ہم نے اسے عبرت کے ساتھ دیکھا، اور تب ہی یہ حقیقت ہم پر ظاہر ہو گئی کہ دنیا میں کوئی شخص کسی پر ظلم کر کے خود آرام سے نہیں رہ سکتا ۔ اسے اس کے ظلم کی سزا ضرور ملتی ہے، جیک نے عبدل کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی اور آگے بڑھ گیا ۔ ہاں البتہ کبڑے نے اسے غور سے دیکھا، اس وقت اس کے چہرے پر دہشت نظر آتی تھی اور سہمے ہوئے انداز میں وہ عبدل کے حشر کو دیکھ رہا تھا ، آخر وہ بھی خاموشی سے ہمارے پاس آ گیا۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے ، دن کا وقت تھا مگر کھنڈروں کی سنسانی بدستور قائم تھی ۔ جان نے سامان باندھتے ہوئے جیک سے پوچھا:
“اس کا۔۔ میرا مطلب ہے عبدل کا اب کیا کریں؟ ”
“ایسے ظالم انسان کو دفن مت کیجئے” جیک نے حقارت سے جواب دیا ، بلکہ گدھوں اور کوؤں کو اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے دیجئے۔۔ اس کا یہی حشر ہونا چاہئے۔ ”
اس کے بعد وہ کبڑے سے مخاطب ہوا۔
” اور تم۔۔۔ تم نے اپنے ایک ساتھی کا انجام دیکھ لیا، خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، اب تم سنبھل کر رہنا کیوں کہ ہم سے غداری کرنے کے بعد یہ لاٹھی تم پر بھی پڑ سکتی ہے ۔ ”
کبڑا یہ سنتے ہی گڑگڑانے لگا، ہاتھ جوڑ کر اس نے ہم سے وفادار رہنے کا وعدہ کیا اور پھر خود ہی سامان باندھنے میں ہمارا ہاتھ بٹانے لگا، کوئی ایک گھنٹے کے اندر ہم پھر اپنے نہ ختم ہونے والے سفر کے لئے تیار ہو گئے ۔ اس زمین دوز زینہ کا اوپر کا حصہ ہم نے اس طرح بند کر دیا کہ اب دوسرا کوئی بھی اس مقام کو نہیں پہچان سکتا تھا ، زمین بالکل برابر ہوگئی تھی ، ہاں البتہ جان نے ایک خاص نشانی وہاں ایسی لگا دی تھی کہ صرف ہم لوگ ہی اس جگہ کو پا سکتے تھے کوئی اور نہیں۔
کھنڈرات سے نکلنے کے بعد ہم ایک چٹیل میدان میں پہنچے، اس جگہ کی ہوا سیلی ہوئی تھی ، جان نے ہمیں بتایا کہ اب ہم ہندوستان کے بالکل جنوب میں پہنچ گئے ہیں اور سمندر اب ہم سے زیادہ دور نہیں ہے ۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا کہ ہو سکتا ہے ہم سمندر کے کسی غیر آباد کنارے پر پہنچیں اگر ایسا ہوا تو پھر ہمیں آبادی تلاش کرنی پڑے گی ۔ یہاں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے کپڑے بہت زیادہ پھٹ چکے تھے، میری پتلون جگہ جگہ سے پھٹ رہی تھی۔ ایک پائینچا اوپر تھا تو ایک نیچے، قمیض تو میں نے کبھی کی الگ کر دی تھی ، جنوبی ہند میں چونکہ گرمی کافی ہوتی ہے ، اس لئے کمبل بھی مجھے جسم سے الگ کرنا پڑا۔ اب میرا بدن بالکل ننگا تھا ، آبادی تک پہنچنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ میں کمبل ہی سے دوبارہ جسم ڈھانکوں کیوں کہ کمر پر بنا ہوا خزانے کا نقشہ لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر سکتاتھا ، اس لئے مجبورا ً اسی حالت میں ہم آگے بڑھتے گئے۔ کپڑے دوسرے ساتھیوں کے بھی تار تار تھے، دور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ ہم یا تو مجنوں کے خاندان سے ہیں یا پھر بالکل پاگل ہیں۔ اس وقت واقعی ہم عجیب لگ رہے تھے ، ایک کبڑا، ایک کالا حبشی، ایک ادھیڑ عمر کا امریکن اور ایک نو عمر لڑکا۔ ذرا تصور کیجئے ہم لوگ کیسے نظر آتے ہوں گے اور آبادی کی تلاش بہت ضروری تھی ، کیوں کہ ایک تو وہاں سے کپڑے لینے تھے اور دوسرے کسی تیز رفتار اسٹیمر یا بادبانی کشتی کا انتظام کرنا تھا ۔ بغیر کسی اسٹیمر کے ہم سمندر میں اتنے لمبے سفر پر ہرگز نہ جا سکتے تھے۔
چلتے چلتے شام ہو گئی اور پھر یکایک ہمیں تاڑ کے لمبے لمبے درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا ، اس کے پیچھے گہرا نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، درختوں کے پاس ہی اونچی اونچی چٹانیں تھیں ، اور ان چٹانوں سے آگے دور تک پانی ہی پانی تھا۔ اپنی زندگی میں سمندر میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس لئے بہت خوش ہوا۔ ہاں جان البتہ خاموش تھا، جلد ہی اس کی اس خاموشی کی وجہ بھی معلوم ہو گئی، کیوں کہ آبادی کے آثار دور دور تک نظر نہ آتے تھے اور ہم ایک بالکل ہی غیر آباد کنارے پر آ گئے تھے ۔ یہ دیکھ کر جان نے کہا۔
“ہمیں راتوں رات کوئی نہ کوئی بستی یا چھوٹی سی بندرگاہ ضرور تلاش کرنی ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے ۔ فیروز کی ننگی کمر لوگوں کو شبہ میں ڈال دے گی اور میں یہ نہیں چاہتا۔ ”
” پھر کیا کیا جائے؟ ” میں نے پوچھا۔
“آبادی کی تلاش، اور کچھ نہیں” جان نے جواب دیا:
“کیوں کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہم اس وقت ہندوستان کے بالکل جنوب میں ، پالام کوٹہ اور کومورن کے درمیان میں ہیں، ساحل ساحل اگر ہم چلتے چلتے جائیں تو یقیناً کومورن تک پہنچ جائیں گے ۔ ہندوستان کے جنوب میں یہی آخری مقام ہے۔ “
رات کا وقت تھا ، آسمان پر تارے جھلملا رہے تھے، جدھر بھی نظر جاتی اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا تھا ، جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ ہمیں اس وقت کسی بستی کی تلاش تھی، جہاں سے ہم کپڑے اور باربرداری کا سامان لینا چاہتے تھے ، لیکن چونکہ ہم بری طرح تھک چکے تھے اس لئے ایسے سوئے کہ پھر صبح بندروں کے ایک غول نے ہمیں خوں خوں کرکے اٹھایا، ایک بندر میرے سینے پر چڑھا ہوا تھا اور اپنی گلابی پپوٹوں والی آنکھوں سے مجھے غور سے دیکھ رہا تھا ۔ بندروں سے نظر ہٹا کر جیسے ہی میں نے سامنے کی طرف دیکھا ، اچانک گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
دو خوفناک صورت انسان جو ہتھیاورں سے لیس تھے ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے۔
بندر کو سینے سے ہٹا کر میں نے آواز دے کر جان اور جیک کو جگایا ۔ وہ دونوں گھبرا کر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے اور اجنبیوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے، جان نے لپک اپنے بستر کے نیچے سے بندوق نکالنی چاہی مگر فوراً ہی اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، بندوق وہاں نہیں تھی، ہم نے جلدی جلدی اپنے ہتھیار ٹٹولے مگر ان دونوں بھیانک شکل کے آدمیوں کو طنزاً مسکرا تے دیکھ کر سمجھ گئے کہ تمام ہتھیار ان کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔
“کون ہو تم؟” جان نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا: “آخر اس بد تمیزی کا کیا مطلب ہے؟ ”
“زبان سنبھال کر بوڑھے آدمی” ان میں سے ایک نے جس کی مونچھیں کانوں کو چھو رہی تھیں کہا:
“بدتمیز کہنے والے کو ہم اس کی بدتمیزی کا مزا چکھانا اچھی طرح جانتے ہیں۔ ”
“کھڑے ہو جاؤ تم چاروں” دوسرے نے جس کے مونہہ پر برص کے سفید داغ تھے اپنی بندوق ہماری سمت کرتے ہوئے کہا۔
“میں پوچھتا ہوں کہ آخر تم ہو کون؟ ” اس بار جیک نے غصیلی آواز میں کہا۔
“ہم تمہارے آقا ہیں اور تم ہمارے غلام، سمجھ گئے؟ ”
“کیا بکواس کرتے ہو” جان چلایا: “ہمارے ہتھیار واپس کرو۔ ”
“دیکھو بڑے میاں” دوسرے شخص نے کہا۔
“زیادہ اکڑ فوں مت دکھاؤ ، تمہارے ہتھیار کھانے ، پینے کا سامان کاتوسوں کی پیٹیاں اور خچر سب ہمارے قبضے میں ہیں ، ہمیں چار غلاموں کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ یہاں سے بیس میل مشرق کی طرف سامان اٹھا کر چلیں، اگر مگر کی ضرورت نہیں، آفت سنگھ جو چاہتا ہے حاصل کر لیتا ہے ، اور اس کے معاملات میں کوئی دوسرا دخل نہیں دے سکتا۔ ”
یہ سن کر جان نے جیک کو اور پھر جیک نے مجھے دیکھا، در حقیقت یہ معمہ ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا تھا ، ویسے مجھے یہ تو یقین ہو گیا تھا کہ یہ دونوں ڈاکو ہیں مگر ڈاکوؤں کا کام تو صرف لوٹ مار کرنا ہے ، ان دونوں نے ہمارا سامان لوٹ لیا ہے ، پھر اب انہیں اور کیا چاہئے ؟ یہ ہمیں بیس میل مشرق کی طرف کیوں لے کر چلنا چاہتے ہیں؟
“دیکھئے آپ لوگ خواہ کوئی ہوں، مگر میں چاہتا ہوں کہ آرام سے بیٹھ کر ہمیں بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں ، اور ہمارے سامان پر قبضہ کرنے سے آپ کا مقصد کیا ہے ؟ ” جان نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر ذرا ادب سے کہا۔
“تمہیں بحث کرنے کی بہت بری عادت ہے” پہلے ڈاکو نے کہا:
“اگر تم معلوم کرنا ہی چاہتے ہو تو سنو، ہمیں چار ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو ہمارا سامان ،کیوں کہ تمہارا یہ سامان اب ہمارا ہی ہے ، اٹھا کر ہمارے ساتھ بیس میل آگے پما کوٹی پہاڑ تک چلیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہم تمہیں ذرا بھی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ، بلکہ الٹا تمہیں مالا مال کر دیں گے ۔ ”
“تمہارا اسلحہ ہمارے پاس رہے گا” دوسرے ڈاکو نے کہا
“اور یہ تمہیں اس وقت واپس ملے گا جب کہ ہم اپنا کام پورا کرنے کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ ”
” اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو؟ “جاننے پوچھا۔
” تو پھر تمہیں گولی مار دی جائے گی اور تمہاری لاشیں گدھوں اورکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہم خود آگے چل پڑیں گے۔ ”
کبڑا اتنی دیر میں بیدار ہوچکا تھا ، اور وہ خاموشی سے ان ڈاکوؤں کی باتیں سن رہا تھا ، اپنی جگہ سے کھسک کر وہ جان کے پاس آیا اور سرگوشی سے کہنے لگا:
“فی الحال ان کی باتیں ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ، مسٹر جان! ہمیں ان سے نپٹنے کے لئے وقت چاہئے ، اور وہ اسی طرح مل سکتا ہے ، کہ ہم ان کا اعتماد حاصل کر لیں اور ان کے ساتھ تھوڑی دور تک ضرور چلیں۔ ”
“میرے خیال میں تم ٹھیک کہہ رہے ہو” جان نے اتنا کہہ کر اس کی یہ بات مجھے اور جیک کو سنا دی ، ہم نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور پھر جان نے ان سے کہا۔
“ٹھیک ہے ، حالانکہ ہم کسی اور کام سے شمالی ہند جانا چاہتے تھے مگر اب نہیں جائیں گے ، ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔ ”
“جھوٹ مت بولو” برص کے داغ والے ڈاکو نے کہا:
“ہمیں معلوم ہے کہ تم شمالی ہند نہیں جاؤ گے بلکہ وہاں سے آئے ہو، تم کسی خزانے کے چکر میں ہو ، جس کا نقشہ تمہارے اس لڑکے کی کمر پر بنا ہوا ہے ، یہ لڑکا کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا تب ہی ہم نے اس کی ننگی کمر پر یہ نقشہ بنا ہوا دیکھا ہے ، سچ بتاؤ کہ یہ نقشہ کہاں کا ہے؟ ”
“یہ نقشہ اسی علاقے کا ہے” جان نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:
“لیکن ہزار کوشش کے باوجود بھی خزانہ ہمیں نہیں مل سکا۔”