زوہیب نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لی۔ مسکان کے خوشبو کو محسوس کرتا اس نے گفتگو کا آغاز کیا۔
زوہیب:” I LOVE YOU MUSKAN” اس نے مسکان کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ایک ہاتھ سے مسکان کا ہاتھ تھامے دوسرا اس کے بازو پر رکھے زوہیب نے اس کے کان میں اپنی محبت کا اظہار کیا۔
زوہیب نے چہره زرا پیچھے کر کے مسکان کی بند آنکھوں کو دیکھا اور ایک دفعہ پھر گویا ہوا۔
“میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔۔ مجھ پر بھروسہ رکھو مسکان میں تمہارا اعتبار۔۔۔۔ کبھی نہیں توڑوں گا” وہ بہت نرم لہجے میں رک رک کر بول رہا تھا۔
جب وہ بول رہا تھا مسکان کو اس کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئی۔
مسکان نے اپنی آنکھیں کھولی اور زوہیب کو دیکھنے لگی وہ اسی کو دیکھ رہا تھا دونوں کی نظریں ملی۔ وہ اس کے اتنے قریب تھا کہ مسکان کو اس کے پرفیوم کی مسلسل خوشبو اپنے نتھوں میں بستی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
زوہیب:” تم نے کہا تھا نا تمہیں ہیر رانجھا لیلا مجنوں کی طرح جوڑی نہیں بنانی۔ زندگی بھر کا ساتھی چاہیے۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ساتھی۔۔۔۔ تم مجھے چنو۔۔” مسکان اس کی باتوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ وہ بنا پلک جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا اور اپنے احساسات بیان کر رہا تھا۔ مسکان نے شرما کے نظریں جھکا لی اس کی دھڑکن اور سانس نارمل ہونے لگی۔
زوہیب:” تم نہیں کہو گی” اس نے شرارتی انداز میں آبرو اچکائے۔
مسکان:” کیا۔۔۔” اس نے خاموشی توڑی اور حیرت سے پوچھا۔
زوہیب:”یہی کہ۔۔۔۔ تم بھی۔۔۔ مجھ سے پیار کرتی ہو۔”اس نے مسکرا کے کہا ۔ اتنے قریب سے مسکان کو اس کا ڈمپل اور بھی دلکش اور حسین لگا۔
مسکان:” نہیں کہو گی” اس نے ایک جھٹکے سے زوہیب کو خود سے پرے کیا۔
زوہیب:”ارےےے۔۔۔” زوہیب لڑکھڑاتا ہوا دو قدم پیچھے ہٹا۔
مسکان:” بہت برے ہو تم۔۔۔ کتنا ڈر گئی تھی میں۔۔۔ رونے والی ہوگئی تھی۔” اس نے سارا غصہ نکالا اور غصے میں زوہیب کو آپ کے بجائے تم مخاطب کیا۔
زوہیب:” سوری میں تو بس تنگ کر رہا تھا” اس نے معصومانہ انداز میں معذرت کی۔۔۔
” ویسے تمہیں کیا لگا، میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں” زوہیب نے ہاتھ پیچھے باندھتے ہوئے شرارت سے کہا۔
مسکان:” تمہارا تو معلوم نہیں لیکن 2 منٹ اور تنگ کرتے۔۔۔ تو میں ضرور تمہارا گلا دبا دیتی۔” اس نے دانت پیستے ہوئے ہاتھ زوہیب کے گلے تک اٹھا کر ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
زوہیب نے اس کی بات پر زوردار قہقہہ لگایا۔ کوشش کے باوجود اس کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ مسکان کا اسے یوں ہنستے دیکھ کر اور پارہ چڑھنےلگا۔
مسکان:”جاو نہیں بولتی میں تم سے” اس نے منہ بناتے ہوئے کہا اور کوریڈور سے باہر نکل آئی۔
زوہیب:” اچھا۔۔۔ ھاھاھاھاھا ۔۔۔ اچھا سوری، سوری میں صرف تنگ کر رہا تھا۔” اس نے مسکان کا بازو تھام کر اسے روکا۔ :” اچھا لو پانی پیو” اس کا طیش کم کرنے زوہیب نے کوریڈور کے کونے میں پڑے ٹیبل سے پانی کی بوتل اٹھا کے مسکان کو دی۔
وہ کرسی پر بیٹھ کر غصہ سے زوہیب کو گھورتی پانی پینے لگی اور اچانک سر جھکائے خود بھی ہنسنے لگی۔
زوہیب:” لیکن۔۔۔۔ سیریسلی اتنی insecurity (خطرے میں مبتلا ہونا)۔۔۔۔ اتنی بے اعتمادی۔۔۔۔ اتنا ڈرتی ہو مجھ سے۔۔۔” زوہیب نے شاک کے عالم میں افسوس سے سر جھٹکا۔ اسے مسکان سے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔
مسکان:” نہیں ڈرتی تو نہیں ہوں۔ ایسا پہلے کبھی سوچا نہیں تھا۔ ایک تو ایسے گھر سے نکلنے پر گھبرائی ہوتی تھی اوپر سے آپ کا ایسا اظہار محبت۔۔۔ تو میں ہیبت زدہ ہوگئی۔” اس نے اپنی تشویش کی وضاحت کی۔
زوہیب:” ویسے۔۔۔۔ کیسا لگا میرا اظہار محبت” وہ چلتا ہوا قریب گیا اور کرسی نزدیک کھینچ کر بیٹھ گیا۔
مسکان:” بہت۔۔۔۔ خوفناک” اس نے اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے کہا۔
زوہیب ایک دفعہ پھر اس کی بات پر کھل کر ہنسا۔
زوہیب:” ھاھاھاھا مجھے لگا تم کہو گی بہت رومانٹیک” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
مسکان:”نہیں تو اس میں رومانٹیک کیا تھا” اب بدلے میں مسکان اسے تنگ کر رہی تھی۔
زوہیب:”اوووو۔۔۔۔۔ بتاو کیا رومانٹیک تھا” وہ اس کے قریب ہوا۔ چہرہ مسکان کے سامنے کیا تو وہ ہڑبڑا کر سیٹ سے اٹھ گئی۔
مسکان:” بہت دیر ہوگئی ہے گھر چلیں۔” اسے اچانک زوہیب سے بہت شرم آنے لگی۔ اس کا چہرہ بلش کرنے لگا۔ وہ زوہیب سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ پیٹ میں تتلیاں اڑتی محسوس ہوئی۔ زوہیب ہنستا ہوا اٹھا اور اس کے سامنے آیا۔
زوہیب:” ابھی تو کہا مجھ سے insecure نہیں ہو اور اب پھر نظریں چرا رہی ہو” اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنا والٹ نکالا اور میز پر پیسے رکھتا آگے چلنے لگا۔
مسکان:” نہیں زوہیب insecure نہیں ہوں۔۔۔ واقعی دیر ہورہی ہے امی بہت ڈانٹے گی۔” اس نے زوہیب کے موڈ کا جائزہ لے کر دھیمے لہجے میں کہا۔
زوہیب:” جانتا ہوں۔۔۔ چلو چلتے ہیں۔۔۔” اس نے رک کر سنجیدگی سے کہا اور مسکان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس دفعہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے مسکان نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کے ساتھ ساتھ پارکنگ کی جانب چلنے لگی۔
آتے ہوئے وہ جس کیفیت کا شکار ہورہی تھی اب جاتے ہوئے وہ اضطراب پوری طرح ختم ہوگیا تھا۔ یہ زوہیب کے اظہار کا اثر تھا یا اس کے ہاتھ کے لمس میں تحفظ کا احساس۔۔۔۔ اسے زوہیب پر بہت ناز ہوا اور اپنی قسمت پر رشک آیا۔۔۔۔ اسے دل سے خوشی ہوئی اور اس نے اپنی اطمینان بخش زندگی پر شکر ادا کیا۔ زوہیب اس وقت ہوٹل کے منیجر سے مصافحہ کرتا الوداعی کلمات کہہ رہا تھا اور وہ ہونٹوں پر ہلکی مسکان سجائے صرف اسے دیکھ رہی تھی۔
***************
مسکان:” ایک بات کہوں” کار میں بیٹھے ہوئے اس نے زوہیب کو مخاطب کیا۔
زوہیب:”ofcourse dear کہو ایک نہیں سو باتیں کہو” اس نے کار چلاتے ہوئے خوشگوار انداز میں کہا۔ وہ کبھی سامنے سڑک کو دیکھتا کبھی مسکان کو۔
مسکان:” آپ کا یہ ڈمپل مجھے بہت اچھا لگتا ہے” کتنا فاصلہ طے کیا گھر کب پہنچے گا اس سب سے بے خبر وہ مسلسل زوہیب کو دیکھ رہی تھی۔ زوہیب اس کی بات سے محظوظ ہو کر اسے پھر چھیڑنے لگا۔
زوہیب:” hmmm تو صرف ڈمپل اچھا لگتا ہے میں نہیں”
مسکان:” نہیں۔۔ آپ بھی اچھے لگتے ہو”
زوہیب:” hmmm تو صرف اچھا لگتا ہوں پسند نہیں ہوں۔” وہ سفر سے پورا لطف اندوز ہو رہا تھا۔
مسکان:” پسند ہو” اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔ مسکان نے اب نظریں ونڈ اسکرین کے باہر سیدھی لمبی سڑک پر جما دی۔
زوہیب:” اچھاااا۔۔۔ ok۔۔۔۔ توووو۔۔۔۔ صرف پسند ہوں پیار نہیں کرتی” یہ کہتے ہوئے وہ شرارتی انداز میں مسکان کو دیکھنے لگا۔
مسکان:” ااااا۔۔۔۔ وہ نہیں بتاوں گی” اسنے مسکراہٹ دبائے ہوئے جعلی خفگی سے کہا۔
زوہیب:” افففف یہ قاتلانہ نخریں”۔ اس نے ایسا کہتے ساتھ ایک آہ بھری اور مسکان اسے دیکھتے دل کھول کے ہنسی۔
شہر میں داخل ہو کے وہ کسی پوائنٹ پر اسکریم کھانے رکے اور پھر گاڑی بڑھا دی۔ مسکان کے گلی سے کچھ پیچھے اس نے کار روک دی۔ وہ الوداع کرتی کار سے اتری اور آس پاس دیکھتی تیز قدموں سے چلتی اپنی گلی میں در آئی۔ زوہیب تب تک وہی رکا اسے دیکھتا رہا جب تک کہ وہ گھر کے اندر داخل ہوگئی اور پھر وہ کار کو گھماتا ہوا اپنے گھر کے راستے پر لے آیا۔
**********************
وہ اپنے اوپر دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتی لان کے راستے کچن کے کھڑکی پر آئی اور وہاں سے لاؤنج میں جھانک کر دیکھا۔ بابا اور امی صوفے پہ بیٹھے گفتگو میں مصروف تھے۔
مسکان:”پتہ نہیں امی نے بابا سے کیا کہا ہوگا۔ اب اندر کیسے جاوں۔۔۔” وہ سر کجاتی پریشانی میں سوچنے لگی۔
اسے ایک ترقیب سوجی۔ مسکان لاونج کے دروازے پر آئی اور جوتیاں اتار کر ننگے پاؤں دبے قدموں سے لاؤنج میں داخل ہوئی۔ بابا کی اس طرف پشت تھی لیکن امی نے اسے دیکھ لیا تھا وہ امی کی پروا کیئے بغیر بنا آواز کئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی۔
بالائی منزل میں اسے چاچو کچن میں نظر آئے۔
مسکان:” اسلام علیکم چاچو۔” اس نے آس پاس نظر دوڑائی
شکیل صاحب:” وعلیکم السلام مسکان کیسی ہو” انہوں نے پتیلی میں پانی بھرتے ہوئے کہا۔
مسکان:” میں ٹھیک چاچو۔۔۔ ستارہ گھر پر ہے” اس نے چاچو کو اکیلے کام کرتے دیکھ کر پوچھا۔
شکیل صاحب:”نہیں وہ تو اپنی ماں کے ساتھ مارکیٹ تک گئی ہے۔ کومل کی دعوت کرنی ہے نا تو اسی کی تیاری میں لگی ہیں۔”وہ اب پتیلی کو چولہے پر رکھ کے چائے کے اجزاء نکال رہے تھے۔
مسکان:”اوہ ہاں بتایا تھا اس نے۔۔۔۔ میں چائے بنا دوں آپ کے لیے۔” اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
شکیل صاحب:” نہیں شکریہ بیٹا میں بنا لوں گا۔ تم بھی پیو گی۔” انہوں نے ابلتے پانی میں چائے کی پتی ڈالتے ہوئے کہا۔
مسکان:” نہیں چاچو میں بس نیچے جاوں گی۔ ستارہ آجائے پھر آتی ہوں۔۔
وہ سر کو خم دیتی واپس پلٹی اور سیڑھیوں کے سرے سے اپنے گھر کے لاؤنج میں دیکھا وہ اب خالی تھا بابا وہاں سے اٹھ گیے تھے۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اتری اور بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی۔ دروازہ بند کر کے اس نے سکون کا سانس لیا۔
مسکان:” اففف جان بچی سو لاکھوں پائے” اس نے سینے پر ہاتھ رکھے کہا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے سہمے ہوئے سے دروازہ کھولا تو نائلہ بیگم ماتھے پہ شکن لیے کچھ بڑبڑاتی اندر آئی۔
امی:” مرواو گی ایک دن اتنی دیر کرتے ہے اور فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی۔” انہوں نے اندر آتے ہی دانت پیستے ہوئے مسکان کو ڈانٹ لگا دی۔
مسکان:”سوری امی دیر ہوگئی۔ موبائل silent پر تھا” اسے شرمندگی ہوئی۔
امی:”ہمیشہ کام کے وقت تیرا موبائل silent ہوتا ہے۔ رکھا ہی کیوں ہے پھر:” وہ اب مسکان کے بیڈ پر بیٹھی اپنی پیشانی ظاہر کر رہی تھی۔
مسکان:” آیندہ دھیان رکھوں گی۔۔۔ بابا کب آئیں۔” مسکان چلتی ہوئی پاس آئی اور امی کے ساتھ بیٹھ گئی۔
امی:”وہ تو لنچ پر ہی آگئے تھے”
حارث صاحب چونکہ ریٹائرڈ تھے تو دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ گلف کلب میں وقت گزارتے اور کبھی اگر کوئی دلچسپ سرگرمی پیش ہوتی تو شام تک وہی رہتے۔
مسکان:” بابا نے میرا پوچھا تھا کیا” اس نے فکرمندی سے کہا۔
امی:” پوچھا تو تھا میں نے کہا تیرے سر میں درد ہے سورہی ہو ڈسٹرب نا کریں تمہیں۔۔ لیکن آیندہ میں تمہیں کہی اکیلے جانے کی اجازت نہیں دونگی یہ سن لو۔:” انہوں نے سنجیدگی سے تنبہی کیا۔
مسکان:” ٹھیک ہے میری پیاری امی” اس نے پیار سے کہا اور امی کے گرد بازو حائل کئے۔
امی:”پرے ہٹو۔۔۔ اور اس سے پہلے تیرے بابا کو شک ہو جلدی سے باہر آجا۔” وہ مسکان کے بازو پیچھے کرتی اسے ہدایت دے کر باہر نکل گئی۔
مسکان بھی ان کے پیچھے اٹھی اور امی کے نکلتے ہی پھر سے دروازہ لاک کیا۔ آئینہ کے سامنے کھڑی ہو کر وہ اپنی چہرے پر آتی لٹوں کو سنوارنے لگی۔ اسے زوہیب کا چھوا یاد آیا اسے شرم محسوس ہوئی وہ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے سے ہٹ گئی۔ جس اظہار محبت کے انداز کو تھوڑی دیر پہلے وہ خوفناک تشہیر کر کے آئی تھی اب اسے واقعی رومانٹیک لگ رہا تھا۔ زوہیب کے اعتراف کو یاد کرتے وہ بازو ہوا میں پھیلائے جھوم جھوم گئی اور اپنے آپ کو اوندھے منہ بیڈ پر ڈال دیا۔ کچھ پل اپنے خیالات میں مگن لیٹی رہی۔ لاؤنج میں سے بابا کی آواز آتی سن کر اسے امی کی ہدایت یاد آئی۔ وہ تیزی سے بیڈ سے اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے واشروم چلی گئی۔
*****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...