کھا پی کر وہ واپس گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ آدھے سے زیادہ راستے تک وہ عثمان کی کار میں آئے پھر پیدل چلنے لگیں۔ اسے آج جیسا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے بھی زوہیب پسند ہے یا نہیں لیکن آج کا دن اس کے لیے بہت یادگار رہے گا اتنا یقین ضرور تھا۔
وہ دونوں گھر کے اندر داخل ہوئی تو ستارہ لان میں کرسی پر بیٹھی نظر آئی۔ انہیں آتا دیکھ کر وہ طیش میں آگئی۔
ستارہ:” کہاں گئیں تھیں مجھے چھوڑ کر” اس نے انہیں لاؤنج کے دروازے پر ہی روک کے غضب سے پوچھا۔
مسکان:” ویسے ہی گھومنے پھرنے گئے تھے۔ آپ محترمہ تو سو رہی تھی نا”۔ وہ مڑ کر لان میں آئی اور ستارہ کو گلے لگا کر گال پر kiss کر کے بتی سی دکھا کے کہا۔
ستارہ کا موڈ اب بھی خراب تھا وہ ناک پھلاتی اندر چلی گئی۔ کومل بھی اپنے گھر چلی گئی اور وہ کچھ دیر آرام کرنے بیڈروم میں آگئی۔ فریش ہونے کے بعد وہ آئینہ میں خود کو سراہتے ہوئے زوہیب کی باتیں یاد کر رہی تھی
(تم مجھے بہت پسند ہو) وہ مسکرانے لگی
(تمہارے بال بہت خوبصورت ہے) وہ اپنے کمر تک آتے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
(میں بہت straightforward انسان ہوں میرے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو طریقہ مناسب لگے میں وہ بات کہہ دیتا ہوں) وہ قدم قدم چلتی بیڈ تک آئی۔
(پتہ نہیں کیوں پر تم سے الگ سا لگاو ہوگیا ہے) وہ بیڈ پر کروٹ لیئے لیٹی۔
(کالج بھی میں تم سے ملنے آیا تھا) وہ بلش کرنے لگی۔
(لگتا ہے کہ میں تمہیں پسند نہیں ہوں)۔ اسے اب اپنے ہڑبڑانے پر ندامت محسوس ہوئی۔۔۔ وہ اففف کہتی اپنے آپ پر ہنسنے لگی۔
(میرا نمبر کیوں سیف نہیں کیا) یہ خیال آتے ہی اس نے موبائل اٹھایا اور زوہیب کا نمبر تلاش کرنے لگی اور اسے مل بھی گیا تھا۔ نمبر سیف کر کے وہ لاؤنج میں چلی گئی۔
****************
زوہیب بھی خوشگوار موڈ میں گھر پہنچا اور رات تک فیملی کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مشغول رہا۔
سونے کے لیے روم میں آکے اس نے موبائل دیکھا تو مسکان کی WhatsApp info نمایاں ہوگئی تھی۔ زوہیب کو جیسے بات کرنے کا اجازت نامہ ہو مل گیا ہو۔
زوہیب:” thanks ” اس نے بہت خوش دلی سے میسج بھیجا۔
مسکان:”welcome ” زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا مسکان کا جواب موصول ہوگیا تھا۔
صبح تک ستارہ اور زوہیب کو لیں کر اس کے دل میں جو خدشات تھے وہ اب ختم ہوچکے تھے۔
**************
باتوں کا سلسلہ اسی طرح شروع ہوا وہ ہر وقت موبائل پر لگی ہوتی۔ ستارہ کے ساتھ بھی وقت گزارنا کم کر دیا تھا۔ زوہیب کو جب بھی فارغ وقت ملتا وہ اسے کال ضرور کرتا اور 5 منٹ ہی سہی مگر وہ بات ضرور کرتا۔ مسکان کو زوہیب کا یوں اسے اہمیت دینا اس کی فکر کرنا اچھا لگتا۔ گو کہ اب تک دونوں میں سے کسی نے اظہار محبت نہیں کیا تھا پھر بھی زوہیب اسے پیار بھرے القابات سے مخاطب کرتا۔ مسکان کے دل میں اس کے لیے جذبات بڑھنے لگے تھے۔
دن جیسے جیسے گزر رہے تھے شادی کی تیاریاں بھی عروج پر تھی۔
مسکان:” بھائی وہ کونے والا سرخ رنگ دیکھائے۔”
وہ اس وقت امی کے ساتھ اپنے لئے ڈریس لینے گئی ہوئی تھی اور یہ ساتھویں دکان تھی جہاں اسے اب تک کچھ پسند نہیں آیا تھا۔ دکاندار بھی آدھی سے زیادہ دکان ڈھیر کر کے بیزار ہو چکا تھا۔
دکاندار:” میڈم یہ ہمارے شاپ کی سب سے بیسٹ ورائٹی ہے” وہ اب ایک اور جوڑا کندھے پر ڈالے اس کے سامنے خوبیاں گنوا رہا تھا۔
مسکان:”نہیں یہ ویسا سرخ رنگ نہیں ہے جیسا میں چاہتی ہوں”
اس نے مایوسی سے کہا۔
امی:” کوئی اور دیکھ لو ضروری تھوڑی ہے سرخ پہننا” امی نے اضطرابی کیفیت میں اسے جھڑکا۔
دکاندار:” میڈم میرے پاس جنتے بھی سرخ رنگ کے تھے سب دیکھا دیئے کوئی دوسرا رنگ دکھاوں کیا؟” اس نے ایک اور کوشش کی۔
وہ مایوسی سے آس پاس بکھرے کپڑوں کے ڈھیر کو دیکھنے لگی۔
(زوہیب:” شادی کے لئے ڈریس لے لیا تم نے”
مسکان:” نہیں کل جا کے لینے کا سوچ رہی ہوں”
زوہیب:” red کلر میں لینا”
مسکان:” red کیوں ہم ساری کزنز تو گلابی بنائیں گی”
زوہیب:” نہیں تم سرخ لینا مجھے red کلر پسند ہے”
مسکان:” ھھھھھ سرخ تو دلہن پہنتی ہے نا میری شادی تھوڑی ہے”
زوہیب:” کوئی بات نہیں تم اپنی شادی میں گلابی پہن لینا سرخ ابھی بنوانا۔”
مسکان:” ھممممم سوچ کے بتاتی ہوں”
زوہیب:”میری خواہش ہے کہ تم red پہنو”
مسکان:” ٹھیک ہے red میں لوں گی”)
اس نے کل رات زوہیب کے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو یاد کرتے ہوئے پھر سے کپڑے دیکھے۔
مسکان:” زوہیب نے تو کہا تھا یہاں سے مل جائے گا اس دکان کا ایڈریس بھی اسی نے دیا تھا پر یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے” اس نے دل ہی دل میں سوچا اور وہاں سے روانہ ہوگئی۔
****************
زوہیب دن میں اپنے دوستوں سے ملنے یونیورسٹی گیا ہوا تھا۔ اپنے پرانے ڈیپارٹمنٹ کے کیفے میں بیٹھے ہنسی مذاق اور کھانے پینے میں مصروف تھے۔
” کیا یار زوہیب آج کل تم نظر ہی نہیں آتے ایسا لگتا ہے تیرے بھائی کی نہیں تیری شادی ہو”
سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔
زوہیب: “اپنی شادی میں اتنے کام نہیں کرنے پڑتے یار بھائی کے شادی میں زیادہ زمہ داریاں ہوتی ہیں۔” اس نے کھاتے ہوے کہا۔
“تیرے مزاج بدلے ہوئے لگ رہے ہیں کہیں کوئی لڑکی تو سیٹ نہیں کر لی۔” دوسرے دوست نے شرارتی انداز میں تبصرہ کیا۔
زوہیب:” ارے نہیں یار کیا بات کر رہے ہو ایسا کچھ نہیں ہے۔میں بلکل ویسا ہی ہوں” اس نے برا مان کر گلہ کیا
“ھھھ ناراض کیوں ہوتے ہو۔۔۔۔ ہم تو مذاق کر رہے تھے۔”
سب پھر سے ہنسنے لگے۔ اب گفتگو کا مرکز کوئی اور دوست تھا۔ شام تک وہ دوستوں کے ساتھ باہر رہا۔
******************
گھر پہنچ کر امی تو اس پر خاصی ناراض ہوئی۔
امی:” سارا دن فضول میں ضائع کرا دیا میرا۔ دن کے نکلے اور خالی ہاتھ لوٹے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا اس کو” انہوں نے صوفے پر تشریف رکھتے ہی کہا۔
حارث صاحب:” کوئی بات نہیں آپ اتنا غصہ نا کریں کل پسند کر لے گی۔” انہوں نے دفاعی انداز میں مسکان کی حمایت کی۔
وہ جو اداس بیٹھی بے دھیانی میں میز کو گھور رہی تھی بابا کے قریب کھسکی۔
مسکان:” دیکھے نا بابا امی صبح سے ڈانٹ رہی ہے” اس نے معصومانہ شکل بنائی۔
سائرہ بھابھی چائے لائی تو سب چائے پینے میں مصروف ہو گئے۔ بیگ میں موبائل کا میسج ٹیون بجا تو وہ اپنے چائے کا کپ اٹھائے بیڈروم میں آگئی۔
وہ میسج ٹائپ کر ہی رہی تھی کہ زوہیب کی کال آگئی۔
زوہیب:” hi beautiful کیسی ہو” زوہیب کی پھرتلی آواز سن کر اس کی اداسی میں کچھ کمی آئی۔
ابتدائی حال احوال پوچھنے پر زوہیب کو اس کے دل گرفتگی کا اندازہ ہو گیا۔
زوہیب:”کیا ہوا موڈ خراب ہے؟اس نے مسکان کی چپی کو محسوس کر کے پوچھا۔
وہ اس وقت کمرے میں شرٹ کے بٹن کھولتا موبائل کندھے اور کان کے بیچ دبائے بول رہا تھا۔
مسکان:” ہاں شاپنگ کے لئے گئی تھی لیکن کوئی اچھا ڈریس پسند نہیں آیا” اس نے افسوس سے کہا۔
زوہیب:”جہاں میں نے بھیجا تھا وہاں بھی نہیں ملا” اس نے حیرت انگیز طور پر سوال کیا۔
مسکان:” وہاں تو سارا سٹف دیکھا کوئی بھی اچھا نہیں تھا”
زوہیب:” کمال ہے وہاں تو ملنا چاہیے تھا۔ کس دکان پر گئی تھی۔ رائٹ سائیڈ پر؟”
مسکان:” ہممممم نہیں لیفٹ سائیڈ پر” اس نے شرم ساری سے کہا۔
زوہیب:” ھھھھ وہ دکان رائٹ سائیڈ پر ہے جانی آپ غلط دکان پر چلی گئی ہو۔
مسکان:” اوہ ۔۔۔۔۔ کل رائٹ سائیڈ والے دکان پر چلی جاوں گی”۔
زوہیب:” ہاں وہاں جاتے ہی مل جائے گا۔” اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
اسے دوبارہ ہدایت دے کر دونوں اب کسی اور موضوع پر بات کرنے لگے۔
*****************
صبح وہ کالج کے لیے تیار بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ اور امی سے آج پھر ساتھ چلنے کا کہہ رہی تھی۔
امی:”میں نہیں جاوں گی تمہارے ساتھ پھر میرا دن ضائع کرواو گی کل بھی بیکار خوار کیا تھا۔” انہوں نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوئے کہا۔
مسکان:” امی آج پکا پسند کروں گی۔” اس نے التجا کی۔
پھر بھی وہ نہیں مانی تو اس نے بابا کی طرف رخ موڑ لیا۔
مسکان:”پھر میں ستارہ کے ساتھ چلی جاوں گی۔” اس نے بابا سے کہا اور ان کی طرف سے اجازت مل گئی۔
کالج سے لوٹنے کے بعد سہہ پہر کو وہ ستارہ کے ساتھ مطلوبہ دکان پر موجود تھی۔
دکاندار لڑکا:”good afternoon madam” اس نے سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مسکان:” good afternoon مجھے red کلر میں کچھ فینسی دکھائے۔” اس نے سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا اور آس پاس نظر دوڑائی۔
دکاندار لڑکا:” red میں۔۔۔۔ ابھی لاتا ہوں۔۔۔” اس نے مسکرا کے کہا اور دوسرے قطار کی جانب گیا۔ ستارہ بھی وہاں موجود کپڑے دیکھ رہی تھی۔
لڑکا 5 سے 7 منٹ میں سرخ شربتی رنگ میں فینسی انارکلی فراک اٹھائے واپس آیا۔ مسکان اور ستارہ کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئی۔
ستارہ:” واو بہت پیارا ہے۔ یہ ویسا ہی سرخ رنگ ہے جیسا تمہیں چاہیے” اس نے کام کا قریب سے معائنہ کیا۔ مسکان کو بھی فراک بہت پسند آیا
مسکان:” کیا قیمت ہے اس کی” وہ خود سے قیمت کا اندازہ کر رہی تھی۔
دکاندار لڑکا:” میم payment ہوچکی ہے”
جہاں مسکان کا منہ کھل گیا وہی ستارہ صدمے کے حالت میں اسے دیکھنے لگی۔
ستارہ:” payment ہوچکی ہے ” اس نے شاکی عالم میں بات دہرائی۔
دکاندار لڑکا:” جی صرف آپ کو handover (تحویل میں دینا) کرنے کو کہا ہے” وہ مسکان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
ستارہ:” handover کرنے کے لیے کہا۔۔۔ کس نے” سوال پھر سے ستارہ نے کیا اور دکاندار لڑکا حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگا۔ مسکان کو ایک دم سے ندامت ہوا۔
مسکان:” ہاں ٹھیک ہے آپ یہ پیک کروا دیں” اس نے سرخ پڑتے چہرے سے کہا۔
وہ جی میم کہتا ہوا کاونٹر پر ڈریس پیک کروا رہا تھا۔
وہ شاپنگ بیگ اٹھائے دکان سے باہر آگئی۔ اس کے لئے یہ سرپرائز غیر متوقع تھا۔
مسکان:” تو اس لیے زوہیب مجھے بار بار اس دکان پر آنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ :” اس نے چلتے ہوئے مسکرا کے سوچا۔
ستارہ:” تم ڈریس کیوں اٹھا کر لیں آئی پتہ تو کرتے پیسے کس نے دئیے ہیں۔” اس نے مسکان کو روک کے کہا۔
مسکان:” مجھے معلوم ہے کہ کس نے دئیے ہیں تم بار بار پوچھ کے دکاندار کو شک میں ڈال رہی تھی۔” اس نے ستارہ کو جھڑکا۔
ستارہ:”کیا۔۔۔ تمہیں معلوم ہے” اسے ایک کے بعد دوسرا شاک مل رہا تھا۔
مسکان:” ہاں۔۔۔ زوہیب نے کی ہے payment مجھے بار بار اس دکان پر آنے کے لیے بھی وہی کہہ رہا تھا۔۔۔ اب سمجھی کیوں کہہ رہا تھا” مسکان نے کچھ جھجکتے ہوئے اسے بتایا۔ اب چھپانے کا فائدہ نہیں رہا تھا۔ دکاندار لڑکے کی بات نے ستارہ کو شک میں ڈال دیا تھا۔
ستارہ:”اوووہ تو تمہارے اور زوہیب کی یہاں تک بات پہنچ گئی ہے” وہ اب لطف اندوز ہو رہی تھی۔
مسکان:”نہیں مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے پہلے سے ڈریس لیں کہ رکھا ہے” وہ اب متذبذب ہو رہی تھی۔
یہی گفتگو کرتے ہوئے وہ گھر کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں ستارہ نے مسکان سے ان کی پہلی ملاقات سے لے کر اب تک کے سارے راز اگلوا لیئے تھے۔
ستارہ سارا قصہ سن کر مسرور ہوگئی تھی۔
ستارہ:” ویسے میں تمہارے لیے خوش ہوں زوہیب اچھا لڑکا ہے”
مسکان پر سوچ انداز میں صرف مسکرا دی۔
**************
زوہیب کار میں بیٹھا دوست کا انتظار کر رہا تھا جب اس کا فون بجا۔
زوہیب:” ہائے کیسی ہو۔۔۔” اس نے کال کے جواب میں سپیکر ان کر کے کہا۔
مسکان:”ٹھیک ہوں لیکن آپ پر غصہ ہوں” اس نے ناراضگی سے منہ بنائے کہا۔
زوہیب:” OMG اللہ خیر کرے ایسا کیا کر دیا میں نے” اس نے جعلی خوف طاری کرتے ہوئے کہا۔
مسکان:”آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ پہلے سے ڈریس لیں کے بیٹھے ہے۔ اگر میں امی کو ساتھ لیکر جاتی اور وہ لڑکا ان کے سامنے ایسا کہہ دیتا تو” اس نے خفگی سے کہا۔
زوہیب:”ارے نہیں میں نے اسے سمجھا رکھا تھا کہ دو ہم عمر لڑکیاں آئیں گی اور اس میں سے ایک بات بات پر چونک کر جملہ دوہرائے گی تو payment مت لینا لیکن اگر بزرگ خاتون ہوئی تو لیں لینا۔” اس نے اپنی وضاحت میں کہا۔
مسکان:” لیکن پھر بھی ستارہ کو مجبوراً ہمارے رابطے کے بارے میں سب بتانا پڑا۔” وہ اب اضطراب میں تھی۔
زوہیب:” آج نہیں تو کل اسے پتہ چلنا ہی تھا تم اس سے زیادہ دن یہ بات چھپا نہیں سکتی تھی۔۔۔۔ ویسے ڈریس پسند آیا۔” اس نے کار میں بیٹھے ہاتھ میں پہنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
مسکان:” ہاں بہت پیارہ ہے لیکن اتنا مہنگا لینے کی کیا ضرورت تھی” وہ اپنے کمرے کی بیرونی کھڑکی سے باہر لان میں دیکھ رہی تھی۔
زوہیب:” نہیں چاہیے تو واپس کر دو میں دوسری گرل فرینڈ کو دے دونگا۔” اس نے شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
مسکان:” آپ کی اور بھی گرل فرینڈ ہے؟” اس نے دھڑکھتے دل سے سوال پوچھا۔
زوہیب:” تمہیں کیا لگتا ہے”
مسکان:” شاید نہیں۔۔۔۔ اگر ہوتی تو وہ پہلے ہی آپ کو گنگال کر چکی ہوتی پھر آپ میرے لیے ایسا ڈریس افورڈ نہیں کر سکتے ہو تے ” اس نے آنکھیں مینچھے اپنی دلی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کہا۔
زوہیب اس کے بات پر دل کھول کے ہنسا تھا۔
مسکان:”ویسے مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کی اتنی اچھی چوائس ہوگی” وہ آئینہ میں ڈریس کو اپنے ساتھ لگا کر دیکھ رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے موبائل پکڑ رکھا تھا۔
زوہیب:” تمہیں پتہ ہونا چاہیے آخر تم بھی میری چوائس ہو۔۔ اچھا مسکان میں اس وقت دوست کے ساتھ ہوں تم سے گھر پہنچ کر پھر بات کرتا ہوں۔۔۔ بائے۔” اس نے سامنے سے دوست کو آتے دیکھ کر کہا اور کار سٹارٹ کر دی۔
مسکان نے فون رکھتے ہوئے پھر خود کو دیکھا اور ذہن میں زوہیب کا جملہ دوہرایا۔ اسے خود پر ناز ہوا۔ ڈریس واپس الماری میں رکھ کر وہ کچن میں چلی گئی۔
**************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...