(Last Updated On: )
نصرت ظہیر
زندگی مجھ پر نہیں سب پرہے بھاری کیا کروں
ظلم،غصہ،بے بسی، بے اختیاری ․․․کیا کروں
یہ جو اک کم بخت سینے میں ہے، دشمن ہے مرا
بڑھتی ہی جاتی ہے اس کی بے قراری کیا کروں
رات پھر لے آئی ہے بے صبر بستر پر مجھے
پھر ہوا آنکھوں سے وہ اک درد جاری کیا کروں
کن گلستانوں میں لے آئی ہومجھ کو میری جاں
اک کلی بھی تو نہیں ان میں ہماری کیا کروں
آرزو کا ایک دامن دور تک پھیلا ہوا
اور اس پرگھر ،گرہستی، ذمہ داری کیا کروں
چھوڑ کر آیا ہوں پیچھے دوستوں کی نخوتیں
سامنے ہے دشمنوں کی انکساری کیا کروں
خوں ٹپکتا ہے نہ کوئی درد ہوتا ہے کہیں
یہ ترا دستِ ہنر یہ زخمکاری کیا کروں
صرف آغوشِ جنوں ہے عشق کی جائے اماں
ہر طرف ہے حسن کی سرمایہ داری کیا کروں
دوستوں کی بھی نصیحت اب بری لگتی نہیں
چارہ سازی ہے نہ کوئی غم گساری کیا کروں