“سعد بیٹا اٹھ جاؤ۔ یونی نہیں جانا کیا؟” سعدیہ بیگم کمرے میں داخل ہوتے کہہ رہی تھی لیکن سعد پر نظر پڑتے ہی وہ بے ساختہ مسکرادی۔ وہ بلکل بچوں کے سے انداز میں سویا ہوا تھا۔کمبل آدھا اس پر جبکہ آدھا بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا۔تکیہ بیڈ کو چھوڑ کر فرش پر آرام فرما رہا تھا۔اور سعد۔۔۔۔۔۔۔ سعد سیدھی کروٹ لیے بلکل کنارے پر لیٹا تھا اس طرح کہ ذرا سا ہلنے پر اس کے گرنے کے خدشات تھے۔اور رہی سہی کسر اسکی منہ میں سے نکلتی رال نے پوری کردی جو اسکی گھنی داڈھی کو بگھو رہی تھی۔
“سعد” وہ زرا اونچی آواز سے پکارتی آگے بڑھی۔مگر یہ کیا۔۔۔۔سعد جو شاید کوئ ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا ماں جی کی اونچی آواز سن کر اک دم ہڑبڑا کر اٹھا اور دھڑام سے نیچے گر گیا۔۔۔
سعد کو گرتا دیکھ کر سعدیہ بیگم فکرمندی سے آگے بڑھی اور اسکے پاس بیٹھ کر اسکے سر کو نرمی سے سہلاتے ہوۓ کہنے لگی” بیوقوف ہو تم بلکل۔ کتنی بار کہا ہے کنارے پر ہو کر مت سویا کرو۔۔۔ مگر مجال ہے جو تم کسی کی سن لو۔اب آگیا چین۔” سعد اپنی آنکھیں مسلتاہوا مسکراتے ہوۓ انہیں دیکھنے لگا.
“میں بڑا کب ہوا ہوں۔ ابھی تو میں چھوٹا سا بچہ ہوں جس کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب وہ کسکتے کسکتے بیڈ کے کنارے پر آجاتا ہے” سعد نے انکی گود میں سر رکھ کر مسکرا کر شرارت بھرے لہجے میں جواب دیا۔
“ہاں ہاں بلکل 23 سال کے گھوڑے جتنے بچے ہو نہ تم” سعدیہ بیگم اب بھی ناراضی سے بولی۔
“ہاں جییییی۔۔۔” اسنے جی کو لمبا کیا” ماں باپ کے لیے تو 50 سال کے انکل بھی بچے ہی ہوتے ہے نہ میں تو پھر ابھی ان سے آدھی عمر کا ہوں اس لیے چھوٹا سا بچہ ہوا نہ” وہ سر معصومیت سے دیکھتے ہوۓ بولا۔سعدیہ بیگم سے کوئ جواب نہ بنا تو وہ اس کے سر ہر ہلکی سی چپیڑ مار کر اٹھ کھڑی ہوئ اور کہنے لگی” فضول ہی بولنا بس تم۔ اٹھو دیر ہورہی ہے یونی سے۔تیار ہوجاؤ اور نیچے آؤ تمھارے ابو ناشتے ہر تمھارا انتظار کررہے ہے” وہ یہ کہہ کر باہر چلی گئ جبکہ وہ اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
ندا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی یونی ھانے ک کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ وائٹ جینز پر لائٹ پنک گٹھنوں سے ٹھوڑی اوپر تک آتی قمیض پہنے دائیں کندھے پر دوپٹہ سیٹ کیے کندھوں تک آتے ہلکے گھنگریالے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ اک خوبصورت اور پر کشش لڑکی تھی۔اس نے خود پر ایک نظر ڈالی اور باہر نکل گئ۔ ناشتے کی میز ہر حسین صاحب اور سونیا بیگم اسکی منتظر تھی۔ ندا کو دیکھ کر دونوں مسکرا دیے۔
“آگئ میری بیٹی” انہوں نے اپنی باہہں پھلائی۔ ندا مسکراتی ہوئ دونوں کو سلام کرتے حسین صاحب سے لپٹ گئ۔انہوں نے اسکے سر ہر بوسہ دیا اور پھر ناشتہ کرنے کا کہتے خود بھی ناشتہ کرنے لگے۔ ناشتہ ختم کر کے حسین صاحب اور ندا آفس اور یونی جانے کے کیے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ حسین صاحب باہر نکل گۓ جبکہ ندا ماں کے گلے لگ کر ان سے پیار لیتی اور اللہ حافظ کہتی بیگ اٹھاا کر ان کے پیچھے باہر نکل گئ۔
سعد کلاس لینے کے بعد ندا کی تلاش میں ادھر ادھر نظریں گھماتا چل رہا جب اک دم کوئ اس سے زور سے ٹکرایا۔ سنبھل کر اس نے سامنے دیکھا تو مایا سامنے ڈری سہمی سی کھڑی تھی۔وہ بار بار مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی۔مایا کی کتابیں نیچے گری ہوئ تھی۔
” سس سس۔۔ سوری۔۔ وہ وہ مم مم میں میں نے اآپکو دیکھا نہیں سوری” وہ ہکلاتے ہوۓ بولی تو جیسے سعد ہوش میں آیا۔ سعد نے غور سے اسے دیکھا جس پر خوف پھیلا ہوا تھا۔وہ اب کتابیں اٹھانے کے لیے جھک رہی تھی لیکن سعد نے اس سے پہلے تیزی سے جھک کر کتابیں اٹھا کر اسے پکڑا دی۔ ” سوری تو مجھے کرنا چاہیے آپ کیوں کررہی ہے۔ سوری میں اصل میں کسی کو ڈھونڈ رہا تھا تو دھیان نہیں دیا۔ لیکن آپ اتنا ڈری ہوئ کیوں ہے۔کیا کوئ پرابلم ہے؟” سعد پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ جبکہ اس کی بات سن کر مایا نے چونک کر اسے دیکھا لیکن پھر نظریں جھکا کر بولی” نہ نہیں۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ تھینک یو!!” وہ اب سنبھل چکی تھی۔ جواب دے کر وہ رکی نہیں آگے بڑھ گئ۔ سعد اسے جاتا دیکھکر کندھے اچکا کر دوبارا نظریں گھما کر ندا کو ڈھونڈنے لگا اور وہ آخر کار اسے نظر آ ہی گئ۔ اسے دیکھ کر سعد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئ۔
“تو یہاں چھپ کر بیٹھی ہے محترمہ” وہ بڑبڑاتا ہوا اسکی طرف بڑھ گیا۔
وہ ایک درخت سے ٹیک لگاۓ کانوں میں ہینڈ فری لگاۓ کچھ پڑھ رہی تھی جب وہ اسکے سر پر جا پہنچا۔ندا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کے چہرے میں مسکراہٹ رینگ گئ۔
“تم بہت لاپرواہ ہوتی جا رہی ہو دیکھ رہا ہوں میں تمھیں۔ تمھیں کوئ فکر ہے میری۔۔۔ کل کتنی دفعہ کال کی وہ پک نہیں کی اتنے میسجز کیے وہ سین کر کے رکھ دیے جواب دیتے ہوۓ تو جیسے انگلیوں میں درد ہو رہا تھا نا۔ اور اب اتنی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں تمھیں اور تم سے یہ تک نہیں ہو سکا کہ مجھ سے آکر مل ہی لو۔حد ہوگئ” سعد غصے میں نان سٹاپ بولتا گیا۔جبکہ ندا پیٹ پکڑ کر ہنستی چلی گئ۔ اس کے اس طرح ہنسنے پر سعد “ہنہ” کہہ کر سامنے دیکھتا بچوں کی طرح منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ جس پر ندا نے اپنی ہنسی روک کر غور سے اسے دیکھا۔ “سعد” وہ سنجیدگی سے بولی۔ “سعد بچے بات تو سنو” ندا نے اپنی ہنسی روک کر بھر پور سنجیدگی سے اسے دوبارا پکارا۔ اور سعد خود کو بچہ کہے جانے پر ندا کو گھورنے لگا جس پر ندا مسکرا دی۔
“سعد۔۔ اچھا سوری۔۔ میں کل ماما پاپا کے ساتھ باہر گئ ہوئ تھی اور موبائل گھر رہ گیا تھا۔ رات کو دیر سے گھر آۓ۔ آکر تمھارے مسج پڑھے اور جواب لکھ ہی رہی تھی ک لائٹ چلی گئ جس کیوجہ سے WiFi بھی آف ہو گیا اس لیے تمھیں جواب نہیں دے سکی۔۔۔ ریلی سوری” وہ وضاحت دیتی آخر میں کان پکڑ کر سوری کرنے لگی۔اسے کان پکڑتا دیکھ کر سعد بھی پگھل گیا مگر پھر بھی سخت آواز میں بولا ” اوکے آئیندہ دھیان رکھنا”
“اوکے۔ اب اپنا موڈ ٹھیک کرو جلدی سے۔ آؤ مجھے بھوک لگی ہے کینٹین سے کچھ کھاتے ہیں” ندا کہتی اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ سعد کے چہرے پر اب مسکراہٹ تھی۔ وہ ندا کو دیکھے گیا۔ اسکی نظروں کو خود ہر محسوس کرکے ندا نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
“ندا میں اپنے امی ابو کو تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں” سعد ذرا توقف کے بعد بولا
“کیا مطلب” ندا نے اجنبی بن کر پوچھا۔
“اف وو۔۔۔ مطلب میں انہیں ہمارے رشتے کی بات کرنے کے لیے تمھارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔
“اوو۔۔۔ تووو۔۔۔” ندا نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا۔
“تمھیں کوئ اعتراض تو نہیں” وہ تحمل سے بولا۔
“مجھے کیا اعتراض یو سکتا ہے؟؟” وہ مسکرا کر بولتی نظریں جھکا گئ۔ سعد نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔
مایا اپنے بڑے بھائ موئذ کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کے والدین ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں خالق حقیقی سے جا ملے تھی۔ تب موئذ 20 سال کا اور مایا 18 سال کی تھی۔ موئذ نے اس عمر میں نہ صرف بہن کو سنبھالا بلکہ والد صاحب کا چھوڑا ہوا بزنس بھی اچھے سے سنبھال گۓ کہ والد صاحب اکثر ہی اسے اپنے ساتھ لگا لیتے اور کچھ موئذ کو خود بھی شوق تھا۔ موئذ کو پڑھائ سے بھی لگاؤ تھا تو وہ صبح میں آفس سنبھالتا اور شام میں کلاسسز لیتا۔ موئذ ایم اے انگلش کے لاسٹ ایئر میں تھا جبکہ مایا بی اے کے لاسٹ ایئر میں تھی۔
اس وقت مایا یونی سے آکر نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھا رہی تھی۔ بلکہ کھا بھی کیا رہی بس پلیٹ میں چمچ چلا رہی تھی۔
دماغ ابھی تک صبح یونی میں ہونے والے واقع میں ہی پھنسا تھا۔
سر کلاس لے کر جا چکے تھے اور کلاس تقریبا خالی ہو چکی تھی۔ وہ بھی چلی جاتی اگر اس کا پین نہ گم گیا ہوتا وہ آس پاس نظریں دوڑاتی پین ڈھونڈ رہی تھی جب اسے کسی کی آواز سنائ دی
“مایا” اس نے پکارنے پر مایا نے سر اٹھایا تو سامنے شعیب کو پا کرا اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
“جی” اس نے ماتھے پر بل دال کر جواب دیا
“آپ شاید یہ ڈھونڈ رہی ہے؟” اس نے مسکراتے ہوۓ مایا کے سامنے پین لہرایا۔
“جی۔ مگر یہ آپ کو کہا سے ملا؟” حیرت بھرے لہجے میں بولا گیا
“میں جہاں بیٹھا تھا وہاں گرا ہوا تھا۔ اٹھا کر دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ آپ کا ہے” شعیب نے پین اسکی طرف بڑھایا۔مایا نے چونک کر اسے دیکھا۔ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ اس نے یہاں سے جانے میں بہتری سمجھی سو وہ بیگ اٹھا کر اسکا شکریہ ادا کر کے اس کے پاس سے گزر کر باہر جانے لگی لیکن یک دم شعیب نے اس کی کلائی پکڑی اور اسے پیچھے کء زور سے کھینچھا وہ ایک جھٹکے سے واپس اپنی جگہ آ کر لرکڑائ۔ خود کو گرنے سے بچانے کے کیے اس نے پاس پڑی کرسی کا سہارا لیا اور پھر خونخوار نظروں سے سامنے مسکراتے ہوۓ کھڑے شعیب کو گھورا۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ہٹو سامنے سے۔” وہ چلائ
” اتنی بھی کیا جلدی ہے جانے کی۔ کچھ وقت ہمارے ساتھ بھی گزار کیا کرو” وہ شیطانیت سے کہتا قریب آیا۔ مایا فورا پیچھے ہٹی۔ مگر شعیب نے یک دم اسکا ہاتھ پکڑ اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ اسکے ساتھ لگ گئ۔خوف کی اک لہر اسکے اندر دوڑ گئ۔ جسم ہولے ہولے کاپنے لگا۔ مایا نے اسے دور کرنا چاہا مگر اسکی گرفت سخت تھی۔ جبکہ شعیب بے قابو ہوتا اسکے اوپر جھکنے لگا۔ مایا کے آنکھوں سے اب آنسو بہہ رہے تھے۔ اسے اور کچھ نا سوجھا۔ وی ایک دم شعیب کے بازو پر جھکی اور اس ہر اپنے دانت گاڑ دیے۔ درد کی شدت سے اسکی گرفت کمزور ہوئ تو مایا نے اسکا حصار توڑا اور کسی چیز کی پرواہ کیے بنا ہی دوڑتی چلی گئ۔ جب وہ اس شخص سے ٹکڑائ۔
مایا ایک گہری سانس لے کر جیسے حال میں لوٹی۔
“نجانے کون تھا وہ۔ مگر جو بھی تھا۔ شکر ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا” مایا بڑبڑائ۔ اور کھانے کی طرف دیکھا جو ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
“ام ابا میں آپ دونوں سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں” وہ سب ڈنر کرنے کے بعد لاؤنچ میں بیٹھے چاۓ پیتے ہوۓ باتیں کرنے میں مصروف تھے جب سعد نے جھجھکتے ہوۓ بات شروع کی۔ دونوں نے سعد کی طرف دیکھا۔
” ضرور برخوردار! ایسی کیا بات ہے جسے کرنے سے پہلے آپ کو اجازت لینی پڑ رہی ہے؟” وقار صاحب نے نرمی سے پوچھا۔
” اگر میں آپ سے کوئ خواہش کرو یا یہ کہہ کہ اپنی زندگی کی اہم خواہش کرو تو کیا آپ پوری کریں گے؟” سعد نے تہمید باندھی تو دونوں پہلے تو چونکے مگر پھر کچھ کچھ سمجھ کر مسکراہٹ دبا گۓ۔
“اہاں۔۔۔۔ ضرور۔۔۔ بولو ااپنی ‘زندگی کی اہم خواہش’۔۔۔” وقار صاحب نے کہا۔ سعد کو انکا ہلکا مزاج دیکھ کر کچھ حاصلہ ملا تو اس نے گہری سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کی اور تیزی سے بولا۔
” وہ۔۔ دراصل۔۔۔ میں ۔۔ میری یونی میں ایک لڑکی ہے۔۔۔۔ میرے ساتھ ہی پڑھتی ہے۔۔ ندا نام ہے اسکا۔۔ بہت اچھی ہے۔۔ آپ سمجھ رہی ہے نہ؟؟” دونوں ہی اسکے انداز پر بمشکل اپنی ہنسی روکے نا سمجھی کا اظہار کرتے اسے دیکھنے لگے۔
“کیا مطلب ہم کچھ سمجھے نہیں” اس بار سعدیہ بیگم نے کہا۔ سعد نے حیرت سے انہیں دیکھا۔۔۔ مگر خیر۔۔۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کی اور روانی سے بوک گیا۔” وہ مجھے ندا پسند ہے۔ مجھے اس سے شادی کرنی ہے”
اس نے بات ختم کر کے اپنی آنکھیں کھولی تو دونوں اسے غصے سے گھور رہے تھے۔
” تم یونی پڑھنے جاتے ہو یا یہ سب کرنے؟؟؟” وقار صاحب نے غصے سے پوچھا۔
نہیں وہ میں۔۔۔ بس۔۔” سعد کو ایک شرمندگی نے آگھیرا تو وہ سر جھکا گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے اسے اپنے والدین کی ہنسنے کی آواز آئ تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
” چلو تم نے تو میرا یہ کام بھی آسان کردیا” سعدیہ بیگم نے کہا تو وہ گویہ کھل اٹھا۔
” کیا لڑکی کو پتہ ہے؟؟” سعدیہ بیگم نے پوچھا۔
” جی جی۔۔۔ وہ جانتی ہے۔۔۔ میں نے تو اس سے اس کے گھر رشتہ لے کر آنے کی اجازت بھی لے لی ہے۔” سعد ایک دم روانی میں بوم گیا۔ سعدیہ بیگم نے معنی خیز انداز میں وقار صاحب کی طرف دیکھا۔
” آہاں تو بات یہاں تک آپہنچی ہے” وقار صاحب نے اسے چھیڑا تو وہ کھسیانی سی ہنسی ہنس کر رہ گیا۔
” تم ہمیں اب بتا رہی ہو” سعدیہ بیگم نے شکوہ کیا۔
” نہیں امی جان۔وہ میں پہلی اس سے پوچھ لینا چاہتا تھا ۔۔ اسی لیے۔۔” اس نے فورا سفائ دی۔
“اچھا چلو۔۔۔ تصویر تو دکھاؤ ہمیں لڑکی کی” سعدیہ بیگم نے کہا تو سعد نے فورا موبائل میں سے ایک گروپ فوٹو نکال کر اس میں ندا کی پک زوم کر کے سعدیہ بیگم کو دکھانے لگا۔
ندا سونیا بیگم کے کمرے میں انکی گود میں سر رکھے لیٹی مسلسل سعد وقار کو سوچ رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے ماما کو سعد کے بارے میں بتاۓ۔ پتہ نہیں وہ کیسا ری ایکٹ کرے۔ وہ مسلسل یہ ہی سب سوچ رہی تھی جبکہ سونیا بیگم ایک ہاتھ میں میگزین پکڑے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں ندا کے بالوں میں چلاتے میگزین پڑھنے کی بجاۓ اسے گھورتی یہ سوچ رہی تھی کہ ندا ان سے کیا کہنا چاہتی ہے۔ وہ تقریبا پچھلے آدھے گھنٹے سے ایسے ہی ان کی گود میں لیٹی ہوئ تھی۔ وہ کوئ بات کرتی تو کبھی تو اسکا جواب ملتا ہی نہیں اور ملتا بھی ےو غائب دماغی سے۔ اس لیے سونیا اب خاموشی سے اس کے بولنے کا انتظار کررہی تھی۔ چند لمحوں بعد ندا کی آواز نے کمرے میں پھیلی معنی خیز خاموشی کو تھوڑا۔
“ماما مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے” ندا نے ہمت مجتمع کر کے کہا۔ جو بات اسے سب سے آسان لگ رہی تھی اب اتنی ہی مشکل ثابت ہو رہی تھی۔
“جی میری جان بولو” سونیا بیگم میگزین ایک طرف رکھتے ہوۓ نرمی سے بولی
” وہ دراصل ماما۔۔” وہ خاموش ہوئ کہ اسے سمجھ نہ آیا کہ اس سے آگے وہ کیا کہے۔ سونیا بیگم نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایسی کیا بات ہے جسے کہتے ہوۓ وہ اتنا جھجھک رہی ہے۔
” بولو ندا بیٹا میں سن رہی ہوں” انہوں نے جیسے اسے اکسایا۔ اسے تھوڑا حوصلہ ملا۔
” وہ دراصل میری یونی ورسٹی میں ایک لڑکا ہے سعد۔۔۔ سود نام ہے اسکا۔ بہت اچھا ہے۔۔ وہ ہمارے گھر آنا چاہتا ہے اپنے والدین کے ساتھ..” اس نے تیزی ست بات ختم کرکے سر اٹھا۔ کر انہں دیکھا۔ سونیا بیگم پہلے تو چونک کر سیدھی ہوئ کہ انہیں اس بات کی امید نہیں تھی۔ لیکن پھر انجان بن کر چہرے پر نا سمجھیں کہ سے تاثرات سجا لیے۔
” یہ تو اچھی بات ہے۔ ہزار بار آۓ مگر اس میں خاص بات کیا تھی؟”
ندا تھوڑا جزبز ہوئ مگر پھر گہری سانس لیتی نظریں جھکا کر دھیرے دھیرے کہنے لگی” ماما وہ ہمارے رشتے کے لیے اپنے والدین کو بھیجنا چاہتا ہے” وہ اپنے ناخنوں سے کھیلنے لگی۔ دوسرے طرف ہنوز خاموشی برقرار رہی تو اس نے دڑتے دڑتے سر اٹھاکر انہیں دیکھا تو انکے چہرے پر خوشی کی چمک دیکھ کر وہ بے اختیار مسکرا اٹھی۔ ایک دم دل کو تسلی سی ملی۔
” ماما آپ کو موئ اعتراض تو نہیں ہے؟ ”
“بیٹا جی اگر آپ خوش ہو تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟”
وہ ایک دم کھل اٹھی۔
” شکریہ ماما۔ لیکن کیا پاپا مان جائیں گے” اسے ایک اور فکر نے آ گھیرا۔
” ضرور بیٹا۔۔ تمھاری خوشی ان کے لیے سب سے پہلے ہے۔” انہوں ںے محبت سے کہا۔
” شکریہ ماما جان۔۔ you are the best mama in the world” وہ خوشی سے چہکتی ان کے گلے لگ گئ۔
” ہمیشہ خوش رہو” انہوں نے اسکی پیشانی چوم کر اسے دعا دی۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ تاکہ یہ خبر سعد کو سنا سکے۔