وقت یوں گزر رہا تھا جیسے سائیکل کا پیا وقت تو گزرتا ہی ایسے ہے ہم ہی بات بات پر کہہ دیتے ہیں بہت وقت ہے لیکین وقت تو ہے ہی نھی۔۔۔
لاریب نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو ابھی کُچھ ظاہر نھی تھا۔۔۔وہ اُسی طرح سے تھی۔۔خوبصورت۔۔۔گالوں میں ڈمپل پڑتے تو لگتا جیسے اُن میں ہی ساری شرم و حیا سمٹ گئ ہے۔۔۔
آنکھیں جھُکتی تو ساری معصومیت اُپر آجاتی۔۔۔۔
اپنا زہن جھٹک کر اُس نے بھاری دل سے دوا لی۔۔کیا اِس دوا سے زندگی کی خوشیاں مل سکتی تھی۔۔بلکل نھی ہاں کُچھ وقت سکون سے گزر گزر جاتا۔۔۔تکلیف کا احساس جیسے بھی ہو تکلیف تکلیف ہی ہوتی ہے۔۔اُس میں کمی ہو یا شدت وہ جان لیوا ہو یا جان دیوا وہ تکلیف ہی رہتی ہے۔۔۔
وہ بھی اپنی جاوانی سے بھرپور دن بیماری اور تکلیف میں گزار رہی تھی۔۔۔
بی بی جی آپ کی اُستانی آگئ ہے۔۔۔ملازمہ نے داخل ہو کر کہا۔۔۔
اوکے میں آرہی ہو۔۔۔لاریب نے کہا اور جلدی جلدی کتابیں اکھٹی کیں۔۔۔۔
موبائل وہی چھوڑ کر وہ سٹدی روم میں آئ جہاں مس طاہرہ تھیں۔۔۔بے اے کا آخری سال تھا اور لاریب کے امتحان بھی قریب تھے۔۔وہ دل سے کُچھ بننا چاہتی تھے لیکین وہ کیا چاہتی تھی کوئ بھی دیکھتا تھا۔۔۔بس اُس سے کیا چاہت تھی سب وہی دیکھتے تھے۔۔۔
وہ پڑھائ میں مصروف ہو گئ۔۔
لاریب بیٹا تمہاری طبیعت ٹھیک ہے ؟؟ مس طاہرہ نے پوچھا بلاشبہ وہ ایک نیک اور اچھی خاتون تھی
جی مس میں ٹھیک ہوں۔۔۔لاریب بولی۔۔۔اور واپس کتاب پر جھُک گئ
اچھا تو تم ڈاکڑ مہوش کے پاس گئیں تھیں؟ اُنہوں نے بتایا مجھے۔۔۔۔
لاریب کی آنکھیں دھندلائ اور سر چکرایا
اُس کے ہاتھ سے پین گِرا اور دماغ سُن ہونے لگا۔۔۔
مِس طاہرہ نے پریشان ہوتے ہوۓ اُس کو نارمل کیا۔۔۔
لاریب کب تک چُھپاؤ گی مجھے ڈاکڑ نے بتا دیا ہے اور یہ بات تم جانتی ہو اُن سے میرے تعلُقات کتنے پرانے ہیں۔۔
جی مِس میں جانتی ہوں۔۔لاریب زرا سا رُک رُک کر بولی۔۔
لاریب بیٹا اپنے باپ کو ہی بتا دو۔۔۔ مِس طاہرہ دوبارہ اُس کا ساتھ دیتے ہوۓ بولی۔۔
نھی مِس پلیز نھی میں نھی بتانا چاہتی وجہ یہ نھی کہ مجھے میری زندگی سے پیار نھی
وجہ یہ ہے مجھے ہمدردی کا پیار نھی چاہیے۔۔ اگر مجھے ہمدردی کا پیار چاہیے ہوتا تو میں کب کا سب کو بتا دیتی لیکین نھی۔۔۔
لاریب خاموش ہو گئ ۔۔ اور مِس طاہرہ نے کُچھ مشہورے دے کر باقی کی پڑھائ کل پر ڈال دی۔۔لاریب بھی کمرے کی طرف چل دی
*******
لاریب نے کمرے میں ودم رکھے تو ساکت سی رہ گئ۔۔
آنٹی آپ یہاں۔۔؟ لاریب نے نسرین کے ہاتھ میں اپنا موبائل دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
جی جی میں یہاں۔۔۔اور تمہارے اِس عاشق کو بھی جان گئ ہوں۔۔۔نسرین ہر لفظ دُبا دُبا کر کہہ رہی تھی وہ چہیتی ملازمہ بھی ساتھ ہی کھڑی تھی۔۔۔
لاریب کی آنکھیں بھڑ آئیں کوئ بھی لڑکی اپنے کردار کی پاکی کے خلاف کُچھ نھی سُننا چاہے گی۔۔۔
چاہے سچ ہو یا جھوٹ۔۔
لاریب نے موبائل کے لیے ہاتھ بڑھایا
تو نسرین نے زمین پر پھینک دیا۔۔۔
اب بس لاریب بی بی کچھ نھی بولو گی تم۔۔؟
نسرین بولی
آنٹی زندگی میں کبھی آپ نے اپنی کردار کشی کی ہوتی تو آج آپکا بیٹا یوں عورتوں کے کردار کو پامال کرنے کے جُرم میں قید نہ ہوتا
اگر کبھی دو لفظ خود سمجھاۓ ہوتے آپ نے انس کو تو شائد آج آپ کو اور آپ کے مجرم بیٹے کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔۔۔۔
لاریب ایک سیکینڈ وہاں نھی رُکی اور نیچے لائبریری کی طرف سیڑھیاں اُترنے لگی
نسرین وہاں شدت سی رہ گئیں
لاریب ناک کر کے داخل ہوئ تو حبیب خان نے اُس سے نظریں چُڑا لیں
بابا جانی کیا آپ بھی۔۔۔؟ بابا جانی میں اُس کی طرح نھی ہوں۔۔۔۔
لاریب خاموش ہو جاؤ تمہاری ماں نے بھی یہی کیا تھا میرے ساتھ میں تو محبت میں آکر اُس کو بیاہ لایا تھا تم نے بھی وہ کیا جو اُس نے کیا تھا
لیکین کوئ تمہے بیاہنے نھی آۓ گا میں خود سب کروں گا بس اب جاؤ یہاں سے کوئ صفائ نھی چاہیے۔۔۔۔
لاریب وہیں لڑکھڑا کر بیٹھ گئ۔۔۔۔
اُس کی سمجھ سے سب باہر تھا۔۔۔۔۔
*******************
آریانہ جہاں دربار سے واپس آرہی تھی جب اُن کی نظر سیدھ میں چلتے ہوۓ ایک لڑکی پر پڑی جس کی آنکھیں نور جہاں جیسی تھی۔۔۔
گاڑی روکو ۔۔۔
آریانہ حُکم دینے کے انداز میں بولی۔۔۔
اور گاڑی رُکوا کر روڈ کے سیدھے فُٹ پاتھ پر پہنچی اور چلتی ہوئ لڑکی کو آواز دی
بات سُنو ۔۔۔۔
وہ لڑکی رُکی اور مُڑ کر دیکھنے لگی۔۔۔
نھی یہ نھی آریانہ نے شرمندہ ہو کر معافی مانگی۔۔۔
اُس آنکھوں گم کے ساۓ تھے جو نور جہاں کی آنکھوں میں کبھی نھی تھے۔۔۔
آریانہ واپس گاڑی کی طرف چلنے لگی۔۔
تو اُس لڑکی نے کہا۔۔اگر وہ زندہ ہوتی نا باجی تو آج آپ کو اُس کی آنکھیں بھی ایسی ہی لگتیں۔۔۔
اور چل پڑی۔۔۔۔
کیا مطلب تھا اِس بات کا آریانہ بس ناسمجھی سے گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔
وہ لڑکی اب دوبارہ تو اُسے ملنے نہ لگی تھی لیکین وہ اشاعہ دے گئ تھی کہ نور جہاں کو موت ملی تو بہتر ملی۔۔۔وہ تو موت کو بھی ترستی تھی۔۔
وہ وقت کبھی کسی پے نہ آۓ جب عزت سے کھیلنے کے بعد موت نہ ملے کھلونے کو۔۔۔رجو نے آمین کے ساتھ دعا کی تھی۔۔۔آریانہ کی آنکھیں ٹپ ٹپ کرنے لگی تھی۔۔۔۔
رجو۔۔۔
آریانہ نے پکارا
پرسو پیشی ہے نا اُس کی۔۔۔
جی جی بیگم جہاں۔۔۔پرسوں پیشی ہے۔۔۔
رجو نے جواب دیا ۔۔اور باقی کا سفر خاموشی سے گزرا
۔۔۔
لاریب کو کسی نے سہارا نھی دیا نہ کوئ دلاسا
کیا اُس کی ماں کی غلطی تھی۔۔
کیوں مرد کی نظریں نھی اُکھیڑ دی جاتی
کیوں مردوں کو اتنا کھُلا ماحول دیا جاتا ہے جبکہ عورت کو سات پردوں میں
عورت کو سات پردوں میں رکھنے والا ہے اصلی مرد ہے لیکین ایک عزت اور ایک پیار کی کمی سب بہا لے جاتی ہے۔۔۔
وہ خود اُٹھ کر کمرے کی جانب گئ
اور روتے روتے کب اُس کی آنکھیں بند ہوئ خبر نہ ہوئ
***************************************
ملازمہ نے نسرین کو سینیما میں ہونے والی ملاقات کی بات بتائ تو نسرین بھرم ہو گئ تھی اور کئ دنوں سے لاریب کو نیچادکھانے کی کوشش میں تھیں۔۔۔
اپنے نۓ نمبر سے میسیج بناۓ اور لاریب کے نمبر سے سینڈ کیے۔۔موقع دیکھتے ہی جب لاریب پڑھنے کے لیے گئ تو پہچھے سے حبیب کو سارئ کہانی بنا کر سُنا ڈالی
اور اُن کے نظروں میں لاریب گِر گئ۔۔۔
**^^^*^*******^^^^^^^^***************^^*^