خرم خرم اٹھو۔ رندھائی ہوئی آواز سے پکارا
کیا ہوا؟۔خرم نے نیند سے بوجھل آواز سے بولا
وہ وہ پاپا۔ ۔ ۔ وہ زارو قطار رونے لگی۔
آفس میں ہیں کہہ رہے تھے آجاؤں گا۔ آنکھیں مسلتا اٹھا
نہیں وہ۔ ۔ آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو صاف کیے۔
تم رو کیوں رہی ہو؟ اب دھیان اس کے رونے پر گیا۔
پاپا کے پی۔اے کی کال تھی وہ اسپتال میں ہیں۔ وہ ایک دم کھڑی ہو کر بولی
کیا چلو پھر۔ وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھا اگر وہ بچ گئے تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گا۔ اگلی بات گول کر گیا جلدی سے گاڑی سے ہسپتال پہنچا۔
کیا ہوا پاپا کو؟ جاتے ہی کوری ڈور میں کھڑے پی۔اے سے پوچھا۔
سر ان کی ڈیتھ ہو گئی۔ وہ افسردگی سے بولا۔
وٹ؟ نمرہ نے صدمے سے سر پکڑا۔
نمرہ پلیز تم گاڑی میں چلو۔ خرم نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔
تم باڈی گھر لے کر چلو اور انتظام کرو۔ پی۔اے کو ہدائت دیتا نمرے کے ساتھ چل دیا۔
وقت تیزی سے گزر گیا مہینے گزر گئے عرفان صاحب کے انتقال کو مگر نمرہ بھول نہیں سکی دن بدن وہ بیمار رہنے لگی یا تو سارہ دن سوئی رہتی یا سارا دن سر درد لیے سوچتی رہتی۔ خرم نے بہت سہولت سے کاروبار سنبھالا کیونکہ معاملات تو وہ پہلے سے ہی جانتا تھا۔
نمرہ یہ لو کچھ کھا لو۔ ۔ روز کی طرح اسے کھانے کو منانے بیٹھا
بھوک نہیں لگ رہی ۔ ۔ نمرہ بے زاری سے بولی۔
ارے ایسے تو تم اپنی طبیعت خراب کر لو گی۔ کھانے کی ٹرے رکھتے بیٹھ گیا۔
پتا نہیں کچھ کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ہاتھوں کی انگلیاں کھورنے لگی۔
میں سمجھ سکتا ہوں پاپا کی موت کو تم نے دماغ پر لے لیا فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا تم سائن کرو اس پر۔ ایک فائل اس کے سامنے کی۔
کیا ہے یہ ؟ فائل کو ہٹاتے بولی
وہ بس کمپنی کے کچھ پیپرز ہیں تمہارے سائن چاہیے ایک ڈیل کرنی ہے۔ وہ سرسری سا بولا
کونسی ڈیل؟ اتنے عرصے میں پہلی بار نمرہ نے دلچسبی سے بولا۔
تم چھوڑو ۔ ۔ کہاں کھپو گی اپنی طبیعت پہلے ہی خراب کر رکھی ہے۔ کوٹ کی جیب سے پین نکالا
نہیں خرم گھر رہ رہ کر مجھے لگتا ہے میں بیمار ہو جاؤں گی میں بھی کل سے آفس جاؤں گی۔ نمرہ نے بم پھوڑا تھا
آفس ۔ ۔ ۔ ؟ وہ آنکھیں کھولے دیکھنے لگا
ہاں۔ وہ فائل دیکھتے بولی
اچھا پہلے یہ کھاؤ پھر تمہیں آفس کی ڈیٹیلز دوں گا۔ اسے ایک کیک کا پیس دیتے بولا
اوکے ۔ وہ مسکرا کر پیلٹ پکڑ کے دیکھنے لگی
کھاؤ میں آیا۔ ۔ اسے کھانے کا کہہ کر وہ نکل گیا وہ کیک ختم کر کے ہاتھ دھونے لگی۔ ہمشہ کی طرح کھانے کے بعد پھر سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
نمرہ ۔ ۔ ۔ نمرہ ۔ ۔ خرم نے اسے کمرے میں نہ دیکھ کر پکارا
ہاں۔ سر کو تھامے واش روم سے نکلی۔
آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔ اس کا ہاتھ تھامے باہر لے جانے کو پر تولنے لگا۔
مجھے نیند آ رہی ہے پتا نہیں کھانے کے بعد ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آنکھیں مسلسل نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔
مجھے پتا ہے ۔ آؤ ساتھ بتاتا ہوں۔ اسے آہستہ آہستہ لے جانے لگا۔ سٹور سے اندر کارپٹ کو ہٹا کر دروازہ کھولا شاید کو تہ خانہ تھا۔
یہ کیا ہے ؟۔ ۔ وہ ایک دم چونکی۔ کسی نے ایک دم سے کھینچ کر دونوں ہاتھ کمر سے لگائے
یہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ ایک دم بلبلا اٹھی۔
اندھیرے کمرے میں ٹارچ کی روشنی ہوئی جو سیدھا نمرہ کی آنکھیں چندھیا گئی۔نمرہ نے زور سے آنکھیں بند کی پھر دھیرے دھیرے کھولیں۔
کر کیا رہے ہو خرم ۔ ۔ ؟ وہ اسے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ جو ٹیپ کھول رہا تھا اور شائد اس کے منہ پے لگانے والا تھا
ہیلو بے بی۔ دیکھو آج تمہارے لیے میں شوربا لایا ہوں بہت پسند ہے نا تمہیں۔ ٹرے زمیں پر رکھے گھٹنوں کے بل بیٹھا۔
خرم کیوں کر رہے ہو یہ سب۔ وہ بے بسی سے بولی
کیا کر رہا ہوں؟ چہرے پر گہری مسکراہٹ لائے لا تعلقی سے بولا
سب کچھ پاپا کے بعد تمہارا ہی تھا۔ نمرہ نے آنکھوں میں جھانکا۔
غلط پاپا کے بعد تمہارا۔ مجھے تو نوکر بنا دیا۔ بھولنویں اچکائیں
تم غلط سمجھے ہو۔ وقت اسے کہاں لے آیا تھا جس کے لیے باپ کے مخلص دل کو توڑا تھا آج وہی اسے زندگی کی تلخ حقیقت کے سامنے اکیلا کھڑا کر گیا۔
اچھا تو صحیح سمجھا دو۔ وہ مزے سے اس کے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھا۔
ویسے آج تمہاری زبان چل رہی ہے۔ ورنہ ڈرگز نے تو تمہیں بے زبان کر دیا تھا۔ وہ ہنسا تھا
درگز ۔ ۔ ۔ خرم تم مجھے ڈرگ ایڈکٹ بنا رہے تھے۔ آنکھیں نم ہوئیں
ہاں نا۔ ۔ ۔ پاپا کی موت سے پہلے سے۔ تم اگر ان پیپرز پر سائن کر دیتیں تو سب میرے نام ٹرانسفر ہو جاتا تو یہ سب نا ہوتا آفس آنے کا سوچ کر سارا پلین خراب کر دیا۔ اس کا گال کھینچا ۔
میں نے تم سے پیار کیا تھا تم اس کا یہ صلہ دے رہے ہو؟ وہ یاد کروانے لگی شائد کچھ بدل جائے
پیار ۔ ۔ ۔ تم جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس ہوتی ہیں پیار کرنے کے قابل نہیں۔ حقارت سے بولا
وقت برباد نا کرو سائن کرو گی ۔ گرج کر بولا
میں اس سب سے تنگ آ چکی ہوں۔ دو کہاں سائن کرنا ہے مجھے ۔ آنکھیں بند کیے وہ گہری سانس لیے بولی
پیپرز نکال کر سامنے کیے۔
میرے ہاتھ کھول گے تو سائن کروں گی نا۔ ۔
اوہ ہاں میں تو بھول ہی گیا۔
جیسے ہی وہ ہاتھ کھول کر پیچھے ہٹا نمرہ نے سالن اس کی آنکھوں میں اچھالا جس سے وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا وہ جانتی تھی آج ہفتہ تھا خرم کے معمول کے مطابق وہ ہفتے کے روز سب ملازموں کو چھٹی دے کر اسے سائن کرنے کا رونا رونے آتا تھا۔ وہ جلدی سے نکل کر گھر کے مین ڈور کی طرف بڑھی اس سے پہلے وہ نکلتی ۔ ۔ ۔ وہ ایک دم رکی باہر کی روشنی نے اس کی آنکھوں کو بند ہونے پر مجبور کیا وہ واپس مڑی اور گھر کی پچھلی جانب بڑھی وہاں بیک سائڈدروازہ تھا جس کی چابی ہمیشہ ڈور میٹ کے نیچے رکھی جاتی تھی۔ نمرہ نے دروازہ جلدی جلدی سے کھولا مگر وہ کھل کے ہی نہیں دے رہا تھا کانپتے ہاتھوں سے بار بار کوشش کر رہی تھی۔ پھر اچانک ایک کلک سے وہ کھلا چابی تالا وہیں پھینکے وہ بھاگنے لگی
دعا بہت پریشان ہے ایک تو یہ لڑکی کچھ بتاتی بھی نہیں ہے۔ رات کے کھانے کے بعد کمرے میں آتے ہی بولا۔
دعا کے علاوہ کسی کیا خیال نہیں ہے۔ زی نے چڑ کر کہا
ہے نا۔ وہ جانتا تھا وہ چڑی ہے۔
لگتا تو نہیں۔ وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔
یار تم نہیں سمجھو گی میرا اور اس کا ریلیشن۔ وہ بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا۔
تو سمجھا دو۔ گھور کر دیکھتے بولی
نہیں سمجھا سکتا بہت کمپلیکیٹڈ ہے ہمارا ریلیشن۔ آنکھیں بند کیے وہ چت لیٹ گیا۔
کیا مطلب ہے۔ دوست ہے بس۔ دل کو سمجھانے کو بولی۔
نہیں اس سے زیادہ ۔ ۔ ۔ بند آنکھیں کھولے بغیر بولا
وہ ۔ ۔ اس سے پہلے زی کچھ کہتی شیری کا فون بجنے لگا۔
فون سنتے ہی شیری کا رنگ فک ہوا۔
کون تھا؟فک چہرہ دیکھ کر پوچھا۔
تم ۔ ۔ ۔ چلو میرے ساتھ۔ وہ جلدی سے اٹھا اپنا والٹ اور گاڑی کی جابی اٹھاتا کمرے سے تیزی میں نکلا۔ زی بھی اس کا ساتھ چل دی۔
کیا ہوا ہے شیری؟ اسے فل سپیڈ میں گاڑی چلاتے دیکھ وہ بے انتہا ڈر گئی۔
زی پلیز اس وقت خاموش رہو۔ ۔ ۔
گاڑی ایک مصروف شہرا پر روک کر وہ یہاں وہاں دیکھنے لگا۔ زی بھی اس کی پیروی کرتے اتری۔ سامنے سڑک پار ایک لاغر بے حال لڑکی کھڑی تھی۔
نمرہ ۔ ۔ ۔ شیری نے سڑک کراس کرتے پکارا۔
بس سٹاپ پر وہ پلر کا سہارا لیے کھڑی تھی۔
ش۔ ۔ شی۔ ۔ اس سے پہلے کچھ کہتی پلر کا سہارا چھوڑنے پر گری۔ زی نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانے میں شہری کی مدد کی اسے سہارا دے کر وہ گاڑی میں پیچھلی سیٹ پر بیٹھایا۔
ہم اسے ہسپتال لے کر جائیں گے۔ اسے اگلی بات بتاتا ڈریونگ سیٹ پر براجمان ہوا۔
شیری یہ؟۔ ۔ ۔ زی لڑکی کی بے حد خوفناک حالت دیکھ ڈر گئی جگہ جگہ زخموں کے نشان اور آنکھوں کے گرد حلقے بتا رہے تھے وہ کافی عرصے سے تشدد کا شکار رہی ہے۔
پلیز ابھی کچھ مت پوچھو۔ ۔ پریشانی سے بولا۔ ساتھ ہی فون بجنے لگا
فون ہے ۔ ۔ مسلسل اگنورنس سے زی کو بولنا پڑا۔
تم کرو بات۔ ۔ فون پیچھے زی کو پکڑا۔
ہیلو۔ ۔ زی نے لیڈی ہٹلر کالنگ۔ ۔ ۔ دیکھ کر فون اٹھایا
کہاں ہو شہریار؟ دوسری طرف دعا کی آواز تھی۔
ہسپتال ۔ ۔ زی کا حلق تک کڑوا ہوا تھا آواز سن کر۔
کیا؟ کیوں کیا ہوا؟کونسے ؟ یکے بعد دیگرے ڈھیرو سوال ایک ساتھ کر دیے۔ زی نے مطلوبہ ہسپتال کا نام بتا کر فون بند کر دیا۔
ہسپتال پہنچ کر اسے ایڈمٹ کروایا شیری سر پکڑے کوری ڈور کی چیئر پر بیٹھ گیا۔
میں پانی لاتی ہوں۔ زی نے کندھا سہلایا اور باہر کی طرف چل دی۔
زی کون ہے سب ٹھیک ہے نا۔ دعا پریشانی سے بولی۔
شرم نہیں آتی آپ کو۔ دعا کو اس وقت دیکھ کر وہ برہمی سے بولی
زی۔ ۔ دعا ایک قدم پیچھے ہٹی اف اسے سب پتا چل گیا۔
بند کریں اپنا ناٹک۔ کیوں پڑی رہتی ہیں شیری کے پیچھے۔ ۔ دعا کا تاسف اسے مزید جلا گیا۔
تم کیا بول رہی ہو؟
شادی شدہ ہو کر بھی اسے پھنسا رکھا ہے آپ کو شرم نہیں آتی بھائی کو سب پتا ہے پھر بھی وہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ اب اس کی جان چھوڑ دیں بہت بے وقوف بنا لیا ہے اس کو اپنی عمر کا ہی لحاظ کر لیں وہ آپ سے چھوٹا ہے۔ آنکھوں اور لفظوں میں حقارت تھی۔
ہر انسان کبھی نہ کبھی ایسے چہروں سے ملتا ہے جنہیں دیکھ کر انسان انہیں بے ضرر سمجھتا ہے اور وقت ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ پھر سب سے بڑا نقصان ہمیں انہیں بے ضرر چہروں سے پہنچتا ہے۔
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتی شیری پہنچ گیا جیسے دیکھ کر دعا نے چہرا دوسری طرف موڑ کے آنسو ضبط کیے۔
دعا وہ نمرہ ۔ ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا دعا فوراً بولی
جاؤ میں یہاں ہوں۔ ۔
لیکن دعا ۔
پلیز ۔ ۔ وہ جانتا تھا دعا نے ایسا کیوں کہا سو بغیر کسی مزہمت کے وہ چپ چاپ زی کا ہاتھ تھامے ہسپتال کے باہر چل دیا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی زی کی طرف مڑا۔
زی۔ ۔ ۔ٹرسٹ می کسی بھی غلط نیت سے نہیں لایا نمرہ کو وہ کچھ بھی ہونے سے پہلے میری دوست ہے وہ پاسٹ ہے میرا مگر تم میرا آج اور آنے والا ہر کل ہو۔
پاسٹ؟ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
زی نمرہ کو بہت پہلے بھلا چکا ہوں میں نے وعدہ کیا تھا دعا اور رضوان سے تم کو اپنانے سے پہلے نمرہ کو اپنے دل و دماغ سے نکال دوں گا۔ اور میں نے وہی کیا ہے۔ اب میری زندگی میں وہ بس دوست کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ کہہ کر خاموش ہوا مگر مدمقابل کے سر بم گرا تھا۔
گھر پہچتے ہی وہ گاڑی اندر ہونے سے پہلے ہی اتری اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
شہریار گاڑی پارک کر کے آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی سر جھکائے رو رہی تھی۔ شیری نے گہرا سانس لیا اور چلتا ہوا پاس آیا۔
زی کیا کوئی ثبوت دینا پڑے گا مجھے؟ مگر وہ سر جھکائے روتی رہی۔ شیری گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھا۔
میں آج ایک کامیاب انسان جو نظر آتا ہوں جو بھی ہوں دعا کہ وجہ سے ہوں۔ ورنہ میں ایک ناکام انسان بن کر رہ جاتا۔ میری کامیابیوں کی ہر سیڑھی دعا کی بنائی ہوئی ہےاور اس کی حییت میری لیے صرف دوست کی نہیں ہے بہت سے رشتے ہیں۔ ماں کی طرح ہر مصیبت مجھ تک آنے سے پہلے وہ خود اس کے سامنے ہوتی ہے وہ بہن بن کر سمجھاتی ہے۔ بھائیوں کی طرح حوصلہ بڑھاتی ہے۔ ہر رشتے کا احساس اس سے سیکھا ہے میں نے۔ تم سے دھوکہ کر کے میں اس سے کیا ہواوعدہ کبھی توڑنے کا سوچھ بھی نہیں سکتا۔ اس نے مجھے فورس کیا شادی کے لیے کیونکہ وہ گوہر کو انکار نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے لگا تھا میں یہ رشتہ صرف اس کے لیے نبھاؤں گا لیکن پتا ہے تم سے شادی کر کے میں نے جانا سچا دل کیا ہوتا ہے۔تمہارےجیسے پیارے دل کو کبھی نہیں توڑ سکتا۔
سچا دل؟ زی نے سر اٹھا کے دیکھا
ہممم۔ ۔ اب پلیز رونا بند کرو دعا نے تمہیں ایسے دیکھ لیا نا وہ ہٹلر مجھے پھانسی لٹکا دے گی۔
سنو شیری کو بلا دو گی؟ میگزین پڑھتی وہ چونکی
ہممم۔ ۔ ۔ آپ اپنے بابا کا نمرہ دیں میں کال کر دیتی ہوں۔ دعا شیری کو بلانا نہیں چاہتی تھی سو بات کا رخ بدلا
اس بات پر وہ رونے لگی۔
کیا ہوا؟ دعا نے پریشانی سے پوچھا
وہ ۔ ۔ ۔ ان کی۔ ۔ ڈیتھ۔ ۔ روتے روتے بولی
ایم سو سوری۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو صبر دے۔ دعا نے افسوس سے سوچا اسے پوچنا نہیں چاہیے تھا
تو ہزبینڈ ؟ میرا مطلب ان کو بتا دیں ۔ ۔
میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم بس شیری کو بلا دو۔وہ التجائی انداز میں بولی
دیکھو نمرہ۔ دعا نے سمجھانا چاہا
تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے کیوں نہیں بلا سکتی اسے۔ ۔ ۔ اب وہ تنگ آ کر بولی۔ اس کے شیری کو بلانے پر وہ کل سے یہی بول رہی تھی کہ نہیں ابھی ممکن نہیں۔
شیری شام کو آئیں گے؟ زی نے اندرداخل ہوتے کہا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی دعا کمرے سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔
تم کون ہو؟ نمرہ کو یاد نہیں پڑا اس نے پہلے کبھی دیکھا ہے
میں زری شہریار۔ زی نے بہت مان سے کہہ کر اس کے تاثرات دیکھنے لگی
سوری میں نے پہچانا نہیں۔ نمرہ یاداشت پرزور ڈالنے لگی۔
شیری کی وائف۔ زی اسے غور سےدیکھنے لگی
کیا مجھے بتایا ہی نہیں اس نے ۔ ۔ تمہیں پتا ہے میں نے بہت کچھ سوچا تھا اس کی شادی کےلیے ایک واحددوست تھا میرا۔ زی کی سوچ کے برعقص نمرہ کے چہرے پر خوشی تھی جان کر مگر ساتھ ہی مصنوعی نارضگی بھی
کیا تم اس بات پر دکھی ہو۔ زی نے اسے کریدنا چاہا
ہاں۔ ۔ ۔ مجھے بتانا چاہیے تھا نا شادی کا دوست ہوں کچھ تو حق تھا نا۔۔
ہفتے بعد آج دعا آفس آئی فیصلہ وہ کر چکی تھی اب بس عمل کرنا تھا۔ سیدھا رضوان کے کمرے میں گئی
اسلام علیکم۔ ۔ ناک کر تے ہی وہ اندر آتے بولی
ارے دعا میں بس آنے ہی والا تھا کل ماشاللہ سے آئی۔او۔ایس ڈیپارٹمنٹ کی اوپنگ ہے تو میں سوچ رہا تھا اوپنگ سے پہلے ہمیں ایک قرآن خوانی کروانی چاہیے کیا خیال ہے۔ اسے بیتھنے کا اشارہ کرتے وہ کاغذات کھنگالنے لگا
جی۔ وہ آرام سے بیٹھ گئی۔
ٹھیک ہے میں شہریار سے کہتا ہوں وہ ارینجمنٹ خود کروائے۔ ایکپنس لسٹ پکڑے دعا کو دیکھانے لگا۔
جی۔ دعا نے پکڑ کے سائڈ میں رکھی
تم کچھ کہنے آئیں تھیں؟دعا کے تاثرات دیلھ کر بولا
جی۔ وہ انگلیاں چٹخنے لگی۔
جی کا پہاڑا پڑھ رہی ہو؟وہ ہنسا
دعا کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا۔ دعا پریشان کن تاثرات دیکھ کر سیدھا ہوا
ہممم ۔ ۔
تو ؟آنکھیں سکیڑ کر بولا
وہ میں۔ ۔ کمپنی کے شیئرز۔ ۔ ۔ بیچنا چاہتی ہوں۔ وہ رک رک کر بولی
پھر دماغ میں کوئی نیا آئڈیا آیا ہے ۔ ۔ یار تو شیئرز کیوں بیچنے ہیں ہم اپنا بینیفٹ کم لیں گے جو بچت ہوگی تم اس سے جو بھی سٹارٹ کرنا چاہو کر لینا۔ رضوان نے ڈھنڈی سانس لی۔ کیسے سب معاملہ حل کر دیا ہو
نہیں۔ ۔ ۔ مجھے اپنے شیئرز بیچنے ہیں؟وہ زمین گھورنے لگی
کیا۔۔ ۔ ۔ ۔۔ دماغ ٹھیک ہے؟۔ اس تکرار سے رضوان کا دماغ پھک سے اڑا۔
میں اب جاب کرنا نہیں چاہتی۔
پاگل ہو کیا۔ دعا تم نے اتنی محنت اس لیے کی کہ شادی کے بعد اپنا کیرئرپیک پہ جا کے چھوڑ دو۔ یہ بے وقوفی ہے۔ اسے نے سمجھایا
جو بھی ہے مجھے اب جاب نہیں کرنی یہ ۔ ۔ آپ یا شیری خرید لو شیئرز میں یہ کمپنی کسی اور کے ہاتھ جاتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ دعا کا حصہ زیادہ تھا کیونکہ کمپنی کی لیگل اونر بھی وہ ہی تھی اور آیڈیا بھی اس کا تھا شیری اور رضوان نے اس میں جتنا انوسٹ کیا تھا وہ اس کے مالک تھے کمپنی کا سیکسٹی پرسنٹ دعا کا تھا۔
دعا اتنی بڑی بے وقوفی مت کرو۔ جاب نہیں کرنی تو کوئی بات نہیں تم چھٹی لے لو اپنی جگہ کوئی امپلائی ہائر کرو۔آئی تنک یو نیڈ ریسٹ۔رضوان کی بات سن کر وہ کچھ کہے بغیر اٹھ گئی
نمرہ اب بتائیں کیا مدد کر سکتی ہوں میں آپکی؟ ڈسچارج کے بعد دعا نے نمرہ کو پیپرز پکڑائے
میرے پاپا کی ڈیتھ ہو گئی ہے اب کوئی نہیں ہے میرا۔ وہ افسردگی سے بولی
میں سمجھ سکتی ہوں سیچوئیشن آپ میرے گھر چلیں اس کے بعد جو بھی مناسب لگے۔ دعا آرام سے اٹھ کھڑی ہوئی
شکریہ دعا۔ نمرہ نے بھی اس کے ساتھ چلنا شروع کیا
کوئی بات نہیں۔ دونوں چلتے ہوئے پارکنگ ایریا میں آئیں
بیٹھیں۔ دعا نے اسے بیٹھنے کو کہا تو وہ فرنٹ ڈور کو کھول کر بیٹھ گئی۔
راستے میں نمری نے خرم کےمتعلق سب کچھ دعا کو اگاہ کیا۔
میں اپنا سب کچھ واپس چاہتی ہوں کیا آپ میری مدد کریں گی؟ نمرہ نے پرامید نظر سے دعا کو دیکھا
میں جو کر سکی کروں گی انشاء اللہ ۔ دعا نے اسے تسلی دی۔
تھینکس دعا شیری نے بہت اچھی دوستکا نتخاب کیا ہے۔ دعا بس دیکھ کر رہ گئی کچھ بول نہیں سکی۔
کمال ہے بندہ سوری بکے کے بعد کال نہیں تو کم سے کم ایک عدد ایٹس اوکے کا میسج ہی کر دیتا ہے۔ پیکنگ کرتے اسے دعا یاد آئی تھی۔
کہیں اس نے بکے اٹھا کے تو نہیں پھینک دیا۔ شرٹ رکھتا وہ ایک دم رکا۔
نہیں اب ایسا بھی نہیں کہا ہوگا محبت نہ سہی پسند تو آنکھوں میں نظر آتی ہے۔ اپنے سوال کا خود ہی جواب سوچ کر سر جھٹک کر مسکرایا۔
پیکنگ مکمل کر کے فون پکڑا کےسوچا دعا کو آنے کی اطلاع دے دے فون ملایا۔ مگر دوسری طرف کی آواز پر چونکا۔
آپ کا مطلوبہ نمر فل وقت بند ہے۔ فون کان سے ہٹا کر ایسے گھورا جیسے دعا ہو۔ ۔ کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ ۔ ۔ فون سائڈ میں پٹخا اور چت لیٹ کر چھت کو گھورنے لگا کہ اسی وقت فون بجنے لگا۔
ہیلو۔ فون اٹھا کر کان سے لگایا
گوہر بیٹا کیسے ہو؟دوسری طرف عیشل کی آواز آئی
میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں؟ اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑی
تھوڑی سی پریشان ہوں؟ وہ پریشان کن لہجے سے مخاطب ہوئیں
کیوں کیا ہوا؟ وہ پریشان ہوا
اس ہفتے دعا سے بات نہیں ہوئی اور فون بھی نہیں لگ رہا اس کا۔ وہ کچھ وضاحت سے بولنے لگیں
ہاں میں نے بھی کیا بند تھا۔ شائد بزی ہوگی میٹنگز میں تو فون بند کر دیتے ہیں نا ۔ وہ اس کے کام کی نوعیت سوچ کر بولا
لیکن فون کل سے بند ہے ۔ عیشل کی اگلی بات نے اسے چونکا دیا
کل سے؟ عیشل ماں آپ فکر نا کریں میں گھر فون کر لیتا ہوں۔ اب تو اسے بھی پریشانی لاحق ہوئی
اللہ حافظ۔ فون بند کر کے گھر کا نمر ڈائل کیا جو دوسری بیل پر اٹھایا گیا
اسلام و علیکم ۔ خانم نے فون اٹھایا
واعلیکم اسلام وہ دعا کہاں ہے؟ وہ جلدی سے بولا
بیٹا وہ تو پچھلے تین دن سے نہیں آئی۔
آپ نے بتایا کیوں نہیں۔ وہ کمرے میں چکر کاٹنے لگا
ایک جھماکے سے وہ خواب زہن میں گردش کرنے لگا۔ یا اللہ سب ٹھیک ہو ۔ ۔ کس سے پوچھوں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
دعا۔ دیا نے اسے لیپ ٹاپ پر مصروف دیکھ پکارا
ہممم گوہر بھائی کو تو کال کر دو۔
نہیں رہنے دو۔ کام کرتی انگلیاں رکیں مگر پھر اسےانکار کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
تم نے شیری کو بھی نہیں بتانے دیا معلوم ہے نا وہ کتنا غصہ کرے گا۔ دیا سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
دیا اب اس کی اپنی ایک پرسنل لائف ہے اسے اس میں ایڈجسٹ ہونے دو۔ دعا نے فوراً ٹوکا
ٹھیک ہے مگر گوہر بھائی کو۔ دیا کا جملہ منہ میں ہی رہ گیا
دیا یہ ہمارے مسئلے ہیں ہم خود حل کر لیں گے کسی تیسرے کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اب کی بار سخت لہجے میں بولی۔
وہ کوئی دوسرے تیسرے میں شمار نہیں ہوتے۔ دیا کو غصہ آ یا تھا۔
دیا بحث مت کرو کہا ہے نا نہیں۔ پلیز جاؤ اس وقت یہاں سے۔۔ دعا نے غصے سے جھڑکا۔ لیپ ٹاپ اٹھا کر زرینہ بیگم کے کمرے میں چل دی۔ کمرے میں آ کر ماں کو دیکھا پھر واش روم میں گئی۔ آئینے میں خود کو دیکھا۔
میں اس حرکت کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی گوہر۔ منہ پر پانی کے چھیٹے مار کر آنسوؤں کو پانی میں شامل کر انہیں خود سے بھی چھپانے کی کوشش کی۔
دل اپنی خواہشوں کو سر کرنے کا اتنا عادی ہوتا ہے کہ اسی انسان کی عزتِ نفس سے کوئی واسطہ نہیں نا اس بات سے تعلق کہ کسی کا مان ٹوٹے دل کو بس اپنی خواہش پیاری ہے۔ مگر جب اپنا ہی مان ٹوٹ جائے تو دل مر جاتا ہے
شیری سے کال پر آفس آنے کا پوچھا کہ دعا سے ملنا ہے مگر اگلا جملہ سن حیران ہوئی چلو اگر وہ آفس نہیں گئیں تو گھر جا کر سوری بول دے مگر خانم سے مل کر پتا چلا وہ تو تین دن سے نہیں آئی۔ سوچنے لگی کیا کرےگھر جائے یا دعا کی امی کی طرف۔ وہ سوچتے سوچتے باہے نکلی۔
بھائی کب آئے۔ آپ نے تو کل آنا تھا نا۔ گوہر کو گیٹ سے آتا دیکھ وہ پرجوش ہوئی
ارے تم یہاں؟ ۔ ۔ بس وہ ویسے ہی آ گیا۔ ۔ آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
آپ اب آفس جائیں گے؟
نہیں پہلے دعا سے ملنے اس کے آفس جاؤں گا اس کے بعد۔
وہ تو آج آفس نہیں گئیں وہ شیری نے بتایا میں انہی سے ملنے کا سوچ رہی تھی۔
چلو ساتھ چلتے ہیں زی۔ لیکن تم شیری کو میسج کر دو میرے ساتھ جا رہی ہو تا کہ وہ پریشان نہ ہو۔
آئی ہوپ سب ٹھیک ہو۔ ۔ ۔ ڈرائیو کرتا زی سے مخاطب ہوا۔
بھابی کا نمبر بند ہے تو میں دیا کو فون کر لیتی ہوں۔ زی دیا کو فون ملانے لگی۔بات کر کے بند کرتے ہی بولی
دیا کہہ رہی ہے کہ بھابی وہیں ہیں۔
شکر ہے حد ہوتی ہے پوچھنا تو تھا فون کیوں بند کر رکھا ہے۔ گوہر کو اس وقت شدید غصہ آیا تھا
وہ آپ جا کر پوچھ لیں نا۔ وہ مسکرائی
ہاں یہ بھی صحیح کہا۔ دعا سے ملنے کا سوچ کر وہ مسکرایہ
دعا کے گھر کے باہر گاڑی روکی توایک دم باہر نکلتے رکا
اف یار مجھے تو آفس ریپورٹ کرنا تھا اچھا اندر جاؤ میں آتا ہوں پھر دعا کو بتا دینا میں وہیں ملوں گا اسے ۔اپنی بات مکمل کر کے وہ زن سے گاڑی بڑھا گیا۔
اوکے۔ زی نے دھڑکتے دل سے بیل کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ کھولا تو دیا کی آواز آئی۔
زی ۔ ۔ کیسی ہو ؟ اسے اندر آنے کا راستہ دے کر دروازہ بند کیا۔
ٹھیک ہوں تم بتاؤ۔ وہ مسکرائی۔
میں بھی۔ دیا نے مسکرانے کی بھی کوشش نہیں کی۔
بھابی کہاں؟ زی تھوڑی جزبز سے کھڑی ہوئی
وہ امی کے ساتھ ہسپتال گئی ہے۔ دیا کے منہ سے نکلا اور وہ چلتے چلتے رکی
کیوں؟ زی اس کے عین سامنے آ کھڑی ہوئی۔
امی کی طبیعت خراب ہے۔ دیا نظریں چرا کر آگے بڑھی۔
کیا ہوا ان کو؟ زی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
وہ ۔ ۔ دیا جزبز سی ہوئی
بتاؤ نا۔ زی کو کچھ گڑبڑ لگی۔
ان کوہارٹ اٹیک آیا تھا۔ وہ لاؤنج میں بیٹھ گئی
کیا ۔ ۔ کب؟ زی کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔
پرسو۔ دیا کی آنکھیں نم ہوئیں
بتا یا نہیں۔ زی نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا
دعا نے منع کیا تھا۔ وہ آنسو صاف کرنے لگی۔
مگر کیسے ہوا کوئی وجہ۔ وہ پریشان ہوئی کہیں اس کی باتیں تو آنٹی کو پتا چل گئی ہوں دعا سے۔
وہ حمزہ لوگوں نے رشتہ ختم کر دیا اس لیے۔ وہ تلخی سے مسکرائی
مگر کیوں؟ زی ایک دم کھڑی ہوئی
پتا نہیں۔
پوچھنا تو چاہیے نا۔
دعا گئی تھی مگر اس نے ہمیں بتایا نہیں۔
وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں جب ڈور بیل بجی۔
لگتا ہے دعا آگئی۔ دیا بول کر دروازے کی طرف لپکی
دیا پلیز پانی پلا دو۔ دعا زرینہ بیگم کو سہارا دیتی اندر بڑھی۔ اس کا سارا دھیان اپنی ماں کی طرف تھا وہ دیکھ نہیں سکی لاؤنج میں کوئی کھڑا تھا
جی۔ دیاکچن کی طرف بڑھی
دیا میں لے جاؤں پانی۔ دیا کو کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ بولی
بالکل۔ دیا نے پانی کا گلاس زی کی طرف بڑھایا
بھابی پانی۔ زی نے اندر قدم رکھا
تم ۔ دعا دوائیاں رکھتے چونک کر پلٹی
رزی بیٹا ۔ ۔ زرینہ بیگم نے سر پر پیار دیا تب تک دعا نکل گئی کمرے سے۔
آنٹی کیسی ہیں آپ؟ دعا کی باہر جاتے دیکھتی بولی
اللہ کا شکر ہے۔
کسی کو بتایا کیوں نہیں۔ زی نے شکوہ کیا
دعا کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔
امی دوائی۔ زری آپ کو دیاباہر بلا رہی ہے۔ اسے پوری طرح نظر انداز کر کے وہ دوائیاں نکالنے لگیں۔
زی آجاؤ چائے ۔ دیا نے پھر سے آواز لگائی۔
جی۔ وہ اٹھ گئی مگر دعا کا نظر انداز کرنا اسے تکلیف دے گیا۔
جب وہ چائے پی چکی تو دعا آئی۔
زری شہریار کو کال کردینا وہ آپ کو واپسی پر پک کرلےگا آپ لوگ کے جانے تک میں مارکیٹ میں چلی جاتی ہوں۔ وہ اپنی بات مکمل کر کے مڑی
وہ بھائی نے کہا۔ ۔ ۔ زی نے کچھ کہنا چاہا
انہیں بتا دینا آپ شہریار کے ساتھ چلی گئیں آپ کے بھائی کا چکر بچ جائے گا۔ دعا کہہ کر نکل گئی۔
زی پلیز شیری سے امی کی طبیعت کا مت کہنا وہ پریشان ہوگا۔ شیری کے انتظار میں بیٹھی زی کو ریکوئسٹ کی۔
بھابی بہت ناراض ہیں مجھ سے۔وہ افسردگی سے بولی
نہیں یار وہ بس پریشان ہے۔ ڈور بیل پر چونکی لگتا ہے شیری آ گیا۔
مل لیا دعا سے۔ اندر داخل ہوتے ہی زی کے بال کھینچے
جی۔ وہ ہلکہ سا مسکرائی
آنٹی کہاں ہیں؟ دیا کو دیکھتے ہی بولا
وہ سو رہی ہیں۔ آپ کچھ لیں گے؟ وہ مہمان نوازی انداز میں بولی
نہیں۔ ۔ دعا کہاں ہے؟ وہ زی کے ساتھ ہی صوفہ پر بیٹھ گیا۔
مارکیٹ گئی ہے۔
کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ فون بند ہے اور آفس بھی نہیں آ رہی۔ وہ دیا کو شکائیتی انداز سے بتانے لگا
وہ فون گر گیا تھا تو بند ہے اسی لیے۔
تمہاری بہن کا دماغ کونسے فتور پال رہا ہے آفس چھوڑنے کا سوچ رہی ہے۔ ایک دم یاد آنے پر بولا
وہ گھر میں کچھ کام تھا بس اس لیے۔
کب آئے گی؟
وہ بھابی کو آنے میں دیر ہو جائے گی کل مل لینا بابا اکیلے ہوں گے۔ زی نے فوراً ٹالا وہ نہیں چاہتی تھی سوری سے پہلے وہ دعا سے ملے اور دعا سب بتا دے۔
ان لوگوں کے جانے کے آدھے گھنٹے کے بعد دعا گھر واپس آئی۔ لاؤنج میں بیٹھی ہی تھی کہ دیا نے پکارا
دعا
ہاں۔ پاؤں صوفہ پر کیے وہ سہلانے لگی
شیری نے بتایا کہ تم آفس نہیں جا رہی تو پھر آج تم کہاں تھیں؟
جاب ٹھونڈنے۔ پہلے وہ حیرا ن ہوئی پھر سمجھ گئی رضوان نے بتایا ہوگا۔
مگر کیوں؟ دیا نے آنکھیں سکیڑیں
کیونکہ اب میں کوئی اور جاب کرنا چاہتی ہوں۔ دعا کھڑی ہوئی۔
وجہ؟ دیا کو سمجھ نہیں آیا وہ کر کیا رہی ہے
دیا کچھ سولوں کے جواب لاجواب ہی رہیں تو اچھا ہے۔ میں امی کے کمرے میں ہی سوؤں گی۔ دانی کو ہوم ورک کروا دو پلیز۔ وہ کہہ کر چل دی
اسلام وعلیکم ۔۔۔ وہ جو ماں پر جھکی ان پر کمبل اڑا رہی تھی آواز پر چونک کر پلٹی۔
آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تم نے بتا یا ہی نہیں ۔ شکائیتی نظروں سے گوہر نے دیکھا۔
اب ٹھیک ہیں ۔ مختصر جواب دیتے وہ پلٹ گئی۔
وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔ ۔ تم ضرورت کے وقت مجھے کال کر سکتی ہو۔ زی نے اسے فون پر ہی زرینہ بیگم کا بتایا تھا۔
ضرورت نہیں پڑی۔ ۔ دعا نے جیسے ٹکا سا جواب تھا۔
میں ۔۔۔ اس سے پہلے وہ جملہ مکمل کرتا دعا بول پڑی
امّی جاگ جائیں گی۔ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
وہ کچن میں خود کو مصروف ظاہر کرنے کو چل دی
وہ چلتا اس کے پیچھے آیا
وہ زی نے بتایا مجھے کہ دیا کا رشتہ ۔۔ ۔ ۔ آ ۔ ۔ میں کچھ ہلپ۔ وہ اسے دلاسہ دینے کو بولا تھا
نہیں۔ یک لفظی جواب دیا
وہ میرا ایک دوست۔ ۔ ۔ گوہر نے کچھ سوچ کر کہا
جی آپ کے دوست کے گھر کوئی ملازم ہوگا جو آپ کے کہنے پر دیا سے شادی کر لے گا۔ مگر شکریہ احسان لینا چھوڑ دیا ہے میں نے ۔ دعا کے لہجے میں تلخی آ گئی۔
گوہر بس دیکھ کر رہ گیا وہ تو بہت خوش آیا تھا سوری کہہ کر سب ٹھیک ہو گیا ہوگا مگر یہاں معاملہ ضرورت سے زیادہ گڑبڑ ہو گئی۔
کھانا کھا کر جائیے گا۔ وہ کہہ کر کچن سے نکل گئی مگر ہو کے قدم وہیں جم گئے۔ وہ کتنی دیر کھڑا رہا اسے اندازہ نہیں ہوا۔
گوہر بھائی۔ دیا کی آواز پر چونکا۔
ہممم ۔ ۔ ہاں۔ ۔ کیا؟ وہ گڑبڑایا
آپ ٹھیک ہیں؟
ہمم۔
دعا نے کچھ کہہ دیا۔ ۔ بھائی وہ کچھ پریشان ہے اس ایسے ۔ ۔ ۔ پلیز اس نے ناراض نہ ہوں۔
مجھے معلوم ہے دیا۔
کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے دیا؟ مجھے اس وقت بلایا
گوہر بھائی ۔
تم رو کیوں رہی ہو۔ ۔ ہوا کیا ہے؟ د کو یوں بیٹھے دیکھ وہ جزبز سا ہوگیا
حمزہ سے رشتہ ٹوٹنے کا دکھ نہیں ہے ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم میں کیوں اپ سیٹ نہیں اس بات سے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ادیبہ کے معاملے میں میں نے اتنا بڑا گنا کیا کہ اس کی سزا میرے ساتھ جڑے ہر رشتے کو ملے۔ وہ اٹھ کر سامنے کھڑی ہوئی
وہ گناہ نہیں تھا بس ایک غلطی تھی بھول جاؤ تم حمزہ سے بہتر انسان ڈیزرو کرتی ہو۔ گوہر نے سر پر ہاتھ رکھا
تو پھر آپ نے حمزہ لوگوں کو یہ سب کیوں بتایا وہ بھی اس وقت پر۔ وہ ہاتھ ہٹا کر بولی
دیا۔ ۔ ۔ میں کیوں بتاؤں گا۔ وہ آنکھیں سکڑے دیکھنے لگا۔
حمزہ لوگوں نے یہ رشتہ اسی بیس پر ختم کیا ہے۔ وہ آنکھیں جھکائے بتانے للی
کس نے بولا یہ۔ وہ ایک سخت لہجے میں بولا
دعا نے بتایا ہے کہ آپ نے۔۔۔۔ گوہر کا رویہ دیکھ کہ وہ خود بھی الجھن کا شکار ہوئی
کسی نے کچھ کہا اور دعا نے یہ بات مان لی؟ ایک بار مجھ سے تو پوچھا ہوتا۔ اسے دکھ ہوا تھا
آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اسے مڑتےدیکھ پوچھا۔
دعا سے بات کرنے ۔ ۔ سوچ بھی کیسے سکتی ہے وہ۔
گوہر بھائی پلیز اس وقت وہ غصے میں ہے آپ کی کوئی بات نہیں سنے گی
نہیں دیا صحیح وقت کے انتظار میں ہم میں پہلے ہی بہت مس انڈرسٹینڈنگز ہیں اب اور نہیں۔
سیدھا ڈرائنگ روم میں آیا دعا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی
دعا۔ ۔
آپ ؟ گوہر آواز پر مڑی
مجھے بات کرنی ہے۔ غصے سےسامنے کھڑا ہوا۔
گوہر کیا اب بھی بچا ہے کچھ کہنے کو۔ ۔ وہ نحوست سے مڑی
تم نے سنی ہی کب میری جو اب بچنے کی بات کرتی ہو۔ ۔ بغیر کسی ثبوت کے الزام لگا دیا۔
کونسا آسکر دوں میں آپ کو۔ بہت اچھی اداکاری کرتے ہیں۔ مڑ کر تالی بجائی۔
دعا۔ ۔ ۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ۔ دعا کا انداز اسے سخت جھنجھلا گیا تھا
کوشش۔ ۔ میری ہر کوشش کی کامیابی کی آخری سیڑھی سے گرایا ہے آپ نے مجھے اب کبھی کوئی کوشش نہیں کرو گی میں۔ غصے سے آنکھیں نم ہونے لگیں
یہ الزام۔ ۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا دعا نے ایک ٹی۔سی۔ایس کا پکٹ تھمایا۔ جس کی اوپر ایک کھلا کاغذ تھا۔
کیا ہوا اپنی ہی ہینڈ رائیٹنگ نہیں پہچانتے؟ وہ ہاتھ باندھ کر کڑی ہوئی
یہ میری۔ ۔ ۔وہ بے یقینی سے دیکھنے لگا
بول دیں کہ آپ کی نہیں ہے۔ گوہر میں نے کبھی بھی آپ کے کسی رشتے کو ہماری لڑائی میں شامل نہیں کیا مگر آپ ایسا کریں گے سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں۔
لیکن یہ میں نے نہیں لکھا۔ وہ بے یقینی سے کبھی دعا اور کبھی لیٹر کو دیکھتا۔
خود بخود لکھا گیا اور حمزہ کی ماں کے پاس چلا گیا۔ گیو می آ بریک گوہر ۔ ۔ ۔
میں کبھی کبھی سوچتی تھی میں شادی سے انکار کرنے گئی تھی مگر کر نہیں سکی۔ پتا ہے کیوں؟ کیونکہ اللہ نے میری دعا قبول نہیں کی اس نے مجھے آپ کے ہاتھوں زلیل کروانا تھا وجہ میں نہیں جانتی۔ مگر آج کے بعد اپنی شکل مت دیکھنا۔ وہ کمرے سے نکل گئی
وہ کتنی ہی دیر یونہی کھڑا رہا ۔ دعا کے جانے پر دیا کمرے میں آئی۔
بھائی۔
دیا میں نے نہیں لکھا یہ۔ ۔ دیا نے ہاتھ سے پکڑا
ٹرسٹ می یہ۔ ۔ ۔ یہ رائٹنگ میری ہے مگر میں ۔ ۔ ۔ میں نے نہیں لکھا۔۔ وہ بے بسی سے بولا۔
آپ امی سے دعا کا خیال رکھنے کا وعدہ کرنے نہ آئے ہوتے تو میں بھی اس پر یقین کرتی۔
مجھے پتا نہیں دیا یہ جس نے بھی کیا ہے میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔ غصے سے کہتا لیٹر پھینک کر نکل گیا۔