ایلاف کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو گودام نما ہال میں پایا شاید وہ کسی فیکٹری کا گودام تھا۔ایلاف چکراتے سر کے ساتھ اٹھ بیٹھی۔
” یا اللہ! یہ کیا ہوگیا میرے ساتھ میں نے تو صرف مدد کرنی چاہی تھی۔” ایلاف دونوں ہاتھوں سے سر تھام کے بیٹھ گئی۔
دو بجے وہ کالج سے گھر کیلئے نکلی تھی اور اب شام کے سات بج رہے تھے۔ سردیوں کے دن تو یوں بھی مختصر ہوتے ہیں اور شامیں طویل ایلاف کو لگا یہ بدنامی کا لمحہ اس کی پوری ذندگی پہ محیط ہوجائے گا۔
” مامی تو پہلے ہی اتنی باتیں کرتیں تھیں۔ آج تو ان کو یقین ہوجائے گا۔ ماموں بھی کیا سوچ رہے ہوں گے مامی تو پہلے ہی میری پڑھائی کے خلاف تھیں کہ پڑھائی کے بہانے باہر آوارہ گردی ہوتی ہے۔ ” ایلاف اس لمحے یہی سوچ رہی تھی۔
” کوئی ہے پلیز سامنے آؤ۔بات کرو میں تو جانتی بھی نہیں ہوں کسی کو، میری کوئی دشمنی بھی نہیں اللہ کسی سے پھر یہ سب کیا ہے؟” ایلاف بے بسی سے چیخ پڑی وہاں کوئی ہوتا تو اس کی بات سنتا نا۔
” ہائے ایلاف! آج مامی کے سارے الزام سچے ثابت ہوگئے۔وہ تو پہلے ہی کہتیں تھیں کہ اپنی ماں کی طرح یہ بھی کسی کو نظر میں رکھ کے بیٹھی ہوگی۔ ” ایلاف روتے روتے خود سے باتیں کرنے لگی تھی۔
*****
ایلاف کی ماں زرینہ مولوی طفیل کی بیٹی تھی۔نہایت نٹ کھٹ زندگی اپنے انداز سے جینے کی قائل، وٹے سٹے میں زرینہ کا رشتہ اس کے بھائی منظور کی بیوی کے بھائی سے ہوچکا تھا قادر بخش سے وہ موٹا بدھا شخص زرینہ کو ایک آنکھ بھی نہ بھاتا تھا۔
” اماں جس دن مجھے اپنے لائق کوئی ملا میں راوی میں اٹھا کے پھینک دوں گی اس رشتے اور دو روپے والی انگوٹھی کو ۔” زرینہ ہر جھگڑے کے آخر میں ماں کو یہ دھمکی لگاتی تھی۔
اور ایک سہ پہر زرینہ کو اپنا گوہر مقصود مل ہی گیا۔محبوب خان کی صورت میں محبوب خان کا تعلق افغانستان سے تھا۔اندرونی خانہ جنگی نے جہاں افغانستان کو معاشی طور پہ تباہ کیا وہاں کئی گھروں اور خاندانوں کو بھی اجاڑ دیا خاندان کے خاندان مارٹر گولوں اور بم دھماکوں میں ختم ہوگئے۔محبوب خان کا خاندان بھی یوں ہی ختم ہوگیا تھا۔خانہ جنگی سے تنگ آکر جب اکثر لوگ پاکستان آنے لگے تو محبوب خان بھی انھی قافلوں میں سے ایک کے ساتھ چلا آیا حالانکہ بہت مشکل ہوتا ہے اپنا گھر اپنے لوگ اپنی زمین چھوڑنا اور وہ تو پھر اپنے قبیلے کا ہونے والا سردار تھا لیکن قسمت میں ہجرت تھی۔
سردار کا بیٹا محبوب خان وقت کے چکر میں آکے اب ایک معمولی مزدور تھا اپنے ساتھ وہ اپنی خاندانی دستار اور لوح اور ڈھیر سارے مسائل کا انبار لایا تھا۔ نہ رہائش تھی نہ کوئی روزگار سب سے بڑا مسئلہ مقامی زبان سے ناواقفیت تھی مگر وہ محبوب خان تھا۔ پہاڑوں کا رہنے والا حوصلہ بھی پہاڑ جیسا تھا۔
یہ کہانی کبھی نہ لکھی جاتی اگر ایلاف محبوب کے خاندان کی گھٹی میں مصائب کی سختی اور حوصلے کی بلندی نہ ہوتی۔
وہ بھی بس گیا تھا داتا کی نگری میں بجری اینٹیں ڈھوتا وہ مزدوری کرنے لگا۔
منزل چاہے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو راستے ہمیشہ پیروں کے نیچے ہوتے ہیں۔
دھیرے دھیرے سے ہی زندگی کسی ڈھب پہ آنے لگی تھی وہ اگر چاہتا تو اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح مہاجر کیمپ تک ہی محدود رہتا اور امداد کا منتظر رہتا مگر اس کی غیرت نے یہ گوارا نا کیا لال خان اس کا ٹھیکیدار تھا اس کی جوہر شناس نظروں میں وہ جلد ہی آگیا تھا۔وہ اسے اپنے ساتھ رکھنے لگا تھا۔ محبوب خان کو گھروں کی تعمیر میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ دیکھ رہا تھا کیسے بجری اور اینٹوں سے شاندار عمارتیں کھڑی ہوجاتیں تھیں۔ ایک دن وہ معمول کے مطابق اندرون لاہور کے ایک گھر کی تعمیر میں مصروف تھا۔ وہ گھر زرینہ کی دوست صفیہ کا تھا وہ وہاں آئی ہوئی تھی۔
” نی صفیہ! آگیا تیرے پیو کو اس ڈھانچے کی مرمت کا خیال۔ ” زرینہ بھٹہ چباتے ہوئے بولی۔
وہ دونوں کمرے کی کھڑکی سے باہر کام کرتے ہوئے مزدوروں کو دیکھ رہی تھیں۔
” ہائے! میرے ویر کی شادی ہے کوئی مخول تھوڑی ہے ” صفیہ برا مان گئی۔
” لے مخول ہی تو ہے بڑا اچھا لگے گا اس عمر میں پرویز بھرا سہرا باندھتے ہوئے۔ ” زرینہ نے بھد اڑائی۔
” ہائے مرجانیے تیرے اس قادر بخش سے تو اچھا ہے میرا ویر وہ تو کوئلے کو بھی شرماتا ہے۔ ” صفیہ نے حساب برابر کیا۔
” پرے ہٹ میرا کہاں سے آیا؟ اس شب دیجور کے بچے سے شادی کرتی ہے میری جوتی۔ ” زرینہ نے غصے سے کہتے ہوۓ بھٹہ کھڑکی سے باہر پھینکا جو سامنے کام کرتے محبوب خان کو لگا۔
اس نے سر اٹھایا تو سامنے ہی لڑکیاں تھیں۔ لڑکیاں دیکھ کے اس نے نظر جھکا لی بنا کچھ کہے اس کی ادا پہ تو زرینہ قربان ہی ہوگئی ہوتا ابھی کوئی اور تو موقعے کا فائدہ اٹھاتا۔
” اچھا تو پھر کس سے کرے گی ؟” صفیہ نے پوچھا۔
” اس سے! ” انگلی سے محبوب خان کی طرف اشارہ کیا۔
” لگتا ہے گرمی تیرے دماغ کو چڑھ گئی ہے چل تجھے لسی پلاؤں۔وہ موا پٹھان ہے کیا پتہ شادی شدہ ہو جس کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے وہ تجھے کہاں بسائے گا؟ میاں جی کے چوبارے میں نی ہوش کر۔” صفیہ نے اس کے صحیح لتے لئے تھے۔
” پٹھان ہے تو کیا ہوا؟ ٹھکانہ نہیں ہے تو بن جائے گا اور میرے لئے کونسا شہزادہ آئے گا وظیفوں پہ پلنے والی زرینہ کے لئے یہی ٹھیک ہے اور شادی کی بات رہی تو ابھی پوچھتی ہوں اس سے۔” زرینہ حقیقت پسندی سے بولی اور باہر چلی گئی۔
” بات سنو!کیا نام ہے تمہارا؟ ” زرینہ نے پوچھا۔
” ام؟ محبوب خان ہے۔ ” وہ حیرانگی سے بولا۔
” شادی ہوگئی تمہاری؟ ” زرینہ نے پھر پوچھا
” نہیں! ” شرماتے ہوئے اس نے جواب دیا پہلا موقع تھا کہ کسی لڑکی نے اس سے بات کی تھی اور ایسا سوال پوچھا تھا۔
” اچھا مجھ سے شادی کروگے؟” زرینہ نے بم پھوڑا۔
بیچارہ محبوب خان حیرانگی سے اسے دیکھ کے رہ گیا۔
*******
پہلے تو محبوب خان تحیر کے مارے کچھ بول ہی نہ سکا اور بعد میں جب بولا تو لہجہ پتھر پھاڑ تھا۔آج تک یہ سوال کسی لڑکے نے نہ کیا تھا کجا لڑکی منہ پھاڑ کے پوچھ رہی تھی
” کیسا بات کرتا ہے تم شرم نہیں آتا؟”
صفیہ خود بھی حیران تھی زرینہ کی جرات پہ وہ جتنی منہ پھٹ سہی کم ازکم اس طرح یوں منہ پھاڑ کے شادی کا تو نہ کہتی وہ بھی ایک ایسے آدمی سے جس سے نہ جان نہ پہچان تھی پر زرینہ بھی کیا کرتی اماں ابا اس کی شادی کے دن باندھنے ہی والے تھے قادر بخش کی طرف سے اسرار بڑھتا جا رہا تھا۔
” آتی ہے شرم مگر ایسی شرم کو آگ لگانی ہے خان جو میری عزت ہی برقرار نہ رکھ سکے۔ ” زرینہ تڑ سے بولی
” کیا مطلب؟ ” محبوب خان کو وہ کوئی عجوبہ ہی لگ رہی تھی۔
” میرے گھر والے بچپن سے میرا رشتہ وٹے میں بھابھی کے بھائی سے کرچکے ہیں جس کی رنگت کوئلے جیسی ہے۔ میں سمجھوتہ کر بھی لیتی مگر اس کی عیاشی اور جواری والی حرکتیں اس کی شکل پہ سیاہی کی دھونی دیتیں ہیں۔عورت کی زندگی میں ایک ہی مرد ہوتا ہے تو اتنا اختیار تو ہونا چاہئے خان عورت کو، وہ اس مرد کا انتخاب کرے جو اس کی حفاظت کرے۔ تیرا مجھ کو یوں نظریں جھکا لینا خان میرے دل میں تیری جگہ بنا گیا۔اب تو بتا کرے گا شادی مجھ سے؟” زرینہ آج تخت یا تختہ کا فیصلہ کر چکی تھی۔
” ام کیسے شادی منائے تمہارے ساتھ عورت کا بات جس سے ہو شادی بھی اسی سے ہوتا ہے۔ ام تمہارے لئے دعا کرے گی وہ تمہارا مرد تمہارے حق میں اچھا کرے۔” محبوب خان صاف گوئی سے بولا۔
” خان مشورہ نہیں فیصلہ سناؤ۔اپنی بات کرو تم کہاں کے پیر ہو جو تمہاری دعاؤں سے وہ بھٹے والے فرشتہ ہوجاۓ گا۔ بچپن سے دیکھتی آرہی ہوں اسے آج تک نہیں بدلہ اس سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں راوی میں کود جاؤں۔ کیا فائدہ ایسے شخص سے شادی کرنے کا جو میری عزت ہی نہ کرسکے۔جس دن مجھے وہ جوے میں ہار گیا اس دن مولوی طفیل کی عزت ہیرا منڈی کی عزت ہوگی۔ بول خان کیا کہتی ہے تیری غیرت؟” زرینہ نے آنکھ میں آنسو بھرتے ہوئے اپنا دل کھول کے رکھ دیا۔
اسکے آنسو محبوب خان کو اپنے دل پہ گرتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔چہرے کی سرخی اور بڑھ گئی تھی۔آنسو تو عورت کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں جن کے آگے بڑے بڑے سکندر نییں ٹک پاتے تو وہ کیا تھا۔اس کی تربیت میں عورت کی عزت کرنا شامل تھا اور زرینہ کی باتوں نے اسے بتایا تھا کہ دنیا میں ایسے مرد بھی ہوتے ہین جو عورت کو عیاشی کا زریعہ سمجھتے ہیں صرف۔
” کیسا بات کرتا ہے تم ام سے پوچھو زندگی کا قیمت؟ زندگی بہت اچھا ہوتا ہے۔مرنا بہت مشکل ہے ام سوچے گا۔ امارا کوئی گھر ہے نہ ماں باپ ام تم کیسے شادی منائے گا آخر؟” محبوب خان نے اپنا مسئلہ بھی اسے بتایا۔
” گھر گھر والوں سے بنتا ہے خان ایک بار تو زرینہ کو اپنا لے۔ ہم دونوں کا وقت بدل جائے گا۔ گھر بھی بن جائے گا اور رہ گیا تمہارے ماں باپ کا مسئلہ تو لال خان ہے نا تم اس کو لے آنا ابا کے پاس پورے بھاٹی گیٹ میں زرینہ کے ٹکر کی لڑکی تجھے نہیں ملے گی نہ شکل میں نہ ہنر میں۔ ” زرینہ کجری آنکھیں اس کی سبز آنکھوں میں گاڑتے ہوئے بولی۔
” تمہارا باپ کیا سوچے گا کہ ام کیسا آدمی ہے نہ کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ کوئی گھر والا اور آگیا شادی کا بات کرنے۔” محبوب خان الجھا الجھا بولا۔
” بات سن محبوب خان مجھے نہیں معلوم کہ مجھے تیری طرف کونسی کشش کھینچ رہی ہے تیری دلیپ کمار جیسی شکل یا زاہدوں والی سیرت مگر میں تیرے راستے اور زندگی میں جائز طریقے سے آنا چاہتی ہوں۔ تیرے پاس کل شام تک کا وقت ہے نہیں تو پرسوں دوپہر تک تجھے مولوی کی بیٹی کے جنازے کی خبر مل جائی گی۔ ” زرینہ اسے دھمکی دے کے چلی گئی تھی اور پیچھے محبوب خان سر پکڑ کے بیٹھ گیا تھا۔
*******
شام میں جب لال خان آیا تو محبوب خان کو دیکھ کے پریشان ہوگیا جو سر پکڑے بیٹھا تھا اور کام سارا ادھورا پڑا تھا۔
” اے لکا!کیا بات ہے جھگڑا تو نہیں ہوگیا کسی سے؟ سارا کام یونہی پڑا ہے تمہارا شکل پہ اتنا پریشانی کیوں ہے؟” لال خان اس کے پاس بیٹھ کے بولا۔
جواب میں محبوب خان نے اس ساری بات بتادی تھی۔
” توبہ توبہ کیسا لڑکی تھا؟ذرا شرم نہیں آیا تم کو چھیڑتے ہوئے۔ ” لال خان توبہ توبہ کرتے ہوئے بولا۔
” ایسامت بول کاکا۔وہ بہت صاف دل کا لڑکی ہے اس نے ام کو شادی کا بولا ہے چھیڑا نہیں ہے ام کو۔ ” محبوب خان اس کی صفائی دیتے ہوئے بولا۔
لال خان نے اس کی شکل کو غور سے دیکھا اس پہاڑوں جیسے شخص سے محبت کا دریا بس پھوٹنے ہی لگا تھا۔
” تو ماڑا کیا چاہتا ہے اب تم، کرے گا اس سے شادی؟ ” لال خان نے اس کی مرضی جاننا چاہی۔
” کاکا ام بھی چاہتا ہے امارا گھر ہو گھر والی ہو بچے ہوں مگر ابھی تو امارا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے اور وہ پاگل لڑکی بولتا ہے کہ تمہارا پاس کل تک کا وقت ہے۔ام کیا کرے ام اسے یوں نہیں مرنے دے گا ۔ان ہاتھوں نے بہت لاشیں اٹھائیں ہیں بہت جنازے دیکھے ہیں اب ام کسی اور کو یوں مرنے نہیں دے گا۔”محبوب خان دلگرفتی سے بولا۔
” اوہ بچے! یہ عورت چیز ہی ایسا ہے،جذباتی قوم امارا گھر تمہارا گھر ہے۔ تم ہمارے ساتھ رہنا ام تمہارے ساتھ جائے گا اس مولوی کے پاس۔ ام ہے نا تو کیا غم ہے۔” لال خان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تو محبوب خان احسان مندی سے اس کے گلے لگ گیا۔
******
زرینہ گھر لوٹی تو اسے کسی پل قرار نہ تھا۔جلے پیر کی بلی کی طرح پورے گھر میں چکراتی پھرتی نہ سلائی میں دل لگ رہا تھا نہ رسوئی میں سکون نہ نازو سے آج کوئی جھڑپ ہوئی نہ اماں سے تو تڑاخ ہوئی۔
” نی زرینہ! کی گل ہے کب سے دیکھ رہی ہوں ماری ماری پھر رہی ہے پیٹ میں تو درد نہیں ہوگیا تیرے؟” اماں حیرانگی سے پوچھ رہی تھیں۔
” پیٹ میں نہیں دل میں درد ہورہا ہے اماں۔ پتا نہیں وہ سنگ دل پٹھان جس کے سامنے اپنا آپ کھول آئی ہوں میرے بارے میں سوچے گا بھی یا نہیں۔ ” زرینہ بڑبڑائی۔
” ہیں! کیابول رہی ہے؟” اماں کے پلے کچھ نہ پڑا توپوچھ بیٹھیں۔
” کچھ نہیں اماں! مغز نہ کھا سر میں درد ہے میرے۔” زرینہ نے اماں سے کچھ توکہنا ہی تھا ورنہ اماں نے تو جان ہی کھا لینی تھی آخر کو اکلوتی بیٹی تھی اماں کی۔
شام سے رات ہوگئی ابا اور بھا منظور گھر لوٹ آئے تھے۔ زرینہ چپ چاپ رسوئی کی کھڑکی سے ابا اور بھائی کے چہرے پہ نجانے کیا کھوج رہی تھی۔
” زرینہ کہاں ہے؟ ” ابا نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے پوچھا۔
” ہونا کہاں ہے رسوئی میں ہے،سر میں درد ہے اس کے۔ نی زرینہ تیرا پیو بلا رہا ہے۔” اماں نے دونوں کو ایک ساتھ نپٹایا۔
” کیا بات ہے ابا؟” زرینہ ہلکی آواز میں ابا کا چہرہ کھوجتے ہوئے بولی۔
” بیچ چوراہے پہ ہماری عزت لٹکا کے پوچھتی ہے کہ کیا بات ہے؟کون ہے یہ محبوب خان آج آیا تھا عشاء کے بعد میرے پاس تیرا رشتہ مانگنے وہ بھوکا کنگلا آدمی۔” ابا حقہ پٹختے ہوئے بولے۔
نازو بھابھی اور اماں ایک دوسرے کو دیکھ کے رہ گئیں۔ بھا منظور کا جھکا ہوا سر اور جھک گیا تھا اور زرینہ کی جان میں جان آگئی تھی آخر خان نے اس کی لاج رکھ لی تھی۔
” ابا ایسا بھی کیا کردیا۔ رشتہ مانگنا کوئی جرم نہیں ہے اور جس گھر میں بیری ہو پتھر تو آتے ہی ہیں تو ہاں بول دے ابا اسے شادی تو میں اسی سے کروں گی ۔رہا کنگلا ہونے کا سوال تو تیری کونسی ملیں چل رہی ہیں ابا وظیفوں پہ تو پال کے ہمیں جوان کیا ہے تو نے اور یہ بھا منظور اوقاف میں معمولی سا ورکر اور وہ قادر بھٹے والا جس کی ساری کمائی ہیرا منڈی میں اڑتی ہے کونسے خیالوں میں ہو ابا؟” زرینہ نے سارا کچا چھٹا کھول کے رکھ دیا تھا
” ہائے مرجانیے! بے شرم کیسے منہ پھاڑ کے میرے بھائی پہ الزام لگا رہی تیرے اپنے دیدوں کا پانی مرگیا ہے تو میرے بھائی کو کیوں بدنام کر رہی ہے۔ تیری شادی میرے بھائی سے ہی ہوگی۔ نہیں تو میں بھی نہیں بسوں گی،کان کھول کے سن لو۔” نازو کے تو تلوے پہ لگی اور سر پہ بجھی۔
” نا بس! تجھ سے شادی کر کے کونسا ویر سکھی ہے قینچی کی طرح تو سارا دن چلتی ہے زبان تیری جا چلی جا واپس اگر تجھے کوئی رکھے گا وہاں۔” زرینہ ناک پہ سے مکھی اڑاتے ہوئے بولی۔
” بکواس نہ کر زرینہ۔ قادر سے ہی تیری شادی ہوگی ورنہ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے زہر دے دوں گا۔” ابا چیخا۔
” نہیں ابا یہ تکلف تم نہ کرنا میں خود ہی کرلوں گی یہ کام، چار لوگوں کو گواہ بنا کے کروں گی اگر میری شادی محبوب خان سے نہ ہوئی۔” زرینہ بے خوفی سے بولی قدرت اگر اسے موقع دے رہی تھی تو وہ گنوانا نہیں چاہتی تھی۔
” کیڑے پڑیں گے تجھے زرینہ وہ بھی نہیں بسائے گا تجھے جب پتہ چلیں گے کرتوت تیرے، سارے بھاٹی گیٹ کو بتاؤں گی تیری حرکتیں کہیں منہ نہیں دکھا سکے گی تو۔” نازو نے دھمکی لگائی۔
” خبردار یہ بات اگر گھر سے باہر نکلی تو وہ تیرا اس گھر میں آخری دن ہوگا۔چلی جانا اپنے اس عیاش بھائی کے پاس۔” منظور نے اسے دھمکی دی۔
نازو سن سی ہوگئی تھی اتنی بڑی بات کہہ دی تھی منظور نے۔
” ہاں ہاں اس فساد کی جڑ کو کچھ نہ بولو۔ مجھے ہی رگیدو۔” نازو اٹھ کے کمرے میں چلی گئی۔
” ابا بول تیرا کیا فیصلہ ہے اب؟” بھا منظور نے ابا سے پوچھا۔
” کیسا فیصلہ کروں سب کچھ تو طے کر بیٹھی ہے یہ۔” ابا بے بسی سے بولا۔
” ابا قادر سے تو بہتر ہے وہ۔ تو ہاں کردے باقی اس کا نصیب۔” بھا منظور سنجیدگی سے بولا۔
” لوگ کیا کہیں گے؟ دو کوڑی کی عزت بھی نہیں رہے گی میری۔” ابا نے کہا۔
” وہ تو تب بھی نہیں رہے گی مولوی صاحب جب زرینہ اپنی من مانی کرے گی۔ اپنی ایکو اک دھی کا سوچ مولوی۔وہ مر جائے گی مگر قادر کی ڈولی میں نہیں چڑھے گی۔” اماں کو بھی بیٹے کی بات سن کے حوصلہ ملا تھا۔
“ٹھیک ہے! ” ابا نیم رضامندی سے بولا کچھ بھی تھا زرینہ اس کی لاڈلی بیٹی تھی۔
*******
اور یوں زرینہ اور محبوب خان کا ملن ہوگیا تھا نازو نے اسے بہت سنائی تھیں۔ وہ میکے کی کمزوری کی وجہ سے خاموش تھی اس لئے دل میں ہی آگ دبا رکھی تھی۔ رخصت ہوکے زرینہ لال خان کے گھر آئی تھی۔ محبوب خان توقع سے بڑھ کے اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔ زرینہ اس کی ہر بات مانتی تھی ڈھنگ سے دوپٹہ نہ پہننے والی زرینہ اب خوش خوش عبائے میں گھومتی تھی۔ وہ سلائی کر کے اسکا ہاتھ بٹاتی تھی گو کہ محبوب خان کو اعتراض تھا مگر زرینہ نے اس یہ کہہ کر چپ کرادیا تھا کہ
” ہم ہمیشہ لال خان کے گھر نہیں رہیں گے۔اپنا گھر ہوجائے تو سلائی چھوڑ دوں گی۔”
شادی کے ڈیڑھ سال بعد ایلاف کی آمد ہوئی تو وہ اپنے گھر میں شفٹ ہوگئے تھے۔ ایلف ہوبہو دونوں کی کاپی تھی۔رنگت اور آنکھیں باپ کی اور تیکھے نقش ماں کے لئے تھے۔ وہ اپنے باپ کی طرح نرم رو تھی زرینہ کی طرح اتری نہ تھی۔
زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی مگر کچھ لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کی عمر مختصر ہی ہوتی ہے۔
اس صبح محبوب خان ایلاف کے ساتھ بہت لاڈ کر رہا تھا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا کام پہ جانے سے پہلے وہ ایلاف سے یوں ہی لاڈ کرتا تھا۔
” بس کر خان! کیا سارا پیار آج کرلے گا دیر ہورہی ہے تجھے۔” زرینہ اسے ٹوکتے ہوئے بولی۔
” آج امارا دل کرتا ہے زرینہ ام اسے دیکھتا ہی رہے۔اسے یوں ہی پیار کرے۔” وہ ایلاف پہ جھکتے ہوئے بولا۔
” اچھا! اچھا بس اب جا لال خان انتظار کر رہا ہوگا۔ایسے انتظار نہیں کرواتے۔” زرینہ اسے اٹھاتے ہوئے بولی۔
” اپنا خیال رکھنا اور ایلاف کا بھی بہت خیال رکھنا۔” وہ جاتے’ جاتے بھی اسے مڑ مڑ کے دیکھ رہا تھا۔
محبوب کے جانے کے بعد زرینہ معمول کے کاموں میں مصروف ہوگئی تھی جب دروازہ بجا۔
” ہائے اس وقت کون آگی؟ا لگتا ہے آج اس کے پیو کو گھر بہت یاد آرہا ہے۔ ” زرینہ بولتے ہوئے اٹھی تھی۔
گیٹ کھول کے دیکھا تو سامنے کا منظر ہوش اڑانے کو کافی تھا۔ لال خان اور دوسرے آدمی محبوب خان کا بے جان لاشہ اٹھائے ہوئے تھے۔
زرینہ ڈھے سی گئی تھی یہ کیا ہوگیا تھا؟
” اونچی چھت سے گرنے کی وجہ سے مرگیا تھا بیچارہ۔” لال خان نے اسے بتایا۔
پل بھر میں گھر ماتم کدہ بن گیا تھا۔زرینہ کو غش پہ غش آرہے تھے بس ڈیڑھ سال کا ساتھ وہ زندگی کو چاہنے والا محبوب خان یوں بیچ راستے میں گم ہوگیا تھا زرینہ سے، عدت کے بعد زرینہ واپس گھر آگئی تھی اب وہ صرف ایلاف کیلئے جینا چاہتی تھی۔ نازو نے خوب دل کی بھڑاس نکالی تھی مگر زرینہ کی تو زبان ہی محبوب خان کے ساتھ دفن ہوگئی تھی۔ وہ چپ چاپ سلائی کئے جاتی یا ایلاف کے لاڈ اٹھاتی تھی نازو کی بھی ایک بیٹی تھی راضیہ۔ یوں ہی وقت آگے بڑھ رہا تھا اماں ابا اس کی جتنی دل جوئی کرتے زرینہ تب بھی چپ رہتی بس ایلاف کی باتوں پہ ہنس پڑتی اور پھر رو پڑتی اور ایلاف ایسی بدقسمت کے باپ کو کھونے کے ایک سال بعد ماں کو بھی کھو دیا۔ زرینہ کا دکھ ٹی بی کی شکل میں اسے کھا گیا اور وہ بھی ایلاف کو چھوڑ کے چلی گئی نازو نے اسے سبز قدم کہا، منحوس کہا کہ جو پہلے باپ کو اور پھر ماں کو کھا گئی تھی۔
اب نانا،نانی ہی اس کے غمگسار تھے مگر کب تک وقت کے ساتھ ساتھ ان کا بلاوا بھی آگیا اور گیارہ سال کی عمر کو پہنچنے تک وہ ان سے بھی محروم ہوگئی تھی۔
مامی کیلئے میدان صاف تھا اب وہ کھل کے بولتی تھی ایلاف کے اگلے پچھلوں کو خوب رگیدتی تھی اور ایلاف یہ طعنے سن سن کے اپنے خول میں مزید سمٹ گئی۔ وہ صرف پڑھائی سے مطلب رکھتی گھر کے کام خاموشی سے کرتی تھی ماموں کا دم اس کیلئے غنیمت تھا۔ راضیہ کا موڈ ہوتا تو منہ لگا لیتی نہیں تو اپنے حال میں مست رہتی۔ راضیہ کے بعد سلیم گڈو اور انجی تھے جو اسے سارا دن نچا کے رکھتے۔ مامی کا کھونٹا اب مضبوط تھا۔ قادر بخش دو بیویاں بھگتا چکا تھا اور اب تیسری کی تلاش میں تھا وہ جب بھی گھر آتا ایلاف ادھر اھر ہوجاتی۔ اس کی سرخ سرخ آنکھوں سے ایلاف کو خوف آتا تھا۔
وہ اپنا کردار مضبوط رکھتی تھی غلط بات اسے گوارا نا تھی اس نے پرانا لباس پہنا تھا مگر کسی کی اترن نہیں۔ وہ معمولی چیزیں استعمال کرتی تھی مگر برتی ہوئی نہیں یہ اس کے خون کا اثر تھا۔
ساری زندگی اپنے آپ کو سینت سینت کے رکھنے والی ایلاف محبوب کو وہ پٹخنی دی تھی کہ وہ ششدر رہ گئی تھی
بیٹھے بٹھائے بدنامی کا داغ لگ گیا تھا جسے کوئی آب حیات بھی نہیں دھو سکتا تھا۔
جیسے جیسے وقت آگے کو بڑھ رہا تھا تھا ایلاف کا دم نکل رہا تھا اس گودام نما ہال میں نہ کوئی بندہ تھا اور نہ کوئی اس کی ذات ۔وہ چیخ چیخ کے بھی تھک چکی تھی۔
” اے میرے مالک مجھ پہ رحم کر ،مجھ پہ اس آزمائش کا سایہ ختم کردے میں کہاں جاؤں گی یہاں سے میرا واحد ٹھکانہ ماموں کا گھر ہے ۔اے میرے مالک !اس سے پہلے کہ یہ ڈھلتی رات کے سائے میری روح میں اتر جائیں کوئی سبیل کردے میرے مالک، اس بندی پہ رحم کر۔” ایلاف محو مناجات تھی وہاں بھلے کوئی اس کی پکار نہ سننے والے تھا مگر ایک ہستی ہے جو پاتال سے نکلی ہوئی پکار بھی سنتی ہے کیوں کہ وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...