جب پہلی بار اس پر میری نظر پڑی تو وہ صوفے پر بیٹھا بہت تحمل سے کسی کی بات سن رہا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ وہ متوجہ تو ہے لیکن سن نہیں رہا۔ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی اس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ وہ کچھ ایسا ترچھا بیٹھا تھا کہ اس کی شکل بھی پوری طرح نظر نہیں آئی لیکن اس ادھورے رخ میں بھی وہ اتنا پر کشش لگا اور کچھ ایسی اپنائیت محسوس ہوئی کہ میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ اس افطار میں کوئی پچیس کے قریب لوگ موجود تھے۔ میں کھانے کے کمرے میں ایک ہاتھ میں شربت کا گلاس اور دوسرے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ تھامے کھڑا تھا۔ روزہ افطار کرنے سے سوکھے حلق تر کیا ہوئے گرمیِ بازار بڑھ گئی، باہمی بیزاری یگانگت میں بدل گئی۔ بھوک انسان کے جذبات اور تعلقات کی نوعیت متعین کرتی ہے۔ ا ب ہر شخص محوِ گفتگو نظر آ رہا تھا۔
میں بڑھتے بڑھتے صوفے کے نزدیک پہنچا تو وہ سننا ختم کر کے اب بہت سنجیدگی لیکن شائستگی سے تین چار لوگوں کی توجہ حاصل کئے بول رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ موضوعِ گفتگو سچائی ہے ؛
’ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ سے سچے ہوں ‘ اتنی بڑی سچائی وہ کتنی آسانی اور روانی سے بیان کر رہا تھا شاید اسی لئے لوگوں کی توجہ قائم تھی۔ ’ آپ کے افعال کو مختلف لوگ مختلف معنی ٰ دے سکتے ہیں لیکن یہ فعل کس نیت سے کیا گیا ہے یہ تو صرف فاعل ہی بتا سکتا ہے۔ اگر انسان اپنے آپ سے سچا ہے تو اسے اپنی نیت، فعل اور اس کے نتیجے کا شعوری یا لا شعوری ادراک ضرور ہو گا‘۔ گفتگو بہت خشک مگر دلچسپ تھی، میں وہیں جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔ وہ میرا ہم عمر تھا۔ جسم فربہی کی طرف مائل، گندمی رنگت ناک پر عینک دھری تھی۔ شاید یہ اپنی ذات سے مشابہت تھی کہ وہ مجھے اتنا پرُ کشش لگا۔ یہ شاید خود پرستی کی سب سے نچلی سطح ہے۔
’ آدمی اپنے آپ سے سچا ہو بھی، لیکن بیرونی عوامل تو اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتے، لہذا نتیجے کا ادراک اسے کیسے ہو سکتا ہے ؟‘ میں نے اعتراض کیا
اس نے مجھے بغور دیکھا، آنکھوں میں دلچسپی ابھر آئی۔
’ آپ درست کہ رہے ہیں لیکن یہ ردِ عمل متوقع ردِ عمل سے مختلف ہو گا، لیکن متوقع اور اصل دونوں ردِ عمل کا ادراک تو ضرور ہو گا، مجھے اپنی بات کی پہلے ہی وضاحت کر دینی چاہئیے تھی، میرا مطلب متوقع ردِ عمل سے تھا‘۔
ہم لوگ مزید تقریباً ایک گھنٹا گفتگو کرتے رہے، ادھر ادھر کی بے ضرر سی گفتگوجس کا بظاہر کوئی معنیٰ و متن نہیں ہوتا لیکن حقیقتاً اس بے معنی گفتگو کے دوران کہیں مستقبل کے تعلقات کا زاویہ قائم ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن کے کسی گوشے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ یہ ملاقات یہیں ختم نہیں ہو گی بلکہ ہم دوبارہ ملیں گے اور بار بار ملیں گے۔
ہماری دوسری ملاقات میرے گھر پر ہوئی۔ وہ ایسی آسانی سے میرے ماحول میں گھل مل گیا جیسے یہ اس کے لئے بالکل اجنبی نہ ہو۔
’کیا کام کرتے ہیں آپ؟‘۔ کتنا بے ضرر عام سا سوال تھا اسکا۔ میری تمام گفتگو اس سوال سے کوسوں دور رہتی تھی۔ پھر بھی یہ خدشہ کہ کسی وقت یہ سوال ہو گا ضرور۔
’فی الحال تو کچھ نہیں کرتا۔ در اصل پاکستان سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرنے کے آٹھ مہینے بعد ہی یہاں امریکہ آ گیا تھا۔ شادی کے ذریعے گرین کارڈ مل رہا تھا تو یہ ہجرت بھی کر ڈالی۔ اپنی ایک سال کی انٹرن شپ بھی مکمل نہیں کی۔ اب یہاں بغیر ایک سال کی انٹرن شپ کے میں یہاں قانوناً ڈاکٹری بھی نہیں کر سکتا۔ یہاں کے سارے امتحان تو پاس کر لئے ہیں۔ لیکن کیوں کہ پاکستان میں صرف نو ماہ کی ہی انٹرن شپ کی تھی، جس کا سرٹیفیکٹ بھی موجود ہے، لیکن صرف تین ماہ کی کمی کی وجہ سے معاملہ الجھ گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں ؟‘
’ہوں ‘ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس کا لہجہ معنی خیز ہو گیا ہے، لیکن مجھے برا نہیں لگا۔ میں اس سے کتنی آسانی سے دل کی بات کہہ گیا۔ حالانکہ یہ ایسی دکھتی رگ تھی کہ جسے میں بہت کم لوگوں کے سامنے عریاں کرتا تھا۔
’تو پھر آپ نے کیا سوچا ہے ‘ اس نے صوفے پر ذرا آگے ہو کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
’کیا سوچوں، ایک سال کی انٹرن شپ تو یہاں کی بنیادی شرط ہے، جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہی ممکن ہے کہ طب سے متعلق کسی اور شعبے میں کام کروں، ڈاکٹری تو یہاں یہ نہیں کرنے دیں گے۔ ‘
’کوئی طریقہ تو ہو گا؟‘ وہ نجانے کیا پوچھنا چاہ رہا تھا۔
’نہیں، اور کوئی طریقہ نہیں ‘ میں نے قطعیت سے جواب دیا۔
’اور آپ بتائیے، آپ کے کیا مشاغل ہیں ‘ میں نے گفتگو کا رخ اپنی طرف سے پھیرنے کی کوشش کی۔
’ارے صاحب، میں بھی اتفاق سے شعبۂ طب سے ہی متعلق ہوں، بس ڈاکٹر نہیں ہوں ‘۔ اس نے زیادہ تفصیل نہیں بتائی تو میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ بس ایک عجیب سا احساس ہوا جسے میں کوئی نام نہ دے سکا۔
اس کے جانے کے بعد بیوی نے آڑے ہاتھ لیا۔
’جب وہ پوچھ رہے تھے کہ کوئی اور طریقہ ہے کیا تو بتایا کیوں نہیں ؟‘ اس نے غصے سے میرا راستہ روکا
’تم ہماری باتیں سن رہی تھیں ‘ امریکہ آنے کے بعد سے مجھے غصہ بہت جلد آنے لگا تھا۔
’باتیں نہیں سن رہی تھی۔ ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں باتیں سننے کی ضرورت نہیں ہوتی، باتیں نہ سننے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ منہ سے ادا ہونے والا ہر لفظ بند کمرے کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر نقارۂ خدا بن جاتا ہے۔
یہ ایک کمرے کا اپارٹمنٹ مجھے دن میں کئی مرتبہ یاد دلایا جاتا۔ میرے دوسرے کئی دوست جوڈاکٹر تھے بہت آسائش کی زندگی گزار رہے تھے۔ بس میں ہی اس جنجال میں گرفتار تھا۔
’انہیں بتایا کیوں نہیں کہ دوسرا طریقہ ہے مگر خود ساختہ اصولوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ‘ بیوی کی آواز میں طنز بھی تھا، شکایت بھی۔ میرا کڑا رویہ اسے کسی وقت بھی رلا سکتا تھا۔ میں جہاں اپنی مدافعت میں غصہ ور ہو گیا تھا، وہ روہانسی رہنے لگی تھی۔
’کیا بتاتا، کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک جھوٹا سرٹیفیکٹ بنوا لاؤں پاکستان سے ؟‘یہ بحث اتنی بار ہو چکی تھی کہ مجھے دونوں جانب کے دلائل زبانی یاد تھے۔
’نہیں آپ کیوں دوسرا سرٹیفیکٹ بنوا کر لائیں۔ ہم لوگ جو ہیں قربانی دینے کے لئے۔ ایک کمرے کا اپارٹمنٹ، باوا آدم کے زمانے کی گاڑی۔ کوئی نئے کپڑے بنوائے سالوں ہو جاتے ہیں۔ اسکول کے جونئیر اسسٹنٹ کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے کہ اس سے میں یہ گھر چلاؤں۔ آپ کبھی پٹرول پمپ یا ڈالر شاپ پر کام کر کے کچھ پیسے بنا لیتے ہیں، مگر اس سے کہاں کام چل سکتا ہے۔ شرم نہیں آئی ڈاکٹر ہو کر یہ کام کرتے ہوئے ؟‘
’زیادہ شرم کی کیا بات ہے، کسی کے پٹرول پمپ پر گاڑیوں میں پٹرول بھرکے ایمانداری کی روزی کمانا، یا جھوٹے سرٹیفیکٹ کے سہارے دوبارہ اپنے کیرئیر کا آغاز‘۔ یہ بحث شادی کے چند ماہ ہی شروع ہو گئی تھی اور اب اس کی عمر پورے دو برس کی ہو چکی تھی۔ ’میرا ضمیر نہیں مانتا۔ ایک دفعہ یہ بے ایمانی شروع ہو گئی تو کہاں جا کر رکے گی؟‘ میں کوٹ اٹھا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ عموماً تو گھر میں عافیت ملتی ہے لیکن زندگی میں اکثر ایسے دورا ہے بھی آتے ہیں جب عافیت گھر کے باہر نصیب ہو تی ہے۔
میری اس سے اگلی ملاقات بس اتفاقیہ ہی ہو گئی۔ میں نیچے اسٹال پر کھڑا اخبار کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ وہ آ گیا۔ اخبار خریدنا ایک غیر ضروری خرچہ تھا جس سے بچنے کا طریقہ یہی اپنا یا تھا کہ اسٹال پر کھڑے کھڑے ہی چند منٹوں میں سرخیاں پڑھ لیں۔
’میں یہاں سے گزر رہا تھا آپ کو دیکھا تو رک گیا‘ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا۔
’بہت اچھا کیا‘ اس سے دوبارہ مل کر مجھے واقعی خوشی ہوئی تھی۔
’چلئیے کہیں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں ‘
’یہ چائے میری طرف سے ہو گی‘ شاید میری ہچکچاہٹ سے وہ کچھ اور سمجھ بیٹھا تھا۔
’یہ ہجرت بعض دفعہ بہت قربانیاں مانگتی ہے۔ سہولتیں ایسے ہی بے قیمت نہیں ملتیں، بڑا خراج دینا پڑتا ہے ‘ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’مجھے کیا بتا رہے ہو، میں تو روز اسے جی رہا ہوں ‘ میرے لہجے میں تلخی گھل آئی۔
‘مجھے یقین آپ ایک بڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ آپ کے ساتھی دوسرے ڈاکٹر سب پریکٹس کر رہے ہیں، اس سے یقیناً بہت ذہنی کوفت ہوتی ہو گی۔ ‘ کچھ دن پہلے تک میں اس موضوع پر بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن شاید مجھے خوشی ہوئی کہ اس نے یہ موضوع نکال لیا۔
’ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں، پھر شریک حیات کا دباؤ الگ۔ ‘
’ہاں آدمی اکیلا تو نہیں جیتا۔ مرتا ضرور اکیلا ہے۔ لیکن آپ نے بہت ثابت قدمی سے اس صورتِ حال کا مقابلہ کیا ہے ‘۔
’کیا ثابت قدمی مفلسی سے بہتر ہے ؟‘
’لیکن آپ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ؟‘
’خیر کرنے کو شاید کچھ ہو تو سکتا ہے ‘ میرے لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔
’ارے واقعی، کچھ ہو سکتا ہے اس سلسلے میں ‘ وہ دلچسپی سے کرسی پر آگے سرک آیا۔ دونوں کہنیاں میز پر تھیں، چائے کی پیالی اس نے میز پر رکھ دی۔ اپنا چہرا ہاتھوں پر رکھے وہ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’بات در اصل یہ ہے کہ میری بیوی کے ماموں کا لاہور میں ایک پرائیوٹ ہسپتال ہے، اور وہ پچھلی تاریخوں میں مجھے پور ایک سال کا سرٹیفیکٹ دینے کو تیار ہیں، جس سے میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ‘ میں نے ذرا ہچکچاہٹ کے بعد اسے مسئلے کا حل کیسی روانی سے بتا دیا، حالانکہ یہ تذکرہ از خود کسی بد عنوانی سے کم نہیں۔
’ارے واقعی۔ تو پھر آپ نے کیا سوچا؟‘اس کے جسم کے کسی حصے میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی، آنکھیں آنکھوں میں ڈالے، نجانے لب بھی ہلے تھا یا نہیں۔ میرا خیال تھا کہ میری بات سن کر وہ کچھ سوچے گا، پیچھے ہٹے گا، ناراض ہو گا، کوئی مشورہ دے گا۔ وہ تو بدستور چہرے پر نظریں گاڑے بت بنا مجھے دیکھ رہا تھا۔
’میں نے کیا سوچا ہے ؟ میرے حالات آپ نے دیکھ ہی لئے ہیں۔ اگر میں جعلی سرٹیفیکٹ بنوا لیتا تو دو سال پہلے ہی اس پل کو عبور کر لیتا۔ مگر میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں فریب سے کام لوں ‘ دیکھیں میرا لہجہ پھر تلخ ہو گیا۔
’مجھے آپ سے یہی امید تھی، میں یہی سننا چاہتا تھا‘ اس کی آواز میں جوش تھا، تعریف تھی۔ ’ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس کے لئے بہت صبر چاہئیے، اپنی ذات پر یقین، سچائی پر یقین۔ آپ جھوٹے سرٹیفیکٹ سے دوسروں کو دھوکہ دے بھی دیں، لیکن خود سے کیسے جھوٹ بولیں گے ‘۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میز پر رکھے میرے ہاتھوں کو تھپتھپایا۔ میرے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اندر کہیں دل کے نہاں خانے میں مجھے امید تھی کہ اس کا مشورہ اس کے بر عکس ہو گا۔ وہ کہے گا ’رہنے دیجئیے یہ دقیانوسی باتیں۔ ایک ذرا سے سرٹیفیکٹ سے اتنا فرق پڑ رہا ہے تو بنوا کیوں نہیں لیتے وہ سرٹیفیکٹ۔ اگر مقصد نیک ہو تو اس تک پہنچنے کے راستے غیر اہم ہو جاتے ہیں ‘۔ مگر اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ میری مشکل آسان کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’کوئی نہ کوئی طریقہ نکل آئے گا، میں بھی ذہن میں رکھوں گا ‘ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں اٹھ آیا۔ یہ کیا ذہن میں رکھے گا۔ ایک آدمی کے لئے قانون بدلوا دے گا۔ لیکن میری تسلی کا اسے پاس ہے، اچھا دوست ہے یہ میرا۔
گھر پہنچنے تک میرا موڈ پھر بحال ہو چکا تھا۔ ایک اجنبی شخص کتنی تیزی سے میرے قریب آ گیا تھا۔ مگر اہم بات یہ تھی کہ اس نے روایتی آسانی کے بجائے مشکل راستہ چنا تھا۔ مجھے میری ذمہ داریوں کا واسطہ نہیں دیا تھا۔ اور میری طرزِ عمل سے متاثر ہوا تھا میں ایک جھوٹے سرٹیفیکٹ کے سہارے زندگی نہیں گزار رہا۔ ہم میں سے کتنے لوگ کسی نہ کسی معنی میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں ؟ایک دفعہ سلسلہ شروع ہو جائے تو قدم قدم پر جھوٹے سرٹیفیکٹ آپ کے لئے دروازے کھول سکتے ہیں، آسانیاں فراہم کر سکتے ہیں، کچھ سالوں میں آپ بھول جائیں گے کہ آپ کا سرٹیفیکٹ جھوٹا ہے۔
گھر پہنچا تو بیوی بستر میں لیٹی تھی۔ میرا ما تھا ٹھنکا۔ جب معاملات زیادہ خراب ہو جائیں تو وہ نیک بخت بستر پر لیٹ کر چادر سر پر اوڑھ لیتی۔ آج بھی یہی منظر تھا۔ آثار اچھے نہیں تھے۔ میں بلا وجہ چیزیں ادھر ادھر اٹھاتا پٹختا رہا۔ مجھے معلوم تھا وہ جاگ رہی ہے، اسے علم تھا میں آ گیا ہوں۔ آخر ہار مان کر میں بہت پیار سے اس کے برابر میں بیٹھ گیا، اور چادر اس کے منہ پر سے ہٹا کر پوچھا:
’کیا ہوا؟‘
اس کے آنسو رواں تھے۔ وہ مجھ سے لڑی بھی نہیں، دیکھتی رہی، بس دیکھتی رہی اور روتی رہی۔
’بھئی بتاؤ تو کیا ہوا، پاکستان میں تو سب خیریت ہے ؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر اسے جھنجھوڑا۔ منہ سے کچھ نہ بولی صرف اشارے سے ڈاک کی طرف متوجہ کیا جو اس کے سرہانے رکھی تھی۔ سب سے اوپر شاید کوئی بینک کا خط تھا جو کھلا ہوا تھا، اس سے نیچے کے لفافے ابھی کھولے نہیں گئے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ بینک کے خط میں کیا ہو گا، دو مہینے سے گھر کے قرض کی قسط نہیں گئی تھی، اس قسم کا خط تو جلد یا بدیر آنا ہی تھا۔ اس خط میں دو ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ اب تک کی قسطیں ادا کی جائیں ورنہ مکان قرق ہو جائے گا۔ اس تحریر نے میری ساری دفاعی فصیلیں منہدم کر دیں۔
’اب کیا کریں ‘ میں نے نیک بخت سے آنکھیں ملائے بغیر پوچھا۔
’کرنا کیا ہے، میں اسکول میں اسسٹنٹ رہوں گی، آپ پٹرول پمپ پر کسی موٹے یہودی کی ملازمت کریں گے، جب شام ہو جائے گی تو وہیں کسی دیوار کے سہارے بیٹھ جائیں گے کہ اپنی چھت تو چھن چکی ہو گی‘، اس کے لہجے میں شکست خوردگی تھی، غضب کی کاٹ تھی یا مجھے اسی کی امید تھی۔
’خدا کے لئے، یہ وقت ان جلی کٹی باتوں کا نہیں، اب کیا کریں ؟‘۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ خود ایک بار پھر وہی رستہ دکھائے جس پر چلنے سے میں ابھی تک انکاری تھا، وہ زور دے اور میں ہار جاؤں۔ میری انا میری شکست ماننے میں آڑے تھی۔ اس نے مجھے مایوس نہیں کیا:
’کیا کہوں، کیا حل بتاؤں۔ ہم ہزار مرتبہ یہ بات کر چکے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، میرے ماموں نے کتنی بار کہا ہے چوبیس گھنٹے میں سرٹیفیکٹ آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔ آپ کو جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تو ڈاکٹروں کی اتنی کمی ہے، ایک دفعہ آپ قانونی ضروریات پوری کر لیں پھر اس قسم کے خطوط آنا بند ہو جائیں گے ‘۔ خلافِ امید مجھے خاموش دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھا۔
’آپ نے اپنی سی پوری کوشش کر لی۔ آپ کی نیت تو اچھی تھی۔ اور میں نے ہی کیا آپ نے خود مجھ سے زیادہ تکالیف اٹھائی ہیں۔ آپ کو پٹرول پمپ پر سردی کی راتوں میں کام کرتے دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شروع ہی سے یہ کام کر رہے ہوتے تو مجھے کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ لیکن معاشی سیڑھی چڑنا اتنا دشوار نہیں ہوتا جتنا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ میں ماموں سے خود بات کر لوں گی، آپ کو بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کسی کو تفصیل بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ آپ اب تک یہاں ڈاکٹری کیوں نہیں کر رہے ؟‘میرا دفاع کمزور دیکھا تو وہ پے در پے حملے کرنے لگی۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکہ اور دو۔ اس نے میری جرح کو زباں بند دیکھا تو فون کا چونگا اٹھا کر کان سے لگا لیا۔ ’کر ہی ہوں میں فون‘ اس کی آنکھوں میں مستقبل کی چمک تھی۔ یہ منظر ہمارے گھر کئی بار دہرایا جا چکا تھا۔ ہر بار میں فون اس کے ہاتھ سے لے کر کریڈل پر پٹخ دیا کرتا تھا ’پاگل ہوئی ہو کیا‘۔ مگر اس بار زبان نے دل کا ساتھ چھوڑ یا ’جو جی میں آئے کرو‘ مجھے اپنی آواز آئی اور میں کمرے سے نکل گیا۔ نیک بخت نے فوراً وہی کیا جو ایک عرصے سے اس کے جی میں آ رہا تھا۔ باورچی خانے میں اس کی پر جوش گفتگو کی آواز آ رہی تھی۔ میرے کندھے جھک گئے تھے مگر اس کی امیدیں جوان ہو گئی تھیں۔ مجھے کیا حق تھا کہ میں اپنے خود ساختہ فلسفے کے لئے ان سب کی زندگیاں ضیق کروں۔ رات ہونے سے پہلے سرٹیفیکٹ فیکس ہو کر آ چکا تھا۔ اب نیک بخت کا رویہ بالکل بدل چکا تھا۔ اب ہم ایک اکائی ہو کر اس جنگ میں اتر رہے تھے۔ اسی رات اس نے میرے لائسنس کے کاغذات بھر دئیے۔ ایک مہینے میں لائسنس بن کر آ جائے گا، پھر ڈاکٹری شروع ہونے میں چند ماہ۔ اس استفسار میں امید جھانک رہی تھی۔
‘‘ایک دفعہ لائسنس آ بھی جائے تو بھی ڈاکٹری شروع ہونے میں دو تین ماہ تو لگ ہی جائیں گے‘‘۔
‘‘ یہ کوئی ایسی فکر کی بات نہیں۔ ایک مرتبہ نوکری کا پرچہ آ جائے تو بینک سے مہلت مل جائے گی۔ بینک کو اپنے قرضے کی واپسی سے دلچسپی ہے، خالی مکان قرق کر کے بینک کیا کرے گا، وہ یقیناً مہلت دیں گے۔ ‘‘ اس کے یقین نے میری شام بھی روشن کر دی۔
اس سے میری آخری ملاقات اس کے گھر پر ہوئی۔ سرٹیفیکٹ ملنے کے کوئی دس دن بعد اس کا فون آیا۔ اس نے مجھے گھر پر آنے کی دعوت دی۔ میں خود بھی اس کا گھر دیکھنے کے لئے بے چین تھا، فوراً حامی بھر لی۔ نوکری کی امید نے میرے اعتماد میں اضافہ کر دیا تھا۔ میں نے سرٹیفیکٹ منگوانے کے مسئلے پر اپنے آپ کو قائل کر لیا تھا، یقین دلا لیا تھا کہ میرا فیصلہ صائب ہے۔ بلکہ حیرت تھی کہ اب تک میں ایسا ا بیوقوف کیوں تھا۔
’آئیے، آئیے جناب‘ اس نے تپاک سے دروازہ کھلو کر کہا۔ میرے چہرے کا اطمینان اس سے زیادہ دیر چھپا نہیں رہ سکا۔
’خیریت تو ہے، آپ بہت پر سکون اور مطمئن ہیں۔ بہت اچھی بات ہے بھئی، آپ نے ان حالات میں بھی خوش رہنا سیکھ لیا ہے۔ ‘
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیسے بتاؤں۔ اتنے کم عرصے میں اس کے بہت قریب آ گیا تھا۔ جس شخص نے میری اصول پرستی کی اتنی تعریف کی تھی اسے کیسے بتاؤں کہ وہ اصول میں نے توڑ ڈالے ہیں۔
’وہ در اصل‘ میں ہچکچایا۔ گفتگو میں ایک وقفہ سا آ گیا تھا۔ وہ خود منہ سے کچھ نہ بولا۔ بول دیتا تو اچھا تھا۔
’در اصل نوکری نہ ہونے سے حالات اتنے دگرگوں ہو گئے تھے کہ قرقی کا نوٹس آ گیا تھا‘ میں نے وجوہات کے پیچھے پناہ ڈھونڈی۔ یقیناً اس اطلاع کے بعد وہ میری مجبوری سمجھ سکے گا۔ وہ پھر بھی کچھ نہ بولا، بس ہمہ تن گوش رہا، یہ سننے والے اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں، خود سے کیوں نہیں سمجھ جاتے۔ اس کے چہرے پر خوف اور کرب کے آثار نمودار ہو رہے تھے، گویا اسے معلوم تھا کہ اگلا جملہ کیا ہے۔
’میری بیوی نے اپنے ماموں کو فون کر کے ان سے سرٹیفیکٹ منگوا لیا، میں نے تو بہت منع کیا۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے، دو تین ماہ میں انشاء اللہ ملازمت شروع ہو سکتی ہے ‘۔
’انشاء اللہ مت کہو‘ اس کا چہرا سفید پڑ گیا’ میں ہار گیا، تم نے مجھے ہرا دیا۔ تم ہار گئے ہو، تم نے مجھے کھو دیا‘ وہ نفرت سے مجھے گھور رہا تھا۔ پہلی بار مجھے اس سے گھبراہٹ ہونے لگی، پھر میں چڑ گیا۔ دوسروں کے مقبرے میں نیکی کی تلاش کتنا آسان ہے۔ اسے کیا، میرے حالات سے گزرتا تو پتہ چلتا۔
’نکل جاؤ میرے گھر سے، ‘ وہ غضبناک ہو کر کھڑا ہو گیا۔ ’یہاں سے اب تمھارا تعلق ختم ہو گیا، نکل جاؤ اور یہ لفافہ لیتے جاؤ، آئندہ میری شکل بھی دیکھنے کی کوشش نہ کرنا‘ اس نے ایک لفافہ میری مٹھی میں ٹھونس کر اس زور سے مٹھی بند کی کہ میرے ہاتھ میں درد ہونے لگا۔ اس نے تقریباً دھکہ دے کر مجھے باہر نکالا اور زور سے میرے پیچھے دروازہ بند کر لیا، دروازہ بند کرنے سے ہوا کا ایسا دباؤ آیا کہ میں اس کے گھر کے باہر لڑکھڑا کے گر پڑا۔ خود کو سنبھال کر میں نے اس کے دئیے ہوئے لفافے کو کھولا تو اندر ایک خط ملا۔ نیویارک کے ایک ہسپتال نے اس شرط پر مجھے نوکری دی تھی کہ میں پہلے تین ماہ ان کے پاس انٹرنشپ کر لوں۔ اس طرح پاکستان میں ٹریننگ کی کمی یہاں پوری ہو جائے گی۔ ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر کی طرف سے نوکری کا پروانہ تھا، اس پر ایک چٹ بھی لگی تھی۔ عموماً ہم ایسا نہیں کرتے، لیکن ان صاحب کی سفارش بھی نہیں ٹال سکتے۔ ہسپتال کے فنڈ میں خطیر رقمیں جمع کرانے کے باوجود انہوں نے ہم سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا، انہوں نے آپ کی بہت تعریف کی ہے اور ان کی سفارش ٹالنا ہسپتال کے بس میں نہیں۔
میں نے وہ خط جیب میں رکھا، لگا میری پتلون اچانک لمبی ہو گئی ہے، اور جوتے میرے پیروں میں بڑے ہو گئے ہیں۔ خط جیب میں ڈالے میں تھکے تھکے قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ پھر جانے کیا خیال آیا، خط نکال کر پرزے پرزے کر دیا، ہنہ کیسا بھولا آدمی ہے، میں نے پرزے ہوا میں اڑا دئیے اور ہنس پڑا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...