ذوق و شوق اقبال کی نظموں میں ایک منفرد نوعیت کی تٰخلیق ہے، اس لیے کہ ایک بالکل ذاتی قسم کی نظم ہے اور اس کا انداز نظر خالص تغزل کا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بہتیرے قارئین اس نمونہ فن کے احساسات میں اس طرح شریک ہو جاتے ہیں گویا اس کی کیفیات ان کی اپنی ہوں۔ غور کرنے سے اس صورت حال کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اقبال کی انا نہایت اجتماعی ہے، یا انہوں نے اپنی انا کو فن میں اس انداز سے متشکل کیا ہے کہ ان کے قارئین اس تشکیل میں اپنی ترفع یافتہ انا کا عکس دیکھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ شاعر کا ذوق و شوق۔۔۔۔ اور آرزوئیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ مزید غور کرنے پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے اسرار خودی میں جو رموز بیخودی سموئے ہوئے ہیں وہ سب کے لیے ایک عام کشش رکھتے ہیں، یعنی یہ شاعر کے ملی نیز انسانی نقطہ نظر کا آفاقی پس منظر ہے جو دوسرے افراد کو بھی شاعر کے انفرادی جذبات و خیالات میں شریک کر لیتا ہے، لہٰذا جب شاعر اپنی تمناؤں اور ولولوں، محرومیوں اور تنہائیوں، جستجوؤں اور بیتابیوں کا ذکر کرتا ہے تو وہ گویا اپنے تمام قارئین کے دلوں کی گہرائیوں میں خوابیدہ انہی کیفیات کو بیدارکرتا ہے۔
ترکیب بند میں لکھی ہوئی پانچ بندوں کی یہ نظم تیس اشعار پر مشتمل ہے اور ہر بند میں چھ اشعار ہیں جن میں ہر چھٹا شعر ٹیپ کا ہے جو متعلقہ بند کے مفہوم کا عروج اور آئندہ بند کے مفہوم کا پیش خیمہ ہے، جبکہ ہر بند کے اشعار اول تا آخر ایک سلسلہ خیال میں بندھے ہوئے ہیں اور پوری نظم جس کیفیت سے شروع ہوئی تھی اسی کی تفصیل و تشریح کر کے اسی کیفیت کے شدید وسیع اور عمیق و رفیع احساس پر ختم ہو جاتی ہے۔ نظم کے ہر بند میں شاعر کے قلب کی گہرائیوں سے ایک زمزمہ اٹھتا ہے اور حسین و معنی آفریں پیکروں میں منقش ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پانچ بندوں کے پانچ زمزمے مل کر ایک بسیط نغمے کی ترکیب کرتے ہیں نظم کی ابتدا سے انتہا تک یہ نغمہ آہستہ آہستہ پھیلتا اور حجم میں بڑھتا جاتا ہے اس کا آغاز فطرت سے ہوتا ہے اور انجام محبت پر، جبکہ دونوں کے درمیان قدر مشترک ایک احساس فراق، اس کی بے تابی اور تابداری ہے۔ یہ بے تابی و تابداری تلاش حق اور عرفان حق دونوں کا باعث ہے۔ فطرت اور محبت دونوں کے نغمات کے اندر معرفت روح نغمہ بن کر کام کرتی ہے اور در و فراق کو نہ صرف گوارا ملکہ خوشگوار بناتی ہے ’’ ذوق و شوق‘‘ ایک غنائیہ کی طرح لطیف و نفیس رقصاں و تپاں، پر کیف اور وجد آور ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بال جبریل کا تغزل مقطر ہو کر اس نظم میں مجسم ہو گیا ہے اقبال کی اہم ترین نظموں کی چند بہترین صدائے بھی اس نظم میں گونجتی محسوس ہوتی ہیں۔
پہلا بند فطرت کی بہترین شاعری کا ایک باب ہماری نگاہوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے:
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود
دل کے لیے ہزار سود، اک نگاہ کا زیاں
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ! صنم کو دے گیا رنگ برنگ طیلیاں
گرد مے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
دشت میں صبح کا سماں ہے چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ہیں، یہ شاعر کے لیے قلب و نظر کی زندگی ہے اس لیے کہ وہ خیاباں کی جلوت کی بجائے بیاباں کی خلوت پسند کرتا ہے، عالم تنہائی میں دشت کی پہنائی کتنی ہی خوفناک ہو، اس کی مہم جو طبیعت کو پسند کرتا ہے، اس کی روح صحن چمن کی محدود فضا کی بجائے صحرا کی وسعتیں طلب کرتی ہے، پھر:
حسن بے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لیے
ہوں اگر شہر سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
(غزل۔ بال جبریل)
چناں چہ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھ کر شاعر محسوس کرتا ہے کہ پردہ وجود چاک ہو گیا ہے اور حسن ازل بے پردہ ہو کر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے۔ لہٰذا ایک نگاہ کا زیاں، دل کے لیے ہزار گونہ سود مند ہے۔ یہ احساس جن دل فروز فروز مناظر سے ابھرتا ہے ان میں چند صحرا کی مناسبت سے یہ ہیں۔ سحاب شب کے رخصت ہو جانے کے بعد آسمان پر سرخ و کبود بدلیاں منڈلا رہی ہیں اور کوہ اضم رنگ برنگ چادروں میں لپٹا ہوا نظر آ رہا ہے جو ان رنگیں بدلیوں نے ان کی چوٹیوں پر بنی ہیں، ہوا بالکل صاف، ہر قسم کے گرد و غبار سے پاک ہے اور برگ نخیل شبنم صحرا کے بڑے بڑے قطروں سے دھل کر تازہ و شاداب شاخوں پر کھڑے ہیں، نواح کاظمہ کی ریگ شبنم کی تری سے ریشم کی طرح نرم ہو گئی ہے۔ یہ تین تصویریں فضا کے تین عناصر کی ہیں، ایک آسماں کا افق ہے، جس پر پہاڑ کی چوٹیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں، دوسرے نخلستان ہے جس کے سبز و شفاف پتے صبح کی ہوا میں چمک رہے ہیں، تیسرے زمین کی ریگستانی سطح ہے جو شبنم سحر سے ملائم ہو چکی ہے۔ یہ بڑی ٹھوس واقعاتی تصویریں ہیں اور دشت میں صبح کے سماں کی جیتی جاگتی، زندہ و تابندہ پیکر تراشی کرتی ہیں۔ یہاں یاد کر لینا چاہیے کہ سر نظم شاعر کی وضاحت کے مطابق (’’ ان شاعر میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘ ) یہ نظم اکثر اشعار کے متعلق ہے، لہٰذا زیر نظر بند جو ابتدائے نظم ہے، ضرور ہی فلسطین میں رقم کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس دشت میں منظر صبح کی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے وہ دشت عرب ہے۔ اس تصویر میں فلسطین کے ذکر کے باوجود ’’ کوہ اضم‘‘ اور’’ نواح کاظمہ‘‘ کے متعلق کسی جغرافیائی الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ فلسطین بھی عرب ہی کا ایک حصہ ہے۔ لہٰذا شام سے حجاز تک اور فلسطین سے مکہ و مدینہ تک ایک ہی زمین و آسمان اور اس کی جغرافیائی تاریخ ہے۔ وہی دشت و کوہ وہی ریگ زار و تخیل، وہی سحاب و ہوا ہر جگہ ہے خواہ وہ شام کا دریا ہو یا نواح حجاز، اس لیے اگر دشت عرب کی منظر نگاری فلسطین میں بیٹھ کر کی جائے اور مکہ و مدینہ کے کوہستان و ریگستان کے نام لیے جائیں تو موضوع و مقصود کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ مکہ و مدینہ کی مرکزیت کے سبب فلسطین میں ان کے آثار و مظاہر کی یاد اس ذوق و شوق کے مطابق ہے جس کا اظہار نظم میں ہوا ہے۔ اس پورے منظر میں اصل چیز حسن ازل کی نمود ہے جس کے لیے دشت و کوہ و ریگ زار تخیل کو صرف پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور تھوڑے غور سے واضح ہو سکتا ہے کہ حسن ازل سے مراد مظاہر فطرت نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ جلوۂ حقیقت ہے جو کبھی وادی سینا میں نمایاں ہوا، کبھی وادی فاراں میں، اور اس کا مکمل ظہور آخر الذکر ہی میں ہوا جس کے حقیقی مناظر کوہ اضیم اور نواح کاظمہ ہیں۔ اس طرح دشت عرب میں طلوع سحر طلوع اسلام بھی ہے۔ قلب و نظر کی زندگی اقبال کے لیے صرف منظر و مظہر میں نہیں، اس کے اندر مضمر جلوۂ حق میں ہے جو جلوۂ حسن ازل ہے اور اقبال کا مرکز حسن و حق نواح کاظمہ اور دیار اضم ہی میں واقع ہوا ہے۔
دشت میں قلب و نظر کی فطری زندگی کی تصویر کی تکمیل نواح کاظمہ کے ریگ زار میں انسانی قافلوں کے سفر سے ہوتی ہے، ریگستان میں جہاں تہاں قافلوں کے قیام و رحلت کے نشاں پائے جاتے ہیں، کہیں آگ بجھی ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کارواں نے تھوڑی دیر کے لیے قیام کیا تھا اور کہیں خیمے کی رسی کا کچھ حصہ ٹوٹا پڑا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چندے دم لینے کے بعد کارواں راہ کے اگلے مرحلے کی طرف کوچ کر چکا ہے یہ صورت کسی ایک کارواں کی نہیں، بے شمار کارواں اسی طرح اس مقام سے جس کی تصویر کھینچی گئی گزرتے رہے ہیں۔ کارواں کے قیام و رحلت کا یہ مرقع بڑا حقیقی، بڑا حسین، بڑا خیال انگیز ہے لیکن یہ محض قافلے کی تصویر کشی نہیں ہے، یہ کاروان حیات کا نقشہ ہے اور جس مقام پر کارواں کا پڑاؤ بتایا گیا ہے وہ دنیا کی سرائے فانی ہے جہاں عارضی طور پر بالکل مسافروں کی طرح مختلف نسلوں کے بے شمار قافلے آتے اور جاتے رہتے ہیں۔
اس تشریح و تجزیہ سے اقبال کی فطرت نگاری کی تہیں معلوم ہوتی ہیں، وہ بڑے لطیف استعاراتی انداز سے مناظر و مظاہر کی حسین سے حسین تصویر کشی کو ایک بلند تر مقصد کی طرف موڑ دیتے ہیں جس سے تصویر کا حسن بھی دوبالا ہو جاتا ہے اور مقصد فن بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ صحیح معنے میں بے جان تصویر میں جان ڈالنا، جسم میں روح پھونکنا، فطرت میں انسانیت پیدا کرنا اور استعارہ و ایما کے ذریعے الفاظ کے معانی میں فنی توسیع کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی قوت تخیل اور قدرت بیان بے مثال ہیں۔ چنانچہ فطرت کی منظر نگاری کے آخر میں ٹیپ کا شعر پورے بند کے مفہوم میں ایک بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ جب دشت میں طلوع سے حسن ازل کی نمود اپنے عروج پر تھی اور قلب و نظر کی زندگی کا سامان ہو رہا تھا صدائے جبرئیل مذائے غیب بن کر آئی او راس نے حسن منظر میں محو شاعر کو پیام دیا کہ اس کا مقام یہی دشت حیات ہے جو کسی منزل کی گزر گاہ ہے اور اس میں وقفہ قیام کے باوجود سفر ہی سفر ہے۔ یہ گردش مدام ہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہ دونوں ترکیبیں بے حد معنی خیز اور خیال آفریں ہیں اور موضوع نظم کا احاطہ کرتی ہیں، اہل فراق وہ سبھی ہستیاں ہیں جو اپنی منزل سے جدا ہیں مگر مطلوب و محبوب منزل کی طرف کی طرف مسلسل گامزن ہیں اورتاحیات رہیں گی۔ اسی تگ و دو میں ان کے لیے راحت و مسرت ہے۔ گویا فراق میں سعی وصال، عیش دوام ہے۔ یہاں صدائے جبرئیل، حسن ازل کی وحی ہے اور سینا و فاراں کا دشت معرفت شاعر کا حقیقی مقام ہے وہ اپنے محبوب سے بچھڑاہوا اور اس کا متلاشی، اہل فراق ہے، چنانچہ جدائی و جستجو ہی اس کے لیے عیش دولم ہے۔
دوسرا بند ایک بسیط کیفیت فراق کا بیان ہے جس میں عصر حاضر کی حق پرستی سے دوری اور عشق مقصود سے محرومی کا درد ناک اور درد مندانہ ذکر ہے:
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات
کیا نہیں اور غزنوی کار کہ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات
ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات
قافلہ حجاز میں ایک حسیںؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شروع و دیں بت کدہ تصورات
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
فراق زدہ شاعر اپنے ماحول میں ایک اجنبی ہے، خدا سے جدا، خلق میں بھی بیگانہ:
کوئی بتاقئے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور
سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ
(غزل۔ بال جبریل)
اس لیے کہ شاعر ایک منفرد ذہن رکھتا ہے اور اپنے ماحول سے مطمئن نہیں، وہ پوری بزم کائنات ہی کو اپنے تازہ واردات کے پیش نظر کہنہ و فرسودہ پاتا ہے، لہٰذا زندگی اس کے لیے زہر ہے اور مئے حیات، تلخ وہ ایک ہی محبوب۔۔۔۔۔ حسن ازل۔۔۔ کا پرستار ہے اور اس کے سوا کسی کو کارگہ حیات میں کارفر دیکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن عصر حاضر میں حقیقت سے دوری اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر طرف مجاز ہی مجاز کی پرستش ہو رہی ہے، یہاں تک کہ حرم میں بھی ’’ سومنات‘‘ کا منظر نظر آ رہا ہے۔ تاریخ کے ایک مرحلے پر دور قدیم میں ایک غزنوی اس وقت کے سومنات کی بت شکنی کے لیے نمودار ہواتھا، جبکہ دیر میں بت پرستی کا دور دورہ تھا، مگر دور جدید میں تو حرم بھی بت خانہ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ بتان عصر حاضر، بھی کسی غزنوی کے منتظر ہیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کیا عرب، کیا عجم، کیا ذکر، کیا فکر نہ کہیں سوز ہے، نہ کہیں ساز، خواہ وہ مشاہدات ہوں یا تخیلات، سب جذبہ حق اور جلوۂ حسن سے خالی او رمحروم ہیں۔ حجاز کا کاروان توحید تو موجود ہے اور دجلہ و فرات کی لہریں ایک بدپھر ید ان وقت سے لڑ کر اپنا خون بہانے والے شہیدوں کی راہ دیکھ رہی ہیں، لیکن پورے کارواں میں حسینؓ جیسا سرفروش امام جہاد موجود نہیں۔ لہٰذا جماعت بے قیادت اور جرأت ایمانی سے خالی ہے۔ یہ کم ہمتی اور پست حوصلگی اس لیے ہے کہ دلوں میں عشق کی گرمی ایمان کی حرارت باقی نہیں رہی، نہ دین کی غیرت ہے، نہ ملت کی حمیت، نہ خدا و رسولؐ کی محبت، نہ خلق خدا سے الفت۔ عقل و دل و نگاہ، سب بے سمت ہیں، بے کار ہیں، اس لیے کہ سب کا مرشد اولیں، تو عشق ہے اور وہ موجود نہیں۔ چنانچہ یہ اس کا فقدان ہی ہے جس نے شرع و دیں تک کو بت کدہ تصورات بنا کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال، یہ صداقت اپنی جگہ ہے کہ خواہ آتش کدہ نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا معرکہ ہو یا میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کا معرکہ ہو یا بدر و حنین میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معرکہ ہو۔۔۔۔ سب کی روح، سب کی قوت محرکہ، سب کا جذبہ عشق اور صرف عشق تھا، حسن ازل کا عشق، محبوب حقیقی کا عشق، اس کے پیام توحید کا عشق، اس کے نظام اسلام کا عشق۔
تیسرا بند عشق کی دولت گم گشتہ کی جستجو پر مشتمل ہے:
آیہ کائنات کا معنی دیر باب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
جلوتیان مدرسہ کو رنگاہ و مردو ذوق
خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
باد صبا کی موج سے نشوونمائے خار و خس
میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو
خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو
فرصت کش مکش مدہ ایں دل بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را
خطاب براہ راست حسن ازل، محبوب حقیقی سے ہے جو کائنات میں وجود باری تعالیٰ کی چاروں طرف پھیلی ہوئی آیات کا معنی و مطلب ہے۔ مگر بآسانی سمجھ میں نہیں آتا، مظاہر کی دل فریبی پردہ بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ کائنات و حیات کے بے شمار قافلہ ہائے رنگ و بو حسن کے عشق میں سرشار ہو کر اس کی تلاش میں نکلے اور آج حالت یہ ہے کہ اکیا علم و عقل کے مدعی مدرسے اور کیا عشق و عرفان کے دعویدار مے کدے، کیا جلوتی اور خلوتی، سب کے سب تلاش حق میں ناکام اور مرکز حسن سے دور ہیں، کوئی کور نگاہ و مردہ ذوق ہے کوئی کم طلب و تہی کدو، محبوب کا رنگ و بو نہ تو جدید درس گاہوں میں ہے، نہ قدیم خانقاہوں میں، نہ مغرب کے عقل پرست اداروں میں، نہ مشرق کے مدعی عشق اداروں میں ایسے ماحول میں شاعر دیکھتا ہے کہ صرف اس کی غزل میں آتش رفتہ کا سراغ پوشیدہ ہے، اس کا فن عشق کی متاع گمشدہ کا طالب ہے اور اس کے عمل کی تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو ہے، وہ عشق کی بجھی آگ کو پھر سلگانا چاہتا ہے تاکہ دلوں میں محبت کا اجالا پھیلے، نگاہوں میں روشنی آئے، دلوں میں ذوق و شوق زندہ ہو، مینائے غزل اور کدوئے زندگی مے محبت سے بھر جائیں اور حسن ازل کے دیوانے مے کدہ عشق کے رندان بلا نوش بڑھ بڑھ کے جام پر جام طلب کریں اور سرشار ہوں شاعر کی غزل ایک ایسے نفس کی موج ہے جس سے نشوونمائے آرزو ہے، جبکہ باد صبا کی موج سے محض نشوونمائے خار و خس ہے۔ اس طرح فطرت کے حسن سے زیادہ موثر و مفید ہے شاعر کا عشق اور اس سے پیدا ہونے والا جمال فن۔ ایسا بلا وجہ نہیں، شاعر کی نوا کی پرورش، خون دل و جگر سے ہوتی ہے اور اس کے ساز شاعری میں صاحب ساز کا لہو، ہی نغمہ آفریں ہے۔ بدلی ہوئی شکل میں یہ وہی خون حسین ؑ ہے جس کی طلب کربلائے وقت کے دیار میں بہنے والے دجہ و فرات کو ہے اور یہ ساز بھی وہی فکر عجم کا سایہ ہے جس میں عجمی تخیلات کے ساتھ ساتھ ذکر عرب کا سوز اور عربی مشاہدات بھی موجود ہیں۔ لیکن خود شاعر اپنی مینائے غزل میں ذرا سے بچے ہوئے بادہ مشانہ کو پورے مے کدہ وقت کے لیے کافی نہیں سمجھتا اور تمنا کرتا ہے کہ بادۂ عشق اس کے دل و جگر کو زیادہ سے زیادہ پر کر دے۔ لہٰذا وہ حسن ازل سے التجا کرت اہے کہ وہ اپنے گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرے اور دل ’’ بے قرار‘‘ کو’’ فرصت کش مکش‘‘ نہ دے، اسے عشق کے لیے یک سو کر دے، ہوش و خرد اور قلب و نظر کو حسن ازل کے جمال جہاں سوز پر مرکوز کر دے:
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
(غزل۔ بال جبریل)
گیسوئے دجلہ و فرات کی تابداری کی طرف واضح اشارہ ٹیپ کے مصرع ثانی ایک اور شکن زیادہ کن گیسوئے تاب دار را میں مضمر ہے۔
یہ دونوں ہی بند استعارہ و علامت کے نگار خانے ہیں اور ان کی تصویروں کے اشارات سوال و جواب کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
بند2میں مے حیات، بزم کائنات، غزنوی، سومنات، ذکر عرب، فکر عجم، سوز، ساز، قافلہ حجاز، حسینؓ، گیسوئے دجلہ و فرات، بت کدہ تصورات، صدق خلیلؑ، صبر حسینؓ بد ر و حنین۔۔۔ استعارات و علامات و تلمیحات کی ایک دنیا آباد کرنے والے پیکر ہیں۔ یہ پیکر ٹیپ سے قبل کے پانچ اشعار میں نفی تصورات کے ذریعے ایک استفہام کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
بند3میں سابق بند کی ٹیپ کے اثبات کی تفصیل و تشریح کے ذریعے استفہام کا جواب دیا جاتا ہے اور پھر حسین و جمیل پیکروں کا ایک آئینہ خانہ سجایا جاتا ہے۔ ’’ آیہ کائنات‘‘ معنی دیر یاب قافلہ ہائے رنگ و بو، جلوتیان مدرسہ، خلوتیان مے کدہ، غزل آتش رفتہ، باد صبا کی موج، خون دل و جگر، نشوونمائے آرزو، رگ ساز، صاحب ساز کا لہو، گیسوئے تابدار۔
ان فنی پیکروں کی خیال آفرینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف تین تصویروں پر غور کرنا کافی ہو گا جو بہ ظاہر سامنے کی ہیں مگر سیاق و سباق اور طریق استعمال نے انہیں بہت ہی دقیق و لطیف اور دبیز و نفیس بنا دیا ہے۔ قافلہ حجاز میں حسینؓ کے فقدان کے ساتھ عراق کے دو دریاؤں دجلہ و فرات کی خوں طلبی کا اشارہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے صرف ایک گیسو کو، تاب دار، کہہ کر عشق و فرض کی عظیم ترین قربانی کی یاد تازہ کر دی گئی ہے۔ قافلہ حجاز کا دریائے عراق پر لٹنا اور کٹنا اور اسکی موجوں کو اپنے خون سے سرخ کرنا پیام عشق کی سیلابی و طوفانی حرکیت کا ایک زبردست نقش ہے، حجاز سے چل کا عراق آنا اور راہ عشق میں قدم بڑھاتے ہوئے مر جانا، وطن کے عیش و آرام کو چھوڑ کر حق پر قربان ہونے کے لیے اجنبی وادیوں کا سفر کرنا یقینا حسن ازل کے گیسوئے تابدار کی ہوش ربا کشش ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ شمع پر پروانے کا نثار ونا اور اس کے شعلوں کو اور سے اور فروزاں کرنا ہے نور حق پر نچھاور ہو کر اس کی لو کو بڑھانا ہے لیکن دور حاضر عشق کی اس کشش، محبت کے اس ایثار اور راہ حق میں جذبہ جہاد سے خالی ہو چکا ہے، اسی لیے دلوں کی کھیتیاں اجڑی ہوئی ہیں، گلستان حیات سے بہاریں روٹھ چکی ہیں، شمع زندگی کی لو بجھتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا ہمارے سامنے شاعر کی غزل کی تصویر آتی ہے اور اس ایک پیکر سے یکایک عشق و محبت، حسن و جمال، عاشق و معشوق، شمع و پروانہ ، سوز و ساز اور ایثار و قربانی کے سارے افسانے تازہ ہو جاتے ہیں۔ غزل محبوب سے راز و نیاز ہے محبوب کے حسن و جمال کی داستان ہے، عاشق کے جذبہ فدائیت کا نغمہ ہے۔ اس سے حسن ازل کے گیسوؤں میں اور سے اور تاب داری پیدا ہوتی ہے اور عاشق ازل کے دل میں اس پر قربان ہونے کا ولولہ اور سے اور بڑھتا ہے۔ شاعر کی غزل کا محبوب یہی حسن ازل ہے اور اسی کی محبت میں اس نے اپنا دل خون کر لیا ہے۔ چنانچہ اس کے ساز سے جو نغمہ رواں ہے اس کی پرورش اس کے خون جگر سے ہوتی ہے۔ یہ خون دل و جگر حسن ازل کے ایک اور عاشق کے خون کی یاد دلاتا ہے جو کبھی معرکہ کرب و بلا میں دجلہ و فرات کے کنارے بہا تھا اور ہر دور میں حسن ازل کے عشاق اپنا خون دل و جگر اسی طرح بہا کر گلشن وجود کی آبیاری اور چمن حیات کی شادابی کا سامان کرتے رہے ہیں، کبھی آتش کدہ نمرود میں اور کبھی میدان بدر و حنین میں۔ ایک لفظ غزل کے یہ مضمرات اس لیے ہیں کہ اس سے قبل ایک تصویر قافلہ ہائے رنگ و بو کی متعلقہ بند کے شروع ہی میں آ چکی ہے۔ پوری کائنات ہستی ایک آیت ہے اور اس کا معنی وہی حسن ازل ہے، لیکن اس معنی کا دریافت کرنا آسان نہیں، اس کے حصول کے لیے آگ اور خون کے دریاؤں سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور عشاق قافلہ در قافلہ ریگ زار عالم میں اپنا خون بہاتے اور خون کے کتنے ہی دریا جاری کرتے ہوئے صدیوں سے گزرتے رہے ہیں۔ یہ ساری قربانیاں انہوں نے آیہ کائنات کے معنی کی تلاش میں دی ہیں۔ ان کا خون نذرانہ محبت ہے، ان کا قافلہ محبت اور محبوب کے رنگ و بو کا قافلہ ہے، شہادت حق کی تزئین وجود ہے:
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کی تھی نعرہ لاتذر میں
(طارق کی دعا۔ بال جبریل)
چوتھا بند خالص حمد کا بند ہے، حسن ازل کے حضور قلب عاشق سے پر شوق نغمہ داؤد بے اختیار ابھرتا ہے:
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدؓ و با یزیدؓ تیرا جمال بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے
ایک ایک لفظ چنا ہو ااو راپنی جگہ نگینے کی مانند جڑا ہوا ہے۔ یہ غزل الغزلات ہے۔ اس میں آفاق کی پہنائی بھی ہے، انفس کی گہرائی بھی، نکتہ بھی، جذبہ بھی، نغمہ بھی، ایک والہانہ پن، ایک سرمستی، ایک رعنائی، سوز و سرود، لوح و قلم، ذرہ آفتاب، جلال و جمال، عشق و عقل، غیاب و حضور، جستجو و اضطراب، سبھی کیفیات عشق کے نقوش یکجا اور یک جہت ہیں، حسن ازل کی شان دیکھیے کہ آسمان کا پور ا’’ گنبد آبگینہ رنگ‘‘ اس کے ’’ محیط‘‘ میں فقط ایک ’’ حباب‘‘ ہے پھر یہ شان بھی دیکھیے کہ تین حصہ آب اور ایک حصہ خاک کی دنای میں حسن ازل کا ایک جلوہ ’’ ذرہ ریگ‘‘ کو شعاع آفتاب کی طرح چمکا کر سارے عالم کو روشن کر دیتا ہے۔ اس شان میں جلال اتنا کہ ’’ شوکت سنجر و سلیم‘‘ اس کا ادنیٰ نمونہ اور جمال ایسا کہ فقر جنید و با پزید میں بے پردہ اسی شان جلال و جمال کے حامل حسن ازل کا ’’ شوق‘‘ شاعر کو مطلوب ہے، جس کے بغیر اس کی نماز بے معنی و بے اثر ہے۔ نہ قیام میں دیدار محبوب نہ سجود میں مشاہدہ حق لیکن اگر کسی کو یہ شوق اور ذوق نصیب ہو جائے تو پھر عقل و عشق دونوں ہی شاد کام ہیں، اس لیے کہ نگاہ ناز دونوں کو آشنائے راز کر رہی ہے، گرچہ ہر ایک کی کیفیت دوسرے سے مختلف ہے، عقل غیاب میں ہے اور عشق حضور میں، بہرحال غیاب، اگر جستجو پر مائل کرتاہے تو حضور اضطراب میں مبتلا کرتا ہے اور دونوں ہی کیفیات ’’ ذوق و شوق‘‘ کی ہیں۔ اس طرح مختلف ہوتے ہوئے بھی حسن ازل کی ایک نگاہ التفات عقل و عشق دونوں کو بے قرار کر دیتی ہے، جو اصل کامیابی ہے اور اس میں دونوں طریقہ ہائے تلاش ہم آہنگ ہیں۔ دونوں کا ایک مقصد ہے۔۔۔۔ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تلاش کرنا یہ تلاش عقل کے علوم ظاہری اور مشاہدہ خارجی سے بھی ہو سکتی ہے اور عشق کے علوم باطنی اور مطالعہ داخلی سے بھی، شرط یہ ہے کہ دونوں کا مقصود حسن ازل کی نمود ہو اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو حسن کی نگاہ ناز، دونوں ہی طریقوں پر پڑ سکتی ہے اور ان کی مراد پوری ہو سکتی ہے، ان کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے جو عقل کے لیے جستجو ہے اور عشق کے لیے اضطراب۔
لیکن ٹیپ کا شعر واضح کرتا ہے کہ نہ تو عقل کو حسن ازل کا ذوق ہے نہ عشق کو حسن ازل کا شوق ہے، عصر حاضر میں آیہ کائنات کے معنی پر حجاب ہی حجاب پڑا ہوا ہے، کیا علوم ظاہری، کیا علوم باطنی، کیا مدرسہ جدید، کیا میکدہ قدیم، کیا جلوت کے طلب گار، کیا خلوت کے متلاشی، سب کی عقل اور دل دونوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہر صبح آفتاب کے افق عالم پر نمودار ہونے اور سطح زمین پر روشنی پھیلانے کے باوجود چار سو تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات بوسیدہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے اہل جہاں کی طبیعت میں فرسودگی آ گئی ہے اور وہ مضمحل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اب انسانیت کی نشاۃ ثانیہ کی واحد امید یہی ہے کہ ایک بار پھر حسن ازل اپنا جلوہ اسی طرح بے حجاب دکھائے جس طرح اس نے تاریخ کے گزشتہ نازک مراحل پر دکھایا ہے، کبھی نگاہ ابراہیم ؑ کو، کبھی نگاہ موسی ؑ کو، کبھی نگاہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکن ختم المرسلین ؐ کے بعد اب کسی رسول کی نگاہ پر آیہ کائنات کے معنی دیر یاب کے روشن ہونے کا سوال نہیں۔ ہاں اس رسول ؐ کی امت میں کوئی بندہ حق میں امام حسنؓ کی طرح جلوہ حق دیکھ کر اپنی شہادت حق سے زمانے میں اجالا پھیلا سکتا ہے، انسانیت کو تازہ دم کر سکتا ہے، بنی نوع کو نئے حوصلوں اور ولولوں سے سرشار کر سکتا ہے۔
اس شعر کی خوبصورتی اور خیال آفرینی ایک قول محال پر مبنی ہے تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے دنیا جانتی ہے کہ آفتاب کی گردش ایک علامت نور ہے، لیکن شاعر اسے پیکر ظلمت قرار دے رہا ہے۔ یہ ایک تجسس انگیز بات ہے اور غور کرنے سے آشکار ہوتا ہے کہ شاعر کا مقصد دلوں کی روشنی ہے نہ کہ زمین پر اور فضا میں پھیلنے والی شعاعیں جو روز طلوع آفتاب کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں، مفہوم یہ ہے کہ شعاعیں تو ہر روز کی گردش زمین کے ساتھ، جسے استعاراتی طور پر حسن معنی کے لیے آفتاب سے منسوب کر دیا گیا ہے، ظاہری اجالا دنیا میں پھیلاتی ہیں، مگر اس کے باوجود انسان کے قلب و ذہن کی تاریکی نہیں جاتی بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ عصر حاضر میں تہ بہ تہ تاریکی کے پردوں نے جہاں کو تیرہ و تار کر دیا ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیرا افق عالم پر چھا گیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر حسن ازل کا جلوۂ بے حجاب ایک بار پھر نمودار ہو تو طبع زمانہ تازہ نظر آنے لگے، یعنی باطن کی روشنی روح کو منور کر دے اور اسے حقائق صاف صاف نظر آنے لگیں، بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت پیدا ہو جائے۔ چشم سر کے ساتھ ساتھ چشم دل وا ہو جائے۔
آخری بند شاعر کے ذوق و شوق کی مکمل تصویر اس کے ہر رخ اور رنگ کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب
گاہ بجیلہ می برد گاہ بزورمی کشد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب
عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب
گرمی آرزو فراق! شورش ہاو ہو فراق!
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!
’’ علم نخیل‘‘ ،’’ بے رطب‘‘ ،’’ معرکہ کہن‘‘، عشق تمام مصطفیٰؐ ، عقل تمام بولہب، عالم سوز و ساز، موج کی جستجو اور قطرہ کی آبرو جیسے چند پر معنی پیکروں کے ذریعے یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں کہ شاعر نے جو مادی علوم عقل حاصل کیے وہ عرفان حق کے معاملے میں بے ثمر ثابت ہوئے۔ کیا خوب استعارہ ہے، کھجور کے درخت کا علم تو حاصل کیا مگر یہ علم کھجور کا پھل نہ دے سکا! اس لیے کہ علم پھل نہیں، درخت دیتا ہے اور کھجور کی خاصیت جاننا ایک بات ہے، کھجور کا پھل کھانا دوسری بات۔ دشت عرب اور نواح کاظمہ کے پس منظر میں یہ استعارہ بہت ہی چست اور موزوں ہے۔ بہرحال شاعر اپنے علم کی اس بے ثمری سے اس کے حصول کے دوران اور ایک عرصہ دراز تک اس کے بعد بھی بے خبر رہا۔ اس لیے کہ مدت تک اس کی نگاہوں پر پردہ پڑا رہا ہے، لیکن اب کہ یہ پردہ اٹھ چکا ہے یا اٹھ رہا ہے اس کا دل ذوق و شوق سے معمور ہے۔ چنانچہ وہ خود اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیات اور ان کے درمیان اپنے تصور عشق کے ارتقا کا تجزیہ کرتا ہے، اول اول شاعر کے ضمیر میں عقل و عشق کا تاریخی معرکہ کہن بپا ہوا عقل کی علامت اور مجسمہ بولہب اور عشق کی علامت اور نمونہ ’’مصطفیٰؐ‘‘ دونوں ہی کی کش مکش شروع ہو گئی، بولہبی نے حسن ازل سے روگردانی اور سرکشی کا احساس پیدا کیا اور مصطفائی نے حسن ازل کے سامنے سر تسلیم و اطاعت خم کرنے کا جذبہ ابھارا۔ یہ کش مکش اقبال کے نزدیک ذاتی طور پر معرفت نفس اور معرفت حق کا پیش خیمہ ہے اور اجتماعی طور پر ارتقائے حیات کا ایک ضروری عمل:
اسی کش مکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
(غزل۔ بال جبریل)
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لبہی
(ارتقا۔ بانگ درا)
چنانچہ شاعر منزل عشق کے تمام مراحل سے گزرا اور اس کی طبیعت نے ہر مرحلے سے لطف بھی لیا اور سبق بھی عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب ابتدا میں حیلہ و حوالہ اور حجت و تامل کی کیفیت ہوتی ہے، جبکہ انتہا میں ایک زور دار کشش انسان کے پورے وجود کو جلوۂ حسن اور جذبہ محبت میں جذب کر دیتی ہے۔ لیکن یہ جذب ضم ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اس لیے کہ عشق حضور کے باوجود اضطراب ہے جو فراق کی علامت ہے جبکہ وصال میں قرار و سکون ہوتا ہے۔ یہی جذبہ و اضطراب عشق کا معیار ہے۔ محبت ایک عالم سوز و ساز ہے یعنی ایک دائمی حرکت و عمل ہے خواہ وہ سوز کی شکل میں ہو یا ساز کی صورت میں اس عالم میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق اس لیے کہ وصل میں مرگ آرزو ہے اور ہجر میں لذت طلب طلب و تمنا ہی محبت کی اصل حقیقت ہے، جو ہجر و فراق ہی میں ممکن ہے جبکہ وصل کی آسودگی کے بعد نہ کسی تمنا کا سوال ہے، نہ کسی طلب کا موقع سارا معاملہ آرزو کا ہے۔ تیسرے بند میں شاعر نے کہا تھا کہ اس کے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو ہے۔ یہ آرزو فراق میں زندہ و تابندہ رہتی ہے۔ مگر وصال میں مر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موقع وصال اگر کبھی پیدا بھی ہوتا ہے تو شاعر کی نگاہ رخ محبوب کی طرف اٹھنے تک کا حوصلہ نہیں رکھتی، کچھ تو رعب حسن ہے اور کچھ ادب عشق اسی لیے ٹیپ سے پہلے کا آخری شعر بہت معنی خیز ہے:
عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب
بہانہ جوئی کے باوجود حوصلہ نظر نہ ہونا بڑی بے بسی کی بات ہے مگر شاعر بہانہ جوئی کو بے ادبی کہتا ہے، یہ دراصل ادب کی انتہا ہے کہ دیدار محبوب کا بہانہ تلاش کرنے تک کو بے ادبی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے عشق میں اور محبوب کے متعلق شاعر کی لطافت احساس نیز شدت احساس کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہرحال، سوال یہ ہے کہ جب عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق، اور وصل میں مرگ آرزو ہے تو یہ عین وصال کا موقع کب پیدا ہو، اس کا مفہوم کیا ہے؟ یہ سوال صرف ایک بند کے ایک دو اشعار تک نظر کو محدود رکھنے سے پیدا ہوتا ہے، ورنہ پوری نظم کے ارتقائے خیال کو ابتدا سے انتہا تک دیکھا جائے تو مفہوم واضح ہے اور سوال کا جواب بھی اتنا عیاں کہ سوا غیر ضروری ہو جاتا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آخری بند کے آخری شعر میں (ٹیپ سے قبل) جب موضوع کے تمام نکات و مضمرات کو سمیٹ کر ایک نتیجہ نکالا جا رہا ہے، وصال کا بیان ضروری تھا، تاکہ فراق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کا پورا وہ منظر نامہ واضح ہو جائے جس کی ترتیب پہلے بند کی منظر نگاری سے آخری بند کی کش مکش عقل و عشق تک کی گئی ہے۔ اس ترتیب کو سامنے رکھا جائے تو زیر نظر شعر ہمیں بے اختیار آغاز نظم کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے:
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں
یہ ہے عین وصال کا وہ موقع جب حسن ازل کا رخ انور بے نقاب تھا اور نگاہ بے ادب، بہانہ نظر تلاش کر رہی تھی، تاکہ دیدار محبوب سے اپنے آپ کو روشن کرے مگر حوصلہ نظر نہ تھا، حالانکہ ایک نگاہ کا زیاں، دل کے لیے ہزار سود تھا اور یہ نگاہ بے ادب، اٹھی بھی، اس لیے کہ بہانہ جو تھی لیکن رخ محبوب پر پڑنے کا یارا اسے نہ تھا، حضور نصیب بھی ہوا تو اضطراب ہی رہا، لمحہ وصال بھی باعث وصال نہ ہوا، اس لیے کہ:
گرمی آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق!
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!
یہ آخری بند کی ٹیپ اور خاتمہ نظم ہے جو پہلے بند کی ٹیپ اور مقدمہ نظم کے بالکل مطابق اور موافق ہے:
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
چنانچہ موج کی جستجو میں جو جذبہ فراق ہے وہ اس کی ہستی کے لیے عیش دوام ہے اور دریا سے الگ اپنا مستقبل وجود رکھنے والے قطرہ کی آبرو میں جو فراق کا پہلو ہے وہ اس کے تشخص کا ایک دائمی وصف اور اس کے لیے راحت جاں ہے۔ غالب کے برخلاف اقبال عشرت قطرہ دریا میں فنا، ہونا نہیں سمجھتے اور نہ وہ ایسی عنایت کی نظر کے طلب گار ہیں جو پر تو خور سے شبنم کو فنا کی تعلیم، کے مانند ہو۔ اقبال ہر حال میں اپنی خودی کی پاسبانی چاہتے ہیں اور ان کا سارا ذوق و شوق اس نکتے میں ہے کہ در حقیقت خودی کی پاسبانی ہی عشق خدا کی نگہبانی ہے۔
غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
خودی حالت فراق ہی میں ممکن ہے اور محبت کی ساری گرمی آرزو، فراق ہی کی بدولت ہے۔ عشق کی تمام جستجو اور اس کی ہاوہو فراق ہی کا اثر ہے۔ تب آخری سوال یہ ہے کہ اس التجا کا مطلب کیا ہے؟
طبع زمانہ تازہ کر جلوہ بے حجاب سے
جواب اور مصرعے کا مطلب واضح ہے یہ وہی بات ہے جو بطور ایک واقعہ کے بند اول کے اس مصرعے میں تھی:
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود
اس کے باوجود کہ یہ دونوں صورتیں عین وصال کی معلوم ہوتی ہیں، شاعر انہیں اہل فراق کے لیے عیش دوام تصو رکرتا ہے اس قول محال پر غور کرنے سے یہ بنیادی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسانی وجود میں خودی و خدا کے درمیان وصال کی حد ادب کیا ہے۔ انسان کی ذات حرم نہیںہے، نہ ہو سکتی ہے۔ اس کے روحانی ارتقا کی حد یہ ہے کہ وہ حرم کا آستانہ بن جائے، بلکہ ہر انسان اصلاً حسن ازل کے حریم ناز کا آستانہ ہی ہے اور اگر وہ اپنی خودی سے غافل نہ ہو اور اس کی پاسبانی کرتا رہے تو یہ آستانہ ہمیشہ سلامت رہے گا اور اسے حریم ناز کا قرب برابر حاصل رہے گا، لیکن تاریخ کے مختلف مراحل پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان اپنے آپ سے غافل، اپنی حقیقت سے بے خبر اور اپنی اصلیت سے دور ہو گیا ہے۔ عصر حاضر بھی تاریخ انسان کا ایسا ہی ایک مرحلہ ہے۔ لہٰذا حسن ازل کے جلوۂ بے حجاب کا مطلب ا س کے کچھ نہیں کہ ایک بار پھر آستانہ حرم کی طرح انسان حرم کے قریب آ جائے تاکہ اس کی افسردہ طبیعت تازہ ہو جائے، اس کی خوبیدارہ آرزوئیں بیدار ہوں، ایک قافلہ رنگ و بو پھر آیہ کائنات کی تلاش میں نکلے اور ہمہ دم متحرک و متجسس و مضطرب موج کی طرح دریائے وجود میں رواں ہو، تاکہ بحر وجود میں قطرۂ انسانیت کی آبرو برقرار ہو، سلامت رہے اور بڑھے۔ اس طرح ایک باشعور، آرزو مند اور متجسس شاعر کا ’’ ذوق و شوق‘‘ پوری انسانیت کا ذوق بن جاتا ہے اور ایک فرد کی داستان محبت ایک عالم کی داستان عشق بن جاتی ہے۔ انسانی عشق کے آداب بھی معلوم ہوتی ہے اور اس کا اضطراب بھی اس کی ابتدا و انتہا، اس کا سوز و ساز، اس کا وصال و فراق سب کے حقائق و معارف آشکار ہوتے ہیں۔ اس ذوق و شوق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ نہایت شاعرانہ و فن کارانہ انداز میں شاعری، فن اور زندگی کے سب سے بڑے سب سے بنیادی اور سب سے آفاقی موضوع محبت کی اہمیت اور حقیقت دونوں ہی کا ایک متوازن، بالکل صحیح، مکمل اور نتیجہ خیز شعور پوری نظم کا مرتب مطالعہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
اس نظم میں محبوب حقیقی کے حضور شکوہ و جواب شکوہ کا ملا جلا مناجاتی انداز پایا جاتا ہے۔ گرچہ اس میں شاعری کی ایک ہی آواز ہے جو شاعر کی ہے، واحد متکلم میں، مگر یہ بڑی پہلو دار، پاٹ دار اور گونج دار آواز ہے، واقعہ یہ ہے کہ کلام اقبال کی پوری آواز کے ارتعاشات اس ایک آواز میں محسوس ہوتے ہیں۔ اس پر معنی تخلیق میں اقبال کا مخصوص رنگ و آہنگ اپنے شباب پر ہے۔ اس سے شاعر کے شوق فکر اور ذوق فن دونوں کی بلندیاں معلوم ہوتی ہیں۔