کہاں ملے گی بھلا اس ستمگری کی مثال
ترس بھی کھاتا ہے مجھ پر تباہ کر کے مجھے
“تم نے کس کی اجازت سے میرے گھر میں قدم رکھا؟ وہ بھی میری غیرموجودگی میں۔۔۔۔” وہ اس کی اس افطاد پر تیار نہ تھی۔ ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اسکی کمر کے پیچھے کیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ دبوچے ہوئے تھا۔
“م۔۔۔ میں۔۔۔ میں خود نہیں گئی تھی مجھے تائی امی نے بلایا تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی۔” اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔
” چلو مان لیا انہیں مدد کی ضرورت تھی لیکن تمہیں کس نے کہا تھا کہ مہمانوں کے سامنے آؤ۔۔۔۔؟”
میں۔۔۔ میں ان کے سامنے نہیں آ۔۔۔۔ آئی تھی، میں کچن میں تھی۔
” انہیں الہام ہوا تھا کہ زرفشاں بی بی کچن میں ہیں؟”
” میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔ مجھے درد۔۔۔۔ درد ہو رہا ہے۔۔۔” وہ رو دینے کو تھی۔
مانا کہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ لیکن تم تو جانتی تھی نا کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے۔۔ اسکی گرفت اس کے بازوں پر اور بھی سخت ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ انگارہ۔۔۔۔
” کیا آپ مانتے ہیں اس نکاح کو؟ ” پتہ نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں سے آئی تھی لیکن مقابل کو دو منٹ چپ رہنے پر مجبور کر گئی تھی۔
“اپنی زبان کا استعمال اتنا ہی کیا کرو جتنا کہا جائے۔ “وہ اس کا منہ جھٹک کر کمرے سے جاچکا تھا۔
___________
حیدر لغاری اور آصفہ بیگم کے دو بیٹے تھے۔ احمد لغاری اور نعمان لغاری۔
احمد لغاری بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی تھے۔ ان کی شادی اپنی خالہ ذاد (آمنہ) سے ہوئی۔ اور انہوں نے اپنے والد کے بزنس میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ اور اللہ تعالی نے انہیں تین اولادوں سے نوازا، بڑا بیٹا سبحان،دو سال چھوٹا ابان اور پھر تین سال چھوٹی ماہین۔
آمنہ بیگم اپنے دیور نعمان لغاری کی شادی اپنی بہن فرزانہ سے کروانا چاہتی تھیں۔ لیکن نعمان لغاری نے اپنی پسند کی شادی رابیعہ بیگم سے کی جو کہ ان کی کلاس فیلو تھی۔
انہیں پسند کی شادی پر گھر سے نکال دیا گیا اور یہ فیصلہ حیدر لغاری کا تھا۔
چار سال کے بعد نعمان لغاری کو اپنی والدہ کی وفات کی خبر ملی تو وہ واپس لغاری ہاوس آگئے۔ لغاری صاحب کو اپنے بیٹے کی ابتر حالت دیکھ کر ترس آیا اور اپنے فیصلے پر پچھتاوا بھی ہوا جو انہوں نے چار سال پہلے کیا تھا، کیونکہ ان کی حالت ان چار سالوں میں کسی بیمار مریض کی طرح ہو گئی تھی۔
حیدر لغاری صاحب نے انہیں پھر سے لغاری ہاوس میں رہنے کی اجازت دے دی وہ دو سال لغاری ہاوس میں رہے، لیکن جب انہیں اپنی بھابھی آمنہ کا رویہ اپنی بیگم سے ٹھیک نہ لگا تو انہوں نے علیحدہ گھر میں رہنے کا فیصلہ کیا جو کہ لغاری صاحب نے بخوشی قبول کیا اور ان کا گھر لغاری ہاؤس کے ساتھ ہی تھا۔
جلد ہی نعمان صاحب کو اللہ تعالی نے ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا جس کا نام انہوں نے زرفشاں رکھا۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔
دس سال کے ابان لغاری کو یہ آٹھ سال کی بچی زرفشاں ناپسند تھی۔ اس کی وجہ آغا جان کا پیار تھا جو زرفشاں کے آنے سے ابان لغاری کی نظر میں کم ہو گیا تھا۔
سبحان بہت سنجیدہ اور کم گو تھا۔
ماہین زرفشاں کی ہم عمر تھی اور ان دونوں کی آپس میں خوب بنتی تھی۔ سبحان کی سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے ابان کو ان دونوں کے ساتھ ہی رہنا پڑتا تھا اور انہی کے ساتھ کھیلنا کودنا پڑتا تھا۔
بچہ پارٹی جانتی تھی کہ نعمان صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی لیکن انہیں ان کے مرض سے لاعلم ہی رکھا گیا تھا اور اس کی خاص وجہ زرفشاں تھی۔ کیونکہ زری ایک بہت ہی حساس لڑکی تھی۔ دوسروں کے غم اپنے غم سمجھنے والی، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خود تکلیف محسوس کرنے والی۔
جب زری 14سال کی ہوئی تو اسے اپنے باپ کی بیماری کا پتہ چلا کہ انہیں بلڈ کینسر ہے اپنے والد کی بیماری نے زری کو خاموش کر دیا تھا۔
وہ سب سے گھل مل کے رہنے والی بچی اب خاموش ہوگئی تھی۔ دو سال کے بعد نعمان لغاری اس دنیا سے سے جا چکے تھے لیکن اپنی زندگی میں وہ زری کی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ کر چکے تھے اور اس فیصلے سے زری کی زندگی بدل گئی تھی۔۔۔
_______________
بابا جان! میں اپنی موت سے پہلے اپنی بیٹی کو کسی مضبوط رشتے میں باندھ دینا چاہتا ہوں۔ اگرچہ نعمان کی جان اپنی سولہ سال کی بیٹی زری میں تھی لیکن وہ اپنے بھتیجے ابان سے بہت محبت کرتے تھے۔
تم ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو۔۔۔۔ ابھی تمہیں جینا ہے اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنی ہیں۔
نہیں بابا جان اب موت مہلت نہیں دے گئی مجھے ۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے سامنے زری کا نکاح ابان سے کردیں۔۔۔
لیکن تم جانتے ہو کہ ابان کی اور زری کی نہیں بنتی۔ میرے خیال سے سبحان زری کے لیے بہتر آپشن ہے۔
بابا جان جیسی آپ کی مرضی۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 21سالہ سبحان نے اپنے سے پانچ سال چھوٹی زری کے لیے انکار کر دیا۔ وہ سمجھدار ضرور تھا لیکن زری کو وہ اپنی بہن مانتا تھا اس کا کہنا تھا کہ مجھے ابھی اپنا کیریئر بنانا ہے۔
برخوردار ہم تم سے یہ نہیں کہہ رہے کہ تم شادی کے بعد ہاتھ باندھ کر گھر میں بیٹھ جاؤ۔ ہم تم سے صرف نکاح کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
آغا جان میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن مجھے آپ کا یہ فیصلہ نا منظور ہے، کیونکہ میں اپنی کلاس فیلو کو پسند کرتا ہوں اور زری میرے لئے میری بہن کی طرح ہے۔
اس کے اس فیصلے سے گھر کافی خاموش ہو گیا تھا۔ اور یہ بات 17 سالہ ابان کو شدت سے محسوس ہوئی تھی، کہ اس کے جان سے پیارے آغا جان خاموش رہنے لگے تھے اور اس کے چاچو جن سے وہ بہت محبت کرتا تھا وہ بستر سے جا لگے تھے۔
____________
اس وقت ڈائینگ ٹیبل پر حیدر لغاری کے ساتھ احمد لغاری کی پوری فیملی موجود تھی۔
“آغا جان میں زری سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ ” یہ آواز ابان کی تھی۔
اس فیصلے نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
__________________
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دے سکتی، مجھے اپنے پہلے بیٹے کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔ لیکن میں۔۔۔ میں اب اور برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔ آمنہ بیگم اپنے کمرے میں موجود احمد لغاری سے مخاطب تھیں۔
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ آمنہ تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے اس ناسمجھ بیٹھے کی وجہ سے بابا جان کتنا خوش ہیں۔
آپ کو سب کی خوشی نظر آرہی ہے، لیکن میری تکلیف نہیں۔ میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں اس عورت کی بیٹی کو اپنے گھر میں۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میری بہن کو کتنے دکھ جھیلنے پڑے۔۔۔۔۔
یہ کیسی باتیں کر رہی ہو اور کیا تم نے ابھی تک اپنے دل میں یہ بغض رکھا ہوا ہے؟
نہیں میں نہیں برداشت کر سکتی اور ویسے بھی میں اپنی بہن کی بیٹی سمعیہ کو اس گھر میں لانا چاہتی ہوں تاکہ میری بہن کی تکلیف کا ازالہ ہوسکے۔
تمہیں اپنی بہن کی اندیکھی تکلیف نظر آرہی ہے۔ لیکن میرے چھوٹے بھائی کا بستر پر لگ جانا، میرے باپ کا اپنے کمرے سے نہ نکلنا۔۔۔۔۔ یہ سب تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔؟ بس میں اس معاملے میں اب کوئی بحث برداشت نہیں کر سکتا وہ یہ کہہ کر جا چکے تھے۔
_____________
یار چاچو میں نے یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کیا ہے کسی کے دباؤ میں آ کر نہیں کیا اور ویسے بھی آپ بھی تو یہی چاہتے تھے نا۔۔۔۔۔۔
بس اب اتنا اموشنل مت ہوں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ آپ ہمارا صرف نکاح ہی نہیں بلکہ رخصتی بھی دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات پر مسکرا دیئے۔ وہ ان کی مسکراہٹ دیکھ کر اپنے فیصلے پر اور بھی پختہ ہوا تھا۔
______________
پھر وہ وقت بھی آگیا جب سادگی سے زرفشاں کا نکاح ابان لغاری سے کردیا گیا۔
اس کے تین بار
قبول ہے۔۔۔۔۔
قبول ہے۔۔۔۔۔
قبول ہے۔۔۔۔
کہنے سے اس کی زندگی کا پروانہ کسی اور کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا تھا۔
وہ کچھ ہی پل میں زرفشان نعمان لغاری سے زرفشاں ابان لغاری بن گئی تھی۔ نکاح کے بولوں کا اثر تھا یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔ اس کو اپنے ساتھ سفید شلوار قمیض میں بیٹھا یہ شخص سیدھا دل میں اترتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ اسے پہلے ابان سے چڑ تھی نہ نفرت، لیکن۔۔۔۔۔۔ اب تو یہ شخص سیدھا دل میں قیام پذیر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔
“کیا ایسا بھی ہو جائے گا؟
بن کہے وہ میرا ہو جائے گا؟”
_______________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...