ہو گیا ہے تجھ کو تو پیار سجنا
لاکھ کر لے تو انکار سجنا۔
زبیر جب روم میں آیا تو اس کے کانوں میں ذین کے الفاظ گونج رہے تھے اور ماہین کا خوبصورت چہرہ آنکھوں کے سامنے آرہا تھا ۔
کیا مجھے پیار ہو گیا ہے اس سے کیا ذین سچ کہہ رہا تھا ۔زبیر روم میں آکر اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا اپنے جذبات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔
نہیں’ نہیں’ نہیں کوئی پیار نہیں ہوا مجھے اس سے بس ضد بن گئی ہے وہ میری اسکا غرور تو ضرور توڑو گا آنا تو اسے میری بانہوں میں ہی ہے ۔زبیر انتہائی یقینی انداز میں کہہ رہا تھا۔
پھر وہ فریش ہونے واش روم چلا گیا فریش ہو کے باہر آیا تو ٹاول سے بال خشک کرنے کے بعد الماری سے بلیک جینز اور نیوی بلو شرٹ نکالی اور پہنی بال بنائے کچھ ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جو اسکے ڈیشنگ پرسنیلٹی پر سوٹ کرتے تھے
زبیر پرفیوم لگارہا تھا
لیٹس گو”ذین روم میں آکر بولا ۔
ہمم چلو۔زبیر ہاتھ میں ریسٹ واچ پہنتا ہوا بولا۔
ذین نے بلیک اینڈ وائٹ لائنگ والی ٹی شرٹ اور جینس پہنی تھی ۔وہ بھی کافی ہینڈسم تھا گورا رنگ بال جیل لگا کر سیٹ کیے ہوئے تھے۔
ٹائم دے دیا ہے نہ ملک کو تمہیں پتہ ہے نہ مجھے انتظار کی عادت نہیں “”
ہاں دے دیا ہے ٹائم پر آجائے گا وہ””
ہمم او کے۔
زبیر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا اور ذین اسکے ساتھ والی چیئر پہ اور کار احمد پیلس سے باہر نکل چکی تھی۔
۔۔۰۰۰۰۰۰۔
اسنے تجھے پراپوز کیا؟نوشین بیٹ پر لٹتی ہوئی بولی۔
پراپوز مائی فٹ”ساسر دھمکی دی ہے اسنے۔ماہین غصے میں ا چکی تھی ۔
او دھمکی کونسی؟
بتائی تو تھی سب باتیں۔
اک بار پھر سے بتا نہ۔
ارے بولرہا ہے کہ شادی تو مجھ سے ہی کرے گا کچھ بھی ہو جائے میں اس سے شادی کرو گی غنڈہ نہیں تو مجھے تو شکل سے نفرت ہے۔
پر اسکو تیری یونیورسٹی کیسے پتہ چلی؟
ہاں یار اور اسنے میرا پورا نام بھی لیا تھا۔
او مطلب تیری انفارمیشن نکلوائی ہے اس نے۔
یار مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے دھمکی دے کے گیا ہے کہ اب تو میرا غرور ضرور توڑے گا۔
اب کیا ہو سکتا ہے اس مسلے کا۔نوشین سوچ میں پڑ گئی ۔
یونی چھوڑ کے ماما پاپا کے پاس واپس چلی جاؤں ۔
پاگل ہے اپنا سال ضائع کرے گی کیا یار سیمسٹر ہونے والے ہیں ۔
پھر کیا کروں۔ماہین رونے والی ہو چکی تھی۔
اچھا پریشان مت ہو اب اگر آئے گا تو میں بات کرنے کی کوشش کرو گی۔
چل
کھانا کھاتے ہیں ۔
مجھے بھوک نہیں ہے ۔ماہین پریشان تھی۔
ارے اب کیا کھانا پینا چھوڑ دو گی پاگل چل تھوڑا کچھ کھا لے نہ۔
“”میں تو تمہیں سوری کہنے آیا تھاپر مس ماہین خان اب میں تمہیں تب سوری کہوں گا جب تم میرے بیڈروم میں میری بیوی بن کر مموجود ہو گی اور اپنے سارے جملہ حقوق میرے نام کرا چکی ہو گی””ماہین بیڈ پر سونے کے لیے لیٹی ہوئی تھی پر اسے نیند نہیں ارہی تھی اسکے کانو میں زبیر کے الفاظ بار بار گونج رہے تھے اسنے تنگ آکر اپنے کانو پر ہاتھ رکھا تھا۔
نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا زبیر احمد۔ کبھی نہیں ۔وہ چلا کے بولی تھی اور آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے تھے۔
صبح نوشین نے بہت مشکل سے ماہین کو یونی جانے کے لیے تیار کیا تھا اسکے خوف کی وجہ سے وہ یونی جانے کے تیار نہیں تھی۔
راستے میں ادھر اودھر سہمی سہمی نظروں سے دیکھ رہی تھی کے کہی وہ نہ جائے ۔
وہ دونوں کلاس لے کر باہر نکلی تھیں ماہین نے ادھر اودھر نظر دوڑائی اور اب وہ باہر کی طرف نکل چکی تھیں ۔
روڈ پر اتی جاتی گاڑیوں کو خوف سے دیکھ رہی تھی ۔
گھر پہنچ کر اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
شکر ہے آج نہیں آیا۔
ماہین اندر گھنستی ہوئی ںولی ۔
ہمم اب وہ اتنا بھی مجنو نہیں ہوا آپ کے پیار میں کے سب چھوڑ چھاڑ کے آپ کی یونی کے باہر بیٹھے رہے اتنا امیر انسان ہے اچھا خاصا بیزی بندہ ہے۔نوشین بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اسے مجنوں بنانے کا اچھا ہے کبھی اپنی شکل نہ دکھائے۔ماہین منہ بماتی ہوئی بولی۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا ماہین کے دل سے اب کافی حد تک ڈر نکل چکا تھا کیو کے ایک ہفتے سے زبیر نظر نہیں آیا تھا ماہین کافی ریلکس ہوچکی تھی اب پر تھوڑا بہت ڈر اسکے دل میں اب بھی باقی تھا زبیر کی دھمکی کی وجہ سے کل اسکا ٹیسٹ تھا ماہین دو بجے تک اسکی تیاری کرتی رہی اور دو بجے کے بعد سوئی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۰۔
کیا ہوا تمہاری لوو اسٹوری کا ؟ ذین زبیر کے روم میں آتا ہوا بولا ۔
کونسی لوو اسٹوری ۔زبیر ذین کو گھورنے لگا تھا۔
ارے میرا مطلب کے وہ مان۔ شادی کے لیے ۔
وہ کون یو مین ماہین۔
او ماہین!!نام تو بڑا پیارا ہے خود بھی بہت حسین ہے جس حسن کے آپ دیوانے ہو گئے ہیں۔ذین تنزیہ ہنستا ہوا بولا تھا۔
ذیادہ کچھ زبان نہیں چل رہی تیری بیٹا؟زبیر ذین کا ہاتھ موڑتا ہو بولا۔
او بھائی یہ میرا ہاتھ ہے تمہاری اس مس معصوم کی کلائی نہیں زبیر ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔
زبیر کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر آیا تھا جب اسنے ماہین کی کلائی موڑی تھی اور اسکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے زبیر نے ذین کا ہاتھ چھوڑا تھا۔
بس آگئی خیالوں میں۔ذین کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
۔۰۰۰۰۰۔
ماہین نہا کر باہر آئی تھی گیلے بالوں کو ٹاول سے پوچھنے لگی تھی اسنے بلیک کلر کی ٹائٹ پینٹ اور پرپل کلر کی سیلیو لیس ٹی شرٹ پہنی تھی بالوں کو سکھا کر اونچی پونی کر لی تھی ہونٹوں پر لپ لوز لگا کر ہونٹ اپر نیچے کرتے ہوئے شیشہ دیکھنے لگی پھر نوشین کو آواز دیتی بکس لے کر باہر نکل گئی ۔
یونیورسٹی پہنچ کر دونوں کلاس لینے چلی گئی تھی ٹیسٹ دے کر نکلی تو دونوں تھکی ہوئی تھی۔
چل یار کینٹین سے کچھ کھا لیتے ہیں بہت بھوک لگی ہے۔نوشین پیٹ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی ۔
ہمم اوکے چلو بھوک تو مجھے بھی لگی ہے۔
کیا کھائے گی ؟نوشین ماہین سے پوچھنے لگی۔
ایک کافی اور فرائس ۔
اوکے لاتی ہوں ۔
دونوں یونی سے باہر نکلی تھی ماہین کا موڈ کافی فریش تھا دونوں روڈ پر چل رہی تھی تبھی سامنے سے اک کار آتی ہوئی نظر آئی جو ان تک ہی آرہی تھی ماہین نظر انداز کرتی چلتی رہی تبھی زبیر نے گاڑی ماہین کے سامنے روکی تھی جیسے ہی کار کا شیشہ نیچے کیا تو ماہین کے پسینے چھوٹ گئے تھے چہرے پہ خوف چھا گیا تھا ماہین اسکو نظر انداز کرتی آگے بڑھنے لگی تھی تبھی وہ کار سے باہر آکر اسکے سامنے کھڑا ہو چکا تھا اور اپنی کالی آنکھوں سے اسکے براؤن آنکھوں میں جھانک رہا تھا وہ جو خوف سے ادھر اودھر دیکھ رہی تھی۔
زبیر اسکی اٹھتی گرتی پلکو کو دیکھ رہا تھا۔
ماہین نے نوشین کا ہاتھ زور سے دبایا تھا۔نوشین جو سیچوایشن سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“”کار میں بیٹھوں ۔زبیر ماہین کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا ںولا۔
مم میں نہیں بیٹھوں گی۔ماہین ڈر کے پیچھے ہٹنےلگی۔
کون ہے آپ اور ماہین نہیں جانا چاہتی آپکے ساتھ۔نوشین ہمت کر کے بولی تھی۔
آپکی دوست مجھے اچھی طرح جانتی ہے مس نوشین۔
نوشین اس کے منہ سے اپنا نام سن کے حیرت میں آ گئی تھی۔
کار میں بیٹھوں جلدی۔زبیر ماہین کو دیکھتا ہوا بولا تھا۔
میں نہیں جاؤں گی تمہارے ساتھ۔ماہین بس رونے کو تھی۔
میں تمہیں سب کے سامنے اٹھا کر بھی لے جا سکتا ہوں اور تم یہ جانتی ہوں آئی ہوپ تم یہ نہیں چاہوں گی ۔
وہ آپ کے ساتھ نہیں جانا رہی آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں ۔نوشین ماہین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی ۔
مس نوشین اگر آپ نہیں چاہتی کے یہاں کوئی تماشا ہو تو اسے چپ چاپ جانے دیں میں وعدہ کرتا ہوں تھوڑی دیر میں اسے سہی سلامت ہاسٹل پہنچا دونگا۔
چلو ۔زبیر ماہیں کو بولنے لگا۔
مجھے نہیں جانا۔ماہین ڈرتے ہوئے بولی۔
لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی۔زبیر ماہین کے قریب آکر اسے اپنی بانہوث میں اٹھانے کو تھا۔
می می میث خود جارہی ہوو ماہین اسکے ارادے بھانپ کے فوراً کار کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی اسکی اس حرکت پر زبیر زیرِ لب مسکرایا تھا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلا چکا تھا۔
وہ چپ چاپ بیٹھے رونے میں مگن تھی زبیر اسکو بار باد نظر اٹھا کے دیکھ رہا تھا پھر گاڑی چلا رہا تھا۔
اف کتنا روتی ہے یہ لڑکی زبیر توں تو اسکوساری ز ندگی چپ ہی کراتا رہے گا لگتا ہے۔زبیر ماہین کو دیکھ کر دل میں سوچنے لگا۔
ماہین پریشان سی راستہ دیکھ رہی تھی خوف سے بار بار ماتھے کا پسینہ صاف کر رہی تھی۔
کہاں جارہے ہو مجھے لے کر۔ماہین ہمت کر کے بولی تھی۔
تمہیں تمہیں اغوا کر رہا ہوں ۔زبیر اسکو اور ڈرانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
دیکھیں مم می میں پولیس میں کمپلین کر دو گی۔
او کے کر دینا تب تک میرا کام تو ہو جائے گا نہ۔زبیرہ اسکوں مزید تنگ کرتا ہوا بولا۔
میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش مت کرنا زبیر احمد ورنہ اندر کرا دوں گی۔ماہین روتے ہوئے بولی تھی۔
زبردستی!!!
زبردستی تو میں اس دن بھی کر سکتا تھا جب تم میرے ساتھ میرے بیڈروم میں تھیں ۔
زبردستی تو اس دن بھی کر سکتا تھا جب تمہیں کلاس میں اکیلے بلایا تھا۔
زبردستی تو ابھی بھی کر سکتا ہوں کوئی مجھے روک سکتا ہے کیا؟زبیر کار جھٹکے سے روکتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
پر فکر مت کرو جو بھی کرونگا جائز حق ملنے پر کرونگا۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ماہین نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
دیکھ لیں گے زبیر اسکے قریب ہوکر اسکا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔
میں اس سے پہلے زہر کھا لوں گی۔ماہین کا رونا اور تیز ہو چکا تھا۔
تم ایسا کچھ نہیں کروگی۔زبیر کی گرفت اسکے ہاتھ پر سخت ہو چکی تھی آنکھیں لال ہونے لگی تھی۔
میں ایسا ہی کرو گی۔
ماہین بھی بنا ڈرے اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔
اور پھر تمہارے ماں باپ کا کیا ہوگا جو کراچی ملیر کے علاقے میں رہتےہیں۔زبیر معنی خیزی اندازمیں بولا تھا۔
ماہین کی آنکھیں پھٹ گئی تھی وہ بنا پلکے جھنپکے بے یقینی سے شبیر کو دیکھ رہی تھی۔
تم ایسا کچھ نہیں کروگے۔ماہین اب پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی۔
میں کچھ بھی کر سکتا ہوں مس ماہین اگر تم نے کچھ ایسا ویساکیا تومیں بھی وہی کرونگا جو میں نے کہا۔
میں کچھ نہیں کروگی پر پلیز میرے ماما پاپا کو کچھ مت کرنا۔ماہین اسکے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی۔
زبیر نے اسکے آنسو صاف کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایاتھا تو ماہین جلدی سے پیچھے ہو گئی ۔زبیر اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں جھانک کے دیکھ رہا تھا جہاں اسکے لئے شدید نفرت تھی۔
مجھے
ہاسٹل جانا ہے ۔
ابھی نہیں ۔
مجھے ابھی جانا ہے۔وہ
غصے سے بولی۔
میری بات ابھی پوری نہ ہوئی ۔
بھاڑ میں گئے تم اور تمہاری باتیں مو تمہاری غلام نہیں ہوں سمجھے!!وہ اب غصے سے پھٹ پڑی تھی ۔
اپنی آواز ہلکی رکھوں ورنہ ۔
ورنہ کیا؟وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھنے لگی آنسو روانی کے ساتھ گر رہے تھے۔
ورنہ تم خود سمجھ دار ہو۔
ماہین اسکی بات سن کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
رونا بند کروں ۔
میث نے کہا رونا بند کرو۔وہ اسے گھورتا ہوا ںولا۔
اب کم سے کم رونے تو مجھے میری مرضی سے دو۔
ابس کہہ دیانہ نہیں بند کرو!!وہ چلا کے بولا تھا۔
ماہین نے جلدی سے آنسو صاف کیے تھے۔
اب وہ اپنی لمبی پلکیں جھکائے بیٹھی تھا
زبیر اسکے چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکے لال ہونٹ اسکا پسندیدہ تل ہر طرف نظر پڑ رہی تھی۔
اسکے کپڑوں پہ نظر گئی تو اسکی رگیں تن گئی تھی۔
پرپل سیلیو لیس ٹی شرٹ جس میں اسکی گوری کلایا چمک رہی تھی اسکا دلکش سراپہ بھی بہت نمایا تھا ٹائٹ جینز جو اسکی دلکشے ظاہر ککر رہی تھی ۔
“”یہ کیسے کپڑے پہنے ہیں تم نے!!!وہ انتہائی غصے سے بولا تھا۔
ماہین اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہونے اسکی شکل دیکھنے لگی۔
تم ڈھنگ کے کپڑے نہیں پہن سکتی نمائش کرانے کا بہت شوق ہے۔
میرے کپڑے ٹھ۰۰۰۰
کان کھول کے سن لو آئندہ تم مجھے اس طرح کے بے حودہ کپڑوں میں نظر نہ آؤ جس میں تمہارا سراپہ نمایا ہو اپنے آپ کو مجھتک محدود رکھو یہی بہتر ہے کسی غیر کی نظر تمہارے جسم پہ نہیں جانی چاہیے سمجھی۔
اور اپنا موبائل دو۔وہ
اسکے سامنے ہاتھ بڑانے لگا۔
میرے پاس نہیں ماہین نے نظر پھیر لی۔
دو گی یا خود لے لو۔وہ دھمکی دینے لگا۔
ماہین نے جینز کی پاکٹ سے موبائل نکال کے دیا تھا اسنے ماہین کے نمبر سے اپنے نمبر پر بیل دے کر موبائل اسکو واپس کیا تھا۔
وہ اسکو ہاسٹل چھوڑ کے جا چکاتھا۔
ہاسٹل پہنچی تو وہاں نوشین پریشان تھی اسکو دیکھ کے ریلیکس ہوئی ماہین نوشین کو دیکھتے ہی رونے لگی تھی اسکی ہمت جواب دے رہی تھی اسکو کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
کیا ہوا اتنا کیوں رو رہی ہے ؟
نوشین ماہین سے پوچھنے لگی جو اسکے گلے لگے بس روئے جارہی تھی۔ںول یار کیا ہوا ہے ۔
ماہین پلیز چپ کر اور بتا کیا ہواکچھ کیا تو نہیں اس نے؟ناشین اسکا چہرہ ہاتھ میں لے کر پوچھنے لگی۔
ماہین نفی میں سر ہلانے لگی۔
ماہین نے اسکو پوری بات بتائی تھی اب تو نوشین بھی پریشان ہو چکی تھی۔
اسنے ماما پاپا کا نام لے کر دھمکی دی ہے میں کیا کروں اب؟
ماہین روتے ہوئے پوچھنے لگی۔
کچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہو جائے حا ٹینشن مت لو اور رونا بند کرو ۔
نوشین کسی طرح اسکو چپ کرایا تھا اور لٹا دیا تھا تاکہ اسکی ٹینشن توڑی کم ہو آرام مل سکے۔
وہ سونے کہ لیے لیٹ تو گئی تھی پر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ادھر اودھر کروٹیں بدلتی وہ اپنے الله کو یاد کر رہی تھی اسکے آگے گڑگڑا رہی تھی اور مدد کی بھیک مانگ رہی تھی کے اتنے میں اسکا فون بجا تھا۔
ہیلو ماما۔اسنے ماما کی کال دیکھ کر آنسو صاف کر کے فوراً کال اٹھائی تھی۔
بیٹا کیسی ہو آپ کب سے بات نہیں ہوئی آپ سے۔
میں ٹھیک ہوں ماما آپ کیسی ہیں اور پاپا کیسے ہیں؟
پاپا ٹھیک ہیں بیٹا۔
یہ بتاؤں کے کب ملنے آرہی ہو آپ کے سیمسٹر کب ہیں ؟
اگلے مہینے ہیں ماما۔
اچھا آپ دے کچھ بات کرنی ہے بیٹا۔
جی بولیں ماما۔
بیٹا آپ کے جو کاشف چاچو ہیں نہ انھوں نے اپکا رشتہ مانگا ہے محسن کے لیے آپ تو جانتی ہیں آپکو بچپن سے کتنا پیار کرتے ہیں ہمیشہ آپکو اپنی بیٹی سمجھا ہے انہوں نے آپ بھی محسن کو جانتی ہو کیسا نیک بچہ ہے اسلے آپکے پاپا نے ہاں کہہ دی ہے جب آپ آؤ گی تب آپکا نکاح کر دے گے رخستی آپکے اکزیمز کے بعد بیٹا آئی ہوپ ہمارے فیصلے پر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
ماما میں کل آرہی ہوں ۔وہ روتی ہوئی بولی تھی۔
کل پر آپ کے اکزیمز ہے نہ اک مہینے بعد اور رو کیوں رہی ہو کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے تو ماما کو بتاؤ۔
آپ لوگوں کی یاد آرہی ہی ماما۔وہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔
بس اتنی سی بات میرا بچہ آپ آجاؤ کل ہم سے ملنے پر رونا بند کرو۔
ماہین
فون بند کر کے اپنے کپڑے پیک کرنے لگی تھی۔وہ جلد سے جلد یہاں سے جانا چاہتی تھی۔
نوشین کو پوری بات بتانے کے بعد پھر سے پیکنگ میں مصروف ہو چکی تھی۔
تو کیا تو نکاح کر لے گی؟نوشین ماہین کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔
ہاں نکاح کر کے ہی آؤں گی اب۔
تجھے کیا لگتا ہے وہ اسطرح پیچھے ہٹ جائے گا۔
ہاں کوئی بھی انسان ایسی لڑکی سے کیوں شادی کرے گا جو کسی اور کے نکاح میں ہو۔
ہمم پر تو واپس تو آئے گی نہ۔نوشین ماہین کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
ہان نہ رو مت۔وہ اسکے گلے لگ چکی تھی۔
اسکے پاپا نے اسکی صبح کی فلائٹ کرائی تھی ماہین فلائٹ میں بیٹھ کر کرسچی روانہ ہو چکی تھی۔
ماہین کو کراچی آئے دو دن ہو چکے تھے اسکے موبائل پر بار بار ان نو نمبر سے کال آرہی تھی وہ اٹھا نہیں رہی تھی جانتی تھی یہ زبیر ہے۔
۔۰۰۰۰۰۔
زبیر دو دن سے اسکا نمبر ڈائل کر رہا تھا پر وہ نہیں اٹھا رہی تھی جانتا تھا وہ جان بوج کے ایسا کر رہی ہے وہ صبح اسکی یونی جا کر اسکا دماغ درست کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
۔۰۰۰۰۔
نوشین کلاس لے کر باہر آئی تھی اور رکشے کا ویٹ کر رہی تھی تبھی زبیر کی گاڑی اسکے سامنے آکر رکی تھی نوشین ڈر گئی تھی اتنے میں زبیر کار سے نکل کر اسکے سامنے آکر کھڑس ہو چکا تھا۔
ماہین کہاں ہے ۔
پتہ نہیں ۔نوشین منہ دوسری طرف کرتی ہوئی بولی۔
صاف صاف بتا دو ماہین کہاں ہے۔
میں نےکہاں ہے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
مجھے نہیں پتہ۔
اوکے لگتا ہے تم ایسے نہیں مانوگے اسلام آباد میں رہتی ہے نہ تمہاری فیملی ابھی اک اک کر کے سب کی موت کی خبر ملے گی۔
نو پلیز!!نوشین روتے ہوئے بولی تھی ۔
تو بتاؤ ماہین کہاں ہے۔
میں نہیں بتا سکتی۔
او کے ویٹ۔زبیر
کال ملانے لگاتھا۔
ہیلو ذین۔
ہاں بول۔
اک ایڈریس دی رہا ہو وہاں ملک بھائی کے لوگوں کو بھیج اور کام تمام کرا دے سب کا۔
کسکا ایڈریس لکھ نتھ۔
نو نو پلیز میں بتاتی ہوں ایسا مت کرناپلیز۔وہ اب پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی۔
ابھی ویٹ۔یہ کہتے زبیر نے فون بند کر دیا تھا۔
ہاں تو بتاؤں ماہین کہاں ہے۔
وہ کراچی گئی ہے آپنے ماں باپ کے پاس۔وہ آنسو پوچھتی ہوئی بولی تھی۔
مجھ سے بھاگ نہیں سکتی وہ چاہے کہیں بھی چکی جائے ۔
شاید اسکا نکاح ہو جائے اسکے کزن کے ساتھ۔
زبیر کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئی تھی یہ سن کےاسکی رگے تن گئی تھیں ۔
اسکو کسی اور کا تو میں نہیں ہونے دونگایہ وعدہ ہی میرا۔
ماہین یہ تم نے اچھا نہیں کیا اسکی سزا اب تم ضرور بگھتوں گی یہ زبیر بھی تم پر کوئی رحم نہیں کرے گا۔
یہ کہتا وہ کار میں بیٹھ کے جا چکا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...