زوہیب:” اوو ہاں وہ۔۔۔۔۔ ویسے آپ دونوں گھر جا رہی ہیں نا۔ چلے میں چھوڑ آتا ہوں۔” اس نے گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
مسکان:” نہیں ہمارا بس سٹاپ آگیا ہے ہم خود چلے جائیں گے۔” مسکان نے جلدی سے کہا اور ستارہ کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑی۔
زوہیب:” اچھا خود چلی جائیں گا پر ساتھ میں لنچ تو کر سکتے ہیں” اس نے پھر التجا کی۔
مسکان:” نہیں گھر دیر سے گئے تو سب پریشان ہو جائیں گے۔” مسکان نے تیزی سے کہا۔ وہ ستارہ کو بولنے کا موقع نہیں دے رہی تھی کہ کہیں وہ ساتھ جانے کے لیے راضی نہ ہوجائے۔
وہ اور ستارہ بس میں چڑھتی ہوئی زوہیب کو خدا حافظ کہتی چلی گئی۔
زوہیب:” پتہ نہیں زوہیب تیرا کیا بنے گا یہ لڑکی تو لفٹ ہی نہیں کرا رہی۔” وہ دل گرفتگی سے سر کجاتا ہوا اپنی کار کی طرف گیا۔
“کچھ اور سوچنا پڑے گا” وہ کار سڑک پر لا کر منمنایا۔
**************
گھر پہنچ کر دونوں اپنے بیڈرومز میں گئی۔ فریش ہو کے کھانے کے بعد مسکان ستارہ اور کومل شاپنگ کے لئے چلی گئی تھی۔ شام تک وہ الگ الگ مالز میں کومل کے لیے خریداری کرتی رہیں۔ گھر پہنچ کر امی بھابھی اور چاچی کے ساتھ لاؤنج کے بڑے صوفے پر بیٹھی خریداری پر تبصرہ کرتی رہی۔
ڈنر کرنے کے بعد وہ اپنے بیڈروم میں آئی اور کچھ سوچتے ہوئے ٹہلنے لگی۔ کئی دنوں بعد زوہیب کے رو بہ رو ہونے سے پھر اس کے ذہن میں نئے نئے خیالات اجاگر ہونے لگے۔
مسکان:”زوہیب اس طرح آج کالج کیوں آگیا تھا اور بار بار ساتھ چلنے کی ریکویسٹ۔” وہ پھر سے منگنی والی فیملی فوٹو دیکھنے لگی جس میں مسکراتے ہوئے زوہیب کے دائیں گال پر ڈمپل پڑ رہا تھا۔ زوہیب کی شخصیت اسے بھا گئی۔ اس کی گہری آنکھیں مسکان کو اپنے اندر جذب کر رہی تھی۔ زوہیب کا انداز ایسا تھا کہ کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
“کہیں وہ ستارہ کو تو پسند نہیں کرتا”
وہ کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے رک گئی۔ اس کی دھڑکن تیز ہوتی سنائی دی۔
“اگر وہ ستارہ کو پسند کرتا ہے تو سارا وقت مجھے کیوں دیکھ رہا تھا” اسے اچانک زوہیب پر شدید غصہ آرہا تھا۔
“ہو بھی سکتا ہے آخر ستارہ اس کی ہونے والی بھابھی کی بہن ہے” وہ اضطراب کی کیفیت میں بیڈ پر لیٹی اور آنکھوں پر بازو ٹکائے کچھ بڑبڑاتی ہوئی سو گئی۔
**************
زوہیب گھر کے لاؤنج میں داخل ہوا تو سامنے صوفے پر بیٹھے ڈیڈ اور عثمان آفس کے کسی کام پر بحث کر رہے تھے۔ وہ ان کے ساتھ والے سنگل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھتا بیٹھ گیا۔
اسے عثمان سے کچھ بات کرنی تھی اس لیے انتظار کرنے لگا۔ عثمان فائل پر نشانات لگاتا اٹھا اور اپنے سٹڈی روم میں چلا گیا۔
سہیل احمد:” تمہارے سکالرشپ کا کام کہاں تک پہنچا زوہیب”
وہ عثمان بھائی کے پیچھے جانے کے لیے اٹھا ہی تھا کہ ڈیڈ نے سوالیہ مخاطب کیا۔
زوہیب:” almost ہو گیا ہے ڈیڈ ڈاکیومینٹز education Minister کے آفس بھیجے ہیں اسلام آباد ،سائن کروانے بس وہ ہوجائے پھر جانے کی تیاری کروں گا”
سہیل احمد:” انشاءاللہ ہوجائے گا۔ میں نے فاروق سے بات کی ہے وہ تمہارے رہنے کا بندوبست کر دیگا تب تک”۔ انہوں نے لندن میں مقیم زوہیب کے کزن کا نام لیا جس کے پاس زوہیب کو اپنی ماسٹرز کی ڈگری کرنے رہنے جانا تھا۔
سہیل احمد کسی کو فون ملانے لگے اور زوہیب احترام سے سر کو خم دیتا سٹڈی روم کے جانب بڑھ گیا۔
زوہیب روم کے اندر آیا تو عثمان فائل پر لکھتے نظر آئے۔
عثمان:” آو زوہیب بیٹھو” عثمان نے لکھتے لکھتے دروازہ کھلنے کی آواز پر سر اٹھایا۔ زوہیب کو اندر آتے دیکھ کر کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ چلتا ہوا قریب گیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ کہنیاں میز پر ٹکائی انگلیاں باہم ملا کر پاوں ہلانے لگا۔
عثمان:”کچھ کہنا ہے” عثمان نے اس کی حرکتوں کو جانچتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” ہاں۔۔۔۔بھائی مجھے۔۔۔۔ آپ سے بات کرنی تھی” اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنا مطالبہ کیسے بیان کریں اس لئے وہ صحیح لفظوں کا انتخاب کرتا رک رک کر بولنے لگا۔
عثمان:” کہو کیا بات ہے:” اس نے فائل بند کر کے سامنے میز پر رکھ دی اور کرسی کے پشت سے ٹیک لگاتا پوری توجہ زوہیب پر مرکوز کر دی۔
وہ عثمان بھائی کو خود کو غور سے دیکھتا پا کر سچ میں confuse ہوگیا۔
زوہیب:” وہ میں یہ کہہ رہا تھا بھائی کہ اتنے دن ہوگئے آپ کی منگنی کو آپ بھابھی کو کہیں گھمانے بھی نہیں لیں کے گئے وہ کیا سوچ رہی ہوگی آپ کنتے unromantic ہو۔” زوہیب نے بنا کوئی نقطہ جوڑے سیدھے سادے کہا۔
عثمان:” کیا۔۔۔” اس نے ایک دم سے سیدھے ہوتے ہوئے کہا۔ عثمان کو زوہیب کے ایسے تبصرے سے شاک لگا۔ اسے یہ سوال بہت غیر مناسب لگا
زوہیب:” c’mon بھائی میں اور آپ دوست بھی تو ہے آپ مجھ سے نا شرمائے۔ آپ ایک کام کریں کل بھابھی کو ساتھ میں شاپنگ کے لئے بلائیں۔” زوہیب نے اپنی طرف سے عثمان کی brainwashing کی کوشش جاری رکھی۔
عثمان:” اس کی کیا ضرورت ہے اگلے مہینے ویسے بھی شادی ہے پھر گھما لیا کروں گا۔” اس نے واپس فائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” بھائی شادی سے پہلے کی ڈیٹ کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔ اس طرح آپ کو بھابھی کو جاننے کا اچھا موقع مل جائے گا۔
عثمان”: تمہیں بہت تجربہ ہے کتنی ڈیٹس پر گئے ہو” عثمان نے تعجب سے ابرو سکڑتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” آپ میری چھوڑو بھائی ایک دفعہ بھابھی سے پوچھ تو لیں ہوسکتا ہے وہ مان جائے۔” وہ اپنی سیٹ سے اٹھتا عثمان کی طرف آیا اور اس کا موبائل اٹھا کے پکڑایا۔
عثمان:” زوہیب اس سب کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔” اس نے بیزاری سے کرسی کا رخ موڑا
زوہیب:” بھائی آپ ایک دفعہ مل تو لیں پھر دیکھنا میرا ہی شکریہ ادا کریں گے۔” اس نے عثمان کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور فون پر کومل کا نمبر ڈائل کر کے فون عثمان کو پکڑایا۔
جب عثمان کو ہیلو کہتے سنا تو وہ سٹڈی روم سے باہر آگیا۔
زوہیب:” امید ہے یہ trick کام کر جائے۔” اس نے پر امید انداز میں سوچا۔
*************
صبح اتوار ہونے کے باوجود وہ جلدی اٹھا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ واشروم میں فریش ہوتے ہوئے بھی وہ دن بھر کی پلانینگ کرنے میں مصروف تھا۔
اسے کیا پہننا ہے مل کر کیا بات چیت کرنی ہے وہ اسی سوچ میں تھا۔ الماری سے کپڑے نکال کر تیار ہوا اور کمرے سے باہر آیا۔ لاونج میں نظر گردانی کے بعد عثمان کے بیڈروم میں آیا اور لائٹس آن کی۔
عثمان:” یہ کیا حرکت ہے زوہیب” اس نے دبے دبے غصے میں کہا۔ اس کی آنکھیں تیز روشنی میں چندیا گئی۔
زوہیب:” آپ کو آج بھابھی کو ڈیٹ پر لے کر جانا ہے نا۔” اس نے یاد دلایا۔
عثمان:” ابھی تو صرف 9 ہی بجے ہے”
زوہیب:” بھائی آپ بھابھی سے کہو مسکان کو ساتھ لائیں” اس نے عثمان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے جوش سے کہا۔
عثمان:” مسکان کو کیوں لانے کا کہوں۔”
زوہیب:” بھابھی اکیلی کیسے آئے گی کوئی ساتھ ہونا چاہئے نا۔ پلیز آپ مسکان کو ساتھ لانے کا کہے”
عثمان:” اچھا ٹھیک ہے کہتا ہوں” عثمان بیزاری سے اٹھ بیٹھا
زوہیب نے عثمان کو کومل کو کال ملاتے دیکھا تو اٹھ کے باہر آگیا اور ڈیڈ کے ساتھ ٹیبل پر ناشتہ کرنے لگا۔
**************
مسکان دن کے اس پہر لاؤنج کے صوفے پر پاوں اوپر کئے بیٹھی ٹی وی دیکھتے چپس کھا رہی تھی۔
امی:” مسکان تھوڑا ہاتھ بٹا دے میرا۔ سائرہ میکے گئی ہے دیکھ نہیں رہی اکیلی لگی ہوں۔” امی نے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھی شامی کباب کی ٹکیا بناتے ہوئے اسے جھڑکا۔
مسکان:” امی مجھے نہیں آتے یہ کام” اس نے چینل بدلتے ہوئے بے رخی سے کہا۔
امی:” کرنا سیکھو گی تو آئے گے نا۔ شادی کے بعد تیری ساس کہے گی کچھ سیکھا کہ نہیں بھیجا ماں نے۔”
کومل:” تائی امی۔” اس نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے مخاطب کیا۔
اور مسکان نے صد شکر ادا کئیے کہ وہ امی کے لیکچر سے بچ گئی۔
امی:” کیسی ہو کومل”
کومل:” بلکل ٹھیک۔۔۔۔ تائی امی مجھے بازار میں کچھ کام ہے ایک سوٹ چینج کروانا ہے میں مسکان کو ساتھ لے جاوں۔”
اس نے تائی امی سے اجازت طلب کی۔
امی مان گئی تو مسکان چہکتے ہوئے بیڈروم میں تیار ہونے چلی گئی۔ دس منٹ بعد باہر آئی تو کومل پورچ میں کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
مسکان:” آپی آپ سوٹ تو لائی ہی نہیں ۔ “مسکان نے ٹیکسی میں سوار ہو کر اسے یاد کروایا۔
کومل:”سوٹ نہیں لینا ویسے ہی گھومنے جا رہے ہیں عثمان بھی آئیں گے۔” کومل نے دھیمی آواز میں کہا۔
مسکان:” کیا۔۔۔۔۔ جیجو بھی آئیں گے۔ اس نے خوشگوار انداز میں بلند آواز میں کہا۔
“اللہ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا میں کوئی اچھا ڈریس پہن لیتی۔” اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
کومل:” پہلے بتاتی تو تم اسی طرح زور سے چلا چلا کے ابو جی تک کو خبر کر دیتی”
مسکان:” ہممممم ہاں۔۔۔۔۔ ویسے آپ دونوں کے ملنے میں میرا کیا کام ”
کومل:” عثمان نے کہا تھا اکیلی نا آو ٹیکسی میں تمہیں ساتھ لاو” وہ باہر گزرتی ہوئی ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔
مسکان:” awww so sweet کتنا خیال ہے آپ کا۔ بہت اچھے ہے وہ۔” اسے عثمان کے فیلینگز کی قدر ہوئی۔ عثمان کی تعریف پر کومل صرف مسکرا دی اور ٹیکسی ڈرائیور کو مطلوبہ راستہ بتانے لگی۔
مال پہنچ کر انہوں نے عثمان کو داخلی دروازے پر کھڑے پایا۔ وہ قدم قدم چلتی ان کے پاس آئیں۔ کومل اور مسکان سے سلام دعا کرنے کے بعد بھی وہ وہی کھڑا رہا۔
کومل:” اندر چلیں” وہ عثمان سے مخاطب ہوئی اور مسکان سر اوپر اٹھائے اس عالی شان شاپنگ مال کے خوبصورت عمارت کا جائزہ لے رہی تھی۔
عثمان:”ہاں بس زوہیب کار پارک کرنے گیا ہے وہ آجائے پھر چلتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ لو آگیا۔” اس نے عثمان کو کہتے سنا۔ مسکان دوہری کیفیت کا شکار ہونے لگی اسے زوہیب کی وہاں موجودگی اچھی بھی لگی تھی اور نہیں بھی۔
زوہیب:” hi bhabi کیسی ہے آپ” اس نے پہلے کومل سے کہا پھر مسکان کو دیکھ کے مسکرایا۔
مسکان:” تصویر سے زیادہ اصل میں اس کا ڈمپل پیارہ ہے” اس نے دل میں سوچا اور ان کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
مال کے اندر وہ کومل اور عثمان کے ساتھ ساتھ چلتی ونڈو شاپنگ کر رہی تھی جب اس نے اپنے ساتھ زوہیب کو چلتے محسوس کیا۔ وہ کب عثمان کے سائیڈ سے اس کی سائیڈ پر آیا اسے پتہ نہ چلا۔
زوہیب:” مسکان ایک منٹ” اس نے آہستہ سے کہا اور رک گیا۔ اس نے بلو جینز کے ساتھ چیک شرٹ پہنا تھا۔ نئی شیو بنائی ہوئی تھی اور بالوں کا وہی پیچے کا سٹائل۔
مسکان نے یوں مخاطب ہوتا سن کر مڑ کر دیکھا اور اس کی بات سننے رکی۔
زوہیب:” وہ میں۔۔۔ یہ کہہ رہا تھا کہ آپ کہاں ان کے ساتھ ساتھ جا رہی ہے۔ منگنی شدہ کپل ہے اپنا انجوائے کرنے دیں۔ ہم تھوڑا پیچھے ٹہر کے چلتے ہیں۔
اس کی تجویز پر مسکان نے واپس مڑ کر دیکھا کومل جیجو کے ساتھ باتوں میں مگن چہل قدمی کر رہی تھی۔ وہ زوہیب کے ساتھ دوسرے جانب چلنے لگی۔
زوہیب:” اور سناو کس ائیر میں ہو” اس نے ہاتھ پیچھے باندھے باتوں کا آغاز کیا۔
مسکان:” 2nd year economics میں اور آپ؟” وہ گلاس کے پار دکانوں میں مصروف گاہکوں کے رش کو دیکھتے ہوئے بولی۔
زوہیب:” میں نے حال ہی میں گریجویشن مکمل کی ہے۔ ماسٹر کرنے لندن میں سکالرشپ کا apply کیا ہے۔”
مسکان:” تو جیجو سے آپ نے کہلوایا تھا آپی کو مجھے ساتھ لانے کے لئے” اس نے ابرو اچکا کے دیکھا۔
زوہیب:”ارے واہ آپ تو میری سوچ سے زیادہ سمارٹ ہے۔ اتنی جلدی پکڑ لیا” وہ دل کھول کے مسکرایا۔
مسکان:”اس دن کالج آپ واقعی کسی دوست سے ملنے آئے تھے” اس نے جتانے والے انداز میں کہا جیسے اس کی ایک اور چوری پکر لی ہو۔
زوہیب:”نہیں میں اس دن بھی آپ سے ملنے آیا تھا لیکن ستارہ کے موجودگی میں بات نہیں کر سکا” اس نے صاف گوئی سے نرم لہجے میں کہا۔
مسکان:”اور آپ کو مجھ سے بات کیوں کرنی ہے” وہ اس سے سارے راز اگلوانے کے موڈ میں ایک کے بعد دوسرا سوال کرتی رہی۔
زوہیب:” کیونکہ تم مجھے بہت پسند ہو” زوہیب نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ اس نے پہلی بار مسکان کو تم کر کے مخاطب کیا
مسکان اس کا اظہار سن کر ٹھٹک گئی۔ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے کانوں سنے زوہیب کے الفاظ پر یقین نہیں آرہا تھا۔
اس نے شرم سے نظریں نیچے کر لی۔ وہ پورا بلش کر رہی تھی۔ زوہیب قدم قدم چلنے لگا اور وہ بھی ساتھ بڑھ گئی۔
زوہیب:”میں بہت straightforward انسان ہوں مسکان ۔ میرے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو طریقہ مجھے مناسب لگے۔۔۔۔۔ میں وہ بات کہہ دیتا ہوں” اس نے سامنے دیکھتے ہوئے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وضاحت کی۔
مسکان گم سم سی اسے ہی دیکھ رہی تھی اچانک وہ اسے کافی میچور اور تجربہ کار لگا تھا۔ زوہیب نے رخ موڑ کر اسے دیکھا اور اپنی بات جاری رکھی۔
زوہیب:”لیکن لگتا ہے میں تمہیں پسند نہیں ہوں۔” اس نے تنگ کرنے کے لیے کہا۔
مسکان:” نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے” وہ زوہیب کے ایسے ڈائریکٹ سوال پر گڑبڑا گئی
زوہیب:” ایسا نہیں ہے تو اب تک میرا نمبر کیوں سیف نہیں کیا۔” زوہیب نے اپنا گلہ ظاہر کیا۔
مسکان:” آپ کا نمبر” اس نے حیرت سے سوچا۔ “وہ۔۔۔ میں نے دیکھا نہیں” یاد آنے پر اس نے سرخ چہرے کے ساتھ زوہیب سے کہا۔
زوہیب:”چلو اب دیکھ لینا۔۔۔۔ ویسے تمہاری کیا خصوصیات ہیں”
مسکان:”ہممممم میں بہت قدامت پسند ہوں۔ ہر کسی سے جلدی گھولتی ملتی نہیں ہوں۔”
زوہیب:” یہ تو اچھی خصوصیت ہے۔”
وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔ کچھ پل کے لیے دونوں میں خاموشی مائل ہوگئی۔
مال کے شور میں بھی زوہیب کے جذبات کو محسوس کرتے اسے اپنے آس پاس مکمل سناٹا چھایا ہوا لگا۔ پھر وہ دوبارہ چلنے لگے۔ ایک دوسرے سے باتیں کرتے وہ کومل کو بھول ہی گئی تھی، جب زوہیب کا موبائل بجا اور وہ رک کے سننے لگا۔
زوہیب:”بھائی کی کال تھی وہ دونوں فوڈ پوائنٹ پر ہیں ہمیں بھی وہی آنے کے لئے کہا ہے” اس نے فون رکھتے ہوئے کہا۔
مسکان:” تو آپ دو بھائی ہو” اس نے فوڈ پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:” نہیں ہماری ایک بڑی بہن بھی ہے مریم باجی۔ بھائی کی منگنی میں وہ نہیں آسکی تھی ان کا بیٹا بیمار تھا۔شادی میں آئیں گی۔”
وہ دونوں کیفے پہنچے تو کومل اور عثمان آمنے سامنے بیٹھے لنچ آرڈر کر رہے تھے۔ مسکان خاموشی سے آئی اور کومل کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئی۔
کومل:” کہاں چلی گئی تھی کتنی دفعہ پیچھے دیکھا تم نہیں تھی” اس نے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
مسکان:”میں آپ کی پرائیویسی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔” اس نے منہ کومل کے قریب کر کے کہا۔
****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...