کیمبرین چرچ اپنی پوری آن سے رات کی تاریکی میں سر اٹھائے کھڑا تھا۔اس چرچ کی بیرونی ساخت ایسی ہی تھی جیسی عموماً ہر چرچ کی ہوتی ہے ۔
اور چرچ کے اندرونی حصے کی بات کی جائے تو آج وہ بے شمار رنگین پھولوں اور مومی شمعوں سے خوبصورتی کے ساتھ سجا ہوا تھا ۔دونوں اطراف سلیقے سے قطار میں لگی سیاہ لکڑی کی بینچیں بچھی ہوئی تھیں۔ درمیان میں آنے جانے کے لئے جگہ چھوڑی گئی تھی ۔داخلی دروازے کے ایک دم سیدھ میں اونچا سا پوڈیم تھا۔جس پر قد آدم سے بھی اونچی صلیب نصب تھی۔پوڈیم پر بشپ یعقوب کے ساتھ کئی پادریوں سمیت راہبائیں بھی براجمان تھیں ۔خوش لباس اور خوش باش چہروں کے ساتھ وہ لوگ بارہ بجنے کا انتظار کر رہے تھے ۔اسٹیج کے نیچے کھڑی ننوں کا ایک گروپ پرئیر سانگ گا رہا تھا ۔آگے کی دو بینچوں پر میڈیا رپورٹرز اور اینکرز اپنے کیمرے اور مائک سمیت بیٹھے ہوئے تھے۔ تیسری بینچ پر سسٹر ایما اور سسٹر میریا کے درمیان بیٹھی زنیرہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔اعصاب پر تناؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ بھنووں کے درمیان لکیر کے ساتھ وہ خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔اسنے گلے میں پہنے کراس کو شہادت کی انگلی سے چھوا اور۔۔۔اور اسے پھر رابرٹ کی باتیں یاد آنے لگیں ۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نا ہی خدا کے بیٹے تھے اور نا ہی وہ خود خدا تھے۔بلکہ اللہ نے انہیں اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تھا ۔اسنے کراس ہاتھ سے چھوڑا ۔یہ ساری باتیں وہ پہلے سے جانتی تھی۔ان پر ایمان رکھتی تھی۔مگر اب جب وہ یہ سب بھولنا چاہتی تھی تو پھر اسے یہ سب کیوں یاد دلایا جا رہا ہے ۔ننوں کے گروپ نے اپنا سانگ ختم کر لیا تھا۔تالیوں کا ہلکا سا شور گونجا۔اب گھڑی کی سوئیاں بارہ کے ہندسے پر یکجا ہو چکی تھیں۔ایک بلند شور اٹھا۔تالیوں کا، آتش بازیوں کا اور مبارکبادوں کا۔
بشپ یعقوب اسپیکر پر بلند آواز میں اعلان کر رہے تھے ۔”.Jesus has risen”
چرچ میں موجود سارے لوگ ایک ایک کر کے کھڑے ہوتے گئے۔جشن شروع ہو گیا تھا۔حضرت عیسی علیہ السلام کا اپنی قبر سے زندہ ہو کر اٹھنے کا جشن منانا شروع ہو گیا تھا۔مگر زنیرہ ہنوز اسی طرح زانوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے، گردن نیچی کئے بیٹھی رہی۔وہ کس طرح کھڑی ہو سکتی تھی ۔اسکا عقیدہ تو یہ تھا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام مصلوب نہیں کئے گئے تھے ۔انہیں اللہ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔
اب دوسرا استقبالیہ گیت شروع ہو گیا ۔خوبصورت آوازوں کے ساتھ وائلن کی مدھم دھنیں چرچ کی دیواروں سے ٹکرانے لگیں ۔زنیرہ نے اپنی زانوؤں پر رکھے ہاتھوں کو باہم ملا کر رگڑا ۔اسکے ہاتھ پیر بے حد ٹھنڈے ہو رہے تھے ۔یخ بستہ اور سرد سے۔اسنے گہری سانس لے کر خود کو حوصلہ تھمایا۔وہ اب پوری طرح اس ماحول سے منقطع ہو رہی تھی ۔لگ بھگ تین سال پہلے کی سیاہ اسکارف اپنے سر کے گرد لپیٹے تئیس سالہ زنیرہ اپنے ماں باپ کی لاشوں کے سامنے کھڑی تھی۔صبر سے اپنے آنسوؤں کو روکے اور انکے لئے دعائے مغفرت کرتی۔۔پھر دو سال پہلے کی زنیرہ جو ایلسا اپارٹمنٹ کے تیسرے فلور پر رہتی تھی ۔وہ خاموشی سے صبر و شکر کا دامن پکڑے اپنے شوہر کی بیجا زیادتیوں کو برداشت کر رہی تھی ۔اللہ سے اچھے صلے کی امید پر، اچھے بدلے کی امید پر۔۔پھر اسنے اپنے آٹھ ماہ کے بیٹے کی موت کو بھی رضائے ایزدی سمجھا اور اللہ سے کوئی گلہ، کوئی شکایت نہیں کی ۔آج اسے سب کچھ یاد آ رہا تھا۔احنف کا سرخ و سفید وجود، جبران کے اس پر کئے جانے والے مظالم، پارکر کی بد تمیزی اور جبران کی بے غیرتی۔۔۔سب کچھ ۔۔۔ان سب چیزوں میں اسکے لئے کیا چیز اچھی تھی؟ کیا اسکے پاس کوئی وجہ تھی کہ وہ مزید اللہ کا شکر ادا کرتی رہے، اسکی عبادت یونہی کرتی رہے۔سیاہ آنکھیں پانی سے لبریز ہوئیں اور اسنے اپنا جھکا سر اٹھایا۔
وہ اب اسی ماحول میں واپس آ گئی تھی ۔ویلکم سانگ ختم ہو گیا تھا ۔سسٹر ایما نے اسے اٹھنے کو کہا۔وہ میکانکی انداز میں چلتی پوڈیم کی طرف بڑھنے لگی۔ہر کیمرے کی آنکھ اس پر مرکوز تھی۔ہر کوئی صرف اسکی طرف متوجہ تھا ۔
کیا اللہ نے اسے اس وقت تنہا چھوڑا تھا جب وہ اپنے والدین کی موت کے بعد بالکل بے سہارا اور بے اماں تھی؟ کوئی اسے پوری شدت سے جھنجھوڑنے لگا۔کیا تمہارے رب نے تمہیں اس وقت مسرت کا کوئی لمحہ نہیں دیا جب اسکے اوپر جبران جیسا شخص مسلط تھا؟ کوئی اسے گہری نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔کیا اس وقت تیرے رب نے تیرا ساتھ چھوڑ دیا جب تو جبران کا گھر چھوڑ کر نکل گئی تھی؟ کیا اس نے تجھے دنیا کے بے رحم پاؤں تلے روندنے کے لئے چھوڑا؟ کوئی اسکے کان میں صور پھونک رہا تھا ۔۔۔آنکھوں میں ٹھہرا پانی ڈھلکتا ہوا گال پر آ گیا ۔اسکے قدموں میں زرا سی لڑکھڑاہٹ ہوئی۔سسٹر ایما نے اسکا بازو پکڑ کر اسے سہارا دیا۔ وہ سنبھل کر اسٹیج کے زینے پر چڑھنے لگی۔نہیں ۔۔۔تیرے رب نے تجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا ۔۔۔وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ تھا۔۔۔تمہاری ہر سانس اور تمہاری ہر دھڑکن تک۔۔۔وہ تو ایک چھوٹے سے کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے ۔۔۔اسکی پرورش کرتا ہے ۔۔۔پھر تٗو تو اسکی نیک بندی تھی۔۔۔اسکی نعمتوں کا شکر اور آزمائش پر صبر کرنے والی۔۔۔وہ کس طرح اکیلا چھوڑ سکتا تھا ۔۔۔کوئی اسے بیحد نرمی سے جواب دے رہا تھا ۔۔۔اسکے دل میں موجود ساری گرہوں کو کھول رہا تھا ۔۔۔اسکی لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے اسے اسکی اچھائیاں یاد دلا رہا تھا ۔۔۔وہ اب بشپ یعقوب کے سامنے آ گئی۔انہوں نے پہلے اسکے سر پر مقدس پانی چھڑکا پھر دعائیں پڑھتے ہوئے اسکی پیشانی پر زیتون کا تیل لگایا۔کیمرے سارے پلوں کو قید کر رہے تھے ۔زنیرہ یک ٹک اپنی سیدھ میں دیکھتی ایک دوراہے پر کھڑی تھی ۔۔۔رب اور شیطان کے درمیان معلق۔۔۔ایمان اور کفر کی کشمکش میں مبتلا ۔۔۔اسے نہ اپنی تصویریں لیتے کیمرے نظر آ رہے تھے اور نا ہی سفید روب میں ملبوس بشپ یعقوب ۔۔۔اسکے ارد گرد موجود شیاطین اسے اپنی جانب کھینچنے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ان دیکھی زنجیریں اسکی طرف پھینکتے ہوئے وہ اسے کسی بھی طرح اپنے جال میں جکڑنا چاہتے تھے ۔۔۔مگر کوئی سفید سی روشنی جیسی چیز۔۔۔نور کے ہالے جیسی چیز۔۔۔ان زنجیروں سے بار بار اسے بچا رہی تھی ۔۔۔
“کہو کہ تم اپنے پچھلے گناہوں سے تائب ہو رہی ہو۔اور اپنے نجات دہندہ کے طور پر تم عیسی مسیح کو تسلیم کر رہی ہو۔۔۔” شعلے میں لپٹی زنجیر اسکے بالکل قریب آ گئی۔
“تم اللہ اور اسکے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ ‘تین’ ہیں ۔باز آ جاؤ یہ تمہارے لئے ہی بہتر ہے ۔اللہ تو بس ایک خدا ہے۔وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اسکا بیٹا ہو۔زمین اور آسمان کی ساری چیزیں اسکی ملک ہیں اور انکی کفالت اور خبر گیری کے لئے بس وہی کافی ہے ۔” سفید نور نے پوری قوت سے اُس آگ بھری زنجیر کو اس سے دور کیا۔
” اور تم عہد کرو کہ تم اپنی پوری زندگی عیسی مسیح کو اپنا خدا مانتے ہوئے انکی تعلیم کی پیروی کروگی۔۔۔”ایک دفعہ پھر اس پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی ۔
” اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے ۔اور اتنی صاف ہدایت پا لینے کے باوجود اگر تم نے لغزش کی تو اللہ زبردست، حکیم و دانا ہے ۔”رفتہ رفتہ اس روشنی کی وسعت میں اضافہ ہوا اور اسنے ایک ہی ریلے میں اسکے گرد موجود ساری شیطانی زنجیروں کو دور پھینک دیا تھا ۔اور اب زنیرہ کے آگے کوئی دوراہا نہیں تھا۔وہ کہیں معلق بھی نہیں تھی۔اسکے سامنے بس ایک ہی سیدھا راستہ تھا اور اسکے پیر پوری طرح زمین پر ٹکے تھے۔
“بشپ کے الفاظ انکے پیچھے دہراؤ۔” سسٹر ایما نے اسے ٹہوکا دیا۔
وہ ایک دفعہ پھر سابقہ الفاظ دہرانے لگے۔
“کہو تم ایمان لاتی ہو خداوند عظیم پر، اسکے بیٹے عیسٰی مسیح پر اور روحِ مقدس پر۔۔۔”
“میں گواہی دیتی ہوں ۔۔۔” زنیرہ کی زبان اٹکی۔۔۔لفظ جیسے رک رک کر نکلنے لگے ۔اسنے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے دوبارہ کہنا شروع کیا ۔اس دفعہ زبان بالکل صاف اور واضح تھی ۔لہجہ بہت بلند اور مضبوط تھا۔آواز ایک دم ٹھہری ہوئی اور پر سکون تھی۔
” میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ السلام اسکے بندے اور رسول ہیں ۔”
پورے ہال میں ایک دم گہرا سناٹا چھا گیا ۔وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے بھی ان الفاظ کی توقع نہیں کی تھی۔پادریوں نے ہاتھ کے اشارے سے کیمرے بند کروانا شروع کر دیا ۔مگر پھر بھی زنیرہ کی گواہی لائیو کوریج کے ذریعے سنی جا چکی تھی ۔کیمرا مین کھٹا کھٹ اسکی تصویریں اتارے جا رہے تھے ۔انہیں بس اپنی ریٹنگ سے مطلب تھا۔اب چاہے وہ زنیرہ کے بپتسمہ سے آتی یا اسکے کلمہ سے۔بشپ کے اشارے پر میڈیا پرسن سے زبردستی کیمرے چھینے جانے لگے۔ساری بساط الٹی جا چکی تھی ۔ان لوگوں نے ایک خطیر رقم کے بدلے میڈیا کو زنیرہ پر اسکے شوہر کے ظلم کی داستان بیچی تھی۔اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ۔۔۔ایک مسلمان عورت اپنے مذہب کی پابندیوں سے گھبرا کر عیسائیت کے دامن میں پناہ لینے آئی تھی۔مگر اب ساری بازی الٹی پڑ گئی۔ایک چرچ میں ایسٹر نائٹ کے دوران کسی لڑکی کا بپتسمہ کے وقت کلمہ پڑھنا ان لوگوں کے لئے کتنی شرمندگی کا سبب تھا اسکا ہر کوئی اندازہ لگا سکتا تھا ۔
بشپ کے اشارے پر سسٹر ایما نے اسکا بازو پکڑ کر وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی ۔زنیرہ نے اپنے ہاتھ کو پوری قوت سے جھٹک کر اسکی گرفت سے چھڑایا۔اسے اب یہاں سے فرار حاصل کرنا تھا۔اسنے اگر تھوڑی سی بھی دیر کی تو وہ ان لوگوں کے شکنجے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی تھی۔اسے جو کرنا تھا ابھی کرنا تھا۔میڈیا کے سامنے کم از کم اسکی جان محفوظ تھی۔اسنے اپنی کوہنی سے سسٹر ایما کو دھکا دیا اور پوڈیم کی سیڑھیاں اترتی باہر کی طرف بھاگی۔
بینچوں کے درمیان سے تیزی سے دوڑتی وہ چرچ کے داخلی دروازے تک پہنچی اور بھاگتی ہوئی سڑک پر نکل آئی۔وہ چرچ سے زرا آگے بڑھ کر دوڑتی ہوئی ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گری۔پتھریلی سڑک سے ہتھیلی اور گھٹنوں پر بری طرح رگڑ آ گئی۔کھڑے ہوتے ہوئے اس نے دوبارہ دوڑنا شروع کر دیا ۔وہ مشنری والوں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتی تھی ۔اسنے بھاگتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔چرچ سے منسلک دو آدمی لوگوں سے کچھ پوچھ رہے تھے ۔زنیرہ کا چہرہ زرد ہو گیا۔یقیناً وہ لوگ اسکے ہی متعلق سوال کر رہے تھے ۔اوور کوٹ سے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوئی اِدھر اُدھر نظریں دوڑا کر چھپنے کی کوئی جگہ تلاش کرنے لگی۔سڑک کے موڑ پر اسے ایک ٹیلی فون بوتھ نظر آیا تھا جو شاید اب استعمال میں نہیں رہتا تھا ۔وہ تیز قدموں سے اس کی جانب بڑھنے لگی مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔اسے تلاش کرنے والے آدمیوں کو کسی نے زنیرہ کا بتایا تھا اور وہ اگلے ہی لمحے اسکے سر پر موجود تھے ۔
“سیدھی طرح ہمارے ساتھ چلو۔”ان میں سے ایک شخص نے اسکی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی پیچھے ہٹنے لگی۔
“فوراً گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔”اسنے دور کھڑی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
“میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔” اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔اسکا خیال تھا کہ وہ لوگ اسے یوں بیچ سڑک سے زبردستی اٹھا کر نہیں لے جا سکتے ۔
“جمی! یہ اس طرح نہیں مانیگی ۔”اس نے دوسرے شخص کی طرف کوئی اشارہ کیا تھا ۔جمی اسکی جانب بڑھنے لگا۔وہ خوف سے پیلی پڑ گئی تھی۔جمی نے برق رفتاری سے آگے آتے ہوئے اسکے منہ پر ہتھیلی جماتے ہوئے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا تھا ۔وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔اسے معلوم تھا کہ اگر اس دفعہ وہ انکی گرفت میں آ گئی تو پھر اسکا وہاں سے نکلنا نا ممکن ہوگا۔اپنے منتشر ہوتے حواس کو اکٹھا کرتے ہوئے اس نے پوری قوت سے اپنی کہنی جمی کی ناک پر رسید کی تھی ۔وہ درد سے بلبلایا اور اسکی گرفت ڈھیلی ہوئی تھی ۔اس لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زنیرہ اسے دھکا دے کر بھاگنے لگی۔دوسرا شخص اسے گالیاں دیتا ہوا اسکے پیچھے لپکا ۔وہ اندھوں کی طرح دوڑنے لگی۔دو ایک دفعہ ٹھوکر کھا کر گری مگر اپنی رفتار میں کمی نہیں آنے دی ۔پیچھے اس آدمی نے بھی
اپنی رفتار تیز کر دی تھی ۔قریب تھا کہ اسکے بال اسکی گرفت میں آ جاتے مگر اسکے پہلے ہی وہ ایک بلند قامت وجود سے ٹکرا گئی ۔اپنا سر اٹھا کر دیکھنے پر اسے اپنے سامنے نیلی آنکھوں اور گولڈن بالوں والا لڑکا نظر آیا تھا ۔
“ایلن! “اسکے لب آہستہ سے ہلے۔جانے اسکا نام اسکے ذہن میں کس طرح محفوظ رہ گیا تھا ۔
“بہت تھکا دیا نے ہمیں۔اب ہم مزید تمہارے ساتھ نرمی نہیں کر سکتے ۔” وہ شخص اونچی آواز سے چیخا۔ناک سے خون صاف کرتا جمی بھی وہاں آ گیا تھا ۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں ؟”زنیرہ کو اپنی اوٹ میں لیتے ہوئے ایلن نے سختی سے پوچھا ۔
اسکی پناہ میں چھپی زنیرہ نے اسکی شرٹ کو سختی سے پکڑ لیا۔وہ جانتی تھی کہ ایلن انہیں میں سے تھا مگر پھر بھی اسے اس کے ساتھ محافظت کا احساس ہو رہا تھا ۔اسے لگ رہا تھا کہ اسے اللہ نے اسکی حفاظت کیلئے بھیجا تھا ۔
“لڑکی ہمارے حوالے کرو ۔یہ ذہنی مریض ہے اور ہمارے مینٹل ہاسپٹل سے فرار ہو گئی ہے ۔”جمی چلایا۔
“کمال ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے تم لوگ اسی ذہنی مریض کو بپتسمہ دے رہے تھے ۔”وہ حیران ہو کر بولا۔
اسکے کہنے پر وہ دونوں بغلیں جھانکنے لگے۔
“تم کون ہو؟”
“میں تمہیں یہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا ۔مگر یہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے پولیس کو اطلاع کر دی ہے ۔وہ بس کسی بھی وقت یہاں پہنچنے والی ہوگی۔اگر تم لوگوں کو کسی امریکی شہری کو ہراساں کرنے کے جرم میں جیل میں جانا ہے تو شوق سے یہاں رکے رہو۔” اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا ۔
اسکے کہنے پر جمی اور اسکا ساتھی زنیرہ کو دھمکی آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی کار کی طرف بڑھ گئے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ پولیس کیس میں پھنسنے پر انکے سرپرست ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے ۔
ان جانے کے بعد زنیرہ نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھا اور چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپائے بے اختیار رو پڑی ۔اسے اس بات پر رونا آیا تھا کہ وہ کس ہستی سے منہ پھیرنے جا رہی تھی جو ہر لمحے میں اس کے ساتھ رہا تھا ۔جس نے اس کی ہر پریشانی کو دور کیا تھا ۔جو اسے اپنی ان گنت نعمتوں سے نواز چکا تھا ۔
حاشر اسکی جانب پلٹا اور بیحد نرمی سے اسکا بازو تھپتھپایا۔
“ایک دفعہ پھر میری مدد کرنے کا شکریہ ایلن!” زنیرہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے احسان مندی سے کہا۔
“تم ٹھیک ہو؟” اسنے اسے ایک سنگی بینچ پر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
اسنے بس بھیگی آنکھوں سے اپنا سر ہلا دیا ۔
پھر وہ اسکے لئے پانی کی بوتل لے آیا تھا۔پانی پی کر زنیرہ نے اپنے حواس قدرے درست ہوتے محسوس کئے۔
“تم واقعی بہادر ہو۔اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو شاید میرے اندر اتنی ہمت کبھی نہیں آ پاتی کہ میں سب کے سامنے، بالکل ناسازگار فضا میں اپنے ایمان کا اعلان کروں ۔” ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی وہ اس سے متاثر ہو گیا تھا ۔
“تمہیں خدا ملا تھا ایلن!” زنیرہ نے پوچھا۔
“ایلن نہیں ۔۔۔حاشر! “اسنے دھیمے سے مسکرا کر اسکے سوال کا جواب دیا تھا۔
________
چار سالوں بعد۔۔۔
نیویارک سٹی پر چمکیلی اور کھلی ہوئی دھوپ نے اپنا سایہ کر رکھا تھا ۔ہر دن کی طرح اس دن کا آغاز بھی خوبصورت تھا۔
بیس منزلہ اپارٹمنٹ کے اس فلیٹ میں چھٹی کی وجہ سے آج دن تھوڑی دیر سے شروع ہوا تھا ۔استری اسٹینڈ کے پاس کھڑی زنیرہ کے چہرے پر ایک شرمندہ سی مسکراہٹ تھی۔آج اسنے پھر حاشر کی شرٹ جلا دی تھی۔جلی ہوئی شرٹ کنارے کر کے اسنے وارڈروب کھول کر دوسری شرٹ نکالی۔
“کیا ہوا؟ اب تک کپڑے پریس نہیں ہوئے؟” حاشر نے واش روم سے باہر آتے ہوئے کہا ۔
زنیرہ مطمئن انداز میں الماری بند کر کے اسکی طرف مڑی۔
“میں نے سوچا کہ گرے شرٹ میں تم زیادہ اچھے لگتے ہو ۔”
“اچھا پچھلی بار تو تم نے کہا تھا کہ میں بلیک شرٹ میں زیادہ ہینڈسم لگتا ہوں ۔اسلئے مجھے بلیک شرٹ ہی دے دو۔” اسنے آئینہ کے سامنے کھڑے اپنے بال تولیہ سے رگڑتے ہوئے کہا ۔
زنیرہ کے لبوں پر شرمندگی بھری مسکراہٹ گہری ہوئی۔
” سوری مجھ سے تمہاری شرٹ جل گئی۔”
تولیہ کو کرسی پر رکھتا وہ اسکی طرف مڑا۔” چھٹی۔۔۔ چھٹی شرٹ تھی یہ۔۔۔آپ میری چھ فیورٹ شرٹس جلا چکی ہیں ۔”حاشر نے افسوس کا اظہار کیا ۔
“یہ پانچویں تھی۔” زنیرہ نے دھیرے سے تصیح کی اور مسکرائی۔
“اوکے جلدی باہر ناشتے کی میز پر آؤ۔میں جب تک بچوں کو جگا دیتا ہوں ۔”وہ باہر نکل گیا تھا ۔
زنیرہ کے چہرے کی طمانیت اسکی آنکھوں میں بھی جھلکنے لگی۔ان چار سالوں میں بہت کچھ بدل چکا تھا ۔اب اسکی زندگی میں کسی تکلیف یا دکھ کی جگہ نہیں تھی۔وہ اپنے حصے کی آزمائشیں برداشت کر چکی تھی۔اب صلے و انعام کا وقت تھا۔
وہ شرٹ ہینگر میں لٹکا کر باہر آئی۔میز پر لگی کرسیوں پر نیلی آنکھوں اور گولڈن بالوں والے حاشر کے ساتھ اسکے ڈھائی سالہ جڑواں بچے احنف اور نور اسکا انتظار کر رہے تھے ۔کرسی پر بیٹھ کر اسنے پف پیسٹری کا ایک ایک پیس ان تینوں کی پلیٹ میں ڈال دیا ۔
سب سے پہلے احنف نے پیس منہ میں ڈالتے ہی برا سا منہ بنا کر اگل دیا۔
“احنف یہ کیا؟” اسنے ناراضگی کا اظہار کیا۔
“مما بہت برا ہے ۔”
زنیرہ نے اسے زبردستی کھلانے کی کوشش کی مگر اسنے کھانے سے قطعی انکار کر دیا تھا۔اور اپنے بھائی کی دیکھا دیکھی نور بھی پلیٹ دور کر چکی تھی۔
“حاشر اپنے بچوں کو دیکھو۔” اسنے شکایتی انداز میں اس سے کہا جو اپنا پیس پورا ختم کر چکا تھا ۔
“یار انکا موڈ نہیں ہوگا۔تم انہیں کچھ اور دے دو۔”اسنے مسکرا کر آسان سا حل پیش کیا ۔
“اتنی محنت سے بیک کی ہے میں نے پیسٹری ۔” اسکا موڈ آف ہونے لگا تھا ۔
“چلو میں تو کھا رہا ہوں نا۔”اسنے اسے تسلی دی اور دوسرا پیس اپنی پلیٹ میں ڈالا۔
“تم لوگوں کے نخرے ختم ہونے کا نام ہی لیتے ہیں ۔”اسنے خفا خفا سے انداز میں کہتے ہوئے پیسٹری کا ایک پیس اپنے منہ میں ڈالا اور وہ خود بھی لقمہ نگل نہیں پائی تھی۔بغیر شکر کی پیسٹری کتنی بدمزہ ہو سکتی تھی اسکا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے ۔
“تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ اس میں شکر نہیں ہے ۔” اسنے حاشر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
حاشر نے بے نیازی سے اپنے کندھے اچکائے۔”مجھے تو اس میں کوئی کمی نہیں نظر آئی تھی۔”
زنیرہ کی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہونا شروع ہو گئے۔گزرے کل اور آج میں کتنا فرق تھا۔اسنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی اس پر اتنا زیادہ مہربان بھی ہو سکتا ہے ۔
“تمہیں ایک دفعہ تو کہنا چاہیے تھا ۔” اسنے بھرائی آواز میں کہا ۔
“اگر میں تمہارے بنائے اچھے کھانے بغیر کسی تعریف کے کھا سکتا ہوں تو ایک دن برے کھانے کو خاموشی سے کھانے میں کوئی حرج تو نہیں ہے ۔” حاشر نے ہر دفعہ کی طرح ایک بار پھر دہرایا ۔
زنیرہ کو اب اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھنا مشکل لگنے لگا۔وہ کرسی دھکیلتی کھڑی ہوئی اور کچن میں چلی آئی تھی۔
پچھلے چار سالوں میں وہ حاشر کے رویے کی عادی ہو چکی تھی ۔اسے معلوم تھا کہ وہ اسکی غلطیوں پر کبھی غصہ نہیں ہوگا۔وہ تو اسکی کوتاہیوں کا احساس بھی نہیں دلاتا تھا۔
ہر دفعہ جب وہ اسکے ساتھ نرمی کرتا، اسکی کمیوں کو نظر انداز کرتا، اسکے ساتھ حسنِ سلوک کرتا تو اسکی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈ آتے تھے ۔زنیرہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتی وہ اسکے لئے کم ہوتا۔
“زنیرہ مجھے یقین ہے کہ کسی دن تمہارے آنسوؤں سے ہمارے گھر میں سیلاب آ جائیگا۔”
اسے اپنے عقب سے حاشر کی آواز آئی ۔
ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ اسکی طرف مڑی۔
“سوری۔” وہ بھیگی پلکوں کے ساتھ مسکرائی۔
اسے مسکراتا دیکھ کر وہ بھی مسکرایا تھا۔
“میں سوچ رہا ہوں کہ اس دفعہ چھٹیوں میں ہم آسٹریلیا چلیں ۔”کچن کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑے حاشر نے فوراً منصوبہ بنایا تھا ۔
“لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ اس سے بہتر ہم عمرہ کے لئے چلے جاتے ہیں ۔مجھے اسکی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے اور آزمائشوں سے لڑنے کی ہمت مانگنی ہے۔”
حاشر کی آنکھوں میں اسکے لئے ستائش ابھری اور ساتھ ہی تشکرانہ جذبات بھی آئے کہ اللہ نے اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت عطا کی تھی۔
“شیور۔میں آج ہی ٹکٹ کا انتظام کر لیتا ہوں ۔اوکے تم اب جلدی سے میری کافی اور بچوں کے لئے سلائس لے کر باہر آؤ اور اب مزید آنسو نہیں ۔” باہر نکلتے ہوئے اسنے وارننگ دینے والے انداز میں کہا ۔
نفی میں سر ہلاتے ہوئے زنیرہ نے کافی کا پانی چولہے پر رکھ دیا تھا۔
زنیرہ ادیب کو اسکے صبر و شکر کا انعام حاشر اور اپنے دونوں بچوں کی شکل میں مل چکا تھا ۔
بے شک اللہ کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے ۔
____ختم شد_____
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...