عرزم کو زیام کے رویے سے کافی تکلیف پہنچی تھی لیکن وہ چاہ کر بھی اسے اپنا یقین نہیں دلا سکا تھا۔۔۔ اسے نائلہ بیگم سے ذیادہ خود پر غصہ آ رہا تھا کہ کیوں وہ انہیں پرکھنے میں غلطی کر گیا۔۔۔ گاڑی ڈرائیو کرتے مسلسل اس کے ذہن میں ایک ہی بات آ رہی تھی کہ زیام اس پر یقین نہیں کرتا۔۔۔ اس کا مائنڈ کافی ڈسٹرب ہوچکا تھا ۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھا کہ دو دفعہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔۔۔ گاڑی کا قدرے سنسان راستے پر سڑک کی دائیں جانب کھڑا کیا اور گاڑی سے باہر نکل آیا ۔۔۔ اسے گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ وہ گاڑی سے نکل کر تھوڑی دور جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔۔۔ وہ رونا نہیں چاہتا تھا لیکن زیام کے رویے نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔ وہ تو زیام کے لئے جو کچھ کرتا تھا فرض سمجھ کر کرتا تھا لیکن زیام کیوں اسے سمجھ نہیں سکا ۔۔۔۔۔۔
کاش زیمی۔۔۔ میں تمہارے معاملے میں اتنا جذباتی نہ ہوتا تو شاید آج اتنا بے بس بھی نہ ہوتا۔۔۔ یار جان مانگ لیتے لیکن خود سے دور نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔
عرزم اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھا کہ پاس سے گزرنے والی گاڑی کو نہ دیکھ سکا ۔ گاڑی تھوڑا دور جا کر پھر واپس آئی تھی اور اندر سے رحاب نکلی تھی جو عرزم کو اس حالت میں دیکھ کر تڑپ گئی تھی۔۔ رحاب جو یونیورسٹی کے لئے لیٹ ہو گئی تھی۔۔۔ اس راستے پر آگئی کیونکہ یہ راستہ سنسان تو تھا لیکن وہ دوسرے روڈ کی بجائے اس روڈ سے جلدی یونی پہنچ جاتی۔۔۔ وہ عرزم کے پاس پہنچی تو عرزم نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ اور پھر بلڈی سے وہاں سے اٹھا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی تک پہنچتا رحاب تیز تیز چل کر اس کے مقابل آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔
کیا ہوا ہے پرنس؟؟؟
پلیز رحاب جائو یہاں سے۔۔۔ مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔
عرزم نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تو رحاب نے دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
میں کسی نہیں ہوں پرنس ۔۔۔ اور تم بھلے ہی مجھ سے نفرت کرتے ہو ۔۔۔ میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں پھر بھی تم سے جانے بغیر یہاں سے نہیں جائوں گی۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور رخ موڑ گیا ۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے آنسو کم از کم رحاب کے سامنے نہیں بہانا چاہتا تھا۔۔۔
رحاب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور روڈ کی بائیں جانب پڑے پتھروں پر لے کر اسے بیٹھ گئی۔۔۔ عرزم بھی بنا کسی مزاحمت کے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔۔۔۔
دونوں کے درمیان خاموشی تھی جسے عرزم کی آواز نے توڑا۔۔۔۔
اسے مجھ پر یقین نہیں ہے رے۔۔۔ وہ مجھ سے دور جانا چاہتا ہے۔۔۔ میں کیسے اسے خود سے دور کر دوں ۔۔۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے وہ۔۔۔ تم جانتی ہو جب ہاسٹل میں وہ ڈر کر روتا تھا تو میرا دل کرتا تھا میں اس کے ڈرنے کی وجہ کو ختم کردوں۔۔۔ اور جب وہ ہنستا تھا تو دعا کرتا تھا کہ زندگی بھر وہ ایسے ہی ہنستا رہے۔۔۔
رحاب خاموشی سے اسے سن رہی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی وہ اپنا غبار ایک بار نکال دے۔۔۔۔ شاید اسے ایک مہربان کندھے کی ضرورت تھی جو رحاب دے رہی تھی۔۔۔۔
تم جانتی ہو اس کی چوٹ پر ۔۔۔ اس کے آنسوئوں پر میں ایسے تڑپتا تھا جیسے ماں باپ اپنی اولاد کے تکلیف پر تڑپتے ہیں۔۔۔ اس کے سامنے بے حس تھا ، حیوان تھا ، سائیکو تھا ، سب کچھ تھا لیکن کبھی بے اعتبار نہیں رہا۔۔۔۔ جب تم نے اس پر جھوٹا الزام لگایا تھا نہ رے ۔۔۔ جانتی ہو میں نے اسے تھپڑ کیوں مارا تھا ؟؟؟
رحاب نے اس بات پر لب بھینچ لئے تھے اور آنکھیں کرب سے بند کر لیں تھیں ۔۔۔
کیوں؟؟؟
کیونکہ اسے نے مجھ سے چھپایا تھا وہ تم سے رابطے میں ہے۔۔۔ میں اس کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ لیکن وہ مجھے سمجھ ہی نہیں سکا۔۔۔ آج اس کے لئے اس کی وہ ماں ذیادہ اہم ہے جو اسے بچپن سے لے کر اب تک جان سے مار دینا چاہتی ہیں۔۔۔ اسے تکلیف دینے کا وہ عورت کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔۔۔ کبھی بیلٹ سے اسے مارنا ، کبھی گھر آئے مہمانوں کے سامنے اسے ذلیل کرنا۔۔ اور کبھی دنیا بھر میں اسے حوس کار ثابت کرنا۔۔۔۔ آج اسے اسی ماں کے جھوٹے آنسو تو نظر آ رہے ہیں لیکن میری نہ نظر آنے والی تکلیف پر وہ اندھا ہوگیا ہے۔۔۔ میں جانتا تھا اگر میں نے اسے ابنارمل ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا تو وہ ٹوٹ جائے گا۔۔۔ اس کا انسانیت سے اعتبار اٹھ جائے گا۔۔۔ میں تو بس اسے ایک نارمل زندگی دینے کی خواہش رکھتا تھا لیکن وہ آج مجھ سے میری زندگی ، میرا اعتبار ، میرا خلوص سب لے گیا۔۔۔ میں خالی ہاتھ رہ گیا ہوں رے۔۔۔ میں خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔
آخری بات عرزم بولتے ہوئے رو دیا تھا جبکہ رحاب نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا تھا۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔
تم خالی ہاتھ نہیں ہو۔۔۔ تمہارے پاس دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ہے اور وہ ہے احساس ۔۔۔ میں یہ تو نہیں جانتی کہ زیام اور تمہارے درمیان کیا ہوا لیکن اتنا جانتی ہوں رشتوں میں بے اعتباری انسان کو ہر احساس سے عاری کر دیتی ہے۔۔۔
اب مجھے ہی دیکھ لو تمہاری بے اعتباری نے مجھے اتنا بے حس بنا دیا کہ میں اپنی ماں کے آنسو دیکھ کر نہیں پگھلتی ۔۔۔ ویسے یہ رشتے کبھی کبھی بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں ۔۔۔ انسان وہ کچھ کر گزرتا جو اس نے سوچا ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔ خیر میں چلتی ہوں مجھے یونیورسٹی کے لئے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر اٹھی تو عرزم نے بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔ آنکھوں میں رکنے کی التجا تھی لیکن زبان ساتھ دینے سے انکاری ۔۔۔
شکریہ۔۔۔
اس کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔
رحاب نے نرمی سے مسکرا کر کہا اور اپنا ہاتھ چھڑوا کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ جبکہ اس کا اجنبی رویہ دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن عرزم نے سب بھلا کر زیام کو کال کی لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی۔۔۔
عرزم دلبرداشتہ سا یونیورسٹی کے لئے تیار ہوا ۔۔۔ اسے زیام کے بغیر یونی جانا عجیب لگ رہا تھا۔۔۔ اس لئے اس نے گاڑی زیام کے گھر کی طرف موڑی لیکن جب وہاں جا کر زیام کا پوچھا تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کے لئے نکل چکا ہے۔۔۔۔ عرزم ٹوٹے دل کے ساتھ یونیورسٹی پہنچا۔۔۔
ابھی وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہا تھا جب اس کا سامنا تھوڑی دور کھڑے زیام سے ہوا جو عرزم کو دیکھ کر نظروں کا زاویہ بدل گیا تھا۔۔۔ عرزم زخمی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف بڑھا لیکن وہ اسے مکمل اگنور کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔۔۔ عرزم کے بڑھتے قدم ایک لمحے میں ساکت ہوئے تھے۔۔۔ اتنی بدگمانی، اتنی ناراضگی، وہ تو سوچ چکا تھا کہ زیام کو منا لے گا لیکن شاید زیام اس کا چہرہ دیکھنے کا بھی روادار نہیں تھا۔۔۔۔ بہت ضبط کرنے کے باوجود ایک آنسو عرزم کے گال پر گرا تھا ۔۔۔ رحاب جو دور سے دونوں کو دیکھ رہی تھی تڑپ گئی تھی عرزم کو یوں ٹوٹتے دیکھ کر۔۔۔ لیکن وہ چاہ کر بھی اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
عرزم سرجھکا کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔ اس میں مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی ۔۔۔ وہ یونیورسٹی پارکنگ میں آگیا اور آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔ رحاب جو اسے واپس جاتے دیکھ رہی تھی جلدی سے اس کے پیچھے بھاگی تھی ۔۔ اس سے پہلے وہ گاڑی سٹارٹ کرتا رحاب جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کرفرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔
عرزم نے اسے گھورا تو وہ مسکرا دی۔۔۔
اترو۔۔۔
عرزم چاہنے کے باوجود اپنا لہجہ سخت نہیں کر سکا تھا۔۔۔
کیوں اتروں؟؟ بھئی میرے شوہر کی گاڑی ہے۔۔۔ حق رکھتی ہوں یہاں بیٹھنے کا ۔۔۔
رحاب آنکھیں گھما کر بولی تو عرزم اسے گھور کر رہ گیا۔۔۔
تم سیدھے طریقے سے اتر رہی ہو یا میں خود اتاروں؟؟
ہائے ظالم ۔۔۔ ایسے دھمکی نہ دو۔۔۔ بچی ڈر ور جائے گی۔۔۔
رحاب ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی جبکہ عرزم بچی کے لفظ پر لبوں پہ آتی مسکراہٹ کا گلا گھونٹ گیا۔۔۔۔
تم بچی نہیں ہو ۔۔۔ آئی نو ویری ویل۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا تھا جبکہ رحاب نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کی مسکراہٹ تو واپس آئی۔۔۔
پرنس ایک بات پوچھوں؟؟؟
رحاب نے نرمی سے اس کی طرف دیکھا اور اجازت طلب کی۔۔۔ عرزم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اپنا سر سیٹ کے ساتھ ٹکا دیا۔۔۔
تم ہمیشہ اتنی جلد بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟ اس دن بھی تم نے نہ مجھ سے کوئی شکوہ کیا نہ شکایت کی اور بنا بتائے مجھے چھوڑ کر چلے آئے ۔۔۔ کیا میں اعتبار کے قابل بھی نہیں تھی۔۔۔۔
عرزم نے بے ساختہ رحاب کی طرف دیکھا تھا جو نم آنکھیں لئے پوچھ رہی تھی۔۔۔
شاید میں اعتبار کرنے کے قابل نہیں ہوں اس لئے تو سب مجھے آزماتے ہیں اور میری قسمت دیکھو میں اس آزمائش میں پورا بھی نہیں اترتا ۔۔۔ اور ویسے بھی کیا پوچھتا میں تم سے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ تمہاری ماما جھوٹ بول رہی ہیں انکا مقصد تمہیں مجھ سے دور کرنا تھا جس میں تم نے انکا ساتھ دیا۔۔۔ میرے لئے یہ چیز تکلیف کا باعث تھی کہ تم بھی مجھے آزمانا چاہتی تھی ۔۔۔ اور آزمایا تو تب جاتا ہے نا رے۔۔۔ جب محبت میں اعتبار نہ ہو۔۔۔ اس لئے تمہیں چھوڑ دیا ۔۔۔
عرزم سنجیدگی سے بولا جبکہ رحاب نے ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈالی ۔۔۔۔
میں نے تمہیں اتنا ڈھونڈا لیکن تم مجھے نہیں ملے ۔۔ میں کتنا تڑپی تھی تمہارے لئے۔۔۔ اللہ سے رو رو کر دوائیاں مانگیں تھیں ۔۔ اور اللہ کا شاید مجھ پر ترس آگیا جو اس نے یونیورسٹی میں مجھے تم سے ملا دیا۔۔۔ تم جانتے ہو مجھے کب معلوم ہوا تھا تم میرے پرنس ہو جب تم نے شاپنگ مال میں مجھے زیام سے دور رہنے کے لئے بول رہے تھے۔۔۔ تمہاری آنکھوں کی سرخی، تمہارا لہجہ، اور سب سے بڑھ کر تمہاری قربت میں وہی احساس جو مجھے پانچ سال پہلے محسوس ہوتا تھا وہی محسوس ہوا میرا دل پانچ سال بعد دھڑکا تھا۔۔۔ پھر تمہیں غصہ دلانے کے لئے جان بوجھ کر فضول ڈریسنگ کرتی تھی ۔۔۔ زیام سے بات کرتی تھی۔۔ تاکہ تم میری طرف متوجہ ہو۔۔۔ اور۔۔
اور میری توجہ حاصل کرنے کے لئے تم نے زیمی پر اتنا گندا الزام لگایا ۔۔۔
عرزم نے اس کی بات کاٹ کر تمسخرانہ انداز میں کہا ۔۔۔
رحاب زخمی سا مسکرائی تھی ۔۔۔ وہ سب میں نے اپنے بھائی کے لئے کیا تھا۔۔۔۔
رحاب سر جھکا کر بولی تو عرزم ایک دم سیدھا ہوا تھا۔۔۔
کیا مطلب؟؟؟
جب ہم حاشر بھائی کا رشتہ لے کر جہانگیر انکل کے گھر گئے تھے۔۔ تو نائلہ آنٹی نے باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کرتی ہوں؟ کہاں پڑھتی ہوں؟ کلاس کونسی ہے؟ جب میں نے انہیں بتایا تو وہ مجھے گھر دکھانے کے بہانے اپنے کنرے میں لے گئیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ انکا بیٹا بھی وہاں پڑھتا ہے اس کا نام زیام ہے جو میرا کلاس فیلو ہے۔۔۔لیکن وہ نارمل انسان نہیں ہے۔۔ پہلے تو میں خوش ہوئی پھر انہوں نے جب کہا کہ زیام کو تم سے دور کردوں تاکہ وہ زیام کو وہاں بھیج سکیں جہاں اس طرح کے سارے لوگ ہوتے ہیں تو میں حیران رہ گئی تھی ۔۔۔ میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن انہوں نے شرط رکھی تھی کہ وہ میرے بھائی کی شادی اپنی بیٹی سے نہیں ہونے دیں گی۔۔۔ میں مجبور تھی پرنس۔۔ مجھے بھائی کی خوشیوں کے لئے سب کرنا پڑا کیونکہ بھائی کی آنکھوں میں نے سچی محبت دیکھی تھی شمائل آپی کے لئے ۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی جس اذیت سے میں گزر رہی ہوں وہ بھی گزریں ۔۔۔ میں جانتی تھی تمہارا ری ایکشن سخت ہوگا ۔۔۔ مجھے اپنی اور بھائی کی خوشیوں میں سے کسی ایک کو چننا تھا میں نے بھائی کی خوشیوں کو چن لیا۔۔۔ پرنس۔۔۔ ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر گاڑی سے اتر گئی تھی جبکہ عرزم کتنی دیر سکتے کی حالت میں اس جگہ کو دیکھتا رہ گیا جہاں وہ بیٹھی تھی۔۔۔۔
کس قدر وہ تکلیف سے گزری تھی ۔۔ کس قدر وہ چاہتی تھی اپنے سے جڑے رشتوں کو۔۔۔ وہ کیوں جلد بازی میں اسے دکھ دے گیا تھا کیوں اس سے اسکا وقار اس کی نسوانیت کو چھین گیا تھا ۔۔۔۔۔
وہ گاڑی سے نکل کر رحاب کے پیچھے گیا تھا جو اسے کہیں نظر نہیں آ رہی تھی ۔۔۔ اس نے تقریبا ساری یونیورسٹی میں اسے ڈھونڈا تھا لیکن وہ پتہ نہیں کس کونے میں جا کر چھپ گئی تھی جو عرزم کو دوبارہ نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔
پلیز رے۔۔۔ کم بیک ۔۔۔ آئی نیڈ یو۔۔۔
عرزم رحاب کے تصور سے مخاطب ہوا اور پھر یونیورسٹی سے باہر کی جانب چلا گیا ۔۔۔ پڑھائی میں تو ویسے بھی دل نہیں لگنا تھا اس لئے وہ یونیورسٹی سے سیدھے گھر چلا گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا دو ہفتے ہوگئے تھے زیام کی ناراضگی کو ۔۔۔ عرزم جب بھی اس کے پاس جانے کی کوشش کرتا وہ اسے مکمل طورپر اگنور کر دیتا ۔۔۔ عرزم بے بسی سے لب بھینچ کر رہ جاتا۔۔۔ ان دو ہفتوں میں اس کی رحاب سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ کیونکہ حاشر کی شادی تھی اور وہ یونیورسٹی سے چھٹی لے کر بیٹھی تھی۔۔۔ آج مہندی تھی رحاب فنکشن کے کئے تیار ہو رہی تھی۔۔۔ مسکراہٹ تو جیسے اس کے چہرے سے غائب ہوچکی تھی۔۔۔ بے دلی سے وہ تیار ہو رہی تھی کیونکہ انہیں جہانگیر علوی کے گھر جانا تھا جہاں دونوں کی اکھٹے مہندی ہونا طے پائی تھی۔۔۔ وہ تیار ہورہی تھی جب اس کا دروازہ ناک ہوا۔۔۔
کمنگ۔۔۔۔
رحاب کے بولنے کی دیر تھی کہ عرزم ملازم کے حلیے میں تھا جلدی سے اندر آیا اور دروازہ لاک کر لیا۔۔۔
کک کون ہو تم؟؟؟ اور تمہاری ہمت کیسے۔۔۔۔
رحاب نے جلدی سے اپنا ڈوپٹہ بیڈ سے اٹھایا اور غصے سے بولی لیکن جیسے ہی اس کی نظر اس کی گرین آنکھوں پر پڑی جن میں سرمہ بھر بھر کر لگایا گیا تھا۔۔۔ وہ پہچان گئی تھی کہ وہ عرزم ہے۔۔۔۔ اس لئے باقی کے الفاظ لب بھینچ کر اس نے روکے تھے۔۔۔
یہاں کیوں آئے ہو؟؟؟
رحاب خفگی سے رخ موڑ گئی تھی۔۔۔
ارے واہ۔۔۔ تم نے مجھے پہچان لیا۔۔۔ مجھے تو لگا تھا میرا سارا وقت تمہیں یقین دلانے میں لگ جائے گا کہ میں تمہارا شوہر نامدار ہوں۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا جبکہ آنکھیں اس کی بار بار رحاب کے چہرے کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔۔ گرین اور اورنج کلر کے شرارے میں وہ عرزم کے دل کی دنیا کو تہہ وبالا کر گئی تھی۔۔ اوپر سے اس کا نفاست سے کیا گیا میک اپ اس کے سوئے جذبوں کو چیخ چیخ کر بیدار کر رہا تھا ۔۔۔۔
عرزم بے خود سا اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔ جبکہ رحاب آہستہ سے قدم اٹھاتے پیچھے ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔ رحاب نے پانچ قدم کے بعد مزید پیچھے ہونا چاہا تو دیوار نے اس کا ارادہ ناکام بنا دیا۔۔۔ رحاب نے ایک نظر عرزم کو دیکھ کر نظریں جھکا لیں تھیں ۔۔۔ عرزم رحاب کے کافی قریب آ گیا تھا اتنا قریب کہ دونوں کے دل کی دھڑکن کی آواز ایک دوسرے کے کانوں میں سنائی دینے لگی تھی ۔۔۔۔ عرزم نے اپنا دایاں ہاتھ دیوار پر ٹکایا اور بائیں ہاتھ سے اس کی کمر کو کھینچ کر اپنے حصار میں لیا ۔۔۔۔
اس وقت میرا دل کر رہا ہے کہ اپنی باضابطہ رخصتی کروا لوں۔۔۔ لیکن دماغ کہہ رہا ہے ابھی تمہاری سزا باقی ہے عرزم حیدر۔۔۔ آج تم میرا ضبط آزما رہی ہو۔۔۔ رے۔۔۔ تمہیں اتنا خوبصورت نہیں لگنا چاہیے تھا۔۔۔
عرزم سرگوشی میں اس کے بائیں جانب جھک کر کان میں بول رہا تھا جبکہ رحاب بمشکل اپنے قدموں پر کھڑی تھی۔۔۔۔ عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا جو آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ اس کی سینے پر رکھے ۔۔ حیا کے رنگ چہرے پر سجائے اسے کمزور کر رہی تھی۔۔۔ وہ جھکا تھا اور محبت اور عقیدت سے بھرپور لمس اس کی پیشانی پر چھوڑا تھا۔۔۔
پرنس پلیز۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید کوئی حق استعمال کرتا رحاب کی آواز اسے ہوش کی دنیا میں واپس لائی تھی ۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے پیچھے ہوا اور رحاب رخ موڑ کر اپنی سانسوں کو نارمل کرنے لگی۔۔۔
زیام سے ملنا چاہتا ہوں میں ۔۔ لیکن وہ مجھے اگنور کر رہا ہے۔۔ آج بھی گیا تھا گھر لیکن اس نے ملنے سے منع کر دیا ۔۔۔ کل میرا برتھ ڈے ہے اور مجھے اس کے ساتھ ہی سلیبریٹ کرنا ہے اس لئے کل تم کسی بھی طریقے سے اسے یونی کے پاس والے ہوٹل میں بھیجو گی ۔۔۔ کرو گی نا میرا کام؟؟؟
عرزم نے التجائیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟؟؟
رحاب اپنی ٹون میں واپس آتے مسکرا کر ہوئے بولی۔۔۔
عرزم حیدر پر حکومت۔۔۔۔ خود کو گروی رکھ لوں گا تمہارے اس احسان کے بدلے۔۔۔
عرزم محبت بھرے لہجے میں بولا تھا تو رحاب مسکراتے ہوئے سرجھکا گئی تھی ۔۔۔
اور اگر میں یہ نہ کر سکی پھر؟؟
رحاب شرارت سے بولی ۔۔۔ لیکن جلد ہی عرزم کے الفاظ اس کی ساری شرارت ختم کر گئے تھے۔۔۔
تو پھر تمہیں اس دل سے اور اپنی زندگی سے نکال دوں گا۔۔۔
جس دل سے تم مجھے نکالنے کی بات کر رہے ہو نا پرنس ۔۔۔ مت بھولو کہ یہ آج بھی میرے آنسوئوں کو زمین چھونے سے پہلے دھڑکنا بھول جاتا ہے۔۔۔ اس لئے ایسے الفاظ منہ سے مت نکالو جس کو تم پورے نہیں کر سکتے۔۔۔۔
رحاب نے ایک ناراضگی بھری نظر اس پر ڈالی اور اس کے سامنے سے ہٹ گئی۔۔۔
جب سب جانتی ہو تو الٹے سوال جواب مت کیا کرو۔۔۔ میری یہاں موجودگی سے تمہیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ تمہاری میری زندگی میں کیا جگہ ہے۔۔۔
عرزم نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے نرمی سے کہا اور اس کے بالوں پر بوسہ دے کر مسکرایا ۔۔۔
اپنا خیال رکھنا۔۔۔ اور کل ملتے ہیں۔۔۔
یہ بول کر عرزم وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ رحاب نے کتنی دیر اس کا لمس اپنے بالوں پر محسوس کیا تھا۔۔۔
کل کیا ہونے والا تھا کوئی نہیں جانتا تھا لیکن شاید سب کی زندگی اس کل کے بعد بدلنے والی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔