لیکن آرزو تم کچھ اور کھ دیتی۔ایسا نا ھو کے تمھارے کھے گۓ الفاظ آگے جا کر ھمیں کسی
مصیبت میں ڈال دیں۔ حماد صاحب کو سمجھ نھیں آ رھا تھا کے وه اب کیا کریں۔
سب لوگ اس وقت لاؤنچ میں موجود تھے۔
آرزو بیگم نے آج ھوا سارا واقعه حرف با حرف ان سب کو بتا دیا تھا۔جسے سن کر فکر سب کے
چھروں پر واضح تھی۔ مجھے سمجھ نھیں آرھا تھا کے میں کیا کرو۔آپ کو پتا تو ایسے لوگ کتنے خطرناک ھوتے ھیں اگر میرے انکار کو وه لوگ انا کا مسله بنا کر میری بچیوں کو کوئی نقصان پهنچا دیتے تو میں جیتے جی ھی مر جاتی اسی لیۓ میں نے یھی بھانا بنایا اور آپ خود سوچیں ایک سال کا عرصه بھت لمبا ھوتا ھے وه کب تک اسکا انتظار کرے گا۔یه سب صرف وقتی لگاؤ ھے کچھ ھی عرصے میں وه سب بھول بھی جاۓ گا۔
آرزو بیگم نے آرام سے کھا۔ چلو جو ھونا تھا وه ھو گیا۔اب سب اس بات کو بھول جاؤ ۔آرزو کی بات صحیح ھے ایک سال کا وقت کافی ھوتا ھے ۔مجھے یقین ھے کے وه اب کبھی نھیں آۓ گا۔ حماد صاحب کھ کر چلے گۓ۔ باقی سب کو بھی تھوڑا حوصله ھوا۔ ********************¬********
ویسے کتنی حیرت کی بات ھے نا کے کسی چور کو مومنه آپی سے محبت ھوگئ۔آپی آپ کو کیا لگتا ھے وه ایک سال بعد واپس آۓ گا کیا۔
میرب نے پوچھا۔
خدا نا کرے کے وه واپس آۓ۔اور میرب تم ھر وقت فضول مت بولا کرو ۔ زویا نے میرب کو ڈانٹے ھوۓ کھا۔
وه تینوں اس وقت کمرے میں بیٹھی ھوئی تھیں۔
مومنه پریشان سی نظر آرھی تھی۔
آپی اگر وه واپس آ گیا تو کیا ھوگا۔
مومنه اپنے دل میں مچلتے ھوۓ سوال کو زبان پر لائی۔
مومنه ایسا کچھ بھی نھیں ھوگا۔تم خود سوچو کوئ کیوں کسی کے لیۓ اتنا کرے گا۔یه صرف اسکا وقتی لگاؤ ھے تھوڑے ٹائم بعد وه سب بھول بھی جاۓ گا۔
زویا نے سمجھایا۔
زویا کی بات سن کر مومنه تھوڑی پر سکون ھوئی۔
اچھا یه سب چھوڑیں تین دن بعد زویا آپی کی مھندی ھے میں تو اتنی ایکسائٹڈ ھوں کے بتا نھیں سکتی۔
میرب نے ماحول میں چھائ افسردگی کو ختم کرنے کے لیۓ کھا۔
مومنه بھی اپنے زھن میں آئ سوچوں کو جھٹک کر مھندی کی پلینگ کرنے لگ گئ۔ ****************************
ارے تم کھاں جا رھے ھو اور یه پیکنگ کس لیۓ کر رھے ھو۔
عادل جب کمرے میں آیا تو حمزه سوٹ کیس میں
اپنا سامان رکھ رھا تھا۔ میں یھاں سے جا رھا ھوں تاکے کچھ بن کر واپس آ سکوں۔
حمزه نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
لیکن حمزه تم یھاں ره کر بھی تو کچھ کر سکتے ھو۔
عادل نے اسے سمجھانا چاھا۔
عادل تمھیں یاد ھوگا کے آنٹی نے مجھ سے وعده لیا تھا کے میں اس ایک سال میں ان کے گھر کے سامنے سے بھی نھیں گزروں گا اور اگر میں یھاں رھا تو مجھے نھیں لگتا کے میں اپنے وعدے پر قائم ره پاؤ گا۔اور میں اپنی زندگی کی شروعات نئ جگه سے کرنا چاھتا ھو اور تم دیکھنا اس ایک سال میں مومنه کے لیۓ اتنی محنت کرو گا اور اپنی حلال کی کمائ سے اس کے لیۓ بھت کچھ بناؤ گا کے اس کے گھر والے خوشی خوشی اسکا ھاتھ میرے ھاتھ میں دے دیں گے۔
حمزه نے پر امید لھجے میں کھا۔
ویسے مجھے مومنه کی قسمت پر رشک آتا ھے کے اسے اتنا چاھنے والا ملا ھے ورنه آج کے دور میں کون کسی کے لیۓ اتنا کرتا ھے۔ عادل نے سچے دل سے کھا۔
ویسے حمزه تمھیں کیا لگتا ھے کے وه لوگ ایک سال تک اسے بٹھاۓ رکھیں گے۔
جو سوال عادل کو کافی وقت سے تنگ کر رھا تھا آخر وه اسنے آج پوچھ ھی لیا۔
عادل کی بات سن کر حمزه کی آنکھیں سرخ ھو گئ تھیں جسے عادل نے
باخوبی محسوس کیا۔ اگر انھوں نے مومنه کو مجھ سے جدا کرنے کی کوشش کی تو میں وه کرو گا جس کا انھوں نے تصور بھی نھیں کیا ھو گا۔
حمزه نے تیش میں کھا۔ اب کی بار عادل خاموش ھی رھا *********************** اچھا امی میں جا رھی ھو اور جلدی آنے کی کوشش کرو گی۔
مومنه نے چادر پهنتے ھوۓ کھا۔
بیٹا ویسے کیا ضرورت ھے جانے کی بعد میں چلی جانا۔
آرزو بیگم نے کھا ۔
امی آپ کو پتا ھے دو دن بعد زویا آپی کی مھندی ھے اور شادی وغیره کے چکرو میں کالج کھا جایا جاۓ گا اگر اسائمنٹ جمع کروانا ضروری نا ھوتا تو میں بالکل بھی نھیں جاتی۔
مومنه نے بیگ پهنتے ھوۓ کھا۔
اچھا چلو ٹھیک ھے دیھان سے جانا اور جلدی آنے کی کوشش کرنا۔
آرزو بیگم نے پیار سے کھا۔ *********************** وه جلدی جلدی چل رھی تھی۔ اس وقت گلی بالکل سنسان پڑی تھی جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئ۔ مومنه کو کچھ عجیب سا محسوس ھوا اسی لیۓ اسنے اپنے قدموں کی رفتار بھی تیز کر دی اور اس کے پیچھے بھی قدموں کی رفتار تیز ھوگئ۔ اچانک اسکے سامنے دو لڑکے آ کر رکے وه لوگ دکھنے میں ھی بدمعاش لگ رھے تھے ۔ مومنه نے ڈر کر دو قدم پیچھے کی جانب بڑھاۓ۔ ارے ڈر کیو رھی ھو جانم هم تمھیں کچھ بھی نھیں کھیں گے۔ ان میں سے ایک نے لوفرانه انداز میں کھا۔ مومنه فورا پیچھے کی طرف مڑی جب ان میں سے ایک نے ھاتھ بڑھا کر اسے روکنا چاھا۔ اس سے پھلے کے وه مومنه کا ھاتھ پکڑتا کسے نے اس لڑکے کا ھاتھ پکڑ کر بری طرح
موڑ دیا۔
ایک درد ناک چیخ اسکے حلق سے نکلی۔
***********************
حمزہ نے اس لڑکے کا هاتهہ بری طرح موڑ دیا جس نے مومنہ کا هاتهہ پکڑنے کی غلطی کی تهی۔
وہ لڑکا درد سے بلبلا کر پیچهے هٹا۔
دوسرے لڑکے نے جیب سے چاقو نکالا اور حمزہ کی طرف حملہ کرنے کے لیئے بڑها۔
حمزہ نے ایک مکہ اسکے پیٹ میں مارا اس لڑکے نے چاقو حمزہ کے بازو میں گهونپ دیا۔
یہ دیکهہ کر مومنہ کے منہ سے چیخ نکلی۔
وہ ڈر کر تهوڑا دور کهڑی یہ سارا منظر دیکهہ رهی تهی۔
خون بهت تیزی سے حمزہ کے بازو سے بہ رها تها لیکن وہ اس کی پرواہ کیئے بغیر اس لڑکے کو مار رها تها۔
جب وہ لڑکے دڑ کر بهاگ گئے تو حمزہ مومنہ کی طرف آیا جو بهت خوفزدہ لگ رهی تهی۔
تم ٹهیک تو هو۔
حمزہ نے فکر مندی سے پوچها۔
آپ کے بازو سے خون نکل رها هے۔
مومنہ نے اس کی بات کا جواب دیئے بغیر کہا۔
مومنہ کی بات سن کر مسکان نے حمزہ کے لبوں کو چهوا۔
اس کو اچها لگا تها مومنہ کی فکر کرنا۔
تم کها جا رهی تهی اس وقت۔
حمزہ کے چہرے پر سنجیدگی تهی۔
وہ میں کالج جا رهی تهی۔
مومنہ نے جواب دیا۔
چلو میں تمهیں کالج چهوڑ دو۔
حمزہ نے بائیک پر بیٹهتے هوئے کہا۔
میں کیو جائوں گی آپ کے ساتهہ کالج۔بهت شکریہ آپ کا مجهے ان لوگوں سے بچانے کے لیئے اب ذیاده فری هونے کی ضرورت نہیں هے۔
حمزہ کی بات سن کر مومنہ نے غصے سے کہا۔
حمزہ کو مومنہ کے اس انداز پر هنسی آ گئ جسے وہ بر وقت چهپا گیا۔
چلو ٹهیک هے تم اکیلے چلی جائو لیکن دیهان سے جانا آخر تم میری امنت هو۔
حمزہ کی بات پر مومنہ نے اسے ایسے دیکها جیسے اسے اسکی زهنی حالت پر شبہ هو۔
حمزہ مومنہ کی نظروں کا مفہوم سمجه گیا تها۔
تمهاری امی نے یقینن تمهیں میرے بارے میں بتا دیا هو گا۔ میں وهی هو جس سے ایک سال بعد تمهاری شادی هے۔
یہ سن کر مومنہ کو حیرت کا شدید جهٹکا لگا۔
مجهے پتا هے تمهیں بهت حیرت هو رهی هو گی لیکن میرا یقین کرو میں تمهیں بهت خوش رکهوں گا۔آج میں یهاں سے جا رها هو مومنہ وہ بهی صرف تمهارے لیئے تاکہ میں تمهیں عزت سے رخصت کرکے لے جا سکو۔ میرے آنے تک تم میرا انتظار کرو گی نا مومنہ۔
مومنہ چپ رهی ۔اسے سمجهہ نهیں آرها تها کے وہ کیا کهے۔
مجهے پتا هے کے تم میرا انتظار کرو گی ورنہ پهر یاد رکهنا جو میں کرو گا اسکی زمہدار تم خود هو گی۔ حمزہ کی آنکهوں میں تنبیہ تهی۔
اپنا خیال رکهنا ۔میں واپس آئو گا صرف تمهارے لیئے۔
حمزه بائیک پر بیٹھ کر وھاں چلا گیا ۔
مومنه سست قدوموں سے چلنے لگی۔
پورے راستے وه حمزه کے بارے میں سوچ رھی تھی لیکن وه اس بات سے بے خبر ھر گز نھیں تھی کے کالج کے دروازے پر پھنچنے تک وه اس کے پیچھے ھی تھا۔
***********************
آج زویا کی مایوں تھی۔
هر طرف افراتفریح مچی ھوئ تھی۔
کسی کا میک رھتا تھا تو کسی کی جیولری نھیں مل رھی تھی۔
مومنه بالکل تیار غضب دھا رھی تھی۔
اس نے حمزه والی بات کسی کو نھیں بتائ تھی اور خود بھی بھولنے کی کوشش کر رھی تھی۔
اورنج رنگ کا گھیر دار فراک ساتھ شاکنگ پنک کلر کا چوڑی دار پاجامه اور اسی رنگ کا ڈوپته لیۓ وه لائٹ سے میک اپ میں بھت حسین لگ رھی تھی۔
مومنه ۔۔۔
جی امی ۔
آرزو بیگم کی آواز پر مومنه جلدی سے ان کے پاس پنھچی۔
ماشاءالله میری بچی تو بھت پیاری لگ رھی ھے۔
اچھا بیٹا ایک کام کرو یه تھال زرا گاڑی میں رکھوا دو۔
آرزو بیگم نے تھال مومنه کو پکڑاتے ھوۓ کھا۔
جی امی۔۔
مومنه تھال لے کر اپنی ھی دھن میں گاڑی کی طرف جا رھی تھی جب وه کسی سے بری طرح تکڑا گئ۔
مومنه نے جب سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ارمان (زویا کا دیور)اسے ھی مبھوت سا دیکھ رھا تھا۔
ایک تو ارمان بھائ آپ ھمشه اندھوں کی طرح ھی کیو چلتے ھیں۔
پھلی بات تو میں تمھیں دس دفع بتا چکا ھوں کے میں تمھارا بھائ نھیں ھو کیوں کے میں تم سے صرف 3 سال بڑا ھو تو جب تم مجھے بھائ بولتی ھو تو مجھے بڈھوں والی فیلنگ آتی ھے اور دوسرا الله کے کرم سے میرے پاس بھنیں موجود ھیں اور تیسری بات اندھوں کی طرح میں نھیں تم چل رھی تھی۔
ارمان نے ناک سے مکھی اڑائ۔
ایک تو آپ اتنا بولتے ھیں کے بس۔
مومنه نے باقائده اپنے کان پکڑے۔
اچھا اب آپ یھاں فارغ کھڑیں ھیں تو یه زرا گاڑی میں رکھوا دیں۔
مومنه نے ھاتھ میں پکڑا تھال ارمان کو پکڑایا اور وھاں سے بھاگ گئ۔
پاگل ۔۔
ارمان کی مسکراتی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔
***********************
فنکشن اپنے عروج پر تھا
زویا پر بھی آج خوب نکھار آیا تھا ۔میرب بھی بھت پیاری لگ رھی تھی۔
مومنه کو بار بار اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس ھو رھی تھیں۔
وه جب بھی نظر اٹھا کر دیکھتی تو ارمان اسے ھی مسکرا کر دیکھ رھا ھوتا تھا۔
جسے وه نظر انداز کر دیتی۔
***********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...