آج اسے احساس ہوا تھا کہ گاوں اور شہر کی زندگی میں اتنا فرق کیوں ہوتا ہے۔مطلوبہ ایڈریس پر پہنچنے سے دس منٹ قبل ہی بس بند پڑ گئی تھی۔تمام مسافروں کے ساتھ وہ چاروں بس سے نیچے اتر کر بادل نخواستہ پیدل ہی گارڈن کی سمت چل پڑی تھیں۔دفعتاً ایک دھماکے دار آواز نے ان چاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔آواز سڑک کی سمت سے آئی تھی۔پکی سڑک کچی سڑک کی سطح سے قدرے اونچائی پر واقع تھی۔ اونچائ پر بنی سڑک تک پہنچنے کے لیے نیچے سے اوپر کی طرف تنگ سنگی سیڑھیاں ڈھلان پر بنی ہوئی تھیں۔
“آپ سب آگے جائیں ،میں دیکھتی ہوں کیا ہوا ہے۔”
انھیں جانے کا کہہ کر وہ آرام سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
دائی ماں نا نا کرتی رہ گئیں ۔مگر وہ نا رکی۔
آخری سیڑھی پر پہنچتے ہی اس کی نظر کچھ دوری پر سڑک کے کنارےاوندھی گری سیاہ رنگ کی خستہ حال کار پر پڑی۔کار کے قریب جاکر پتا چلا کہ ڈرائیور غائب تھا۔اس نے زخمی شخص کی تلاش میں نظر دوڑائی۔دفعتاً اس کی نگاہ خون سے بنی لکیر پر رک گئی۔
یہ خطرے کا سگنل تھا۔اس کا دماغ کہہ رہا تھا کہ اسے لوٹ جانا چاہیے۔آگے خون میں ڈوبے کسی شخص کے ہںونے کا اندیشہ تھا۔ناقابلِ فہم جذبات کا سمندر جیسے ابل پڑا ۔
وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں خون کی لکیر کی سی سیدھ میں ڈھلان سے نیچے اترنے لگی۔ڈھلان کی بدولت بہت احتیاط سے قدم رکھتے ہںوئے وہ چٹان کے پاس پہنچی۔
حادثے کا شکار ہںوا شخص اوندھے منہ پڑا تھا۔اسکے دل میں آیا وہ یہی سے بھاگ جائے۔اس کے ہاتھ پاؤں کاپنے لگے تھے۔وہ اپنی حالت سے بہ خوبی واقف تھی کہ وہ کسی زخمی شخص کی مدد کرنے کے قابل نہیں تھی۔زخمی شخص کے نزدیک گھٹنوں پر بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے اسنے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
اس کے ہاتھوں پر سرخ مائع اپنا رنگ چھوڑ گیا۔اس کاذہںن ماؤف ہونے لگا۔قریب ہی تھا کہ زخمی شخصکی مدد کرنے کے بجائے وہ خود بےہوش ہںوجاتی۔اس شخص کا چہرہ دیکھ اس کے لبوں سے ایک دلخراش چیخ نکلی تھی۔
بند ہوتی آنکھیں ایکدم سے کھلی تھیں۔
شاہ زر ۔۔۔۔۔شاہ زر۔۔۔۔۔۔
وہ ہزیانی انداز میں اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے چیختی جارہی تھی۔
“Help ,…..help…
اس نے اطراف میں نظر دوڑائی۔
اس سنسان ویران سڑک پر اس کی مدد کرنے والا کوئ نہ تھا۔
دفعتاً اسے احساس ہوا جیسے اس کا جسم سرد پڑ رہا ہے۔کسی انہونی کے احساس سے اس کا دل دھڑک اٹھا۔
اپنے لرزتے ہوئے ہاتھوں کو اس کے سینے پر رکھکر اس نے دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی۔
اسے دھڑکن کا احساس نہیں ہوا تھا۔اس نے بے یقینی سے شاہ زر کے خون آلود چہرے کی سمت دیکھا۔
بولتی ہوئ آنکھیں بند تھیں،مسکراتے ہونٹ خاموش تھے۔جسم سرد تھا۔
بجلی کی سرعت سے اس نے اپنا کان اس کے سینے پر رکھا۔نہایت ہی آہستہ روی سے چلتی دھڑکن کی آواز نے گویا اس کے جسم میں روح پھونک دی۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔اکا دکا گاڑیاں سڑک سے گزر رہی تھیں۔وہ دوڑ کر سڑک کے درمیان کھڑی ہوگئ۔
اس کے سفید لباس پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑ گئے تھے۔
اس حالت میں سڑک کے درمیان اس کے کھڑے ہو جانے کے باوجود کچھ اللّٰہ کے بندے کنارے سے اپنی گاڑیاں نکال کر آگے بڑھ رہے تھے۔غالباً وہ لوگ خدمت خلق پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
تبھی ایک کار کی رفتار دھیمی ہوئ۔وہ تیر کی تیزی سے کار کے نزدیک آئی تھی۔
“سںنیں ،میری مدد کریں۔۔۔۔ خدا کے لیے میری مدد کریں،وہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔بہت زخمی ہے۔۔۔۔۔بہت خون بہہ رہا ہے۔۔۔۔۔آپ اسے اسپتال لے چلیں۔۔۔۔۔
اس کے حلیہ اور بے ربط باتوں سے ڈرائیونگ سیٹ کے بغل والی سیٹ پر براجمان جوان لڑکی سمجھ چکی تھی کہ کوئ زخمی ہے جسے مدد کی ضرورت ہے۔
ڈرائیور کی مدد سے اسے کار کی بیک سیٹ پر بمشکل لیٹا دیا گیا۔وہ اس کا سر اپنی گود میں رکھے ہوئے تھی۔اس کے ہاتھوں پر ،کپڑوں پر ،چہرے پر اس کے سارے جسم پر خون لگا تھا۔مگر اسے ہوش کہاں تھا۔ اپنی اب تک کی زندگی میں وہ جس شئے کے خوف کے ساتھ جیتی آئ تھی وہ خوف ایکدم سے کہیں کھو گیا تھا۔
آج اس شخص کو کھو دینے خوف ہر خوف پر حاوی تھا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جبکہ زبان قرآنی آیات کا ورد کرنے مصروف تھی۔
“آپ فکر نہ کریں دس منٹ کی دوری پر ایک سرکاری ہسپتال واقع ہے ۔ہم بروقت پہنچ جائیں گے انشاء اللہ۔یہ ٹھیک ہو جائیں گے۔”
اس کی ابتر حالت دیکھ کر کار کی مالکن کو ترس آیا تھا۔ مسلسل روتی ہوئی اس لڑکی کے برتاؤ سے واضح تھا کہ زخمی اسے عزیز تھا۔
اس کی بات پر زرمین کسی بھی ردعمل کا اظہار نہ کرسکی۔وہ اس حالت میں نہیں تھی۔
کب ہسپتال آپہنچا،کب اسے اندر لے جایا گیا۔وہ بس مفلوج ذہن کے ساتھ سب ہوتا دیکھتی رہی ۔
امیرجینسی روم کا دروازہ بند ہوا ۔وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا۔ اسی لمحے اس کے جسم نے ،اس کے ذہن نے مزید جنگ لڑنے سے مزید ہمت دکھانے سے انکار کر دیا۔وہ کٹی شاخ کی مانند زمین بوس ہوئی تھی۔
*****
وہ جوں ہی ہوش میں آئ خود کو ہاسپٹل کے بستر پر لیٹا پایا۔اس کے ہاتھ سے لگی گلوکوز کی نالی قطرہ قطرہ گلوکوز کو اس کو جسم میں داخل کر رہی تھی۔
“یہ کیا کر دیا آپ نے؟ نکالیں اسے فوراً،میں روزے سے تھی ۔آپ بغیر اجازت کے کسی کو گلوکوز کیسے چڑھا سکتے ہیں؟”
وہ ڈرپ کو دیکھ وہ چیخ پڑی۔
“آپ بے ہوش ہوگئی تھیں میڈم آپ کا بی پی حد سے زیادہ لو تھا۔اگر ہم ایسا نہ کرتے تو آپ ہوش میں نہ آتی ۔ہمارے لیے پیشنٹ کی زندگی روزے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔”
نرس نے نزدیک آکر زرمین کو جھاڑ پلائی۔
“نکالیں اسے فورا
ً”۔
وہ بضد ہوئ۔
ہاتھ کو گلوکوز کی نلی سے آزاد کرتے ہی وہ بجلی کی سرعت سے وارڈ کے باہر آئ۔شاہ زر کی خیریت جاننا اس کا عین مقصد تھا۔
مگر لابی میں آفریدی ولا کے تقریباً مرد حضرات کو اکٹھا دیکھ وہ چونک پڑی۔
جانے وہ کتنی دیر سے بےہوش پڑی تھی۔ہسپتال کے باہر شام کے سائے پھیل چکے تھے۔
سب کی نظروں سے چھپتی چھپاتی وہ بادل نخواستہ ہسپتال کی عمارت کے باہر آئ تھی۔وہ مجبور تھی فی الوقت شاہ زر کی حالت کے تعلق سے معلومات حاصل کرنا ناممکن تھا۔
وہ سیدھے گاؤں جانے والی بس میں چڑھ گئی۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ حویلی کے صحن میں داخل ہوئی تھی۔حد سے زائد فکر مند دائ ماں دوڑ کر اس کے قریب آئی تھیں۔
“تم کہاں چلی گئی تھی چڑیا؟جانتی بھی ہو ہم سارا دن تمھارا انتظار کرتے رہے ہیں؟یہ خون کیسا ہے ؟تمھیں چوٹ لگی ہے بتاؤ مجھے؟”
دائی ماں نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔
“مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ایک ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا بس زخمی کو ہسپتال پہنچانے میں دیر ہوگئی۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔”
سپاٹ لہجے میں جواب دیتی ہوئ وہ کمرے کی سمت بڑھ گئ۔
اس کی اس بے نیازی پر دائ ماں ششدر رہ گئیں۔سارا دن وہ جس چڑیا کی فکر میں ہلکان ہوئ جارہی تھیں۔اسے تو گویا کوئ پرواہ ہی نہیں تھی کہ اس کی بوڑھی دائ ماں اس کی غیر حاضری میں کس عذاب سے گزری تھی۔
یہ کیا ہوگیا تھا ان کی زرمین کو ؟وہ ایسی تو کبھی نہ تھی۔بے حس ،جذبات و احساسات سے عاری۔
دائی ماں تہہ در تہہ بدگمانی کے سمندر میں اترنے لگیں۔
کپڑے تبدیل کر کے وہ سیدھے بستر میں گھس گئ تھی۔
دائی ماں جوں ہی کمرے میں داخل ہوئیں،گھپ اندھیرے نے ان کا استقبال کیا تھا ۔کمرے کی ساری بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔وہ سر سے پیر
تک چادر تانے ہوئے تھی۔
“زرمین تو اندھیرے میں سو نہیں پاتی تھی ۔آج کیا ہوگیا ہے اسے؟میرے مولا رحم کر میری بچی پر”۔
ایک دفعہ پھر ان کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہوگئیں۔ وہ دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل آئیں۔
“بڑی بی اب میں چلتی ہوں ۔میری سانس پریشان ہو رہی ہوگی۔ہایے آج کا دن تو جیسے آفت تھا۔خیر مجھے تو آپ کو بس اس حقیقت سے آگاہ کرنا تھا کہ میرے شوہر نے پتہ کروا لیا ہے۔ہمارے اندازے صد فی صد درست ثابت ہوئے ۔وہ شخص باجی کا شوہرہے۔ سارا حیدرآباد اس حقیقت سے واقف ہے۔اس کے علاؤہ شادی کن حالات میں اور کیسے طے پائ اس سب کے تعلق سے مزید معلومات جٹانے کا کہا ہے میرے خسم نے ۔کل تک سارا ماجرا سمجھ آجائے گا ہمیں۔”
ایمن کمال اطمینان سے دائ ماں کے سر پر بم پھوڑ کر اپنے راستے ہولی تھی۔دائ ماں ساکت کھڑی رہ گئیں ۔نسہیمہ چاچی بس ایک آہ بھر کر رہ گئی تھیں۔
رات کے کسی پہر آہٹ پر دائی ماں کی آنکھ کھلی تھی۔زرمین نیند میں بڑبڑارہی تھی۔اس سے قبل کے وہ اسے جگاتی وہ چیخ کے ساتھ بیدار ہںوئی۔
وہ حادثہ اس کے ذہن پر آسیب کی مانند سوار ہںوچکا تھا۔آنکھ لگتے ہی وہ مناظر خوفناک خواب کی شکل میں نمودار ہںوتے تھے۔
خ۔۔۔۔۔۔۔۔خون۔۔۔۔۔۔۔خون۔۔۔۔۔۔۔شاہ زر۔۔۔۔۔۔۔۔شاہ زر ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس کے پاس جانا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خون بہہ رہا ہںے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہںوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہذیاتی انداز میں کمرے کے چاروں سمت نظریں دوڑائیں بڑبڑائے جارہی تھی۔اس کا جسم پسینے میں بھیگ چکا تھا۔تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔وہ حواسوں میں نہیں تھی۔ فی الوقت وہ اس خواب کو جی رہی تھی۔
“کیا ہںوا ہںے؟ زرمین ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی خون نہیں ہںے۔کچھ نہیں ہںوا ہے۔۔۔۔۔ ہںوش میں آؤ میری بچی
”
اس کی حالت دیکھ دائی ماں حواس باختہ نظر آرہی تھیں۔
اس کے چہرے کو سہلا کر دائ ماں نے اسے حواسوں میں لانے کی سعی کی۔
“آپ کو دکھائی نہیں دے رہا دائی ماں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خون ۔۔۔۔۔۔ اتنا سارا خو ن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ جانتی بھی ہیں یہ خون کسکا ہںے ۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہوگا ابھی اسی وقت ۔۔۔۔۔۔۔
ان کا ہاتھ جھٹک کر وہ دیوانہ وار دروازے کی سمت بھاگی تھی۔
میرے شاہ زر کا خون بہہ رہا ہںے ۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہوگا ۔۔۔۔
بڑبڑاہٹ جاری تھی۔دروازے کی چوکھٹ سے پیر ٹکرایا اور وہ منہ کے بل گری۔ ہںونٹ کے کنارے سے خون کی لکیر بہہ نکلی۔دائی ماں بدحواس سی اس کے نزدیک آئی تھی۔
اسنے اٹھنے کی سعی کی دفعتاً دماغ پر منوں بوجھ کا احساس ہںوا۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
“زرمین۔۔۔۔۔۔۔۔”
دائی ماں کی چیخ حویلی میں گونج اٹھی ۔
یہ اور بات ہںے میری اناجتانہ سکی
مجھے جنون تیرا ہر جنوں سے بڑھ کے رہا
******
پورے چوبیس گھنٹوں کے طویل اور اذیت ناک انتظار کے بعد آفریدی ولا کے مکینوں کو شاہ زر کے ہںوش میں آنے کی اطلاع ملی تھی۔سبھی واقف تھے اس دفعہ حادثہ اس کی لاپرواہی کی وجہ سے نہیں ہںوا تھا۔تفتیش سے پتا چلا تھا کہ اس کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد ٹرک کھائی میں گری تھی۔ڈرائیور کو ہارٹ اٹیک ہںونے کی وجہ سے حادثہ انجام پذیر ہںوا تھا۔
مزنی اسپیشل وارڈ میں داخل ہوئی تھی۔مگر مقابل کا منظر دیکھ وہ حیران رہ گئی۔وہ پٹیوں میں جکڑا ہنستا جارہا تھا
بنارکے قہقہے لگا رہا تھا۔
اس درد واذیت میں وہ ہنس رہا تھا۔مزنی کا متحیر ہںونا لازمی تھا۔
“بھائی کیا ہںوا ہںے؟ آپ ہنس کیوں رہےہیں ؟ آپ ٹھیک تو ہںے نا ؟”
مزنی نے خوفزدہ لہجے میں استفسار کیا۔اسے اپنے بھائی کی ذہنی حالت پر شبہ ہںورہا تھا۔
مزنی مجھے اس ہسپتال تک کس نے پہنچایا ہںے؟”
دفعتاً شاہ زر نے مستفسر ہوا ۔
“ہاں وہ ایک لیڈی تھی۔ایکچوئیلی آپ کی باڈی ڈھلان سے نیچے ہںونے کی بدولت سڑک سے آپ کو دیکھ پانا ناممکن تھا۔بقول اسکے عورت کے کوئی لڑکی تھی جس نے اسے آپ کے تعلق سے آگاہ کیا۔ہم سب اس فرشتہ سے ملنے کے خواہاں تھے مگر نہ جانے وہ کہاں غائب ہںوگئی۔اگر وہ نہ ہوتی تو آپ کا بر وقت ہسپتال پہنچ پانا ناممکن تھا۔”
مزنی نے معلومات بہم پہنچائی۔
“تم جاننا نہیں چاہںوگی وہ فرشتہ صفت ہستی کہ کون تھی؟” وہ یاسیت زدہ لہجے میں گویا ہںوا۔
“کیا آپ جانتے ہیں اسے؟”مزنی متحیر تھی۔
“ہاں، میں کیا تم بھی اسے جانتی ہںو،بہت اچھی طرح۔ وہ زرمین تھی۔۔۔۔۔۔ میری بیوی ۔۔۔۔۔۔میری جان بچانے والی، مجھے بروقت ہسپتال پہچانے والی ہستی تمھاری دوست تھی۔تقدیر کے اس اتفاق پر مجھے دکھی ہونا چاہیے یا خوش؟ شاید مجھے خوش ہںونا چاہیے ۔ میری جان بچانے والی ہستی اور کوئی نہیں میری محبت میری بیوی تھی۔مگر مجھے دکھ ہںو رہا ہںے ۔تکلیف ہںورہی ہںے۔مجھے خوشی نہیں ہںورہی مزنی۔ذرہ برابر بھی نہیں۔جب اس کا اور میرا ساتھ مقدر میں ہںے ہی نہیں تو کیوں خدا بار بار ہم دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرتا ہںے۔
وہ میرے پاس تھی۔جانے کتنی دیر کے لیے وہ میرے پاس تھی۔میرے قریب اتنے قریب کے میں اسے چھو سکتا تھا۔ایک عرصے سے میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بےتاب تھا۔ جب وہ میرے سامنے تھی تب میری آنکھیں بند تھیں۔اور اب جب آنکھیں کھلی ہیں تو وہ کہیں بھی نہیں ہںے۔اسے میرا ساتھ قبول نہیں تو آخر کیوں وہ اپنی نشانیاں میرے پاس چھوڑ جاتی ہںے۔تمہیں نہیں لگتا مزنی اس سے میری آزمائش مزید سخت ہںوجائے گی۔”
بازو اونچا کرکے اس نے زرمین کے لاکٹ کو چہرے کے اوپر کیا تھا۔
مزنی آنکھیں پھاڑے اس لاکٹ کو دیکھ رہی تھی۔تقدیر کے اس اتفاق پر نہ تو وہ خوش تھی نہ غمگین۔عجیب سے ناقابل فہم جذبات نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔
اس سے پہلے کہ آنسو آنکھوں کے راستے باہر آتے وہ کمرے کے باہر نکل آئی اور سیدھے ہاسپٹل اسٹاف کے سر پر پہنچ گئی۔
“آپ کے ہسپتال میں مریض کا سامان کیا پٹیوں میں جکڑے مریض کو سونپا جاتا ہںے؟”
وہ نرس پر غرائی۔
“نہیں میڈم ، ایسا تو نہیں ہںے”
“تو پھر آپ نے وہ لاکٹ سیدھے جاکر مریض کو کیوں سونپ دیا۔آپ کو اسے ہمیں سونپنا چاہیے تھا۔”
“جس وقت انھیں یہاں لایا گیا وہ لاکٹ ان کی جیکٹ میں پھنسا ہںواتھا۔مجھے لگا بہت قیمتی ہںے لہذا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
نرس ڈر کے مارے اپنی بات مکمل نہیں کرپائی۔
“خیر قیمتی تو تھا وہ ۔۔۔۔۔۔
مزنی نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔
رات کیا سوئے کے باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کس طرح پایا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہوگیا تقدیر کا
******
پورے دو دنوں کے بعد اسے ہںوش آیا تھا۔بقول ڈاکٹرز کے اس کا نروس بریک ڈاؤن ہںوا تھا۔دائی ماں اس بیماری کا نام زندگی میں پہلی دفعہ سن رہی تھی ۔پورے دو دن اور 48 گھنٹوں کے اذیت ناک انتظار کے دوران انہیں اس بیماری کی سنگینی کا احساس ہوا تھا۔اس کی بے ہںوشی کے دوران کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں انہوں نے خدا کے حضور اس کی زندگی کی بھیک نہیں مانگی تھی۔
انھیں مزید کچھ جاننے کی ضرورت نہیں تھی۔وہ سمجھ چکی تھی کہ زرمین کو زندگی کی طرف واپس لانے کے لیے اس کے شوہر سے ملاقات ضروری ہںے۔زرمین نے قبول نہیں کیا تھا کہ وہ اس شخص کی بیوی ہںے یا یہ کہ وہ اس شخص کی محبت میں گرفتار ہںے یا یہ کہ وہ شخص اسے کسقدر عزیز ہںے۔مگر وہ اس کی دائی ماں تھیں۔وہ اس کے دل کا حال جان چکی تھیں۔اس کے ہںوش میں آنے کی خبر سننے کے باوجود وہ زرمین سے ملے بغیر شہر کے لیے روانہ ہںوئیں۔وہ بخوبی واقف تھی ان سے ملنے کے بعد زرمین انھیں مطمئن کرنے کےلیے ایک دفعہ پھر جھوٹ کا سہارا لےگی۔وہ مزید جھوٹ نہیں سننا چاہتی تھیں۔وہ اختتام چاہتی تھیں ان سلجھی گتھیوں کا ، زرمین کے دکھ و اذیت کا ۔
اور ان سارے مسئلوں کا حل وہ شخص تھا ۔
شاہ زر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“نسیمہ چاچی دائی ماں کہاں ہیں؟وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟ وہ ازحد پریشان ہںونگی۔انھیں بلائیں میں ان سے ملنا چاہتی ہںوں مجھے دیکھے بغیر انھیں چین نہیں آئے گا۔ ”
نسیمہ چاچی اور ایمن کو وارڈ میں داخل ہںوتا دیکھ وہ گویا ہںوئی۔
“سنو زرمین تمھاری ایسی حالت دیکھ تمھاری دائی ماں کی طبیعت بہت بگڑ گئی تھی۔ بمشکل انھیں دوائیوں کے زیر اثر سلاکر آرہی ہںوں میں۔ تم گھبراؤ نہیں جوں ہی وہ بیدار ہںونگی ہم تمھارے ہںوش میں آنے کی خبر کردینگے انھیں۔تم پریشان نہ ہںو اب ٹھیک ہںے ان کی حالت۔”
دائی ماں نے جو جواز زرمین کے سامنے پیش کرنے کے لیے کہا تھا نسیمہ بیگم نے من وعن اس کے گوش گزار کردیا۔
وہ شاہ زر سے اپنی ملاقات کو مخفی رکھنا چاہتی تھی۔ان کی غیر حاضری کا مناسب جواز سنے بغیر زرمین مطمئن نہ ہںوتی۔
“مجھے یقین ہںے دائی ماں مجھ سے خفا ہںونگی ، میں اپنے ساتھ ساتھ انھیں بھی اذیت دے رہی ہںوں ، کیا سوچتی ہںونگی وہ کیا وجہ ہںے میری اس حالت کے پیچھے ؟ اب اور نہیں ۔مجھے انھیں حقیقت سے آگاہ کرنا ہوگا ۔ حقیقت جان کر یقیناً انھیں تکلیف ہوگی مگر اس اذیت سے کچھ کم ہںی ہںوگی۔”
چھت پر لٹکے گھومتے پنکھے پر نظر ٹکائے اس نے ایک فیصلہ لیا تھا۔
******
صبح سے شام ہںونے کو تھی۔ سارے دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وو آفریدی ولا کے گیٹ پر کھڑی تھیں۔مطلوبہ ایڈریس تک پہنچنے میں انھیں ذرا بھی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔آج انھیں احساس ہوا تھا کہ اتنے بڑے شہر سے کسی رئیس کا گھر ڈھونڈ نکالینا کسقدر آسان تھا۔وہ متحیر تھی اور خوش بھی۔
دائ ماں نے ٹھنڈی سانس لیکر سنہرے جگمگاتے” آفریدی ولا” حرفوں کی سمت دیکھا ۔اس سے قبل کبھی بھی انہوں نے محلوں جیسی نظر آتی کسی عمارت میں قدم نہیں رکھا تھا۔مگر ہر ماں کی طرح ان کا بھی خواب تھا کہ ان کی شہزادیوں سی بیٹی کی شادی کسی محل کے شہزادے سے ہو۔یہ وہ خواب ہے جو ہر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ماں اپنی بیٹی کے لیے دیکھتی ہے مگر اسے اس خواب کے تعبیر پانے کی امید نہ کے برابر ہوتی ہے۔ان کی اس دعا کو قبولیت نصیب ہوئ تھی جو انھوں نے مانگی ہی نہیں تھی۔
وہ محل کے سامنے کھڑی تھیں اس خوبصورت عمارت کے اندر کہیں وہ شہزادہ موجود ہوگا ۔انھیں اس سے ملنا تھا۔جب تک شہزادہ اور شہزادی ایک ساتھ ملکر راضی خوشی زندگی بسر نہ کرینے لگیں ,کہانی پوری نہیں ہوتی تھی فی الوقت ان کی بیٹی کی کہانی بھی ادھوری تھی ۔وہ اس کہانی کو اس کے انجام تک پہنچانا چاہتی تھی۔
“جی کہیں کس سے ملنا ہے آپ کو”؟
گیٹ کیپر نے متذبذب کھڑی بے ضرر نظر آتی عورت کو دیکھ استفسار کیا۔
“وہ ۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں۔۔۔میرا نام ۔۔۔۔۔ندرت جہاں ہے۔۔۔۔۔”
وہ بوکھلا اٹھیں ابھی تو اس گھر کے مکینوں سے کہنے کے لیے جملے بھی ترتیب نہیں دے پائ تھیں وہ۔
“جی بڑی بی ۔۔۔۔آپ یہ بتائیں آپ ملنا کس سے چاہتی ہیں؟
وہ مستفسر ہوا۔
“یہ کیا ہوگیا ہے مجھے ؟میں کیا بولے جارہی ہوں؟یہاں مجھے کون جانتا ہوگا ۔۔مجھے زرمین کا نام لینا چاہیے۔”
سر پر ہاتھ مار کر دائ ماں نے خود کو ملامت کی۔
“میں زرمین فاروقی کی دائ ماں ہوں، مجھے شاہ زر سے ملنا ہے”۔
اپنی لہجے کو مضبوط بنا کر انہوں نے سلسلہ کلام جوڑا۔
“کیا آپ زرمین بی بی کی رشتہ دار ہیں؟آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا بڑی بی آئیں ۔آئیں اندر آئیں۔”
زرمین کا نام سنتے ہی گیٹ کیپر کا چہرہ کھل اٹھا سیکنڈ کے اندر اس نے دونوں گیٹ پورے کھول دئیے۔اس کے بدلے تاثرات دیکھ دائ ماں کی کچھ ڈھارس بندھی تھی۔
وہ اس کی تقلید میں جدید آرائش سے سجے ہال میں داخل ہوئیں۔انہیں صوفے پر بیٹھا کر وہ بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھتا کسی دروازے کے پیچھے روپوش ہو گیا۔
وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرتیں اطراف کا جائزہ لیتی رہیں۔تبھی وہ شخص سیڑھیاں اترتا دکھائ دیا ۔اس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔سیکنڈ کے اندر وہ اسے پہچان گئیں۔ وہ اس چہرے کو کیسے بھول سکتی تھیں۔وہ وہی تھا ویڈیو والا شخص۔۔۔
زرمین کا شوہر۔۔۔
اس لڑکےکی تقلید میں مختلف سمتوں سے افراد آتے گئے۔آن کی آن میں ان کی گرد مجمع اکٹھا ہوگیا۔وہ مزید گھبرا گئیں۔
“دائ ماں ۔۔دائ ماں ۔۔۔آپ یہاں کیسے ؟مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا میں کوئ خواب تو نہیں دیکھ رہا ؟
وہ ان کے نزدیک گھٹنوں پر بیٹھ کر ان کے ہاتھ تھامے گویا ہوا۔فرط جذبات سے اس کی آواز میں لرزش واضح تھی۔
وہ ویڈیو والے شخص سے مختلف نظر آرہا تھا۔ماتھے پر بینڈیج تھی آنکھوں کے گرد ہلکے نظر آرہے تھے۔وہ بیمار اور کمزور لگ رہا تھا۔
آنکھوں میں آنسو لیے ان کا ہاتھ تھامے ہوا وہ لڑکا جانے کیوں انہیں بہت اپنالگا تھا۔گویا ایک عرصے سے وہ اسے جانتی ہوں۔بے ساختہ ان کی آنکھیں بھر آئیں تھی۔
وہ سارے جملے جنہیں وہ صبح سے ترتیب دے رہی تھیں ایکدم سے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ذہن کی پلیٹ پر ایکدم زرمین کا پزمزدہ چہرہ روشن ہوا تھا۔ ہسپتال کے بستر پر لیٹا اس کا وجود یاد آیا تھا۔بدحواس سی اس شخص کا نام لیتی دروازے
کی سمت دوڑ لگاتی ان کی چڑیا یاد آئ تھی۔
“دیکھو بیٹا میں نہیں جانتی میری چڑیا تمھاری زندگی میں کیسے آئ؟ تم دونوں کی شادی کن حالات میں ہوئ؟یا یہ کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ تم سے الگ اس شہر سے دور کیوں رہ رہی ہے ؟کیونکہ میری چڑیا جو مجھ سے کبھی کچھ نہیں چھپاتی تھی اسی چڑیا نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت مجھ سے پوشیدہ رکھی ۔کچھ روز قبل تو میں یہ تک نہیں جانتی تھی کہ آخر کونسا روگ ہے جو میری چڑیا کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے؟ہمہ وقت چہکنے والی میری بچی کو چپ لگ گئ ہے۔ نہ ہستی ہے نہ بولتی ہے۔کھوئ کھوئ رہتی ہے ۔روتے روتے ہنس دیتی ہے۔ہنستے ہنستے رو دیتی ہے۔مگر یہ عقدہ بھی آخر کار کھل ہی گیا ۔دو روز قبل ہم سبھی سیر کے لیے نکلی تھیں ۔اس روز خلاف توقع اس نے کسی زخمی کی مدد کی تھی۔خون کو دیکھ کر بے ہوش ہو جانے والی میری بیٹی اس روز خون آلود کپڑے زیب تن کیے گھر لوٹی تھی ۔اس رات وہ نیند میں بھی گھبرا گئ تھی۔وہ بدحواس تمھارا نام لیتی بیدار ہوئ تھی۔میں نہیں جانتی تمھارا اور اس حادثہ کا کیا تعلق ہے مگر میں اتنا ضرور سمجھ گئ ہوں۔کہ اس کی اس زبو حالی کی وجہ تم ہو ۔تم سے دوری کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچی ہے۔
میں نہیں جانتی کہ وہ تمھارے لیے اہمیت رکھتی ہے یا نہیں یا یہ کہ تم اس سے محبت کرتے ہو یا نہیں ۔میں بس اتنا جانتی ہوں کہ تم اسے جان سے زیادہ عزیز ہو ۔وہ تم سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔میری چڑیا ایسی ہی ہے پاگل سی ۔ اس کے جذبات میں اعتدال نہیں ہوتا۔بس شدت ہوتی ہے ۔وہ تمھارے بغیر
جی تو رہی ہے مگر زندہ نہیں ہے۔چلو بیٹا اسے واپس لے آؤ اپنے پاس۔اسے میری پہلے والی زرمین بنا دو بیٹا۔ورنہ میری بچی گھٹ گھٹ کر ختم ہو جائے گی۔اس دنیا کی کوئی بھی لڑکی تمھیں اس جیسی محبت نہیں کر پائے گی۔چلو میری چڑیا کا ہاتھ تھام لو۔ اب تک جی رہی تھی وہ سسک سسک کر ۔ مگر آج سے دو روز قبل اس کی برداشت جواب دے گئی اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔ آگے جانے کیا کچھ ہو ؟
ان پر رقت طاری ہو چکی تھی۔مزنی نے انھیں سہارا دیا۔باقی نفوس یہ کہانی سنکر متحیر تھے۔وہ سبھی تو شاہ زر کی محبت کو یک طرفہ سمجھتے آئے تھے۔مگر یہ انکشاف ۔
“اب کیسی ہے زرمین ؟وہ ٹھیک تو ہے نا؟
مزنی متفکر سی گویا ہوئ۔
“وہ ٹھیک ہے ۔اس سے ملے بغیر ہی میں یہاں چلی آئی ۔اور کیا کرتی میں۔ اس کے علاؤہ کوئ راستہ نہیں نظر آیا مجھے سب کچھ ٹھیک کرنے کا ۔تم زرمین کی نند ہو؟”
مزنی کے نقوش کو دیکھ دائ ماں نے اندازہ لگایا تھا۔
“نند بھابھی کا رشتہ تو بہت آسان سا ہوتا ہے۔بہت پیچیدہ بہت خاص رشتہ ہے ہم دونوں کے درمیان۔”
مزنی نے مسکرا کر کہا۔
باتوں میں دائ ماں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ شاہ زر وہاں سے جا چکا تھا۔
“وہ کہاں چلا گیا؟
دائ ماں متحیر زدہ لہجے میں گویا ہوئ ۔
“آپ فکر نہ کریں وہ ٹھیک ہیں۔ زرمین کے تعلق سے یہ سب سنکر بس پریشان ہو گئے ہونگے ۔آپ نہیں جانتی کہ میرا بھائی زرمین سے محبت کرتا ہے یا نہیں۔ مگر یقین جانیے سارا شہر گواہ ہے کہ میرا بھائی زرمین سے کتنی محبت کرتا ہے ۔وہ اس کی لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے یہ ہم سبھی جانتے ہیں۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ان کی محبت اور وفاداری پر یقین آ جائے گا۔”
اسی لمحے فضاء میں اذان کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں ۔آخری روزہ ختم ہوا تھا۔ رمضان کا مبارک مہینہ اختتام کو پہنچا تھا۔
“چلیں سبھی افطار کے لیے بیٹھے میں بھائ کو لیکر آتی ہوں۔دائ ماں آپ بھی آئیں۔٬
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
حسب توقع وہ بالوں کو مٹھی میں جکڑے دیوانہ وار کمرے کے چکر کاٹ رہا تھا۔
“بھائ پلیز calm down کچھ نہیں ہوا ہے زرمین کو وہ ٹھیک ہے۔آپ کی صحت بھی ٹھیک نہیں ہے اس پر اسقدر stress خطرناک ہے۔'”
بازو سے پکڑ کر مزنی نے اس کا رخ اپنی سمت کیا تھا۔
“مزنی پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو ۔leave me alone”
وہ ہونٹ کاٹتا ازحد مضطرب نظر آرہا تھا۔
“بھائ پلیز سنبھالے اپنے آپ کو ۔کیا آپکو خوشی نہیں ہوئ حقیقت جانکر؟زرمین آپ سے محبت کرتی ہے بھائ۔آپ کی دعائیں قبول ہوئیں ۔آپ کا سب سے بڑا خواب شرمندہ تعبیر پا گیا۔”
وہ جوش سے بولی۔
“مزنی کیا تم نے سنا نہیں اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔وہ موت کے منہ میں تھی اورمجھے خبر تک نہیں ہوئ۔اگر اسے کچھ ہوجاتا تو میں کیا کرتا۔میرے ساتھ تو تم سب تھے۔ مگر اس نے تو تنہا یہ اذیت ناک وقت کاٹا۔سارے غم تنہا برداشت کرتی رہی۔وہ نازک سی لڑکی اندر ہی اندر احساس جرم میں گھٹتی رہی ہے۔”
وہ شکستہ لہجے میں بولا۔
“بھائ ہماری زندگی میں پیش آنے والے ہر حادثہ کے پیچھے پھر چاہے وہ اچھا ہو یا برا خدا کی کوئ مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔آپ سوچ رہے ہیں کہ زرمین احساس جرم کے بوجھ تلے نارسائی کا غم تنہا برداشت کرتی رہی ۔مگر آپ اس پہلو سے کیوں نہیں سوچتے کہ اگر زرمین کے لیے یہ دکھ و اذیت برداشت کے باہر نہ ہوتی تو دائ ماں کیا کبھی کسی کو خبر نہ ہوتی کہ وہ کسی کی منکوحہ ہے ۔جس شخص کو چھوڑ کر وہ تنہائی کا عزاب جھیل رہی ہے وہ اس کا شوہر ہے۔وہ اپنے شوہر سے شدید محبت کرنے کے باوجود تاحیات اس سے الگ رہنے کا فیصلہ لے چکی یے۔اور تو اور آپ بھی ساری عمر اسی عذاب میں جلتے رہتے کہ زرمین آپ سے محبت نہیں کرتی ۔اس کی زندگی میں آپ کی کوئ اہمیت نہیں ہے۔جبکہ حقیقت عین اس کے برعکس تھی۔وہ بھی آپ سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی آپ اس سے کرتے ہیں۔آپ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ گر مقدر میں آپ دونوں کا ملنا لکھا ہی نہیں ہے تو خدا آپ دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل کیوں لاکھڑا کرتا ہے۔اب تک تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ آپ کا ایکسیڈنٹ ہوجانےکےبعد زرمین کے جائے واردات پر پہنچ جانے کے پیچھے خدا کی کون سی مصلحت پوشیدہ تھی۔ آپ دونوں کے مقدر میں ملنا لکھا تھا کاتب تقدیر نے۔یقین جانیے بھائ دو روز قبل آپ کا ایکسیڈنٹ ہوجانا اور زرمین کا جائے واردات پر پہنچ جانا آپ کی ابتک کی زندگی میں ہونے والا سب سے زیادہ معجزاتی اور حسین اتفاق ہے۔بے شک ہم انسان بے ضرر ہوتے ہیں اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے۔آپ اب سارے ٹینشن چھوڑیں اور زرمین کو گھر واپس لانے کی تیاری کریں۔آپ کیا چاہتے ہیں؟ مزید وہ آپ کے غم میں روئے احساس جرم میں تڑپے۔”
“تم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوں مجھے ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر اس کے پاس جانا چاہیے۔ بس بہت رو چکی وہ اور بہت انتظار کر لیا میں نے۔ ”
وہ کار کی چابی اٹھا کر کمرے کے باہر کی سمت قدم بڑھانے لگا۔
“ایک منٹ بھائ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ شام ڈھل چکی ہے ہم یہ تک نہیں جانتے کہ زرمین کس علاقے میں رہائش پذیر ہے وہ ہم سے کتنی دوری پر ہے۔ دائ ماں بھی ازحد تھک گئ ہیں انھیں آرام کی اشد ضرورت ہے۔ہم سب کل صبح چلیں گے زرمین کو لینے۔ آفریدیس کی شان سے ہم اس گھر کی بہو کو رخصت کر کے لائینگے۔”
وہ کھنکتے لہجے میں گویا ہوئ۔
“میں جانتا ہوں وہ کہاں ہیں۔بس پانچ گھنٹوں کا راستہ ہے میں آدھی رات سے پہلے پہنچ جاونگا ۔”
وہ عجلت میں کہتا پلٹا تبھی اسے احساس ہوا کہ جلدی میں وہ کچھ غلط بول گیا تھا۔
“آپ جانتے ہیں زرمین کہاں ہیں؟
مزنی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
اپنی بے وقوفی پر سخت افسوس ہوا تھا اسے۔وہ مزنی کے عین مقابل آکھڑا ہوا۔
“میں تمھیں سب کچھ تفصیل سے بتاؤنگا مزنی ۔بس تم فی الحال کسی سے کچھ نہ کہنا۔ویسے تم ٹھیک کہہ رہی تھی میں تو فراموش ہی کر بیٹھا تھا کہ کل عید ہے۔ہم عید کے پر مسرت موقع پر جائینگے اسے لینے۔”
دونوں ہاتھوں سے اس کے شانو پر دباؤ ڈالتا وہ مزنی کو بہلا رہا تھا۔
“آپ بہت برے ہیں بھائ۔آپ جانتے تھے زرمین کہاں ہیں باوجود اس کے آپ نے مجھے بھنک تک نہ لگنے دی۔آپ کو اندازہ بھی ہے میں کسقدر فکر مند تھی زرمین کے لیے “۔
حسب توقع وہ خفا ہوگئ۔
“میں نے تمھیں اسی لیے نہیں بتایا تھا۔جوں ہی تمھیں پتہ چلتا تم اس کے پاس پہنچ جاتی ۔اور میں نہیں چاہتا تھا کوئ اسے فورس کرے۔”
وہ سمجھانے والے انداز میں بولا۔
“کہہ تو آپ درست رہے ہیں۔اس پورے عرصے میں بارہا میرا دل چاہتا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو میں اڑ کر زرمین کہ پاس پہنچ جاؤں ۔اسے بتاؤں آپ اس سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ہم سب اسے کتنا یاد کرتے ہیں۔اچھا ہی ہوا جو آپ نے مجھ سے یہ بات راز رکھی۔”
وہ بھر پور انداز میں مسکرا دی۔
“ویسے مجھے اتنا تو سمجھ آگیا ہے کہ جب جب زرمین اپنا لاکٹ آپ کے پاس چھوڑ جاتی ہے ۔وہ لوٹ کر آپ کے پاس ضرور آتی ہے۔”
اس کی اس منطق کو سن وہ خوش بھی ہوا اور حیران بھی۔عجیب تھی مگر حقیقت یہی تھی ۔
*******
اگلی صبح عید کے دن کی مبارک صبح تھی۔وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹی دائ ماں کی آمد کی منتظر تھی۔
“دیکھو بیٹی میں تمھارے لیے شیر خورمہ لیکر آئ ہوں۔ایمن نے بہت من سے بنایا ہے۔آج عید کا دن ہے نا اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونا چاہیے لہذا میں نے اسے جانے کےیے کہہ دیا ورنہ وہ تو یہاں آنے کی ضد کر رہی تھی۔”
نسیمہ چاچی وراڈ میں داخل ہوتے ہی اسٹیل کا ڈبہ کھولتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئیں۔
“نسیمہ چاچی دائ ماں کہاں ہیں؟ میں کب سے منتظر ہوں مگر وہ ہیں کہ آکے نہیں دے رہیں۔وہ ٹھیک تو ہیں نا ؟مجھ سے ملے بغیر اتنی دیر تک ان کا چین سے رہ پانا ناممکن ہے۔کیا وہ خفا ہیں مجھ سے؟”
وہ مضطرب سی اٹھ بیٹھی۔
اس کی بات پر نسیمہ بیگم بری طرح گڑ بڑا گئیں۔وہ اسے کیسے بتاتی کہ اسکی دائ ماں گھر پر موجود ہی نہیں ہیں ؟وہ تنہا میلوں دور شہر چلی گئی ہیں ۔
“ایسی کوئ بات نہیں ہے چندا ۔نا تو وہ بیمار ہیں نہ ہی تم سے خفا ہیں۔وہ تو خود ہی آرہی تھی تمھارے پاس مگر جوں ہی کھڑی ہوئیں نقاہت کی بدولت چکر آگیا ۔بمشکل انھیں گھر چھوڑ کر آپائ ہوں میں تمھارے پاس۔وہ تو بضد تھی ۔میری اس بات پر رضامند ہوئیں کہ ان کا اس حالت میں تمھارے پاس آنا تمھیں اچھا نہیں لگےگا۔تم مزید فکر مند ہوجاؤگی۔یوں بھی تمھاری حالت ٹھیک نہیں ہے۔تمھیں پریشان کرنا نہیں چایے انھیں۔”
نسیمہ چاچی نے سفید جھوٹ بولا۔
“چلیں چاچی فوراً چلیں ۔میں چلتی ہوں ان کے پاس ۔اب اور نہیں رک سکتی میں یہاں۔”
وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کے ارداے بھانپ نسیمہ چاچی حواس باختہ نظر آنے لگیں۔
“نہیں بیٹا تم ایسا نہیں کرسکتی ۔تمھاری حالت ٹھیک نہیں ہے۔ڈاکٹر نے تمھیں آرام کرنے کی ہدایت دی ہے ۔فی الوقت تم گھر نہیں چل سکتی۔”
وہ نا نا کرتی رہیں مگر وہ آندھی طوفان بنی ہسپتال کی عمارت سے باہر نکل پڑی۔
حویلی پہنچ کر حسب توقع وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن خالی کمرے کو دیکھ رہی تھی۔دائ ماں ندارد تھیں۔
“چاچی دائ ماں کہاں ہیں؟وہ ٹھیک تو ہیں نا؟ مجھے بتائیں۔ خدا کا واسطہ کچھ تو کہیں۔”
وہ چیخ اٹھے۔دہشت ناک وسوسے اسے ستانے لگے تھے۔
“وہ۔۔۔۔ دراصل بیٹا وہ۔۔۔۔ تمھاری دائ ماں شہر گئ ہیں۔۔۔۔۔۔
ہکلاتے ہوئے نسیمہ بیگم نے بادل نخواستہ اصل مدعا سنایا تھا۔
“شہر ۔۔۔کون سے شہر؟ ۔۔۔۔۔کیوں؟ ۔۔۔کیا وہ تنہا شہر گئ ہیں؟۔۔۔۔۔
وہ ناسمجھنے والے انداز میں گویا ہوئ۔
اس کے سوالوں کے جواب میں نسیمہ چاچی محض چند الفاظ ادا کر پائ تھیں۔
“تمھارے شوہر کے گھر گئ ہیں وہ”۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سننے کے بعد زرمین کا ردعمل کیا ہوگا۔
“میرے ۔۔۔۔ش۔۔۔۔۔شوہر۔۔۔۔۔گھر۔۔۔۔
نسیمہ بیگم کی بات کسی قیامت سے کم نہ تھی۔وہ ساکت رہ گئ۔
“سنو زرمین اس کے علاؤہ کوئ اور راستہ نہیں بچا تھا ندرت بیگم کے پاس سںب کچھ ٹھیک کرنے کا۔۔تمھاری حالت۔۔۔
جانے وہ کیا کچھ کہہ رہی تھیں اس کا ذہن تو ایکدم سے سن پڑ گیاتھا۔
شام کے سائے حویلی کے باہر سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔تبھی ہارن کی آواز نے زرمین کے سکتہ کو توڑا تھا۔سارا دن وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی تھی۔نہ نسیمہ بیگم کی کوئ بات وہ سن رہی تھی نہ خود کوئ بات کر رہی تھی۔
دائ ماں کمرے میں داخل ہوئیں ۔وہ دروازے کی سمت رخ کیے انھی کی منتظر نظر آرہی تھی۔
“دائ ماں آپ کیوں گئیں شہر ؟ایک دفعہ آپ مجھ سے پوچھ تولیتیں کے اصل مسٔلہ کیا ہے۔آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔کیا کہا آپ نے ان لوگوں سے؟ کیا سوچتے ہونگے وہ لوگ میرے متعلق؟
اس نے دائ ماں کو جھنجھوڑ ہی ڈالا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آج کہ دن کو تاریخ سے مٹا دے۔وقت کو پلٹ دے۔دائ ماں ایسا کیسے کرسکتی تھیں؟ بنا حقیقت جانے وہ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتی تھیں۔
“سنو زرمین جو ہونا تھا سو ہوگیا۔ ہم گزرے وقت کو واپس نہیں لاسکتے۔ مجھے تمھارے مسقبل کی فکر ہے ۔تمھاری زندگی مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔میں مزید تمھیں سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔مجھے تمھارے لیے جو بہتر لگا میں نے وہی کیا۔ماں ہوں میں تمھاری۔تمھارے لیے فیصلہ لینے کا مکمل حق ہے مجھے۔لہذا سوال جواب کا سلسلہ بند کرو اور اپنے گھر واپس لوٹنے کی تیاری کرو ۔تمھارے سسرال والے باہر بیٹھے تمھارے منتظر ہیں۔ وہ جوڑا جسے تم الماری کے اندرونی خانے میں چھپا کر رکھتی ہو وہی پہن لینا۔اس جوڑے میں بہت خوبصورت لگوگی تم ۔ سب کچھ اتنا جلدی جلدی ہوا کہ رخصتی کے لحاظ سے کوئ جوڑا نہیں بنوا پائ میں تمھارے لیے۔اور ہاں وہ سفید رنگ کا سوٹ جسے تم خون آلود ہونے کے باوجود تہہ کرکے الماری میں رکھ دیا تھا۔اسے ساتھ لے جانا مت بھولنا۔”
کمال اطمینان سے اس کے سر پر بم پھوڑ کر دائ ماں کمرے کے باہر نکل گئ تھیں۔وہ خفا نہیں تھیں۔وہ انتہا سے زیادہ خوش نظر آرہی تھیں۔ان کے الفاظ سخت تھے لہجہ نہیں ۔
تبھی دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا۔سفید فراک میں ملبوس دعا دوڑتی ہوئی اس سے لپٹ گئی تھی۔وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکی ۔یہ کوئ خواب نہیں تھا دائ ماں سچ کہہ رہی تھیں۔آفریدی ولا کے مکین فی الوقت اس حویلی کے صحن میں ایستادہ تھے۔
” ۔چلیں آنٹی جلدی سے ریڈی ہوجائیں ہم سب آپ کو لے جانے آئیں ہیں۔آپ کی چھٹیاں finish ہوئیں۔آئیندہ سے آپ دھیان رکھیے گا کہ کچھ کم دنوں کے لیے آپ اپنی ممی کے گھر رہیں ۔میری ممی بھی granny کے گھر جاتے ہیں مگر اتنی لمبی چھٹیوں کے لیے نہیں۔آپ کو دھیان رکھنا چاہیے أپ کے بغیر میرے پرنس چاچو بہت sad ہوجاتے ہیں اور میں بھی۔”
حسب عادت دعا شروع ہوچکی تھی۔وہ پھیکی انداز میں مسکرا دی۔
“تم باہر میرا انتظار کرو دعا میں ابھی آتی ہوں” ۔
دعا کھکھلاتی ہوئ باہر نکل گئ۔
دروازے کو فوراً سے پہلے مقفل کر اس نے اطراف میں نظر دوڑائی تھی۔
“مجھے جلد از جلد یہاں سے نکلنا ہوگا۔میں دوبارہ آفریدی ولا نہیں جاسکتی۔میں شاہ زر کی زندگی کا حصہ نہیں بن سکتی۔میں اسے ڈیسرو نہیں کرتی ۔ان سب کی زندگیوں میں زہر گھول کر انہی لوگوں کے ساتھ نئ زندگی کے آغاز کا حق نہیں ہے مجھے۔”
ایک دفعہ پھر خود کو قصوروار گرادنتی ہوئ وہ کمرے کے عقبی دروازے سے حویلی کے باہر نکل گئ۔عجلت میں وہ چپلیں پہننا
بھی بھول گئ تھی۔وہ سرپٹ دوڑتی جارہی تھی۔وہ بس کہیں دور چلی جانا چاہتی تھی ان سب کی زندگیوں سے دور۔
دفعتاً ایک کانٹا اس کی ایڑی کو زخمی کر گیا۔بے ساختہ اس نے زخمی پیر زمین سے اوپر اٹھا لیا۔نتیجتا توازن بگڑا اس سے قبل کہ وہ منہ کے بل گرتی وہ کسی کے سینے سے جا لگی
۔کولون کی شناسا مہک اس کی سانسوں میں اتر گئ۔وہ بنا دیکھے جان چکی تھی وہ کس سے ٹکرائی ہے۔وہ اس مہک کو کیسے بھول سکتی تھی۔جس شخص کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے حویلی سے بھاگی تھی راستے میں اسی شخص سے ٹکراگئی تھی۔تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جس سے فرار اختیار کر رہی تھی اسی کی بانہوں میں آگری۔
وہ اچھل کر دور ہٹی تھی ۔نگاہیں زمین پر ثبت تھیں۔گویا اوپر دیکھنا گناہ ہو۔دل کی دھڑکن ایکدم تیز ہوئ تھی۔جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔
“مانا کہ تم بڑی ہی بے صبری کے ساتھ میرا انتظار کر رہی تھی۔مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم ننگے پاؤں میرے استقبال کے لئے چلی آؤ وہ بھی دوڑتی ہوئی۔اس درجہ کی بے قراری اچھی نہیں ہوتی۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری محبت کی شدت کو دیکھ میں مغرور ہو جاؤں۔”
وہ شرارتی لہجے میں گویا ہوا۔
وہ بولا تو اسے احساس ہوا کتنا ترس گئ تھی اس کی سماعت اس آواز کو سننے کے کیے۔بڑی مشکل سے اس نے اپنی نظروں کو اوپر اٹھایا۔وہ اس کے مقابل کھڑا مسکرا رہا تھا۔اس کے ماتھے پر پٹی بندھی تھی ۔اس کا محبوب اس کے عین مقابل کھڑا تھا۔آنکھوں میں چاہت کا سمندر لیے وہ اس ایک ٹک دیکھے جارہا تھا پلکیں جھپکائے بغیر۔اس نے ایک بار پھر نظریں جھکا لیں۔
بے خیالی میں زخمی پاؤں دوبارہ زمین پر رکھ دیا کانٹے پر دباؤ پڑا درد کی ایک ٹیس اٹھی دماغ نے پیر کو زمین سے اٹھانے کا سگنل دیا۔ایک بار پھر اس نے پیر زمین سے اوپر اٹھایا ایکبار پھر توازن بگڑا اس سے قبل کہ وہ زمین بوس ہوتی ایکبار پھر اس کے شوہر نے ہوا میں معلق اسکاہاتھ تھام کر اسے گرنے سے بچالیا۔ہمیشہ کی طرح ۔وہ اسے گرنے نہیں دیتا تھا۔کسی صورت میں نہیں۔
روکے ہوئے آنسو پلکوں کا بند توڑ کر باہر نکلے۔ضبط جواب دے گیا۔اس کا ہاتھ تھامے ہوئے شاہ زر نے اسے نزدیک ہی چٹان نما پتھر پر بیٹھایا۔اور خود پنجوں کے بل اس کے نزدیک زمین پر بیٹھ گیا۔
“تھوڑا درد ہوگا میں کانٹا نکال رہا ہوں۔برداشت کرلینا اوکے۔ون،ٹو ،تھری۔”
تھری کی آواز کے ساتھ ہی اس نے کانٹا کھینچ کر باہر نکال لیا ۔خلاف توقع وہ ساکت بیٹھی رہی وہ قدرے حیران ہوا تھا۔اس قسم کے چھوٹے اور بے ضرر زخموں سے اب اسے تکلیف نہیں ہوتی تھی۔
“لو ہوگیا۔ہم خدا کی مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے ۔ہم انسان اسقدر احمق کیوں ہوتے ہیں۔میری شدید خواہش تھی کہ سب کے ساتھ میں بھی تمھیں لینے حویلی جاؤں۔میں تمھارے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا۔مجھے دیکھ تم خوش ہوتی یا حیران تمھارے مدمقابل کھڑا ہوکر میں یہ منظر دیکھنا چاہتا تھا۔مگر عین حویلی سے چند قدموں کی دوری پر میری اچھی خاصی صحت مند scorpio بند پڑ گئی۔باقی سبکو پہلے جانے کا کہہ کر میں میکینک کے بندوبست میں لگ گیا۔خیر وہ تو جلد ہی دستیاب ہوگیا۔باوجود اسکے میں اس پل تقدیر سے بہت شاکی ہوا۔مجھے افسوس تھا میں وہ تمھارا وہ پہلا تاثر نہ دیکھ سکا۔کیونکہ اس وقت میں بے خبر تھا کہ میری بیوی ایک دفعہ پھر سے راہ فرار اختیار کرنے کے چکر میں ہے۔اور حویلی میں اس کو رخصت کرنے آئیں اس کے سسرال والے اس کے ارادوں سے یکسر بے خبر ہیں ۔اگر میں لیٹ نہ ہوتا تو یقیناً تم نے ایک بار پھر میری دسترس سے دور چلے جانا تھا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے خدا مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔اتنی محبت کہ میری زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے ہر برے حادثے کے پیچھے میرے لیے کوئ بہتری چھپی ہوتی ہے۔”
اس کے پاس گھٹنوں پر بیٹھا وہ گویا ہوا۔
“تم ٹھیک ہی کہتے تھے تمھارے reflexes بہت اچھے ہیں اور میرے بہت برے۔اگر میں تم سے دور رہی تو میں گرتی رہونگی ہر موڑ پر ہر قدم پر۔تم سے بہتر مجھے کوئ نہیں سنبھال سکتا۔”
وہ آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اس کے چہرے پر جمائے ہوئ بولی۔
“That’s like my wifee.unique and different.
واؤ کیا انداز ہے اظہار محبت کا ۔تمھارے لبوں سے نکلے یہ الفاظ سنکر مجھے تم سے ایک بار پھر محبت ہوگئ ہے۔وہ بھی پہلے سے شدید محبت۔خیر لوگوں کی زبانی سنکر مجھے شبہ تھا کہ کیا واقعی The zarmeen Shahzar Aafredi مجھ سے محبت کر سکتی ہیں؟کیا میں اس قابل ہوں ؟کیا وہ میرے لیے بھی اتنی ثڑپ رکھ سکتی ہے جتنی کہ میں اس کے لیے رکھتا ہوں؟تمھارے اس confessionنے میرا شبہ دور کر دیا۔”
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔
اس کا محبوب اس کے سامنے کھڑا تھا۔کتنا روئ تھی وہ اس شخص کے لیے۔کتنا تڑپی تھی اس کی جدائ میں۔وہ لوٹ آیا تھا اس کا ہاتھ تھامنے۔دوری تھی تو بس اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کی ۔اس کا ہاتھ تھامنے کے بجائے وہ اس کے سینے سے جالگی۔
اگلے ہی لمحے اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔وہ اس کے سینے سے لگی باآواز بلند روئے جارہی تھی۔
“مجھے اپنے ساتھ لے چلو شاہ زر۔تھک گئ ہوں میں خود کو سزا دیتے دیتے۔اپنے آپ سے لڑتے لڑتے۔میں لاکھ جتاؤں کہ میں تمھارے بغیر جی سکتی ہوں مگر میرا دل جانتا ہے یہ ناممکن ہے۔میں تمھارے بغیر ادھوری ہوں۔میں بخوبی واقف ہوں میں تمھارے لائق نہیں ہوں۔میں نے تمھیں اور آفریدی ولا کے مکینوں کو بہت تکلیف پہنچائ ہے۔میں انتہا سے زیادہ جذباتی اور احمق لڑکی ہوں۔ان ساری خامیوں کے باوجود تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو کیونکہ میں تمھارے بغیر نہیں جی پاؤنگی۔”
وہ ہچکیوں کے درمیان بولتی جارہی تھی۔
شاہ زر نے اسے نہیں روکا۔وہ چاہتا تھا وہ اپنا سارا غبار آج ہی نکال دیے۔
“I deserve you and you deserve me.آئندہ میں تمھارے لبوں سے یہ الفاظ نہیں سننا چاہتا کہ تم میرے قابل نہیں ۔تم میرے لیے اور میرے گھر والوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہو یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
تم مجھ سے محبت کرتی ہو اس خیال سے ہی مجھے اپنا آپ معتبر محسوس ہورہا ہے۔میری دعائیں قبول ہوئیں۔اس نے تمھارے دل میں میری محبت ڈال دی۔میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئ۔خیر برا وقت ختم ہوا۔اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔میں تم سے یہ وعدہ تو نہیں کرونگا کہ میری ساری زندگی تمھیں خوش رکھونگا یا یہ کہ تمھاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا ، تمھارے ساتھ جیونگا اور ساتھ مرونگا۔کیونکہ میں ایک انسان ہوں بے ضرر ادنیٰ سا انسان۔ہم سب اس پاک ذات کے حکم کے غلام ہیں۔ہمیں بہت بڑے بڑے وعدے نہیں کرنے چاہیے۔ میں تو یہ تک نہیں جانتا کہ اگلے لمحے میرے ساتھ کیا ہوگا ساری زندگی کا وعدے کیسے کرلوں میں تمھارے ساتھ۔بس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زندگی اور موت تو میرے بس میں نہیں ہے لیکن جب تک میری حیات رہی میں تمھارا وفادار رہونگا ،تم سے محبت کرونگا۔life is all about ups and downs. تقدیر ساتھ رہی تو زندگی کے ہر نشیب و فراز میں تمھارے ساتھ رہونگا۔”
وہ نم لہجے میں گویا ہوا۔
دفعتاً تیز روشنی نے ان کی توجہ اپنی طرف کی تھی۔مزنی دانستہ ٹارچ کی روشنی ان کے چہرے پر مرکوز کر رہی تھی۔مزنی کے پیچھے آفریدی ولا کے باقی افراد بھی ان کے نزدیک آرہے تھے۔
“بہت بدتمیز ہو تم زری۔یہاں چھپ کر اپنے ہیسبنڈ سے ملاقاتیں کی جارہی ہیں اور ہم سب بےچارے ساری حویلی میں پاگلوں کی طرح تمھیں تلاش کر رہے تھے۔”
زرمین کو گلے سے لگاتے ہوئے مزنی نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
وہ ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔وہ
زرمین اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکی۔
“جی ہاں میرے بیوی میرے استقبال کے لئے حویلی کے باہر چلی آئی ۔تمھیں اس سے کیا مسٔلہ یے؟جلن ہورہی ہے ؟ہماری محبت دیکھ کر۔”
شاہ زر نے بڑی صفائی سے اصل وجہ پر پردہ ڈال دیا۔دائ ماں متفکر سی زرمین کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
“خدا نہ کریں میری فیانسی کسی کی محبت دیکھ کر جیلس فیل کرے۔ وہ تو پہلے ہی میری محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہے۔”
ذین گفتگو میں کودا تھا۔مزنی نے فخر سے زین کی سمت دیکھا۔
“آپ ٹھیک کہہ رہی تھیں دائ ماں مجھے اپنے گھر چلے جانا چاہیے۔آپ میرے متعلق کوئ غلط فیصلہ لے ہی نہیں سکتیں۔”
ان گردن کے گرد بیٹھے حمائل کرتے ہوئے زرمین نے انھیں مطمئن کرنا چاہا۔وہ مسکرا دیں۔
“اچھا چلیں جلدی سے سب گاڑی میں بیٹھ جائیں۔ گھر پہنچنے تک کافی رات ہوجائے گی۔”
شاہ میر نے جلدی کا شور مچایا۔
“اس دفعہ عید نے ہمیں دگنی خوشیوں سے نوازا ہے۔”
زرمین کے سر پر دست شفقت رکھتی عالیہ بیگم بھیگے لہجے میں گویا ہوئیں۔
“اوہو آنٹی آپ اس پر مسرت موقع پر آنسو تو نہ بہائیں چلیں سب گاڑی میں بیٹھیں۔”
مزنی نے عالیہ بیگم کاموڈ بدلتا دیکھ فوراً کہا۔
“مگر ہم اپنا سامان تو لے لیں”۔
دائ ماں نے پریشان ہو کر کہا۔ شاہ زر اور آفریدی ولا کے سبھی افراد اس بات پر بضد تھے کہ زرمین کے ساتھ ساتھ دائ ماں کو بھی اب آفریدی ولا میں رہنا ہوگا۔لاکھ منع کرنے کے باوجود شاہ زر نہیں مانا تھا۔بلاخر انھیں ہار ماننا پڑی تھی۔
ان کی بات پر سبھی اپنی جلدبازی پر مسکرا اٹھے۔
کچھ ہی دیر بعد یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔
****”*
“اٹھ جائیں جناب صبح ہوچکی ہے خوب دیکھنے کا وقت ختم ہوا۔”
واش روم سے باہر آتے ہی اس نے شاہ زر کے سر سے پاؤں تک تنے کمبل کو کھینچا۔
مندی مندی آنکھوں سے اس نے گیلے بالوں کو سلجھاتی اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
“اوفو ابھی ابھی تو آنکھ لگی تھی اتنے جلدی صبح ہوگئ کمال ہے-”
“ہاں ہاں رات بھر تم ایک ہی رٹ لگائے رکھتے ہو کہ نیند نہیں آرہی۔دنیا جہاں کی تمھارے باتیں مجھے بھی سونے نہیں دیتیں۔اور صبح ہوتے ہی یہ شیکایت واقعی کمال ہے۔”
اسی کے انداز میں جواب آیا تھا۔
”
شہر کی ساری لڑکیاں تم سے جیلس ہوتی ہونگی آخر کو مجھ جیسے ہینڈسم بندے کی وائف ہونے کا شرف حاصل ہے تمھیں۔اور تم اس لڑکی سے جیلس ہوتی ہو جو بلاناغہ میرے خوابوں میں آتی ہیں۔”
وہ اٹھ بیٹھا۔علی الصبح اپنی عزیز ترین بیوی کے ساتھ نوک جھونک اس کا موڈ فریش کردیتی تھی۔
اس کی بات سنکر نہ تو وہ خفا ہوئ نہ متحیر۔وہ اس کے نزدیک چلا آیا۔
“تم پوچھوگی نہیں وہ لڑکی کون ہے جو میرے خوابوں میں آتی ہے۔”
“نہیں کیونکہ میں جانتی ہںوں کہ وہ لڑکی میں تو ہرگز نہیں ہوسکتی۔آدھی رات کو باتیں کرتے کرتے سو جانے والے مرد جو ضروری دعائیں پڑھیں بغیر ہی سو جاتیں ہیں ان کے خوابوں میں فی میل جنات ہی آسکتی ہیں۔لہذا مجھے فکر مند ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔میرا مقابلہ ان لڑکیوں سے ہیں جو انسان ہوں، جنوں یا چڑیلوں سے نہیں۔”
کمال اطمینان سے مسکراتے ہوئے اس نے اپنا رخ شاہ زر کی طرف کیا تھا۔
“ہائے، میری بیوی سے باتوں میں جیت پانا ممکن ہے۔حاضر جوابی میں تمھارا کوئ ثانی نہیں ہے ۔”
اس کی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے وہ فخر سے بولا۔
“جی بلکل ،کسی اور کے باتوں کو جواب مجھے بھلے ہی نہ سوجھے تمھاری باتوں کا جواب دینا بخوبی آتا ہے مجھے۔اب جاؤ اور فریش ہو جاؤ یاد ہے نا آج مزنی کے ساتھ لہنگے کی شاپنگ کے لیے جانا ہے ہمیں۔”
اس نے یاد دہانی کروائی۔
“اوہ میں تو بھول ہی گیا تھا۔میں دومنٹ میں باہر آتا ہوں۔”
وہ فوراً واش روم میں گھس گیا۔
وہ پلٹی اور ہمیشہ کی طرح اس نظر دیوار پر آویزاں تصویروں پر جم گئ۔ اس کی نظر جب کبھی ان تصاویر پر پڑتی تو واپس پلٹنا بھول جاتی تھیں وہ مختلف ممالک کے خوبصورت مقامات پر کھینچی گئیں اس کی اور شاہ زر کی تصویریں تھیں۔ محض چند ماہ کے اندر وہ تقریباً آدھی دنیا گھما چکا تھا اسے۔بیڈروم کی اس دیوار پر تصاویر کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔شاہ زر سیر و سیاحت کا بہت شوقین تھا۔ان ساری تصاویر میں سے اسے ایک تصویر سب سے زیادہ پسند تھی۔ اپنے ولیمے کی تقریب کی تصویر سے بھی زیادہ اسے وہ تصویر عزیز تھی۔اس تصویر میں وہ دونوں کپل واچیس اور کپل ٹی شرٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔شاہ زر اسے اپنے ایک بازو کے گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔وہ دونوں مسکرا رہے تھے۔وہ کمیرے کی طرف دیکھ رہی تھی اور شاہ زر اسکی طرف۔بلاشبہ وہ تصویر بہت خوبصورت تھی۔محبت سے بھر پور۔
وہ تصویر کو دیکھنے میں محو تھی تبھی شاہ زر کا فون گنگنا اٹھا۔اس کی محویت ٹوٹی تھی۔
اس نے فون اٹھایا اسکرین پر نادر نام جگمگا رہا تھا۔نام کے ساتھ ایک تصویر بھی تھی۔اس تصویر کو دیکھ وہ متحیر رہ گئ۔اس چہرے کو وہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔ مگر یہاں نہیں اس شہر سے میلوں دور گاؤں میں۔کبھی اسکول کے پاس تو کبھی حویلی کے نزدیک وہ اسے نظر آجاتا تھا۔ممکن تھا وہ اس کی تصویر دیکھ کر اسے نہ پہچان پاتی مگر اس کے نقوش کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں جیسے تھے۔اس گاؤں میں ایسے نقوش رکھنے والا وہ واحد شخص دیکھا تھا اس نے ۔وہ چہرہ اسے یاد رہ گیا۔اور اب شاہ زر کے فون پر اس شخص کی تصویر دیکھ حیران ہونا لازمی تھا شاہ زر اس آدمی کو کیسے جانتا تھا؟وہ آدمی کون تھا ؟
تبھی واش روم کا دروازہ کھلا وہ باہر نکلا تھا۔
فون مسلسل بج رہا تھا۔
“تمھارا فون ہے۔”
اس نے اسمارٹ فون شاہ زر کی طرف بڑھایا۔
“ہاں ،نادر بولو۔اوکے ٹھیک ہے تم مسڑ وارثی کے ساتھ آج شام کی میٹینگ رکھ لینا ۔اوکے ڈن۔”
رابطہ منقطع کرکے وہ پلٹا۔
سینے پر ہاتھ لپیٹے وہ عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“یہ نادر کون یے؟
سوال آیا تھا۔
وہ حیران ہوا اس سے قبل زرمین نے کبھی آفس یا کلیگس کے تعلق سے کوئ سوال نہیں کیا تھا۔
“میرا سیکریٹری ہے۔”
مختصر جواب دیا۔دور کہیں خطرے کی گھنٹی بجی تھی۔
“تمھارا سیکرٹری چند ماہ قبل گاؤں میں کیا کر رہا تھا؟کیا وہ وہاں کا رہنے والا ہے؟میں نے دیکھا تھا اسے کئی بار۔”
انکوائری کا آغاز ہوا تھا۔
“نہیں ہرگز نہیں اس کا اس گاؤں سے کوئ تعلق نہیں ہے ۔تمھیں غلط فہمی ہوئ ہوگی۔ اس کا تعلق کشمیر سے ہے۔کسی اور کو دیکھا ہوگا تم نے۔”
شاہ زر بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
‘نہیں مجھے یقین ہے میں نے اسی شخص کو دیکھا تھا۔ مجھے بتاؤ شاہ زر حقیقت کیا ہے۔تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو۔”
وہ ہار ماننے والوں میں سے نہ تھی۔
بات سنبھلتی نظر نہیں آرہی تھی۔شاہ زر نے ایک ٹھنڈی سانس لیکر خود کو سچ بولنے پر آمادہ کیا۔
“وہ دراصل زری۔۔۔۔ ۔وہ۔۔۔۔۔ میں میں نے اسے بھیجا تھا وہاں۔وہ تم پر نظر رکھتا تھا۔نظر رکھنے سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ میں تمھاری جاسوسی کروا رہا تھا۔بس مجھے خبر دیتا تھا وہ تمھاری خیریت کے تعلق سے۔Iam sorry زری میں نے تمھاری privacy میں دخل اندازی کی مجھے یقین ہے یہ سنکر تمھیں دکھ پہنچا ہوگا۔مگر میں کیا کرتا ؟مجھے فکر رہتی تھی تمھاری۔اس کے علاؤہ اور کوئ راستہ نہ تھی تمھاری خبر گیری کا۔”
ایک مجرم کی طرح اس نے اصل مدعا سنایا تھا۔زرمین کے خفا ہو جانے کا اندیشہ ستارہا تھا۔
“وہ پہلے سے میرا سیکریٹری نہیں تھا۔وہ ایسے ہی کام انجام دیتا تھا معاوضہ کے ایوز۔ کوئ permanant روزگار کا ذریعہ نہیں تھا اس کے پاس۔ وہ تمھارے متعلق خبریں پہنچایا کرتا تھا ۔ان دنوں میرے لیے وہ خبریں زندگی کی نوید ہوا کرتی تھیں ۔ایک انسیت سے ہوگئ تھی اس سے مجھے۔تم سے وابستہ کسی بھی شئے کسی بھی فرد کو خود سے دور رکھنا گوارا نہیں ہے مجھے۔سو اسے بھی اپنے ساتھ رکھ لیا ۔
”
اس نے سلسلہ کلام جوڑا۔
وہ اپنی بات ختم کرتے کے ساتھ ہی ذہن میں اسے منانے کی طریقے سوچنے لگا۔
وہ ہنوز ہاتھ باندھے کھڑی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔مگر اسکے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے یکایک بھری تھیں۔
اس کی یہ حالت دیکھ وہ ازحد پریشان ہو گیا۔
“زری Iam sorryپلیز تم رو۔۔۔۔۔۔۔
اس سے قبل کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتا وہ دوڑ کر ان کے درمیان کا فاصلہ مٹاتی اس کے سینے سے لگ گئ۔
اس کا ردعمل غیر متوقع تھا خفگی جتانے کے بجائے وہ رو رہی تھی۔وہ مزید پریشان ہواٹھا۔
“تم مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو شاہ زر؟مجھ میں تو ایسی کوئ خاصیت نہیں ہے کہ مجھے اسقدر شدت سے چاہا جائے۔میں نے اپنی زندگی میں کونسی نیکی کی تھی جو خدا نے میرے نصیب میں تمھیں لکھ دیا۔۔میں تم سے اتنی محبت کبھی نہیں کر پاؤنگی جتنی تم مجھ سے کرتے ہو۔ تمھاری محبت کے سامنے مجھے میری محبت بہت ہلکی اور کمتر محسوس ہوتی ہے ۔میں چاہے جتنی بحث میں تم سے جیت جاؤں محبت کے معاملے میں نہیں جیت سکتی ۔”
اس کے سینے پر ٹھوڑی ٹکائے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ بھیگی ہوئی لہجے میں گویا ہوئ۔وہ رو بھی رہی تھی اور ہنس بھی رہی تھی۔اس کے چہرے پر زاروقطار بہتے آنسو تشکر کے آنسو تھے۔
اس کے رونے کی اصل وجہ جان کر شاہ زر کی جان میں جان آئ تھی۔اس کے محبت سے پر بیان پر وہ کھل کر مسکرا دیا۔
“میں تمھیں کیسے مل گیا؟ یہ تو میں نہیں جانتا، مگر تم مجھے سگنل توڑ کر ،نو پارکنگ زون میں گاڑی پارک کرکے اور دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے کے نتیجے نصیب ہوئ ہو۔یقین جانو میں خدا کے حضور میں شکر کے سجدے بجا لاتا ہوں کہ ان دنوں میں اشعر بھائ کی طرح مسٹر پرفیکٹ نہیں تھا۔9to 5 خاموشی کے ساتھ کام کرکے گھر لوٹنے والے بندے کے ہاتھ لگنے والی لڑکی نہیں تھی تم ۔تمھیں حاصل کرنے کے لیے بہت آوارہ گردی کرنا پڑی ہے مجھے۔
“کمال اطمینان سے اسے بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے وہ گویا ہوا۔
اس کی بات پر زرمین کے تاثرات ایکدم سے بدلے۔
” تم بہت بد تمیز ہو۔تم کبھی نہیں سدھروگے۔میری جاسوسی کرانے سے قبل ایک بار بھی نہیں سوچا تم نے۔تم Bad boy ہی رہوگے۔تم نہیں سدھرنے والے۔”
اس کے سینے پر مکا مارکر وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔
“زرا سنبھل کر میڈم، اسی Bad boy کی عشق میں گرفتار ہیں آپ ۔”
وہ فخر سے بولا۔
“میں کیاکرتی Its hard to
resist a bad boy who is a good man.”
ناز سے کہتی وہ اس کے بانہوں کے حصار سے نکلتی کمرے سے باہر نکل گئ۔
وہ آواز دیتا رہ گیا۔
آفریدی ولا میں شادی والے گھر کی چہل پہل نظر آتی تھی۔ مزنی کی شادی قریب تھی۔ہر شخص ضرورت سے زیادہ مصروف نظر آرہا تھا۔مرد حضرات خواتین کو شاپنگ پر لے جانے کا وعدہ کرتے ہوئے آفس کے لیے نکل رہے تھے۔گھر سے باہر نکلنے سے قبل نوجوان نسل دائ ماں سے دعائیں لینا نا بھولتی تھی۔فی الوقت دائ ماں آفریدی ولا کی سب سے بزرگ ہستی تھیں۔ان کی دعائیں لیکر گھر سے باہر نکلنے کی شاہ زر سمیت سبھی کو عادت ہوگئ تھی۔
“شاہ زر اور زرمین عجلت میں سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئے تھے۔
حسب عادت شاہ زر صوفے پر براجمان دائ ماں کے سامنے جھکا تھا۔اس کے سر پر دست شفقت پھیر کر دائ ماں نے اسے دعائیں دی تھیں ۔
“دائ ماں ہم لوگ نکل رہے ہیں مزنی شاپنگ سینٹر پہنچ چکی ہے مزید تاخیر ہوئ تو وہ ناراض ہو جائے گی۔”
عجلت میں کہتی ہوئ زرمین ہال کی چوکھٹ عبور کر گئ۔
” دو گھڑی رک کر میری بات تو سن لو چڑیا۔یہ لڑکی نہیں سدھرے گی آخری وقت پر ہڑبڑاہٹ میں کام کو انجام دینا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔”
دائ ماں اسے آواز دیتی رہ گئی۔
شاہ زر مسکراتا ہوا زرمین کی تقلید میں باہر نکل گیا۔
شاہ زر نے سگنل پر گاڑی روکی تھی دونوں دونوں محو گفتگو تھے تبھی تھوڑی دوری پر ایک بائیک سوار اور لڑکی کے درمیان ہورہی بحث نے ان کی توجہ اپنی جانب کرلی۔
“اے مسٹر Are you blind.کیا آپ کو دکھائ نہیں دیتا؟ ریڈ سگنل کے دوران اپنا ہوائی جہاز اڑائے جارہے ہیں۔اگر آپ سے سگنلز برداشت نہیں ہوتے تو ہوائ سفر کیا کریں۔وہاں سگنلز نہیں ہوتے۔زرا سی تاخیر کردیتے آپ بریک لگانے تو میں اپاہج ہوکر رہ جاتی آج۔”
کالج بیگ کندھوں پر لٹکائے وہ لڑکی غصے کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے گویا ہوئ تھی۔
“دیکھیے میڈم دوسروں کو مفت مشوروں سے نوازنے کے بجائے آپ اپنی ساری توجہ روڈ کراسنگ پر مرکوز کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔اسطرح آپ کے اپاہج یا معذور ہونے کے چانسس کافی حد تک کم ہو جائینگے۔”
طنزیہ لہجے میں جواب آیا تھا۔
بائیک سوار اور اس لڑکی کی بحث جاری تھی۔
وہ دونوں نے ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔کار میں شاہ زر اور زرمین کے بے ساختہ قہقہے گونج اٹھے۔
“کیا خیال ہے میڈم ۔ہمارے کہانی جیسی ایک اور کہانی کا آغاز ہونے جارہا ہے۔”
وہ مسکراتا ہوا
بولا۔
“اس دنیا میں روزانہ ہزاروں نہی کہانیوں کا آغاز ہوتا ہے مگر مجھے کامل یقین ہے ان کہانیوں میں سے کوئی بھی کہانی ہماری زندگی کی کہانی جیسی نہیں ہوسکتی۔کیونکہ اس پوری دنیا میں کوئی اور شخص شاہ زر نہیں ہوسکتا ۔اور اس پوری دنیا میں کوئ بھی لڑکی اتنی خوش نصیب ہوسکتی جتنی میں ہوں۔”
وہ محبت سے پر نگاہیں شاہ زر کے چہرے پر ثبت کیے فخریہ لہجے میں بولی۔
“As always you are absolutely right. اس دنیا میں کوئی بھی کہانی ہماری کہانی جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس پوری دنیا میں کوئی
بھی لڑکی زرمین فاروقی جیسی نہیں ہوسکتی۔اور اس پوری دنیا میں کوئ اور لڑکا مجھ سے زیادہ خوش نصیب نہیں ہوسکتا۔”
اسی کے انداز میں جواب آیا تھا۔
اشارہ کھلا تھا۔ بائیک سوار اور لڑکی ہنوز بحث میں مصروف تھے ۔
وہ دونوں مسکرا دئے۔
شاہ زر نے گاڑی آگے بڑھا دی ایک روشن مستقبل محبت، اعتماد اور وفا سے پر حیات ان کی منتظر تھی ۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...