ولید نے اسے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے ۔۔۔۔ لیکن کچھ غلط تھا جس کے متعلق انہیں محتاط رہنا پڑے گا ۔۔۔۔ اس نے یونیورسٹی جا کر زجاجہ کو میسج کیا کہ وہ فری ہو کر اس سے ملے ۔۔۔۔ زجاجہ کی کلاس ختم ہوئی تو وہ بیا کو بتا کر انگلش ڈیپارٹمنٹ کی جانب آ گئی ۔۔۔۔ ولید اس کے ساتھ چلتا کیفے میں آ گیا ۔۔۔۔ کونے والی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے زجاجہ کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ وہ چپ چاپ بیٹھ گئی ۔۔۔۔ وہ اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی ۔۔۔ یہ اس کی پرانی عادت تھی ۔۔۔۔جب بھی پریشان ہوتی انگلیاں مروڑنے لگتی ۔۔۔۔
“سنو”….وہ اس سے مخاطب ہوا ….انداز ایسا تھا جو اس بے پرواہ سی لڑکی کو بھی چونکا گیا….وہ چہرے پر بچوں کی سی معصومیت لیے اسے دیکھ رہی تھی…..ولید زمین پر نظریں گاڑھے بولا …..
“میرا تمہاری محبت پر اور اس کی سچائی پر یقین ہے ….میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تم غلط ہو …..یہ جذبہ اختیاری نہیں ہوتا …. لیکن” ….. وہ بات کرتے کرتے رکا
وہ اس کے بے پناہ مردانہ وجاہت لیے چہرے پر نظر جمائے دم سادھے بیٹھی تھی…… اس کی آنکھوں میں ایک انجانا خوف تھا جیسے ابھی اس کو موت کی سزا سنائی جانے والی ہو …….
ولید نے ایک نظر اپنے سامنے بیٹھی اس پاکیزہ سی لڑکی پر ڈالی اور بات جاری رکھتے ہوئے بولا …
“لیکن میرا زندگی کے متعلق نظریہ بدل چکا ہے …… میں زندگی کو کسی اور لائن پر لانا چاہتا ہوں ……جو تم ہو وہ کوئی بھی نہیں ..میرا یقین کرو …. میں غلط نہیں ہوں …..لیکن یہ راستہ غلط ہے …..مجھے اب احساس ہوا ”
وہ چپ چاپ اٹھی ……ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے ایسے چل دی جیسے کوئی کافر مسجد سے نکالا جاتا ہے ……
زجاجہ نے ساری بات بیا کو بتائی تو وہ حیرت زدہ ہوگئی ۔۔۔۔ اسے یقین نہیں آیا کہ ولید ایسا کر سکتا ہے ۔۔۔۔
“تم مان جاؤ زجاجہ سکندر کہ ولید حسن تمہیں چھوڑ چکا ہے” بیا اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولی “تمہارا بلکہ سب کا آئیڈیل بھی ایک عام سا مرد نکلا …. چار قدم پر آٹھ وعدے کرنے والے اور پھر ہر قدم سے مکر جانے والا بہت عام سا مرد۔۔۔۔”
“اس نے مجھے نہیں چھوڑا ” زجاجہ سکندر کا سکون دیدنی تھا ….جیسے اس کے بارے میں نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں بات کی جا رہی ہو
“آر یو میڈ زجی”….. بیا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا “تم اب بھی اس کے حق میں بول رہی ہو ۔۔۔وہ جس نے تمہارا خلوص تمہاری محبت تمہاری دیوانگی سب تمہارے منہ پہ مار دیا ۔۔۔۔ پہلے تمہیں یقین دلایا کہ جو تم وہ کوئی بھی نہیں اور پھر تمہیں تم سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ۔۔۔ تم اس شخص کے ساتھ مخلصی کی انتہا پہ تھی یار ” بیا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ہمدردی سے کہا
“تھی نہیں ۔۔۔۔ میں اب بھی اسی انتہا پہ ہوں بیا ” زجاجہ نے پہلی بار تیز لہجے میں بیا کی بات کاٹی “اور میرا یقین نہیں ایمان ہے ولید….ایمان نہ تو روز روز قائم ہوتے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں۔۔۔۔وہ آج بھی ایک ایک پل میرے ساتھ ہوتا ہے ….کیونکہ اس نے مجھے چھوڑا نہیں ۔۔۔۔قربان کیا ہے ”
“واہ کیا ترتیب دیا ہے لفظوں کو ۔۔۔۔۔۔ثابت ہوا کہ ادب پڑھتی ہو ۔۔۔۔ یو نو زجی ولید تمہیں بلکل ٹھیک “جھلی” کہتا تھا ۔۔۔ خیر سے اب ان دونوں میں فرق بھی بتاتی جائیں فلاسفر زجاجہ ولید حسن صاحبہ ” بیا نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا
“فرق ہے بیا ۔۔۔۔ بہت فرق ہے ۔۔۔۔کسی کو ہم چھوڑتے دنیا کے لئے یا کسی دنیاوی رشتے کے لئے ہیں اور قربانی الله پاک کے لئے دی جاتی ہے ” زجاجہ نے اپنی بات کی وضاحت کی “اور پتا ہے بیا ہم قربانی کس کی دیتے ہیں ؟؟؟قربانی ہم اپنی سب سے پیاری چیز کی دیتے ہیں “۔۔۔۔ اس نے مسکرا کر بیا کے حیرت زدہ چہرے کی طرف دیکھا اور کتابیں سمیٹ کرجانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔ لیکن بیا عثمان پر سوچ کے کئی در وا کر گئی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید کے بڑے ماموں کو ہارٹ اٹیک آیا تھا ۔۔۔۔ وہ ایمر جنسی میں تھے ۔۔۔۔ مسز یزدانی نے اسے انگلینڈ بلایا تھا ۔۔۔۔ ولید سب کام چھوڑ کر فرسٹ اویلیبل فلائٹ سے انگلینڈ چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔ جانے سے پہلے اس نے زجاجہ کو کال کر کے بتایا
“زجاجہ میں UK جا رہا ہوں ۔۔۔۔ واپسی کا کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔ ماموں کے بہت احسانات ہیں مجھ پر ۔۔۔ میں کبھی ان کا بدلہ نہیں دے سکتا ۔۔۔۔ لیکن ابھی ان کو میری ضرورت ہے ۔۔۔۔ ” وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ زجاجہ جانتی تھی ابھی ولید کی بات مکمل نہیں ہوئی ۔۔۔۔ لہذا وہ چپ رہی ۔۔۔۔
“زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ۔۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا ہمیشہ ۔۔۔ ساری حقیقتوں کے ساتھ ساتھ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ولید حسن نے تمہیں ٹوٹ کے چاہا اور آخری سانس تک چاہے گا ۔۔۔۔ اس بات کا یقین رکھنا ۔۔۔۔۔ ماموں کی حالت بہتر ہوتے ہی ہم آ جائیں گے انشا الله ۔۔۔۔ پھر مما کو بھیجوں گا تمہاری طرف ۔۔۔۔ ” وہ بس بولے جا رہا تھا ۔۔۔۔ جیسے وقت کم اور کہنے کو بہت کچھ ہو ۔۔۔۔ اتنے میں نقاش کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔ ولید نے ایک نظر اس کو دیکھا ۔۔۔۔ اور اپنی بات جاری رکھی ۔۔۔
“ہر سانس امانت ہے ۔۔۔۔ مالک جب چاہے واپس لے لے ۔۔۔۔ اس لیے یہ سب بتا رہا ہوں تمہیں ۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔ واپس آیا تو صرف تمہارا ہوں گا ۔۔۔۔ نہ آیا تو معاف کر دینا پلیز ”
“پلیز ولی ۔۔۔۔ ایسا مت بولیں ۔۔۔۔ آپ کیوں ایسی بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔ پہلے بھی تو جاتے ہیں نا ۔۔۔ ” وہ رو رہی تھی ۔۔۔ ولید ہارنے لگا تھا ۔۔۔
“زندگی کی حقیقت اب کھلی ہے زجی ۔۔۔۔ پہلے تو بس سراب میں۔جی رہا تھا ۔۔۔ کسی کو کھونے کا ڈر بہت بری چیز ہے ۔۔۔۔ سب واضح کر دیتا ہے ۔۔۔ خیر ۔۔۔ چلتا ہوں اب ۔۔۔ نقاش آ گیا ہے ۔۔۔۔ الله حافظ ” ولید نے بات ختم کی ۔
“میں انتظار کروں گی ۔۔۔۔ الله حافظ ” وہ اس کی آواز کو اپنے اندر اتارتے ہوئے بولی اور کال کاٹ دی ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“چلو نقاش ” ولید اپنا والٹ اٹھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ ۔ نقاش نے اسے ائر پورٹ چھوڑنا تھا ۔۔۔
“تم چاہتے کیا ہو ۔۔۔ کھل کے بتاؤ مجھے ” نقاش نے گاڑی گھر سے نکالتے ہوئے پوچھا
“اگر زجاجہ کے حوالے سے بات کر رہے ہو تو تمہیں پتا ہے میں۔کیا چاہتا ہوں ” ولید نے سامنے دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔ ۔
“تو آنٹی کو بھیجا کیوں نہیں اس کے گھر ؟؟؟” نقاش نے ولید کی طرف دیکھا
“سارے حالات تیرے سامنے ہیں یار ۔۔۔۔ ایک سانس بھی سکون کا آیا مجھے؟؟؟ اب آئیں مما تو بھیجتا ہوں ۔۔۔ جان چھوٹے روز کی پریشانی سے ” وہ بہت سنجیدہ تھا ۔
“ہاہاہا ۔۔۔۔ جان چھوٹے گی نہیں بیٹا ۔۔۔۔ مزید پھنسے گی ۔۔۔۔ تو آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا چاہتا ہے ۔۔۔۔ ۔ ” نقاش نے اس کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا ۔۔
“نو ۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تو دیکھنا میں اور میری جھلی شاندار زندگی گزاریں گے ” ولید ہنسا ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور دور آسمانوں پر مقدر بھی مسکرا دیا ۔۔۔۔
ماموں کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی ۔۔۔۔ ان کے دو ہے بچے تھے ۔۔۔۔ آذر اور فاطمہ ۔۔۔۔ ولید ائر پورٹ سے سیدھا ہسپتال گیا ۔۔۔۔ آذر اور فاطی ایمرجنسی کے باہر بیٹھے تھے ۔۔۔۔ وہ ولید کو دیکھ کر ضبط کھو بیٹھے ۔۔۔۔
“اوہو ۔۔۔۔ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ دعا کرو پاپا کے لئے ۔۔۔۔ بلکہ تم۔دونوں گھر جاؤ ۔۔۔ میں آ گیا ہوں نا ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ” وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج چار دن بعد زمان صاحب کی طبیعت بہتر ہوئی تھی ۔۔۔۔ ڈاکٹرز نے انہیں وارڈ میں شفٹ کر دیا تھا ۔۔۔۔ مسز یزدانی رات دن بھائی کی صحت کے لئے دعائیں مانگ رہی تھیں ۔۔۔ جمشید صاحب آج کی فلائٹ سے واپس پاکستان چلے گئے تھے ۔۔۔۔ ولید نے مما کو بھی بھیجنا چاہا مگر وہ نہ مانی۔۔۔
ولید آج چار دن بعد گھر آیا تھا ۔۔۔۔ طاہرہ ممانی نے اسے فریش ہونے کا بولا اور خود کچن میں چلی گئیں ۔۔۔ ولید براؤ ن کلر کی پینٹ کے ساتھ نیوی بلو شرٹ پہنے بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ شوز سمیت بیڈ پر گرا ۔۔۔۔ اور سو گیا ۔۔۔۔ مسز یزدانی کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے اس طرح جوتوں سمیت سوتا دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔۔
“میرا پیارا بیٹا ۔۔۔۔ الله اس کے لئے آسانیاں پیدا کرے ۔۔۔آمین” وہ دعا دیتے ہوئے اس کے شوز اتارنے بیٹھ گئیں ۔۔۔۔
“اوہو ۔۔۔۔ مما یہ کیا کر رہی ہیں ” ولید کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ وہ فورا اٹھا ۔۔۔۔ ” پتا نہیں کیسے سو گیا میں اتنی جلدی ۔۔۔ پتا ہی نہیں چلا ”
“چار دن سے جاگ رہے ہو ۔۔۔۔ نیند تو آئے گی نا ” ممانی نے اندر آتے ہوئے جواب دیا ” چلو فریش ہو کے چائے پیو ۔۔۔ ”
“جی بس میں چینج کر لوں ۔۔۔۔ ” وہ کہتا ہوا واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
چائے پیتے ہوئے اسے زجاجہ کا خیال آیا ۔۔۔۔ جب سے آیا تھا تب سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا زجاجہ سے ۔۔۔۔ اس نے موبائل اٹھایا اور نقاش کا نمبر ملایا ۔۔۔۔
“ہیلو ۔۔۔نقاش کیسے ہو ”
“ہاں یار ۔۔۔۔ الله نے کرم کیا ہے ۔۔۔ بہت بہتر ہیں اب ماموں ۔۔۔ ” ولید نے نقاش کی بات کا جواب دیا ۔۔۔
“الله کا شکر ہے یار ۔۔۔۔ تو بتا کیسا ہے ” نقاش واقعی اس کے لئے فکر مند تھا ۔۔۔
“میں بلکل ٹھیک ۔۔۔۔ ابھی آیا ہوں گھر ۔۔۔۔ فاران بھائی اور اسفی آ گئے تھے ہاسپٹل تو میں گھر آ گیا ۔۔۔ میں اب سونے لگا تھا ۔۔۔۔ بہت تھک گیا یار ” ولید نے اپنے تایا کے بیٹوں کا نام لیا ۔۔۔ ” تو بتا سکول کا چکر لگایا تھا ؟؟؟ سب ٹھیک چل رہا ہے نا ”
“ہاں جی ۔۔۔ گیا تھا میں ۔۔۔۔ اور آپ کا ” سب ” بھی ٹھیک ہے ” نقاش نے شرارت سے سب پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ سمجھ گیا تھا ولید کس کی پوچھنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔
“بک مت۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے پھر ۔۔۔۔۔۔ میں سوتا ہوں اب ۔۔۔ بعد میں بات ہو گی ۔۔۔۔ الله حافظ ” ولید نے کال بند کی ۔۔۔اور موبائل سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔
” پریشان تو ہو گی وہ ۔۔۔۔ اس کو عادت ہی نہیں نا مجھ سے بات کئے بغیر رہنے کی ۔۔۔۔ الله پاک اسی سکون دے ” وہ زجاجہ کے بارے میں سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زجاجہ کے رات دن مشکل میں تھے ۔۔۔۔ وہ کسی سے پوچھنا چاہتی تھی ولید کے بارے میں ۔۔۔۔ مگر کس سے پوچھے ۔۔۔۔یہ اس کو نہیں پتا تھا ۔۔۔ نقاش کے ساتھ اس کی زیادہ بات چیت نہیں تھی ۔۔۔۔ وہ بس دعا کے سہارے تھی ۔۔۔۔
پھر نقاش نے خود ہی اس کی مشکل آسان کر دی ۔۔۔۔ اس نے میٹنگ کال کی اور سب کو بتایا کہ ولید کے ماموں کی طبیعت اب بہت بہتر ہے ۔۔۔ اور وہ اور میم جلد ہی واپس آ جائیں گے ۔۔۔
“ولید سر کیسے ہیں سر ” یہ ماریہ تھی ۔۔۔۔
“جی ٹھیک ہے وہ بھی ۔۔۔۔ آج ہی بات ہوئی ہے میری ۔۔۔۔ ” نقاش نے مسکرا کر جواب دیا ۔۔۔۔ زجاجہ نے دل ہی دل میں رب کا شکر ادا کیا ۔۔۔۔
محبت انسان کو کتنا شکرگزار اور صابر بنا دیتی ہے ۔۔۔۔ اگر وہ واقعی محبت ہو تو ۔۔۔ اس کا اندازہ زجاجہ کو اب ہوا تھا ۔۔۔ اسے ولید حسن کا انتظار تھا ۔۔۔۔ اپنے “صاحب ” کا ۔۔۔ وہ صرف ولید کے نام کے ساتھ “صاحب” کا لفظ استعمال کرتی تھی ۔۔۔ اور یہ بات سب سے پہلے ثنا نے نوٹ کی تھی ۔۔۔۔
“تم صرف ولید سر کے نام کے ساتھ ہی کیوں “صاحب” بولتی ہو ۔۔۔۔ باقی سب کو تو سر کہتی ہو ”
“اچھا ؟؟؟؟ ” زجاجہ نے مصنوعی حیرانگی دکھائی ” ایسا تو نہیں ہے ۔۔۔ ”
“مجھے تو ایسا ہی لگا تھا ” ثنا کی ایک عادت بہت اچھی تھی کہ وہ بات کے پیچھے نہیں پڑتی تھی ۔۔۔
“کیونکہ مجھے کوئی اور ویسا نظر ہی نہیں آتا جس کو “صاحب” کہوں ۔۔۔ کوئی ان کے جیسا ہے بھی تو نہیں ” زجاجہ سوچ کے مسکرا دی ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ولید آج واپس آ رہا تھا ۔۔۔۔ زمان صاحب کو ڈاکٹرز نے گھر بھیج دیا تھا ۔۔۔ مسز یزدانی نے دو دن بعد آنا تھا ۔۔۔۔ وہ 11 بجے پہنچا اور سیدھا سکول آ گیا ۔۔۔۔ زجاجہ نے اسے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔ سب ٹیچرز اس کے گرد جمع ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔ وہ سب سے بات کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں کسی اور کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔۔ زجاجہ نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ اسے تلاش کر رہا ہے ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کیا
“عجیب شخص ہے مجھ سے گریز پا بھی ہے
اور نظر نہ آؤں تو مجھے ڈھونڈتا بھی ہے ”
اس نے میسج ولید کو سینڈ کر دیا ۔۔۔۔ ولید نے آفس کی طرف جاتے ہوئے میسج پڑھا اور بہت خوبصورت سی مسکراہٹ اس کے لبوں کا احاطہ کر گئی ۔۔۔۔
“مے آئی کم ان سر ” وہ اس کے آفس کے دروازے میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ ولید نے “یس ” کہتے ہوئے اوپر دیکھا ۔۔۔۔ سامنے زجاجہ سکندر کو دیکھ کر اس کو چلتی سانس بامقصد لگنے لگی تھی ۔۔۔۔ وہ اسے تھوڑی کمزور لگی ۔۔۔۔
“آپ کے ماموں کیسے ہیں اب ” زجاجہ نے فارمل سوال کیا
“بہت بہتر ۔۔۔۔ الله پاک نے بہت کرم کیا ۔۔۔۔۔۔ کسی کی دعا کام آ گئی ۔۔۔ ” ولید کے لہجے میں بہت تشکر تھا ۔۔۔
“میم کیسی ہیں سر ۔۔۔ وہ کب آ رہی ہیں ” زجاجہ نے مسز یزدانی کے بارے میں پوچھا۔۔۔
“مما کی دو دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔۔انشا الله شی ول بی ہیئر آن منڈے ” اس نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔۔۔
زجاجہ “اوکے ” کہہ کر اٹھ گئی ۔۔۔
“آپ کو کوئی کام ہے مما سے؟؟؟” بہت دنوں بعد زجاجہ کو۔سامنے دیکھ کر ولید کو شرارت سوجھی ۔۔۔۔
“جی۔۔۔۔۔ نن ۔۔۔۔ نو سر ۔۔۔۔ بس یونہی پوچھا ” کہہ کر وہ رکی نہیں ۔۔۔۔ ولید کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آج ولید بھی یونی آیا تھا ۔۔۔۔ زجاجہ کو یہ بات حیدر نے بتائی تھی ۔۔۔۔ کیونکہ اب اسے کم ہی ولید کی روٹین کا علم ہوتا تھا۔۔۔ان کی بات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی ۔۔۔۔ پتا نہیں زجاجہ سکندر میں اتنا صبر کہاں سے آ گیا تھا ۔۔۔۔ ورنہ پہلے تو کبھی ولید جواب دینے میں دیر لگا دے تو وہ جان کو آ جاتی تھی ۔۔۔ اب وہ خود تو اسی پرانی روٹین سے ہی میسج کرتی تھی ۔۔۔ لیکن دوسری طرف سے خاموشی رہتی ۔۔۔۔ اور اس کے باوجود زجاجہ سکندر ہنستی بولتی نظر آتی ۔۔۔۔ اب یہ تو صرف وہ اور اس کا رب جانتے تھے کہ صبر کس انتہا تک جا چکا ہے اور اندر کیا لاوا پک رہا ہے ۔۔۔۔
آج مسز یزدانی واپس آ گئی تھیں ۔۔۔۔ بہت دنوں بعد ان کو سکول میں دیکھ کر سب کو بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔۔ وہ بھی سب سے بہت پیار اور شفقت سے ملیں ۔۔۔۔ نقاش بھی آیا ہوا تھا ۔۔۔۔ ولید کا موڈ کافی خوشگوار تھا ۔۔۔۔ مسز یزدانی نے پورے سٹاف کو گھر آنے کی دعوت دی ۔۔۔۔ ایک بھر پور دن گزار کر جب وہ یونی کے لئے نکلنے لگی تو مسز یزدانی نے اسی آواز دی ۔۔۔۔ وہ ان کے پاس چلی گئی ۔۔۔۔
“بیٹا سلیمان بابا بھی نظر نہیں آ رہے ۔۔۔۔ طارق بھی چلا گیا ہے ۔۔۔ میں ذرا بزی ہوں آفس میں ۔۔۔۔ آپ ولید کو بلا دیں پلیز ” انہوں نے ساتھ ہی اسے بلانے کی وضاحت بھی کر دی ۔۔۔۔۔
وہ ولید کے آفس کی طرف چل پڑی ۔۔۔۔۔ دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر گھمانے ہی والی تھی کہ اسے اندر سے اپنا نام سنائی دیا ۔۔۔۔ اس کا ہاتھ رک گیا ۔۔۔
“یو نو زجاجہ ہر چیز میری فیورٹ لیتی ہے۔۔۔۔ڈریس کلر ، پرفیوم ، چاکلیٹ ، آ ڈرنک ایون” ساتھ ہی قہقہہ گونجا ۔۔۔۔ وہ ولید حسن تھا ۔۔۔۔ اور دوسری آواز نقاش کی تھی ۔۔۔۔۔ “اسی کہتے ہیں کسی کواس طرح اپنا بنا لینا ۔۔۔۔۔ کہ وہ آنکھیں بند کر لے آپ کے حوالے سے ۔۔۔۔ یاد ہے تم نے کہا تھا نہیں ہو سکتا اس حد تک ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا میں کر کے دکھاؤں گا ۔۔۔۔ ناؤ سی ۔۔۔ میں جیت گیا ”
زجاجہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔۔۔ وہ شرط میں۔جیتی گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی محبت کی قیمت لگی تھی ۔۔۔۔۔ یہ سب کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تیز تیز قدموں سے سکول گیٹ عبور کر گئی ۔۔۔۔
وہ بہت مشکل سے یونیورسٹی پہنچی ۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ولید حسن ایسا بھی کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔ کیا اوقات رہ گئی تھی اس کی ۔۔۔۔۔ سوچ سوچ کے اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔
“میں اتنی عام بھی نہیں ہوں ولید حسن ۔۔۔۔ جسے آپ شرط میں ہار جیت جائیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ آپ کو اس بات کا جواب تو دینا ہو گا ” اس نے سوچا اور انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل پڑی ۔۔۔۔ وہ سیدھی جمشید سر کے آفس کی طرف گئی ۔۔۔۔۔ ولید ادھر ہی تھا ۔۔۔۔ زجاجہ بغیر اجازت لئے اندر چلی گئی ۔۔۔۔
“کتنے میں جیتا ہے آپ نے مجھے ” وہ بغیر کسی تمہید کے اس کے سامنے جا کر بولی ۔۔۔
“مطلب ۔۔۔۔ کس بارے میں بات کر رہی ہو ؟؟؟” ولید کچھ سمجھ نہ پایا
“اپنے بارے میں بات کر رہی ہوں ولید صاحب۔۔۔۔۔ اس شرط کے بارے میں بات کر رہی ہوں جو آپ نے میری محبت پہ لگائی تھی ۔۔۔۔ یہی کہا تھا نا آپ نے نقاش سر سے کہ آپ نے کر دکھایا ۔۔۔۔ آپ جیت گئے ” وہ بولتی چلی گئی
“اوہ مائی گڈ نیس۔۔۔۔۔ تو آپ نے ہماری باتیں سن لیں ۔۔۔۔ ” ولید کی سمجھ میں ساری بات آ گئی تھی “پہلی بات یوں چھپ کے کسی کی باتیں سننا بہت غیر اخلاقی حرکت ہے ۔۔۔۔ اور دوسری بات جب تک پوری بات کا علم نہ ہو تب تک نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے ” وہ متانت سے بولا
“بس کریں ولید صاحب ۔۔۔۔ آپ یہ سب کہہ کے اپنے کئے کو justify نہیں کر سکتے ۔۔۔۔ ” زجاجہ کی آواز تیز ہوئی تھی
“زجی میری بات سنو ۔۔۔۔ میں صفائی دینے کا قائل نہیں ہوں ۔۔۔ نہ کبھی دیتا ہوں ۔۔۔۔ لیکن تم غلط فہمی کا شکار ہو ۔۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمہیں کلئیر کروں ۔۔۔ جو تم نے سنا وہ ٹھیک تھا لیکن جو تم سمجھ رہی ہو وہ غلط ہے ۔۔۔” ولید بہت آرام سے بات کر رہا تھا ” نقاش کو جب سے پتا چلا ہمارے بارے میں وہ کچھ insecurity کا شکار تھا ۔۔۔۔ اس کو لگتا تھا تم وقتی طور پہ جذباتی ہو رہی ہو ۔۔۔۔ وہ کہتا تھا کہ کوئی اس حد تک جا ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمہارا جنوں بھی کم ہو جائے گا ” وہ بولتے بولتے رکا ۔۔۔
زجاجہ نے پہلو بدلا ۔۔۔۔ اسے پتا نہیں کیوں لگ رہا تھا کہ ولید حسن سچ کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔ مگر دماغ ماننے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔
“میں نے کہا تھا ایسا نہیں ہے ۔۔۔۔ زجاجہ اپنے جذبے میں سچی ہے ۔۔۔۔۔ نقاش کا خیال تھا میرا یقین ہار جائے گا۔۔۔۔۔۔ آج وہی بات ہو رہی تھی اور بس ۔۔۔۔” ولید نے بات ختم کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
“گڈ ولید حسن صاحب ۔۔۔۔ بہت خوب کہانی بنائی آپ نے ۔۔۔۔ لیکن میں یقین نہیں کر رہی اس پر ۔۔۔۔ جو میں اپنےکانوں سے سنا اسے کیسے جھٹلا دوں ۔۔۔” وہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی
“میں نے کب کہا کہ جھٹلائیں ۔۔۔ آئی سیڈ آپ نے جو سنا ٹھیک سنا ۔۔۔۔ بس سمجھا غلط ” ولید نے غصہ دباتے ہوۓ کہا
” آپ کچھ بھی کہہ لیں اب ۔۔۔۔ آپ ہار گئے ولید حسن ….. آپ محبت بھی ہار گئے اور مجھے بھی ….. پتا ہے کیسے ؟؟؟” وہ بہت غصے میں تھی ۔۔۔۔ ” میں نے آپ کی پسند کی ہر وہ چیز چھوڑ دی جو آپ کی محبت میں اپنائی تھی….آپ کی فیورٹ کولڈ ڈرنک … رنگ … خوشبو…. سب چھوڑ دیا…یعنی آپ سے محبت کرنا چھوڑ دیا میں نے …. یہی آپ کی ہار ہے” … وہ اس کی طرف جھکتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی “اب جشن مناؤ اپنی شکست کا “….. وہ پیچھے مڑی اور تیز تیز قدموں سے نکل گئی….
کچھ دیکھ کر ولید حسن چونکا اور اس کے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ آ گئ اور وہ زیر لب بولا
” میں جیت گیا جان ولید حسن”….
اور آنکھیں موند لیں ….. پتا ہے اس نے کیا دیکھا تھا …. اس کے شولڈر بیگ سے جھانکتی اپنی فیورٹ کولڈ ڈرنک ….
وہاں سے نکل کر وہ کلاس میں چلی گئی ۔۔۔۔ بیا اور ثنا نے اس کے خراب موڈ کی وجہ پوچھی تو وہ ٹال گئی ۔۔۔۔۔ اس کا دماغ پھٹ رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں کیا غلط ہے ۔۔۔
زجاجہ اپنا عبایہ سنبھالتی ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اچانک ہی ثمر سامنے آ گیا ۔۔۔۔۔وہ کوئی دل پھینک قسم کا لڑکا نہیں تھا لیکن زجاجہ کو اس کا انداز پسند نہیں تھا جس طرح وہ اس کو دیکھتا یا بات کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔۔
“کہاں جا رہی ہیں آپ ” ثمر نے زجاجہ کے سامنے آتے ہوئے پوچھا
“میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی “۔۔۔۔ زجاجہ روکھائ سے بولی ۔۔۔۔وہ بدتمیز نہیں تھی نہ بد اخلاق تھی ۔۔۔۔۔لیکن اس کو اپنے لئے ثمر کے جذبات بھی پسند نہیں تھے ۔۔۔اور وہ کسی بھی بات یا اپنے لہجے سے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔
” لڑکی ۔۔۔۔ تمہیں غرور کس بات کا ھے ؟؟” ثمر اس کے جواب سے چڑ کر بولا
زجاجہ گزرتے ہوئے رک گئی ۔۔۔۔۔ پیچھے مڑی اور بلکل ثمر کے مقابل آ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے اعتماد سے بولی ” اپنے لڑکی ہونے کا “۔۔۔۔۔۔
اور تیز تیز قدموں سے وہاں سے نکل گئی ۔۔۔۔۔
پاس سے گزرتے ولید حسن نے بھی اس کا جواب سن لیا تھا اور وہ زیر لب مسکرا کر بولا ”
“i m proud of you zojaja sikandar”…
…اور سر جھٹک کر کلاس کی طرف مڑ گیا ۔۔۔۔۔
گھر آ کر بھی اس کا موڈ ٹھیک نہ ہوا ۔۔۔۔ وہ ماما کو ٹیسٹ کی تیاری کا کہہ کر کمرے میں بند ہو گئی ۔۔۔۔۔ وہ رونا چاہتی تھی ۔۔۔ بہت سا ۔۔۔ دل کہتا ولید ٹھیک کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ دماغ کہتا جو وہ سمجھ رہی ہے وہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔
“ہماری بیٹی مصروف ہے ” بابا کمرے میں داخل ہوئے ۔۔۔
“بابا آپ ۔۔۔۔۔ مجھے بلوا لیا ہوتا ” وہ ایک دم سیدھی ہو کے بیٹھی
“میں نے سوچا آج تم سے سنوں کہ کیا یاد کیا ۔۔۔ جیسے بچپن میں سنتا تھا ” سکندر علی اس کو بہت پیار سے دیکھتے ہوۓ بولے ۔۔۔۔
زجاجہ کی آنکھ نم ہو گئی ۔۔۔۔ اس نے بابا کی گود میں سر رکھ لیا ۔۔۔ لوگ عموما ماں کی گود میں سر رکھتے ہیں اور ہر پریشانی بھول جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن زجاجہ کی بچپن سے یہی عادت تھی ۔۔۔۔ وہ بابا کی گود میں سر رکھ کے لیٹ جایا کرتی ۔۔۔ اور ڈھیر ساری باتیں کرتی ۔۔۔ ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ باتیں کرنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔ سکول کی ، ٹیچرز کی ، یونیورسٹی کی ۔۔۔۔ بےمقصد باتیں ۔۔۔۔ اور سکندر علی سنتے رہے ۔۔۔۔ مسز سکندر بھی ادھر ہی آ گئیں ۔۔۔۔ جب ماما بابا اس کے کمرے سے گئے تو وہ نیند کی وادی کی سیر کو نکل چکی تھی ۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ثنا کے بارے میں سب کو پتا تھا کہ رضا کو پسند کرتی ہے ۔۔۔۔ وہ رضا کی بات سے کبھی انکار نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔ جو اس نے کہہ دیا وہی ضروری ہو گیا ۔۔۔۔ وہ بہت لڑتے بھی تھے ۔۔۔ باتیں بھی سناتے ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے لئے ضروری بھی تھے ۔۔۔۔ ثنا زیادہ جینز کرتا پہنتی ۔۔۔۔ بیا اور زجی کئی بار اسے کہہ چکی تھیں کہ کچھ اور بھی پہنا کرو مگر وہ سنی ان سنی کر دیتی ۔۔۔۔ زجاجہ نے اسے رضا کے حوالے سے بات کی کیا وہ نہیں چاہتا تمہیں سب نہ دیکھیں اس طرح ۔۔۔۔ زجاجہ نے جب سے ولید کی مان کر عبایہ لینا شروع کیا تھا وہ خود کو بہت محفوظ سمجھتی تھی ۔۔۔۔ بیا شروع سے ہی اں چیزوں کا خیال رکھتی تھی ۔۔۔۔ زجاجہ نے ثنا سے بات کی ۔۔۔
یار اس کو نہیں پسند میرا حجاب لینا … ثنا نے حجاب نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا … “اینڈ یو نو وہ کہتا ہے اسے مجھ پر ٹرسٹ ہے” …. اس کے لہجے میں فخر تھا
زجاجہ نے اس کو غور سے دیکھتے ہوئے لمبی سانس لی جیسے افسوس کر رہی ہو اس کی سوچ پر …. “حجاب بےاعتباری میں تو نہیں لیا جاتا ثنا …. یہ تو protection ہے … بلکہ یہ بےاعتباری تک بات کو پہنچنے ہی نہیں دیتا” …. زجاجہ اسے نرمی سے سمجھا رہی تھی …. “میں تمہارے اور رضا کے تعلق پہ کوئی بات نہیں کر رہی …. صرف تمہیں اس کی ناجائز باتیں ماننے سے روک رہی ہوں”
“تم ٹھیک کہہ رہی ہو سویٹ ہارٹ… لیکن کیا کیا جائے …. جب دل ہی اس کے پیچھے چل پڑے تو”….. ثنا شرارت سے ایک آنکھ دباتے ہوئے بولی “چلو کیفے چلتے ہیں” اس نے زجاجہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ….. جو زجاجہ کو تھامنا ہی پڑا
“او ہاں …. یاد آیا …. ” ثنا نے تقریبا چلاتے ہوئے کہا “رضا کے موبائل کا کور لینا ہے یار …. شکر ہے یاد آ گیا “وہ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بولی
“کیوں … موبائل کور کیا کرنا اس نے “…. زجاجہ نے اپنا سکارف درست کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا
“زجی رضا نے نیا فون لیا ہے نا …. بہت قیمتی موبائل ہے یار…. کہہ رہا تھا protector لینا ہے …. کور میں سیف رہے گا” وہ کسی ماہر سیلز مین کی طرح کور کا فائدہ بتانے لگی “اور میں چاہتی ہوں رضا کی ہر چیز میں میری یاد ہو “وہ کسی خیال کے تحت مسکرائی تھی
ثنا …. زجی نے اس کو پکارا ” کیا اسے خود پر اعتبار نہیں … جو وہ اس چیز کو بھی کور رکھنا چاہتا ہے جو ہر وقت اس کی ہاتھ میں رہتی ہے “…. ثنا نے ناسمجھی کی کیفیت سے زجاجہ کو دیکھا
“اس کو خود پر اعتبار ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرسکتا ہے ” زجاجہ نے بات جاری رکھی “مگر کور وہ اس لیے لے گا کیونکہ اس کا فون اس کے لیے “قیمتی ” ہے …. ہر قیمتی چیز کور ہی اچھی لگتی ہے ثنا…. اور جانتی ہو ہمیں ڈھانپ کر کون رکھنا چاہتا ہے ….. جس کے لیے ہم قیمتی ہوتے ہیں…. چاہے وہ ہمارا رب ہو یا پھر کوئی انسان “…. زجاجہ نے مسکراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی اور دور کھڑے ولید حسن کی طرف دیکھا جو اس سے بےنیاز کسی سے بات کر رہا تھا ….بد گمانی اور ناراضگی کے باوجود زجاجہ جانتی تھی کہ وہ اس دور کھڑے شخص کی لیے بہت قیمتی ہے ….
وہ بات نہیں کر رہی تھی اس سے ۔۔۔۔۔ ولید نے ایک دو بار کوشش بھی کی ۔۔۔۔ مگر زجاجہ نے نظر انداز کر دیا ۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...