کسی خوشی پر کوئی حق نہیں اور آپ جیسے اچھے انسان کی تو میں ہر گز بھی قابل نہیں “۔
وہ اپنے سے فاصلے پر بیٹھی لڑکی کو دکھ سے دیکھ رہا تھا
جس نے زندگی میں بہت سے دکھ اٹھائے تھے جو بظاہر بہت بزدل اور کمزور تھی لیکن اندر سے بہت بہادر تھی۔۔۔
چلیں زوبیہ “۔۔
وہ اتنی دیر بعد بولا بھی تو کیا؟؟
وہ گھٹنوں پر سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔
اسکے چہرے کے تاثرات نہیں بدلے تھے
مگر زبان پر چپ کی مہر لگ گئی تھی۔۔
وہاں سے اٹھتے وقت اس نے محسوس کیا وہ اس شخص کا بدلنا سہ نہیں پائیگی اگر یہ شخص بھی بدل گیا اور اسے چھوڑ گیا تو اب کی بار وہ شاید واقعی مرجائیگی۔۔۔
وہ کبھی کسی کے آگے نہیں کھلی تھی اسکی کوئی دوست نہیں تھی کوئی رازدار نہیں تھا اسکو اس شخص کے سامنے اپنے اوراق زندگی پلٹنے پر کوئی افسوس نہیں تھا۔۔
اس نے خود کو بہت ہلکا محسوس کیا تھا۔۔۔
حجستہ کی موت کے بعد جس سکتے کی کیفیت میں وہ تھی وہ کیفیت یکسر ختم ہو چکی تھی۔۔ڈیوٹی آف ہونے کے بعد وہ حجستہ کے گھر چلی آئی تھی۔۔۔اب جب وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس پر اک قرض باقی ہے حجستہ کے خون کا قرض ۔۔۔کیا اس کا خون رائیگا جائیگا۔۔؟؟
اسے یقین تھا کہ اسکی ساس اور شہباز اس معاملے میں اسکا ساتھ دینگے۔۔۔انہوں نے بجھے دل سے استقبال کیا اسنے آمد کا مقصد بتایا تو دونوں بوکھلا گئے۔۔۔ہم پولیس کو بیان دے چکے ہیں گولی غلطی سے پستل صاف کرتے ہوئے چلی تھی ۔۔۔”
شہباز نے ہچکچاتے کہا۔۔۔
کوئی بات نہیں بیان بدلا بھی جا سکتا ہے سچائی تو بہرحال سچائی ہے تم لوگ سچ بولو دیکھو اس خون کا حساب دینا ہے
زوبیہ نے سمجھایا
تو کیا کریں بہو مر گئی اب بیٹے کو خود پھانسی دلوادیں ہم ایسا نہیں کرسکتے ۔۔
سمجھانے کے باوجود وہ آمادہ نہیں ہوئے۔۔
ٹھیک ہے میں آس پاس والوں سے تفتیش کرواونگی پھر پولیس تمھارے پاس آکر سب اگلوائےگی۔۔۔
وہ انہیں دھمکاتی چلی گئی۔۔
لوگوں سے پوچھنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ۔۔ اسکی بات سنتے ہی برابر والے خان محمد نے جب یہ کہا کہ
انہیں تو اتنے سالوں میں خجستہ اور بہادر کی لڑائی کی کبھی آواز نہیں آئی وہ دونو بہت پیار محبت سے رہتے تھے۔۔۔
انہیں اتنے مستحکم لہجہ میں جھوٹ بولتے ریکھ کر وہ دنگ رہ گئی۔۔۔
مردوں میں سب نے یہی کہا ک ہمیں کبھی حجستہ کے چیخنے چلانے کی آواز نہیں آئی اور عورتوں کو اس نے جزباتی کرکے اگلوانا چاہا تو انھوں نے ہاتھ جوڑکر کہا
یہاں تمام عورتوں کے ساتھ یہی ہوتا ہےمیری بہن کو تو اسکے شوہر نے جلا کر ماردیا تھا لیکن ہم خاموش رہے اب بھلا مردوں کے خلاف کچھ کہ سکتے ہیں؟؟؟
میرا آدمی خود مجھے بہت مارتا ہے اب کیا میں پولیس کے پاس پہنچ جائوں؟؟”
وہ کسی بھی طرح انھیں قائل نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔
حجستہ کےلیے دل میں ہمدردی کے باوجود کوئ بھی اس کے حق میں گواہی دینے کیلیے تیار نہ تھا
اسے تھوڑی بہت سزا ہوگی اور پھر تھوڑے دنوں بعد وہ دوبارہ یہیں اسی جگہ دندناتا پھر رہا ہوگا۔۔۔
پولیس کی کچھ دےدلادیا تو شاید معاملہ بہت آسانی سے رفع دفع ہو جاے وہ پاس کے گاوں کے سردار کا خاص کارندہ تھا اور اتنا بے اختیار اور لاچار نہیں تھا کہ خود کو بچا نہ سکے۔۔ہ
سچائی اپنی تلخ ترین حیثیت میں کھل کر سامنے آئی تو وہ تھر تھرانے لگی۔۔۔
“آپ ابھی جانتی کیا ہیں ڈاکٹر زوبیہ؟؟
ہمارے اسی معاشرے میں عورتیں جلا کر ماری جاتی ہیں ؟۔،یہ چولھے پھٹنے کی خبریں تو شاید آپنے روز سنی ہونگی ،کبھی کم جہیز لانے پر ،کبھی اولاد نہ ہونے پر کبھی بیٹی پیدا کرنے پر ۔۔ہ
ہمارے اسی معاشرے میں عورتیں کاری کی جاتی ہیں۔۔اگر آپ نے اس معاملے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اس حادثے کو قتل ثابت کر نا چاھا اور چلیں مان لیا کہ قتل ثابت ہوجا تا ہے پھر آپکا مخالف وکیل بہادر کی جانب سے حجستہ کے کردار پر حملہ کرے گا وہ آوارہ تھی بد چلن تھی بد کردار تھی اسکے اپنے دیور کے ساتھ نا جاءز تعلقات تھےاور کیا ایک غیرت مند شوہر ایسی صورت میں اپنی بیوی کو جان سے نہ مارتا؟؟
اسے ضرور ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ غیرت سے بڑھ کر مرد کا وار کیا ہوسکتا ہے۔۔۔ہ
وہ بڑی بے رحمی سے کڑوی سچائیاں بیان کر رہا تھا۔۔ہ
زوبیہ آنکھوں میں آنسو لیے خاموشی سے اس کی زبان سے نکلتے تلخ حقائق سن رہی تھی۔۔ہ
اسکی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر وہ اک لمحہ کیلیے خاموش ہوگیا تھا۔۔۔ہ
ہ ہ ہ ہ ہ
وہ شکست خوردہ انداز میں ہاسپٹل پہنچی تو بے اختیار اسکا دل چاہا کہ وہ اسفند یار سے ملے اسے کہے کہ مجھے تسلی دو کوئ ایسی بات کرو کہ میرے دل کو قرار آجاے۔۔
ریسیپشن سے پتہ چلا کہ وہ کل اور آج سرے سے آیا ہی نہیں تھا۔۔
“اسے کچھ ضروری۔کام تھا کہہ رہا تھا دو تین روز کیلیے آوٹ اوف اسٹیشن ہوں”۔۔
ڈاکٹر شہزور نے اسکے استفسار پر بتایا ۔۔۔تمھیں کچھ کام تھا اسفند سے ؟؟انہیں دھیان آیا
نہیں ایسا کچھ خاص کام نہیں تھا ۔۔ وہ بوجھل دل لیے کمرے انکے کمرے سے باہر آگئ۔۔
اتنی جراءت تو آپ میں ہونی چاہیے تھی اسفند یار خان کہ اگر میری سچائ جاننے کہ بعد آپ اپنی محبت سے دستبردار ہوگئے ہیں تو یہ بات میرے منہ پر کہتے۔۔
رات کے اس پہر وہ چپ چاپ ہاسٹل کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔۔۔سامنے ہاسپٹل کے پچھلے دروازے سے نکل کر دو ہیولے باغ کی طرف بڑھے تھے
وہ اماوس کی رات تھی گھپ اندھیرا رات کے اس پہر آنے والوں کو اس تک پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔۔ وہ دونو بہت تیزی سے اسکے پاس آرہے تھے۔۔۔
میں اسفند یار خان ہوں۔۔۔
اس شاندار آفس میں بلیک سوٹ پہنے پجتہ عمر کے مرد سے اس نے مصافحہ کرتے ہوے تعارف کروایا۔۔
تشریف رکھیں۔۔
اس نے چہرے پر پروفیشنل مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔۔
انکے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا
وہ ایک دم ٹھٹکا۔۔
اپنے بتایا نہیں۔۔انکے جواب نہ دینے پر بولا۔۔
جی ہاں وہ میری بہن ہیں آپ کیسے جانتے ہیں اسے؟؟
اسنے محسوس کیا کہ بہن کا لفظ انہوں نے بہت سوچ کر ادا کیا۔۔۔
وہ میرے ہاسپٹل میں پچھلے ڈیڑھ سال سے جاب کررہی ہیں جاننے والی بات کا جواب تو ہوگیا اور دوسرا سوال جو آپ یقینا مجھ سے پوچھنا چاہ رہے ہیں کہ میں کس سلسلے میں آیا ہوں۔۔تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے رسم و رواج کے مطابق جب۔۔۔
کسی لڑکی سے شادی کرنی ہوتی ہےتو رشتہ لیکر اس کے سر پرستوں کے پاس جایا جاتا ہے،میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں،آپ اس کے بڑے بھائی ہیں اس لحاظ سے آپ اس کے سرپرست ہوئے،چنانچہ میں آپ کے پاس چلا آیا۔،”
وہ بڑے پرسکون انداز میں بول رہا تھا۔اسکی بات سن کر ان کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔آپ کو اس سے شادی کرنی ہے ،ضرور کریں ،اس سلسلے میں میرے پاس آنے کی قطعا” کوئی ضرورت نہیں تھی”ان کے انداز میں لا تعلقی اورسردمہری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
“ایک بار اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا واقعی آپ اس سے نفرت کرتے ہیں یا پھر محض ایک جھوٹی انا اور نام نہاد غیرت ہے،جو آپ کو اس سے لاتعلقی کا اعلان کرنے پر مجبور کر رہی ہے” اس نے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا تھا ۔
“تو اس نے آپ کو اپنی وکالت کے لیے بھیجا ہے” آخر اسےاچانک ایسی کیا ضرورت آن پڑی بھائیوں اور سر پرستوں کی؟ وہ تمسخرانہ انداز میں اس سے مخاطب ہوئے ۔
وہ بہت اچھی ہے۔بہت بہادر اوربہت سچی۔اسے میری وکالت،صفائی،گواہی کی ضرورت نہیں ۔میں اپنی مرضی سےیہاں آیا ہوں،مجھے کسی نے یہاں نہیں بھیجا۔اس جیسی اچھی لڑکی کی یہ بہت بڑی توہین ہوگی اگر میں کہیں اس کے لیے رحم یا ہمدردی کی بھیک مانگنے جاوں۔میں تو بس یہ سوچ کر چلا آیا تھا کہ کیا پتا اتنے سالوں میں کچھ بدل گئے ہوں،ہوسکتا ہے آپ خود بھی اسے یاد کرتے ہوں،شادی تو بہرحال مجھے اسی سے کرنی ہے،میں تو بس صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ لڑکی پوری عزت کے ساتھ اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہو۔
اب کی بار وہ کچھ بھی نہ بول پائےتھے،بس خاموشی سےاسے دیکھے چلے جا رہے تھے۔
“اور جس آزاد اور خودمختار زندگی کا آپ زکر کر رہے ہیں،اسے وہ زندگی گزارنے پر مجبور کس نے کیا؟ کیا آپ نے اتنے برسوں میں کبھی یہ بات سوچنے کی زحمت کی،کوئی بھی انسان اپنا گھر خوشی سے نہیں چھوڑتا اور وہ پاگل لڑکی وہ تو آج بھی اپنے اس گھر کو اور اس کے مکینوں کو یاد کر کے آنسو بہاتی ہے۔وہ گھر جس میں اس نے انکھ کھولی،جہاں اس کے ماں باپ کی یادیں ہیں،اس کے دو پیارے بھائی رہتے ہیں ۔آپ لوگوں کی اتنی بےتحاشہ نفرت بھی اس کے دل سے آپ لوگوں کی محبت نہیں نکال پائی۔ آج بھی اپنے ریحان بھائی اور فرمان بھائی کا زکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔لیکن آپ کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آئی گی۔میں اس کی کوئی وکالت کرنے نہیں آیا تھا،وہ جب کہیں غلط ہی نہیں ہے تو پھر اس کی طرف سے صفائی پیش کی جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔میں تو صرف اس لیے،لیکن رہنےدیں اس بات کو، آپ کے نزدیک تو شاید یہ سستی جزباتیت ہو گی،بھائی کا بہن کو رخصت کرتے وقت سر پر ہاتھ رکھ کر خوشیوں کی دعا دینا سستی جزباتیت ہی تو ہے”
اس کے لہجے میں ظنزیہ کاٹ کے ساتھ کے ساتھ ساتھ بہت سے دکھ بھی ہلکورے لے رہے تھے ۔
“کبھی وہاں میرے چھوٹے سے گاؤں میں میں آکر دیکھئے ریحان خلیل صاحب کہ وہ لڑکی وہاں کتنی ہر دلعزیز ہے،اورسب کو خود سے پیار کرنے پر اسکے سلوک نے مجبور کیا ہے،آپ لوگوں کی اتنی ساری نفرتیں مل کر بھی اس کے دل سے محبتوں کو نہیں نکال پائیں،اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو خود پر اتنے الزامات سہتے سہتے تنگ آکر آخر ایک روز یہ فیصلہ کر لیتی کہ ٹھیک ہے اگر میں بری ہوں تو پھر اب بری بن کر ہی دکھاؤں گی،انسانی نفسیات کی رو سے اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا،مگراس سے ایسا نہیں کیا،پتا نہیں اتنی برداشت اور اتنا حوصلہ اس لڑکی میں کہاں سے آگیا۔
وہ گم صم سے بیٹھے ہوئے تھے،جبکہ وہ اپنی بات مکمل کر کے کرسی سے اٹھ چکا تھا۔
یاد تو آپ اسے ضرور کریں گے ریحان خلیل صاحب! آج نہیں تو دس سال بعد ،پندرہ سال بعد،کبھی نہ کبھی۔آپ بھی اپنی ضمیر کہ عدالت میں ایک روز جوابدہ ہوں گے،مگر تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔تب آپ کے پاس صرف ملال ہوں گے،پچھتاوے ہوں گے،بالکل اسی طرح جیسے آپ کے والد نےاپنی عمر کا آخری حصہ پچھتاووں کی نذد کردیا تھا اور انہیں کس کس بات کا پچھتاوا تھا۔زوبیہ
سمجھتی ھیں انہیں بیوی سے برے سلوک پر ملال ھوتا تھا۔ بے شک انہیں اس بات پر بہت ندامت تھی۔مگر ساتھ ھی ساتھ وہ خود کو اپنی اولاد کا بھی مجرم سمجھتے تھے۔وہ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ ان کی بیٹی سے جو غلطی ہوئی اس کا سبب وہ خود ھی ھیں۔وہ سمجھ چکے تھے کہ ان سے حقوقالعباد میں کوتاہی ھو چکی ھے۔ان کی نمازیں اور ان کی عبادتیں کچھ بھی ان کے کام نہی آئیں گی۔
وہ اپنی بات ختم کر کے ایک پل کے لیے سانس لینے کے لیے رکا تھا۔
“معاف کیجیے گا میں نے آپ کا بہت وقت برباد کیا’شاید می نے آپ کے پاس آ کے غلطی کی-بہرے حال میری کوئی بات آپ کو بری لگی ھو تو معزرت خواہ ھوں خدا حافظ۔”وہ ایک دم دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا-ان کے ساکت وجود میں اچانک جمبش ھوئی تھی-“رک جائیے اسفندیار”وہ دروازہ کھولتے کھولتے ٹھٹھک کر رک گیا تھا-
“اس کے قدم ایک بار بھٹکے تھے’وہ کم عمر تھی’نادان تھی’آپ لوگ چاھتے تو اس کی اس غلطی کو پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر سکتے تھے-اپنی بیوی’بہن اور بیٹی کے معاملے میں ہر مرد اتنا ہی حساس اور غیرت مند ہوتا ھے جتنے آپ-لیکن وہ واقعہ جو صرف آپ کے گھر والوں کے درمیان تھا-اس کا چرچا سارے زمانے میں کس طرح ھو گیا-‘کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا’اگر بات غیرت کی ھے تو غیرت تو یہ ھوتی کہ گھر کی بات گھر میں ھی دبا لی جاتی-لوگ میرے گھر کے کسی فرد کو بیٹھ کر ڈسکس نہ کریں ۔
وہ ساحل پر ننگے پاوں چلتے ھوے ان سے مخاطب ھوا تھا-“جن گھروں میں فیصلوں کا اختیار عورتوں کو دے دیا جائے’جن مردوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہو’جو رشتوں کو ان کی سہی جگہ پر نہ رکھ سکیں’بیوی کی کیا حیثیت اور مقام ھے’باپ اور ماں کا کیا مقام ھے اور بہن بھائیوں کی کیا جگہ ھے وہاں اسی طرح کے پرابلمز کھڑے ھوتے ھیں-
اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلتے ھوے وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہے تھے-غروب ھوتا سورج اپنی آخری شعاعیں زمین کی نظر کر رہا تھا-
“شام کا یہ وقت دل کو اتنا اداس کیوں کر دیتا ھے؟”وہ ﮈوبتے سورج کو دیکھتے ہوے یاسیت سے سوچ رہے تھے-کبھی کبھی کوئی تیز لہر آ کر ان کے پیروں کو بھیگو دیتی تھی-
“میں اس کی پچھلی زندگی کا احوال سن کر دنگ رہ گیا-ایک لڑکی اور اتنی بہادر-آپ میری بات کا یقین کریں ریحان صاحب!آپ کی بہن بہت بہادر ہے-اتنے سالوں سے وہ متواتر اور مسلسل اپنے کردار پر لوگوں کے شکوک وہ شبہات سہ رہی ھے-وہ تمام گناہ اس سے منسوب کیے گے جو اس سے سرزد بھی نہیں ھوے تھے- اور وہ پھر بھی زندگی کی جنگ لڑتی رہی کبھی ہاری نہی’مایوس ہو کر کوئی انتہائی قدم نہی اٹھایا-مردوں کو تو خدا نے عورتوں سے زیادہ مضبوط اور قوی اعصاب کا مالک بنایا ھے-مگر مینے ایک مرد کو اسی بات پر اپنی زندگی ھارتے دیکھا ھے- اور وہ مرد کوئی عام مرد نہی تھا-وہ جس کے قدموں کی دھمک سے زمین لرز اٹھتی تھی-جو اتنا بہادر اور دلیر تھا کہ بڑے بڑے سورما اس کے آگے بھیگی بلی بنے کھڑے ہوتے تھے’جو بات کرتا اس کا لہجہ دو ٹوک اور قطعی ھوتا تھا-اور ایسا شجعات کا پیکر اپنے کردار پر حرف آتا دیکھ کر زندگی سے بڑی خاموشی کے ساتھ کنارہ کشی اختیار کر گیا تھا-
جب میں زوبیہ کو بہادری سے زندگی کی جنگ لڑتا دیکھتا ہوں تو بے اختیار مجھے ارد شیر خان یاد آ جاتا ھے’میرا بڑا بھائی-وہ جو مجھے بہت پیارا تھا’باپ کے مرنے کہ بعد جسے میں اپنا باپ’بھائی’ دوست سب سمجھنے لگا تھا- وہ ایک کامیاب وکیل تھا’بہت قابل اور زہین اور اپنی زہانت اور تمام تر طاقت وہ مظلوموں کی دادرسی میں استعمال کرنا چاہتا تھا-مجھے اس سے بہت اختلاف تھا-بی بی جان اور بھابھی بھی انہیں سمجھانے کی کوشش کرتیں کے وہ کیوں خوامخواہ لوگوں سے دشمنیاں مول لیتے ھیں- مگر وہ راہ بدلنے کو تیار ھی نا تھے-
وہ ایک گینگ ریپ کا کیس تھا- کہانی وہی عام سی تھی’ایک غریب لڑکی جو بے تہاشاہ خوبصورت اور حیا دار تھی اور مقابل امیر ماں باپ کے بگڑے ھوے رئس زادے-مخالف پارٹی اثرورسوخ والی تھی ان کا وکیل شہر کا بہترین وکیل تھا تو مقابل ارد شیر خان بھی کچھ کم نہ تھا-انہوں نے اسے خریدنے اور اپنے حق میں ہموار کرنے کی ہر ممکن حد تک کوشش کی’مگر وہ ارد شیر خان!اسے کیا کوئی خرید سکتا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...