گہری سی چمک وہ صرف اک پل کیلیے اس سمت دیکھ پائی تھی
“کیا ہوا زوبیہ تم تو کچھ لے ہی نہیں رہیں؟؟”
ڈاکٹر آصفہ نے ڈش اسکی طرف سرکاتے ہوے خالی پلیٹ دیکھ کر ٹوکا
میں لے چکی آپ نے بہت مزے کا حلیم بنایا ھے
۔۔۔
یہ مختصر سا فقرہ وہ اسوقت کتنی دقتوں سے بول پائی تھی یہ اسکا دل جانتا تھا۔۔۔
اپنا احمقانہ انداز میں سر جھکانا اور اسفند یار سے نظریں چرانا اسے جتنا بھی برا لگ رہا ہو مگراسوقت وہ خود کو اس کیفیت سے نکال نہیں پا رہی تھی۔۔۔
سر جھکاے بھی وہ محسوس کر سکتی تھی کہ بظاہر سب سے باتیں کرتے ہوےوہ مسلسل اسے فوکس کیے ہوے ہےاور اسکے چہرے پر بکھرے رنگوں اور گھبراے انداز کو انجواے کررہا ہے۔۔۔
کھانا کھاتےہی اسفند یار فورا چلا گیا وہ اور تاجدار بہی قہوہ پیتے ہی اٹھ گے۔۔۔
کہیں کوئ تبدیلی نہیں آئی تھی دونوں کے رویے میں کوئی تغیر نہیں تھامگر پھر بھی اک انکہی سی بات انکے درمیان میں تھی جو اگر اسے مسرت دے رہیں تھیں تو خوش تو وہ بھی تھا۔۔۔
بظاھر معمول کے انداز میں کام کرنا روٹین نبھانامگر جو دل خوشگمانیوں کے حصار میں آچکا تھاوہ عام سی بات میں سے بھی خاص معنی نکالتا تھا۔۔۔
حجت اپنا معمول کا چیک اپ کروانے آئ تھے۔۔۔
“یہ جوڑا مجھے شہباز نے لاکر دیا ہے۔ شہر گیا تھا کام سے۔میرے لیے یہ جوڑا اور چوڑیاں لایا ہے۔۔۔”
اسنے خوشی خوشی اپنے سرخ رنگ کے ریشمی سوٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔
عام گاوں لڑکیوں کی طرح وہ بھی سلکی کپڑوں کو قیمتی اور کاٹن کے کپڑوں کو سستا سمجھتی تھی۔۔۔
اسے حجت کی معصومیت پر پیار آیا تھا۔۔
اگر وہ کراچی لاہور اسلام آباد کی مختلف بوتیکس میں سےلڑکیوں کو کاٹن کے سوٹ آٹھ دس ہزار میں خریدتے ہوئے دیکھ لے تو شاید پاگل سمجھےگی۔۔۔
وہ اپنے نئے سوٹ اور چوڑیوں پر بے حد خوش نظر آرہی تھی۔۔۔زوبیہ اسکا خوشی سے دمکتا چہرا دیکھ کر خود بھی مسکرا رہی تھی۔۔۔
” میں اچھی لگ رہی ہوں نہ ؟؟”
اسکے بچکانہ انداز پر وہ کھل کر ہنس پڑی۔۔۔
“بہت پیاری بلکل نازک سی گڑیا لگ رہی ہو۔۔۔ ”
اسنے سچے دل سے تعریف کی۔۔۔
وہ شادی شدہ تھی ماں بننے جا رہی تھی مگر تھی تو کم عمر لڑکی ،،اسے اسکی خوشی بڑی فطری لگی۔۔۔
اسکی خوب تعریف کرنے کے بعد وہ اس سے بہادر کے سلوک کے بارے میں پوچھنے لگی۔۔۔۔
“آپکی وجہ سے میرا اتنا تو بھلا ہوگیا کہ اب وہ جب مجھے مارتا ہے تو اماں بچانے آجاتی ہیں۔”۔۔
میرے لیے تو یہ بھی بہت ہے ۔اماں کہتی ہیں کہ جب تو ماں بنےگی وہ بھی بہادر کے بیٹے کی تو وہ بدل جاءیگا۔۔۔
وہ سنجیدگے سے بولنے لگی۔۔۔
بس آپ دعا کریں ،اللہ مجھے بیٹا دےدے۔۔۔ ”
چلتے وقت وہ اسکے ہاتھ تھام کر بولی۔۔۔
“میں دعا کرونگی حجت۔۔۔ لیکن بیٹیاں بھی تو پیاری ہوتی ہیں۔۔۔”
اس نے سمجھانا چاہا۔۔۔
“نہیں مجھے بیٹا چاہیے ۔۔ بیٹی ہوئی تو میری طرح خاوند کے جوتے کھائے گی۔۔۔روٹی ملے نہ ملے مگر صبح شام خاوند کے جو تے پیٹ بھر کر کھانے کو ملیں گے۔۔۔ “۔
وہ بڑے ضدی اور ناراض انداز میں بولی تو وہ خاموش ہوگئ تھی۔۔۔
______________
بہت دنوں سے اسکا خالہ امی سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا تھا،پیسے وہ پابندی سے بھیج رہی تھی مگر وہاں سے کوئی خط نہ کوئی فون۔۔۔
اس سے پہلے بھی دو مرتبہ خالہ امی کا فون ملانے پر بھی بات نہ ہوسکی۔۔۔
اسنے انہیں فون کرنے کا سوچا۔۔۔
مگر فون کرنے پر جو اطلاع اسے ملی،وہ اسکے حواس کو درہم برہم کرنے کیلیے کافی تھی۔۔۔وہ کتنی دیر تک سکتے کی کیفیت میں سر تھامے بیٹھی رہی۔۔۔
وہ عورتوں کے وارڑ سے ہوکر واپس آرہی تھی جب اسے کوریڈورمیں پیرا میڈیکل اسٹاف کے چار پانچ افراد کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر آصفہ بھی اک سٹریچر کے پاس کھڑی۔
ان لوگوں کو اسطرح جھمگٹہ لگاے دیکھ کر پہلے تو اسے کوئی تعجب نہیں ہوا مگر ذرا قریب آنے پر اسکے نظر کونے میں کھڑے چند علاقائی لوگوں کے ساتھ ساتھ شہباز پر پڑی تووہ بری طرح چونکی۔۔۔
اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔۔۔
اسکا وجدان کسی خطرےکی نشان دہی کررہا تھا۔۔۔
وہ انتہائی تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ان سب کے پاس آئی۔۔۔
“کیا ہوا ڈاکٹر آصفہ؟؟”۔
سراسیمگی کے عالم میں اس نے پوچھا۔۔مگر انکے جواب دینےسے پہلے ہی اسکی نظر سٹریچر پر پڑے وجود پر پڑچکی تھی۔۔۔
“حجت”۔۔۔
وہ چلائی تھی۔۔ کیا ہوا اسے؟؟؟۔۔
خون میں لت پت بیہوش حجت وہ لڑکی لگ ہی نہیں رہی تھی جو اسےدوپہر میں خوشی خوشی اپنا سرخ جوڑا اور سر سبز و سرخ چوڑیاں دکھا کے گئ تھی۔۔۔
کپڑے تو اب بھی اسکے تن پر وہی تھے مگر کس حال میں۔۔۔؟؟؟
“اسکے پیٹ میں گولی لگی ہے”۔۔۔
ڈاکٹر آصفہ نےاسکی کیفیت دیکھتے ہوے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستگی سے بتایا۔۔۔
“گولی”
اسکا دل اندر ہی اندر ڈوبا۔۔۔کیسے؟؟ کس نے ماری اسے گولی” ؟
وہ اسکی نبض چیک کرتے ہوے ہذیانی انداز میں چیخی تھی۔۔۔
“اور آپ نے اسے یہاں کیوں رکھا ہوا ہے؟؟؟ آپریٹ کریں۔۔۔ گولی نکالیں”۔۔
“حجت آنکھیں کھولو دیکھہ میں تمھارے پاس ہوں میں تمھیں بچالونگی ۔۔۔ تمھیں زندہ رہنا ہے حجت۔۔۔ ہمت سے کام لو”۔۔۔
سب لوگ اسے چیختے چلاتے تعجب سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
ڈاکٹر شہزور کو وارڈ بولتے بلا کر لے آیا تھا جبکہ اسفند یار کو ڈاکٹر آصفہ نے خود فون کر کے فورا آنے کے لیے کہا تھا۔۔
“ہٹیں اک طرف”۔۔
ڈاکٹر شہزور لوگوں کو ہٹاتے بولے۔۔۔
سخت ترین بے بسی کے عالم میں اسکے نظر سامنےسے تیز قدم اٹھاکراسطرف آتے اسفند یار پر پڑی تو وہ بھاگتی ہوئی اسکے پاس آئی تھی۔۔۔
“حجت کو بچالیں پلیز”
وہ التجائیہ انداز میں اسکا بازو پکڑ کر بھرائی آواز میں بولی تھی۔۔۔
وہ بےلچک اور مضبوط انداز میں بولتاآپریشن کی تیاری کا حکم دیتا فورا وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔
اسٹریچر آپریشن تھیٹر کی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ خود بھی وہاں کی طرف بڑھی۔۔۔
وہ تینوں مخصوص گاونز اور گلوز پہن کر آپریشن شروع کرنے لگے اردگرد نرسیں اور اسٹاف بھی موجود تھا۔۔۔
اسکے لب تیزی سے ہل رہے تھے ہر وہ دعا جو اسے یاد آرہی تھی وہ پڑھ رہی تھی۔۔
اچانک سے ڈاکٹر شہروز اور اسفند یار کے ہاتھ رک گئے۔۔۔ڈاکٹر آصفہ نے اک دکھ بھری نگاہ حجت پر ڈالی تھی۔۔۔
اور ہاتھ لٹکا کر یوں کھڑی تھیں جیسے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔
ڈاکٹر شہزور آہستی آواز میں شاید اسفند یار سے بولے۔۔۔ “گولے جس اینگل سے لگی اور پھر جتنا خون بہ گیااتنی دیر بھی یہ زندہ رہ لیں یہ معجزہ ہی ہے۔۔۔
ورنہ موت تو پہلے ہوجانی چاھیے تھے۔۔۔
اسکےکان سائیں سائیں کرنے لگے “موت”
ڈاکٹر آصفہ اسکی طرف بڑھی تھیں ابھی وہ اسکے پاس آکر کہیں گی خجستہ مر گئ۔۔
وہ کیسے سنےگی انکو آتا دیکھ کر وہ تیزی سے باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔
وہ سب کے درمیان راستہ بناکر لوگوں کو چیرتی ہوئی اندھا دھند بھاگ رھی تھی۔۔۔
بے دھیانی میں بھاگتے اسے ٹھوکر لگی اور وہ بے اختیار گری تھی۔۔
“زوبیہ”
کوئی اسے آواز دے رہا تھا۔۔۔
پتہ نہیں وہ کتنی ہی دیر کوریڈور کے فرش پر اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے روے جا رہی۔۔۔
زوبیہ بچے صبر کرو اسے اسی طرح جانا تھا ۔۔،جلد یا دیر مگر جانا تو ہے۔۔۔ ،ہمیں بھی جانا ہی ہے۔۔۔
ڈاکٹر شہزور اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سمجھارہے تھے۔۔
منجمدآنکھوں سے وہ ان کی طرف دیکھے جارہی تھی۔
ان لوگوں کے پاس سے سٹریچرپر سفیدچادر سے ڈھکا ہوا وجود گزراتو اس نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کر لی تھیں۔
“میں نے آپ سے کہا تھا نا میں ایسی جگہ چلی جاؤنگی جہاں کبھی بھی کوئی مجھ پر ظلم نہیں کر سکے گا ، دیکھیں میں جارہی ہوں” اس وجود سے آواز آئی تھی۔
“خجستہ ،رک جاو میری بات سنو “۔ وہ اسکے پیچھے بھاگنا چاہتی تھی مگر ڈاکٹرشزور نے اسے مضبوطی سے ہاتھ پکڑ کر روک لیا تھا۔ اگلے لمحے وہ ان کے سینے پر سر رکھے دھاڑیں مار مار کررورہی تھی۔
“صبر کرو بیٹا! ” وہ اسکا سر تھپک رہے تھے۔
“آپ کچھ نہیں جانتے ڈاکٹرشہزور! کچھ بھی نہیں ، وہ میرے لۓ کیاتھی۔ میں اسے زندگی سے پیار کرنا سکھارہی تھی۔ اس کی کھوئی ہنسی لوٹانے کی کوشش کررہی تھی مگر سب ختم ہوگیا۔ ”
اسے نہیں پتا تھا کون اسے دیکھ رہا ہے، کون وہاں ہے ، کون نہیں۔ اسے بس خود اپنی چیخوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
زوبیہ! تمھیں وہاں جانا ہے۔ کیاآخری بار اسے نہیں دیکھوگی۔ ڈاکٹرآصفہ بیڈ پر اسکے سرہانے بیٹھی مسلسل اسے سمجھارہی تھیں۔ وہ کسی سے کچھ نہیں بول رہی تھی۔ بس آنسو تھے کے متاواتر بہے چلے جارہے تھے۔
چارپائی پر بے جان پڑے اس جسم کو کل اس نے سرخ لبادے میں ہنستے کھلکھلاتے دیکھا تھا۔
“گولی مارتے ہی بھاگ گیا تھا بہادر! پتا نہیں کہاں سے اسکے دوست اسے واپس بلا کر لاۓ ہیں کہ اگر بھاگے گا تو قتل کا الزام ثابت ہو جاۓ گا، پولیس سے تو یہ کہا ہے کہ پستول کی صفائی کر رہا تھا ، غلطی سے پستول چل گئ اور سامنے بیٹھی خجستہ کو لگ گئ۔ ویسے لگتا ہے چکر کچھ اور ہی ہے ،شاید اسکا شہباَز سے کچھ چکر تھا اور یہ بات بہادر کو پتا چل گئ تھی۔ ”
“بند کرو بکواس “۔
وہ ان عورتوں پر چلائی تو آس پاس بیٹھے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگۓتھے۔
ڈاکٹر آصفہ نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کسی جارحانہ عمل سے روکا تھا۔
“اگر وہ جماعت کی وجہ سےالٹی سیدھی باتیں کررہی ہیں تو تم تو سمجھداری سے کام لو۔ ” انہوں نے اسے ٹوکا تھا۔
۔۔۔ اس کے ماں باپ، بہن بھائی آنسو بہا رہے تھے ،اسکا دل چاہا کہ اسکے باپ کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دے اور کہے” تمھیں اسکی موت پر ایک آنسو بہانے کا بھی حق نہیں صرف دس ہزار روپوں کے لۓ تم نے بیٹی ایک ظالم کو سونپی تھی، اب ٹسوے بہا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو۔ ”
بہادر پولیس کی تحویل میں تھا ، پولیس اس کا بیان، ڈاکٹری رپورٹ اور اس وقت گھر پر موجود لوگوں کے بیان قلم بند کر رہی تھی۔
“مجھے کیا پتا تھا ، میرا لایا ہوا جوڑا اس کی موت کا سبب بن جاۓ گا، وہ اسکے کردار پر شک کرتا تھا، ہم لوگ اچھی طرح بولتے تھے تو اسے غصہ چڑھتا تھا۔ اسے اپنی زیادہ عمر کا بہت احساس تھا اسی لۓ وہ اسے دبا کر رکھتا تھا۔ ، لیکن وہ یہ سب کر جاۓگا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر پتا ہوتا تو کبھی اسکے لۓ کوئ تحفہ نہ لاتا۔ بس اسکے نۓ کپڑے دیکھ کر اسے آگ لگ گئ تھی، مجھ سے بھی لڑا تھا کے میں اپنی بھابھی پر گندی نظر رکھتا ہوں بات بڑھتے بڑھتے زیادہ بڑھ گئ تھی کہ خجستہ بھی چیخنے لگی تھی۔ میں اور اماں تو دیکھتے ہی رہ گۓاور بہادر نے نیفے میں پھنسی ہوئی ریوالور نکال کر اس پر فائر کر دیا۔۔۔
شہباَز سرگوشی میں آہستہ آہستہ کل کا سارا واقعہ سنا رہا تھا اسے اور ڈاکٹرآصفہ کو۔
” کاش میں نے اسے اپنے پاس روک لیا ہوتا۔ بس چار گھنٹے اور اسے اپنےپاس روکے رکھتی۔ وہ گھڑی ٹل جاتی تو اسے واپس گھر بھجوادیتی۔ لیکن نہیں اسے واپس ہی نہ بھجوادتی اپنے پاس ہی رکھ لیتی اسے وہاں کبھی بھی نہیں جانے دیتی” وہ خود سے کہہ رہی تھی۔۔۔
اسکے اندر زندہ رہنے کی خواہش ہی دم تڑ گئ۔
اس روز کے بعد اس نے خجستہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ اندر ہی اندر وہ خود بھی ختم ہورہی تھی۔۔
اب زندگی میں کبھی کوئی روشن پل نہیں آۓ گا۔ اب زندگی کبھی کوئی مدھر گیت نہیں گاۓ گی۔۔۔
چوتھے روز وہ خود کو زبردستی گھسیٹ کر ہاسپٹل لے آئی تھی۔
کسی نے براہ راست اس بارے میں اسے کوئی بات نہیں کی تھی ، مگر سب اسے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ آج بچوں کو کہانیاں سناتے ہوۓ اسکا دل کررہا تھا کہ آخر میں کہانی کا اختتام ہی بدل دے۔
“پھر سنڈریلا آخر میں اکیلی رہ جاتی ہے۔ کوئی شہزادہ اسے لینے نہیں آتا”۔
” سنو واہٹ زہریلا سیب کھا کر مر جاتی ہے پھر شہزادے کے جگانے پر بھی نہیں اٹھتی”
بچے اس جادوگرنی کےمکان پر پہنچتے ہیں جسپر بڑے بڑے کیک، چاکلیٹس اور خوب ساری آئس کریمز لگی ہوتی ہیں تو جادوگرنی انھیں اندر بلا کر کھولتے تیل والی کڑھائی میں ڈال دیتی ہےاور وہ دونوں بہن بھائی جل کر مر جاتے ہیں۔ ”
” ہاں یہی زندگی کی سچائی ہے، زندگی بہت بے رحم اور ظالم ہے، اس سے خوش امیدی وابستہ کرنا بےکار ہے۔ ”
وہ سست قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی ، جب چوکیدار اسے ڈھونڈتا ہوا اسی طرف آیا تھا۔۔
” آپ کو ڈاکٹرصاحب بلارہے ہیں “مردہ قدموں سے چلتی ہوئ چوکیدار کے پیچھے گیٹ تک آگئ تھی۔۔۔
اسفندیار جیپ میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔
“بیٹھیں”۔۔ اسے دیکھ کر دوسری طرف کا دروازہ کھولتے ہوۓ وہ عام سے انداز میں بولا،
“کہاں جانا ہے۔ ؟”۔۔ اس نے بے دلی سے پوچھا تھا۔
” اِک ضروری کام سے جانا ہے، آپ جلدی سے بیٹھیں “۔۔۔
وہ اگنیشن میں چابی گھماتا ھوااس کی طرف دیکھے بغیرگویا ہوا تھا ،وہ مزید سوال جواب کیے بغیر جیپ میں بیٹھ گئ۔
“کوئ پوچھے تو کہنا کسی ضروری کام سےگۓ ہیں ، واپسی پر تھوڑی دیر ہوجاۓ گی”۔ وہ گاڑی فرسٹ گئیر پر ڈالتے ہوۓ چوکیدار سے بولا۔۔
خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوۓ اسنے ایک بار بھی اس کی طرف نہیں دیکھاتھا۔۔
اس نے ایک دو بار الجھی نظریں اس پر ڈالی تھیں آخر وہ اسے کہاں لے کر جارہا تھا۔۔
۔۔۔۔ ایک گھنٹے کی تیز ترین ڈرائیو کے بعد اس نے جیپ درختوں کے جھنڈ کے نیچے روکتے ہوۓ اسے نیچے اترنے کے لۓ کہا تھا۔ وہ اتر تو آئی تھی مگر اب حیرت سے اس ویران جگہ کو دیکھ رہی تھی۔ ۔
وہ آگے بڑھا تو وہ بھی اسکے پیچھے چلنے لگی تھی۔۔ سامنے بہتی جھیل کے پانی اور ہوا سے ہلتے درختوں کے پتوں کے سوا وھاں دور دور تک کوئی آواز نہیں تھی۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ درختوں کی چھاوں میں بیٹھ گیا تھا اسے بھی اشارے سے بیٹھنے کا کہا گیا تھا ، وہ بے دلی سے اس سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئ۔
کچھ دیر وہ یوں ہی پاس پڑے چھوٹے چھوٹے پتھر پانی میں اچھالتا اور بھنور بنتے دیکھتارہا۔۔
“کیا بات ہوئی ہےزوبیہ؟؟” اس نے اچانک اسکی طرف رخ کر کے سوال کیا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...