مہجبین کو تین گھنٹوں کے بعد ہوش آیا تھا۔ وہ رات چاند دیکھتے دیکھتے بے ہوش ہو گئ تھی۔ اگر اس موقع پہ زیان وہاں موجود نہ ہوتا تو نہ جانے وہ کتنی دیر وہیں پڑی رہتی۔ اور ایسے میں کس قدر نقصان ہو سکتا تھا۔ یہ سوچ کر ہی سب کی جان نکلی جا رہی تھی۔ سب ہی دعا کر رہے تھے۔ زیان کی امی نے تو سر سجدہ سے ہی نہیں اٹھایا تھا۔ ان کی بہو! ان کے ہاں کھلنے والا پھول اگر مرجھا جاتا تو ان کی تو زندگی ہی ویران ہو جاتی۔
زیان سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں اور دل میں بس ایک ہی دعا کہ مہجبین کو کچھ بھی نہ ہو۔ میں نہیں رہ سکتا اس کے بنا۔ وہ بے حد سہما ہوا تھا۔ جیسے بچے کے ہاتھوں سے کھلونا گر جائے تو اسے اس کے ٹوٹ جانے کے خوف سے وہ ڈر جاتا ہے سہم جاتا ہے۔
بلکل ایسے ہی زیان مہجبین کو کھو جانے سے ڈرتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ اسکے لیے کھلونا تھی۔ بلکہ وہ تو اسکی اپنی تھی۔ اس کے لیے سکون کا باعث تھی۔ کڑی دھوپ میں چلتے مسافر کے لیے جیسے ایک ایسی سڑک جس پہ پیڑ پودوں کی وجہ سے سایہ ہو۔ مہجبین ایسی سایہ دار راہگزر بنی چکی تھی زیان کے لیے۔
۔
۔
۔
انجبین: آپ پریشان مت ہوں، جبین کی طرف دیکھا کریں کیسے وہ حمت سے کام لے رہی ہے۔ انجبین سے اب کی بار رہا نہ گیا تھا۔ وہ زیان کے پاس چلی آئی تھی۔ وہ بہت دیر سے زیان کو اکیلے سر جھکائے بیٹھے دیکھ رہی تھی۔
ہمیشہ چمکتی رہتی آنکھوں میں آج اسے آنسوں تیرتے دیکھائی دے رہے تھے۔ آنسوؤں اور غم کے ساتھ انجبین کا جو تعلق وہاب نے قائم کر دیا تھا، اس کے ہوتے ہوئے انجبین کس دوسرے کی آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھ پاتی تھی۔
یہ پہلی بار تھا کہ مخاطب انجبین نے کیا زیان کو۔ زیان جس سے جتنا دور جا رہا تھا، وہ اس کے مزید قریب آرہی تھی۔ جتنا نظر پھیرنے کی کوشش کرتا، وہ اتنی نظر کے سامنے آتی۔
زیان: میری حمت میری بیوی ہے۔میری شریکِ حیات۔ اس کی زندگی کے لیے دعائیں مانگتے ہوئے نہ جانے کب یہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ زیان کی آواز بہت دیر سے چپ رہنے کے باعث بہت بھاری ہوئی تھی۔
اسے آج انجبین کا لہجہ بدلا سا لگ رہا تھا۔ لیکن اب زیان کی ذات اسکے دل پہ کچھ اثر نہیں کر رہا تھا۔ اسے تو بس مہجبین کی فکر تھی۔
___________________ frighteneed_soul_______
پاس کے بینچ پہ بیٹھی ہوئی تین ماؤں کو اپنی اپنی اولاد کا غم کھائے جاتا تھا۔ کلثوم ( مہجبین کی امی) کو اپنی بیٹی اور داماد کا اکیلا پن دیکھ کر دکھ ہو رہا تتھا کہ کاش کوئی انکا بہن بھائی یہاں موجود ہوتا جو ان کا غم بانٹنے کا وسیلہ بنتا۔
شاہدہ (زیان کی امی) کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی۔ اپنے گھر کی رونق اپنے گھر کی جان کو کھو دینے کو تھیں وہ۔ ان کے ہاتھ مسلسل دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے۔ وہ بس سورۃ یس پڑھے جارہی تھیں۔ کہ خدا کے کلام سے ہی تو دل تسکین پاتے ہیں۔
ایک اور غموں سے دکھوں سے بھری ہوئی ماں یاسمین (انجبین کی امی) بیٹھی تھیں۔ وہ کیا سوچیں کیا مانگیں وہ خود بھی یہ بات نہیں جانتی تھیں۔ ان کی بیٹی کی زندگی تو برباد ہو چکی تھی۔ اب اس کی سہیلی جس کے ہونے سے وہ ہمیشہ بے فکر رہا کرتی تھیں کہ مہجبین ہے تو معاملے کو سنبھال لے گی۔ مگر آج تو خود اس کا معاملہ الجھ گیا تھا۔
وہ دعا مانگتی تھیں تو دل کہتا تھا بیٹی کی خوشیوں کا سوچو خودغرض بن کر۔
مگر انکا ضمیر ملامت کرتا تھا کہ ایسی خوشی سے بہتر ہزاروں غم سہ لیے جائیں۔۔۔
____________________________________________
“آپ تو ایسے دیکھ رہے ہو مجھے جیسے جان بوجھ کر میں بے ہوش ہوئی تھی۔”
مہجبین نے برا سا منہ بنا کر دیکھا زیان کو! جو کمرے میں خاموشی سے بیٹھ کر اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔۔
کمرے میں موجود دیگر سب لوگ بھی مہجبین کی طرف متوجہ تھے لیکن مہجبین کی نگاہوں کا مرکز بس زیان تھا۔ مہجبین کی جانب زیان نے گھورتے ہوئے دیکھا تو وہ بچوں کی طرح ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر بیٹھ گئی۔ اس کی یہ ادا زیان کو بہت پیاری لگی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنا سر جھٹکا کہ بس کردو پاگل لڑکی۔
۔
۔
۔
مہجبین: تم میرے ساتھ آج گھر چلو پلیز! آنٹی اسکو اجازت دے دیں نا۔
مہجبین نے انجبین کا ہاتھ پکڑا اور اچانک سے بولی۔اس طرح کی فرمائش کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ جبین کی اس بات پہ سب ہی چونکے تھے، انجبین کے قدم رکے تھے تو زیان کی رفتار بھی کم ہوئی تھی۔
زیان کو یہ فرمائیش پسند نہیں آئی تھی، لیکن اس کے پاس اس بات کو رعد کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔
انجبین نے شانے اچکائے جیسے اسے تو اعتراض نہیں بس ماں سے اجازت درکار ہے۔۔۔
مس یاسمین نے معزرت کرتے ہوئے کہا کہ آج گھر پہ صرف ہم عورتیں ہی ہیں! انجبین کے بابا بھی گھر نہیں ہیں۔ یہ پھر کسی روز رہ جائے گی یہاں آکر۔ آج رکنا مشکل ہے۔ انکی مجبوری کو سمجھتے ہوئے مہجبین نے ضد نہ کی اور سہیلی کو جانے دیا۔۔۔
۔
۔
۔
زیان: یہ کیا حرکت تھی؟ زیان کا اشارہ انجبین کے رکنے کی بات کی طرف تھا۔۔۔ وہ کبھی بھی اتنا سختی سے مہجبین سے پیش نہیں آیا تھا۔
مہجبین: کیوں اس پہ اعتراض کیوں ہے آپکو! مہجبین نے محسوس کیا تھا زیان کا سخت لہجہ! اور یہ رویہ اسے گراں گزرا تھا۔
زیان: ہاں کروں گا اعتراض! اب اس کا جواب جانتی ہی ہو۔
مہجبین: جی جانتی ہوں! مہجبین کی آواز مدھم پر گئی تھی۔ وہ بیڈ میں لیٹ کر خالی خالی نگاہوں سے چھت کو دیکھ رہی تھی۔
دونوں کے خاموش ہونے سے کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک گونجنے لگے۔ ایک ایک لمحے کی آہٹ ، موت کی چاپ۔۔ جو ہولے ہولے مہجبین کی سانسوں کی تار کاٹنے کو اس کے قریب آرہی تھی۔۔۔
“زیان میرے قریب آئیں مجھے ڈر لگ رہا ہے” مہجبین نے اپنے خوف کو چھپانے کی ہر ممکنہ کوشش کی، مگر اسکا ڈر خوف اسکی آواز کی کپکپاہٹ سے عیاں ہوتی تھی۔
زیان نے بنا کچھ بولے اپنا ہاتھ مہجبین کی گود م رکھ دیا پاس لیٹ کر۔۔ مہجبین نے ہاتھ ملتے ہی جلدی سے بازو کو بھی تھام لیا اور سکون سے آنکھیں موند لی۔
____________________________________________
زیان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے مہجبین نے زیان کی طرف دیکھا جو کرکٹ میچ دیکھنے میں مگن تھا اور ایک ہاتھ سے پاپ کارن اپنے منہ میں ڈالتا اور ایک بار مہجبین کے منہ میں۔ مہجبین جیسے ہی بات کا آغاز کرنے لگتی یہ پاپ کارن منہ میں ڈال دیتا۔ بظاہر وہ یہ سب بے دیھانی میں کر رہا تھا، لیکن درحقیقت وہ تو شرارت کر رہا تھا۔ وہ مہجبین کو زچ کر رہا تھا۔۔۔ اور وہ سچ میں زچ ہو رہی تھی۔۔
مہجبین: یہ دیکھیں زیان یہ پڑھیں ذرا۔
مہجبین نے اپنا موبائل زیان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
زیان: یہ تم آج پھر سے موبائل اور فیس بُک سے لگ گئی ہو؟ زیان نے ڈانٹا اور سیل فون رکھ دیا بنا دیکھے ہی۔
مہجبین کہاں رکنے والی تھی۔ وہ تو بس یہ جملے یہ فقرے پڑھوانے کے درپے تھی۔ اس کء بار بار کہنے پہ زیان نے تنگ آکر موبائل لے لیا اور پڑھنے لگا تا کہ اس کے بعد سکون سے میچ دیکھ سکے۔۔۔
فیس بُک پہ لگی اس پوسٹ کے پیچھے بانو قدسیہ کہ تصویر لگائی گئی تگی۔ خدا جانے یہ ان کا لکھا تھا بھی کہ نہیں!
“مرد کو توڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے،
جب اس کی محبت کسی اور کے ساتھ ہو،
اس بات پر اسے نیند تک نہیں آتی ہے،
مرد مرتے دم تک اس عذاب میں جلتا رہتا ہے۔
ہونہار مرد بھی اس حالت میں کسی چیز کے قابل نہیں رہتا!
ایسی عورت خوش نصیب ہوتی ہے،
جس سے مرد ایسا عشق کرتا ہے”۔۔۔
زیان نے یہ تحریر اونچی آواز میں پڑھی تھی، اس کے ختم ہوتے ہی مہجبین نے زیان کی طرف دیکھا۔
مہجبین: زیان! کیا کوئی ایسا پیار کر سکتا ہے؟ مہجبین کو اس بات کا جواب سننے سے زیادہ آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے کا تجسّس تھا۔ زیان نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے مہجبین کا سوال سنا اور اس پہ غور کرنے لگا!
یہ بات تو جیسے اسکے بارے میں کہ گئی تھی۔ وہ تو خود کسی کے لیے ایسا بےچین رہتا رہا تھا۔وہ اس کے جواب میں کیا کہے؟ ہاں بول کر اپنا تمام سچ بتا دے یا نہ کر کے ایک اور جھوٹ بولے جو بعد میں ضمیر ملامت کرتا رہے۔۔۔
وہ مزید کچھ نہ بولا کہ اس کے بولنے سے جھوٹ زبان پہ آتا تھا۔۔۔!
____________________________________________
کیا لکھ رہی ہو میڈم!
انجبین نے قدم رکھا ہی تھا کمرے میں کے لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کے تحت بجلی چلی گئی۔
بجلی کا جانا اور انجبین کا ایک ہی وقت پہ کمرے میں آنا، مہجبین کے چہرے پہ مسکراہٹ لے آیا۔
آگئی کالی بلی! کہیں کی۔۔۔
مہجبین نے انجبین کو دیکھتے ہی وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
سلام دعا اور رسمی باتوں کے بعد وہ دونوں آپس کی خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں تھی۔ آج کی باتوں کا مرکز کالج اور وہاں کی دوستیں تھی۔ جن میں سے بیشتر کی شادی ہو گئی تھی۔ اور چند ایک مزید پڑھائی کرنے میں مصروف تھی۔ جبکہ کچھ تو اپنے بچوں ان کے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئیں تھی۔۔۔
باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ آفس سے زیان کی فون کال آگئی!
زیان: تیار ہو جاؤ میں لینے آرہا ہوں!
مہجبین: کیوں؟ کہیں جانا تھا کیا؟ مجھ تو یاد نہیں۔ وہ ذہن پہ زور دیتے ہوئے بولی۔ اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ آج کہاں جانا تھا۔۔۔
زیان: ہاں جانا ہے تمھارے لیے ایک خبر ہے اچھی ہے میرے لحاظ سے۔
مہجبین: آپ کا لحاظ میرے سے کب الگ ہوا۔اور میں ہوتی تیار چلیں آپ بھی کام کریں دفتر کا چلیں۔۔۔
انجبین ان دونوں کی باتیں سن کر کچھ عجیب سا محسوس کر رہی تھی۔ زیان کی وہ نظریں جو اسے بے چین کرتی تھیں۔ کیا وہ اب انہی نظروں سے مہجبین کو دیکھتا ہوگا۔
وہ اب مجھے نہیں دیکھے گا کبھی بھی۔ میں اس لائق ہی کب ہوں۔
۔
۔
۔
مہجبین کے لاکھ اسرار کے باوجود انجبین نے وہاں سے جلد از جلد گھر آنا چاہا۔وہ زیان کے سامنے نہیں رہنا چاہتی تھی۔
اسے زیان کا سامنا کرنا بہت مشکل کام لگتا تھا۔
____________________________________________
یہ یہ تو وہی انکل ہیں نا جو ہسپتال میں ملے تھے؟؟ مہجبین نے اپنی میز کی جانب بڑھتے ہوئے شخص کو دیکھ کر زیان سے پوچھا۔
زیان نے بنا دیکھے سر کی جنبش سے ہاں کہ دیا۔
“دیکھ تو لیں پیچھے! یوں ہی ہاں کہ رہے۔” مہجبین کچھ نروس سی تھی۔ وہ شخص کون ہے اور ان کی طرف کیوں آرہا ہے۔
سوالات طرح طرح کے دماغ میں جنم لے رہے تھے، لیکن ان میں سے کسی بھی بات کی تہہ تک مہجبین نہیں پہنچ پائی تھی۔۔۔
اس اجنبی شخص کے قریب آتے ہی زیان اٹھ کھڑا ہوا اور نہایت ادب کے ساتھ ان سے ملا۔
اس دوران مہجبین بھی اپنا دوپٹہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
زیان نے غیر محسوس انداز سے مہجبین کے گرد اپنی بازوؤں کا حصار بنا لیا تھا جیسے اسے لگا تھا کہ مہجبین چکرا کر گر جائے گی۔۔
زیان: مہجبین تم مجھے کہتی ہو نا کہ یہ بچہ میرے لیے تحفہ ہوگا! . زیان کا یہ سوال اس موقع کے لیے کتنا موضوع تھا یہ زیان کو بھی معلوم نہیں تھا۔۔۔
الفاظ کے بجائے مہجبین نے سر کو ہاں میں ہلایا تھا۔
زیان: میں نہیں جانتا کہ تمھیں میری اس کوشش سے خوشی ملے گی، یا تم پریشان ہو گی! لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا۔۔۔۔ یہ جو کچھ بھی میں کر رہا جو بھی کیا تمھاری خاطر۔
مہجبین: پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہیں آپ! پلیز جو ہے کہ ڈالیں میرا دماغ اتنا تو برداشت کر ہی لے گا۔۔
زیان سے پہلے آنے والے اس شخص نے بات کا آغاز کیا،
“بیٹا کیوں زحمت کرتے ہو، مہجبین بیٹی کا موڈ بگڑ جائے گا”۔ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولے!
زیان: مہجبین he is your father.
زیان کے منہ سے یہ جملہ نکلتے ہی مہجبین کی سر پہ تو جیسے کسی نے بہت سا بوجھ ڈال دیا تھا! اس کا دل ایسے دھڑکنا شروع ہوا تھا جیسے ابھی سینا چیڑتا ہوا باہر نکل آئے گا۔ مہجبین نے غیر یقینی سے زیان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بہت سے سوالات کا عکس تھا جو جھلملاتا تھا۔ “باپ” کون سا باپ؟؟ کیسا باپ!۔۔۔۔ وہ جھنجھلاہٹ میں یہ سب بول رہی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو زیان سے الگ کرتے ہوئے باہر کی طرف تیز قدموں سے چلنے لگی۔
وہ رو رہی تھی، لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ رو کیوں رہی ہے۔ اسے اپنے والد کو دیکھ لینے کی خوشی کے باعث رو رہی ہے۔ یا یہ جان کر رو رہی ہے کہ اسکے باپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ یتیموں جیسی زندگی گزارتی رہی۔
آخر کیوں اس سے یہ سچ چھپائیں گی ماں۔۔۔۔ انہیں باتوں کو سوچتے ہوئے وہ باہر چلی گئی۔ اس کے ساتھ ہی زیان بھی گھبراہٹ کا شکار ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔۔۔ گاڑی میں خاموشی تھی! دونوں ہی ایک دوسرے سے نظر نہیں ملا پا رہے تھے۔۔۔ گھر جانے والی سڑک کے قریب آتے ہی مہجبین کی درد بھری آواز سنائی دی،
مہجبین: امی کی طرف لے جائیں پلیز! ۔۔۔ مہجبین کے انداز میں بہت شائستگی تھی۔ زیان اسکی کسی بھی بات سے انکار کر کے اسے او.
زیان کی امی کو زیان کی اس حرکت نے بہت غصہ دلایا تھا۔ انہیں زیان سے اس بیوقوفی اس قسم کی نادانی کی توقع بلکل نہیں تھی۔ زیان اگر یوں ہی کرنا تھا تو کم سے کم کسی کو بتا تو دیتے۔ مجھے بتاتے اپنی ساس کو بتاتے ان کی اجازت لیتے مگر نہیں۔ اس بیچاری کی حالت دیکھو اور چلے تھے سرپرائز دینے۔
زیان کو اپنی غلطی کا احساس تھا، مگر اس کی نیت صاف تھی۔ وہ تو مہجبین کی زندگی کی تیزی سے بیتی جاتی گھڑیوں میں چند لمحوں کے لیے خوشیاں بھر دینا چاہتا تھا۔اس کو مکمل کرنا چاہتا تھا جو خود ادھوری رہ کر دوسروں کی تکمیل کرتی آئی تھی۔ اسے اپنے ہمدم رہنے والی لڑکی کے ہم قدم ہو کر اسے بھی زندگی کی چند خوشیاں دینی تھیں۔
ماں کے گھر سے لوٹ کر آنے کے بعد سے مہجبین اپنے کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی۔ اس دوران اس نے ایک بار زیان سے ایک پین اور دو پیپرز مانگے تھے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بات بھی براہ راست زیان سے نہیں کر رہی تھی۔ زیان کو اس بات کا دکھ کھائے جا رہا تھا کہ اس نے مہجبین کو دکھی کردیا ہے۔۔
مہجبین: لیں آپکی کافی! مہجبین نے کافی کا مگ زیان کو تھمایا اور خود کرسی اٹھانے چل دی تو زیان نے اسے پیچھے سے ہاتھ تھام کر روک لیا۔اور کرسی خود اٹھا کر قریب لے آیا۔
کافی کے مگ سے آنے والی مہک اور اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں۔ اور خاموش سی یہ رات۔۔۔
مہجبین: آپ میرے فادر کو مجھ سے ملانے کی کب سے کوشش کر رہے ہیں؟ بہت دیر تک سوال کرنے کے لیے الفاظ کا درست چناؤ کرتی رہی مہجبین تب کہیں جاکر اسے یہ الفاظ ملے۔۔۔
زیان نے ایک لمبی سی سانس لی اور کافی کے مگ سے پہلا گھونٹ لیتے ہوئے اس نے نظریں اٹھائے بنا ہی بات کا جواب دیا، ” بہت پہلے سے!”
مہجبین: کتنا؟
زیان: شادی سے قبل کا!۔
مہجبین: تو اب یہ بات کیوں آئی یاد؟ مطلب اتنے ماہ بعد!
مہجبین مبہوت سی ہوئی دیکھے جا رہی تھی۔
زیان: تا کہ تمھاری زندگی میں کوئی خوشی دے سکوں تمھاری لائف میں جس چیز کی کمی اسے دور کر سکوں۔۔
مہجبین: اوہ تو میری موت کی پلاننگ کر چکے ہو آپ؟ مہجبین کے لہجے میں دکھ اور غصہ دونوں شامل تھے۔
زیان: پلیز مہجبین ایسی بات نہیں ہے۔
زیان کے کی آواز سے تھکن محسوس ہوئی تھی۔ وہ تڑپا تھا دکھ سے۔ اسے اذیت ہوئی تھی اس بات سے۔
مہجبین: تو؟ کیسی بات ہے بولیں! مہجبین کے آنسوں تھمنے میں نہیں آتے تھے۔ اس کی آواز بھی ڈوبتی جاتی تھی۔
زیان: بلکل ویسی جیسے تم کہتی ہو کہ میں آپکو اپنے بعد نشانی دے کر “جانا چاہتی”۔ یہ تمھارے جانے کی بات؟ یہ کیوں بولو۔۔ زیان نے ہر ممکن کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا وہ اپنے لہجے کی تلخی چھپانے میں۔
مہجبین: تو کیا غلط ہے؟ آپکو میری یاد نہیں آئے گی؟ آپ خوش نہیں ہوں گے!
زیان: موت کی بات تم کرو وہ ٹھیک اور میں؟ تمھے میں بھی تحفہ ہی دینا چاہتا تھا لیکن اس کا یہ مطلب لو گی تم مجھے معلوم نہیں تھا۔
موت کی بات یوں کہ دیتی جیسے کھیل تماشہ ہے۔ زیان نے مہجبین کو نہیں دیکھا تھا وہ بولے چلا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی لالی اس کی گھٹن اور قرب کی نشانی تھی۔
“جب جب مرنے کی بات کرتی ہو مجھے دکھ ہوتا ہے، مجھے تم نے مکمل کیا ہے مہجبین۔ تمھارے ساتھ کی بدولت مجھے حوصلہ ملا”۔ زیان اپنا سر تھام کر بیٹھا رہا بہت دیر۔۔
مہجبین اپنے متعلق زیان کی باتیں سن کر مسکراتی رہی۔ اس نے اٹھ کر زیان کے قریب بیٹھنا چاہا مگر وہ ایسا نہ کر پائی۔ وہ معافی مانگ لینا چاہتی تھی، مگر اس کے الفاظ جو نقش تھے ان کو زیان کے اشکوں نے دھو ڈالا تھا۔
______________
ین کے گھر کا ماحول اب تک سوگوار سا تھا۔ انجبین کی امی کی سب سے بڑی پریشانی کی وجہ انجبین تھی۔ ان کو تو جیسے جلدی تھی کہ ان کی بیٹی کا گھر بس جائے۔
وہ تو دو تین لڑکوں کی تصاویر بھی دیکھا چکی تھیں۔مگر انجبین نے شادی سے صاف انکار کر دیا تھا وہ آگئے پڑھائی کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی گزشتہ زندگی میں جو مشکلات برداشت کر چکی تھی، پھر سے ان کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ بظاہر تو پہلے جیسی ہی تھی لیکن اس کے اندر ویرانیوں کے سائے چھائے ہوئے تھے۔
آج بھی اس کا موڈ آف تھا۔
فاریہ: جبین آپی آئی ہیں ملنے آپکو۔ فاریہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی پیغام دے دینا مناسب سمجھا۔ وہ پیغام دے کر جلدی سے پلٹ گئی۔
انجبین بنا کچھ کہے اس کے پیچھے چل دی۔۔
وہ دونوں بہت دیر تک ادھر ادھر کرتی رہیں۔ اچانک سے انجبین کو کچھ یاد آگیا۔
انجبین: تم اس دن کدھر گئی تھی؟ انجبین نے یوں ہی بات بدلنے کی غرض سے سوال کیا، وہ زیان کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتی تھی۔
مہجبین: آہ! سرپرائز تھا میرے شوہر کی طرف سے، پہلی بار۔۔۔ مہجبین کے ہونٹوں پہ مردہ سی مسکراہٹ پھیل گئ۔ اور جلد ہی ختم ہو گئی
انجبین: اچھا وہ کیا؟ بے اختیاری میں پوچھ گئی تھی وہ۔
مہجبین: رہنے دو کیا کرو گی جان کر۔ اسکی کوشش تھی کہ بات ختم ہو جائے وہ اس بات کو جتنا سوچتی تھی وہ اتنا ہی اس کے لیے قرب کا باعث بنتی جا رہی تھی۔
انجبین: اپنی بیسٹی سے بھی چھپاؤ گی اب تم؟
مہجبین: وہ مجھے میرے اس باپ سے ملوانے گئے تھے جس کے زندہ ہوتے ہوئے بھی میں یتیمی کی زندگی گزارتی رہی تھی۔ مہجبین کی لہجہ میں اپنے باپ کے لیے نفرت تھی اور ترس بھی۔۔
انجبین: انکل زندہ ہیں تو تم سے دور کیوں رہے؟
مہجبین نے اپنے باپ کے متعلق انجبین کو وہ سب بتا دیا جو کچھ وہ جانتی تھی۔
باتوں کا سلسلہ جاری رہتا اگر کاشف اس میں مخل ہو کر یہ خبر نہ دیتا کہ مہجبین کو لینے زیان بھائی آئے ہیں۔ زیان گھر کے اندر نہیں آیا تھا۔
گاڑی کی جانب بڑھتے بڑھتے مہجبین اچانک سے رک گئی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی انجبین کے قریب آئی۔ اپنے بیگ سے اس نے ایک باکس نکال کر انجبین کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ ” اسے آن سے تین ماہ بعد آج کے ہی دن کھول لینا پلیز!”
اس سے پہلے انجبین کوئی سوال کرتی مہجبین گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔ اس کا رنگ بیماری نے جلا کر رکھ دیا تھا۔۔
______________________
مدتوں میں آج دل نے یہ فیصلہ دیا آخر،،
خوبصورت ہی سہی لیکن یہ دنیا جھوٹ ہے.
جھوٹی دنیا کی تکلیفوں نے مہجبین کو تھکا دیا تھا! وہ اپنے باپ کو اپنے روبرو دیکھنے کے بعد سے جیسے زندگی سے بھی بیزار ہوگئ تھی۔
زیان کا سامنا کرتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کی نیت پر شک کیا تھا! وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہی تھی۔ دوسری جانب زیان اور اسکی امی کو مہجبین کی فکر کھائے جاتی تھی۔ ان کے گھر کی رونق مانند پڑتی جا رہی تھی۔ وہ ہنسی جو جھڑنے کی طرح پھوٹتی تھی، اب سنسان ویرانیوں کا منظر دیکھائی دیتی تھی۔
۔مً
آج شمائلہ اور نائلہ دونوں ہی مائکے رہنے کے لیے آنے والی تھیں!.. دو روز کے بعد ماہ رمضان کا آغاز ہونے کو تھا اس بار دونوں بہنوں نے عید تک یہیں رہنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔
مہجبین بھی بہت خوش تھی، اس نے شمائلہ کے ساتھ جو وقت گزارا تھا وہ تو بہت اچھا تھا۔ لیکن جتنا نائلہ کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا اس حساب سے مہجبین کے تو ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے تھے۔
مہجبین: امی نائلہ آپی مجھے تو نہیں ڈانٹیں گی! مہجبین نے ایسے معصومانہ انداز میں سوال کیا کہ زیان اور اسکی امی دونوں ہی ہنسے بنا نہ رہ سکے۔
اس سے پہلے کہ زیان اسکا مزاق اڑانے لگتا، ماں نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا اور مہجبین کو بے فکر رہنے کو کہا۔ وہ اپنی اس بہو کو اداس نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ مہجبین بھی اپنی بیماری سے اس لیے بے نیاز ہو کر ہنستی تھی کہ اس کی وجہ سے گھر میں موجود افراد کی زندگی کی خوشیاں جڑی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...