دوسری شفٹ کبھی کبھی بڑی اذیت دیتی ہے۔ اس رات میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب بارہ بجے رات کو ڈیوٹی ختم کر کے سائیکل اٹھائی تو معلوم ہوا، پچھلے پہیے میں ہوا نہیں …… بڑی بھاگ دوڑ کے بعد مل میں ہی ہوا بھرنے کا انتظام ہوا تو پتہ چلا کہ پنکچر ہے، مجھے شاک لگا۔ دن میں تو ہر دس قدم پر سائیکل مرمت کرنے والوں کی دکانیں مل جاتی ہیں لیکن آدھی رات کو پنکچر کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ اور مجھے یہاں سے تین میل دور گلشن ہاؤسنگ کالونی میں جانا تھا۔ جہاں پچھلے سال ہی میرے نام ایک کواٹر الاٹ ہوا تھا۔ میں نے بغیر تذبذب کے سائیکل مل ہی میں چھوڑ دی اور پیدل چلنے لگا۔ کچھ دور تو مزدوروں کا ساتھ رہا، اور بعد میں اکیلا رہ گیا تو نہ معلوم کیسے ناتھو رام اور اس کی جوان بیوی کے معاشقے میرے ذہن میں آ کودے۔ جن کو رامو کا کا کینٹین میں مزے مزے لے کر سنا یا کرتا تھا اور پھر خود اپنا ماضی یاد آ گیا جو کہ شادی سے قبل کے واقعات تھے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا …… دن کو سوتے اور رات کو جاگ کر مقر رہ وقت کا انتظار کرتے …… اور پھر کبھی کبھی تو اونچی چھتوں سے کود کر اپنی آبرو بچاتے …… اس طرح راستہ آسانی سے کٹ رہا تھا اور جب پرانے پل پر پہنچا۔ یہاں سے کالونی قریب ہی تھی تو میرا ذہن ماضی کی داستانوں سے ہٹ کر اپنے پڑوسی شاہد کے کواٹر میں رینگ گیا۔ شاہد نے صبح ہی فریدہ سے کہا تھا:
’’بھا بھی!…… میں چنڈی گڑھ جا رہا ہوں، کل دوپہر تک واپسی ہو گی …… زرینہ تنہا ہے …… خیال رکھنا۔‘‘ زرینہ تنہا ہے، یہ خیال آتے ہی میرے بدن میں عجیب سی گدگدی ہوئی…… اوپر سے نیچے تک گداز ہے …… اور زرینہ اپنے گداز جسم کے ساتھ میرے ذہن پر چھا گئی……
میرا پڑوسی شاہد ہمارے بعد اس کواٹر میں آیا۔ ابھی اس کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا لیکن گھر نہ ملنے کی وجہ سے زرینہ وطن ہی میں و الدین کے پاس تھی۔ اب پہلی بار شاہد کے ساتھ رہ رہی تھی۔ شاہد اور میں ایسے گھل مل گئے جیسے سالہا سال سے ایک دوسرے کے شناسا ہوں۔ شاہد اکثر شام کی چائے ہمارے یہاں پیتا، اور پھر ہر چھٹی کا دن ہم سب ایک ہی گھر میں اور ایک ہی دسترخوان پر کھاتے پیتے، ہنستے بولتے گذارتے …… ہماری طرح فریدہ اور زرینہ بھی پرانی سہیلیاں معلوم ہوتیں۔ شروع شروع میں زرینہ مجھ سے شرماتی رہی۔ میرے سامنے بہت کم آتی۔ اور جب کبھی میرا اس سے سامنا ہو جاتا تو نظریں جھکا کر مسکراتی ہوئی بل کھا جاتی۔ اس کی اس ادا پر میں بھی بغیر مسکرائے نہیں رہ پاتا …… اور میں نے محسوس کیا آہستہ آہستہ وہ جھجھک ختم ہو گئی …… ابھی کی بات ہے کہ اس نے دو جڑواں کیلوں کا فراموش کیا اور میں جانتے بوجھتے ہوئے فراموش ہوا تو اس نے بڑی بے تکلفی سے میری جیب سے روپے نکال لئے اور دوسو کیلے منگا کر خود کھائے اور پڑوسیوں کو تقسیم کیے ……اور اس وقت زرینہ کی تنہائی، خوبصورتی اور مجھ سے بے تکلفی نے مجھ پر وہی اثر کیا …… جو کہ ایک پٹاری کے سانپ پر سپیرے کی بین کرتی ہے۔۔۔ ۔۔ ۔
جب میں کوارٹرس کے احاطے میں داخل ہوا تو پوری کالونی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی ٹرانسفارمر میں خرابی آ گئی تھی، آسمان بھی ابرد آلود سا نظر آ رہا تھا شاید اندھیرے کا اثر ہو۔ اور دو سو مکانوں کا یہ احاطہ بالکل خاموش تھا، جیسے قبرستان ہو …… اور ایک ہی نقشے سے کسی نے برابر برابر دوسو قبریں بنا دی ہوں …… میں بڑی احتیاط سے قدم اٹھا رہا تھا، ڈر تھا کہیں کسی چیز سے تصادم نہ ہو جائے اور جب میں زرینہ کے کواٹر پر پہنچا تو میرے ضمیر نے مجھے نفس کے پنجے سے چھڑا دیا…… اور میں نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا۔ لیکن یہ آج تک میں نہ جان سکا کہ دوبارہ کس طرح میرے جسم میں نفس کے تیز پنجے گڑ گئے اور میں نے خود کو زرینہ کے کواٹر پر پایا۔ آہستہ سے دروازے پر ہاتھ رکھا …… دروازہ بند تھا دیوار زیادہ اونچی نہ تھی اس لیے کوئی دقت نہ ہوئی …… اور میں نے بہت آسانی سے دیوار پار کر لی۔ صحن سے گزر کر برآمدے میں آیا۔ اس وقت میں 39 سالہ زیدی نہ تھا بلکہ 25 سالہ زیدی میری گرفت میں آ گیا تھا …… اور جب میں نے اندر والے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلا پایا۔ میرا نفس اس کامیابی پر جھوم اٹھا …… اور میں نے ہوشیاری سے اندر گھس کر دروازہ کی چٹخنی لگائی…… اور پھر اندھیرے کے شہزادے کی طرح زرینہ کی مسہری کی طرف بڑھا، نہ معلوم کیوں میری سانس اکھڑ رہی تھی اور بدن بھی کچھ کانپ سا رہا تھا میرے اندر کچھ جھجھک پیدا ہو رہی تھی کہ میری نظر مسہری پر گئی۔ جس پر سفید کپڑوں کی کھُلی گٹھری بڑی بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھی۔ بس پھر میں اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ اسی وقت الگنی پر لٹکا ہوا دو پٹہ میرے چہرے کو لگا اور میں نے اس کو کھینچ کر ہاتھ میں لے لیا۔ ویسے میں اسکارف سے کام نکالنے والا تھا۔ مسہری پر پہنچ کر میں نے اپنا گھٹنا زرینہ کے سینے پر رکھ دیا اور اس کا پورا چہرہ اسی کے دوپٹہ سے کس دیا آنکھوں پر خاص دھیان رکھا کہ کھلنے نہ پائیں …… اپنے اسکارف کو اس کے دونوں ہاتھوں کی نذر کر دیا۔ اس نے جد و جہد تو آخیر وقت تک کی لیکن بڑی بڑی مشینوں سے کشتی لڑنے والے ہاتھوں سے وہ آزاد نہ ہو سکی اور جب اس کو بے بس کر کے مطمئن ہوا تو میں نے اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اس کے جسم سے کپڑے جدا کر دیئے۔
اور جب چڑھی سانسوں کے ساتھ مسہری سے اتر کر دروازہ کی جانب بڑھا تو ایک آواز نے میرے پورے جسم میں کرنٹ دوڑا دیا ……
’’زیدی …… تم اپنی شکل چھپانے میں ضرور کامیاب ہو گئے لیکن اپنا سانس اور اپنے جسم کی ساخت کو نہ چھپا سکے۔‘‘
یہ میری بیوی فریدہ کی آواز تھی اور پھر اس گھپ اندھیرے میں نہ معلوم کس طرح مجھے اپنے کمرے کی ایک ایک چیز نظر آنے لگی …… اور مسہری پر زرینہ نہیں …… بلکہ فریدہ کا عریاں جسم مجھے منہ چڑانے لگا۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...