کیونکہ مردوق نے جب اسکی گردن دبائی تو اضطراری طور پر اسنے اپنا منہ کھول کر سانسیں بحال کرنے کی کوشش کی تھی
میرے لیے تو یہ چیز ایک نعمت سے کم نہیں تھی
ورنہ اس اکڑی ہوئی لاش کا منہ کھولنا میرے لیے کسی جنگ سے کم نہیں تھا
میں نے دو تین لمبی لمبی سانسیں لیں
اور پھر اپنے آپ کو دلاسہ دے کر خون کی ایک بوتل اٹھائی اور اور مردے کے قریب آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا
خون کی بوتل کو ایک بلیڈ سے چیر دیا
اور ہلکا مردے منہ میں ہاٹھ ڈال دیا
ایک دم سے میری چیخ نکل گئی تھی
اس مردے کے دانت میری انگلیوں کو محسوس ہوئے تھے
اور مجھے ایسے لگا تھا جیسے کسی نے میری انگلیاں چبانے کی کوشش کی ہو
میں نے خوف زدہ انداز میں مردے کی طرف دیکھا
وہ ویسے ہی پڑا تھا
ایک بار پھر اسکے منہ میں انگلیاں ڈالیں اور میری ڈر کے مارے بری حالت ہوگئی تھی
لیکن اب کی بار میں نے جی کڑا کر کے انگلیاں وہیں رہیں اسکے حلق میں اور پھر اسکی زبان کو نیچے کی طرف دبایا تاکہ اوپر جو خون ٹپکاؤں وہ سیدھا اسکے حلق میں چلا جائے
میں نے منتر کا پہلا جاپ کرتے ہی تھوڑا سا خون اس کے حلق میں انڈیل دیا
اور اسے حکم دینا شروع کر دیا
کہ تم نے لیلی یعنی وومرا کو مارنا ہے
میں اپنا سفید جادو تمہارے حوالے کردونگا
اسکے بعد تم وومرا کو مارنے کے قابل ہوسکو گے
اور پھر وومرا کو مارنے کے بعد تم نے اپنے آپ آپکو ختم کر دینا ہے
یہ وہ حکم تھا جس کے لیے میں یہ چلہ کاٹ رہا تھا
اب میری انگلیاں اس سیال گاڑھے خون سے ٹکرائیں اور عجیب سی کیفیت محسوس ہوئی
میں منتر پڑھتا جا رہا تھا اور تھوڑا تھوڑا کر کے خون ٹپکاتا جا رہا تھا
ابھی بار ہی منتر پڑھا ہوگا کہ میرے بالکل سامنے دو خونی آنکھیں ظاہر ہوئیں
میری ریڑھ ہڈھی کے اندر ان آنکھوں کی مقناطیسیت سے کھنچاؤ محسوس ہوا
وہ کوئی بھیڑیا تھا
منہ سے خون ٹپکتا ہوا
خوف کے مارے میری حالت پتلی ہو چکی تھی
وہ اسی جگہ کھڑا مجھے گھورتا رہا
کچھ ہی دیر میں چلہ مکمل ہوچکا تھا
میں نے جلدی سے لاش پر کپڑا ڈال دیا
اور خون کی بچی ہوئی بوتل کو اس بھیڑیے کی طرف اچھال دیا
لیکن وہ بوتل فضا میں ہی تھی کہ اس بھیڑیے نے اس کے اوپر۔ چھلانگ لگادی
جیسے ہی وہ حصار کے اوپر پہنچا
ایک دم سے اسکے جسم پر شعلے بھڑک اٹھے
اور اسے کوئی جھٹکا سا لگا تھا اور وہ واپس جا گرا
حیرت کی بات تھی کہ وہ شعلے صرف اسکے جسم کو چمٹے ہوئے تھے
وہاں گوشت کے سڑانڈ کی بو پھیلنے لگی تھی
کچھ ہی دیر میں وہ ختم ہوچکا تھا
اور خون کی بوتل بھی حصار کے اندر ہی جل کر ختم ہوچکی تھی
خوف کے مارے میری بتی گل ہوچکی تھی میں نے پانی کی بوتل کو منہ سے لگایا اور اتنی سردی کے باوجود پوری بوتل پی چکا تھا
اب سکے کو باہر نکالنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا
اگلا سارا دن گزر گیا
دوسری رات کو وہی کام شروع ہوچکا تھا
آج رات کوئی قابل ذکر بات نا ہوئی
تیسری رات گیدڑوں کا ایک گروہ حصار کے باہر کھڑا منحوس آواز میں چلاتا رہا
اور دور کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں
لیکن کوئی اور قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا تھا
چوتھی رات چلہ شروع کرنے سے پہلے ہی ” ِنک ” نظر آیا
آنکھوں میں موجود سرخی بتا رہی تھی کہ وہ غصے سے کھول رہا ہے
بے وقوف انسان تم ہمارا مقابلہ کروگے؟
اسنے چلا کر کہا اور میں کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ اندر سے مردوق کی آواز ابھری کے ان لوگوں کو نظر انداز کریں
اگر کچھ بولنا شروع کیا تو چلہ ختم ہوجائے گا
میں نے خاموشی سے خون کی بوتل اٹھائی
اور چلہ شروع کر دیا
” نِک ”
غصے سے باہر چلاتا رہا بولتا رہا
پھر ایک دو بار لالچ دینے کی کوشش کی
میں نے چلہ مکمل ہونے کے بعد آرام سے بستر میں سوگیا
پانچویں رات ” نِک ” دوبارہ موجود تھا
اس بار وہ غصے سے ہنکار رہا تھا
کچھ ہی دیر میں اسنے میرے ماں باپ کے بارے میں گند بکنا شروع کر دیا تھا
کئی بار غصے سے دل کیا کہ جا کر اسکا منہ نوچ لوں
لیکن چلہ ناکام ہوجاتا
میں آرام سے منتر پڑھتا رہا
ابھی تک وومرا نہیں دکھائی دی تھی
وہ چھٹی رات تھی
نک ہمیشہ کی طرح دھمکیاں دے رہا تھا
لیکن اسی وقت میرے بابا میرے سامنے آگئے
آفتاب تم یہاں کیوں آئے
یہ کیا کرنے لگے ہو تم
میرے دل کے حالات اتھل پتھل ہونے لگے تھے
لیکن فوراً خیال آیا کہ بابا تو مر چکے ہیں
لیکن باہر انھوں نے جیسے میرے خیالات پڑھ لیے ہوں
نہیں آفتاب تم سوچ رہے گے کہ میں مر چکا ہوں
میں مرا نہیں تھا
مجھے ان لوگوں نے قیدی بنا لیا تھا
آج وہ چاہتے ہیں کہ میں تمھیں چلہ کاٹنے سے روک دوں
(میرا دل کر رہا تھا کہ اٹھ کر بابا کے گلے لگ جاؤں
اور بولوں نے آپ تو میری چھت تھے
جیتے جی مجھے اکیلا کیوں چھوڑ گئیے
آج سارے شکوے بابا سے ایسے کروں جیسے میں چھوٹا ہوتا تھا۔
تو بابا کو بتاتا تھا کہ بورڈنگ سکول میں بچے مجھے مارتے ہیں لڑتے ہیں۔
آج بھی بتاؤں کے کہ یہ دنیا والے میرے پیچھے پڑ گئے ہیں
مجھے مارنا چاہتے ہیں
مجھے بچا لیں بابا
اور بابا پہلے کی طرح بولیں
” میں ہوں نا بیٹا، اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اب رونا نہیں ہے کبھی”
لیکن بیٹا تم نے رکنا نہیں ہے
تم نے چلہ کاٹ کر ان سب کو مارنا ہے
میرے دل میں خیال آیا کہ یہ اگر انکی چال ہوتی تو بابا مجھے چلہ کرنے کا نا کہتے
اسی وقت ہی ایک طرف سے وومرا نمودار ہوئی
اور میرے بابا کی گردن دبوچ لی اور پھر ‘ نِک’ نے ایک بڑی سی چھری اٹھا کر میرے بابا کے گلے پر پھیرنے کے لیے تیار ہونے لگا تھا کہ میں اٹھ کر بھاگا
لیکن حصار تک پہنچنے سے پہلے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا
اور اندر سے مردوق کی آواز آئی کہ آقا آپ کیوں اس جھوٹی شعبدہ بازی سے متاثر ہونے لگے ہیں
یہ جھوٹ ہے سب آپ کے بابا کئی سال پہلے ہی فوت ہوچکے ہیں
” شُق” کی بتائی ہوئی باتیں آپ بھول چکے ہیں کیا؟
اب جلدی سے چلہ مکمل کریں
کل آخری دن ہے بس کسی طرح ایک رات اور برداشت کر لیں
میں نے دوبارہ لاش کے منہ میں ہاتھ ڈال کر چلہ شروع کر دیا
اب مجھے دوبارہ سے چودہ بار منتر پڑھنا تھا اور خون بھی دوبارہ سے ڈالنا تھا
جیسے ہی میں نے چلہ شروع کیا
بابا کی آوازیں اور تیز ہوگئیں
آفتاب مجھے بچا لو
آفتاب مجھے بچا لو بیٹا
میں نے ایک نظر انکی طرف دیکھا تو وہ نرخرے پر چھری پھیر رہے تھے
گلا کٹ چکا تھا
اور وہاں سے خون بھل بھل کر کے باہر پچکاریاں مار کر نکل رہا تھا
مجھ سے یہ سب دیکھا نا گیا
پھر اچانک کچر کچر کی آوازیں آنے لگیں
میں نے پھر انکی طرف دیکھا تو وہ بھیجا اور دل نکال کر چبا رہے تھے
اور انکا منہ خون سے لال ہوچکا تھا
مجھے کراہت محسوس ہوئی
اور
پھر ابکائی آنے لگی
اور اسی لاش کے ساتھ ہی الٹی کر دی
لیکن اس لاش کے منہ سے ہاتھ نہیں نکالا
جیسے تیسے منتر پورا ہوا میں نے بستر میں منہ چھپا لیا
اس رات وہ دونوں بار بار میرے ماں باپ کو سامنے لے آتے
ماں کو تو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا
لیکن بابا تو میرے سامنے تھے اور میں گھٹ گھٹ کر مر رہا تھا
کیونکہ پتا تھا کہ وہ کوئی بھوت ہوگا
پھر وومرا کی آواز سنائی دی
آفتاب چلہ چھوڑ دو ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور تم یہاں سے چلے جاؤ اور کہیں اپنی زندگی آرام سے جیو
ورنہ تمھیں پتا ہے نا
سفید جادو اس مردے کے حوالے کیا تو تم بھی زندہ نہیں رہ پاؤ گے
میں خاموشی سے بستر میں سر دیے پڑا رہا
لگتا ہے یوں نہیں مانو گے تم
اسنے غصے سے کہا
اور پھر ہر طرف آندھی آنے لگی تھی
آہستہ آہستہ لگتا تھا جیسے وہ سب کچھ اڑا لے گی
ایک دو بار بستر اڑنے لگا تو میں نے سنبھالنے کی کوشش کی
لیکن اس وقت مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا
جیسے میں خود اڑ جاؤنگا
میں نے جلدی سے بستر چھوڑ دیا
وہ اڑ کر حصار کے اوپر تک پہنچا اور جل کر نیچے اسکی راکھ آگری
لاش کے اوپر سے کپڑا بھی اڑ گیا تھا
آہستہ آہستہ اس آندھی میں شدت آنے لگی تھی
میں نے دیکھا جیسے لاش ہل رہی ہو
آندھی کی شدت اسے بھی اڑانے کو تیار تھی
میں نے جا کر جلدی سے اسے پکڑ لیا
اسی دوران میری ساری خوراک پانی کی بوتلیں اور خون کی بوتلیں حصار سے ٹکرا کر جل چکی تھیں
میں نے ایک گنے کے گچھے دار تنے کو مضبووسے پکڑا ہوا تھا
اور دوسرے ہاتھ سے لاش کو پکڑا ہوا تھا
یہ آندھی حصار کے اندر کیوں آرہی ہے
میرے ذہن میں سوال ابھرا
کیونکہ حصار کے اندر ہوا آسکتی ہے
اس لیے ان لوگوں نے ہوا بھیجی ہے
یہاں حصار کے اندر بہت کم شدت ہے
کیونکہ حصار نے روکی ہوئی ہے
ورنہ حصار کے باہر گنے کے کھیت تباہ ہوچکے ہیں
سارے گنے نیچے ٹوٹ کر پڑے ہیں
بہت کم گنے رہ گئے ہیں
تھوڑی دیر بعد آندھی کا زور ٹوٹ چکا تھا
میرے ہاتھ جم چکے تھے
سردی کے دن اور اتنی شدید آندھی
صرف ایک جیکٹ ہی پہنی ہوئی تھی
ہاتھ سردی سے برف بن چکے تھے
آج حصار میں صرف میں اور وہ لاش باقی تھے
باقی ہر چیز اڑ کر ختم ہوچکی تھی
خون کی ایک بوتل جو اڑنے سے بچ گئی تھی
لیکن وہ آگے گھسٹتے گھسٹتے کسی گنے کے تنے سے جا ٹکرائی تھی
اور پھٹ کر سارا خون بہہ چکا تھا
اور وہ جادوئی کتاب حصار کے قریب جلی ہوئی پڑی تھی
اب دیکھتی ہوں تم خون لینے باہر کیسے نکلتے ہو
وومرا کی ہنسی سنائی دی
اور میری دماغ میں سنسنی پھیل چکی تھی
آندھی ختم ہونے کے بعد وہ دونوں غائب تھے
صبح کا اجالا پھیل گیا تھا
سردیوں کے موسم میں پیاس تو ویسے ہی نہیں لگتی
ہاں ہلکی پھلکی بھوک تھی لیکن آگے صرف ایک رات تھی
تھوڑی ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک طرف سے چند گاؤں والوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں
وہ اپنی فصل دیکھ رہے تھے
وہ رات آندھی کی شدت کے بارے میں حیران تھے
ایسی آندھی اور وہ بھی صرف ایک ہی جگہ پر
وہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی عذاب نازل ہوا ہے
میں ڈر رہا تھا کہ وہ مجھے نا دیکھ لیں
اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا جب کسی نے کہا کہ یہ دیکھو!
اس وقت میرا کلیجہ حلق تک آگیا
ایک دیہاتی نے مرے ہوئے اور جلے ہوئے بھیڑیے کو دیکھ لیا تھا
لیکن ان میں سے کسی کو بھی میں اور لاش نظر نہیں آرہے تھے
اب اس بھیڑیے کی موت پر تبصرہ کرنے لگے
کچھ کی دیر میں اسکی موت کو اس خطرناک آندھی می وجہ قرار دیا گیا
اور وہ سب بھاگ گئے تھے
مجھے حیرت ہورہی تھی کہ انھوں کے مجھے کیوں نہیں دیکھا
رات کا وقت ہوچکا تھا
اور مجھے پریشانی لاحق ہو رہی تھی
کہ انسانی خون کہاں سے لاؤں
کیا خون کے بغیر چلہ ممکن ہے
نہیں اندر سے مردوق کی آواز سنائی دی
بارہ بجنے کے قریب ہی وومرا اور ” نِک” آچکے تھے
اور ” نِک” نے خون کی بوتل اٹھائی ہوئی تھی
آجاؤ چوزے
” نِک” استہزاء امیز لہجے میں بولا
میں خاموش رہا
آج وہ پہلے والے انداز میں لگ رہا تھا
شاید اسکی روح نے بھی وومرا کی غلامی قبول کر لی تھی
میں خاموش رہا
بارہ بجتے ہی میں نے لاش کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا
اور دوسرے ہاتھ کی نالی کو اپنے دانتوں سے ادھیڑ کر رکھ دیا
بھل بھل خون گرنے لگا
میں نے وہ خون لاش کے منہ میں ٹپکانا شروع کر دیا
اور منتروں کا جاپ شروع ہوچکا تھا
چلے کی شرط تھی انسانی خون لاش کے منہ میں ٹپکایا جائے
یہ شرط نہیں تھی کہ کس انسان کا ہو
وہ شرط پوری ہوتے دیکھ کر لیلٰی پاگل ہوگئی
آگ لگا دو
وہ چلا کر بولی
کس کو
سارے کھیتوں کو
میں اندر سے دہل گیا تھا
گنے کی فصل بہت جلد آگ پکڑ لیتی ہے
اور میں فصل کے درمیان میں بیٹھا تھا
ہاں دس فٹ کے قطر کا دائرہ ہوگا
لیکن جب اردگرد جہنم دہک رہا ہو تو یہ دس فٹ بہت کم بچتا ہے
لیکن باہر سے میں نے ڈرے بغیر چلہ جاری رکھا
تھوڑی ہی دیر میں آگ بھڑک اٹھی تھی
ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوچکا تھا
سانس میں زہریلا دھواں ابھرنے لگا
آنکھوں سے پانی بہنے لگا
منتر پڑھنا مشکل ہوگیا تھا
خون کے ایک قطرے کے ساتھ دس دو قطرے پسینے کے گر رہے تھے
کچھ ہی دیر میں درجہ حرارت کی حدت نا قابل برداشت ہوچکی تھی
ایسے لگ رہا تھا جیسے کپڑے جلنے لگے ہوں
سانس گھٹ گھٹ کے آرہا تھا
میں چلہ مکمل کر چکا تھا۔ اس لاش کی آنکھیں بالکل نیلی اور روشن ہوچکی تھیں
لیکن ابھی سفید جادو اسکے حوالے کرنا تھا
میرا سانس گھٹ گھٹ کے آرہا تھا
جیسے تیسے ہی میں نے چلہ مکمل کیا
میں نے جلدی سے سفید جادو والا منتر پڑھا
سانسیں اٹک رہی تھیں
سفید جادو اسکے حوالے کرتے ہی میری شہہ رگ میں اس مردے کے دانت محسوس ہوئے
کچھ ہی دیر میں،
میں سانس کی قید سے آزاد ہوچکا تھا
اور میری روح فضا میں بلند ہوگئی
مجھے اپنے اندر سے عجیب سی توانائی پھوٹتی دکھائی دی
ہلکا پھلکا سا جیسے کوئی لطیف مادہ ہوں میں
زندگی کی قید سے آزادی نے سفید جادو کے تبادلے کا کام مکمل کر دیا تھا
نیچے دیکھا تو
وہ لاش ہوا میں اڑ رہی تھی
آنکھیں نیلی اور روشن تھیں
انھیں آنکھوں سے روشنی کی ایک لہر نکلی جیسے لیزر لائیٹ نکلی ہو
اور وومرا کی آنکھوں میں گھس گئی
تھوڑی دیر بعد وہ چیخ رہی تھی
اسکی آنکھوں میں جیسے مرچیں جا چکی ہوں
اس لاش نے اپنی آنکھوں کی قوت سے اسے بھی اوپر اٹھا لیا تھا
اور پھر کچھ ہی دیر میں ایک دھماکہ ہوا
لیلہ عرف ماہ نور عرف وومرا بھی آخر کار انجام کو جا پہنچی تھی
اور وومرا کی روح میری روح کی طرح باہر نکلی اور فضا میں اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا
مجھ سے جیسے اسے کوئی سروکار نہیں تھا
اسکے بعد وہ فوراً ایک طرف اڑتی چلی گئی
مجھے اندر سے احساس ہوا جیسے وہ جادونگری کی طرف جا چکی ہے
کیونکہ جو جادوئی دنیا کا غلام ہوگا اسکی روح وہیں جائے گا
اب وہ کسی کی غلام بن کر اپنی زندگی بسر کرے گی
میں نے اس مردے کی طرف دیکھا
وہ دوبارہ حصار میں داخل ہوا
اور پھر اسکی آنکھوں سے روشنی تیز تر ہوتی چلی گئی
اور پھر ایک دھماکہ ہوا اور لاش ختم ہوچکی تھی
یوں سفید جادو کا سفر اختتام کو جا پہنچا
لیکن ” نِک” کہیں بھاگ گیا تھا
کیونکہ اسکی روح وومرا کی غلام تھی
مگر اب وہ آزاد ہوچکا تھا
اب میری لڑائی اس سے باقی تھی
*
تاڑنا بعد میں ابھی اقرار کرنے کا وقت ہے
شہناز کی آنکھوں میں شرارت بھرے لیکن عجیب سے کوندے لپک رہے تھے
لڑکی وہ تھی اور شرمانے کی اداکاری میں کر رہا تھا
میرا دل کر رہا تھا کہ بول دوں
شہناز!
جب تم نے پوچھا تھا کہ
” میرے ساتھ بھی داخلہ نہیں لوگے”
اسی وقت ہی اپنی زندگی میں تمہارا داخلہ بغیر کسی حلف نامے کے کر لیا ہے
لیکن میری سوچ میں ڈر ابھرا کہ کہیں اسے کھو نا دوں
‘تم میں ہے ہی کیا
کہ کوئی تم سے محبت کرے’
آبان نہیں مانو گے تو میں نے یہاں سے چلے جانا ہے
اتنی دور کہ واپسی ناممکن ہوگی
پھر ڈھونڈو گے ملکوں ملکوں
اس کے لہجے میں کوئی ایسی بے قراری تھی کہ میں نے جلدی سے اسکے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا
وہ نرمی سے میرا ہاتھ ہٹا کر ہنسنے لگی تھی
بس بس اب ہوگیا اقرار اب بتانے کی ضرورت نہیں ہے
نہیں!
میرے لہجے میں چٹان کی سی مضبوطی در آئی
آج میں اقبال کو گواہ بنا کر اقرار کرتا ہوں
ہاں مجھے محبت ہے
اتنی محبت ہے جتنی سمندر کو موجوں سے ہے
اتنی جتنی چاند کو چاندنی سے، اتنی جتنی رات کو تاریکی سے
ہاں مجھے محبت کے اتنی محبت کہ محبت کرنے کا حق ہے جو
تم بتاؤ کرتی ہو محبت،
میں نے اتنے زور سے یہ جملے ادا کیے تھے کہ مزار پر موجود کچھ لوگ ہمیں گھورنے لگے تھے
مجھے انکے آنکھوں کی تپش محسوس ہو رہی تھی
لیکن شہناز تو جیسے سب بھول چکی تھی
وہ چپ چاپ میرے گلے لگ گئی
ہاں اتنی محبت جس کے آگے آپکی محبت چھوٹی پڑ جائے
وہ لمحے ہی میری محبت کا سرمایہ تھے
وہ لمحے میری زندگی کو چپک چکے تھے
اردگرد موجود لوگ ہمارے اوپر طنز کر رہے تھے
ایک عورت کی آواز آئی
بے شرمی کی حد ہوگئی ہے
یہ سب کہیں چھپ کر نہیں کر سکتے
مزار پر بے شرمی پھیلا رہے ہیں
ہم شرمندہ سے ہو کر الگ ہوگئے
پر وہ یہاں آج بھی میرے سینے سے لگی ہوئی پوچھتی ہے
آبان مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو
اور میں کہتا ہوں
میرے محبوب!
میری ساری چالاکیاں تیری نادانیوں میں گم سم سی ہو جاتی ہیں
میری ذہانت کی روشنی کو تیری اداؤں کا نور خیرہ کر دیتا ہے
میرے لفظوں کے انبار تیرے حسن کی دلیل کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں
میری باغیانہ سوچوں کو تیری یادوں کی جیل میں اسیر بنا لیا جاتا ہے
اپنا وجود تیری ہستی کے سامنے اک سراب سا لگتا ہے
سوچتا ہوں اس بچے کی طرح تیری آغوش میں چھپ جاؤں جس کو مہیب سایوں نے خوفزدہ کر دیا ہو
کمروں کی روشنی ہمیشہ گل کرنے کے باوجود تیری یادوں کے چراغ جلتے رہتے ہیں
تیری ایک معصوم ادا پر میرے تن کی ہزاروں مسکراہٹیں نثار ہونے کو تیار رہتی ہیں
میری روح کے رنگین جذبات اکثر تمھیں مچل مچل کر سلامی دیتے ہیں
دل یہی چاہتا ہے کہ تیرے حسن کے دربار میں میری حاضری کا پروانہ جاری ہو اور میں دل کو نکال کر تحفہ پیش کروں
اور بس اتنا دیکھوں کہ میرے آخری حواسوں میں صرف تیری تصویر کے رنگ ابھریں اور میں مسکرا کر گرنے لگوں اور تم مجھے سنبھال لو
پھر وقت تھم جائے
فرشتوں پھر کچھ پل وقت کو روک دو
مجھے دیدار کی شب میں طوالت چاہیے
ہاں مجھے وصل کے لمحوں میں طوالت چاہیے
اس دن میں گھر روانہ ہوگیا تھا
اور اسنے بھی گھر چلے جانا تھا
لیکن میں اکیلا نہیں لوٹا تھا
میرے ساتھ ایک اور وجود تھا
اس وجود کی شرارتیں مجھے بغیر وجہ کے ہنسا رہی تھیں
راستے میں ہم دو وجود سے چار وجود بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے
تمھیں کراچی میں کوئی یونیورسٹی نہیں ملی تھی جو تم یہاں میرا سکون برباد کرنے چلی آئیں
آہو!
وہ خالص پنجابی لہجے میں بولی
اور پھر ایک دم سے سنجیدہ ہوگئی
آبان
میرے گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے
مجھے گھٹن ہوتی ہے وہاں
میں اس ماحول سے باہر نکلنا چاہتی ہوں
ہم کراچی شہر میں رہنے کے باوجود ایک وڈیرانہ زندگی بسر کرتے ہیں
بابا سائیں گھر کے وڈیرے ہیں
ادا سانول سارا کاروبار سنبھالتے ہیں
میرے گھر میں عورت صرف بستر اور کچن تک محدود سمجھی جاتی ہے
یہ تو بابا نے دو شادیاں کی تھیں
میری امی پہلی بیوی ہے
انکے ڈر سے دوسری بیوی کو کراچی شہر میں رکھا
میں نے پڑھنے کی زد کی تو مجھے کراچی لے آئے
وہاں میرے سوتیلی ماں اور بھائی بھی ساتھ رہتے ہیں
مجھے انکی نظروں سے گھن آتی ہے
اس لیے میں وہاں سے باہر بھاگنا چاہتی ہوں
میں بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک جسم نہیں ہوں
میں وہاں جا کر کسی جاگیر دار وڈیرے کی پہلے یا دوسرے نکاح کے نام پر رکھیل نہیں بننا چاہتی
یار کیا کہہ رہی ہو تم مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا
”
سن کے جسے تم بہت پچھتاؤ
میں نے وہ فسانہ سنایا بھی نہیں ہے
”
اسنے ایک مشہور گانے کے بول سنائے
تو سنا دو
نہیں! ابھی نہیں۔
وہ کراچی جا چکی تھی
اپنی سوتیلی ماں کے گھر رہنے
ہمارے دن اور رات ایک ہوچکے تھے
وہ سوتی تھی میں سوتا تھا
میں جاگتا تھا وہ جاگتی تھی
‘ زندگی خوبصورت ہے’
ہماری زندگی کی ایک مثال بن چکی تھی
لیکن جھیل کی خاموشی کتنی ہی خوبصورت کیوں نا ہو
لوگ پتھر پھینکنے سے نہیں چوکتے
میری کہانی میں بھی خوشیوں کو آگ لگانے ایک ماچس جل چکی تھی
ایک رات ہم ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کر سونے لگے تھے
پندرہ منٹ گزرے ہونگے
کہ اسکی کال آنی شروع ہوگئی
پہلے وہ جب بھی کال کرتی میسج کر کے پوچھتی تھی پھر کال کرتی تھی
ابھی تو بات ختم ہوئی اب کیا ہوا ہے
میں نے مصنوعی غصے سے پوچھا
”
آبان مجھے بچا لو
”
کیا ہوا
میں بستر سے کھڑا ہوچکا تھا
”
آبان میں نے کہا تھا نا کہ میرا سوتیلا بھائی مجھے عجیب نظروں سے گھورتا ہے
اسنے ایک بات ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنا مقصد مجھ پر واضح کیا تھا
اور میں نے درشت انداز میں اسے جھڑک دیا تھا اور آئندہ کوئی ایسی ویسی بات کی تو بابا کو بتانے کی دھمکی دی تھی
ابھی کچھ دیر پہلے اسنے ہماری کال پر باتیں سنی ہیں
وہ اب سامنے آگیا ہے
وہ مجھے جنسی طور بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے
میں آرہا ہوں کراچی
نہیں آبان تم یہاں آئے تو یہ سب تمھیں مار دینگے
تو کیا یہ لوگ تمہیں بلیک میل کرتے رہیں
نہیں آئندہ اسکی ہمت نہیں پڑے گی مجھے بلیک میل کرنے کی اسنے عجیب لہجے میں کہا اور کال کاٹ دی
میں اندر سے کانپ گیا تھا
اسکا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ کچھ کرنے والی ہے
میں نے دوبارہ کال کی تو نمبر بند ملا
ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی
صبح کال کرتا رہا
نمبر تھا
اگلے دن میں کراچی کی طرف جانے والی بس کا ٹکٹ لے چکا تھا
اس وقت میرے ذہن میں سوچ آئی کہ کراچی جا کر کیا کرونگا
میرے پاس تو اسکا کوئی اتا پتا ہی نہیں ہے
خیر میں روانہ ہوگیا
سارے راستے بار بار اسکا نمبر ڈائل کرتا رہا
لیکن جواب وہی ایک کہ نمبر بند ہے
کراچی جا پہنچا
ایک ہفتہ وہیں ایک رشتے دار کے پاس رہا
سارا دن مارا مار پھرتا
لیکن کوئی اتا پتا نہیں
ایک دن فیس بک اکاؤنٹ چلایا
پتا چلا یہاں سے شہناز نے اپنی آئی ڈی بند کر دی ہے
پھر لوٹ آیا
ملتان داخلہ لے لیا تھا
زخم تھا جلد یا بدیر بھر جانا تھا بھر گیا
پر کئی مہینے دل میں ایک خلش رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہوگا کہ اسنے مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا
پھر ایک دن ایک انجان نمبر کی کال آرہی تھی
وائبریشن کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی
میرے موبائل کی رنگ ٹون ہمیشہ بند ہوتی ہے
میں نے کوئی جواب نہیں دیا
اور کال کاٹ دی
لیکن تب پتا چلا کہ اس نمبر سے لگاتار چھ سات کالیں آئی ہیں جو کہ میں اٹینڈ نہیں کر سکا
میں نے فوراً کال بیک کی
اسی وقت کال اٹینڈ ہوگئی
ہیلو!
آبان؟
کی آواز آئی
اور اس آواز کو سننے کے لیے کان ترس گئے تھے
میری پوری کائنات جیسے میرے کان میں سمٹ آئی تھی
میرے جسم کا رواں رواں میرے کان کی حس سماعت کا منتظر ہو چکا تھا
شہناز یہ میرے ساتھ کیا کر دیا تم نے
آبان مجھے معاف کر دینا
میں نہیں چاہتی تھی کہ تم کراچی آؤ
کیونکہ اگر تم یہاں آتے تو میرے بابا کو اور بھائی کو پتا چل جاتا
اور پھر وہ تمہارے ساتھ پوری فیملی کو مار دیتے
اور ساتھ میں مجھے کاری کر دیتے
اس لیے میں نے سوچا تمھیں بچا لوں
اور خودکشی کر لوں
یہ سوچ کر سارے رابطے ختم کر دیے
پھر تمہاری باتیں یاد آئیں کہ خودکشی تو شکست قبول کرنے کا نام ہے
میں کسی دوسرے کے قصور سزا خود کو کیوں دوں
بس یہ سوچ کر اسی رات ہی گھر میں موجود پستول اٹھائی اور سیدھا بھائی کے کمرے پر دستک دی
وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوگیا کہ شاید میں اسکی بات ماننے آئی ہوں
لیکن میں اسے اسکے قصور کی سزا دینے آئی تھی
اسنے کمرہ بند کر دیا تھا
میں نے پستول نکال لیا تھا
اسکی آنکھیں خوف کے مارے ابل پڑی تھیں
باجی باجی کہنے لگا تھا
معافیاں مانگ رہا تھا
میں اس وقت کسی رحم کے موڈ میں نہیں تھی
چلو کپڑے اتارو کر لو اپنی خواہش پوری
اسنے بے یقینی اور خوف سے دیکھا
پھر بولا نہیں باجی مجھے معاف کر دیں
اتارو کپڑے
میں نے اس شدت سے کہا کہ اگلے ہی لمحے وہ برہنہ کھڑا تھرتھر کانپ رہا تھا اور معافیاں مانگ رہا تھا
میں کسی رحم کے موڈ میں نہیں تھی
آبان یہ تم نے ہی کہا تھا نا
ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہاتھوں میں کپکپی ظاہر کرتی ہے کہ ہم اس ظالم کے ساتھ ہیں
لیکن اس دن میرے ہاتھ نہیں کانپے
میں نے پورا میگزین خالی کر دیا تھا
سارے گھر والے جاگ چکے تھے
پر وہ مجھ سے ڈر کے دور بیٹھے رہے
بابا صبح پہنچے انھوں نے آکر مجھ سے پستول چھینا اور تھپڑ لگایا
میں تو بے حس ہو چکی تھی
وہ پوچھتے رہے کیوں مارا اسے
میں کیو بتاتی انھیں
کہ ہوس کی پکار نے ایک ہوس کو جنم دیا تھا
پولیس آئی تھی لیکن بابا نے اپنے اختیارات کے ذریعے مجھے بچا لیا تھا
بھائی کا کیس گاڑی چھیننے کی واردات بنا دیا گیا
اور میری قسمت کا فیصلہ تیسرے دن ہی کر دیا گیا
دس دن بعد میری شادی کر دی گئی
مجھ پر ہر طرح کی پابندی تھی
اور میں بھی تمھیں بتا کر تمہارا دل نہیں جلانا چاہتی تھی
پھر میں کسی اور کے آنگن میں دلھن بن کر آگئی
میرا شوہر مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے
پر آبان مجھے تم سے محبت ہے
لیکن میں نے اپنے بابا کہ فیصلے اور شوہر کی محبت کی لاج رکھنی ہے
یہ میری آخری کال ہے
کال کٹ چکی تھی
میری حالت ایسے ہوچکی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں
انتظار اتنا مشکل تھا
پر اب تو انتظار کرتا رہتا تو وہی اچھا تھا
اتنی آسانی سے اسنے فیصلہ سنا دیا کہ یہ آخری کال ہے
میں نے اسے دوبارہ کال کی
یہ بتانے کے لیے کہ
میں اسکا انتظار کرونگا
یہ میرا آخری فیصلہ ہے
بھلے وہ چھ بچوں کی ماں بن جائے
بھلے وہ بوڑھی ہوجائے
میں اسکا انتظار کرونگا
پر نمبر ملانے کے بعد پتا چلا کہ وہ کسی پی سی او سے کال کر رہی تھی
یعنی اسنے اپنے فیصلے پر مہر ثبت کر دی
ہاں وہ اسکی آخری کال تھی
*
میں ‘ نِک’ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا
اس دن آپکو یہاں بینچ پر دیکھا
تو آپکے خیال پڑھے سوچا کچھ آپ سے کہانی شئیر کر دوں
اور پھر ایک دن آپکو یاد ہوگا
میں بڑی خوفناک حالت میں یہاں آیا تھا
جس دن آپ ڈر گئے تھے
اس دن ‘ نِک’ کو ڈھونڈ لیا تھا
پھر میری اور اسکی لڑائی روحانی لحاظ سے ہوئی
اور روحانی طور پر زیادہ طاقتور تھا
بس لڑائی ہوئی اور اسے ہرا کر روحانی دنیا میں بھیج دیا
اب آپ کے سوالات کے جواب دے کر میں نے بھی تو وہیں جانا ہے
کیا مطلب؟
میں خوف زدہ ہوچکا تھا
مطلب آپنے مجھ سے پوچھا تھا
نا کہ جب پیر کٹ چکا تو پھر آپ ٹھیک کیسے ہیں
ہاں میرا پیر کٹ گیا تھا
لیکن آپکو پتا ہے نا روحوں کے پیر کٹے ہوئے نہیں ہوتے
مطلب!
ہاں میں کئی دن سے مر چکا ہوں
تو میں ایک روح سے ملتا رہا ہوں
ہاں یقین نہیں آتا
اسنے پوچھا اور یہ کہہ کر میرے سامنے غائب ہوگیا
اور پھر میری بھاگنے کی رفتار دیکھنے کے قابل ہوچکی تھی
جیسے ہی میں اپارٹمنٹ میں پہنچا
آگے ایک ڈبہ پڑا تھا
اسکے اوپر ایک چٹ لکھی ہوئی تھی
”
آبان صاحب! مجھے یقین تھا جیسے ہی آپ کو پتا چلے گا کہ میں ایک روح ہوں آپ ڈر جائیں گے
سوچا تھا ایک گفٹ آپکو دونگا
لیکن اب روبرو آنے کی ہمت نہیں ہوئی
اس لیے اس ڈبے میں وہ گفٹ رکھ دیا ہے
امید ہے آپکو پسند آئے گا
”
میں نے ڈبہ کھولا
اس میں سب سے پہلے مڈل فنگر بلند ہوتی نظر آئی
اور پھر ایک بونا چھلانگ لگا کر باہر آچکا تھا
آقا!
مردوق حاضر ہے
ختم شد
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...