شنو اور بسمہ واپس اپنے کمرے میں آگئیں۔ بسمہ کو ابھی بھی بے چینی تھی کہ کب اسے بلایا جائے اور گھر چھوڑ کے آئیں۔ ابھی اس نے نہیں سوچا تھا کہ وہ کہاں جائے گی مگر وہ یہاں مزید نہیں رہنا چاہتی تھی۔
شنو سے بار بار پوچھنا بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ فاطمہ باجی نے تو کہا تھا کہ کل عدالت میں پیشی کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔ اسے احساس بے بسی سے رونا بھی آرہا تھا اور غصہ بھی۔ کہنے کو وہ پہلے بھی کبھی بغیر اجازت گھر سے نہیں نکلی مگر جو قید کا احساس یہاں تھا وہ کبھی محسوس نہیں ہوا۔
شنو اس کو مزید عورتوں کے بارے میں بتارہی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کی بات کو غور سے سن رہی تھی۔ شنو نے ٹھیک کہا تھا کہ سیدھا کہا جائے تو یہاں ہر دوسری عورت شادی کے لیئے آئی تھی۔ مگر اس کے پیچھے وجوہات دیکھی جائیں تو سب بہت مضبوط۔ بسمہ کو حیرت ہوئی کہ لوگ کیسے جانے بوجھے بغیر ان عورتوں کو بدکردار کہہ دیتے ہیں۔ ان کے مسائل جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ پھر اسے اپنی سسرال اور میکے والوں کا رویہ یاد آیا سوچ تو ان کی بھی یہی تھی۔ انہوں نے رافیعہ ہو نازیہ یا بسمہ تینوں کو ایک جیسا ہی سمجھا تھا۔ اسے یاد آیا اس کے بھائی کس طرح اس پہ ہر وقت کڑی نظر رکھتے تھے جیسے وہ بہکنے کے لیئے ہر وقت تیار ہو۔
تقریبا ساڑھے دس بجے اسے میڈم نے بلوا لیا۔ ان کے سامنے ہی اس کا بیان لکھوایا گیا۔ بیان سننے کے بعد نرگس بولی
“کل تو تم نے کچھ اور بتایا تھا؟”
“باجی مجھے نہیں یاد کہ میں نے کل کیا بتایا تھا مگر اب جو بتا رہی ہوں یہ بالکل سچ ہے۔ آپ چاہیں تو میرے دیئے ہوئے نمبروں پہ رابطہ کر کے پوچھ لیں۔”
“شوہر نے گھر سے کیوں نکالا؟ کوئی لڑکے کا چکر ہے تو بتا دو۔ دیکھو پتا تو ہمیں چل ہی جانا ہے تو شروع میں چھپانے سے کیا فائدہ۔”
“میرے شوہر نے پیسے منگوائے تھے وہ پورے نہیں تھے اس لیئے نکالا کسی لڑکے کا کوئی چکر نہیں ہے۔”
“مرضی ہے تمہاری بھئی یہاں آکر شروع میں سب یہی کہتی ہیں مگر جاتی ہمیشہ کسی یار کے ساتھ ہی ہیں۔”
اگر شنو نے صبح اسے اس حوالے سے نا بتا دیا ہوتا تو شاید اسے یہ الزام بہت برا لگتا۔ تکلیف دہ تو اب بھی تھا اس کے لیئے مگر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ ان کے لیئے یہ عام سی بات کیوں ہے۔
“نرگس بیٹا بچی کہہ رہی ہے تو ٹھیک ہے پریشرائز مت کریں۔ اس کے سائن اور تھمب امپیرشن لے لیں۔ تاکہ بچی فارغ ہو۔”
میڈم نے مخصوص نرم مگر تحکمانہ انداز میں کہا۔نرگس نے سر ہلایا اور کاغذات پہ اس سے انگوٹھا لگوا کر کچھ جگہ سائن بھی لیئے۔
وہ باہر نکلنے والی تھی جب میڈم نے اس کو مخاطب کیا۔
“بیٹا ہم آپ کے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ صبح کورٹ میں آجائیں۔ پھر آپ کی مرضی سے آپ کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت مل جائے گی۔” بسمہ نے سر ہلا دیا اور کمرے سے نکل آئی۔ کمرے میں آکر وہ خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گئی۔ کافی عرصے بعد پھر سے سوچوں کی یلغار تھی۔ شادی سے لیکر اب تک کا عرصہ تقریبا ڈیڑھ سال ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی خواب میں گزرے۔ اگر وہ دارلامان میں نا ہوتی تو اسے لگتا کہ شاید واقعی اس نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہے۔ اسے دوبارہ زندگی ریوائینڈ ہوتی لگ رہی تھی۔ وہ شعور کے بعد سے اب تک کی زندگی کے ہر پہلو کو جانچ رہی تھی۔ لڑکپن میں جذبات کا بدلنا، گھر والوں کا رویہ،گل بانو کی شادی اسلم سے محبت نما کچھ، اسلم کا بالکل غیر متوقع وہ بے ہودہ آفر کرنا، پھر ایک دم ہی گل بانو کی ڈیتھ جس کا اسے ابھی تک یقین نہیں آیا۔ اور آج ان چند لڑکیوں کو دیکھ کر گل بانو شدت سے یاد آئی جن کی شادیاں ان کے گھر کے کسی مرد کے جرم کے عوض میں کی گئی تھیں۔ اس کی زندگی میں اور اس دارلامان میں کیا فرق تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ کوئی ایک بھی قدم اس نے اپنی مرضی سے نہیں اٹھایا ایک بھی نہیں۔ وہ یہ سوچ کر کہ وہ اگر فرمان بردار رہے گی تو اس کو سراہا جائے گا۔ کوئی تو اس کی اس فرمانبرداری کو اچھی نظر سے دیکھے گا۔ کبھی تو اس کی خدمت اور نبھانے کی صلاحیت دوسروں کے دلوں کو نرم کرے گی۔ مگر اس کی تمام کوششیں اس بری طرح ناکام ہوئیں۔ اسے ایک کامیاب زندگی کے لیئے جو سکھایا گیا تھا اس نے اس طریقے پہ مکمل طور پہ عمل کیا تھا۔ اسے ہمیشہ فائزہ اور نفیس آنٹی کا اعتماد متاثر کرتا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پہ مجبور کردی گئی تھی کہ ان کا چلن غلط ہے اور عورت کبھی بھی پر اعتماد رہ کر کامیاب زندگی نہیں گزار سکتی۔ اسے پتا نہیں کیوں وہ خبر یاد آگئی جو نازیہ بھابھی نے ازراہ مذاق سنائی تھی۔
“جب تک ہم عورتیں اپنے حقوق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا بلکہ ممکن ہے کہ ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے”
بسمہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس بندی کا نام کیا تھا جس نے یہ تقریر کی تھی۔ اسے اس دن جو بات غلط لگی تھی آج حرف بہ حرف ٹھیک لگ رہی تھی۔ ہر حق تو چھین لیا گیا تھا اس سے۔ مارنے تک کی دھمکی تو دے ہی چکا تھا باسط۔ اور جو شخص ایک عورت کی عزت لوٹ چکا ہو۔ اس کے لیئے کسی دوسری عورت کو قتل کرنا کیا مشکل ہوگا۔ اور بسمہ کے ساتھ بھی اس کا تعلق کونسا بہتر تھا۔ شوہر ہونے کے باوجود بسمہ کو روز جس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا وہ اسے کسی ریپ سے کم نہیں لگتی تھی۔ مگر وہ شعوری طور پہ کبھی اسے قبول نہیں کرپائی۔
یہ تو نہیں چاہا تھا اس نے۔ کوئی بہت بڑے بڑے خواب نہیں تھے اس کے، بس ایک خواہش ہی تھی نا کہ جو زندگی کا ساتھی ہو وہ محبت اور عزت کرنے والا ہو۔ اس کا لمس بسمہ کے لیئے باعث تکلیف نا ہو۔ ایسا کیا گناہ کیا تھا اس نے جس کی اتنی بڑی سزا ملی اسے۔ اس نے تو سب کو خوش رکھنا چاہا تھا۔ امی ابو دادی باسط ساس سسر حد یہ کہ نازیہ بھابھی تک کو۔ وہ سامنے دیوار کو گھورے جارہی تھی اور آنسو بہہ رہے تھے۔
“بسمہ، شنو” ذکیہ نے دروازے سے اندر جھانک کے دونوں کو آواز دی تو بسمہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اس نے چونک کر ذکیہ کو دیکھا اور آنسو پونچھے۔
“میڈم نیچے ہال میں بلا رہی ہیں کوئی این جی او والے آئے ہیں۔ وہ والی میڈم بھی ہیں جو پچھلے ہفتے آئی تھیں نا۔ بڑی پیاری سی۔”
“میڈم بختاور؟” شنو ایک دم پر جوش ہوگئی۔
“چل چل بسمہ یہ باجی بہت اچھی ہیں۔ چل سنتے ہیں کیا بتانے آئی ہیں”
“بسمہ کو نام سنا سنا لگا۔
“یہ کون ہیں شنو”
“میڈم بختاور احمد؟ عورتوں کے حقوق کے لیئے کام کرتی ہیں۔ پہلے بھی دو بار یہاں آچکی ہیں۔ بہت اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ مجھے بہت ہمت ملتی ہے ان کی باتوں سے۔ کہہ رہی تھیں یہاں کوئی پراجیکٹ شروع کرنا چاہ رہی ہیں تاکہ عورتوں کی کچھ مدد ہوسکے۔” شنو اور بسمہ باتیں کرتی جارہی تھیں اور ہال کی طرف جارہی تھیں۔ بسمہ کو ایکدم یاد آیا یہی نام تو تھا اس تقریر والی کا۔ شاید وہ ہی سب سے پہلے ہال میں پہنچیں۔ کیونکہ ہال میں دو تین عورتیں ہی نظر آئیں جو لباس سے ذرا الگ ماحول کی لگ رہی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ نا دارلامان کی رہنے والی ہیں نا اسٹاف ہیں۔ دو کا رخ ان کی طرف تھا اور ایک پیچھے مڑ کے بیگ سے سامان نکال نکال کے رکھ رہی تھی۔
شنو نے اشارہ کیا اسی عورت کی طرف جو سامان نکال رہی تھی
“یہ ہیں میڈم بختاور۔ باقی دونوں بھی ان کے ساتھ آتی ہیں مگر بات یہی کرتی ہیں۔ تو ان کا ہی نام یاد رہ گیا۔”
بسمہ نے سر ہلا دیا۔ نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ساری جگہ ہی خالی تھی شنو اور بسمہ آگے ہی جاکر بیٹھ گئیں۔ شنو نے بیٹی کو گود میں لٹا لیا۔ وہ عورت کام نپٹا کر پلٹی تو بسمہ کو لگا اس نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ پھر ایک دم ذہن میں جھماکہ ہوا
“اسلم کی بھابھی”
بسمہ اور بختاور کی نظریں ملیں تو بختاور کی آنکھوں میں بھی شناسائی اور حیرت جھلکی۔ مگر وہ کچھ بولی نہیں۔ کافی عورتیں آگئی تھیں اور کچھ آرہی تھیں۔ پانچ منٹ اور انتظار کر کے بختاور نے بات کا آغاز کردیا۔ اس نے اپنا اور اپنے ادارے کا تعارف کروایا پھر بتایا کہ وہ دارالامان میں ایک پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں جس میں خواتین کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے۔ اور تعلیم بالغان کا بھی آغاز کیا جائے گا۔ اس نے بیگ میں سے نکالے ہوئے سامان میں سے کچھ فارمز وغیرہ نکال کے دکھائے۔ پھر اپنی بات کی وضاحت کی
“دیکھیں یہاں آنے والی خواتین کو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر نے چھوڑ دیا اور گھر والے یا تو قبول ہی نہیں کر رہے یا پھر دوبارہ اپنی مرضی سے شادی کروانا چاہتے ہیں۔ آپ کو قانون اور شرع دونوں یہ حق دیتے ہیں کہ جہاں آپ شادی نہیں کرنا چاہتی وہاں منع کر سکتی ہیں مگر ہمارا معاشرہ آپ کو یہ حق نہیں دیتا۔ شادی کے نام پہ بار بار بیچنا عورت کی تذلیل ہے۔ آپ کا حق ہے کہ آپ کی شادی میں آپ کی رائے کو فوقیت دی جائے۔ اب آپ لوگ یہ سوچ رہی ہوں گی کہ میری اس پوری تقریر کا ہمارے پراجیکٹ سے کیا تعلق ہے۔ تو تعلق یہ ہے کہ یہاں پہ آپ لوگ محفوظ تو ہیں مگر یہاں آپ کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ آپ لوگوں کو واپس کہیں نا کہیں جانا ہوتا ہے یا تو مجبور ہو کر والدین کے یا شوہر کے پاس یا پھر دوسری شادی کرنی پڑتی ہے۔ میرے دارلامان میں کافی چکر لگ چکے ہیں اور میں نے جو بات نوٹ کی وہ یہ کہ آپ میں سے عموما خواتین مجبور ہوکر دوسری شادی کرتی ہیں کیونکہ آپ کو باہر تحفظ چاہیئے مگرجس کے ساتھ اپ لوگ تحفظ کے لیئے جاتی ہیں وہی شخص آپکو تحفظ نہیں دیتا اور بہت سی خواتین دوبارہ کچھ عرصے بعد یہاں آنے پہ مجبور ہوجاتی ہیں اور پھر کسی تیسرے کی امید لگا لیتی ہیں جو انہیں یہاں سے نکال سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی مسئلے کا حل ہے؟”
خواتین نے نفی میں سر ہلایا
“میڈم ہم کریں بھی تو کیا کریں۔ لوگ ہمیں اکیلا جینے ہی نہیں دیتے۔ ہماری تو قوم ایسی ہے پچھلے شوہر سے تو طلاق عدالت نے دلوا دی مگر ہمارا جو پورا قبیلہ بیٹھا ہے کہ میں نکلوں یا تو مجھے قتل کردیں یا پھر کسی اور کو بیچ دیں۔ ایسے میں ہمارے پاس کیا حل رہ جاتا ہے۔ ہمیں بھی پتا ہوتا ہے یہ دوسرا بھی سر پہ نہیں بٹھائے گا مگر شاید دو جوتے کم مارے۔ میرا تو دوسرا شوہر بھی ڈھونڈ لیا ہے گھر والوں نے، پچاس ہزار میں”
یہ وہی تھی جس کے شوہر نے اسے اس لیئے نکال دیا تھا کیونکہ سسر اور دیور کی اس پہ بری نظر تھی۔
“بالکل یہی بات جو میں کرنا چاہ رہی ہوں۔ تم لوگ مجبور ہو دو وجوہات سے ایک تو یہ وجہ کہ جنہیں تحفظ کرنا چاہیئے وہی مارنے پہ تلے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر فرض کرلیا کہ وہ ماریں گے نہیں تو قبول بھی نہیں کریں گے یا پھر کسی ایسے ہی شخص کے حوالے کردیا جائے گا۔ اکیلی تم لوگ رہ نہیں سکتیں کیوں کہ زندہ رہنے کے لیئے کچھ نا کچھ کمانا بھی ضروری ہے۔ دیکھو تعلیم ہمارا بہت اہم ہتھیار اور طاقت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں شعور بھی دیتی ہے اور اعتماد بھی ساتھ ہی صحیح فیصلہ کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔”
“مگر باجی ہمیں تو پڑھایا ہی نہیں گیا۔ بس ہماری تو قسمت میں ہی یہ لکھ دیا گیا ہے۔” ایک عورت اتنی مایوس تھی کہ اس نے پوری بات بھی نہیں سنی بیچ میں ہی بول پڑی۔
“سارے مرد بھی پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ غریب بھی ہوں تو دارلامان میں رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی انہیں۔ وجہ پتا ہے؟”
“ان کی عزت کون لوٹے گا میڈم انہیں کیا مسئلہ مرد ہیں جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں پھر انہوں نے دنیا دیکھی ہے ہم گھر میں رہنے والی عورتیں باہر کے معاشرے کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔” ایک اور عورت بولی
“ہماری یہ ایک سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ مرد کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں۔ جتنا خطرہ عورت کی عزت کو ہے مرد کی عزت کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے۔ اسے بھی اتنا ہی استعمال کیا جاتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہم عورت کو غیر ضروری حد تک محفوظ کرنا چاہتے ہیں کہ اسے معاشرے میں عضو معطل بنا دیا ہے اور مرد کو بالکل تحفظ نہیں دیتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ مردانگی کے خلاف ہے۔ جبکہ ان کا تحفظ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیشہ اسے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی نا کسی حوالے سے کمزور ہو۔ عورت جسمانی کمزور ہوتی ہے مرد کی کمزوری اس کی غربت ہوتی ہے۔”
“باجی پھر مرد بھی گھروں میں رہیں گے تو گھر کیسے چلیں گے؟” اب کے ذکیہ بولی اس کے لہجے میں تمسخر تھا جسے بختاور نے مکمل نظر انداز کردیا اور صرف اس کی بات پہ دھیان رکھا۔
“یہی وہ بنیادی بات تھی جہاں تک بات کو لانا تھا۔ محفوظ مرد بھی نہیں عورت بھی نہیں۔ گھر میں چھپ کر نا زندگی مرد گزار سکتا ہے نا عورت۔ آپ میں سے آدھی خواتین کا تعلق گاوں گوٹھوں سے ہے جہاں مرد اور عورت مل کر کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ کمائے گئے پیسے ٹھیکیدار گھر کے مرد کے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ عورت کھیت سے گھر جاتی ہے اور مرد پیسے لے کر ہوٹل۔” بختاور ان کی ہی زندگی کے اہم رخ اجاگر کر رہی تھی اور عورتیں غور سے اس کی بات سن رہی تھیں اور اثبات میں سر بھی ہلاتی جارہی تھیں۔
“آج اگر یہ سب عورتیں گھروں میں بیٹھ جائیں تو ہمارا ملک مفلوج ہوجائے گی۔ رزق حلال کمانے سے تو مذہب نے بھی منع نہیں کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کو پتا ہو کہ اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے اور آپ جو کمائیں اس پہ آپ کا حق ہو۔ آپ انسان ہیں چیز نہیں جسے اس کی مرضی کے بغیر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہاتھ میں دیا جاتا رہے۔ نا کوئی مال مویشی ہیں کہ اس کی محنت کے پیسے اس کے مالک کے ہاتھ میں دیئے جائیں۔ اب یہاں پہ پراجیکٹ شروع کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ لوگوں کو نئے ہنر سکھائے جائیں۔ جو ہنر آپ کو آتے ہیں اس سے آپ کے روزگار کے مواقع بنائے جائیں۔ اور جو خواتین اپنے ہنر کی مدد سے اپنے بل بوتے پہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں انہیں ایک محفوظ جگہ فراہم کی جائے۔”
“کیا مطلب باجی” اب کے شنو نے پوچھا
“مطلب یہ کہ پہلے تو ہم یہاں نئے ہنر سکھائیں گے جو آپ کو یہاں سے باہر جاکر بھی فائدہ دے سکیں۔ اور کچھ بنیادی تعلیم دیں گے تاکہ مسائل کو سمجھ کے حل کرنے کاشعور آسکے۔ مگر اس کے علاوہ ہمارا ایک ہوسٹل ہوگا جہاں وہ خواتین رہ سکیں گی جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں اور نا ہی وہ یہ چاہتی ہیں کہ کسی انجان شخص سے صرف اس لیئے شادی کریں تاکہ یہاں سے نکل سکیں۔ یہاں سے وہاں منتقلی کی باقاعدہ قانونی کاغذ بنیں گے۔ وہاں آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پہ ہوگی۔جس کے لیئے ہم عدالت کو جواب دہ ہوں گے۔ ہمارے پاس دس عورتوں کی گنجائش ہے فی الحال۔”
“یعنی ایک دارلامان سے نکل کر دوسرے میں چلے جائیں۔ یہ بات تو آپ پہلے بھی بتا سکتی تھیں اتنی لمبی تقریر کے بعد بتایا۔” اب کی بار بھی ذکیہ ہی بولی۔ وہ بہت بےزار بیٹھی تھی۔
بختاور ہلکے سے مسکرائی
“ساری تقریر کا مقصد یہ تھا کہ وہ دوسرا دارلامان نہیں ہوگا وہاں آپ کو باہر آنے جانے کی آزادی ہوگی۔ آپ جو کمائیں گی وہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا ایسی صورت میں اپنی زندگی کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ آپ کو کسی کے ساتھ مجبورا نہیں جانا ہوگا۔ مجھے پتا ہے کہ عموما کو یہ حل غیر حقیقی لگے گا اسی لیئے ہم نے دس سے زیادہ خواتین کی امید بھی نہیں رکھی۔ مگر یہ دس بھی اپنی زندگیاں بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئیں تو میرے خیال سے ہمارے لیئے یہ ایک کامیابی ہوگی۔”
“یعنی آپ عورتوں کو ایک ایسی جگہ دیں گی جہاں وہ مادر پدر آزاد زندگیاں گزار سکیں جہاں جائیں جس سے ملیں؟” یہ خاتون کچھ ہی دن پہلے یہاں آئی تھیں اور بار بار دوسری عورتوں کو جتاتی تھیں کہ وہ ان جیسی گری پڑی نہیں ہیں بہت عزت دار گھرانے کے خاتون ہیں۔ مسئلہ ان کا بھی وہی تھا کہ شوہر سے طلاق لینی تھی اور گھر والے سپورٹ نہیں کرہے تھے۔
“میں نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ یہ جگہ ان جواتین کے لیئے ہوگی جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں یا پھر گھر والے ہی انہیں سپورٹ کرنے کو تیار نہیں، ان کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیئے یہ اقدام کیا جارہا ہے غلط لوگوں تک پہنچانے کے لیئے نہیں۔ زبردستی کسی پہ نہیں ہوگی جو اپنی مرضی سے وہاں جانا چاہے گی اسی کو وہاں لے جایا جائے گا۔ ہماری اولین ترجیح یہ ہوگی کہ آپ لوگوں کو ہنر سکھا کر اتنا پراعتماد بنایا جاسکے کہ آپ لوگ جب گھروں کو جائیں تو پہلے کے مقابلے میں بہتر زندگی شروع کریں۔” پھر اس نے مزید تفصیل بتائی
“یہ فارم ہیں جو پہلے ان سب کے بھرے جائیں گے جو مختلف ہنر سیکھنا چاہتی ہیں یا پڑھنا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد بیس خواتین ایسی جنہیں یہاں سال سے زیادہ ہوگیا ہے وہ ہمارے شیلٹر کے لیئے فارم فل کرسکتی ہیں۔ دو مہینے یہیں ان کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے اور ساتھ ساتھ مخلتف قانونی کاروائیاں ہونگی جس کے بعد شارٹ لسٹ ہونے والی خواتین کو وہاں منتقل کردیا جائے گا۔”
” میڈم میں دونوں فارم بھروں گی مگر میڈم شارٹ لسٹ کیوں کریں گی؟” شنو نے پوچھا
“بیٹا دو مہینے میں ہوسکتا ہے ان خواتین میں سے کسی کا مسئلہ حل ہوجائے تو وہ چلی جائے یا اس کا ارادہ بدل جائے۔ اس کے علاوہ اگر اس کے گھر والے موجود ہیں اور اسے قبول نہیں کر رہے تو ہم عدالت میں اس کے گھر والوں سے ایک بیان پہ سائن کرائیں گے جس میں وہ عہد کریں گے کہ وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے نا ہی جانی نقصان پہنچائیں گے۔ اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس عورت کو شفٹ کرنے کا اجازت نامہ نا ملے۔ تو خود ہی کافی عورتیں کم ہوجائیں گی۔”
بسمہ سب کچھ اتنی چپ چاپ دیکھ رہی تھی جیسے وہاں ہو ہی نہیں۔ مگر سوچ مسلسل رہی تھی۔ جن جن خواتین نے نام لکھوانے تھے وہ لکھوا دیئے گئے۔ سب جانے لگیں تو بسمہ اور شنو بھی اٹھیں۔ بختاور نے بسمہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
“آپ رکیں دو منٹ” شنو نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بسمہ نے اسے جانے کا اشارہ کردیا اور خود رک گئی۔
“آپ باسط بھائی کی مسز ہیں؟”
بختاور کے پوچھنے پہ بسمہ نے ہاں میں سر ہلا یا اور شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
“آپ اسلم کی کلاس فیلو بھی تھیں نا؟ سوری آپ کو شاید عجیب لگے مگر مجھے آپ کا اور اسلم والا سارا معاملہ پتا ہے اس نے جو آپ کو میسجز کیئے وہ بھی۔ ضروری نہیں کہ ایسا ہو مگر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کے یہاں ہونے سے اس کا کوئی تعلق ضرور ہے۔ اگر میں کوئی مدد کر سکوں تو پلیز مجھے بتائیں۔”
“آپ اگر کر سکتی ہیں تو اتنا کریں کہ اپنے دیور کو میری زندگی سے دور رہنے کا کہہ دیں۔ مجھے حیرت ہے آپ دنیا سدھارنے نکلی ہیں اور آپ کے اپنے گھر کے مردوں کا یہ حال ہے کہ وہ کلاس فیلوز کی زندگیاں تباہ کرتے پھرتے ہیں۔”
“بسمہ آپ کی ناراضگی بالکل بجا ہے۔ میرے ساتھ کوئی لڑکا ایسا کرتا تو شاید میرے بھی اس کے لیئے یہی جذبات ہوتے۔ میں اسلم کی کوئی صفائی پیش نہیں کروں گی۔ اس نے جو کیا غلط کیا۔ مگر یہ بھی خیال رکھیں کہ میں اسلم نہیں ہوں میری شخصیت اس سے الگ ہے۔ میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں لیکن اگر آپ مجھے اسلم کے حوالے سے دیکھتی رہیں گی تو شاید ایسا ناہوپائے۔” بسمہ ہونٹ بھینچے دوسری طرف دیکھتی رہی
“ٹھیک ہے آپ میرا کارڈ رکھیں اگر کبھی بھی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کیجیئے گا۔ بس ایک بات یاد رکھیں آپ خود اپنے لیئے کچھ نہیں کریں گی تو کوئی دوسرا بھی آپ کے لیئے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ ہر ایک کی اپنی زندگی ہے اور اس کےلیئے اس کی زندگی اہم ہے۔ آپ بھی اپنی زندگی کو اہمیت دیں۔” بختاور نے پرس سے اپنا کارڈ نکال کر بسمہ کو تھمایا اور سامان اٹھا کر ہال سے باہر نکل گئی۔ بسمہ کا دل چاہا کارڈ پھینک دے مگر پھر لاکر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔
باقی دن بھی بے زار کن تھا۔ بسمہ کو جلدی تھی کہ کسی طرح اگلا دن شروع ہو اور وہ عدالت جائے۔ تقریبا 6 بجے کاوقت تھا جب کلرک نے اسے بلایا۔
“بی بی آپ کے بھائی سے رابطہ ہوا ہے انہیں کل عدالت میں بلایا ہے۔ آپ نے اپنے شوہر کا جو نمبر دیا تھا اس پہ جس بندے نے فون اٹھایا اس نے کہا کہ وہ کسی بسمہ کو نہیں جانتا اور نا ہی وہ باسط ہے۔ اب آپ کے پاس یہی آپشن ہے یا تو کل بھائی کے ساتھ چلی جاو یا واپس یہیں آجاو۔” بسمہ نے سر ہلا دیا۔ اسے تھوڑی سی تسلی ہوئی کہ بڑے بھیاکل عدالت آئیں گے۔ اسے بہتری اسی میں لگی کہ وہ ان کے ساتھ ہی چلی جائے۔ وہ یہاں رہ کر کسی دوسرے کا انتظار نہیں کرسکتی تھی نا ہی بختاور کے ہوسٹل جانا منظور تھا۔ وہ اسلم کی بھابھی نا بھی ہوتی تو بھی بسمہ اتنا بڑا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر پتا نہیں کیوں وہ چاہ کر بھی اس کی باتوں سے دھیان ہٹا نہیں پارہی تھی۔ جیسا اس نے کہا کہ عورت کمزور ہوتی ہے اسی لیئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے مگر بسمہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مرد غریب بھی ہو تو اس کا استعمال کون کرے گا اور کیوں۔ عورت تو خود ہی کمزور ہوتی ہے وہ مرد کی عزت کیسے لوٹ سکتی ہے اور مرد ہی مرد کی عزت تو لوٹے گانہیں۔ بہت الجھا دینے والی بات تھی۔ اس نے ابھی تک مرد کو طاقتور اور ظالم کے روپ میں ہی دیکھا تھا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ دنیا کا ہر مرد خود غرض ،عورت کو دیکھ کر بہک جانے والا اور بس پیسے کا لالچی ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں جتنے مرد آئے ایسے ہی تھے فائزہ ہمیشہ اپنے والد کی تعریف کرتی تھی اور بسمہ انہیں آئیڈیلائز کرتی تھی کہ ہر باپ کو ایسا ہونا چاہیئے مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ فائزہ ضرور جھوٹ بولتی ہو گی مرد کبھی بھی عورت کو سپورٹ کرتا ہی نہیں ہے وہ ہمیشہ اسے استعمال کرتا ہے۔ وہ بختاور کی ان تمام باتوں سے متفق تھی کہ عورت کو استعمال کیا جاتا ہے اس کی محنت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ مرد کا بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ وہ مرد کو مظلوم سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی کسی بھی صورت میں۔ وہ سوچے جارہی تھی۔ کوئی اور کام تھا نہیں اگلے دن تک اس کے پاس سوچنے کے لیئے وقت ہی وقت تھا۔
“بسمہ” شنو نے اسے آواز دی۔ وہ اپنے حصے کا کام وغیرہ نپٹا کر ابھی ہی واپس آئی تھی۔ بسمہ نے اس کی طرف دیکھا۔
“تم نے نام کیوں نہیں لکھوایا؟ مجھے تو بہت اچھا لگا ان کا پراجیکٹ۔”
“میں کل بھائی کے ساتھ گھر چلی جاوں گی مجھے کیا ضرورت ہے کسی شیلٹر کے لیئے نام لکھوانے کی؟”
“اور شوہر سے طلاق لو گی یا سسرال واپس جاو گی؟ وہ رکھ لے گا؟”
بسمہ کے دل میں سناٹے اتر گئے۔ اس طرف تو اس نے سوچا ہی نہیں اس کو بس یہ دھن تھی کہ کسی طرح اس قید خانے سے نکل جائے۔
“پتا نہیں” یہ کہہ کر شنو کی بات کا تو جواب دے دیا مگر اب اس کے اپنے دماغ میں سوالوں اور خدشوں کا سیلاب آگیا۔ وہ تو میکے جائے گی مگر ابو اور امی اسے رکھیں گے؟ بھیا چپ رہیں گے؟ دادی اور بہنیں کیا کہیں گی؟ وہ دوبارہ باسط کے ساتھ اس وحشت ناک کمرے میں رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ تو کیا پھر وہ طلاق لے؟ کیا گھر والے اسے طلاق لینے دیں گے؟
“دیکھو تعلیم ہمارا بہت اہم ہتھیار اور طاقت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں شعور بھی دیتی ہے اور اعتماد بھی ساتھ ہی صحیح فیصلہ کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔” اس کے دماغ میں بختاور کی آواز گونجی۔ وہ جتنا اس کی باتوں کو نظر انداز کر رہی تھی اتنا ہی ہر بار اسے اور شدت سے یاد آرہی تھیں۔ اس نے تکیے کے نیچے سے کارڈ نکال کر دیکھا۔ کافی دیر اسے گھورتی رہی پھر پتا نہیں کب وہ کارڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے سو گئی۔ صبح اس کی آنکھ نوشین کے اٹھانے پہ کھلی۔
“اٹھو! جلدی سے تیارہو جاو،پندرہ منٹ میں پولیس کی گاڑی آرہی ہے تمہیں کورٹ لے جانے کے لیئے۔”
وہ اتنا ہڑبڑا کے اٹھی کہ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ بھاگ کے دروازے تک گئی پھر کچھ سوچ کے پلٹی تکیے کے نیچے سے کارڈ نکال کر دو سیکنڈ سوچا کہ کہاں رکھے اس کے پاس کوئی پرس یا جیب نہیں تھی۔ پھرکارڈ گریبان میں رکھا اور باہر نکل گئی۔ جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر نیچے آفس والی بلڈنگ کے پاس پہنچی تو مین گیٹ سے پولیس کی وین اندر آتی دکھائی دے رہی تھی۔ بسمہ کا تیز دھڑکتا ہوا دل اور تیز دھڑکنے لگا۔ اسے اپنی کنپٹیاں پھڑکتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ اسے بالکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ عدالت کے باہر جب اسے گاڑی سے اتارا تو تھوڑی دور اسے ابو اور بھیا کھڑے نظر آئے۔ ان کی بھی نظریں اسی کی طرف تھیں۔ دونوں کی نظروں میں واضح ناراضگی تھی۔ اسے لے جاکر ایک جگہ بٹھا دیا گیا پھر اس کی باری آئی تو جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے وہی سب کچھ جو دارالامان میں بتایا تھا یہاں بھی بتا دیا۔ جج کا رویہ اس کی توقع کے برخلاف کافی نرم تھا۔ انہوں نے اس سے شفقت سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اپنے بھائی اور والد کے ساتھ جانے میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے یا نہیں اگر نہیں تو کوئی اس پہ کسی قسم کی زبردستی نہیں کرسکتا اور عدالت اسے مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ وہ جو پکا ارادہ کیئے بیٹھی تھی کہ گھر جانا ہے فیصلہ بتاتے وقت پتا نہیں کیوں کنفیوز ہوگئی۔ بھیا اور ابو کی ناراض نظریں مسلسل اس پہ تھیں۔ جج نے دوبارہ اسے تسلی دی کہ فیصلہ اس کی مرضی سے ہوگا اور یہ اس کا قانونی حق ہے۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کچھ کہتے میں کیوں ہچکچا رہی ہے۔ جج نے اسے مزید مطمئین کرنے کے لیئے کہا
“بیٹا آپ گھبرائیں نہیں یہ عدالتیں آپ کے لیئے ہی ہیں کوئی آپ کے حقوق کے خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم بیٹھے ہیں آپ کو تحفظ دینے کے لیئے۔ آپ پریشان نا ہوں اور اعتماد کے ساتھ فیصلہ کریں۔” بسمہ رو پڑی اسے زندگی میں کبھی بھی فیصلے کا اختیار دیا ہی کب گیا تھا۔ اسے صرف بتایا جاتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس کے دل میں آیا کہ گھر والوں کی ایسی نظریں برداشت کرنے سے بہتر ہے وہ دارلاامان واپس چلی جائے۔ مگر پھر کچھ سوچ کے دوبارہ اپنا فیصلہ بدل دیا۔
“جناب میں اپنے والد کے ساتھ گھر جانا چاہتی ہوں”
عدالت سے دوبارہ اسے دارلامان بھیجا گیا تاکہ ضروری کاغذی کاروائی کرکے اسے باقاعدہ آزاد کیا جائے۔
بھیا کی گاڑی گھر کے دروازے پہ رکی تو چند لمحوں کے لیے بسمہ کو لگا جیسے وہ کئی صدیوں بعد اس گیٹ کو دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ صرف 4 دن بعد وہ واپس آگئی تھی۔ وہ گھر میں داخل ہوئی تو خلاف توقع امی اور دادی نے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا۔ امی کافی دیر اسے گلے سے لگائے روتی رہیں۔ دادی مسلسل باسط کو دہائیاں دے رہی تھیں جس نے ان کی بچی کو ایسے گھر سے نکال دیا تھا۔ بسمہ رونا چاہتی تھی مگر اس کے آنسو خشک تھے۔ اسے جس وقت ان کی پشت پناہی کی ضرورت تھی اس وقت سب نے اسے سسرال میں بنا کے رکھنے کے مشورے دیئے۔ اب گلے سے لگا لگا کے رونے کا کیا فائدہ؟ بسمہ کو ان سب سے الجھن ہورہی تھی۔ وہ خود کو چھڑا کر باتھ روم چلی گئی بہت دیر تک نہاتی رہی جیسے دارلامان کی ہر یاد بہا دینا چاہتی ہو۔
اگلے کچھ دن گھر کا ماحول تناو کا شکار رہا۔ امی اور دادی، ابو اور بھیا کو قصور وار ٹھہراتیں کہ وقت پہ بسمہ کی مدد کردی جاتی تو یہ دن نا دیکھنا پڑتا۔ جب کے بسمہ سب سے ہی بے زار تھی۔ باسط اور اس کا مسئلہ صرف چند روپوں کے دینے اور نا دینے کا نہیں تھا۔ ایک ایسا شخص جو عورت کو صرف استعمال کی چیز سمجھتا ہو اسے پسند کرتے ہوئے گھر والوں نے کیا دیکھا؟ بسمہ کو اتنا غصہ تھا کہ وہ اپنی عادت کے برعکس سارا دن ٹھس بیٹھی رہتی۔ امی کو کام کرتے دیکھتی رہتی اور خود یا تو سوتی رہتی یا پھر بلا وجہ بستر پہ پڑی رہتی۔ جب کئی دن یونہی گزر گئے تو ایک اتوار کو جب دونوں بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں تو امی نے اسے بٹھا کر بات کرنے کا سوچا۔
“آگے کا کیا سوچا ہے اب تم نے؟”
“کس حوالے سے”
اپنی زندگی کے حوالے سے، شوہر کے پاس کب جاو گی۔ کہو تو ہم اس سے بات کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کریں؟”
بسمہ نے حیرت سے انہیں دیکھا
“امی آپ کے خیال میں واپس جانے کی یا معاملہ سلجھانے کی گنجائش ہے؟”
“بسمہ ہر معاملہ سلجھانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اللہ نے عورت کی ذات میں بڑی نرمی اور لچک رکھی ہے۔ چلو اگر باسط سے غلطی ہو بھی گئی تو تم دل بڑا کرو اور معاف کردو۔ ابھی تمہیں زمانے کا نہیں پتا عورت کا جینا مشکل کر دیتے ہیں۔ عورت تو بس اپنے شوہر کے گھر میں ہی عزت سے رہتی ہے۔”
اسماء آپی نے اپنے حساب سے بہت مدلل بات کی اور بشرہ اپی نے زور و شور سے سر ہلا کر ان سے اتفاق کیا۔
“آپی جو میں دو دن میں دیکھ کر آئی ہوں وہ آپ چاروں خواتین کے زندگی بھر کے تجربے سے زیادہ ہے۔ لہذا آپ مجھے یہ تو نا ہی بتائیں کہ مجھے کیا پتا ہے اور کیا نہیں۔ اور ریپ غلطی نہیں ہوتی جرم ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ لوگوں کا سارا دھیان اس دو منٹ کے واقعے پہ کیوں ہے جب اس نے مجھے گھر سے نکالا۔ وہاں اتنے عرصے میں نے کیا کچط سہا وہ کیوں نہیں دیکھتے آپ لوگ؟” بسمہ کا یہ لہجہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ بسمہ کو خود بھی پتا نہیں چلا تھا کہ کب نازیہ کو جواب دیتے دیتے اسے ہر بات کا جواب دینا آگیا تھا۔
اگر یہ پہلے والی بسمہ ہوتی تو شاید امی اور دادی اسے اتنی بات کرنے پہ خوب سناتیں مگر سب سے انوکھے تو اس کے تیور تھے جس نے سب کو سانپ سونگھا دیا تھا۔
“آپ لوگ پلیز مجھے کچھ دن سکون لینے دیں۔ میں خود جو فیصلہ کروں گی بتا دوں گی۔” بسمہ یہ کہہ کر ان سب کے بیچ سے اٹھ گئی۔
شاید ان چاروں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ وہ جاتی ہوئی بسمہ کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں جیسے کوئی خلائی مخلوق دیکھ لی ہو۔ بسمہ کے لہجے سے جو بغاوت جھلک رہی تھی وہ خوفناک تھی۔ کسی طوفان کا پیش خیمہ۔
اگلے دن ابو آفس سے آئے تو چہرے پہ غیر معمولی سنجیدگی تھی۔ امی کو اندازہ ہو ہی گیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ پوچھنے پہ پتا چلا کہ آج کوئی بندہ ملنے آیا تھا جو باسط کے گھر کے قریب ہی رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ کچھ دن پہلے باسط کو ایک ہفتے کے ریمانڈ پہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس پیشی میں نازیہ کی ہی طرف سے رافع کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا اور اس پہ لگے چارج ختم کروائے گئے تھے۔ مگر باسط پہ تمام الزام برقرار تھے اور صورت حال سے اندازہ ہورہا تھا کہ فیصلہ باسط کے حق میں نہیں ہوگا۔ نازیہ نے ثبوت کے طور پہ رافع کا کوئی بیان بھی جمع کروایا تھا۔ جس میں باسط کے جرم کا تذکرہ بھی تھا اور یہ بھی پتا چلتا تھا کہ رافع نے خودکشی کی ہے۔ رافع کی موت کی خبر بسمہ کے لیے شدید دھچکہ تھی۔ اتنے عرصے میں اس نے یہی دیکھا تھا کہ اس گھر کا سب سے بے ضرر فرد رافع تھا۔
بسمہ جو کچھ دن سکون سے گزارنا چاہتی تھی۔ اس خبر کے بعد وہ ذہنی طور پہ خود کو بہت زیادہ تھکا ہوا محسوس کرنے لگی تھی۔ اچانک اسے عجیب و غریب خواب دکھائی دینے لگے۔ اسے کبھی اپنا آپ دوبارہ دارلامان میں نظر آتا۔ کبھی اسے گل بانو بارش میں کھڑی روتی دکھائی دیتی۔ کبھی دارلامان کی وہ کم عمر لڑکیاں نظر آتیں جن کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ مگر خواب میں وہ سب گل بانو جیسی لگتی تھیں۔ کبھی کبھی اسے رافع دارلامان میں قید دکھائی دیتا۔ کبھی اپنی اور رافع کی شکل گڈمڈ ہوتی دکھائی دیتی۔ وہ ان خوابوں سے اتنا خوفزدہ ہوگئی کہ آہستہ آہستہ اس نے سونا چھوڑ دیا۔ اسے سونے سے ڈر لگنے لگا۔ تھکن اور ذہنی دباو نے اس کی عجیب حالت کردی تھی۔ وہ بات بات پہ چڑ جاتی۔ کبھی امی سے بحث کرتی کبھی اسد سے لڑتی۔ امی اسے کسی فقیر بابا کے پاس بھی لے جانے کی کوشس کرتی رہیں کہ کسی طرح دم کروا لیا جائے تو شاید اسے سکون آجائے۔ اگر کبھی شدید نیند کی وجہ سے آنکھ لگ جاتی تو چیخ مار کے اٹھ جاتی تھی۔ اس کیفیت سے تنگ آکر اس نے نیند کی گولیاں کھانا شروع کردیں۔ مگر ذہنی دباو کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ گھر والے سمجھ رہے تھے کہ وہ جان بوجھ کے ان لوگوں کو تنگ کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سب کا ذمہ دار انہیں سمجھتی ہے۔
بلاوجہ الٹے سیدھے کام کرنے لگتی کبھی اسٹور صاف کرنے کے بہانے سارا کاٹھ کباڑ لا کر صحن میں ڈال دیتی اور پھر آدھا کام بیچ میں چھوڑ کر نیند کی گولی کھا کر سو جاتی۔ کبھی سب کے کپڑے دھونے کھڑی ہوجاتی اور سفید اور رنگین کپڑے ساتھ ہی دھو ڈالتی۔ گھر میں روزہنگامہ مچتا۔ ایک دن اپنی الماری کے سارے کپڑے نکال کر باہر ڈھیر کیے ہوئے تھے۔ پرانی پرانی چیزیں نکال کر دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران کوئی پرانا رسالہ ہاتھ لگ گیا سب کپڑوں کے ڈھیر پہ بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگی۔ دادی چپ چاپ اس کی حرکتیں دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے بھی اب اسے کچھ کہنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک بات کے دس جواب دیتی تھی اب۔ کافی دیر رسالے میں سر کھپانے کے بعد سارے کپڑے ایک دوسرے میں لپیٹ کے یونہی ٹھونسنے لگی ایک سوٹ میں کچھ کڑکڑاتا ہوا محسوس ہوا کپڑا کھول کے جھاڑا تو ایک وزٹنگ کارڈ گرا اسے یاد آیا کہ بختاور کا کارڈ اس نے کپڑے بدلنے کے بعد انہیں کپڑوں میں لپیٹ دیا تھا۔ کارڈ کو الگ رکھا اور جلدی جلدی ساری الماری سمیٹ دی۔ پھر کارڈ لے کر فون کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ دو دفعہ نمبر ملانے پہ انگیج ٹون سنائی دی۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ ملایا تو رنگ جانے لگی۔
“اسلام علیکم” دوسری طرف سے کال ریسیو ہوتے ہی بختاور کی آواز آئی
“بسمہ بول رہی ہوں”
“جی بسمہ کیسی ہیں آپ۔ بتایئے کیسے فون کیا”
“مجھے آپ سے مشورہ چاہیے میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں اور دارلامان کی عورتوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔”
” ہمم دونوں بہت اچھے فیصلے ہیں۔ آپ میرے آفس آسکیں تو تفصیل سے بات ہوجائے گی۔”
“ٹھیک ہے کب آوں؟”
“جب آپ آسکیں 9 سے پانچ کے درمیان”
“ٹھیک ہے میں انشااللہ کل صبح آپ کے آفس آجاوں گی۔”
بختاور نے اسے کارڈ پہ لکھا پتا ٹھیک سے سمجھا دیا۔ اگلے دن صبح ابو آفس کے لیئے نکلنے لگے تو بسمہ بھی تیار کھڑی تھی۔
“ابو مجھے ایک جگہ جانا ہے”
“کہاں؟ کیا کام ہے؟ اسد سے کہو وہ کر دے گا”
“اسد میری جگہ پڑھ نہیں سکتا”
“پڑھ تو لیا جتنا پڑھنا تھا”
“تب آپ نے شادی کروانے کے لیے پڑھایا تھا اب میں زندگی گزارنے کے لیے پڑھنا چاہتی ہوں، آپ لے جارہے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو میں رکشا کر کے چلی جاتی ہوں۔” بسمہ نے باہر قدم بڑھا دیئے
ابو نے مڑ کے امی کو دیکھا
“پاگل ہوگئی ہے کیا یہ؟”
امی نے بے بسی سے کندھے اچکا دیئے۔ ابو تیزی سے اس کے پیچھے باہر نکل گئے۔
آدھا گھنٹہ بعد وہ بختاور کے آفس میں اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
“بختاور میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر سمجھ نہیں آرہا کہ شروع کہاں سے کروں۔”
“مثلا کیا کچھ کرنا چاہتی ہیں آپ”
“میں جاب کرنا چاہتی ہوں تاکہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکوں۔ مگر میٹرک کی بنیاد پہ کوئی اچھی جاب نہیں ملے گی۔ ساتھ ہی دارلامان کی خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہوں کسی طرح، مجھے لگتا ہے اس طرح شاید میں گل بانو کی روح کو خوش کرسکوں گی۔ مجھے جیسے خواب نظر آتے ہیں مجھے لگتا ہے وہ بہت بے چین ہے۔ مگر سارا مسئلہ ہی آکر میری تعلیم پہ اٹک رہا ہے۔ اگر میں پڑھنے میں لگ گئی تو یہ مقصد رہ جائے گا۔ گل بانو کو تو جانتی ہوں گی آپ”
بختاور نے سر ہلا دیا
“ہمم وہ بھی آپ کی اور اسلم کی کلاس فیلو تھی نا؟”
“جی وہی”
” بسمہ آپ کا یہ اندازہ تو ٹھیک ہے کہ ادھوری تعلیم کی بنیاد پہ آپ کو بہت اچھی جاب نہیں مل سکتی جو آپ کے سارے خرچے پورے کرسکے۔ مگر بیٹا آپ تھوڑے سے شروع کریں کچھ نا ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔”
“مگر وہ تھوڑا بھی کیا؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا”
“ایسا کرتے ہیں میں پتا کرتی ہوں کچھ این جی اوز ہیں جو نیڈی اسٹوڈنٹس کو اسپانسر کرتے ہیں اور اچھے اداروں میں ان کی تعلیم کے خرچے اٹھاتے ہیں۔ مگر آپ کو ان کا ٹیسٹ کوالیفائے کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ کہ آپ کو شام میں دارلامان میں پڑھانا ہوگا پہلے آپ کو ٹریننگ دی جائے گی کہ بالغ لوگوں کو پڑھانےکی کیا ٹیکنیکس استعمال کی جاتی ہیں۔ مگر بیٹا اس کے لیئے ہم آپ کو پندرہ ہزار دے سکیں گے۔ پک اینڈ ڈراپ ہماری طرف سے ہوگا” یہ آفر بسمہ کی توقع سے کچھ بہتر ہی تھی۔ اگر اسے مفت تعلیم کا موقع مل جائے تو پندرہ ہزار بھی ابتداء کے لیئے کافی تھے۔ اس نے فورا حامی بھر لی۔ اس نے بختاور کو اپنے گھر کا نمبر دیا ساتھ ہی بختاور نے اسے تین دن بعد بلایا تاکہ ٹیسٹ لیا جاسکے کہ وہ اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ کسی کو کچھ پڑھا سکے
کافی دن بعد وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔ واپس آکر وہ اپنی کتابیں نکال کر دیکھنے لگی تاکہ تین دن بعد والے ٹیسٹ کے لیے تھوڑا ریوائز کر لے۔ بھیا گھر آئے تو خلاف معمول سیدھا اس کے کمرے میں آگئے۔ انہیں کمرے میں دیکھ کرسمہ کو کافی حیرت ہوئی، انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اخبار اسے تھمایا
“یہ پڑھو”
اخبار کے پیچھے کے صفحات اوپر فولڈ ہوئے تھے اور سامنے ہی باسط کی تصویر کے ساتھ موٹی سی ہیڈ لائن تھی
“زیادتی کے مجرم کا دردناک اعتراف جرم
کمرہء عدالت میں ہر آنکھ اشک بار”
بسمہ نے فورا خبر کی تفصیل پڑھی۔ خبر کے مطابق ریمانڈ کے دوران باسط نے جرم کا اعتراف کرلیا تھا اور عدالت میں تفصیلی بیان بھی دیا۔ اخبار نے کافی تفصیل سے بیان چھاپا تھا
“جج صاحب میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نازیہ جو کہ مجھ سے بڑے بھائی کی بیوی تھی اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا۔ مجھے پتا تھا کہ اس کا شوہر یعنی میرا بھائی اس میں دلچسپی نہیں لیتا کیوں کہ وہ کسی بھی عورت میں دلچسپی نہیں لیتا تھا نا لے سکتا تھا۔ یہ بات مجھے بچپن سے پتا تھی۔ میری اور اس کی عمر میں صرف تین سال کا فرق تھا۔ مگر اسے اسکول میں دیر سے داخل کروایا گیا اور میری اور اس کی کلاس میں صرف ایک سال کا فرق رہ گیا۔ ہمارے گھر کا ماحول ہمیشہ سے عجیب رہا۔والد صاحب کی توجہ کبھی ہم پہ نہیں رہی اور والدہ ہمیشہ ان سے ڈرتی رہیں۔ مجھے عورت ذات کی عزت کرنا سکھایا ہی نہیں گیاوالد صاحب خواتین کا تذکرہ ایسے کرتے تھے جیسے وہ انسان نا ہوں صرف مزہ لینے کا سامان ہوں۔فحش فلمیں دیکھتے ہوئے وہ کبھی ہماری موجودگی کا خیال نہیں کرتے تھے والدہ اگر ٹوکتی تھیں تو ہمارے سامنے ہی انہیں مارتے تھے۔ ہمارے گھر میں بہت غیر اخلاقی کتب موجود تھیں جو والد صاحب کے خیال میں چھپا کے رکھی ہوتی تھیں مگر ہم دونوں بھائیوں کو کافی جلدی ان تک رسائی حاصل ہوگئی تھی۔ بڑے بھائی البتہ ان سب سے دور رہتے تھے۔ ایک دفعہ والد صاحب نے ایسی ہی ایک کتاب میرے پاس دیکھ لی اور ناراض ہونے کی بجائے میری پیٹھ ٹھونکی کہ میرا بیٹا جوان ہوگیا۔ اس کے بعد سے جیسے مجھے اجازت نامہ مل گیا ہر غلط حرکت کرنے کا۔ والد صاحب میری ہر نازیبا حرکت پہ مجھے سپورٹ کرتے رہے۔ میں نے ہی اسکول میں رافع کی کمزوری کے بارے میں دوسرے لڑکوں کو بتایا جو وہ بچارہ بھائی سمجھ کر مجھے بتا گیا تھا مجھے اس کا مذاق اڑانا بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ اس سے مجھے ابو کی حمایت ملتی تھی۔ مجھے گھر میں ایک دم غیر معمولی اہمیت مل گئی میں بہت چھوٹا تھا مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر مجھے اسکول کے بڑے لڑکوں بلکہ کچھ میل اور فیمیل ٹیچرزنے استعمال بھی کیا ساتھ ہی انہوں نے ہم بھائیوں کو اسکول میں بدنام بھی کردیا کہ یہ غلط قسم کے لڑکے ہیں ایک طرف مجھے والدین کی محبت چاہیئے تھی دوسری طرف دوستوں کی ضرورت تھی۔ مگر کچھ بھی مکمل نہیں مل پارہا تھا۔ جو دوست ملتے وہ استعمال کرتے جو اچھے بچے تھے وہ میرے قریب ہی نہیں آتے۔ میرے اندر غصہ بڑھتا جارہا تھا میرا دل چاہتا تھا ہر ایک کو تباہ کردوں جو چاہیئے چھین لوں کیوں کہ خود سے کوئی مجھے نہیں دے گا۔ میٹرک تک آتے آتے میری حرکتوں کی وجہ سے کئی لڑکیوں نے اسکول بدل لیئے یا پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ مجھے محبت ہوتی تھی مگر اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔ پہلی بار مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا جب اپنی ہی منگیتر سے پیش قدمی کی کوشش کی مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ محبت میں زبردستی نہیں ہوتی۔ شادی کے بعد میں جتنی زیادہ اس سے محبت کرتا جارہا تھا اتنا زیادہ اسے اذیت دیتا تھا۔ نازیہ بھابھی کو تو میں استعمال کر کے بھول بھی گیا تھا مجھے ایک فیصد بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے۔ مجھے صرف ایک اذیت تھی اور ہے وہ یہ کہ کسی ایک شخص نے بھی مجھ سے محبت نہیں کی توجہ سے بات نہیں کی۔ میں نے بسمہ سے شدید محبت کی مگر اس کے کترانے پہ مجھے اور غصہ آتا جو میں اسی پہ اتار دیتا تھا۔ کوئی نہیں تھا جو مجھے سکھاتا کہ کیا صحیح ہے کوئی نہیں تھا جو مجھے سکھاتا کہ محبت کیسے کی جاتی ہے۔ رافع کی موت بلکہ اس سے زیادہ اس کے اعتراف نے مجھے اندر تک ہلا دیاہے۔ میں نے کتنی زندگیاں تباہ کردیں مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ میں اپنے ہر جرم کی سزا کے لیئے تیار ہوں مگر مجھے اس اذیت ناک زندگی میں مبتلا کرنے والے میرے باپ کے لیئے بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔ میں مانتا ہوں میں غلط تھا مگر مجھے صحیح غلط سکھانا بھی تو کسی کی ذمہ داری تھی۔ میں نے وہی کیا جو مجھے سکھایا گیا۔ آپ جج ہیں نا؟ مجرم کو سزا دیتے ہیں؟ مگر کوئی ایسی عدالت ہے جو ان عوامل کو روکے جو معصوم بچوں کو درندہ بنا دیتی ہے؟ مجھے بھی یاد ہے اپنا بچپن میں ہنستا تھا کھیلتا تھا جب سے تھوڑا چلنا شروع کیا تو شام میں ابو کے آنے کے وقت دروازے پہ بیٹھ جاتا تھا کیونکہ دوسرے گھروں میں یہی دیکھتا تھا کہ باپ آتا ہے تو بچوں کو پیار کرتا ہے چیزیں دیتا ہے۔ میرا باپ دوسرے گھروں میں جھانکتا ہوا آتا تھا دروازے سے ایسے گزر جاتا جیسے میں ہوں ہی نہیں۔ بہت جلد میری بے فکر ہنسی اور کھیل کہیں گم ہوگئے اور اذیت پسندی نے ان کی جگہ لے لی۔ آپ بتائیں ہے اس کی کوئی سزا جو ایسے باپ کو سدھار سکے۔ کوئی ایسا پیمانہ جو جانچ سکے کہ ایک شخص اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے باپ بننے کی اجازت دی جائے۔ مجھے وہ تکلیف یاد تھی اسی لیئے میں نے خود کو باپ بننے کی اجازت ہی نہیں دی۔ مجھے عدالت سے کسی قسم کی کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی۔ کیونکہ میرے جرم اس سے زیادہ ہیں۔ شاید اس جرم کی سزا پا کر میں خود کو بہتر انسان بنا سکوں۔”
اس تفصیلی بیان کے بعد خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ باسط کو 7 سال کی قید اور 3 لاکھ جرمانے کی سزا سنادی گئی۔
بسمہ خبر پڑھتے پڑھتے رونے لگی۔ پہلی بار اس نے باسط کے لیئے وہ محسوس کیا جو کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ وہ عدالت میں ہوتی تو کم از کم ایک بار اسے اپنی بانہوں میں لے کر اسے بتاتی کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ اسے اپنی کیفیت پہ حیرت ہورہی تھی۔ کیا اسے باسط سے محبت ہو گئی تھی؟ کافی دیر بعد جاکر اس کے آنسو تھمے مگر وہ مسلسل اپنی کیفیت کے بارے میں سوچتی رہی۔ اگر اسے باسط سے محبت ہے تو کیا وہ دوبارہ باسط کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے۔ اس نے کئی بار خود سے یہ سوال کیا مگر ہر بار اس کا جواب نفی میں آیا۔ وہ صرف باسط سے ہمدردی دکھا سکتی تھی اس کو دوبارہ ہم سفر نہیں بنا سکتی تھی۔ بلکہ شاید اب کبھی بھی وہ کسی مرد کو اپنی زندگی کاساتھی نہیں بناسکتی تھی۔ رات ہوتے ہوتے باسط سے ہمدردی کے جذبات بھی سرد ہوتے چلے گئے۔اسے لگا باسط نے یہ سب کچھ عدالت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیئے کہا ہوگا۔ اسے پتا تھا کہ اس کے سسر کا ہمیشہ سے یہی رویہ تھا مگر وہ یہ ماننے سے گریزاں تھی کہ یہ ان کی اولاد یا خاص کر باسط کے لیئے تکلیف دہ ہوگا۔ کئی بار اس نے بے دھیانی میں حقارت سے سر جھٹکا۔
“ہونہہ! مظلوم بن رہا ہے۔ ہر بندہ اپنی غلطی کا خود ذمہ دار ہوتا ہے”
وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ خود اب ہر بات میں والدین کو اپنی زندگی تباہ کرنے کے طعنے دیتی تھی۔ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتی تھی جو ان کی مرضی کے خلاف ہو۔ آگے پڑھنے کا فیصلہ بھی کہیں نا کہیں اس کی انا کو سکون دے رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی تباہ کرنے کا بدلہ لے لیا۔
دو دن بعد وہ دوبارہ بختاور کے آفس میں تھی۔ اس کی ذہانت نے اس کا ساتھ دیا اور بہت آسانی سے ناصرف وہ اس جاب کے لیئے ٹیسٹ پاس کر گئی بلکہ چند دن بعد فرسٹ ائیر کے لیئے ایک این جی او کا اسکالر شپ ٹیسٹ بھی پاس کرلیا۔ وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ کامیاب ہورہی تھی مگر اسے اپنی کامیابی سے زیادہ والدین کی بے بسی خوشی دے رہی تھی۔
گھر کا ماحول مسلسل تناو کاشکار تھا۔ بھیا نے کہہ دیا تھا کہ جب تک یہ گھر میں ہے میں شادی ہی نہیں کروں گا۔ اور اگر کروں گا تو الگ گھر لے لوں گا ورنہ یہ میرا اور میری بیوی کا جینا حرام کردے گی۔
کچھ ہی دن میں بسمہ نے بختاور کی مدد سے باسط کو جیل میں طلاق کا مطالبہ بھجوا دیا اور حیرت انگیز طور پہ بغیر کسی اعتراض کے باسط نے اسے تحریری طلاق بھجوا دی۔ مگر پتا نہیں کیاسوچ کر اس نے گھر میں بتانے کی زحمت تک نہیں کی۔
کچھ ہی عرصے میں بھیا کی شادی ہوگئی اور ابو ریٹائر ہوگئے۔ بھیاالگ تو نہیں ہوئے مگر اوپر کے پورشن کا راستہ الگ کرلیا۔ اب ان کی بیگم دن میں ایک بار شام کے وقت بھیا کے ساتھ نیچے آتیں دو چار باتیں کرتیں اور واپس اوپر چلی جاتیں۔ مہینے کے خرچ کے پیسے جو پہلے ہی بھیا محدود دیتے تھی وہ اور محدود کردیئے۔ فہد بھی اب کالج میں تھا اور بسمہ کو دارلامان کی جاب سے جو کچھ ملتا وہ اس میں سے ایک روپیہ بھی گھر میں دینا مناسب نہیں سمجھتی تھی۔ گھر کے حالات عجیب ہوتے جارہے تھے۔ نیچے کے پورشن میں کچھ خراب ہوجاتا تو یونہی پڑا رہتا۔ ابو کی پینشن میں سے فہد کی پڑھائی کا خرچہ نکال کے با مشکل کھانے اور بلوں کا خرچہ نکلتا تھا۔ بہنیں اگر کبھی آکر بسمہ کوسمجھانے کی کوشش کرتیں تو بسمہ کا دو ٹوک جواب یہی ہوتا کہ امی ابو کی اپنی غلطی ہے۔ بیٹوں کو سر پہ چڑھایا تھااب بھگتیں۔ تقریبا سال پورا ہونے والا تھا۔ بسمہ کے فرسٹ ائیر کے پیپر ہونے والے تھے۔
ایک دن وہ بختاور کے آفس پہنچی تو وہاں اسلم بھی موجود تھا۔ بقول بختاور، وہ بھی اب رضاکارانہ طور پہ ساتھ کام کروائے گا۔ بسمہ اسے دیکھ کر اتنا ٹینس ہوگئی کہ گھر آکر بھی پریشان رہی۔ رات کو سونے سے پہلے پہلے وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ بختاور سے بات کرے گی اگر اسلم آفس آئے گا تو وہ جاب چھوڑ دے گی۔
******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...