اس پورے عرصے کے دوران سالار امامہ کی کال کا منتظر ۔ اس نے کئی بار امامہ کو اس کے موبائل پر کال بھی کیا مگر اسےموبائل آف ملتا۔اسے یہ تجسس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں تھی۔اس تجسس کو ہوا دینے میں کچھ ہاتھ حسن کا بھی تھا جو بار بار اس سے امامہ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا ، بعض دفعہ وہ چڑ جاتا۔
“مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں ہے اور مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر رہی۔بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اسے مجھ سے زیادہ تمہیں دلچسپی ہے۔”
اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ حسن کا یہ تجسس اور دلچسپی کسی مجبوری کی وجہ سے تھی۔وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا۔سالار کا خیال تھا کہ امامہ اب تک جلال کے پاس جا چکی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہو اگرچہ اس نے امامہ سے جلال کی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا مگر اسے یقین تھا کہ امامہ نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا ہو گا۔وہ اس کے پاس دوبارہ ضرور گئی ہو گی۔خود سالار بھی چاہتا تھا کہ وہ خود جلال سے رابطہ قائم کرے یا پھر ذاتی طور پر جا کر ایک بار اس سے ملے۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ امامہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے یا نہیں ، مگر فی الحال یہ دونوں کام اس کے لیے ناممکن تھے۔سکندر عثمان مسلسل اس کی نگرانی کروا رہے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ یہ نگرانی کروانے والے واحد نہیں ہیں۔ہاشم مبین احمد بھی یہی کام کروا رہے تھے اور اگر وہ لاہور جانے کا ارادہ کرتا تو اول تو سکندر عثمان اسے جانے ہی نہ دیتے اور بالفرض جانے کی اجازت دے بھی دیتے تو شاید خود بھی اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔اسے اب یہ سب کچھ ایک حماقت لگ رہا تھا۔ایسی حماقت جو اسے کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔سکندر اور طیبہ اب ہمہ وقت گھر پر رہتے تھے اور اسے کہیں بھی جانے کے لیے اسے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔حسن اب اس سے کم کم ملنے لگا تھا۔وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتا تھا۔اس صورت حال سے وہ بہت بور ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس رات کمپیوٹر پر بیٹھا تھا جب اس کے موبائل پر ایک کال آئی تھی۔اس نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے لاپرواہی سے موبائل اٹھا کر دیکھا اور پھر اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔اسکرین پر موجود نمبر اس کے اپنے موبائل کا تھا۔امامہ اسے کال کر رہی تھی۔
“تو بالآخر آپ نے ہمیں یاد کر ہی لیا۔”اس نے بےاختیار سیٹی بجائی۔اس کا موڈ یک دم فریش ہو گیا تھا۔کچھ دیر پہلے والی بوریت یکسر غائب ہو گئی تھی۔
“میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تم مجھے کبھی کال نہیں کرو گی۔اتنا لمبا عرصہ لگا دیا تم نے۔”رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
“میں بہت دنوں سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر کر نہیں پا رہی تھی۔”دوسری طرف سے امامہ نے کہا۔
“کیوں ، ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی۔فون تو تمہارے پاس موجود تھا۔”سالار نے کہا۔
“بس کوئی مجبوری تھی۔”اس نے مختصراً کہا۔
“تم اس وقت کہاں ہو؟”سالار نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
“بچکانہ سوال مت کرو سالار ! جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گی تو پھر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟”
“میرے گھر والے کیسے ہیں؟”
سالار کچھ حیران ہوا۔اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
“بالکل ٹھیک ہیں ، خوش و خرم ہیں ، عیش کر رہے ہیں۔”اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔”تم واقعی بہت اچھی بیٹی ہو ، گھر سے جا کر بھی تمہیں گھر اور گھر والوں کا کتنا خیال ہے۔ہاؤ نائس۔”
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔”وسیم کیسا ہے؟”
“یہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے ٹھیک ہی ہو گا۔وہ خراب کیسے ہو سکتا ہے۔”اس کے انداز اور لہجے میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
“انہیں یہ تو پتا نہیں چلا کہ تم نے میری مدد کی تھی؟”سالار کو امامہ کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔
“پتا لگا۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر امامہ ! پولیس اسی دن میرے گھر پہنچ گئی تھی جس دن میں تمہیں لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔”سالار نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔”تمہارے فادر نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی تمہیں اغوا کرنے کے سلسلے میں۔”وہ ہنسا۔”ذرا سوچو میرے جیسا بندہ کسی کو اغوا کر سکتا ہے اور وہ بھی تمہیں۔۔۔۔۔جو کسی بھی وقت کسی کو شوٹ کر سکتی ہے۔”
اس کے لہجے میں اس بار طنز تھا۔”تمہارے فادر نے پوری کوشش کی ہے کہ میں جیل پہنچ جاؤں اور باقی کی زندگی وہاں گزاروں مگر بس میں کچھ خوش قسمت واقع ہوا ہوں کہ بچ گیا ہوں۔گھر سے کالج تک میری نگرانی کی جاتی ہے۔ڈمب کالز ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔اب تمہیں کیا کیا بتاؤں۔بہر حال تمہاری فیملی ہمیں خاصا زچ کر رہی ہے۔”اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
“میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تم تک پہنچ جائیں گے۔”اس بار امامہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔”میرا خیال تھا کہ انہیں کسی بھی طرح تم پر شک نہیں ہو گا۔مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
“واقعی تمہاری وجہ سے مجھے بہت سے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
“میری کوشش تھی کہ میں پہلے خود کو محفوظ کر لوں پھر ہی تمہیں فون کروں اور اب میں واقعی محفوظ ہوں۔”
سالار نے کچھ تجسس آمیز دلچسپی کے ساتھ اس کی بات سنی۔”تمہارا موبائل اب میں استعمال نہیں کروں گی اور میں اسے واپس بھیجنا چاہتی ہوں ، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔”وہ اسے بتا رہی تھی۔”میں تمہیں کچھ پیسے بھی بھجواؤں گی۔ان تمام اخراجات کے لئے جو تم نے میرے لئے کئے۔۔۔۔۔”
سالار نے اس بار اس کی بات کاٹی۔”نہیں ، پیسے رہنے دو۔مجھے ضرورت نہیں ہے۔موبائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میرے پاس دوسرا ہے۔تم چاہو تو اسے استعمال کرتی رہو۔”
“نہیں ، میں اب اسے استعمال نہیں کروں گی۔میری ضرورت ختم ہو چکی ہے۔”
اس نے کہا۔کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔”میں چاہتی ہوں کہ تم اب مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دو اور طلاق کے پیپرز کے ساتھ نکاح نامہ کی ایک کاپی بھی جو میں پہلے تم سے نہیں لے سکی۔”
“کہاں بھجواؤں؟”سالار نے اس کے مطالبے کا جواب کہا۔اس کے ذہن میں یک دم ایک جھماکا ہوا تھا۔وہ اگر اب طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے ابھی تک کسی سے شادی نہیں کی تھی نہ ہی طلاق کے اس حق کو استعمال کیا تھا ، جو نکاح نامہ میں وہ اس کی خواہش پر اسے تفویض کر چکا تھا۔
“تم اسی وکیل کے پاس وہ پیپرز بھجوا دو جس کو تم نے ہائر کیا تھا اور مجھے اس کا نام اور پتا لکھوا دو ، میں وہ پیپرز اس سے لے لوں گی۔”
سالار مسکرایا۔وہ بےحد محتاط تھی۔”مگر میرا تو اس وکیل کے ساتھ ڈائریکٹ کوئی رابطہ نہیں ہے۔میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں پھر پیپرز اس تک کیسے پہنچاؤں؟”
“جس دوست کے ذریعے تم نے اس وکیل سے رابطہ کیا تھا اسی دوست کے ذریعے وہ پیپرز اس تک پہنچا دو۔”یہ تو طے تھا کہ وہ اسے کسی بھی طرح اپنا کوئی اتا پتا نہ دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اور اس پر پوری طرح قائم تھی۔
“تم طلاق لینا کیوں چاہتی ہو؟”وہ اس وقت بہت موڈ میں تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔شاید وہ اس سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
“طلاق کیوں لینا چاہتی ہوں؟تم کتنی عجیب بات کر رہے ہو۔یہ تو پہلے ہی طے تھا کہ میں تم سے طلاق لوں گی پھر اس سوال کی کیا تک بنتی ہے”۔امامہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
“وہ تب کی تھی ، اب تو خاصا لمبا وقت گزر گیا ہے اور میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا۔”سالار نے بےحد سنجیدگی سے کہا۔وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ دوسری طرف اس وقت امامہ کے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین نکل گئی ہو گی۔
“تم کیا کہہ رہے ہو؟”
“میں یہ کہہ رہا ہوں امامہ ڈئیر ! میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا ، نہ ہی دوں گا۔”اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔
“تم۔۔۔۔۔تم طلاق کا حق پہلے ہی مجھے دے چکے ہو۔”امامہ نے بےاختیار کہا۔
“کب کہاں۔۔۔۔۔۔کس وقت۔۔۔۔۔۔کس صدی میں۔”سالار نے اطمینان سے کہا۔
“تمہیں یاد ہے ، میں نے نکاح سے پہلے تمہیں کہا تھا کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق چاہتی ہوں میں۔اگر تم طلاق نہیں بھی دیتے تو میں خود ہی وہ حق استعمال کر سکتی ہوں۔تمہیں یہ یاد ہونا چاہئیے۔”وہ جتا رہی تھی۔
“اگر میں تمہیں یہ حق دیتا تو تم یہ حق استعمال کر سکتی تھی مگر میں نے تو تمہیں ایسا کوئی حق دیا ہی نہیں۔تم نے نکاح نامہ دیکھا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔خیر تم نے دیکھا ہی ہو گا ورنہ آج طلاق کی بات کیوں کر رہی ہوتیں۔”
دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔سالار نے ہوا میں تیر چلایا تھا مگر وہ نشانے پر بیٹھا تھا۔امامہ نے یقیناً پیپرز سائن کرتے ہوئے انہیں دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔سالار بےحد محفوظ ہو رہا تھا۔
“تم نے مجھے دھوکا دیا۔”بہت دیر بعد اس نے امامہ کو کہتے سنا۔
“ہاں ، بالکل اسی طرح جس طرح تم نے پسٹل دکھا کر مجھے دھوکا دیا۔”وہ برجستگی سے بولا۔
“میں سمجھتا ہوں کہ تم اور میں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ہم دونوں میں اتنی برائیاں اور خامیاں ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو مکمل طور پر Complement کرتے ہیں۔”وہ اب ایک بار پھر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
“زندگی۔۔۔۔۔سالار ! زندگی اور تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔یہ نا ممکن ہے۔”امامہ نے تند لہجے میں کہا۔
“مجھے نپولین کی بات دُہرانی چاہئیے کہ میری ڈکشنری میں نا ممکن کا لفظ نہیں ہے یا مجھے تم سے یہ ریکویسٹ کرنی چاہئیے کہ آؤ ! اس نا ممکن کو مل کر ممکن بنائیں۔”وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
“تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔”
“نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان یہ تو نا ممکن ہے۔”سالار ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
” میں تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں سالار ! تمہارا اور میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے ، ورنہ شاید میں تمہاری پیشکش پر غور کرتی مگر اب اس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔تم پلیز ، مجھے طلاق دے دو۔”وہ اب نرم لہجے میں کہہ رہی تھی۔سالار کا دل بےاختیار ہنسنے کو چاہا۔
“تم اگر میری پیش کش پر غور کرنے کا وعدہ کرو تو میں اپنا لائف اسٹائل بدل لیتا ہوں۔”سالار نے اسی انداز میں کہا۔
“تم سمجھنے کی کوشش کرو ، تمہاری اور میری ہر چیز مختلف ہے۔زندگی کی فلاسفی ہی مختلف ہے۔ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔”اس بار وہ جھنجلائی۔
“نہیں۔۔۔۔۔نہیں میری اور تمہاری فلاسفی آف لائف بہت ملتی ہے۔تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یہ ملتی نہ بھی ہوئی تو بھی ذرا سے ایڈجسٹمنٹ کے بعد ملنے لگے گی۔”وہ اس طرح بولا جیسے اپنے بہترین دوست سے گفتگو کر رہا ہو۔
“ویسے بھی مجھ میں کمی کیا ہے۔میں تمہارے پُرانے منگیتر اسجد سے خوبصورت نہ سہی مگر جلال انصر جیسا معمولی شکل و صورت کا بھی نہیں ہوں۔میری فیملی کو تم اچھی طرح جانتی ہو۔کیرئیر میرا کتنا برائٹ ہو گا ، اس کا تمہیں اندازہ ہے۔میں ہر لحاظ سے جلال سے بہتر ہوں۔”وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔وہ امامہ کو بری طرح زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔
“میرے لیے کوئی بھی شخص جلال جیسا نہیں ہو سکتا اور تم۔۔۔۔۔تم تو کسی صورت بھی نہیں۔”اس کی آواز میں پہلی بار نمایاں خفگی تھی۔
“کیوں؟”سالار نے بےحد معصومیت سے پوچھا۔
“تم مجھے اچھے نہیں لگتے ہو۔آخر تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔دیکھو ، تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں کورٹ میں چلی جاؤں گی۔”وہ اب اسے دھمکا رہی تھی۔سالار اس کی بات پر بےاختیار ہنسا۔
“یو آر موسٹ ویلکم۔جب چاہیں جائیں۔کورٹ سے اچھی جگہ میل ملاقات کے لیے اور کون سی ہو گی۔آمنے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کا مزہ ہی اور ہو گا۔”وہ محفوظ ہو رہا تھا۔
“ویسے تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ کورٹ میں صرف میں نہیں پہنچوں گا ، بلکہ تمہارے پیرنٹس بھی پہنچیں گے۔”وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
“سالار ! میرے لیے پہلے ہی بہت سے پرابلمز ہیں تم ان میں اضافہ نہ کرو۔میری زندگی بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔کم از کم تم تو میری مشکلات کو نہ بڑھاؤ۔”اس بار امامہ کے لہجے میں رنجیدگی و بےچارگی تھی۔وہ کچھ اور محفوظ ہوا۔
“میں تمہارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر ! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں ، تمہارے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔تم خود سوچو ، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔”وہ بظاہر بڑی سنجیدگی سے بولا۔
“تم جانتے ہو نا ، میں نے اتنی مشکلات کس لیے سہی ہیں۔تم سمجھتے ہو ، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جاؤں گی جو ہر وہ کبیرہ گناہ کرتا ہے جسے میرے پیغمبر ﷺ نا پسند کرتے ہیں۔نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیے۔میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔جلال مجھے نہیں ملا مگر میں تمہارے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔”اس نے بے حد تلخ انداز میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
“شاید اسی لیے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی ، کیونکہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہوتی ہیں ، تمہارے جیسی نہیں۔”سالار نے اسی ٹکڑا توڑ انداز میں جواب دیا۔
دوسری طرف خاموشی رہی۔اتنی لمبی خاموشی کہ سالار کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔”ہیلو۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو؟”
“سالار ! مجھے طلاق دے دو۔”اسے امامہ کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔سالار کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔
“تم کورٹ میں جا کر لے لو ، جیسے تم مجھ سے کہہ چکی ہو۔”سالار نے ترکی بہ ترکی کہا اور دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
حسن نے ان چند ماہ میں سالار سے امامہ کے بارے میں جاننے کی بےحد کوشش کی تھی (حسن کے اپنے بیان کے مطابق ) مگر وہ ناکام رہا تھا۔وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ سالار اور امامہ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔سالار کی طرح خود انہوں نے موبائل پر بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
سکندر نے سالار کو امریکہ میں مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔وہ جانتے تھے کہ اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اسے لینے میں خوشی محسوس کرے گی
امامہ نے سالار کو دوبارہ فون نہیں کیا تھا حالانکہ سالار کا خیال تھا کہ وہ اسے دوبارہ فون کرے گی اور تب وہ اسے بتا دے گا کہ وہ اسے نکاح نامے میں پہلے ہی طلاق کا حق دے چکا ہے اور وہ نکاح نامے کی کاپی بھی اس کے حوالے کر دے گا۔وہ اس سے یہ بھی کہہ دے گا کہ اس نے اس کے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا مگر امامہ نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم نہیں کیا ، نہ ہی سالار نے اپنے پیپرز میں اس نکاح نامے کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت کی ، ورنہ وہ بہت پہلے وہاں اس کی عدم موجودگی سے واقف ہو جاتا۔
جس دن وہ آخری پیپر دے کر واپس گھر آیا۔سکندر عثمان کو اس نے اپنا منتظر پایا۔
“تم اپنا سامان پیک کر لو ، آج رات کی فلائٹ سے تم امریکہ جا رہے ہو ، کامران کے پاس۔”
“کیوں پاپا ! اس طرح اچانک۔۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک تو ہے؟”
“تمہارے علاوہ سب کچھ ٹھیک ہے۔”سکندر نے تلخی سے کہا۔
“مگر پھر آپ مجھے اس طرح اچانک کیوں بھیج رہے ہیں؟”
“یہ میں تمہیں رات کو ائیرپورٹ چھوڑنے کے لیے جاتے ہوئے بتاؤں گا۔فی الحال تم جا کر اپنا سامان پیک کرو۔”
“پاپا پلیز ! آپ مجھے بتائیں آپ اس طرح مجھے کیوں بھجوا رہے ہیں؟”سالار نے کمزور احتجاج کیا۔
“میں نے کہا نا میں تمہیں بتا دوں گا۔تم جا کر اپنا سامان پیک کرو ، ورنہ میں تمہیں سامان کے بغیر ہی ائیرپورٹ چھوڑ آؤں گا۔”
سکندر نے اسے دھمکایا۔ وہ کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔اپنا سامان پیک کرتے ہوئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سکندر عثمان کے اس اچانک فیصلے کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔اس نے اپنی دراز کھول کر اپنے پیپرز نکالنے شروع کر دئیے۔وہاں نکاح نامہ نہیں تھا۔اسے ان کے اس فیصلے کی سمجھ آ گئی تھی اور اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے نکاح نامے کو اتنی لاپرواہی سے وہاں کیوں رکھا تھا۔وہ نکاح نامہ سکندر عثمان کے علاوہ کسی اور کے پاس ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور اس کمرے میں آنے اور اس کی دراز کھولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں اب کوئی الجھن نہیں تھی۔اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا سامان پیک کیا۔وہ اب صرف یہ سوچ رہا تھا سکندر عثمان سے ائیرپورٹ جاتے ہوئے کیا بات کرے گا۔
رات کو ائیر پورٹ چھوڑنے کے لیے صرف سکندر اس کے ساتھ آئے تھے ، طیبہ نہیں۔ان کا لہجااور انداز بےحد روکھا اور خشک تھا۔سالار نے بھی اس بار کوئی سوال نہیں کیا۔ائیرپورٹ جاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک سادہ کاغذ اور قلم نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
“اس پر سائن کر دو۔”
“یہ کیا ہے؟”سالار نے حیرانی سے اس سادہ کاغذ کو دیکھا۔
“تم صرف سائن کرو ، سوال مت کرو۔”انہوں نے بے حد روکھے انداز میں کہا۔سالار نے مزید کچھ کہے بغیر ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم لے کر اس کاغذ پر سائن کر دیے۔سکندر نے اس کاغذ کو تہہ کر کے بریف کیس میں رکھا اور بریف کیس کو دوبارہ بند کر دیا۔
“جو کچھ تم کر چکے ہو ، اس کے بعد تم سے کچھ کہنا یا کوئی بات کرنا بےکار ہے۔تم مجھ سے ایک کے بعد دوسرا ، اور دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ بولتے رہے۔یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تو کبھی حقیقت کا پتا ہی نہیں چلے گا۔میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں امریکہ بھیجنے کی بجائے ہاشم مبین کے حوالے کر دوں تاکہ تمہیں اندازہ ہو اپنی حماقت کا ، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، مجھے تمہیں بچانا ہی ہے۔تم میری اس مجبوری کا آج تک فائدہ اٹھاتے رہے ہو مگر آئندہ نہیں اٹھا سکو گے۔میں تمہارا نکاح نامہ امامہ کے حوالے کر دوں گا اور اگر مجھے دوبارہ یہ پتا چلا کہ تم نے اس سے رابطہ کیا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں اس بار جو کروں گا تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔تم میرے لیے کافی مصیبتیں کھڑی کر چکے ہو ، اب ان کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئیے سمجھے تم۔”
انہوں نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔اس کے انداز میں عجیب طرح کی لاپرواہی اور اطمینان تھا۔سکندر عثمان بے اختیار سلگا۔یہ ان کا وہ بیٹا تھا جو 150 + کا آئی کیو رکھتا تھا۔کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ وہ سرے سے کوئی آئی کیو رکھتا بھی تھا یا نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ جو اس نے امریکہ میں گزارے تھے وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔وہ اس سے پہلے بھی کئی بار سیر و تفریح کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ اور ان کے بغیر امریکہ اور یورپ جاتا رہا تھا مگر اس بار جس طریقے سے سکندر نے اسے امریکہ بھجوایا تھا اس نے جہاں ایک طرف اسے مشتعل کیا تھا تو دوسری طرف اس کے لیے بہت سے دوسرے پرابلمز بھی پیدا کر دئیے تھے۔اس کے جو دوست اے لیول کے بعد امریکہ آ گئے تھے۔وہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھ رہے تھے۔وہ کسی ایک اسٹیٹ میں نہیں تھے۔ کچھ یہی حال اس کے رشتہ داروں اور کزنز کا تھا۔ خود اس کے اپنے بہن بھائی بھی ایک جگہ پر نہیں تھے۔وہ اپنی فیملی سے اتنا اٹیچ نہیں تھا کہ ان کی کمی محسوس کرتا یا ہوم سکنیس کا شکار ہوتا۔یہ صرف اس طرح اچانک وہاں بھجوائے جانے کا نتیجہ تھا کہ وہ اس طرح اضطراب کا شکار ہو رہا تھا۔
کامران سارا دن یونیورسٹی میں ہوتا اور اگر وہ گھر آتا بھی تو اپنی اسٹڈیز میں مصروف ہو جاتا۔اس کے ایگزامز قریب تھے جبکہ سالار سارا دن یا تو اپارٹمنٹ میں بیٹھا فلمیں دیکھتا رہتا یا پھر چینلز گھمانے میں مصروف رہتا اور جب وہ ان دونوں کاموں سے بیزار ہو جاتا تو آوارہ گردی کے لیے نکل جاتا۔اس نے وہاں اپنے قیام کے دوران نیو یارک میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا جہاں کامران رہ رہا تھا۔وہاں کا کوئی نائٹ کلب ، ڈسکو ، پب ، بار ، تھیٹر ، سینما یا میوزیم اور آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔
اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ جن تین levy league کی یونیورسٹیز میں اس نے اپلائی کیا تھا ان تینوں میں رزلٹ آنے سے پہلے ہی اس کی ایڈمیشن کی درخواستیں قبول کی جا چکی تھیں۔وہ تینوں یونیورسٹیز ایسی تھیں جن میں اس کے دور یا قریب کا کوئی رشتے دار نہیں تھا اور یہ اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اسے کسی ایسی یونیورسٹی میں ایڈمٹ کروائیں جہاں اس کے بہن بھائیوں میں سے نہیں تو کم از کم اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی ضرور موجود ہو تاکہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہیں۔سالار کی جگہ ان کا کوئی دوسرا بیٹا levy league کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تو سکندر عثمان فخر میں مبتلا ہوتے اور اس چیز کو اپنے اور اپنی پوری فیملی کے لئے اعزاز سمجھتے مگر یہاں وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ سالار پر نظر کیسے رکھ سکیں گے۔سالار نے ان یونیورسٹیز میں سے Yale کو چُنا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف Yale میں ان کا کوئی شناسا اور واقف کار نہیں تھا ، بلکہ New Haven میں بھی سکندر عثمان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نہیں تھا۔
رزلٹ آنے کے بعد اسے یونیورسٹی سے میرٹ اسکالر شپ بھی مل گیا تھا۔اپنے باقی بھائیوں کے برعکس اس نے ضد کر کے ہوسٹل میں رہنے کے بجائے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا۔سکندر عثمان اسے اپارٹمنٹ میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے ، مگر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے پاس اتنی رقم آ گئی تھی کہ وہ خود ہی کوئی اپارٹمنٹ لے لیتا کیونکہ یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے سکندر اس کے کاؤنٹ میں پہلے ہی ایک لمبی چوڑی رقم جمع کروا چکے تھے حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اسکالر شپ لے رہا تھا مگر سالار سکندر کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان سے ہر وہ “کام” اور “مطالبہ” کرنے کے لئے بنایا تھا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔وہ زمین پر خاص طور پر انہیں تنگ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جس چیز کو ان کے دوسرے بچے مشرق کہتے وہ اسے مغرب کہتا۔جسے دوسرے زمین قرار دیتے وہ اس کے آسمان ہونے پر دلائل دینا شروع کر دیتا۔وہ اس کی باتوں ، حرکتوں اور ضد پر زیادہ سے زیادہ اپنا بلڈ پریشر اور کولیسٹرول لیول ہائی کر سکتے تھے اور کچھ نہیں۔
New Haven جانے سے پہلے سکندر اور طیبہ اس کے لیے خاص طور پر پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔وہ کئی دن تک اسے سمجھاتے رہے تھے ، جنہیں وہ اطمینان سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتا رہا تھا۔وہ کئی سالوں سے نصیحتیں سننے کا عادی تھا اور عملی طور پر وہ نصیحتیں اب اس پر قطعاً کوئی اثر نہیں کرتی تھیں۔دوسری طرف سکندر اور طیبہ واپس پاکستان جاتے ہوئے بےحد فکرمند بلکہ کسی حد تک خوفزدہ بھی تھے۔
وہ Yale سے فنانس میں ایم بی اے کرنے آیا تھا اور اس نے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔
پاکستان میں جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا تھا اگرچہ وہ بھی بہت اچھے تھے مگر وہاں تعلیم اس کے لیے کیک واک تھی۔Yale میں مقابلہ بہت مشکل تھا وہاں بےحد قابل لوگ اور ذہین اسٹوڈنٹ موجود تھے۔اس کے باوجود وہ بہت جلد نظروں میں آنے لگا تھا۔
اس میں اگر ایک طرف اس کی غیر عمولی ذہنی صلاحیتوں کا دخل تھا تو دوسری طرف اس کے رویے کا بھی۔ایشین اسٹوڈنٹس والی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی اس میں مفقود تھی۔اس میں لحاظ و مروت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ احساسِ کمتری اور مرعوبیت تھی جو ایشین اسٹوڈنٹس امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز میں فطری طور پر لے کر آتے ہیں۔اس نے بچپن ہی سے بہترین اداروں میں پڑھا تھا۔ایسے ادارے جہاں پڑھانے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بھی کوئی علم کے بہتے ہوئے سر چشمے نہیں ہوتے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ Yale نے اسکالر شپ دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا وہ اگر باقی دونوں یونیورسٹیز میں سے کسی کا انتخاب کرتا تو اسکالر شپ اسے وہاں سے بھی مل جاتا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ جہاں چاہتا ایڈمیشن لے سکتا تھا۔اگر اپنے فیملی بیک گراؤنڈ اسٹیٹس اور قابلیت کا زعم نہ ہوتا تب بھی سالار سکندر اس قدر تلخ اور الگ تھلگ نیچر رکھتا تھا کہ وہ کسی کو اپنی خوش اخلاقی کے جھوٹے مظاہرہ سے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔رہی سہی کسر اس کے آئی کیو لیول نے پوری کر دی تھی۔
شروع کے چند ہفتوں میں ہی اس نے اپنے پروفیسرز اور کلاس فیلوز کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی تھی اور یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔وہ بچپن سے تعلیمی اداروں میں اسی قسم کی توجہ حاصل کیا کرتا تھا۔وہ ایسا اسٹوڈٹ نہیں تھا ، جو فضول باتوں پر بحث برائے بحث کرتا۔اس کے سوال ہی اس طرح کے ہوتے تھے کہ اس کے اکثر پروفیسرز کو فوری طور پر ان کا جواب دینے میں دشواری ہوتی۔جواب غیر تسلی بخش بھی ہوتا ، تب بھی وہ جتاتا نہیں تھا صرف خاموش ہو جاتا تھا ، مگر وہ یہ تاثر بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ مطمئن ہو گیا تھا یا اس جواب کو تسلی کر رہا تھا۔وہ بحث صرف ان پروفیسرز سے کرتا تھا ، جن کے بارے میں اسے یہ یقین ہوتا کہ وہ ان سے واقعی کچھ نہ کچھ سیکھے گا یا جب کے پاس روایتی یا کتابی علم نہیں تھا۔
پڑھائی وہاں بھی اس کے لیے بہت مشکل نہیں تھی ، نہ ہی اس کا سارا وقت پڑھائی میں گزرتا تھا۔پہلے کی نسبت اسے کچھ زیادہ وقت دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے لئے اور اپنی سرگرمیوں کے لئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔
وہ وہاں کسی ہوم سکنیس کا شکار نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے پاکستان کو یاد کرتا رہتا یا پاکستان کے ساتھ اس طرح کے عشق میں مبتلا ہوتا کہ ہر وقت اس کے کلچر کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتا نہ ہی امریکہ اس کے لیے کوئی نئی اور اجنبی جگہ تھی اس لیے اس نے وہاں موجود پاکستانیوں کو تلاش کرنے اور ان کے ساتھ روابط بڑھانے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود وہاں موجود کچھ پاکستانیوں سے اس کی شناسائی ہو گئی۔
یونیورسٹی کی دوسری بہت سی سوسائٹیز ، ایسوسی ایشنز اور کلبز میں اس کی دلچسپی تھی اور اس پاس ان کی ممبر شپ بھی تھی۔
پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت بے کار پھرنے میں ضائع کرتا تھا۔خاص طور پر ویک اینڈز۔۔۔۔۔سینما ، کلبز ، ڈسکوز ، تھیٹرز ۔۔۔۔۔اس کی زندگی ان ہی چاروں کے درمیان تقسیم شدہ تھی۔ہر نئی فلم ، ہر نیا اسٹیج پلے ، ہر نیا کنسرٹ ، اور کوئی بھی نئی انسسٹر و مینٹل پرفارمنس وہ نہیں چھوڑتا تھا یا پھر ہر نیا چھوٹا ، بڑا ریسٹورنٹ ، مہنگے سے مہنگا اور سستے سے سستا ۔۔۔۔۔اسے ہر ایک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔
اور سب کے درمیان وہ ایڈونچر اس کے ذہن میں اب تک تھا جس کی وجہ سے وہ امریکہ میں موجود تھا۔سکندر کو اس کے نکاح کا پتا کب چلا تھا ، کیسے چلا تھا ، سالار نے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ سکندر عثمان کو اس کے بارے میں کیسے پتا چلا ہو گا۔یہ حسن یا ناصرہ نہیں تھے جنہوں نے سکندر عثمان کو سالار اور امامہ کے بارے میں بتایا ہو گا۔وہ ان کی طرف سے مطمئن تھا یہ خود امامہ ہی ہو گی ، جس نے اس سے فون پر بات کرنے کے بعد یہ سوچا ہو گا کہ اس کے بجائے سکندر عثمان سے ساری بات کی جائے اور اس نے یقیناً ایسا ہی کیا ہو گا ، اسی لیے اس نے دوبارہ سالار سے رابطہ نہیں کیا۔سکندر نے اس سے رابطہ کرنے کے بعد ہی اس کے کمرے کی تلاشی لے کر وہ نکاح نامہ برآمد کر لیا تھا۔
مگر یہ سب کب ہوا تھا۔۔۔۔۔؟یہ وہ سوال تھا ، جس کا جواب وہ نہیں ڈھونڈ پا رہا تھا۔
جو بھی تھا امامہ کے لیے اس کی نا پسندیدگی میں پاکستان سے امریکہ آتے ہوئے کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔یکے بعد دیگرے وہ اس کے ہاتھوں زک اٹھانے پر مجبور ہوا تھا اور اب وہ پچھتاتا تھا کہ اس نے اس تمام معاملے میں امامہ کی مدد کیسے کی۔بعض دفعہ اسے حیرانی ہوتی تھی کہ آخر وہ امامہ جیسی لڑکی مدد کرنے پر تیار کیسے ہو گیا تھا اور اس حد تک مدد کہ۔۔۔۔۔
وہ اب ان تمام واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتا تھا۔آخر میں نے اس کی مدد کیوں کی جبکہ مجھے جو کرنا چاہئیے تھا کہ اس کے رابطہ کرنے پر میں وسیم کو ، اس کے والدین کو یا خود اپنے والدین کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتا دیتا یا پھر جلال کے بارے میں انہیں بتا دیتا یا پھر اس کے کہنے پر اس کے ساتھ سرے سے نکاح کرتا ہی نہ یا اسے گھر سے فرار ہونے میں تو کبھی اس طرح مدد نہ کرتا۔
بعض دفعہ اسے لگتا کہ جیسے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں استعمال ہوا تھا۔اتنی فرنبرداری ، اتنی تابع داری آخر کیوں۔۔۔۔۔؟جبکہ وہ اس کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں رکھتی تھی اور وہ کسی طرح سے بھی اس کی مدد کرنے پر مجبور نہیں تھا۔
اب اسے وہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے زیادہ حماقت لگتا۔وہ کسی سائیکالوجسٹ کی طرح امامہ کے بارے میں اپنے رویے کا تجزیہ کرتا اور مطمئن ہو جاتا۔
“جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ مکمل طور پر میرے ذہن سے نکل جائے گی نہ بھی نکلی تب بھی مجھے کیا فرق پڑے گا۔”وہ سوچتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا اور اسی حلقہ احباب میں ایک نام سعد کا تھا۔اس کا تعلق کراچی سے تھا۔سالار کی طرح وہ بھی امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا مگر سالار کے برعکس اس کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔یہ سالار کا اندازہ تھا۔سعد کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت ہینڈسم بھی تھا۔نیوہیون میں ایک امریکی دوست کے توسط سے اس کی ملاقات سعد سے ہوئی تھی اور اس کی طرف دوستی میں پہل کرنے والا سعد ہی تھا۔سالار نے اس دوستی کو قبول کرنے میں قدرے تامل کیا کیونکہ اسے یوں لگتا تھا جیسے سعد اور اس کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔سعد وہاں سے ایم فل کر رہا تھا۔سالار کے برعکس وہ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔اس کا حلیہ اس کی مذہب سے جذباتی وابستگی بتانے کے لیے کافی تھا۔اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مذہب کے بارے میں اس کا علم بہت زیادہ تھا۔سالار نے زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص سے دوستی کی تھی جو مذہبی تھا۔
سعد پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کے لیے کہتا رہتا۔وہ مختلف آرگنائزیشنز اور کلبز میں بھی بہت ایکٹو تھا۔سالار کے برعکس امریکہ میں اس کا کوئی قریبی رشتے دار نہیں تھا ، صرف ایک دور کے چچا تھے جو کسی دوسری اسٹیٹ میں رہتے تھے۔شاید اسی لیے اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ بہت زیادہ سوشل تھا۔سالار کے برعکس وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور شاید یہ لاڈ اور پیار ہی تھا جس نے اس کے والدین کو اسے اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج دیا تھا ورنہ اس کے باقی دونوں بھائی سعد کے والد کے ساتھ گریجویشن کے بعد بزنس میں شریک ہو گئے تھے۔
وہ بھی ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر رہتا تھا مگر اس کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں چار اور لوگ بھی رہتے تھے۔ان چار میں سے دو عرب اور ایک بنگلہ دیشی کے علاوہ ایک اور پاکستانی تھا۔وہ تمام اسٹوڈنٹس تھے۔
سعد پہلی ہی ملاقات میں سالار سے بہت بےتکلف ہو گیا تھا۔سالار کے امریکی دوست جیف نے جب سعد کو سالار کی اکیڈیمک کامیابیوں کے بارے میں بتایا تو ہر ایک کی طرح سعد بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔
سالار کو سعد کا چہرہ دیکھ کر اور خاص طور پر اس کی داڑھی دیکھ کر ہمیشہ جلال کا خیال آتا۔داڑھی کی وجہ سے دونوں میں عجیب سی مماثلت اور مشابہت نظر آتی۔کئی بار دوسرے دوستوں کے علاوہ سعد بھی ویک اینڈ پر اس کے ساتھ ہوتا۔
“تم مسلمان ہو لیکن مذہب کی سرے سے پابندی نہیں کرتے۔”سعد نے ایک دفعہ سالار سے کہا تھا۔
“اور تم ضرورت سے زیادہ مذہبی ہو۔”سالار نے جواباً کہا۔
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ کہ جس طرح تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہتے ہو اور ہر وقت اسلام کی بات کرتے رہتے ہو یہ کچھ اوور ایکٹنگ ٹائپ چیز ہو جاتی ہے۔”سالار نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا۔”تم تھکتے نہیں ہو ہر وقت نمازیں پڑھ کر۔”
“یہ فرض ہے۔اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اسے ہر وقت یاد رکھیں۔”سعد نے زور دیتے ہوئے کہا۔سالار نے ایک جماہی لی۔
“تم بھی عبادت کیا کرو ، آخر تم بھی مسلمان ہو۔”سعد نے اس سے کہا
“میں جانتا ہوں اور عبادت نہ کرنے سے کیا میں مسلمان نہیں رہوں گا۔”اس نے کچھ تیکھے لہجے میں سعد سے کہا۔
“صرف نام کا مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تم؟”
“سعد ! پلیز اس قسم کے فضول ٹاپک پر بات مت کرو۔میں جانتا ہوں تمہیں مذہب میں دلچسپی ہے مگر مجھے نہیں ہے۔بہتر ہے ہم ایک دوسرے کی رائے اور جذبات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر کچھ ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔جیسے میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم نماز چھوڑ دو ، اس طرح تم بھی مجھ سے یہ نہ کہو کہ میں نماز پڑھوں۔”سالار نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تو سعد خاموش ہو گیا۔
مگر کچھ دنوں بعد وہ اس کے اپارٹمنٹ پر آیا۔سالار اس کی تواضع کے لیے کچھ لانے کے لیے کچن میں گیا تو سعد بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا۔اس نے باتوں کے دوران فریج کھول لیا اور اس میں موجود کھانے کی چیزوں پر نظر دوڑانے لگا۔سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
“اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔”سالار نے جلدی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
“اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔”سالار نے جلدی سے کہا۔
“کیوں؟”سعد نے مائیکروویو کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
“اس میں پورک (سؤر کا گوشت) ہے۔”سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“مذاق مت کرو۔”سعد ٹھٹک گیا۔
“اس میں مذاق والی کون سی بات ہے۔”سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔سعد نے جیسے پھینکنے والے انداز میں پلیٹ شیلف پر رکھ دی۔
“تم پورک کھاتے ہو؟”
“میں پورک نہیں کھاتا۔میں صرف یہ برگر کھاتا ہوں کیونکہ یہ مجھے پسند ہے۔”سالار نے برنر جلاتے ہوئے کہا۔
“تم جانتے ہو ، یہ حرام ہے؟”
“اسلام میں؟”
“ہاں ! ”
“اور پھر بھی ؟”
“اب تم پھر وہی تبلیغی وعظ شروع مت کرنا ، میں صرف پورک ہی نہیں کھاتا ، ہر قسم کا گوشت کھا لیتا ہوں۔”سالار نے لاپرواہی سے کہا۔وہ اب فریج کی طرف جا رہا تھا۔
“مجھے یقین نہیں آ رہا۔”
“خیر اس میں ایسی بےیقینی والی کیا بات ہے۔یہ کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے۔”وہ اب فریج میں پڑے دودھ کے پیکٹ کو نکال رہا تھا۔
“ہر چیز کھانے کے لیے نہیں ہوتی۔”سعد کچھ تلملایا۔”ٹھیک ہے تم زیادہ مذہبی نہ سہی مگر مسلمان تو ہو اور اتنا تو تم جانتے ہی ہو گے کہ پورک اسلام میں حرام ہے ، کم از کم ایک مسلمان کے لیے۔”سالار خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔
“میرے لئے کچھ مت بنانا ، میں نہیں کھاؤں گا۔”سعد یک دم کچن سے نکل گیا۔
“کیوں؟”سالار نے مڑ کر اسے دیکھا۔سعد واش بیسن کے سامنے کھڑا صابن سے ہاتھ دھو رہا تھا۔
“کیا ہوا؟”سالار نے اس سے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سعد نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ دھوتا رہا۔سالار چھبتی ہوئی نظروں سے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ہاتھ دھونے کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
“میں تو اس فریج میں رکھی کوئی چیز نہیں کھا سکتا ، بلکہ تمہارے برتنوں میں بھی نہیں کھا سکتا۔اگر تم یہ برگر کھا لیتے ہو تو اور بھی کیا کچھ نہیں کھا لیتے ہو گے۔چلو باہر چلتے ہیں ، وہیں جا کر کچھ کھاتے ہیں۔”
“یہ بہت انسلٹنگ ہے۔”سالار نے قدرے ناراضی سے کہا۔
“نہیں ، انسلٹ والی تو کوئی بات نہیں ہے۔بس میں یہ حرام گوشت نہیں کھانا چاہتا اور تم اس معاملے میں پرہیز کے عادی نہیں ہو۔”سعد نے کہا۔
“میں نے تمہیں یہ گوشت کھلانے کی کوشش نہیں کی۔تم نہیں کھاتے ، اس لیے میں نے وہ برگر پکڑتے ہی تمہیں منع کر دیا۔”سالار نے کہا۔”مگر تم کو تو شاید کوئی فوبیا ہو گیا ہے۔تم اس طرح ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے میں نے اپنے پورے فلیٹ میں اس جانور کو پالا ہوا ہے اور رات دن ان ہی کے ساتھ رہتا ہوں۔”سالار ناراض سا ہو گیا۔
“چلو باہر چلتے ہیں۔”سعد نے اس کی ناراضی کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
“باہر چل کر کچھ کھائیں گے تو میں بل پے نہیں کروں گا ، تم کرو گے۔”سالار نے کہا۔
“ٹھیک ہے ، میں کر دوں گا ، نو پرابلم۔تم چلو۔”سعد نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
“اور اگلی دفعہ تم میرے اپارٹمنٹ پر آتے ہوئے گھر سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آنا۔”سالار نے قدرے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
“اچھا لے آؤں گا۔”سعد نے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔اس کی طرح بہت سے لوگ وہاں پھر رہے تھے۔وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔بہت لاپرواہی سے ایک آئس کریم اسٹک کھاتے ہوئے وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے میں مصروف تھا جب اس کی توجہ تین سال کے ایک بچے نے اپنی طرف مبذول کر لی۔وہ بچہ ایک فٹ بال کے پیچھے دوڑ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سیاہ حجاب اوڑھے ایک لڑکی کھڑی تھی جو مسکراتے ہوئے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔وہ وہاں موجود بہت سے ایشین میں سے ایک تھی مگر حجاب میں ملبوس واحد لڑکی تھی۔وہ لاشعوری طور پر اسے دیکھے گیا۔وہ بچہ فٹ بال کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی بینچ کی طرف آ گیا تھا۔ایک اور ٹھوکر نے بال کو سیدھا سالار کی طرف بھیج دیا۔کسی غیر ارادی عمل کے تحت سالار نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنے دائیں پاؤں میں پہنے ہوئے جاگر کی مدد سے اس بال کو روکا اور پھر پاؤں ہٹایا نہیں بلکہ اسی طرح فٹ بال پر ہی رکھا مگر اس بار اس کی نظر اس لڑکی کی بجائے اس بچے پر تھی جو تیز رفتاری سے اس بال کے پیچھے اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے بالکل پاس آنے کی بجائے وہ کچھ دُور رک گیا۔شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ سالار بال کو اس کی طرف لڑھکا دے گا مگر سالار اسی طرح فٹ بال پر ایک پاؤں رکھے بائیں ہاتھ سے آئس کریم کھاتے ہوئے دور کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔شاید اسے توقع تھی کہ اب وہ قریب آئے گی۔ایسا ہی ہوا تھا۔کچھ دیر تک اسے فٹ بال نہ چھوڑتے دیکھ کر وہ لڑکی کچھ حیرانی سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
“یہ فٹ بال چھوڑ دیں۔”
اس نے قریب آ کر بڑی شائستگی سے کہا۔سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے فٹ بال سے اپنا پاؤں اٹھایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے فٹ بال کو ایک زور دار کک لگائی۔
فٹ بال اڑتے ہوئے بہت دور جا گری۔کک لگانے کے بعد اس نے اطمینان سے اس لڑکی کو دیکھا۔اس کا چہرا اب سُرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ بچہ ایک بار پھر اس فٹ بال کی طرف بھاگتا جا رہا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔اس لڑکی نے زیرِلب اس سے کچھ کہا اور پھر واپس مڑ گئی۔سالار اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو سن یا سمجھ نہیں سکا مگر اس کے سُرخ چہرے اور تاثرات سے وہ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا کہ وہ کوئی خوشگوار الفاظ نہیں تھے۔اسے اپنی حرکت پر شرمندگی بھی ہوئی مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی وہ لڑکی امامہ سے مشابہت رکھتی تھی۔
وہ لمبے سے سیاہ کوٹ میں سیاہ حجاب اوڑھے ہوئے تھی۔دراز قد اور بہت دُبلی پتلی تھی۔بالکل امامہ کی طرح۔اس کی سفید رنگت اور سیاہ آنکھیں بھی اسے امامہ جیسی ہی محسوس ہوئی تھیں۔امامہ بہت لمبی چوڑی چادر میں خود کو چھپائے رکھتی تھی۔وہ حجاب نہیں لیتی تھی مگر اس کے باوجود اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اسے اس کا خیال آیا تھا اور لاشعوری طور پر اس نے وہ نہیں کیا جو وہ لڑکی چاہتی تھی۔شاید اسے کسی حد تک یہ تسکین ہوئی تھی کہ اس نے امامہ کی بات نہیں مانی مگر۔۔۔۔۔وہ امامہ نہیں تھی۔
“آخر کیا ہو رہا ہے مجھے ، اس طرح تو۔۔۔۔۔”اس نے حیران ہوتے ہوئے سوچا۔وہ جیب میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنے بچے کو فٹ بال کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔سالار اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے علاوہ ہر شے سے بےنیاز نظر آ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس رات وہ کافی دیر تک امامہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔اس کے اور جلال انصر کے بارے میں اسے یقین تھا اب تک وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے ، کیونکہ اپنا نکاح نامہ سکندر سے حاصل کرنے کے بعد وہ یہ جان چکی ہو گی کہ طلاق کا حق پہلے ہی اس کے پاس تھا۔اسے اس سلسلے میں سالار کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔یہ جاننے کے باوجود کہ جلال انصر اس کے کہنے پر بھی امامہ سے شادی پر تیار نہیں ہوا تھا اسے پھر بھی نہ جانے کیوں یہ یقین تھا کہ جلال انصر ایک بار امامہ کے پاس پہنچ جانے پر اسے انکار نہیں کر سکا ہو گا۔اس کی منت سماجت پر وہ مان گیا ہو گا۔
امامہ اس کے مقابلے میں بہت خوبصورت تھی اور امامہ کا خاندان ملک کے طاقت ور ترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔کوئی احمق ہی ہو گا جو جلال انصر جیسی حیثیت رکھتے ہوئے امامہ کو سونے کی چڑیا نہ سمجھتا ہو یا پھر ہو سکتا ہے وہ واقعی امامہ کی محبت میں مبتلا ہو جو بھی تھا اسے یقین تھا کہ وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے اور پتا نہیں کس طرح ہاشم مبین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چھپنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہاشم مبین نے اب تک انہیں ڈھونڈ نکالا ہو۔
“مجھے پتا تو کرنا چاہئیے اس بارے میں۔”اس نے سوچا اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو جھڑکا۔”فارگاڈ سیک سالار ! دفع کرو اسے ، جانے دو ، کیوں خوامخواہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔یہ جان کر آخر کیا مل جائے گا کہ ہاشم مبین اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔”اس نے بےاختیار خود کو جھڑکا مگر اس کا تجسس ختم نہیں ہوا۔
“واقعی میں نے یہاں آنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ہاشم مبین اب تک اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔”اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میرا نام وینس ایڈورڈ ہے۔”
وہ لڑکی اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی تھی۔وہ اس وقت لائبریری کی بک شیلف سے ایک کتاب نکال رہا تھا ، جب وہ اس کے قریب آئی تھی۔
“سالار سکندر ! “اس نے وینس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
“میں جانتی ہوں ، تمہیں تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔”
وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔سالار نے اسے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔وہ اپنی کلاس کے پچاس کے پچاس لوگوں کو ان کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ وہ بریف بائیوڈیٹا بھی بغیر اٹکے کسی غلطی کے بتا سکتا تھا۔جیسے وہ اس وقت وینس کو یہ بتا کر حیران کر سکتا تھا کہ وہ نیو جرسی سے آئی تھی۔وہاں وہ سال ایک ہیوریج کمپنی میں کام کرتی رہی تھی۔اس کے پاس مارکیٹنگ میں ایک ڈگری تھی اور وہ اب دوسری ڈگری کے لیے وہاں آئی تھی اور وہ اس سے کم از کم چھ سات سال بڑی تھی۔اگرچہ اپنے قدوقامت سے سالار اس سے بہت بڑا لگتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اپنے بیچ میں سب سے کم عمر تھا۔اپنے بیچ میں صرف وہی تھا جو کسی قسم کی جاب کیے بغیر سیدھا ایم بی اے کے لیے آیا تھا۔باقی سب کے پاس کہیں نہ کہیں کچھ سال کام کرنے کا تجربہ تھا مگر اس وقت وینس کو یہ سب کچھ بتانا اسے خوش فہمی کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔
“اگر میں آپ کو کافی کی دعوت دوں تو؟”وینس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا۔
“تو میں اسے قبول کر لوں گا۔”
وہ اس کی بات پر ہنسی۔”تو پھر چلتے ہیں ، کافی پیتے ہیں۔”سالار نے کندھے اُچکائے اور کتاب کو دوبارہ شیلف میں رکھ دیا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر وہ دونوں تقریباً آدھہ گھنٹہ تک ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔یہ وینس کے ساتھ اس کی شناسائی کا آغاز تھا۔سالار کے لیے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ یہ کام بہت آسانی سے کر لیا کرتا تھا۔اس بار مزید آسانی یہ تھی کہ پہل وینس کی طرف سے ہوئی تھی۔
تین چار ملاقاتوں کے بعد اس نے ایک رات وینس کو اپنے فلیٹ پر رات گزارنے کے لیے انوائٹ کر لیا تھا اور وینس نے کسی تامل کے بغیر اس کی دعوت قبول کر لی۔وہ دونوں یونیورسٹی کے بعد اکٹھے بہت ہی جگہوں پر پھرتے رہے۔سالار کے فلیٹ پر ان کی واپسی لیٹ نائٹ ہوئی تھی۔
وہ کچن میں اپنے اور اس کے لیے گلاس تیار کرنے لگا جبکہ وینس نے بےتکلفی سے اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے اس کے اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہی تھی پھر وہ اس کے قریب آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑی ہو گئی۔”بہت اچھا اپارٹمنٹ ہے تمہارا۔میں سوچ رہی تھی کہ تم اکیلے رہتے ہو تو اپارٹمنٹ کا حلیہ خاصا خراب ہو گا مگر تم نے تو ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔تم ایسے ہی رہتے ہو یا یہ اہتمام خاص میرے لیے کیا گیا ہے۔”
سالار نے ایک گلاس اس کے آگے رکھ دیا۔”میں ایسے ہی رہتا ہوں ، قرینے اور طریقے سے۔”اس نے گھونٹ بھرا اور گلاس دوبارہ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ وینس کے قریب چلا آیا اس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔وینس مسکرا دی۔سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کیا اور پھر یک دم ساکت ہو گیا۔اس کی نظریں وینس کی گردن کی زنجیر میں جھولتے اس موتی پر پڑی تھیں ، جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔سردی کے موسم کی وجہ سے وینس بھاری بھرکم سویٹرز اور جیکٹس پہنا کرتی تھی۔اس نے ایک دو بار اس کے کھلے کالر سے نظر آنے والی اس زنجیر کو دیکھا تھا مگر اس زنجیر میں لٹکا ہوا وہ موتی آج پہلی بار اس کی نظروں میں آیا تھا کیونکہ آج پہلی بار وینس ایک گہرے گلے کی شرٹ میں ملبوس تھی۔وہ اس شرٹ کے اوپر ایک سویٹر پہنے ہوئے تھی جسے اس نے سالار کے اپارٹمنٹ میں آ کر اُتار دیا تھا۔
اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ایک جھماکے کے ساتھ وہ موتی اسے کہیں اور۔۔۔۔۔کہیں بہت پیچھے ۔۔۔۔۔کسی اور کے پاس لے گیا تھا۔۔۔۔۔مسح کرتے ہاتھ اور انگلیاں ۔۔۔۔۔ہاتھ اور کلائی۔۔۔۔۔کلائی سے کہنی تک کا سفر کرتی انگلیاں۔۔۔۔۔آنکھوں سے پیشانی۔۔۔۔۔پیشانی سے سفید چادر کے نیچے سیاہ بالوں پر پھسلتے ہوئے ہاتھ۔۔۔۔۔
امامہ کی گردن کے گرد موجود زنجیر تنگ تھی۔اس میں لٹکنے والا موتی اس کی ہنسلی کی ہڈی کے بالکل ساتھ جھولتا تھا۔زنجیر تھوڑی سی بھی لمبی ہوتی تو وہ اسے دیکھ نہ پاتا۔اس رات وہ بہت تنگ گلے کی شرٹ اور سویٹر میں ملبوس تھی۔اس موتی کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے مفلوج ہو گیا۔
وہ اسے کس وقت یاد آئی تھی۔اس نے موتی سے نظریں چُرانے کی کوشش کی۔وہ اپنی رات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے وینس کو دیکھ کر دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی۔وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
“مجھے تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت لگتی ہیں۔”
“مجھے تمہاری آنکھوں سے گھن آتی ہے۔”
کسی آواز نے اسے ایک چابک مارا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی۔وینس کے وجود سے اپنے بازو ہٹاتے ہوئے وہ چند قدم پیچھے مڑا اور کاؤنٹر پر پڑا ہوا گلاس اٹھا لیا۔وینس ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
“کیا ہوا؟”وہ چند قدم آگے بڑھ آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ تشویش سے پوچھا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر ایک ہی سانس میں خالی کیا۔وینس اس کے جواب نہ دینے پر اب کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
وینس میں اس کی دلچسپی ختم ہونے میں صرف چند منٹ لگے تھے۔وہ نہیں جانتا اسے کیوں اس کے وجود سے اُلجھن ہونے لگی تھی۔وہ پچھلے دو گھنٹے ایک نائٹ کلب میں اس کے ساتھ ڈانس کرتا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ بےحد خوش تھا اور اب چند منٹوں میں۔۔۔۔۔۔”
سالار نے اپنے کندھے جھٹکے اور سنک کی طرف چلا گیا۔وہ اپنا گلاس دھونے لگا۔وینس دوسرا گلاس لے کر اس کے پاس چلی آئی۔سالار نے اس سے گلاس لے لیا۔وہ اپنے سینے پر دونوں بازو لپیٹے اس کے بالکل پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔سالار کو اس کی نظروں سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
“میں ۔۔۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔”
گلاس کو شیلف پر رکھتے ہوئے اس نے وینس سے کہا۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ بالواسطہ طور پر اسے وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہا تھا۔وینس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔سالار کا رویہ بےحد توہین آمیز تھا۔وہ چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر تیزی کے ساتھ اپنا سویٹر اور بیگ اٹھا کر اپارٹمنٹ کا دروازہ دھماکے سے بند کر کے باہر نکل گئی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
وینس اور امامہ میں کہیں کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں تھی۔دونوں کی گردنوں میں موجود موتی بھی بالکل ایک جیسا نہیں تھا اس کے باوجود اس وقت اس کی گردن میں جھولتے اس موتی کو دیکھ کر بےاختیار وہ یاد آئی تھی۔کیوں۔۔۔۔۔؟اب پھر کیوں۔۔۔۔۔؟آخر اس وقت کیوں۔۔۔۔۔؟وہ بےحد مشتعل ہو رہا تھا۔اس کی وجہ سے اس کی رات خراب ہو گئی تھی ، اس نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ایک کرسٹل کا گلدان اُٹھایا اور پوری قوت سے اسے دیوار پر دے مارا۔
ویک اینڈ کے بعد وینس سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی ، لیکن وہ اس سے بڑے روکھے اور اکھڑے ہوئے انداز میں ملا۔یہ اس سے تعلقات شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا واحد راستہ تھا۔اسے ہر اس عورت سے جھنجلاہٹ ہوتی تھی جو اسے کسی بھی طرح سے امامہ کی یاد دلاتی اور وینس ان عورتوں میں شامل ہو گئی تھی۔وینس جو اس کی طرف سے کسی معذرت اور اگلی دعوت کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کے اس رویے سے بری طرح دلبرداشتہ ہوئی تھی۔Yale میں یہ اس کا پہلا افئیر تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے چند ماہ وہ پڑھائی میں بےحد مصروف رہا ، اتنا مصروف کہ امامہ کو یاد رکھنے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کو کل پر ٹالتا رہا شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا رہتا اگر اس شام اچانک اس کی ملاقات جلال انصر سے نہ ہو جاتی۔
وہ ویک اینڈ پر بوسٹن گیا ہوا تھا جہاں اس کے چچا رہتے تھے وہ وہاں اپنے ایک کزن کی شادی اٹینڈ کرنے آیا تھا۔
اس شام سالار اپنے کزن کے ہمراہ تھا جو ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔وہ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا۔اس کا کزن آرڈر دینے کے بعد کسی کام سے اٹھ کر گیا تھا۔سالار کھانے کا انتظار کر رہا تھا جب کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔
“ہیلو۔۔۔۔۔! ” سالار نے بےاختیار مڑ کر اسے دیکھا۔
“آپ سالار ہیں؟”اس آدمی نے پوچھا۔
وہ جلال انصر تھا۔اسے پہچاننے میں لحظہ بھر کے لیے دقت اس لیے ہوئی تھی کیونکہ اس کے چہرے سے اب داڑھی غائب تھی۔
سالار نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا۔ایک سال پہلے کا ایڈونچر ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جلال کو رسماً کھانے کی دعوت دی۔
“نہیں ، مجھے ذرا جلدی ہے۔بس آپ پر اتفاقاً نظر پڑ گئی تو آ گیا۔”جلال نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
“امامہ کیسی ہے؟”جلال نے بات کرتے کرتے اچانک کہا۔سالار کو لگا وہ اس کا سوال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔
“سوری۔۔۔۔۔”اس نے معذرت خواہانہ انداز میں استفسار کیا۔جلال نے اپنا سوال دُہرایا۔
“میں امامہ کا پوچھ رہا تھا۔وہ کیسی ہے؟”
سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔وہ امامہ کے بارے میں اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔
“مجھے نہیں پتا یہ تو آپ کو پتا ہونا چاہئیے۔”اس نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس بار جلال حیران ہوا۔”مجھے کس لئے؟”
“کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہے۔”
“میری بیوی؟”جلال کو جیسے کرنٹ لگا۔
“آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے وہ۔میں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ایک سال پہلے آپ ہی تو آئے تھے اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے۔”جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔”میں نے تو آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ خود اس سے شادی کر لیں۔”
سالار بےیقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
“میں تو یہ سوچ کر آپ کے پاس آیا تھا کہ شاید آپ نے اس سے شادی کر لی ہو گی۔”وہ اب وضاحت کر رہا تھا۔
“آپ نے اس سے شادی نہیں کی؟”سالار نے پوچھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔آپ سے تو ساری بات ہوئی تھی میں نے انکار کر دیا پھر اس سے میری شادی کیسے ہو سکتی تھی؟پھر میں نے سنا کہ وہ گھر سے چلی گئی۔میں نے سوچا آپ کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو گی۔اسی لیے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف آیا تھا۔”
“میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔میں تو پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہیں ہوں۔”سالار نے کہا۔
“اور مجھے یہاں آئے دو ماہ ہوئے ہیں۔”جلال نے بتایا۔
“مجھ سے ملاقات کے بعد کیا اس نے دوبارہ آپ سے رابطہ یا ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی؟”
سالار نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں پوچھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔”وہ مجھ سے نہیں ملی۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لاہور جا کر اس نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔”سالار کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
“مجھ سے رابطہ کرنے سے کیا ہوتا؟”
“آپ کے لیے وہ گھر سے نکلی تھی۔اسے آپ کےپاس جانا چاہئیے تھا۔”
“نہیں۔۔۔۔۔وہ میرے لیے گھر سے نہیں نکلی تھی۔آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔پھر آپ یہ مت کہیں کہ وہ میرے لیے گھر سے نکلی تھی۔”جلال کے لہجے میں اچانک کچھ تبدیلی آ گئی۔”ساری بات آپ ہی سے تو ہوئی تھی۔”
“کیا آپ واقعی سچ کہہ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس نہیں گئی؟”
“میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ ہوتی تو میں آپ کے پاس اس کے بارے میں پوچھنے کیوں آتا۔مجھے دیر ہو رہی ہے۔”جلال کے لہجے میں اب بےنیازی تھی۔
“آپ مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر دے سکتے ہیں؟”سالار نے کہا۔
“نہیں۔۔۔۔۔میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے دوبارہ رابطے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔”جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا اور واپس مڑ گیا۔
سالار کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس کی پشت پر نظریں جمائے رہا ، یہ باقابلِ یقین بات تھی کہ وہ جلال سے نہیں ملی۔کیوں۔۔۔۔۔؟کیا اس نے میری اس بات پر واقعی یقین کر لیا تھا کہ جلال نے شادی کر لی ہے؟سالار کو اپنا جھوٹ یاد آیا مگر یہ کیسے ممکن ہے وہ مزید اُلجھا۔۔۔۔۔۔میری بات پر اسے یقین کیسے آ سکتا ہے جبکہ وہ کہہ بھی رہی تھی کہ اسے میری بات پر یقین نہیں ہے۔
وہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور اگر جلال کے پاس نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔کیا کسی اور شخص کے پاس؟جس سے اس نے مجھے بےخبر رکھا ، مگر یہ ممکن نہیں ہے اگر کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے اس سے بھی رابطہ کرنے کے لیے کہتی۔اگر وہ فوری طور پر جلال کے پاس نہیں بھی گئی تھی تو سکندر سے نکاح نامہ لینے اور طلاق کے حق کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اسی کے پاس جانا چاہئیے تھا ، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے جلال کی اس فرضی شادی کے بارے میں اسے کیوں بتایا۔شاید وہ اسے پریشان کرنا چاہتا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی یا پھر شاید وہ بار بار اس کے اس مطالبے سے تنگ آ گیا تھا کہ وہ پھر جلال کے پاس جائے ، پھر جلال سے رابطہ کرے ، وہ ایسا کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا بہر حال اسے یقین تھا ! امامہ جلال کے پاس جائے گی۔
مگر سالار کو اب پتا چلا تھا کہ اس کی توقع یا اندازے کے برعکس وہ وہاں گئی ہی نہیں۔
ویٹر اب کھانا سرو کر رہا تھا ، اس کا کزن آ چکا تھا ، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے مگر سالار کھانا کھاتے اور باتیں کرتے ہوئے بھی مسلسل امامہ اور جلال کے بارے میں سوچتا رہا۔کئی ماہ بعد یک دم وہ اس کے ذہن میں پھر تازہ ہو گئی تھی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہو؟”کھانا کھاتے کھاتے اسے اچانک خیال آیا۔
“ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔۔۔”اس کا ذہن متواتر ایک ہی جگہ اٹکا ہوا تھا۔مجھے پاپا سے بات کرنی چاہئیے۔انہیں یقیناً اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا ہو گا۔”سکندر عثمان بھی ان دنوں شادی میں شرکت کی غرض سے وہیں تھے۔
واپس گھر آنے کے بعد رات کے قریب جب اس نے سکندر کو تنہا دیکھا تو اس نے ان سے امامہ کے بارے میں پوچھا۔
“پاپا ! کیا امامہ واپس اپنے گھر آ گئی ہے؟”اس نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا۔
اور اس کے سوال نے کچھ دیر کے لیے سکندر کو خاموش رکھا۔
“تم کیوں پوچھ رہے ہو؟”چند لمحوں کے بعد انہوں نے درشتی سے کہا۔
“بس ایسے ہی۔”
“اس کے بارے میں اتنا غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم اپنی اسٹڈیز پر اپنا دھیان رکھو تو بہتر ہے۔”
“پاپا ! پلیز آپ میرے سوال کا جواب دیں۔”
“کیوں جواب دوں۔۔۔۔۔تمہارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟”سکندر کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا۔
“پاپا ! اس کا ایک بوائے فرینڈ مجھے آج ملاہے یہاں ، وہی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔”
“تو پھر۔۔۔۔۔؟”
“تو پھر یہ کہ ان دونوں نے شادی نہیں کی۔وہ بتا رہا تھا کہ امامہ اس کے پاس گئی ہی نہیں۔جب کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لاہور جانے کے بعد وہ اسی کے پاس گئی ہو گی۔”
سکندر نے اس کی بات کاٹ دی۔”وہ اس کے پاس گئی یا نہیں۔ اس نے اس شادی کی یا نہیں۔یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔نہ ہی تمہیں اس میں انوالو ہونے کی ضرورت ہے۔”
“ہاں ، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کیا امامہ آپ کے پاس آئی تھی؟آپ نے اسے شادی کے پیپرز کیسے بھجوائے تھے۔میرا مطلب کس کے ذریعے۔”سالار نے کہا۔
“تم سے کس نے کہا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا؟”
وہ ان کے سوال پر حیران ہوا۔”میں نے خود اندازہ لگایا۔”
“اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا وہ رابطہ کرتی تو میں ہاشم مبین کو اس کے بارے میں بتا دیتا۔”
سالار ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔”میں نے تمہارے کمرے کی تلاشی لی تھی اور میرے ہاتھ وہ نکاح نامہ لگ گیا۔”
“مجھے یہاں بھجواتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ آپ وہ پیپرز امامہ تک بھجوا دیں گے۔”
“ہاں۔۔۔۔۔یہ اس صورت میں ہوتا اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتی مگر اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ اس نے مجھ سے ضرور رابطہ کیا ہو گا۔”اس بار سکندر نے سوال کر ڈالا۔
سالار کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا۔
“پولیس کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا؟”
“نہیں ، پولیس کو پتا چلتا تو اب تک وہ ہاشم مبین کے گھر واپس آ چکی ہوتی مگر پولیس ابھی بھی اس کی تلاش میں ہے۔”سکندر نے کہا۔
“ایک بات تو طے ہے سالار کہ اب تم دوبارہ امامہ کے بارے میں کوئی تماشا نہیں کرو گے۔وہ جہاں ہے جس حال میں ہے تمہیں اپنا دماغ تھکانے کی ضرورت نہیں ، تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پولیس جیسے ہی اسے ڈھونڈے گی میں وہ پیپرز ہاشم مبین تک پہنچا دوں گا ، تاکہ تمہاری جان ہمیشہ کے لیے اس سے چھوٹ جائے۔”
“پاپا ! کیا اس نے واقعی کبھی گھر فون نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کے لیے۔”سالار نے ان کی بات پر غور کیے بغیر کہا۔
“کیا وہ تمہیں فون کیا کرتی تھی؟”
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔”گھر سے چلے جانے کے بعد اس نے صرف ایک بار فون کیا تھا پھر میں یہاں آ گیا۔ہو سکتا ہے اس نے دوبارہ فون کیا ہو جس کے بارے میں آپ مجھے نہیں بتا رہے۔”
“اس نے تمہیں فون نہیں کیا۔اگر کرتی تو میں تمہاری اور اس کی شادی کے بارے میں بہت سے معاملات کو ختم کر دیتا۔میں تمہاری طرف سے اسے طلاق دے دیتا۔”
“یہ سب آپ کیسے کر سکتے ہیں۔”
سالار نے بہت پُر سکون انداز میں کہا۔
“یہاں تمہیں بھجوانے سے پہلے میں نے ایک پیپر پر تمہارے signatures لیے تھے ، میں طلاق نامہ تیار کروا چکا ہوں۔”سکندر نے جتاتے ہوئے کہا۔
“fake document (جعلی ڈاکومنٹ)۔”سالار نے اسی انداز میں تبصرہ کیا۔”میں تو نہیں جانتا تھا کہ آپ طلاق نامہ تیار کروانے کے لیے مجھ سے سائن کروا رہے ہیں۔”
“تم پھر اس مصیبت کو میرے سر پر لانا چاہتے ہو؟”سکندر کو ایک دم غصہ آ گیا۔
“میں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔میں آپ کو صرف یہ بتا رہاں ہوں کہ آپ میری طرف سے یہ رشتہ ختم نہیں کر سکتے۔یہ میرا معاملہ ہے میں خود ہی اسے ختم کروں گا۔”
“تم صرف یہ شکر کرو کہ تم اس وقت یہاں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہو ، ورنہ تم نے جس خاندان کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا وہ خاندان قبر تک بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑتا اور یہ بھی ممکن ہے وہ یہاں بھی تمہاری نگرانی کروا رہے ہوں۔یا انتظار کر رہے ہوں کہ تم مطمئن ہو کر دوبارہ امامہ کے ساتھ رابطہ کرو اور وہ تم دونوں کے لیے ایک کنواں تیار کر لیں۔”
“آپ خوامخواہ مجھے خوفزدہ کر رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں کہ یہاں امریکہ میں کوئی میری نگرانی کر رہا ہو گا اور وہ بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اور دوسری بات یہ کہ میں امامہ کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کر رہا کیونکہ میں واقعی نہیں جانتا وہ کہاں ہے ، پھر رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
“تو پھر تمہیں اس کے بارے میں اس قدر کانشس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔وہ جہاں ہے جیسی ہے ، رہنے دو اسے۔”سکندر کو کچھ اطمینان ہوا۔
“آپ میرے موبائل کے بل چیک کریں۔وہ موبائل اس کے پاس ہے۔ہو سکتا ہے پہلے نہیں تو اب وہ اس سے کالز کر لیتی ہو۔”
“وہ اس سے کالز نہیں کرتی۔موبائل مستقل طور پر بند ہے۔جو چند کالز اس نے کی تھیں وہ سب میڈیکل کالج میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کو ہی کی تھیں اور پولیس پہلے ہی انہیں انویسٹی گیٹ کر چکی ہے۔لاہور میں وہ ایک لڑکی کے گھر گئی تھی مگر وہ لڑکی پشاور میں تھی اور اس کے واپس نے سے پہلے ہی وہ اس کے گھر سے چلی گئی ، کہاں گئی ، یہ پولیس کو پتا نہیں چل سکا۔”
سالار چھبتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔”آپ کو حسن نے میرے اور اس کے بارے میں بتایا تھا؟”
سکندر کچھ بول نہیں سکے۔موبائل کے امامہ کے پاس ہونے کے بارے میں صرف حسن ہی جانتا تھا۔کم از کم یہ ایسی بات تھی جو سکندر عثمان صرف اس کے کمرے کی تلاشی لے کر نہیں جان سکتے تھے۔اسے ان سے بات کرتے ہوئے پہلی بار اچانک حسن پر شبہ ہوا تھا کیونکہ سکندر عثمان کو اتنی چھوٹی موٹی باتوں کا پتا تھا جو صرف اسے پتا تھیں یا پھر حسن کو۔۔۔۔۔کوئی تیسرا ان سے واقف نہیں تھا۔اس نے سکندر عثمان کو کچھ نہیں بتایا تھا تو یقینی طور پر یہ حسن ہی ہو سکتا تھا جس نے انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے حسن نے بتایا ہے یا کسی اور نے۔۔۔۔۔یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس بات کے بارے میں مجھے پتا نہ چلتا۔یہ صرف میری حماقت تھی کہ میں نے ہاشم مبین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور تمہارے جھوٹ پر یقین کر لیا۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا ، وہ صرف ماتھے پر تیوریاں لئے انہیں دیکھتا اور ان کی بات سنتا رہا۔”اب جب میں نے تمہیں اس سارے معاملے سے بچا لیا ہے تو تمہیں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئیے جس سے۔۔۔۔۔”
سکندر عثمان نے قدرے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا مگر اس سے پہلے کہ ان کی بات مکمل ہوتی سالار ایک جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...