رات کو سب فٹ بال کھیل رہے تھے جبکہ نمرہ سب کو ریکھ رہی تھی اور انوشے کمرے میں کارٹون دیکھ دہی تھی، نمرہ کو بہت شوق تھا فٹ بال کا مگر کھیلنا آتا نہیں تھا۔
“تم لوگ مجھے بھی سیکھاؤ” نمرہ بولی۔
“یار ہمیں کھیلنے دو نمرہ” فارس بولا۔
“ہاں تو مجھے بھی کھیلنا ہے” نمرہ بولی۔
“تم جب سیکھ جاؤ گی تو ہم تمہیں کھلائیں گے” شایان بولا۔
“ہاں تو تم لوگ سکھاتے بھی نہیں ہو”
“ہم سکھاتے ہیں تو تم صحیح سے کوشش نہیں کرتی”
“کیونکہ تم لوگ صحیح نہیں سکھاتے بھار میں جاؤ” وہ غصے میں بول کر اندر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو نمرہ سو رہی تھی کہ اسے میسج آیا۔
“لان میں آؤ”
اس نے نمبر دیکھا لیکن کوئی غیر نمبر تھا۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا تو عرش نیچے کھڑا تھا اس نے نمرہ کو نیچے آنے کا اشارہ کیا اور نمرہ نیچے چلے گئی۔
“آپ نے اتنی رات کو کیوں بلایا” نمرہ نے پوچھا
“تمہیں فٹ بال سیکھنا ہے تو چلو” عرش بولا۔
“آپ مجھے فٹ بال سیکھائیں گے”
“ہاں تو تمہیں کوئی اور نظر آ رہا ہے”
“نہیں”
“اچھا اب تم پہلے ہاتھ سے یہ بال مار کر دکھاؤ”
“مار دوں”
“ہاں”
“سچی”
“اب کیا دعوت نامہ دوں”
“نہیں رکیں”
نمرہ نے بال عرش کی ناک پر مارا۔
“ہائے میرا ناک یہ کیا تم نے پاگل لڑکی”
آپ نے ہی تو کہا تھا”
“میرا مطلب ہے بال سامنے مارو” اس نے سامنے کھڑے ہو کر اشارہ کیا “یہاں”
“یہاں” نمرہ نے پھر سے پوچھا۔
“نہیں تو تمہیں میر پور میں مارنے کا بولوں گا یہیں پر مارنا ہے”
اس سے پہلے کے وہ ہٹتا نمرہ نے پھر بال پھینکا اور بال اس کے پیٹ پر لگا۔
“اففف میرا پیٹ یہ کیا کیا تم نے”
“آپ نے ہی تو کہا تھا مارنے کا”
عرش درد کے مارے نیچے بیٹھ گیا۔
“آپ ٹھیک ہیں” نمرہ نے اس کے پاس جا کر پوچھا۔
“تم نے چھوڑا ہے مجھے ٹھیک رہنے کو”
“آپ نے ہی کہا تھا بال مارنے کا”
“تو تمہیں سوچنا تو چاہئیے تم سیکھ ہی نہیں سکتی”
“آپ کو خود کو کھیلنا نہیں آتا”
“بڑے بڑے لوگوں کو میں نے فٹ بال سیکھایا ہے”
“کیوں آپ پی ٹی ٹیچر ہیں”
“نہیں”
“تو کیسے سکھایا”
“رکو میں تمہیں کھیل کر بتاتا ہوں”
عرش نے اپنے کرتب بتائے اور نمرہ کو صحیح طریقے سے بال پکڑنا اور کھیلنا سکھایا.
“چلو اب آخری بار گول مار کر دکھاؤ” عرش نے نمرہ سے کہا۔
“نہیں اب میں تھک گئی ہوں”نمرہ نیچے بیٹھ گئی
“اچھا ٹھیک اب تم سونے چلی جاؤ”
“نہیں مجھے بھوک لگی ہے ہم پچھلے دو گھنٹوں سے کھیل رہے ہیں”
“تو رات کا سالن گرم کرکے کھالو”
“نہیں اب میرے اندر ہمت نہیں”
“اچھا تم ایک کام کرو بیٹھو میں گرم کر دیتا ہوں”
“ہائے سچی”
“ہاں”
عرش نے سالن گرم کر کے اسے دیا اور دونوں نے کھایا۔
_________
عرش نے نمرہ کو ایک ہفتے تک فٹ بال سکھایا۔ آج ان کا آخری دن تھا اور وہ روز کی طرح رات کو کھیل رہے تھے اور نمرہ نے عرش کو شکست بھی دی۔
“اب تم نے فٹ بال سیکھ لیا ہے اور بہت اچھا کھیلا ہے” عرش نے نمرہ کی تعریف کی۔
“شکریہ آپ نے مجھے اتنا اچھا سکھایا” نمرہ نے کہا۔
“تو لاؤ میری فیس”
“ہائے اللہ فیس آپ نے تو پہلے کہا ہی نہیں تھا اب میں آپ کو فیس کہاں سے دوں” نمرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
“فیس تو تمہیں دینی ہی پڑے گی”
“میں آپ کو فیس میں کیا دوں”
“وہ میں تمہیں صحیح وقت پر بتاؤں گا اچھا اب تم جا کر سوجاؤ”
“لیکن مجھے آج آئسکریم کھانے کا دل کررہا ہے”
“اس وقت۔۔” عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
“آپ تو ویسے کہہ رہے ہیں کہ میں نے آپ کی کڈنیز مانگ لی ہو”
“تمہیں میچ نہیں ہوگی”
“صحیح بات ہے آپ جیسے سڑیل کی مجھ جیسی معصوم سے کیسے میچ ہوگی”
“کیا کہا تم نے”
“نہیں کچھ نہیں چھوڑیں میں سونے جا رہی ہوں”
وہ جانے کے لئے پلٹی۔
“اچھا رکو میں تمہیں آئسکریم کھلانے چلتا ہوں” عرش نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا۔
“سچی” نمرہ خوشی سے اچھل پڑی۔
“ہاں تم میری سب سے انوکھی شاگرد ہو، تم نے اتنی بار مجھے بال مارا ہے تمہیں آئسکریم تو کھلانی پڑے گی چلو”
” آپ رکیں میں آتی ہوں” وہ بھاگ کر گئی اور دوپٹہ لے کر آئی جسے اس نے مفلر کی طرح پہنا۔
اور دونوں آئسکریم کھانے چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمرہ نے اپنی پسندیدہ جگہ پر گاڑی رکوائی۔ لیکن جب اندر گئے تو کچھ ٹیبل تھے اور وہ بھی خالی تھے۔
عرش اسی وجہ سے جا رہا تھا جبکہ نمرہ نے ویٹر کو بلا کر اوڈر دیا اور کہا کہ ہم باہر ہیں۔
“ہم گاڑی میں بیٹھ کر آئسکریم کھائیں گے” عرش نے پوچھا۔
“نہیں گاڑی کے اوپر” نمرہ نے آرام سے جواب دیا۔
“کیا مطلب”
“ہاتھ دیں” عرش نے اپنا آگے بڑھایا اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کے اوپر چڑھ گئی.
“یہ کیا کر رہی ہو تم” عرش نے حیرانی سے پوچھا۔
“آپ کو اندر بیٹھ کر کھانا ہے آپ کھا لیں لیکن میں تو یہیں بیٹھ کر کھاؤ گی”
اتنے میں ویٹر بھی آئسکریم لے کر آیا۔
نمرہ اوپر بیٹھے ارد گرد کا نظارہ کرتے کھانا شروع کیا عرش سے رہا نہ گیا اور وہ بھی گاڑی کے اوپر بیٹھ گیا۔
آئسکریم ختم کرنے کے بعد نمرہ کھڑی ہوگئی۔
“کتنا اچھا نظارہ ہے نہ” نمرہ نے ہاتھ پھیلا کر لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
“تم تو ایسے بول رہی ہو جیسے ہم برج خلیفہ پر ہوں.” عرش نے حیرانی سے کہا۔
“سچ مچ آپ تو بہت بورنگ ہیں” نمرہ نے کہا۔
“کیا کہا تم نے رک جاؤ میں بھی بتاتا ہوں” عرش یہ بول کر نمرہ کے پاس کھڑا ہوگیا اور نمرہ کا ہاتھ پکڑ لیا نمرہ ارد گرد کے ماحول سے لطف اٹھانے میں مصروف تھی جبکہ عرش کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ نمرہ بولے جا رہی تھی اور وہ اسی کو دیکھنے میں مصروف تھا جو کہ بکھڑے بالوں میں بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔
عرش نے اس کے چہرے کو دیکھ کر خود سے وعدہ کیا کہ وہ یہ ہاتھ کبھی نہیں چھوڑے گا اور ہاتھوں پر گرفت اور مضبوط کرلی جس سے نمرہ ہوش کی دنیا میں آئی اور وہ کنفیوز ہوگئی۔ کبھی عرش کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھ کو جو کہ عرش کے ہاتھ میں تھا۔ جب عرش نے اس کے الجھن سمجھی تو اس کا ہاتھ مسکراتے ہوئے چھوڑا اور نیچے اتر گیا اور نمرہ کو بھی اترنے میں مدد دی اس کے بعد دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
گاڑی میں کسی نے کوئی بات نہیں کی، نمرہ ابھی بھی الجھن میں تھی جبکہ عرش کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ گاڑی میں خوبصورت میوزک چل رہا تھا اور نمرہ کی نظر بار بار اٹھ کر عرش کی مسکراہٹ پر رک رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شایان اور اریبہ نے پہلی بار ملنے کا طے کیا تھا اور شایان صبح سے بہت خوش تھا جو کہ سب نے نوٹ کیا سعد کئی دن سے شایان کی حرکتوں پر غور کر رہا تھا اور بالآخر آج اسے اس کا موبائل مل گیا۔ سعد نے کھولا اور اریبہ کا میسج پڑھا اس نے پچھلے سارے میسج پڑھے، کہ پیچھے سے رانیہ آگئی اور اس نے بھی میسج پڑھے سعد نے جب غور کیا کہ رانیہ اس کے پیچھے کھڑی ہے اس نے موبائل جھٹ سے پیچھے کیا۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہو”
“سعد لڑکی سے میسج پر باتیں کررہا ہے” رانیہ نے کہا۔
“یہ شایان کا موبائل ہے اور شایان کے میسج بھی۔”
“میں کیسے مانوں۔”
سعد نے اسے موبائل دکھایا۔
“تو جناب آج ڈیٹ پر جا رہے ہیں” رانیہ نے کہا۔
“ہاں اور وہ بھی بغیر بتائے” سعد نے غصے سے کہا۔
“تو چلو اسے سزا دیں”
“کیا مطلب”
رانیہ نے اس کے پاس صوفے پر بیٹھ کر اسے آئیڈیا بتایا اور سعد نے اسے تالی ماری۔
انھوں نے سارے میسج کے اسکرین شوٹ لئے اور کزنز گروپ پر ڈالیں۔ اچھا ہے ان میں ان کے والدین نہیں شامل تھے اور پھر سارے میسج شایان کی دوسری فرینڈز چاہے نئی ہو یا پرانی سب کو بھیج دیے اور زیادہ تر نے غصے والے میسج کئے اور کچھ نے بلاک کردیا اور پھر انھوں نے میسج ڈلیٹ کیے۔ یہ زندگی کا پہلا کام تھا جو ان دونوں نے ساتھ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو شایان گھر لوٹا صبح جس کے چہرے پر خوشی تھی اب وہ دکھ میں تھا۔ وہ آیا کہ سب نے اسے گھیرے میں لے لیا۔
“کہاں ہے انگوٹھی” سعد نے پوچھا۔
“کون سی انگوٹھی” شایان نے کہا
“تمھاری منگنی کی” سعد نے کہا.
“میری۔۔۔”
“ہاں کیونکہ جس سپیڈ میں تم جا رہے تھے ہم نے سوچا تم نے بچوں کے نام بھی رکھ دیے ہونگے”فارس نے کہا۔
“کس کے بچے” شایان نے حیرانی سے کہا۔
“میرے۔۔” سعد نے غصے میں کہا۔
“ہائے اللہ سعد تم نے شادی کرلی اور مجھے بتایا بھی نہیں یہ ٹھیک کیا تم نے ویسے کتنے سال ہوئے اور کتنے بچے ہوئے” شایان نے مزاق میں کہا۔
“میرے بچوں کو چھوڑو تم یہ بتاؤ کہاں سے آ رہے ہو” سعد نے کہا۔
“کام سے گیا تھا” شایان نے جواب دیا۔
“اوہ کون سا کام ہے” عرش نے پوچھا۔
“حد ہے یار یہاں پر بندا دکھی ہے اور تم لوگ پولیس والوں کی طرح سوال کر رہے ہو”
“کیوں کیا ہوا” رانیہ نے پوچھا۔
“کچھ نہیں مجھے اکیلا چھوڑ دو” شایان نے غصے سے کہا
“کیوں ایسا کیا ہوا تمھاری ڈیٹ پر” عرش نے پوچھا
“میری ڈیٹ تم لوگوں کو کیسے پتا” شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
“وہ ایسے کہ ہم آپ سے پہلے دنیا میں آ چکے ہیں اور جس اسکول میں آپ پڑھ رہے ہیں اس کے ہم پرنسپل رہ چکے ہیں” سعد نے کہا۔
“لیکن میری اسکول کے پرنسپل کو دنیا سے رخصت ہوئے چھ برس گزر چکے ہیں” شایان نے کہا۔
“اپنے پرنسپل کو چھوڑو تم یہ بتاؤ غصے میں کیوں ہو اریبہ نے تھپڑ تو نہیں مار دیا” رانیہ نے پوچھا۔
“اریبہ کی اتنی ہمت۔۔” سعد نے بات کی۔
“ایسا کچھ اریب نے نہیں کیا” شایان نے کہا۔
“اریب۔۔۔کیا اریبہ لڑکا ہے” نمرہ نے پوچھا۔
“نہیں لڑکے” اس نے غصے میں کہا لیکن بعد میں اپنی بات کا احساس ہوا۔
“کیا مطلب” رانیہ نے حیرانی سے کہا۔
“کچھ نہیں۔۔تم لوگ میرا پیچھا چھوڑو” ابھی شایان نے یہ کہا ہی تھا کہ اس کا فون بجا سعد نے اریبہ کا نمبر دیکھا اور فون اسپیکر پر رکھا۔
“ہائے شان کیسے ہیں آپ، آپ اتنی جلدی بھاگ گئے میں۔۔سوری ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے آپ نے تو مجھے۔۔ہمیں دھوکا دیا میی بہت ہرٹ ہوا۔۔۔۔سوری ہوئی ہوں” یہ کسی آدمی کی آواز تھی اور پھر تین لوگوں کی ہنسی کی آواز آئی۔
شایان نے جلدی سے فون کاٹا اور سب کہ حیران ہوتے چہرے پر غور فرمایا۔
“اریبہ لڑکا ہے” نمرہ نے ہنسی دباتے ہوئے پوچھا۔
“اریبہ نہیں اریب” شایان نے غصے سے کہا۔
“کیا مطلب تم کہہ رہے ہو نہ وہ لڑکی ہے نہ لڑکا” سعد نے حیرانی سے پوچھا۔
“مطلب ایک لڑکا نہیں ہے” شایان نے جواب دیا۔
“تمہیں پوری گینگ نے دھوکا دیا ہے” عرش نے پوچھا۔
“تین لڑکوں نے مل کر۔۔” شایان نے جملہ مکمل کیا۔
“مطلب انہوں نے تمہیں جھوٹ کہا پارلر والا” رانیہ نے پوچھا۔
“نہیں دو لڑکے کام کرتے ہیں پالر میں ایک میک اپ کرتا ہے اور دوسرا سوئیپر اور ایک پالر کے باہر آلو کے چپس لگاتا ہے” شایان نے رونی صورت کے ساتھ کہا۔
“واہ ایک صفائی والا اور ایک فرینچ فرائز والے کے ساتھ تم اتنے دنوں سے بات کر رہے تھے” سعد نے کہان
“ایک ڈیزائینر بھی تھا” عرش نے کہا۔
“اچھا ویسے فرائز والے کے فرائز اچھے تھے”نمرہ نے پوچھا۔
“میں نے کھائے نہیں تھے” شایان نے جواب دیا
“حد ہے یار اتنے دنوں سے بات کر رہے تھے اور فرائز نہیں کھائے” نمرہ نے افسردگی سے کہا۔
“اگر مجھے پتا ہوتا کہ وہ یہ کام کرتا ہے تو کیا میں اس سے ملنے جاتا” شایان نے کہا۔
“تمھاری جگہ میں ہوتی تو میں ضرور جاتی ملنے” رانیہ نے کہا۔
“فرائز والے سے” سعد نے حیرانی سے پوچھا.
“ہاں تو میرا خواب ہے میری شادی فرائز والے سے ہو، ہائے کتنا مزا آئے گا مجھے روز کے فری فرائز ملیں گے”
“تم نے تو اپنا پہلا لو لیٹر بھی فرائز والے کو دیا تھا” فارس نے اسے یاد دلایا۔
“تم اور کسی کو دے بھی نہیں سکتی” سعد نے کہا۔
“ویری فنی” رانیہ نے کہا۔
“ناٹ مور دین یو” سعد نے بھی اسی انداز میں کہا۔
“اور تمہیں کس نے کہا تھا یہ لیٹر والی بات لاؤ” رانیہ نے نمرہ کو گھوڑا۔
” تمھارا پہلا پیار تھا تم نے اسے چوتھی کلاس میں اتنی گندی لکھائی میں دیا تھا وہ تو اچھا ہے اسے انگریزی نہیں آتی تھی” فارس نے کہا۔
“مجھے لگتا ہے اسے آتی تھی ورنہ وہ رانیہ کو اس دن فری فرائز کیوں دیتا”نمرہ نے کہا۔
“وہ میری معصومیت کی وجہ سے دیے تھے” رانیہ نے شان سے کہا۔
اس پر سعد نے کھانسی شروع کردی۔
“یار رانیہ بات ایسی کرو جو حلق سے نیچے اترے اسے لگا ہوگا تم بھیک مانگنے آئی ہو” سعد نے کھانسی روکتے ہوئے کہا۔
“تمھارے والے کام میں نہیں کرتی” رانیہ نے کہا۔
“یہاں پر میں دکھی ہوں اور تم لوگ اپنی باتیں کرنا شروع ہوگئے” شایان نے غصے سے کہا۔
“تم کیوں دکھی عاشق کی طرح بیٹھے ہو۔۔۔۔اوہ ہاں تمھارا تو بریک اپ ہوگیا” سعد نے کہا۔
“چپ کرو” شایان نے اسے کشن مارا۔
“یار ہمیں ہمیشہ ایک لڑکے نے لڑکی بن کر دھوکا دیا اور تمہیں تو تین تین۔” فارس نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
“اس پر بھی ہمیشہ طعنے ملے ہیں کہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو، تمہیں کس میں ڈوب مرنا چاہئیے” سعد نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“چمچ بھر پانی میں” عرش نے پیچھے سے جواب دیا۔
“تم سب دفع ہو، یہ نہیں مجھے تسلی دو” شایان نے غصے سے کہا۔
“یہ گلیاں یہ چوبارہ یہاں آنا نہ دوبارا اب ہم تو چلے پردیسی کے تیرا یہاں کوئی نہیں کہ تیرا یہاں کوئی نہیں”رانیہ نے اس کو تنگ کرتے ہوئے گایا۔
“ایسا لگ رہا ہے ہم اسے تسلی نہیں دے رہے بلکہ رخصت کر رہے ہیں” نمرہ نے کہا۔
“بس اب سے جب تک یقین نہیں ہو وہ لڑکی نہیں ہے بات نہیں کروں گا” شایان وہاں سے اٹھتے ہوئے بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن رانیہ اور نمرہ یونی کے لئے تیار ہو ریے تھے۔
“بہت غصہ آ رہا ہے ہم یہاں پاگلوں کی طرح یونی جا رہے ہیں اور سب آرام سے سو رہے ہیں” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“ہماری امی بھی یہ نہیں بیٹی جا رہی ہے خدا حافظ بول دے سو رہی ہیں” نمرہ نے بھی غصے سے کہا۔
“دیکھو سب کی قسمت، آرام سے سو رہے ہیں اور ہم پورا دن یونی میں گزارتے ہیں”رانیہ نے کہا۔
“دل تو کر رہا ہے سب کی نیند خراب کرکے جاؤں” نمرہ نے کہا۔
“تو چلو”
“کیا مطلب”
“رکو” رانیہ نے اپنے بیگ سے نقلی سانپ نکالا۔
“یہ تمہیں واپس کیسے ملا” نمرہ نے حیرانی سے کہا۔
“پرنسپل سر نے تو اپنے پاس رکھ لیا تھا لیکن میں نے سر رضی کر بلیک میل کر کے لیا ہے” رانیہ نے کہا۔
“کیسے”
“میں نے سر کو بتا دیا کہ مجھے پتا ہے کہ ان کو پرنسپل کی بیٹی مس سعدیہ اچھی لگتی ہیں اگر انہوں نے میرا سانپ نہیں لا کر دیا تو میں پرنسپل سر کو بتا دونگی کہ کس طرح وہ کلاس بیچ میں چھوڑ کے مس سعدیہ سے باتیں کرنا شروع ہو جاتے ہیں” رانیہ نے پوری تفصیل بتائی۔
“ایک نمبر کی بلیک میلر ہو”
“ہاں تو میرا پسندیدہ سانپ ہیں ایسے ہی جانے دیتی اب چلو”
وہ اسے لے کر سعد اور عرش کے کمرے میں گئی۔
“ہم یہاں کیوں آئے ہیں” نمرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
“مشن پورا کرنے” رانیہ نے جواب دیا۔
“لیکن ان پر کیوں”
“بڑوں سے شروعات کرنی چاہیے اور بڑے تو یہی دونوں ہے”
“اگر دونوں اٹھ گئے” نمرہ عرش سے ڈر رہی تھی یا اسکی نیند خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔
“کچھ نہیں ہوگا تم رکو” وہ اندر گئی اور سانپ سعد کے اوپر رکھ دیا اور باہر سے تماشہ دیکھنے لگی۔
سعد کو اپنے اوپر کچھ محسوس ہوا اس نے آنکھ کھولیں اور سانپ کو دیکھ کر بولتی بند ہوگئی منہ سے کچھ بولا نہیں لیکن پیر عرش کو مارنے لگا.
“کیا ہے کیوں تنگ کر رہا ہے” اس نے سعد کو مارنے کے غرض سے ہاتھ اٹھایا لیکن ہاتھ میں کچھ ملائم چیز آئی چہرے کے قریب کر کے آنکھ کھول کر دیکھا تو زور سے چیخا اور بیڈ پر کھڑا ہوگیا سعد بھی اس وقت تک کھڑا ہو چکا تھا۔ عرش نے سانپ سعد کے اوپر پھینک دیا جو کہ اس کی گردن پر گرا۔
سعد بیڈ پر چلانے اور ناچنے لگا جس سے سانپ پلنگ پر گرا اس نے لات سے عرش کی طرف کیا۔
“کیا کر رہا ہے گدھے مجھے کاٹ لے گا” عرش نے ڈرتے جواب دیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...