کو لپکی
سسسسسس
کون مہندی کی پنیں گری ہوئی تھیں شائد اسکے پاؤں میں کوئی پن چبھی تھی جھک کر پن نکالی خون کی بہنے والی بوندوں کو نظر انداز کرتے وہ باہر کی طرف بڑھی
آہ ہ ہ
اس بار دوسرے پاؤں میں چوڑیاں چبھی تھیں
باہر اب بینڈ کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیں کچھ لوگوں کا شور بھی تھا جو سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اس نے جلدی سے بیٹھ کر کانچ نکالا تو درد کے ساتھ خون نکلنے لگا
اتنا معمولی سا زخم ؟
ہن ہن فوجی جوان کی بیوی کو اتنا بہادر تو ہونا چاہئے نا
خود سے کہتے اور فوجی جوان کی بہادر بیوی بنتے معمولی سے خون کو بہنے دیتے وہ دروازہ کھول کر باہر آئی تھی۔
—————————-
خان جی خا ن جی انکا چوکیدار بھاگتا ہوا آا تھا کیا بات ہے بھئی
ربنواز صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا
وہ جی فوجی گاڑیوںکے ساتھ ایمبولنس بھی ہے جی
ربنواز صاحب کی مسکراہٹ سمٹی تھی پھر بہے سے لوگوں کی معیت میں وہ تیز قدموں کے ساتھ باہر بھاگے تھے ۔
جب وہ باہر پیچھے تو گاڑیاں رک چکی تھیں ایک آفیسر نے آکر انہیں سلوٹ کیا تھا ۔
مبارک ہو سر خدا تعالیٰ نے میجر صاحب کو شہادت کے رتبے پر فائز کیا ہے
بوڑھے باپ کے نوجوان اکلوتے بیٹے کی موت کی خبر سنتے کندھے ڈھلکے تھے۔
بہت سے لوگوں نے انکے کندھے پر ہاتھ دھرا تھا
نوکر اور آس پاس بڑی بوڑھیاں جو میجر صاحب کے استقبال کے لیے باہر آئیں تھین
ان سب کے کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا۔۔
ایک پل کا افسوس تھا دوسرے ہی پل ربنواز صاحب کے کندھے اکڑے تھے ہاتھ یکایک سلوٹ کتمے سے انداز میں ماتھے پر گیا تھا اور منہ سے نکلا تھا
الحمداللہ
الحمداللہ
الحمداللہ
انکے اتنا کہتے ساتھ آئے فوجی بینڈ نے تعظیمً بینڈز کو سانسیں پھونکی تھیں۔۔
ارے ماں کو تو بلاؤ وہ کچن میں کھیر ڈالنے گئی تھی
ہائے
بہت سی عورتوں کی سسکیاں نکلی تھیں
ارے وہ نصیبوں ماری جو دلہن بنی بیٹھی ہے گود بھرائی کے لیے کوئی اسے تو لاؤ بتاؤ اسے وہ اجڑ گئی چھوڑ دے یہ ہار سنگھار
ہائے ہائے
اللہ صبر دینے والا ہے آپ سب اندر چل کر بیٹھیں پلیز
ربنواز صاحب نے سسکتی واویلا کرتی عورتوں کو صبر کی تلقین کرتے اندر جانے کا کہا تھا
جب انکی بیگم ہاتھ میں کھیر کا دونگا لے کر باہر آئی تھیں
شاہو میرے بچے
ٹھاہ،،،،،،،،
وہ جو جیتے جاگتے سہی سلامت شاہو کو اہنے ہاتھوں سے کھیر کھلانے آئی تھیں یہاں
تابوت میں پڑے شاہو کو دیکھ انکے ہاتھ کانہ گئے تھے اور کھیر گر گئی تھی ۔
وہ چپ چاپ خالی خالی قدموں سے تابوت تک آئیں شیشے میں انکے جگر کا ٹکڑا مسکراتے ہوئے آنکھیں موندیں لیٹا تھا جیسے ابھی جاگ جائے گا ۔
جیسے میٹھی نیند سویا ہو ۔
انکے کانوں، میں آواز گونجی تھی
“”اور جو اللہ کی راہ میں جان دیتے ہیں انکع مردہ نا کہو “”
وہ چیخنا چاہتی تھیں بین کرنا چاہتی تھیں، لیکن انہوں نے بس ایک پل کو گردن گھما کر اپنے جیون ساتھی اپنے ہمسفر کو دیکھا جنکی آنکھوں کا پیغام تھا میں اپنا فرض پورا کرچکا اب تمہاری باری ہے ۔
پھر انہوں نے منہ دوبارہ تابوت کی طرف پھرا شاہنواز کے چہرے پر پیار دیتے کمزور سی آواز میں بولی تھیں
اللہ تیرا شکر ہے
اللہ منظور کرے
وہاں موجود فوجی افسروں نے اس بوڑھے ماں باپ کا ایثار انکا صبر دیکھ منہ دکھ سے منی موڑ کر گارڈز کو پریڈ کا آرڈر کیا تھا
بینڈ کی بجتی آواز میں شہید کو دیے جانے والے سلیوٹس میں پاس وجود لوگوں کی سسکیاں دم توڑ گئیں تھیں
——————
وہ تقریباً بھاگتے ہوئے باہر آئی تھی سفید ٹائلوں والا فرش اسکے پاؤں سے رنگین ہوتا جاتا تھا. لیکن وہ فوجی جوان کی بہادر بیوی بنے تکلیف کع پس پشت ڈال کر اپنے فوجی کی ایک جھلک دیکھنے اسکے استقبال کو باہر جا رہی تھی۔
دروازے کے باہر صحن میں اسے روتے سسکتے لوگ نظر آئے اسکا دل ڈوب سا گیا
فوجی گارڈ آ آنر، دے رہے تھے
اسکے پیٹ میں درد کی لہر اٹھی تھی جیسے اسکے بچے کو بھی کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا ہو ۔
پھر اس بھیڑ میں اس کی نظروں نے اماں بابا کو دیکھ لیا جو ایک دوجے سے لگے یوں، کھڑے تھے جیسے انکی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹ گئی ہو
اماں بابا یہ سب کیا بھئی
اور وہ کہاں ہیں
اپنے دل کے اندیشوں کو جھٹکتے وہ خود کو دلاسہ دیتے اماں بابا کی طرف بڑھی جب اسکی نظر تابوت پے پڑی اور اسکے دل کو الہام سا ہوا
نہیں نہیں اماں ابھی تو انہوں نے میری بات سننی ہے میں نے بتانا ہے کہ میں بے گناہ
آہ اللہ
راستے میں گری گھیر پر اسکا پاؤں سلپ ہوا تھا
وہ پیٹ کے بل گری تھی اور منہ سے درد میں ڈوبی چیخیں نکلی تھیں
اللہ ظلم اللہ ظلم بہت سی عورتیں سر اور سینے پیٹتے کفر بکتے اسکی طرف بھاگی تھیں
ربنواز صاحب اور انکی بیوی کی آنکھوں سے اس بار لہو ٹپکا تھا
اصل سے سود پیارا ہوتا ہے
جوان بیٹے کی شہادت جنہیں نا گرا سکی تھی اپنی آنیوالے والی نسل کی معدومیت کے خدشے نے انہیں توڑا تھا
اماں روتے ہوئے اسکی طرف دوڑی تھیں تو ربنواز صاحب نے ایک رحم کی طالب نظر اوپر کی تھی آسمان والے کی طرف جیسے کہتے ہوں
اب اور نہیں،
میرے مالک اب اور نہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...