جب سے اپنے تمام حقوق بازل کے نام لکھ دیے تھے عجیب سی ٹنشن ہورہی تھی
جو بھی تھا چھ سال سے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنی نہ اُمید سی زندگی میں کسی کو شامل کرے گی یہ اُسکی بھی کوئی فیملی ہوگی لیکن چند گھنٹے میں زندگی کی بازی کیسے بدلی تھی وہی جانتی تھی
وائٹ اور گولڈن کلر کامبینیشن سے متعین حال نما کمرہ اُسے کسی قید خانے سے کم نہیں لگ رہا تھا پتہ نہیں کیوں بازل نے اسکو اِدھر انتظار کرنے کا کہا لیکن یہ بات تو واضح تھی کے یہ کمرے کسی کے زیرِ استعمال نہیں تھا لیکن ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پر ماجود تھی
دروازے کے کھولنے پر پیچھے کی طرف موڑی اُسکے اندازہ کے عین مطابق بازل شاہ اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا
دروازہ کھولا ہی چھوڑ کر دو قدم آگے آیا لیکن دونوں کے درمیان دس قدم کا فصلہ ہونہور قائم تھا
سفید رنگ کی شلوار قمیض جس کے بازو کہنیوں تک موڑ رکھے تھے بال کشادہ پیشانی پر بِکھر کر اُسکی شخصیت کو چار چاند لگا رہے تھے گہری براؤن شیشے جیسی آنکھوں میں کوئی چمک نہیں تھی چہرے کے تاثرات بلکل سرد تھے
"اب تم اِس گھر میں ہی رہو گی دوسری بات نور سے جیتنا ہو سکے دور رہنا اگر اپنی بلائی چاہتی ہو تو”
کہہ کر ایک نظر اُس کو دیکھا جو ابھی بھی اُسی کپڑوں میں ماجود تھی جو کلب پہن کر گئی تھی سکارف ابھی بھی سر پر لپیٹ رکھا تھا مگر اُسکو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ایک طرف کو منہ کیے کھڑی تھی
"لیکن میں ایک دن کے لئے جانا چاہوں گی کل کو آجاؤں گی”
اطمینان سے جواب دے کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر کو چلی گی
"لیکن اب گارڈز تمہارے ساتھ جائیں گے اور فلیٹ کے باہر صبح تک تمہارا انتظار کریں گے”
اپنے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے ایک نظر اُسے دیکھا جو اُسکی بات پر اپنے قدم روک چُکے تھی
"مت بھولو بازل شاہ میں اپنی ہی نہیں لوگوں کی بھی محافظ ہوں میں اپنے ساتھ گارڈز کی فوج ہرگز نہیں لے کر جاؤں۔ ”
کہتے ہوئے پھر باہر کی جانب قدم بڑھائے
"پہلے تم ایک معمولی سی کپٹن تھی جس کو چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا اور اب تم”The king of ocean bazil shah ” کی بیوی ہو جسے پوری دنیا جانتی ہے”
چند قدم آگے بڑھا کر کہا لہجے میں غرور یہ اکھڑ بلکل نہیں تھی عام سا انداز تھا
"یہ شرط تھی بازل شاہ کے اِس رشتے کو دُنیا کے سامنے نہیں لایا جائے گا اور تم ففٹی پرسنٹ میری بات ماننے کے قائل ہو گے”
باتوں کے ہیر پھیر میں اپنی بات واضح کرتی جا چکی تھی
"ہاں میڈم کو شک نہ ہو مگر تم لوگ اُسکا پیچھا کرو گے اور صبح اُسکے بعد نوین کا ٹھکانہ بدل دینا”
اپنے موبائل کو کان لگا کر بولو اور گلاس ونڈو سے باہر کا منظر دیکھا جہاں وہ پیدل ہی اُسکے عالیشان گھر سےاپنا بیگ تھامے جارہی تھی اُسکے ٹھیک تین منٹ بعد دو گارڈز سے مسلح گاڑیاں اُسی راستے پر بہت آہستہ سپیڈ سے اُسے فالو کر رہیں تھیں یہ تو طہ تھا کے دونوں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے رات کا اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا لیکن شاید وہ لڑکی کسی چیز سے نہیں ڈرتی تھی جو اکیلے ہی نکل گئی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"اُف اللہ مایا کدھر تھی تم پتہ بھی ہی رات کے دو کا ٹائم ہو رہا ہے اور تم اس وقت گھر آرہی ہو ۔۔۔تمہیں تو گیارہ بجے واپس آنا تھا نہ اور محد کدھر ہے؟؟؟؟”
اُسے فلیٹ میں داخل ہوتا دیکھ کر ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے وہ اُسے بنا دیکھا یہ جواب دیے آگے بڑھ کر صوفے پر گرنے والی انداز میں بیٹھ گئی
"آج مایا شیخ ایک بار پھر ہار گئی ایک بار پھر قسمت اُسے دور کھائی میں دکائل گئی”
لہجہ بہت ہی افسردہ اور آنکھوں میں اتنی دیر بعد نمی تیر رہی تھی
"کیا ہوا مایا بتاؤ”
جلدی سے اُسکے پاس آکر بیٹھ گئی اور اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنے لگی
"پہلے محبت نے ڈسا تھا اِس بار اِنسانیت نے ڈھنگ مارا ہے جو جیتے جی مجھے مار گیا ہے ”
اب باقاعدہ اُسکی انکھوں سے گرم سیال گالوں پر بہہ رہا تھا لہجہ بلکل ٹوٹا ہوا تھا
"مایا کیا کہی جارہی ہو مجھے بتاؤ تو سہی کیا مبحت ۔۔۔انسانیت؟!”
پہلی بار اُسکے منہ سے محبت کا نام سنا پہلی بار مایا کی آنکھیں اُسکے آگے نم ہوئیں تھیں لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا
"دُعا کیا کرو نوین کبھی تمھیں یہ دونوں کی وجہ سے کوئی قربانی نہ دینی پڑے کیوں کے دونوں میں ہی انسان اپنا آپ ختم کر لیتا ہے”
اب آنکھیں موند گئی تھی سر پر لیا ہُوا سکارف پیچھے گر چکا تھا
"بتاؤ تو مجھے آخر ہُوا کیا ہے تم لوگ تو حنان مغل کو عبرت کا نشان بنانے گے تھے آج اُسکا کام تمام ہونا تھا پھر کیا ہوا جو محد بھی ساتھ نہیں آیا”
نوین کا بلکل موف ہورہاتھا کسی بات کو سمجھنے یہ سوچنے سے قصر تھی
"مجھے اکیلا چھوڑ دو نوین میں ابھی کوئی جواب نہیں دینا چاہتی ۔۔۔صبح میرا رگینیشن لیٹر جمع کروا دینا ”
اُس کا منہ کھولا ہی رہ گیا جب مایا نے اندر جاکر دروازہ لاک کر دیا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
رات دیب بیہوشی کے بعد نیند میں چلی گئی تو طالش نے اُسے بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اتنا خوش تھا کے خوشی کے باعث ساری رات نیند نہیں آئی اور اُسکی معصوم سی بیوی شاید خود کو موت کے زیادہ ہی قریب سمجھ کر خود کو اندھیرے میں رکھنا چاہتی تھی نہا کر باہر آیا تو ابھی بھی کمبل میں دبکی خرگوش کے مزے لے رہی تھی بالوں میں ٹوال رگڑتے ہوئے ایک نظر کمرے کو دیکھا جس کو کافی محنت کے بعد یہ روپ ملا تھا بیڈ کی ہیڈ پر بچوں کی بہت ساری تصویریں ہر جگہ پر سُرخ گلاب ابھی تک کارٹن گرے ہوئے تھے
بیڈ کے بلکل سامنے ایک چاکلیٹ کیک سجاوٹ کے ساتھ پڑا تھا ابھی کمرے میں ہی نظریں گھوما رہا تھا جب دیب کسمسا کر کروٹ بدل گئی آج تو دور دور تک اُسکے اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا
"دیب اُٹھو”
آخر خود ہی آکر اُسکے کندھے کو ہلایا مگر آگے سے کوئی جواب مصول نہ ہوا
"اچھا میں جارہا ہوں دوبئی تم سوتی ہی رہو”
اب لہجہ بے حد سنجیدہ تھا
دیب کی نیند ایک کالج سیکنڈ میں نو دو گیارہ ہوئی اُسکے جانے کے نام پر ایک پل میں اُٹھ کر بیٹھ گئی
"طالش ”
اسکو پینٹ کوٹ میں دیکھا کر وہم یقین میں بدلہ تو آنکھیں تپٹپائیں بے یقینی سے اُسے پکارا جو رات کو ہی واپس آیا تھا
لیکن یہ حیرت اور بڑی جب پورے کمرے کو پھولوں سے متعین دیکھا
"Some One is just coming to our life , for make it janahh”
پُر اسرار سے لہجے میں کہہ کر اُسکے قریب آیا تو اُسکی بات کا مطلب سمجھنے کی تکادو میں تھی پر دوسری بیوی پر آکر تمام سوال جواب ختم ہوئے اور دیب زخمی شیرنی کی طرح اُسکی طرف لپکی
"اگر تم شادی کرو گے تو میں خود بھی اور اسکو بھی ماردونگی”
بیڈ پر کھڑی نے ہے طالش کو گریبان سے دبوچا اور تقریبآ چلا رہی تھی انکھوں میں آنسو تھے لیکن لہجہ بہت سخت
پہلے تو اُسکے گریبان پکڑنے اور پھر” تم” کہنے پر حیران کن نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا
"یہ میری دیب نہیں ہے”
اُسکی آنکھیں میں جانکتے ہوئے سرگوشی کی جس پر گریبان پر گرفت تھوڑی ڈیلی ہوئی
"کیسے سوچا میرے ہوتے ہوئے کسی اور عورت کے بارے میں مرنے والی ہوں مری تو نہیں نہ”
آخری بات پر دُکھی ہوگئی کیا سمجھتی تھی کے اگر اُسے کبھی کچھ ہُوا تو سب سے زیادہ جس کی زندگی پر اثر پڑے گا وہ طالش ابراہیم ہوگا لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہُوا پڑا تھا اُسکے مرنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور کسی اور کے لیے یہ کمرہ سجا دیا
طالش نے اُسے ایک۔ مرتبہ پھر بد گمان ہوتا دیکھ کر اُسکا رُخ پیچھا کی طرف موڑا یہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کی تصویریں اور ساتھ میں ویلکم لکھا ہُوا تھا
دو منٹ ساخت ہوئی اُنکی طرف دیکھتی رہی پھر بے یقینی سے طالش کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"ہماری آنے والی پریسز کو اِس طرح ویلکم کرو گئی میں نہیں سوچا تھا”
چہرے پر رنج لاتے ہوئے بولا
"طالش یہ خواب ہے”
ابھی بھی بت بنی اُسے دیکھ رہی تھی کل ہی تو شکووں کا ڈھیر اللہ کے سامنے رکھا تھا اور آج اتنی بڑی نعمت اللّٰہ نے اُسکی گود میں ڈال دی یہ بات نہ قابلِ قبول تھی
"نہیں دیب حقیقت ہے ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر سے بھی کنفرم کیا ہے ہماری زندگی میں ایک بلکل تمہارے جیسے شہزادی آنے والی ہے”
اُسے باہوں میں بھر کر نیچے اُتارا
"نہیں طالش بیٹا چاہئے بیٹیوں کے نصیب سے ڈر لگتا ہے”
سہم کر بولی وہ سب کچھ برداشت کی رہی تھی اُسے پتہ تھا بیٹیوں کے لیے یہ معاشرہ اپنے اندر کس طرح کے شیطان رکھتا ہے ماں باپ اپنے سر سے بھوج اُتار کر کسی کے سر تھونپ دیتے اور اگلے چاہئے زندہ درگور کردیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا
"نہیں جی مجھے تو بیٹیاں پسند ہیں اور انشاء اللہ ہماری چار بیٹیاں ہونگی”
شوق انداز میں اُسکے منہ کے آگے کیک کا ٹکرا کرکے بولا
"یہ کیا ہورہاہے ”
ڈار کی آواز سے دروازہ کھولا تو سامنے رخسار بیگم اپنے چہرے پر سخت تاثرات لیے اُن دونوں کو گور رہی تھی دیب تو جلدی سے چھوٹے بچے کی طرح تالش کے پیچھے چھپ گئی ایک ہاتھ طالش کے بازو پر جبکہ دوسرا اپنے پیٹ پر رکھا ہوا تھا دو دن پہلے کی دھمکی یاد کرکے ہولے ہولے سے کانپ رہی تھی
"امی یہ کیا طریقہ ہے آپ کیوں بار بار بھول جاتیں ہیں کے اب میں شادی شدہ ہوں اور مجھے پرائویسی چاہئے اِس طرح آپکو اندر نہیں آنا چائیے تھا”
اتنے اچھے لمحات میں اپنی زندگی کی پہلی خوشی کو بھی انجواۓ نہیں کرنے دیا گیا تھا اور یہی بات غُصہ ڈالا گی تھی
اُنکی تیز نظریں پیچھے بیڈ پر گئیں یہاں کوئی بھی دیکھا تو اندازہ کر سکتا تھا اُن تصویروں کے لگانے کا مقصد اور سامنے پڑا کیک سارے کمرے میں بکھرے ہوئے گلاب رخسار بیگم کو اندر تک ہلا کر رکھ گے تھے
وہی ہوا تھا جس کا ڈر تھا سب سے بڑھ کر وہ لڑکی اُسکی کوئی بات ماننے کی روادار نہیں تھی
"آخری دن ہے تمہارا لڑکی کر لو جو کرنا ہے پھر اگر تماری خوشبو بھی طالش تک پہنچ گئی تو مجھے رخسار بیگم مت کہنا”
دل میں اپنے مکرو عزائم سوچتے ہوئے دروازہ بند کرکے چلی گی
"طالش اب آپ کہیں نہیں جائیں گے نہ”
جلدی سے سامنے آکر طالش کا ہاتھ پکڑا آگے جو ہونا تھا اُسکی سنگینی دیکھتے ہوئے ڈر تھا دل میں جو جا ہی نہیں رہا تھا
"کوئی کام تم سے زیادہ ضروری نہیں ہے دیب جب تک ہمارا بچہ اِس دنیا میں نہیں آجاتا میں کوشش کروں گا کے تمہارے پاس ہی رہوں”
اتنا تو بیوقوف وہ بھی نہیں تھا جو اپنی ماں کے عزائم سے بے خبر رہتا الگ بات تھی کے ظاہر کبھی نہیں ہونے دیا تھا
دیب دھڑکتے دل کے اُسکی بناہوں میں آگئی یہاں کوئی ڈر کوئی خطرہ نہیں تھا یہاں بس محبت تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...