اس موضوع کو میں نے اس لئے چُنا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جاننا ہو گا، آج جب بھائی بھائی کی جان کا پیاسا ہو چکا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے نہیں تھکتے۔ پیسے کی خاطر بچے ماں باپ کو برا بھلا کہتے ہیں، غربت کی وجہ سے مائیں اپنے بچوں کو بیچ دیتی ہیں، باپ اپنے بچوں کے گلے کاٹ دیتا ہے۔ اس دور میں ہمیں ڈگریوں کی نہیں علم و حکمت سے بھرپور زندگی سے عظیم لوگوں سے کچھ اہم اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس موضوع پر روشنی ڈالنے لے لئے ہمیں تاریخ میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اسی صدی کے کچھ ایسے لوگوں کی زندگی کے بارے میں آپ کو آگاہ کئے دیتے ہیں۔ یہاں میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کا نام لینے کا شرف حاصل کروں گا جنہوں نے یہ پاک وطن بنا کر ساری دنیا کو حیران پریشان کر دیا۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات کے مصداق ہو سکتا ہے کہ آپ کو زندگی کی عظمت کا اندازہ ہو جائے۔
بھگت سنگھ
انگریز تاریخ دان کہتا ہے کہ میں نے دو طرح کے لوگ اپنی زندگی میں دیکھے تھے۔ ایک وہ لوگ جو چیختے چیختے مر جاتے ہیں اور ایک وہ جو خاموشی سے مر جاتے ہیں۔ اور پھر میں نے ایک تیسری قِسم کے لوگ دیکھے اور یہ لوگ نہ چیختے تھے اور نہ خاموش تھے۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے خوشی سے جا رہے تھے۔ جیسے موت ان کی دلہن ہو۔ ہاں! میں بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں کہ جب پھانسی کی سزا گئی۔ تو جیل میں بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی کتاب لا کر دے دو، میں اس وقت کا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ کتابیں لا کر دی گئیں، پڑھتے رہے۔ پھانسی کا وقت آن پہنچا، پانچ منٹ باقی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ چلو! پھانسی کا وقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برائے مہربانی، مجھے یہ کتاب مکمل کرنے دو۔ میں اس حصے کو پڑھے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ کہاں سے لائیں گے یہ عشق۔
محمد علی کلے
یہ وہ مُکے باز (باکسر) ہے، جس نے اپنے آپ کو کہا تھا کہ میں سب سے عظیم ہوں (I AM THE GREATEST)۔ اور کسی نے اس کی بات سے اختلاف نہیں کیا۔ جو کہ اس بات کا اعتراف اور تصدیق ہے کہ کسی کو اِس کی عظمت پہ شک نہیں تھا۔ اِس عظمت کے مقام پر پہنچ کر بھی اس کے کردار پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ کوئی ایسی بات نہیں کوئی ایسی رپورٹ نہیں آتی جو محمد علی کے کردار کشی کرتی ہو۔ محمد علی کہتا ہے:
مجھے اپنی کوشش (Practice) کے ایک ایک لمحے سے نفرت ہے۔ لیکن میں نے اس میں پوری لگن لگا دی کیوں کہ میں جانتا تھا کہ یہی وہ لمحات ہیں جو مجھے چیمپئن بنائیں گے۔
لوگ محمد علی سے پوچھتے ہیں کہ
تم کیوں نہیں پھسلتے، تم کردار کے اتنے پکّے کیسے ہو؟
تو محمد علی جواب دیتا ہے:
جب میں کوئی للچا دینے والی چیز دیکھتا، مزیدار چیز دیکھتا۔ تو اپنی جیب سے ایک ماچس کی ڈبی نکالتا اسے اپنی ہتھیلی کے نیچے جلاتا اور اس کی تپِش محسوس کرتا اور پھر خود سے سوال کرتا کہ یہ چیز زیادہ مزیدار ہے یا جہنم کی آگ زیادہ خطرناک ہے۔ اور اس کا جواب مجھے مِل جاتا۔
پڑھ پڑھ علم تے فاضِل ہوئیوں
تے کدے اپنے آپنوں پڑھیا نائیں
بھَج بھَج وَڑنائیں مندر مسیتی
تے کدے مَن اپنے وِچ وَڑیا نائیں
اِکو اَلف تیرے درکار
اِکو اَلف تیرے درکار
(بلھے شاہ)
بُلّھے شاہ کہتے ہیں کہ (اے انسان) تو ستاروں سیاروں کی بات کرتا ہے۔ کہ چاند، سورج کی بات کرتا ہے لیکن اگر تو بات نہیں کرتا تو اپنی نہیں کرتا۔ تو نہیں جانتا، تو اپنے آپ کو نہیں جانتا۔
تخلیقِ انسان کے قِصّوں میں آتا ہے کہ جب انسان کو بنایا گیا، تو سوال یہ آیا کہ زندگی کا راز کہاں چھپایا جائے۔ تو فرشتوں نے کہا کہ:
آسمان میں چھپا دیتے ہیں۔
تو اللہ نے فرمایا:
نہیں! انسان کو بہت عقل دی ہے۔ یہ آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔
فرشتوں نے کہا کہ:
سمندر میں چھپا دیتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا:
نہیں! انسان کو بہت دانش دی ہے یہ سمندر کی تہیں تک کھنگال لے گا۔
تو پہاڑوں، درختوں سے ہوتے ہوتے آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس کی زندگی کا راز اس کے اپنے اندر چھپا دو۔ وہ آنکھوں سے باہر کے نظارے تو دیکھے گا لیکن اپنے اندر نہیں جھانکے گا۔ وہ کانوں سے دوسروں کی آواز تو سنے گا۔ لیکن اپنے اندر اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنے گا۔
رب نہ دیوے اُس کو ہمت
ہم مَن کے دریا میں ڈوبے
کیسی نَیّا، کیا منجدھار
بس کریں او یار
علموں، بس کریں او یار
ڈاکٹر مہاتیر محمد
زندگی سے عظیم لوگوں کی بات ہو اور سیاست سے منسلک اُس عظیم سپوت کی بات نہ ہو جس نے ایک ہجوم کو قوم میں تبدیل کر دیا، لوگ جھوٹوں، نِکموں اور بے وقوفوں کو اپنا رہنما مان بیٹھے ہیں۔ آئیں میں آپ کو مردِ قلندر سے ملواتا ہوں۔ اس سے مِل کر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے رہنما۔ وہ انسان جس کا نام ’ڈاکٹر مہاتیر محمد‘ ہے۔ وہ انسان جس نے سر زمینِ ملائیشیا کی قسمت بدل کے رکھ دی۔ ملائیشیا میں پاکستان سے کہیں زیادہ کرپشن اور جہالت تھی۔ تُن عبد الرزاق حسین نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ مہاتیر محمد نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ مہاتیر محمد ایک کسان کا بیٹا تھا۔ تعلیم کے لئے ایسی لگن کہ ماں باپ سے لڑے۔ باپ نے قرضے لے لے کر اس کو پڑھایا۔ بیرونِ ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری لے کر واپس آئے تو لوگوں نے کہا کہ کتنا پاگل ہے جو اتنا پڑھنے کے بعد بھی واپس آیا۔ اسے کہنے لگے کہ جاؤ! باہر کسی ملک میں نوکری کرو اور سکون دِہ زندگی بسر کرو۔ مہاتیر کو اُن تمام لوگوں کی باتوں پر بہت افسوس ہوا۔ اس نے اپنے ملک میں رہ کر اپنے وطن کی قسمت بدلنے کی ٹھان لی اور 23 سال کی محنت کے بعد مختلف عہدوں سے ہوتا ہوا بالآخر ملائیشیا کا وزیر اعظم بن گیا۔
وزیرِ اعظم بننے کے بعد سب سے پہلا کام اُس نے یہ کیا کہ ایک خط اُن اساتذہ کو لکھا، جو ملائیشیا کے رہنے والے تھے۔ لیکن بیرونِ ممالک میں یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تھے۔ اس خط میں لکھا، کہ ملائیشیا کو تمہاری ضرورت ہے، برائے مہربانی واپس آ جاؤ۔ اورساتھ میں ان کو ایک آفر کی کہ جتنا تم وہاں کما رہے ہو ہم کوشش کریں گے کہ تم اتنا ہی یہاں بھی کما سکو۔ تاریخ گواہ ہے کہ 95 فیصد لوگ جو ہارورڈ، فرینکفرٹ اور کئی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تھے واپس آئے۔ اور ایک تعلیمی انقلاب لے آئے۔
دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے ملک کے باسیوں کو بلایا اور اُن سے پوچھا کہ ہمارے ملک کا سب بڑا مسئلہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے، کیا کریں انڈسٹری نہیں لگا سکتے۔ مہاتیر ان لوگوں کے، جو ٹیکنالوجی کا شوق رکھتے تھے، کے وَفد بنا کر کئی ممالک میں بھیجے کہ جاؤ! ٹیکنالوجی کا علم سیکھ کے واپس آؤ اور ملائیشیا میں کام کرو۔ وہ لوگ سیکھ کر واپس آئے اور ملائیشیا میں صنعتی پیداوار میں اضافہ شروع ہو گیا۔ ہر جگہ Made in Malaysia چیزوں کا بول بالا ہونے لگا۔
کچھ وقت بعد لوگوں نے کہا کہ ہم بہت سی اشیاء بنا تو رہے ہیں لیکن ہمارا اپنا کوئی برینڈ (Brand) نہیں ہے۔ مہاتیر محمد نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی گاڑی بنائیں گے۔ صنعت کار کہنے لگے کہ ہماری گاڑی کوئی نہیں خریدے گا۔ لیکن مہاتیر فیصلہ کر چکا تھا۔ پروٹون نامی پہلی چھوٹی گاڑی بنائی گئی۔ لیکن جیسا کہ صنعت کاروں نے کہا تھا گاڑی برے طریقے سے پِٹ جاتی ہے۔ کوئی خریدار نہیں ملا۔ صنعت کار سَر پکڑ کر آ گئے، ہم نے کہا تھا کوئی نہیں خریدے گا یہ کار۔ تو نے ہمیں تباہ کر دیا ہم نے تمہیں کہا تھا کہ یہ برینڈ نہیں چلے گا۔ اس وقت مہاتیر محمد نے وہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ جو فیصلہ ایک پاک باز اور محب وطن وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے۔ وہ فیصلہ یہ تھا کہ جتنے بھی سرکاری ملازمین ہیں، جتنے بھی مشیر، وزیر ہیں وہ سب پروٹون گاڑی ہی چلائیں گے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ مہاتیر محمد خود پروٹون چلاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اگلے دو سال میں پروٹون ملائیشیا کی نمبر وَن کار بن گئی۔ یہ ہوتی ہے رہنمائی (Leadership)۔
20 سال کی حکومت کے بعد جب مہاتیر نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں۔ آپ نے ہمیں اس قابل کر دیا کہ ہم سَر اُٹھا کے جی سکیں۔ اور مہاتیر نے جواب دیا:
“I AM NOT REQUIRED NOW, THE TEAM IS READY.”
یہ ہوتا ہے عشق۔
کوئی انسان کیسے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے۔ کوئی انسان کیسے اس نہج پر پہنچ سکتا ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ خدا رازِق ہے، اور پھر رِزق کے بارے میں پریشان بھی رہے۔ میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہوں کہ رضائے الٰہی کو پہلی ترجیح دیں باقی سب خدائے واحد و یکتا کے سپرد کر دیں۔ وہ خدا جو ہمیں ستّر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے وہ کیسے اپنی مخلوق کو تکلیف میں دیکھ سکتا ہے۔
“اپنی صلاحیات کو پہچانئے! جب آپ کا کام، آپ کا عشق بن جاتا ہے، خدا اس میں آپ کو کامرانیوں سے نوازتا ہے۔ “