"دامل پلیز آجائیں ”
آج اُسکی منہ بولی ماں نے ظلم کی انتہا کردی تھی اُسکے پاؤں پر جان بوجھ کر اُبلتا ہُوا پانی ڈال کر بہت سکون سے کسی کے گھر چلی گئی تھی تاکہ مہر تکلیف سے مر جائے
ابھی بھی کچن میں بیٹھی تڑپ رہی تھی پاؤں پر اتنی جلن تھی کے ایک قدم اٹھانا واویلےجان بنا ہوا تھا کچن کی دیوار سے لگی ایک گھنٹے سے دامل کو آوازیں دے رہی تھی براؤن رنگ کی آنکھیں رو رو کر سُرخ ہوچکی تھیں درد تھا کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اب تو پاؤں پر اُبلے پڑھ چکے تھے اور سردی کی وجہ سے بلکل نیلے ہورہے تھے کمزور سی جان اب بلکل درد سے بےہوش ہونے کو تھی
لیکن خود کو یوں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتی تھی ہمت کرکے آہستہ آہستہ ہاتھوں کے بل باہر کی طرف رینگنا شروع کیا شاید باہر جاکر کسی کو اُس پر ترس آجائے کوئی اتنی مصیبت میں اُسکا ساتھ دے دے اب تو پاؤں گھیسنے کی وجہ سے خون میں رنگ چُکے تھے
وہ تو تب ہوش میں ہی نہیں تھی جب کوئی اُسے ان بے رحموں کے گھر کے آگے چھوڑ کر چلا گیا تھا اٹھارہ سالہ زندگی میں کونسے دُکھ تھے جو اُسنے نہیں دیکھے تھے کبھی گھر میں دو وقت کی روٹی نہیں ملی تھی کبھی کسی نے اچھے کپڑے پہنے کو نہیں دیے تھے جو باپ تھا منہ بولا وہ نشے کی لت میں اتنا ڈوب چکا تھا کے اپنی پرواہ نہیں تھی بس اتنا ہی بہت شکر کرتی تھی کے اُسے اپنے نشے کے عوض بیچ نہیں ڈلا تھا
زندگی میں سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا گھر کے کام یہ پھر بڑی بہنوں کی خدمت کے علاوہ اُس کی زندگی میں تھا کیا بس دھکے ہی تھے جو ایک سال کی عمر سے کھاتی آرہی تھی کبھی کسی کو اُسکی ذات پر رحم ہی نہیں آیا تھا نوکروں کی طرح کام کرتی تھی پھر سارا دن اُسے اپنے بد صورت ہونے پر باتیں سنی پڑتی تھیں
ایک دن بخار کی حالت میں بازار سے سودا لینے گئی اور وہاں چکرا کر گر گئی اور اللہ نے اُسکی مدد کے لیے دامل کو بھیج دیا جو اب اُسکی سانس لینے کی وجہ کی جس نے کبھی اُسکے چہرے اور رنگ کو فوقیت نہیں دی تھی اُسے اب یقین ہوا تھا کے دُنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن اچھے اور نیک لوگوں کے لئے اللہ ہمیشہ اپنے پسندیدہ بندہ ہے چُنتا تھا
"مہر”
جس آواز کو بھی پچھلے ایک گھنٹے سے سننا چاہ رہی تھی اب کانوں میں پڑی تھی
دمل کا تو جیسے سانس بند ہوگیا تھا پاؤں خون سے لت پت آنکھیں سُرخ ہوئی تھیں بھاگتا ہوا اُسکے پاس آیا ذہن ابھی بھی ماوف ہُوا تھا
"ک…..کیا ہوا ہے مہر؟”
جلدی سے اُسکا چہرہ اوپر کیا جو ابھی نیم بے ہوشی میں جارہی تھی
"دامل ”
ہاتھ پڑا کر یقین کرنا چاہ رہی تھی کے وہی ہے
"ہوا کیا ہے کس نے کیا ہے ”
اب چہرہ پر غُصہ کا پہرہ تھا
لیکن وہ بیہوش ہو چکی تھی جلدی سے اُسے باہوں میں اُٹھا کر باہر کی طرف بھاگا جلدی سے گاڑی میں نرمی سے لاکر لیٹا اور خود دروازہ بند کرکے دوسری طرف جارہا تھا جب پیچھے اُسکی ماں آگئی
"کدھر لے جارہے ہو میری بچی کو اٹھا کر”
آکر دامل کا گریبان پکڑ لیا
"ہاتھ نہیں لگاؤ مجھے ورنہ وہ حالت کروں گا کے خود سے نفرت کرو گی تم”
ہاتھ جھڑک کر گاڑی کا دروازہ کھولا
"میں شور کردوں پورے محلے کی اکھٹا کروں گی ایسے تو نہیں جانے دونگی”
آکر دروازہ بند سے پہلے اُسے پکڑ لیا
"کرو جیتنا کرنا ہے ابھی پولیس کو بولا کر معصوم بچی پر تشدد کے جرم میں ایف ای آر کٹوا دونگا اور ساری زندگی بھر باہر آنے کے لیے ترسو گی پھر ”
وہ سُرخ آنکھوں سے کہتا اُسکے ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر دروازہ لگا گیا اور باہر کھڑی سونیا کا ہاتھ گاڑی میں انے کی وجہ سے لہو لہان ہوچکا تھا بس کھڑی اُس چھوٹے سے لڑکے کی ہمت دیکھ رہی تھی
"بہت اچھی قسمت لاکر پیدا ہوئی ہے یہ مہر”
خدو ہی جل کر کہا اور اپنا ہاتھ دیکھتی اندر کی طرف چلی گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"دیکھیں یہ پولیس کیس ہے دامل صاحب ہمیں پہلے پولیس کو انفرم کرنا ہے”
ایک ڈاکٹر اپنے پیشہ ورانہ لہجے میں دامل کو بتا رہا تو پریشاں سے لہجے میں مہر کے پاس بیٹھا اُسکے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا
"ڈاکٹر صاحب اِس کی ضرورت نہیں ہے اگر کرنا بھی ہُوا تو خود کروں گا ”
اب بھی نظریں مہر کے چہرے پر ہی تھیں جس کے چہرے پر دُکھ اور تکلیف کے اثرات ابھی تک نہیں گے تھے
"دیکھیں بچی کی زندگی کا سوال ہے اور اتنا تشدد کون کر سکتا ہے آج”
"ڈاکٹر اِس میں میری ہی غلطی ہے اگر کاٹنی ہے تو میں تیار ہوں ”
اب آختا کر کھڑا ہوگیا تھا اور آواز اتنی اونچی تھی کے ڈر کر مہر نے آنکھیں کھول دیں
"دامل ”
درد کا انجکشن لگنے کی وجہ سے پاؤں میں درد نہیں تھا اور ہوش میں آتے ہی دامل کو سامنے دیکھ کر خود ساختا ہاتھ اُسکی طرف بڑھایا
دمل جلد سے اُسکے پاس آکر اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لےکر بیڈ کے کارنر پر بیٹھ گیا
"درد تو نہیں ہورہی”
فکر مندی سے پوچھا
"نہیں ہوتی جب آپ پاس ہوتے ہیں ”
اُسکے کندھے پر سر رکھ کر بولی
"مہر اب تم واپس اُس جہنم میں نہیں جاؤ گی ، ہم نکاح کریں گے اور میرے ساتھ ہی رہو گی تم”
اُسنے حکم چلانے والے انداز میں کہا
"دامل امی مجھے پھر ماریں گئی ”
آنکھوں میں کچھ دیر پہلے والی تکلیف آئی تو آنکھوں میں نمی در آئی
"اب جو تمہیں ہاتھ بھی لگائے گا اُسکے ہاتھ میں خود کاٹ دونگا”
لہجہ جنونی تھا اور آنکھوں ابھی بھی سختی تھی
"اگر تمہاری مرضی شامل نہیں ہوگی نکاح میں توزبردستی نہیں کروں لیکن اب تمہیں واپس وہاں نہیں جانے دونگا ”
کُچھ ذہن میں کلک ہونے کے بعد مہر سے نظریں ملائے بغیر ہی اپنی بات کہی جس پر مہر ٹرپ کر آگے ہوئی
"دمل آپ میرا واحد سہارا ہو آپ کا حکم میرے سر انکھوں پر میری خوش قسمتی ہوگئی اگر آپ جیسے سچے انسان کے نکاح میں جاؤں گیں تو”
جلدی سے غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی جیسے پہلے ہر چیز سے محروم تھی دوبارہ نہیں ہونا چاہتی تھی دامل کے ہاتھ پر گرفت مضبوط ہوئی
"دیکھ لو میرے ساتھ بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا میں یہ نہیں کہوں گا کے میری زندگی میں آنے کے بعد زندگی ایک پھولوں کی سیج کی طرح رہے گئی ۔۔میں بھی انسان ہو اور ایک نارمل زندگی جینے والے ہوں بس تمہارا ساتھ مضبوط کرے گا ۔۔۔۔اور کوشش کروں گا کہ تمہارے پر بیتے ہوئے ہر مُشکِل وقت کا بدلہ میں اپنے پیار سے اُن زخموں کو مندمل کروں”
یہ وہ والا دامل جو ہر وقت سب کو ہنستا رہتا ہے یہ کوئی زندگی کو سمجھنے اور اپنے ساتھی کو پہلے سے ہی حالات سے آگاہ کرنے والا تھا
"میں پھر بھی آپ کو ہی منتخب کروں گی”
وہ انسان اُس معمولی سی لڑکی کی مرضی کو اتنی اہمیت دے رہا تھا اور یہی باتیں اُسے اپنی ہی نظروں میں معتبر کر رہیں تھیں
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دو ماہ ہونے کو ائے تھے لیکن طالش بس تین چار مرتبہ ہی آیا تھا کیوں کہ اُن کے زمینوں کے مسئلے تھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اُسکے فائنل ایگزیم بھی سر اور تھے لیکن رخسار خود ساختہ اقدام کے ذریعہ اُسکے مسئلے ختم ہی نہیں ہونے دے رہی تھی یہاں تک کے اُسکی وجہ سے اُنکے مخالفین بھی اب مسئلے بڑھانے میں پورا پورا کردار ادا کے رہے تھے
عندلیب اکثر اپنے کمرے میں وقت گزارتی ملیحہ تو ہر دوسرے دن اُسکے زخموں پر نمک چھڑک کر تین چار دن اُسکے زخموں کو ایک بار پھر ہرا کے دیتی کے وہ نہ ہی اس خاندان کو وارث دے سکتی ہے نہ ہی طالش ایسی کوئی خواہش چاہتا ہے تبھی تو دو ماہ ہونے کو ائے لیکن اللہ نے اُسے خوش خبری نہیں سنائی اور دوسری طرف یہ کے وہ ایک متعلقہ ہے طالش کیوں چاہے گا کے کسی اور کے نام ہونے والی لڑکی اُسکے وارث کو جنم دے
یہ سب باتیں اُسے اپنی قسمت پر رونے پر مجبور ہوگئی تھی لیکن طالش کو اُسکے ان وسوسوں کی خبر نہ تھی جب اتا تھا تو ایسا ہی ظاہر کرتی کے وہ خوش ہے اب خوشی سے سارا دل لگا کر کام کرتی تھی اور فارغ وقت میں اکثر مہر سے بات چیت ابھی بھی لیٹی اپنی زندگی کی کٹن مصفتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جب اپنا سر بھاری ہوتا ہوا محسوس ہوا تین چار دن سے یہی ہورہاتھا ماحول سے اُلجھن سے ہوتی تھی دل خراب ہی رہتا تھا
"دیب”
خوشبوں کا ریلا اندر آیا تو سر اُٹھا کر طالش ہی تھا لیکن طبیعت اتنی بوجل تھی کے اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکی
طالش تیز تیز قدم اٹھاتا اُس تک آیا کیوں کے پہلی بار ہُوا تھا کے اُسنے پُر جوش استقبال نہیں کیا تھا
جیسے ہی تیز کلون کی مہک اُسکے پاس آئی تو عجیب قسم کی حالت ہوگئی اچانک سے اتنی سردی میں پسینے آنے لگ گئے اور آنکھوں سے پانی بہہ نکلا
"طالش ونڈو کھولیں”
ہاتھ ناک پر رکھے عجیب سی بیزاری سے کہا
طالش ونڈو کھول کر پھر اُسکی طرف آیا
"کیا ہوا دیب تم ٹھیک ہو”
"تالش مجھے لگتا ہے میرا آخری وقت چل رہا ہے”
سچی تھی کیوں کے ان دنوں جتنی تبدیلیاں اُسے خود میں محسوس ہوئیں تھیں عین ممکن تھا کے وہ ایسی مفروضے قائم کرے
اور بات کہتے ہی آنکھوں میں نمکین پانی بھر گیا جیسے نہ اُمید ہوگئی ہو
طالش جو اُسکی زرد رنگت اور آنکھوں کے نیچے ہلکے دیکھ کر پہلے ہی پریشاں تھا اُسکی بات دل کو اور بےچین کر گئی
"کیسی پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو ؟؟؟ چُپ کرو”
دُکھ سے اُسکے ہونٹوں پر اُنگلی رکھی
"اچھا رکو میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں”
کلاک کی طرف دیکھتا ہوا بولا جو پہلے ہی رات کے گیارہ بجا رہا تھا
"طالش اُسے بتایا گا کے مجھے لگتا ہے میرے جسم سے جان نکل رہی ہے۔۔۔”
اتنی لمبی لمبی بیماریوں کی لسٹ کھول کر طالش کے سامنے وہ کیا کیا نوٹ کر رہی ہے آج کل کہاں کہاں درد ہوتا ہے کس کس چیز سے بیزاری ہوتی ہے جس کے بعد طالش کو لگا تھا کے واقعی اُسکی بیوی اسکو چھوڑ کر جانے والی ہے آنکھیں آہستہ آہستہ سُرخ ہورہیں تھیں اور ایسے لگ رہا تھا کے وہ اب چل نہیں سکے گا
فون کو وہیں پھینک کر دیب کے غریب آیا عقیدت سے اُسکے ہاتھوں پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی پاگلوں کی طرح دیوانہ وار اسکو خود میں بھینچ لیا لیکن اچانک سے اُسکے ذہن میں کُچھ کلک ہُوا تو اُن بیران آنکھوں میں چمک در آئی
"دیب میری زندگی میں کوئی اور انسان آنے والا ہے جس سے میں تم سے بھی زیادہ پیار کروں گا”
اُسکی گالوں پر ہلکی سی شرارت کرتے ہوئے شریر لہجے میں بولا
٫کون”
ساری بیماریاں ایک سیکنڈ میں کہیں دور جاکر سوگیں
"بس کوئی ہے جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہوگا ”
آنکھیں ونگ کرکے کہا تو دیب کو دوہرا صدمہ لگا ایک تو وہ بستر مرگ پر پڑی ہے اور دوسرا اُسکا شوہر کسی کو زندگی میں لانے کی بات کر رہا ہے
"پیچھے ہٹیں”
جو پہلے ہلنے کو بھی محال سمجھ رہی تھی اپنے ساتھ لگ کر بیٹھے طالش کو دھکا دیا اور خود دور جا کر کھڑی ہوگئی
"کیا ہوا تب تک میں تمہارے ساتھ گزرا کر لونگا ”
دونوں ہاتھ کھڑے کر بولا
"طالش میں اُسے بھی مار دونگی ”
دوبارہ پھر خوشبوں نے اپنے حصار میں لیا تو لفظ زبان میں ہی رہ گئی البتہ خود اُسکی باہوں میں جھول گئی تھی
"شکریہ دیب مجھے اتنی خوشی دینے کے لیے”
کہتا ہوئے اُسکے چہرے پر جُھکا جو پہلے ہی ہوش و خرد سے بیگانہ تھی
°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...