(سفر نامہ)
ایک مدّت کے بعد دل کی یہ حسرت پوری ہو رہی تھی، روحانی سفر شروع ہو چکا تھا۔ 11 بجے دن کی فلائٹ سے روانہ ہوئے 7 بجے ہمارا ہوائی جہاز ریاض ایر پورٹ پر کھڑا تھا دو گھنٹے وہیں گزارنا تھے۔ دل کا عجیب عالم تھا، میرا بیٹا اسی سر زمین پر آرام کر رہا ہے۔ دل چاہتا تھا بھاگتی چلی جاؤں اور اس کا نشان ڈھونڈوں پر ممکن نہ تھا۔ اپنے ساتھیوں سے آنسو چھپائے رات ہوتے ہوتے مدینے پہونچے۔ ایر پورٹ پر بڑی مشکلوں سے پاسپورٹ ملے۔ ہم سبھی قطار میں زینوں پر بیٹھے تھے۔ یہ شہر مدینہ ہے۔ میں یہاں سانس لے رہی ہوں۔ کسی صورت یقین نہیں آتا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہر طرف نیلی روشنی کا اجالا تھا۔ اک نیا احساس رگ و پے میں دوڑ رہا تھا۔ ہم اس پاکیزہ سر زمین پر قدم رکھ چکے تھے۔ بس روانہ ہوئی تو پورے گروپ نے ’’یا رسول اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اور اسی نعرے کی تکرار میں سفر تمام ہوا۔ مسجد نبوی کے مینار نظر آ رہے تھے۔ دل کا عجیب عالم تھا وہ کیفیت بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔
صبح سویرے ’’یا اللہ‘‘ کی آواز سے آنکھ کھلی۔ یہ کیا تھا۔ ؟ فجر کا وقت تھا نماز کے بعد بھی یہ آواز سنائی دی۔ ۔ پوچھا تو معلوم ہوا۔ یہ ہمارے باورچی صاحب ہیں ان کا نام انتظار ’’ہے۔ ۔ یہ ہر نماز کے وقت ایسے ہی آواز دیں گے اس کے علاوہ چائے اور کھانے کے وقت بھی وہ یونہی پکارتے۔ ۔ ’’یا اللہ‘‘ تاکہ سب لوگ کھانے کے لئے اکٹھا ہو جائیں۔ بہت ہی پر لطف اور مہر بان شخصیت کے مالک تھے۔ عمدہ کھانا پکاتے تھے۔ اور بہت اچھی چائے بناتے۔ مسجد نبوئی کے لئے روانہ ہوئے۔ ہوٹل بہت قریب تھاس لئے پیدل ہی چل پڑے۔
جنت البقیع کی جالیاں بہت قریب تھیں انھیں چھو کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ میرے ہاتھ ان پاک جالیوں کو محسوس کر رہے ہیں۔
حبیب اللہ کی ریاست دیکھی۔ اپنے آپ کو اپنے ہونے کا احساس دلانا پڑا۔ دعائیں مانگتی رہی روتی رہی۔ عجیب احساس تھا جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کی خوشبو اپنے اندر جذب کرتی رہی بس دل کا عجب عالم تھا۔
شام کو پھر وہیں پہونچ گئے۔ ٹھنڈا پر سکون ماحول۔ ننگے پاؤں۔ ۔ سر دسی لہر تھی جو ذہن و دل کو سکون بخش رہی تھی۔ بے پناہ مجمع اور ہم اسی مجمع میں گم۔ نمازیں تلاوتِ قرآن۔ اندر پہونچے تو دل کی دھڑکنیں بے قابو تھیں۔ بتا یا گیا تھا کہ سبز قالین پر نماز کا بہت ثواب ہے۔ مجمع بے حساب۔ ایک ریلا تھا عورتوں کا جو بہائے لئے جا رہا تھا۔ صرف چہرے نظر آ رہے تھے سبز قالین کہاں تھا؟؟ اچانک عالم آرا نے مجھ سے کہا۔ ’’نیچے دیکھیے آپ کہاں کھڑی ہیں ‘‘ دیکھا تو سبز قالین پر کھڑی تھی۔ نماز پڑھی مگر۔ سجدہ کرنا مشکل ہو گیا۔ کئی چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ مگر کسی طرح نماز پوری ہوئی۔ اور باہر آئے۔ سب بچھڑ گئے تھے۔ سب کو ڈھونڈتے ہوئے رات کے 11بج گئے۔ اب مجھے کچھ کچھ فکر ہونے لگی کہ ہوٹل کیسے جاؤں ؟
باب عثمان سے باب علی تک کئی چکر لگائے، کوئی نہیں ملا۔ سڑک پر آئی تو ہوٹل بھول گئی کدھر تھا۔ راستہ بھٹک چکی تھی۔ پھر ایک فرشتہ سفید کرتا پایجامہ پہنے اس سے احوال کہا اس نے ہوٹل کا کارڈ دیکھا اور مجھے ہوٹل چھوڑ گیا۔ بہت دعائیں دیں۔ اسے کمرے پر آئی تو سب تھے عالم آرا گم۔ یقیناً وہ مجھے ڈھونڈ رہی ہوں گی۔ میری بیحد عزیز دوست۔ اوپر جا کر ان کے شوہر کو بتایا۔ وہ سو رہے تھے جاگ گئے۔ 12 بج چکے ہیں اب تک عالم آرا نہیں پہونچی۔ وہ بڑے بذلہ سنج نکلے۔ بولے ’’آپ سو جائے وہ آ جائے گی۔ میں ڈھونڈنے نہیں جاؤں گا ورنہ میں بھی کھو جاؤں گا‘‘ میں خاموشی سے چلی آئی۔ بعد میں پتہ لگا کہ گئے تھے۔ مگر عالم آرا پہلے ہی آ گئیں۔ میں نے پوچھا کیسے آئیں ؟ بولیں۔ ’’ایک صاحب سفید کرتا پائجامہ پہنے ہوئے ملے، اور ہوٹل تک چھوڑ گئے۔ اللہ جانے وہ کون تھے ؟ دونوں ایک ہی یا الگ الگ؟
٭٭٭