قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصطلاحی معنی ہیں سات یا دس اشعار کے زائد نظم۔ اردو میں قصیدہ اس نظم کو کہتے ہیں جو کسی کی مدح یا ذم کے لئے لکھی جائے، یا وعظ و نصیحت، پند و موعظت یا تعریف بہار یا شکایت روزگار وغیرہ کے مضامین باندھے جائیں۔ جب تک شاہی دور رہا شعراء کی قدرو منزلت رہی انھیں خطابوں سے نوازا گیا….جس شاعر نے قصیدہ گوئی میں کمال حاصل کیا اسے استاد تسلیم کیا گیا۔ ویسے یہ صورت حال آج بھی ہے لیکن قصیدہ کی نوعیت میں تھوڑی سی تبدیلی ہو گئی ہے۔ ہیئت کو بدل کر ملکی، سماجی اور سیاسی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے آج بھی قصیدہ نگاری کا سلسلہ جاری ہے اور خطابوں کا رواج بھی چل پڑا ہے……..!
مولانا شبلیؒ لکھتے ہیں۔
’’ہمارے خیال میں عربی قصیدہ صلہ اور انعام کی توقع پر مبنی نہ تھا جیسا کہ مشہور شعرائے جاہلیت کے قصائد سے پتہ چلتا ہے ان کے قصائد حصول تفوق و ناموری اور سیادت وسرداری کے امتیاز کے لئے ہوتے تھے۔ عربی قصائد زیادہ تر فخریہ رجزیہ ہوتے تھے یا کسی واقعہ کا بیان۔ ان چیزوں سے صلہ اور انعام کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔‘‘
قصیدہ کا رواج عربی سے فارسی اور پھر فارسی سے اردو میں منتقل ہوا۔ اردو میں قصیدہ گوئی بادشاہوں امراء وغیرہ کی مدح کے لئے یا پھر کسی کی ہجو کے لئے کی جاتی رہی۔ لیکن اردو قصیدہ گوئی فارسی قصیدہ گوئی سے پیچھے نہیں رہی ……علمی اصطلاحات، فنی اور مذہبی تلمیحات، پیچیدہ مسائل، فلسفہ، ادب و معنی، تلازمہ، صنعتیں ان تمام سے قصائد کا دامن مالامال ہے۔ قصیدہ کا ایک عیب یہ ہے کہ اس میں آمد کی جگہ اکثر آورد کو دخل ہوتا ہے لیکن ماہر فن قصیدہ گو آورد میں بھی آمد کی کیفیت پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ ابراہیم ذوق اس کی عمدہ مثال ہیں۔ ذوق قصائد میں سوداکے پیرو ہیں۔ محمد حسین آزاد نے آب حیات میں لکھا ہے۔
’’جاننے والے جانتے ہیں کہ اصلی میلان ان کی طبیعت کا سودا کے انداز پر زیادہ تھا۔ نظم اردو کی نقاشی میں مرزا ئے موصوف نے قصیدہ پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ ان کے بعد شیخ مرحوم کے سواکسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا۔ اور انھوں نے مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں کسی کے (کا ) ہاتھ نہیں پہنچا۔‘‘
ذوق انیس برس ہی کے تھے کہ انھیں اکبر ثانی نے ان کے ایک قصیدہ پر خوش ہو کر خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اس قصیدہ میں نہ صرف انواع و اقسام کے صنائع بدائع صرف کئے گئے تھے بلکہ کئی زبانوں میں اشعار لکھ کر شامل کئے گئے تھے۔ اس قصیدہ کا مطلع یہ تھا۔
جبکہ سرطان واسد مہر کا ٹھہرا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشونمائے گلشن
ذوق کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے زمانے تک اردو زبان کافی نکھر چکی تھی۔ اور اس کا بھاشا آمیز لہجہ مٹ چکا تھا اور پھر ان سے پہلے سودا جیسا مسلم الثبوت استاد گزر چکا تھا جس نے اردو قصیدہ گوئی کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ اس لئے ذوق کے قصیدوں میں زبان و بیان کے عمدہ نمونے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذوق کے قصائد میں روانی، فارسی کی آمیزش، نگینے کی طرح جڑے ہوئے الفاظ، شوکت لفظی، صنائع لفظی و معنوی، علمیت غرض ہر وہ خوبی جو شعر کے بارے میں سوچی جا سکتی ہے ذوق کے قصائد میں موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ محسوس ہوتی ہے کہ انھوں نے متقدمین سے کافی استفادہ کیا۔ شاہ نصیر، مصحفی، انشا ان سب کا رنگ ذوق کے پاس موجود ہے۔ اور سودا کا انداز تو گویا ذوق کی شاعری اور بالخصوص قصائد میں رچ بس گیا ہے۔ شاہ سلیمان ذوق کے قصائد پر یوں تبصرہ کرتے ہیں۔
’’ذوق کے پائے کا قصیدہ کہنے والا اردو زبان میں اب تک کوئی شاعر نہیں گزرا۔ مرزا رفیع سوداپر بھی ترجیح دینا بے جا نہیں۔‘‘
لیکن ذوق کی طبیعت قصائد میں مشکل پسند ہے۔ جس کی وجہ سے شاعری متاثر ہو جاتی ہے۔ ذوق نے اپنی شاعری کی قدرت کے اظہار کے لئے ایسی زمینیں بحور اور ردیفیں تلاش کر کے اپنا کمال دکھایا جن تک شعراء کی رسائی نہیں تھی مقصد محض یہ تھا کہ وہ اپنے حریفوں پر چھا جائیں۔ ذوق چونکہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے اس لئے ان کے حریفوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ انھیں حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے ذوق نے قصیدہ اور ان میں ایسی ایسی صنعتیں استعمال کیں جن کا استعمال ہرکس وناکس کے بس کا روگ نہ تھا۔ ان کا قصیدہ نکال لیجئے اور اس میں سے کسی بھی شعر کا انتخاب کر لیجئے کوئی نہ کوئی صنعت اس میں ضرور ملے گی۔ ذوق کے ہاں روانی بے حد ہے لیکن معنویت نسبتاً کم اور پھر ذوق نے اپنے قصائد میں مدح کرتے ہوئے اس قدر غلوسے کام لیا کہ مذہبی اعتبار سے قابل اعتراض حدوں تک داخل ہو گئے۔ ایک قصیدہ کا حسن مطلع یہ ہے۔
یوں کرسی زر پر ہے تری جلوہ نمائی
جس طرح سے مصحف ہو سر رحل طلائی
ذوق کے قصائد میں جہاں ان کی زبان دانی کا ثبوت ملتا ہے وہیں ان کی مختلف علوم سے واقفیت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ذوق کے قصیدہ ’’زہے نشاط اگر کیجئے اسے تحریر‘‘ میں ایک جگہ حمل اور حوت کا تذکرہ ملتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں علم نجوم سے بھی لگاؤ تھا۔
حمل سے حوت تلک جا ملی ہیں تصویریں
مضامین حکمت و طب، فلسفہ و منطق، موسیقی غرض کوئی میدان ایسانظر نہیں آتا جہاں وہ بندر ہے ہوں۔ اور لطف یہ ہے کہ ذوق ان علوم کی اصطلاحات کے برجستہ استعمال سے شعر کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ذوق کی زمینیں سنگلاخ ضرور ہیں لیکن رواں اور شگفتہ بحور استعمال کی گئی ہیں۔ اور ترنم وموسیقیت نے شعر کو نیا لباس دیا ہے۔ ذوق الفاظ کے انتخاب میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اور اچھوتی ترکیبوں کو استعمال کرنے میں انھیں ملکہ حاصل ہے۔ انھوں نے غیر مادی اشیا کو مشخص کر کے بھی ایک عجیب سامنظر پیدا کیا ہے۔ اسی قصیدہ میں ایک جگہ کہتے ہیں
کہ ہے ہجوم نشاط وسرورجم غفیر
ایک اور قصیدہ میں لکھتے ہیں کہ
’’ہوں دیکھ غرق حیا نور سحر رنگ شفق‘‘
موسیقی سے ان کو لگاؤ تھا اور وہ موسیقی کی اصطلاحات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ان اصطلاحات کا استعمال بھی انھوں نے اپنے قصائد میں جا بجا کیا ہے۔
’’نفس کے تارسے آواز خوشتر از بم وزیر‘‘
ایک اور قصیدہ میں لکھتے ہیں۔
اس قدر ساز طرب ساز کی آواز بلند
چھیڑیں گر تار کھرج کا تو ہو پیدا دھیوت
طرب، کھرج اور دھیوت موسیقی کی خاص اصطلاحیں ہیں۔ اسی قصیدہ میں ایک شعر یہ ہے۔
لے کے انگڑائی کہیں ہنسنے لگی رام کلی
اٹھی ملتی ہوئی آنکھوں کو کہیں اپنی للت
رام کلی اور للت یہ دونوں راگنیوں کے نام ہیں۔
ایک قصیدہ میں ذوق نے مختلف میدانوں میں اپنی دسترس کے بارے میں تقریباً ۵۰ اشعار میں اظہار کیا ہے۔ اس قصیدہ کا مطلع یہ ہے۔
شب کو میں اپنے سربستر خواب راحت
نشۂ علم میں سرمست غرور نخوت
اور اپنی معلومات کا اظہار کرتے ہوئے آخر میں یوں لکھتے ہیں۔
فائدہ کیا جو ہر اک علم کی جانی تعریف
فائدہ کیا جو ہر ایک فن کی کھلی ماہیت
ذوق نے تقریباً ہر قصیدہ میں یہی رویہ رکھا ہے۔ وہ مشاقانہ انداز میں اصطلاحات کا انبار لگاتے چلے جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اس فن میں کامل ہیں۔
محمد حسین آزاد لکھتے ہیں
’’تاریخ کا ذکر آئے تو وہ اک صاحب نظر مؤرخ تھے۔ تفسیر کا ذکر آئے تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا تفسیرکبیر دیکھ کر اٹھے ہیں۔ خصوصاً تصوف میں ایک خاص شغف تھا۔ جب تقریر کرتے ، یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی یا با یزید بسطامی بول رہے ہیں …… رمل و نجوم کا ذکر آئے تو وہ نجومی تھے……
ذوق نے صحت یابی پر جو قصائد لکھے ہیں ان میں صحت یابی کی رعایت سے موسم کی معتدل کیفیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن ان کے بہاریہ مضامین میں مبالغہ بہت زیادہ ہے۔ اور تخیل کا رنگ اس حد تک غالب ہے کہ کبھی کبھی طبع نازک کو ناگوار گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی وہ صوفی بن کر تصوف کا درس دیتے ہیں تو کبھی درویش بن کر ترک دنیا و ترک عیش کی تلقین کرتے ہیں ….اور کہیں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر کے عشق و نشاط پر اکساتے ہیں …….! ان کے قصائد کا مطمح نظر محض یہ ہوتا تھا کہ ہر ممکنہ انداز سے ممدوح کی مدح کی جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی علمیت کی دھاک بیٹھائی جائے۔ اس میں وہ اکثر بے اعتدالیوں کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ لیکن پر شکوہ الفاظ اور تراکیب کے طلسم نے ان خامیوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔
قصیدہ میں سب سے زیادہ نازک مقام گریز ہے۔ ذوق نے گریز کے موقعوں پر اپنی مہارت کا بے پناہ ثبوت بہم پہنچایا۔ وہ اس خوبی سے بہاریہ سے مدح کی طرف پلٹتے ہیں کہ بے ساختگی محسوس ہوتی ہے۔ ’’زہے نشاط……..‘‘ میں وہ اس طرح گریز کرتے ہیں۔
شمیم عیش سے ہے یہ زمانہ عطر آگیں
کہ قرض عنبر اگر ہے زمیں تو گرد عبیر
اور پھر ہجوم نشاط اور عیش و عشرت کا تذکرہ کرتے ہوئے غسل صحت پر آتے ہیں
’’دیا ہے رنج کو دھو تیرے غسل صحت نے‘‘
ذوق اپنے قصائد میں مضمون آفرینی کو خاص اہمیت دیتے ہیں حسن تعلیل، تلمیحات، تشبیہوں اور استعارات کے ذریعے مضمون کو بلند کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے۔ ان کے مضامین تنوع بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا دائرہ سودا کی طرح ہمہ گیر اور وسیع نہیں۔ ذوق کے قصیدوں کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ سودا کی طرح ان کے قصائد میں ملکی و معاشرتی حالات کا پتہ نہیں چلتا۔ بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عیش و عشرت کا بازار گرم ہے اور ممدوح سے زیادہ بہادر، حسین، علم، سخی اور کوئی نہیں ….. جس کی وجہ سے تصنع کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے …. لیکن ان کی بلند آہنگی، ذہنی اپج، طباعی، تخیل کی ندرت، طرز ادا کی تازگی ان عیوب کو چھپا لیتی ہے۔
ڈاکٹر ابو محمد سحر لکھتے ہیں۔
’’ذوق کا فن تقلیدی ہونے کے باوجود صناعی اور فنکاری کا ایک کامیاب نمونہ ہے۔‘‘
ذوق کے قصائد ان کی پر گوئی اور زبان و بیان پر قدرت کا اظہار ہیں۔ سودا کی پیروی کرنے کے باوجود ان میں سودا کی خصوصیات نہیں ہیں۔ البتہ انہیں سودا کے بعد کے درجہ کا قصیدہ نگار کہا جا سکتا ہے……..!!!
———————٭٭———————