٭تعارف اور پس منظر
علامّہ اقبال ؒ دوسری گول میز کانفرنس ( منعقدہ لندن ۷ ستمبر تا یکم دسمبر ۱۹۳۱ئ) میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ ابھی کانفرنس ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ۲۱ نومبر کو لندن سے واپس روانہ ہوگئے۔ اٹلی میں چندروزہ قیام کے دوران میں مسولینی اور سابق شاہِ افغانستان امان اللہ خان سے ملاقات کی ۔ پھر مصر سے ہوتے ہوئے ۶ دسمبر کو بیت المقدس پہنچے۔جہاں انھیں مؤتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔
اس اجلاس میں وہ ہندی مسلمانوں کے نمایندے کی حیثیت سے مدّعو تھے۔ غلام رسول مہرؔ اس سفر میںاقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے مؤتمر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ مؤتمر کے چار نائب صدور منتخب ہوئے ،ان میں علامّہ اقبالؔ بھی شامل تھے۔ وہ ۱۵دسمبر تک بیت المقدس میں مقیم رہے اور مؤتمر کی کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس دوران میں جب بھی موقع ملتا ‘ تاریخی مقامات دیکھنے نکل جاتے۔ روانگی سے ایک روز قبل ۱۴ دسمبر کی شام آپ نے انگریزی میں ایک مؤثر خطبہ دیا۔کانفرنس سے فارغ ہوکر فلسطین سے مصر پہنچے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز ہندستان روانہ ہو گئے۔
۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچے۔ فرمایا: میرایہ سفر زندگی کا نہایت دل چسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ ’’ ذوق وشوق‘‘ اسی دل چسپ سفر کی یادگار ہے اور جیسا کہ اقبال نے خودتصریح کی ہے : ’’اس نظم کے اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘۔
مؤتمرِ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر، مسلم ممالک کے متعدد وفود سے اقبالؔ کی ملاقات ہوئی۔ اجلاس میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کے مسائل پر بحثیں ہوئیں ۔ مختلف تجاویز پیش ہوئیں اور کئی اہم امور طے پائے۔ اقبال بعض ملکوں کے وفود سے مل کر بے حد خوش ہوئے۔ فرمایا:’’ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد ممالک‘ مثلاً: مراکش‘ مصر‘ یمن ‘ شام ‘ عراق ‘ فرانس اور جاوا کے نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جائی ہے جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں میںدیکھی۔ کانفرنس کے دوران میں بعض موقعوں پر باہمی اختلاف کے مناظر بھی سامنے آئے۔ اس سلسلے میں علامّہ نے فرمایا کہ مقامی جماعتی اختلاف کے باوجود، مؤتمر شان دار طریق پر کامیاب ہوئی۔ اس اجتماع میں اکثر اسلامی ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے اور اسلامی اخو ّت اور ممالک اسلامی کی آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :سفرنامہ اقبال:ص ۱۶۰تا ۱۸۳)
بہرحال کانفرنس میں شرکت‘ اسلامی وفود سے ملاقاتوں اور مقدس مقامات کی زیارت کے بعد علامّہ کے دل میں مسلم ممالک کی ترقی‘ احیاے اسلامی اور زیارتِ روضۂ اطہر کی تمناوآرزو کا از سرِ نو تازہ ہو نا قدرتی بات تھی۔ یہی اس نظم کا پس منظر ہے… اسی تمنا اور آرزوکے تحت انھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو ’’ذوق و شوق‘‘ میں نظم کر دیا۔
یہ نظم ایک تواس ذوق و شوق کی آئینہ دار ہے ‘ جو اقبال کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موجود تھا۔ دوسرے اس میں ملت اسلامیہ کے احیا کا ذوق و شوق ہے ‘ جس کے لیے اقبال عمر بھر تڑپتے رہے اور روشن مستقبل کے لیے پر امید بھی رہے۔
ابتدامیں نظم زیادہ طویل تھی‘ نظرثانی میں اقبال نے کم وبیش تین درجن اشعار قلم زد کردیے۔
فکری جائزہ
یہ نظم سفرِ فلسطین کا حاصل تھی‘ اور ایک ایسا تحفہ جو اس سفر کے دوران میں علامّہ اقبال کے ہاتھ لگا۔ وطن واپسی پر انھوں نے یہ تحفہ ملت کے سامنے پیش کر دیا۔ نظم کے آغاز میں سعدیؒ کا شعر:
دریغ آمدم زاں ہماں بوستاں
تہی دست رفتن سوے دوستاں
درج کرنے سے اسی مدعا کااظہار مقصود ہے۔
٭تمہید:
’’ذوق و شوق‘‘ میں علامّہ نے اظہارِ خیال کے لیے تمہیدی طور پر ایک منظرِ فطرت کا سہارا لیا ہے۔ ’’ خضر راہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم میں بھی انھوں نے ایک منظرِ فطرت کو اپنے حکیمانہ خیالات کی تمہید بنایا ہے۔ شاعر کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کی خواہش کروٹیں لے رہی ہے‘ اس لیے وہ خودکو عالم تصو ّر میں مدینۂ طیبہ کے آس پاس محسو س کرتا ہے۔ اس تصو ّراتی منظر کا نقشہ کچھ یوں ہے:
مدینہ منور ہ کے قریب صحرا میں صبح کا سہانا وقت ہے۔ ٹیلوں کی اوٹ سے سورج نمودار ہوتا ہے تو اس کی نورانی کرنیں چاروں طرف یوں بکھر جاتی ہیں جیسے حسن ازل نے اپنا نقاب اتار دیا ہے۔رات کی بارش کے سبب نواحِ کاظمہ کی ریت ریشم کی مانند نرم ہو گئی ہے۔ درختوں کے پتے دھل کر پاک و صاف اور چمک دار ہو گئے ہیں ۔ فضا ہر طرح کی آلودگی سے مبرّا ہے۔ رات کے برسے ہوئے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے رنگا رنگ ٹکڑے ادھر اُدھر دوڑتے پھر تے ہیں۔ کوہ اِضم کی پہاڑیوں کے پس منظر میں جب ان بدلیوں پر سورج کی نقرئی کرنیں پڑ تی ہیں تو ان کی رنگینی اور رعنائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
شاعر فطرت کی اس رنگینی میں کھویا ہواہے ۔ اچانک اسے صحرا میں کسی گزرے ہوئے کارواں کے نشاناتِ قیام نظر آتے ہیں۔ اس ایک لمحے میں شاعر کی نگاہِ تخیل کے سامنے تاریخ کی بساط پر سیکڑوں قافلے گزر جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے پس منظر میں اسے یوں احساس ہوتا ہے جیسے جبرئیل ؑ اسے غور و فکر کی دعوت دے رہے ہوں کہ اہلِ دل کے لیے یہی مقامِ عبرت ہے اور لمحۂ فکریہ بھی!
اس بند میں لفظ ’’ کاظمہ‘‘ اور ’’ کوہِ اِضم‘ ‘ وضاحت طلب ہیں۔ کاظمہ مکہ کی جانب والے ایک راستے ‘ ایک مقام یا ایک چشمے کا نام ہے۔ یہ مدینے کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ہے۔اِضم مضافاتِ مدینہ کے ایک پہاڑ یا وادی کا نام ہے۔ اقبال نے پہاڑ مراد لیا ہے۔ کاظمہ اور اِضم کے نام قصیدۂ بردہ کے اس شعر سے ماخو ذ ہیں:
اَمْ ہَبَّتِ الرِّیْحُ مِنْ تِلْقَآئِ کَا ظِمَۃٍ
اَوْ اَوْمَضَ الْبَرْقُ فِی الظَّلَمَآئِ مِنْ اِضَمٖ
(کاظمہ کی جانب سے ہو ا چلی یا وادی ِاِضم سے اندھیری رات میں بجلی چمکی ہے۔)
قصیدہ بردہ کے مصنّف امام محمد بن سعید بوصیری ( پیدایش: ۷ مارچ ۱۲۱۳ء ) ایک جامع الصفات بزرگ تھے۔ وہ حسّان بن ثابتؓ کے بعد عربی کے سب سے بڑے نعت گو سمجھے جاتے ہیں۔ ۱۶۵ اشعار کے اس قصیدے سے روحانی اور معجزانہ صفات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ عربی ادب میں یہ قصیدہ ایک مسلمہ شاہ کار ہے۔ علامّہ اقبال کے بعض خطوط میں بھی امام بوصیری کا ذکر ملتا ہے( اقبال نامہ ‘اول: ص ۹۴ ا‘انوار اقبال: ص ۱۵۴) اردو میں قصیدۂ بردہ کے بہت سے ترجمے ہو چکے ہیں۔
٭مسلم انحطاط کا پرسوز تذکرہ:
عالمِ تصو ّر میں ‘ بیت المقدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت‘ ملت اسلامیہ کے احیاے نو پر بحث مباحثہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلم نمایندوں سے ملاقاتیں اور احساسِ یگانگت شاعر کے ذہن میں تازہ ہے۔ اس کے سامنے پوری مسلم دنیا کی حالتِ زبوں اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور اسے مسلمانوں کی بے حسی‘ غفلت‘ بے عملی اور پستی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ دوسرے بند کے بیشتر شعروں میں اسی احساس کا مؤثر اور بھر پور اظہار ملتا ہے۔
اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط ‘ اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ اب تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں اسلاف کی روایات بالکل عنقا ہو چکی ہیں۔
۱۔ ایک طرف تو خود مسلمان بے حس ہو چکے ہیں کہ اہلِ حرم نے اپنی آستینوں میں بت پال لیے ہیں۔ گیسوے دجلہ و فرات تاب دار ہے مگر بت شکنی کے لیے کوئی محمود غزنوی ہے اور نہ کوئی حسینؓ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین و عقائد میں غیر اسلام کی آمیزش کر لی ہے۔ ملحدانہ افکار و نظریات کو اختیار کرنا بالکل ایسا ہے جیسے اہلِ حرم‘ اپنے حرم کو سومنات کا مندر بنا لیں مگر مسلمانوں کی صفوں میں کوئی ایسا رہنما یا حکمران نہیں جو مسلمانوں کے ’’ اسلامی سومنات‘‘ کو پاش پاش کر دے۔ قافلۂ حجاز ( مسلمانوں) میں جور اہ نما اور حکمران موجود ہیں، ان کے اندر شہادتِ حق کا وہ داعیہ نہیں جس کی مثال امام حسینؓ نے پیش کی۔آج بھی مسلمان حکمران یزید کے سے بلکہ اس سے بھی بد تر افعال و اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں مگر کلمۂ حق کہنے کے لیے کوئی شخص ’’ کربلا‘‘ میں نہیں نکلتا۔
۲۔ پھر یہ صورتِ حال عالمِ اسلام کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ عرب و عجم دونوں اس انحطاط کا شکار ہیں ۔ایک طرف عربوں کے ہاں ان کے قومی کردار کی خصوصیات( سادگی‘ شجاعت‘ غیرت ‘ فقر اور مہمان نوازی وغیرہ) ختم ہوچکی ہوتی… (۱۹۳۵ء میں جزیرہ نماے عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور بیشتر حصوں پر مغرب خصوصاً انگریزوں کے کٹھ پتلی حکمران دادِ بادشاہت دے رہے تھے۔)
دوسری طرف عجم جو اپنے علم کی وسعت اور فکر کی بلندی کے سبب مسلمانوں کے لیے وجہِ افتخار اور دوسری قوموں کے لیے ماہ الامتیاز تھا ،افسوس کہ اس کے افکارِ عالیہ کو بھی گھن لگ چکا ہے۔
۳۔ عرب و عجم کے اس انحطاط کا ایک عبرت انگیز ورق یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں جلوتیانِ مدرسہ(یعنی قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ) کو ر نگاہ اور مردہ ذوق ہیں۔بقول سید ابوالاعلیٰ مودودی:قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ علما عام طو رپر ’’جن مشاغل میں مشغول رہے ‘ وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کیں‘ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایااور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا… آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔‘‘ (مسلمانوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل: ص ۱۱- ۱۲)
اس طبقے میں دوربینی و جہاں بینی کی خصوصیات کے بجاے تنگ نظری اور تنگ دلی پائی جاتی ہے۔ یہی’’ کور نگاہی ‘‘ اور ’’ مردہ ذوقی‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما کا یہ طبقہ جدید تہذیب و علوم کا چیلنج قبول نہیں کر سکا اور اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی طرح خلوتیانِ مے کدہ بھی ملت کی زبوں حالی کا مداوا نہیں کر سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کے حقیقی تصو ّف کا چشمۂ صافی عجمی‘ ویدانتی‘ یونانی اور دیگر غیر اسلامی افکار و فلسفوں کی آمیزش سے گدلا ہو گیا اور اہلِ تصو ّف یا تو ذاتی نجات کی تلاش میں کھو گئے ‘ یا پیری مریدی کو رواج دیا۔ علامّہ اقبال نے مروجہ تصو ّف کے مسموم اثرات کو دیکھتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ اور مسلسل اس کی مخالفت کی۔ سید سلیمان ندویؒ کولکھتے ہیں:
’’تصو ّفِ [وجودی] سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے(اقبال نامہ‘ اول: ص ۷۸)۔ دراصل اقبال ملت اسلامیہ کو ایک باعمل قوم بنانا چاہتے تھے جبکہ مروجہ تصو ّف انھیں دنیا سے فرار اور ترک دنیا کی تعلیم دیتا تھا۔ اقبال ’’خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات ‘‘کے بجاے ’’وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل‘‘ کے قائل ہیں ۔ اس لیے ان کی تاکید ہے:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری
انھوںنے اس بند کے آخری دو شعروں میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب بھی بتا دیا ہے ۔ ان کے نزدیک عرب و عجم (جلوتیانِ مدرسہ اور خلوتیانِ مے کدہ یعنی جدید تعلیم یافتہ اور بحیثیت مجموعی پوری امت) کے انحطاط و زوال کی حقیقی و جہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت امام حسینؓ کا سا کردار نہیں اور نہ ان میں قربانی و شجاعت کا وہ جذبہ موجود ہے جس کانمونہ بد ر و حنین میں ان کے اسلاف نے پیش کیا تھا۔ اس کردا راو ر اس جذبے کو اقبال نے ’’عشق‘‘ کا نام دیا ہے۔ مسلمانوں میں جذبۂ عشق کے فقدان کے سبب شریعت ‘ تصو ّف اور دین داری کے تصو ّرات بدل گئے ہیں:
شریعت ‘ تصو ّف ‘ تمدن ‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
ملت اسلامیہ کے انحطاط کے سبب شاعر شدید درد و کرب میں مبتلا ہے۔ رنج و غم کی تلخی نے اس کے شب و روز میں زہر بھر دیا ہے۔ چنانچہ مسلم انحطاط کے تذکرے میں اس نے تلخی اور درد و کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوزو گداز کا اظہار کیا ہے۔ یوں شاعر کا دلی کرب اور سوز و گداز پوری نظم میں وقتاً فوقتاً ابھر کر سامنے آتا ہے۔
اس کرب اور سو ز و گداز کا مقامِ آغاز یہ ہے کہ شاعر اپنی قوم کی حالت سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی مستقل خواہش یہی رہی ہے کہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کی جائے یعنی مسلمانوں کے دل میں نشأتِ ثانیہ اور احیاے ملت کی آرزو پیدا ہو۔ شاعر اسی آرزو کی نشو و نما کے لیے کوشاں ہے اور اس کوشش میں اپنا خونِ دل و جگر صرف کر دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کی آرزو اور دعا ہے کہ ملت کی سربلندی کے لیے اس کی تڑپ ‘ بے چینی اور بے قرار ی نہ صرف یہ کہ قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے کیونکہ جہادِزندگانی میں یہی چیز مہمیز کا کام کرتی ہے۔
٭بحضور رسالت مآبؐ:
اقبال سمجھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو پاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میری کوششیں بھی کسی درجے میں کارآمد ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ملت اسلامیہ اپنی جدو جہد میں رسول کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنائے۔
۱۔ سب سے پہلے تو شاعر نے کائنات میں آں حضورؐ کی اصل حیثیت کا ذکر کیاہے۔ تیسرے بند کے پہلے شعر اور تیسرے بند کے پہلے تین مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کی ذاتِ پاک ہی وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔ اس کا پس منظر یہ حدیث ہے کہ ’’ اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا‘‘[تحقیقی طور پر یہ حدیث ثابت نہیں]۔ بقول مصحفی ؔ:
سارے جہاں کا تجھ کو جانِ جہاں بنایا
۲۔ پھر عربوں ( ذرۂ ریگ) نے دنیا کی قوموں میں جو امتیازی حیثیت ( طلوعِ آفتاب) حاصل کی‘ بعض مسلمان حکمرانوں نے عظمت وصولت کا نقش لوگوں کے دلوں پر بٹھایا اور مسلم بزرگوں اور صوفیا نے عوام کے دلوں کو اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے مسخر کیا تو اس کی وجہ صرف اتباعِ رسول ؐ تھی۔ مسلم حکمرانوں کا جاہ و جلال اور بزرگانِ دین کا فقر اور ان کی اخلاقی برتری ایک طرح سے اسلام کی حقانیت اور جلال و جمالِ نبوی ؐکا مظہر ہے۔ یہ بات تیسرے بند کے اگلے تین مصرعوں میں کہی ہے۔ (اقبال نے یہاں بطورِ خاص سنجر و سلیم اور جنید و بایزید کا حوالہ دیا ہے۔ سنجر ( م: ۱۱۵۷ئ) سلجوقیوں کا آخری طاقت ور فرماں روا تھا۔ وہ بہت بہادر‘ فیاض اور عادل بادشاہ تھا۔ عمر بھر دشمنوں سے بر سرِ پیکاررہا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دورِ حکومت میں ۱۹ مرتبہ اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی۔ سلیم نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدّت میں اس نے دولتِ عثمانیہ کی مملکت کی حدود کی زبردست توسیع کی اور اپنے آپ کو ناقابلِ شکست اور آہنی قوتِ ارادی کا مالک ثابت کیا۔ سنجر اور سلیم دونوں کی شخصیّتیں جلالِ الٰہی کے مظہر کے طور پر اقبال کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘ (اقبال کی تیرہ نظمیں: ص۱۵۷)جنید المعروف بہ جنید بغدادی(م: ۹۱۰ئ)ابتدائی عہد کے صوفیہ میں سے تھے۔ بایزید بسطامی ( م:۸۴۷ئ) وجودی مسلک کے صوفی گزرے ہیں۔ سلطان سلیمان اعظم کا تعارف صفحہ پر ملاحظہ کیجیے)
۳: مسلمان کے لیے انفرادی راہِ نجات اور اجتماعی نشأت ثانیہ کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ اس پیروی کا سرچشمہ آں حضورؐ سے محبت اور عقیدت ہونی چاہیے۔ ازروے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:آں حضورؐ سے محبت کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلِدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے والدین ‘ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑ ھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔
اس کے بغیر نہ تو ظاہری عبادت( نماز ،روزے) کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ انسانی عقل کائنات کی بھول بھلیوں کے معمے کو حل کر سکتی ہے۔ دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی بے اطمینانی‘ ظلم و تعدّی اور تعصّب و جہالت کا خاتمہ بھی صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان سارے انسانی فلسفوں اور نظاموں کو ( جو ’’ علم، نخیلِ بے رطب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں) چھوڑ کر محسن انسانیتؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے اور اسی کی روشنی میں اپنی سمت ِ سفر متعیّن کرکے منزل مقصود کو پالے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نظم کے نعتیہ یا حمدیہ ہونے کے بارے میں شارحین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوسف سلیم چشتی ‘ غلام رسول مہر ‘ محمد عبدالرشید فاضل اور خواجہ محمد زکریا چوتھے بند:’’ لوح بھی تو‘ قلم بھی تو…‘‘ کا مشارٌ الیہ آں حضور ؐ کو قرار دیتے ہیں مگرپروفیسر اسلوب احمد انصاری‘ ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا خیال ہے کہ اس میں خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔
٭عشق و فراق:
نظم کے آخری پانچ اشعار میں اقبال نے اپنے نظریۂ عشق اور فلسفۂ فراق ووصال کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے:
۱۔ عشق کے مقابلے میں عقل ناقص ہے۔ انسان زندگی میں عقل پر کلی بھروسا کرے تو وہ اسے گمراہی کی طرف لے جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر وہ عشق کو راہنماے زندگی بنائے تو وہ اسے بالآخر اصل حقیقت تک پہنچا دے گا۔ ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں:
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزنِ تار و رفو
عشق کی راہنمائی میں سفرِ زندگی طے کرتے ہوئے انسان کو آغاز سے انجام تک ہر ہر مرحلے میں ایک نرالی کیفیت اور قلبی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’ بمصطفیٰ برساں خویش را‘‘ کا ذریعہ بھی عشق ہے۔
۲۔ عشق کو زندہ و تابندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ’’ فراق‘‘ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ فراق اور دوری، ایک اہم محرک اور تخلیقی قو ّت ہے اور بقاو استحکامِ خودی اور عشق بھی اسی پر منحصر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر فراق کی مسلمہ اہمیت قلب و ذہن میں راسخ ہو تو وہ وصال کی ظاہری خوش نمائی اور وقتی فوائد کے باوجود کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکے گا۔ اسے حوصلہ ہی نہ ہوگا کہ وہ کسی بہانے ترکِ فراق کرکے بے ادبی کا مرتکب ہو۔ اقبال ایک اور جگہ کہتے ہیں:
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل
چیست حیاتِ دوام ؟ سوختنِ ناتمام
نظم کوعشق و فراق کے موضوع پر ختم کرتے ہوئے، اقبالؒیہ حقیقت قارئین کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ رسالت مآبؐ کی محبت‘ مسلم ممالک کی تعمیر و ترقی اور ملت اسلامیہ کی نشأتِ ثانیہ کا منبع و سرچشمہ عشق و فراق ہی ہو سکتاہے۔
فنی تجزیہ
’’ذوق و شوق‘‘ ترکیب بند ہیئت کے پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور بحر رجز مثمن مطوّی مخبون میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ
٭موضوع اور وسیلۂ اظہار میں ہم آہنگی:
’’ذوق وشوق‘‘ میں شاعر نے موضوع کی مناسبت سے اظہارِ خیال کے مختلف وسیلے اختیار کیے ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ وہ جس ماحول کوپیش کر رہا ہے ‘ اس کے وسیلہ ہاے اظہار‘ ماحول و موضوع سے ہم آہنگ ہوں۔ نظم کے آغاز میں شاعر سرزمین حجاز کا جو تخئیلی منظر پیش کرتا ہے ‘ پیش کش اور بیان کا انداز اور زبان کی نوعیت بھی اس سرزمین اور متعلقات سے مناسبت رکھتی ہے۔ نظم کے بعد کے حصے میں بھی یہی صورت ہے۔ کوہِ اِضم‘ برگِ نخیل‘ ریگِ نواحِ کاظمہ‘ بت کدۂ تصو ّرات‘ معنیِ دیریاب‘ صداے جبریل‘ قافلۂ حجاز‘ گیسوے دجلہ و فرات‘ صدقِ خلیل ؑ ‘ صبرِ حسینؓ ‘ ذرۂ ریگ‘ معرکۂ وجود‘ عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب اور دوسری بہت سی تراکیب، تلمیحات اور الفاظ بجاے خود بلیغ ہیں۔
٭عربی اثرات:
’’ذوق و شوق‘‘ اقبال کے سفر فلسطین کی یادگار ہے، جیسا کہ انھوں نے خود وضاحت کی ہے کہ اس نظم کے بیشتر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ تقریباً ایک ہفتہ بیت المقدس میں مقیم رہے ‘ عربوں سے ملاقاتیں رہیں اور تبادلۂ خیالات ہوا۔ اس پس منظر میں لکھی جانے والی زیر مطالعہ نظم میں عربی ماحول اور عربی شعر و ادب کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں:
’’ کلام اقبال پر عربی اثرات مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ کچھ باتیں صاف اور صریح ہیں‘ کچھ علامت بن گئی ہیں اور کچھ تصاویر خیالی ہیں۔ لطف وہاں آتا ہے جہاں وہ عرب کی ادبی روح کو اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں ۔ جہاں ان کی تشبیہیں ‘ استعارے اور تلمیحیںاور خیالی تصویریں قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کر دیتی ہیں [ذوق و شوق] کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو جبھی واضح کرتا ہے کہ اسے عربی ادب کے آئینے میں دیکھا جائے… کوہِ اِضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کے اندر مدینہ منورہ کی یاد مضمر ہے… وہ عالم خیال میں مدینہ منور ہ کی سیر و زیارت کر رہے تھے…ٹوٹی ہوئی طناب‘ بجھی ہوئی آگ اور گزر جانے والے قافلے عرب شعرا کے محبوب ترین مضمون ہیں… یہ مصرعے دیکھیے:
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
_______
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو
_______
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم ، نخیلِ بے رطب
’’نخیلِ بے رطب‘‘ ٹھیٹھ عربی پیرایۂ بیان ہے۔( میزانِ اقبال: ص ۲۶- ۳۲)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے اقبال کو جو عشق تھا‘ اس کا ذکرکرتے ہوئے سر اکبر حیدری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ میرا ہر بنِ مو آپؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آں حضور ؐ کی ذات شاعر اقبال کے لیے سب سے بڑا محرکِ تخلیق یا Source of Inspirationہے… حیات اقبال کی بکثرت روایات شاہد ہیں کہ آپ ؐ کا ذکر آتے ہی اقبال پر ایک عجیب بے خودی و سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، کچھ ایسی کیفیت کہ :
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
٭سوز و گداز:
فنی اعتبار سے نظم کی ایک بڑی خوبی اس کا انداز تغزل اور سوزو گداز ہے ’’ذوق وشوق‘‘ کا موضوع( عشق رسولؐ اور احیاے ملت اسلامیہ کی تڑپ) ہی ایسا ہے کہ اظہارِبیان میں سوز وگداز کاپیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ عابد علی عابد کے خیال میں ’’سوزوگداز کا اظہار جس دل فریب پیرایے میں ’’ ذوق و شوق‘‘ میں ہوا ہے ‘ ویسا کسی اور نظم میں نہیں ہوا… خصوصیت سے نظم کے پہلے اور آخری بند میں‘‘۔
٭ایجاز و بلاغت:
زیر مطالعہ نظم اقبال کی چندان نظموں میں سے ہے جن میں اقبالؔ کا فن پورے عروج پر ہے۔ ’’ ذوق و شوق‘‘ ان کی شاعرانہ عظمت کا شاہ کار ہے۔ نظم پڑ ھتے ہوئے ہر ہر شعر میں ’’سمندر ہے اک بوند پانی میں بند‘‘ والی کیفیت نظر آتی ہے۔ نہایت وسیع مطالب و مفاہیم کو کمالِ فن سے ایک مختصر ترکیب ‘ ایک مصرعے یا شعر میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایجاز و بلاغت کی چند خوب صورت مثالیں ملاحظہ ہوں:
عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب
_______
آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
_______
جلوتیانِ مدرسہ ، کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیانِ مے کدہ ‘ کم طلب و تہی کدو
٭محاکات:
زیر مطالعہ نظم میں محاکات کی بڑی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ نظم کے پہلے بند میں سرزمین عرب کی جو منظر کشی کی ہے، وہ بجاے خود تصویر کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے، لیکن مندرجہ ذیل اشعار خصوصاً اس کی بڑی عمدہ مثالیں ہیں:
گرد سے پاک ہے ہوا برگِ نخیل دھل گئے
ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں
_______
آگ بجھی ہوئی ادھر‘ ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
٭صنعت گری:
’’ ذوق و شوق‘‘ سے صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے :
۱۔ صنعتِ تلمیح:
ریگِ نواحِ کاظمہ ‘ نرم ہے مثلِ پرنیاں
_______
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
_______
گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوے دجلہ و فرات
۲۔ صنعت تجنیس مضارع:( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو):
عشق کی ابتدا عجب‘ عشق کی انتہا عجب
۳۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں ‘ معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا):
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق‘ صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
_______
شوکتِ سنجر و سلیم‘ تیرے جلال کی نمو د
فقرِ جنید و بایزید‘ تیرا جمالِ بے نقاب
۴۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) :
گرمیِ آرزو فراق‘ شورش ہاے ہو فراق
موج کی جستجو فراق‘ قطرہ کی آبرو فراق
۵۔ صنعت مراعاۃ النظیر:
لوح بھی تو‘ قلم بھی تو ‘ تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
فنی اعتبار سے ’’ ذوق و شوق‘‘ بڑی متناسب اور سڈول نظم ہے۔ اس کا ہر بند چھے اشعار پر مشتمل ہے جب کہ اقبال کی بیشتر طویل نظموں میں ہر بند کے شعروں کی تعدا د مختلف ہے۔ وسعت معانی اور بلاغت کے اعتبار سے اسے اقبالؒ کی دو چار بہترین نظموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔