شام کے سات بج چکے تھے اور سمیہ ٹیلی فون کے پاس کھڑی شش و پنج میں مبتلا تھی
اک طرف اتنے سالوں کی دوستی اور محبت تھی تو دوسری طرف چند لمحوں کی بےرخی کچھ کڑوی باتیں اور جلن تھی
وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کے اسے کال کرے یا نہیں
کچھ دیر سوچنے کے بعد دل و دماغ نے اک متفقہ فیصلہ کر ہی لیا
وہ چاہے مجھ سے محبت نہیں کرتا چاہے اس نے میری دوستی میں کسی کو شریک کر لیا ہے پر اتنے سال ہم نے ساتھ گزارے ہیں میں انہیں یوں فراموش نہیں کر سکتی چاہے میں اس کے لئے کچھ نہ ہوں پر وہ میرے لئے سب کچھ ہے
اس نے نمبر ملا دیا
یوسف کیک کاٹنے ہی والا تھا کے اس کا فون بج اٹھا
ماہم کو یہ سخت ناگوار گزرا
یوسف نے فون دیکھا تو دنیا جہاں کی خوشی اس کے چہرے پر سمٹ ای
اس نے فوراً سے بھی پہلے کال اٹینڈ کی اور معذرت کر تا اٹھ کر باہر چلا گیا
ماہم اکیلی بیٹھی رہ گئی
خیریت تو ہے آج میں کیسے یاد آ گیا”
طعنے مارو گے تو بات نہیں کروں گی”
وہ ہنس دیا
اچھا سنو
ہان بولو
ہیپی برتھڈے”
تم لیٹ ہو گئی تم سے پہلے آج کسی نے وش کر دیا ”
کس نے وہ حیران تھی
میری دوست نے اس نے مسکرا کر بتایا
وہ چپ ہو گئی
لگتا ہے پاکستان میں بیٹھا کوئی جل رہا ہے اور اتنا جل رہا ہے کے بو یہاں آسٹریلیا تک آ رہی ہے”
میں نہیں جل رہی یوسف اس نے سنجیدگی سے کہا
سیم اک بات تو بتاؤ تم کیوں نہیں آئ آسٹریلیا ”
تم کیوں پوچھ رہے ہو تمھیں میرے نہ انے سے کوئی فرق تو نہیں پڑا”
فرق تو پڑا ہے سیم وہ ابھی کچھ بولنے ہی والا تھا کے پیچھے سے ماہم کھانستی ہوئی ای
یوسف چلو یہاں سے میری طبیعت خراب ہو رہی ہے
کیا ہوا ماہم تم ٹھیک تو ہو اس نے نفی میں سر ہلایا
وہ مسلسل کھانسے جا رہی تھی
یوسف نے جلدی سے فون بند کیا اور اسے سہارا دے کر اندر اک کرسی پر جا کر بٹھایا
ماہم کوئی میڈیسن ہے تمہارے پاس یا ہوسپیٹل چلیں”
میڈیسن ہے میرے پاس اس نے اپنے پرس کو کھنگالا
سوری میں گھبرا گئی تھی اس لئے تمھیں ڈسٹرب کر دیا اس نے میڈیسن لینے کے بعد کہا
ارے کوئی بات نہیں اب تم جلدی سے اٹھو اور گھر جا کر آرام کرو
ہان چلو چلتے ہیں وہ اٹھ کھڑی ہوئی
—————————————————————–
تمھیں کوئی فرق نہیں پڑتا یوسف میرے ہونے یا نہ ہونے سے تمہارے پاس اور بھی کافی لوگ ہیں دل لگانے کے لئے میں ہی پاگل ہوں
اس نے فون اسٹینڈ پر پٹخ دیا وہ یوسف کی فون بند کرنے سے پہلے تک کی باتیں سن چکی تھی
———————–
مما نادیہ کی شادی کی تاریخ کیا فائنل ہوئی ہے
اس نے سعدیہ اور ہاجرہ بیگم کے پاس بیٹھتے ہووے پوچھا
دو مہینے بعد کی رکھی ہے سعدیہ بیگم نے بتایا
ابھی تو پھر کافی ٹائم ہے ارے وقت گزرتے کون سا پتا چلتا ہے دیکھنا یوں چٹکیوں میں گزر جائے گا ہاجرہ بیگم نے مسکراتے ہووے کہا
یوسف کو کہوں گی کے وہ بھی آ کر مل جائے اسکو گئے بھی اب چوتھا مہینہ ہے دو مہینوں تک اسکا اک سیمسٹر بھی ختم ہو جائے گا پھر چھٹیاں تو ہونگی نہ انہوں نے سیم سے پوچھا
جی تائی کچھ دنوں کی ہونگی
چلو وہ بھی نادیہ کی شادی دیکھ لے گا
نادیہ یوسف کی خالہ کی بیٹی تھی اور اب اسکی شادی ہونے جا رہی تھی وہ سیم اور یوسف کی فیورٹ تھی وہ دونوں اس سے پیار بھی بہت کرتے تھے
—————————————————-
اس دن کے بعد سیم نے اسے کبھی کال نہیں کی
پر یوسف نے ہزاروں کال اس کے لئے کیں
لیکن اک کا بھی جواب سیم نے نہ دیا
آخر یوسف کو بھی غصہ آ گیا اس نے بھی کال کرنا چھوڑ دیا
سمیہ تمہارے بال بڑے ہو گئے ہیں اس دفع نہیں کٹوانے کیا
نہیں مما اب نہیں کٹواؤں گی
سعدیہ بیگم تو خوش ہو گیں
شاباش لگتا ہے اب میری بیٹی سمجھدار ہوتی جا رہی ہے
جی مما اب سمجھ آ گئی ہے”
تو بیٹا اب کپڑے بھی لڑکیوں جیسے پہنا کرو نہ”
مما میرے پاس لڑکیوں والے کپڑے ہیں ہی نہیں ”
نہیں ہیں تو خرید لو نہ بیٹا””
پر مجھے اس قسم کی شوپنگ کا کوئی اندزہ ہی نہیں ”
چلو پھر ابھی جاتے ہیں تمہارے لئے کچھ اچھے اچھے سے کپڑے لے کر اتے ہیں ”
وہ اٹھ کھڑی ہوئیں سمیہ کو لگا جیسے وہ اچانک ہی بہت خوش ہو گئی ہیں
انکی خوشی کی خاطر وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی جب سب ٹھیک کرنا ہی تھا تو ابھی سے کیوں نہی
وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا
سمعیہ اب لڑکیوں جیسے کپڑے پہنتی تھی
بال بھی کھندوں سے نیچے تک آ گئے تھے بائیک چلانا اور لڑکوں جیسے کام کرنا کب سے وہ چھوڑ چکی تھ
ی یوسف بھی روز شام کو کال کرتا پر اب سمیہ سے بات کروانے پر اسرار نہیں کرتا تھا
دونوں اپنا دل اک دوسرے کی تصویریں دیکھ کر اور ساتھ گزارے دن یاد کر کے بہلا لیتے تھے
یوسف آج تو چھٹی ہے آج ہم بیچ پر گھومنے چلتے ہیں وہ اس وقت ماہم سے فون پر بات کر رہا تھا
نہیں ماہم کل اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے مجھے ابھی اس پر تھوڑا کام کرنا ہے تم کسی اور کے ساتھ چلی جاؤ”
نہیں مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے اس نے ضد کی
اچھا ٹھیک ہے کل یونی کے بعد چلیں گے”
میرے پاس کونسا زیادہ وقت ہے یوسف گنے چنے تو دن ہیں میرے پاس میں نہیں چاہتی میری کوئی بھی خواھش ادھوری رہ جائے لیکن ٹھیک ہے اگر تم نہیں آنا چاہتے تو کوئی بات نہیں ضروری تو نہیں کہ میری ہر خواھش پوری ہو اس کی دکھ بھری آواز یوسف کے کانوں میں پڑی
اس نے اک نظر اپنی اسائنمنٹ کو دیکھا
کیا یہ کسی مرتے ہووے کی خواھش سے بڑھ کر ہے
دل و دماغ نے نہیں میں جواب دیا
اچھا ماہم آج ہی چلتے ہیں تم کار لے کر باہر پہنچو میں ابھی اتا ہوں
اس نے که کر فون رکھ دیا اور جلدی جلدی سے چیزیں سمیٹ کر کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا
———————————————————–
مما میں سوچ رگی تھی کے نادیہ آپی کے گھر کچھ دن پہلے سی ہی چلی جاؤں
وہ سعدیہ بیگم کے پاس بیٹھی بالوں میں تیل لگوا رہی تھی
ارے بیٹا شادی دو ہفتوں بعد ہے تم اتنے دن پہلے جا کر کیا کرو گی
ایسا کرنا چار پانچ دن پہلے چلی جانا انہوں نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہووے کہا
“ٹھیک ہے مما جیسا آپ کہو”
کاش ایسے ہی تم میری ہر بات مانتی اس نے حیرانی سے سر پیچھے کیا”
” مما اب تو میں آپکی ہر بات مانتی ہوں”
میں نے تمھیں یوسف کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کا کہا تھا تم نے میری بات مانی
اس نے سر جھکا لیا
مما آپ کیوں ہم دونوں کی دوستی خراب کر رہی ہیں ہم دونوں اک دوسرے کے بارے میں ایسا نہیں سوچتے
یوسف صرف مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے بس
وہ مجھ سے شادی کرنے کے بارے میں سوچے کا بھی نہیں آپ کیوں یہ بات کر کے مجھے اس سے ریجیکٹ کروانا چاہتی ہیں
وہ رو دینے کو تھی
انہوں نے اسکا سر اپنی گود میں رخ لیا وہ کسی سوچ میں گم ہو گیں, سمیہ نے خاموشی سے آنکھیں بند کر لیں
————————————————————
کیا بات ہے یوسف آج بڑے خوش نظر آ رہے ہو
وہ دونوں گولڈ کوسٹ شوپنگ مال اے ہووے تھے
ہان کیوں کے میں واپس گھر جانے والا ہوں”
کیا! ماہم چیخ اٹھی
تم نے مجھے بتایا بھی نہیں
بتا تو رہا ہوں ”
کب جا رہے ہو
کل لاسٹ اسائنمنٹ جمع کروانی ہے پرسو چلا جاؤں گا
اس لئے تو یہاں آیا ہوں سوچا گھر والوں کے لئے تھوڑی شوپنگ کر لوں
گھر والوں کے لئے یا سیم کے لئے اس نے مونھ بنا کر پوچھا
سب کے لئے یوسف نے سنجیدگی سے کہا
ماہم ذرا حیران ہوئی وہ یہ بات کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی کے یوسف سیم کی باتیں اب نہی کرتا اور تھوڑا پریشان بھی رہتا ہے
یوسف سیم سے ناراض ہو کیا”
ہان اس نے بس اتنا ہی کہا
ہان ٹھیک ہی ہے جب وہ تمھیں کوئی لفٹ نہیں کرواتی تو تمھیں بھی اس کے پیچھے دیوانہ ہونے کی بھلا کیا ضرورت ہے بندے کی کوئی سلف ریسپیکٹ بھی تو ہوتی ہے
یوسف نے سر ہلا دیا
چلو جلدی سے میری مدد کرو چیزیں خریدنے میں پھر جا کر میں اسائنمنٹ کو بھی ذرا دیکھ لوں
ٹھیک ہے چلو پہلے تمہارے مما پاپا کے لئے کچھ لیتے ہیں وہ دونوں سب کے لئے کچھ نہ کچھ خرید رہے تھے آخر میں صرف سیم ہی رہ گئی
یوسف تم اس کے لئے بھی شوپنگ کرو گے
ہان پر تم تو ناراض ہو نہ اس سے ”
ماہم میں اس پر وقتی طور پر غصہ تو ہو سکتا ہوں پر میں جانتا ہوں جب وہ میرے سامنے آے گی تو میرا سارا غصہ اور ناراضگی ختم ہو جائے گی
ماہم کے چہرے پر جلن نمایاں ہو گئی
یوسف میں تھک گئی ہوں”
تم گھر چلی جاؤ میں سیم کے لئے چیزیں خرید کر ہی آؤں گا ”
ماہم تلملا کر رہ گئی
—————————————————-
تم کہیں جا رہی ہو یوسف اس سے واپسی سے پہلے ملنے آیا تھا
ہان پاکستان کا اک میرا دوست ہے جس کی کزن کی شادی ہے پر وہ اتنا بے مروت ہے کے مجھے انوائٹ بھی نہیں کیا اس لئے خود ہی مونھ اٹھا کر جا رہی ہوں”
تم میرے ساتھ آ رہی ہو یوسف نے حیرانی سے پوچھا
ماہم نے مسکرا کر سر ہلایا
پر تمھیں سفر نہیں کرنا چاہیے اگر تمہاری طبیعت خراب ہو گئی تو”
وہ میرا مسلہ ہے تم بتاؤ ساتھ لے کر جا رہے ہو یا نہیں ”
مجھے تمہاری طبیعت کی فکر ہے”
یوسف کیا تم مجھے زندگی کی کچھ آخری خوشیوں سے محروم کرنا چاہتے ہو اس نے اداسی سے پوچھا
یوسف بس اسے دیکھ کر رہ گیا
———————————————————————
سمیہ کل سے نادیہ کے گھر ہی تھی
شادی کے ہنگامے زور پر تھے
باقی گھر والوں نے رات کو مہندی میں ہی شرکت کرنی تھی یوسف نے رات آٹھ بجے تک گھر پہنچنا تھا اور اس کے بعد سب گھر والوں نے یہاں آنا تھا سمیہ ظاہر نہیں کر رہی تھی پر دل ہی دل میں اسکی آمد پر خوش بھی تھی
رات تک کا انتظار بھی مشکل لگ رہا تھا
مہک سمیہ کو بھی اب تیار کر دو ” نادیہ نے اپنی دوست سے کہا
ساری لڑکیاں انہی کے کمرے میں جمع تھیں
آپی میں یہ مہندی کی تھال سجا لوں پھر ہو جاؤں گی تیار آرام سے” اس نے موم بتیاں لگاتے ہووے کہا
سات تو بج گئے ہیں اب بھی تیار نہیں ہوئی تو لیٹ ہو جاؤ گی
چلو شاباش اٹھو یہ بعد میں کر لینا
وہ چپ چاپ اٹھ کے اپنے کپڑے تبدیل کرنے واشروم چلی گئی
تب تک مہک نے بھی اک دو لڑکیوں کو فارغ کر لیا
آجاؤ سمیہ اب تمہاری باری وہ کپڑے تبدیل کر کے نکلی تو مہک نے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
لگ تو تم یوں بھی حسین ہی رہی ہوں لیکن دیکھنا میکپ میں تو تم غضب ڈھاؤ گی سمیہ مسکراتے ہووے کرسی پر بیٹھ گئی
بیس منٹ میں ہی مہک نے اسے کسی دیس کی ملکہ کی طرح تیار کر دیا
یہ لو اب دیکھو ذرا خود کو اس نے شیشہ اس کے سامنے کیا
اک منٹ کے لئے تو سمیہ بھی حیران رہ گئی یہ میں ہوں کیا میں اتنی اچھی بھی لگ سکتی ہوں
مہک ہنس دی
ہان سمیہ تم اتنی ہی حسین لگ رہی ہو کے دیکھنے والا تمہارے حسن پر فدا ہو جائے گا
وہ اٹھ کر ڈریسنگ کے سامنے آ کے کھڑی ہو گئی وہ مجھے یوں دیکھ کر کیا کہے گا کیا میں اسے یوں اچھی لگوں گی وہ حیران تو ضرور ہوگا سمیہ سوچ کر مسکرا دی
پھر اس نے اک نظر گھڑی کو دیکھا جہاں اب آٹھ بج رہے تھے یوسف چونکنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا
—————————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...