(Last Updated On: )
لو میں بھی خوش ہوں کوئی اس سے جا کے کہہ دینا
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئینے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
*******=======*******
زندگی ہے چھوٹی اور درد ہیں بےشمار کوئی حسین لمحہ میسر آ جائے کہ دل کہ ارماں کہے بغیر اُن تک پہنچ جائیں
پیٹر شہریار کی کِھلی اڑا رہا تھا۔
آبے بس کر نا پیٹر کتنا پکائے گا بیچارے کو محبت ہی تو ہوئی ہے، ہیری نے لُقما دیا تھا
یہی تو مصلہ ہے نا کہ اسے ہر چوتھے روز محبت ہو جاتی ہے اس بار عینی جل بھن کر بولی تھی، آج بڑے دنوں بعد وہ ان چاروں کہ ہاتھ آیا تھا، ایک لڑکی کی محبت میں پاگل ہو کر وہ اپنے دوستوں سے کنارہ کشی احتیار کیے ہوۓ تھا پھر آج وہ سب موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتے
بس کر دو یار اس بار مجھے سچ میں اُس نکچڑی نین سکندر سے محبت ہو گئی ہے، اُس میں کوئی تو بات ہے جو آج تک میں نے کسی لڑکی میں محسوس نہیں کی، ہر پل وہ نظروں میں سمائی رہتی ہے، دل کرتا ہے اسے اپنے دل کہ نہا کونوں میں چھپا لوں وہ کھوۓ کھوۓ سے انداز میں بولا جبھی شرلے بول اُٹھی، دیکھ میرے روست تُو نے نین کہ بارے میں جتنی ڈیٹیلز نکلوائی ہیں اُسکا ریکارڈ ایک دم صاف نکلا ہے، وہ تیرے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے، تیری پسند تو ہر مہینے بدلتی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں، لیکن نین باقی لڑکیوں کی نسبت تھوڑی مختلف ہے،
اگزیکٹلی اُسکا ریکارڈ صاف ہی ہونا تھا کیونکہ اُسے شہریار ملِک کی دسترس میں شہریار کی ہو کر آنا تھا ،اُسنے بھوویں اُٹھا کر تعجب سے شرلے کو دیکھتے ہوۓ باور کروایا تھا، کہ شہریار ملک کی زندگی میں جو بھی آتا ہے اُسکا ریکارڈ صاف ہی ہوتا ہے
اچھا غصہ کیوں کر رہا ہے ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ اس بار تجھے سچ میں محبت ہو گئی ہے، پر فائدہ کیا اس محبت کا جب سامنے والے کو پتہ ہی نا ہو کم از کم اُسے بتا تو دے کہ نین سکندر مجھے سچی والی محبت ہو گئی ہے تم سے ۔۔۔۔۔۔۔تاکے اُسے بھی تو پتہ چلے کہ تُو انگاروں پہ چل رہا ہے،جس آتش فشاں میں تو خود کو جلا رہا تھوڑی سی لوح اُس تک بھی تو جاۓ، ہیری نے برادرانا مشورہ دیا تھا
یار ڈر لگتا ہے، غصہ چوبس گھنٹے اُسکی ناک پہ ہوتا ہے مجھے دیکھتے ساتھ آگ بگولہ ہو جاتی ہے، شیری تھوڑی تلے ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا تھا، جبھی پیٹر کی ہسی چھوٹ گئی، تُو نین سکندر سے ڈرتا ہے، تُو؟ دی گریٹ شہریار ملِک نین سکندر جیسی صنفِ نازک سے ڈر گیا ہاہاہا شیری کیا ہو گیا ہے تجھے،؟؟؟؟؟وہ شیری کے شانے پہ ہلکا سا مکا مارتے ہوۓ بولا تھا۔ شیری نے فوراً تیکھی نظروں سے پیٹر کو دیکھتے ہو کہا ڈر نین سکندر سے نہیں بلکہ اُسکے انکار سے لگتا ہے، وہ میری محبت کی تذلیل کرے گی مذاق اُڑاۓ گئی ڈر اس بات کا لگتا ہے۔ اُسنے ہر لفظ چبا چبا کر بولا تو پیٹر کی ہسی تھمی ۔
شیری میری بات مان خاموش رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، نین کا ری ایکشن جو بھی ہو تمہیں ایک بار بات کرنی چاہے، ہیری اُن سب میں سے تھوڑا سمجھدار تھا اس لیے اچھے مشورے دے رہا تھا، شیری نے پیار سے اُسکے کاندھے پہ ہاتھ دھرا اور وہاں سے چلا گیا کیوں کہ اب عمل پیراں ہونے کا وقت آ گیا تھا
@@@@@@
گھاس پہ گیلی گیلی اوس پہ ننگے پاؤں چلنا اُسے بچپن سے پسند تھا،سبز گھاس پہ پڑتے اُسکے سپید پاؤں بہت خوبصورت لگ رہے تھے، ایک پاؤں پہ اُسنے سلور کلر کی پائل پہن رکھی تھی، جب جب وہ قدم اُٹھاتی پیر کی پائل ہلکا ہلکا شور کرتی، چہرہ میک اپ سے عاری تھا، آنکھوں میں گہرا سیاہ کاجل اُسکے حُسن کو مزید نکھار رہا تھا، آج اُس نے جینز پہ جدید دور کہ لہاز سے بنی سفید لمبی جالیدار فراک پہن رکھی تھی،کھلے شولڈر کٹ باکوں میں نکھری نکھری دھلی دھولائی نین سکندر کہیں کی شہزادی لگ رہی تھی۔ آج وہ دوبارہ اے۔ جے کی طرف آئی تھی لیکن اس بار اے۔ جے کی عیادت کہ لیے نہیں بلکہ ان کہ اصرار کرنے پہ آئی تھی، اے۔ جے کھانے کا کچھ ساما گروسری اسٹور سے لینے گئی تھیں جبھی نین باہر گارڈن ایریا میں ٹہلنے لگی، گیلی گیلی اوس پہ جوتے اُتار کر چلنا وہ بھی اتنی سردی میں؟ پر نین سکندر کو کون سمجھاۓ؟ ماما ہوتیں تو اچھی خاصی ڈانٹ پٹ جاتی لیکن اب کسے ڈر تھا؟۔آج مکمل سورج اپنی آبو تاب کہ ساتھ موجود تھا آسمان صاف تھا، دھوپ کی کرنیں اُسکے سیاہ بالوں کو سُنہری رنگ بخش رہی تھیں، سینے پہ بازو باندھے نجانے کن سوچوں میں گم تھی کہ اپنے پیچھے آتے قدموں کی آواز بھی اُسے سنائی نا دی ۔۔۔۔
مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی ناہو ۔کرکےجوعشق کہتا ہےنقصان بھی ناہو
کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے
بن میرے شاید آپکی پہچان بھی نا ہو
رونا یہی تو ہے کہ اُسے چاہتے ہیں ہم
اے سغدجس کے ملنے کا امکان بھی نا ہو۔
وہ چونک کر مُڑی تھی اتنی شستہ اردو اپنے پیچھے کھڑے شیری کو دیکھ کر وہ خیران ہوئی تھی،وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے مسرور سے انداز میں بول رہا تھا، جبکہ نظریں نین کہ سراپا پہ ہی ٹکی تھیں۔
ارے چونک کیوں گئی؟ وہ قریب آ کر بولا تھا
نین فوراً سیدھی ہوئی لیکن نظریں ابھی بھی خیران پریشان سی تھیں۔ ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ وہ نین کی بےیقین نظریں دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔۔۔ تم اتنی پرفیکٹ اردو؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم اتنی اچھی اردو بول لیتے ہو وہ واقعی خیران ہوئی تھی۔
نین سکندر ابھی تو بہت کچھ ہے جو تم میرے متعلق نہیں جانتی۔ ۔۔ وہ مزید قریب آ کر اُسکی گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا ،اور پھر زرا فاصلہ بنا کر کھڑے ہوتے ہوۓ بولا۔ نین سکندر میں بھلے ہی پاکستان میں پیدا نہیں ہوا لیکن وہ میرا وطن ہے میری مٹی ہے پھر کیسے دور رہ سکتا ہوں اپنی مٹی سے؟ مجھے اردو کی الف ب تک نہیں آتی تھی، لیکن جب میں نے کالج اسٹارٹ کیا تو وہاں میری دوستی موسیٰ سے ہوئی وہ پاکستان سے پڑھنے آیا تھا اُسے پوئٹ بننے کا شوک تھا لیکن فیملی والوں نے اُسے سپورٹ کرنے کی بجاۓ یہاں پڑھنے بھیج دیا جب کہ وہ ایک بہت اچھا شاعر بن سکتا تھا اُس کہ پاس خود کی لکھی ہوئی شاعری کا ڈھیر سارا پلندا تھا۔ بس اُسے دیکھ دیکھ کر اُسکی شاعری سن سن کر میرے اندر اردو سیکھنے کا جزبہ پیدا ہوا اور پھر دن رات ایک کر کہ میں نے اردو سیکھی موسیٰ بہت اچھا محبت کرنے والا انسان تھا ایک دن اچانک اُسے پاکستان سے کال آئی اور وہ بنا بتاۓ ہی چلا گیا اور جاتے جاتے اپنی وہ نوٹ بک جسکی میں ہمیشہ تعریف کرتا تھا کہ آئی وش ایک دن میں بھی اتنا اچھا لکھ پاؤں وہ مجھے دے گیا وہ ایسا گیا کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا میں آج بھی اُسے بہت یاد کرتا ہوں جب بھی اُسکی یاد آتی ہے اُسکی لکھی ہوئی شاعری پڑھتا ہوں، بلکہ اب تو اُسکی لکھی ہوئی ساری شاعری مجھےفنگر ٹپس پہ یاد ہیں۔ میں دو تین بار پاکستان گیا ہوں موسیٰ کو ڈھنڈا پر اُسکا کبھی کچھ پتہ ہی نا چل سکا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا کہاں سے آیا کہاں گیا مجھے بس اتنا معلوم تھا کہ وہ لاہور سے تھا۔۔۔۔۔۔ ، لاہور کی محتلف لائبریریز کا دورا بھی کیا اردو کا مطالعہ کیا بہت کچھ سیکھا اور پھر اردو کی بہت سی کتابیں اپنے ساتھ لے آیا اکثر مطالعہ کرتا ہوں۔۔۔۔ اے۔ جے کو اس بات کا نہیں پتہ اور نا کبھی میں نے بتایا، اپنا وطن دیکھنے کا کس کا دل نہیں کرتا۔ وہ گے سالوں کی روداد ایسے سنا رہا تھا جیسے اُسکی اور نین کی بہت اچھی دوستی ہو جیسے کئی سالوں سے وہ دوست رہے ہوں۔۔۔۔
اے۔ جے؟ تم اپنی ماما کو اے۔ جے کیوں کہتے ہو وہ تمہاری ماں ہے شہریار۔۔۔ وہ جتانے والے انداز میں بولی تھی۔اور تم پاکستان گۓ یہ بات اے۔ جے کو کیوں نہیں بتائی کبھی؟؟؟تم ٹھک کہتے ہو اپنے ملک سے کِسے پیار نہیں ہوتا، انسان دنیا کہ کسی بھی احاطے میں چلا جاۓ لیکن اپنے ملک سا سکون کہیں مُیسر نہیں۔نین اطمینان سے بولی تھی۔
ہاں یہی تو دکھ ہے کہ وہ میری ماں ہے وہ لاپرواہی سے بولا تھا،نجانے کیا خیال آیا تھا کہ آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔
بس کرو شہریار وہ جو بھی ہوا تھا اُس میں اے۔ جے کی کوئی غلطی نہیں تھی، تمہیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کی ہے اے۔ جےکہ ساتھ؟؟؟۔۔۔۔ جس طرح کا رویہ روا رکھا ہے تم نے گُزرے سالوں میں وہ ماں ہی ہے جو بردشت کر رہی ہیں،وہ جل کر بولی تھی۔
پلیز نین یہ میرا فیملی میٹر ہے دور رہو تم اسے، وہ دبے دبے غصے سے بولا ۔۔۔۔ ۔سچ کڑوا ہوتا ہے شہریار ملِک جواب ترنت آیا تھا۔ وہ بھی نین سلندر تھی کہاں چپ رہنے والی تھی اچھی خاصی کم گو نین کو پیرس کہ واسیوں نے زبان لگا دی تھی۔
وہ جو اپنی بات مکمل کر کہ پلٹ رہا تھا نین کی بات پہ رکا تھا پلٹ کہ واپس آیا اور ایک جھٹکے سے نین کی قمر میں بازو حمائل کر کہ اُسے خود سے قریب کرتے ہوۓ تندھی سے بولا تھا، تو ایک سچ میں کہوں نین سکندر؟ نین نے جالیدار گھنی پلکیں اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔ماتھے پہ پریشانی کی شکن در آئی تھی، لب خاموش تھے، اور آنکھوں میں بےچینی سمٹ آئی تھی وہ بغور شیری کی روشن آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
آئی لو یو۔۔۔۔ بنا کسی تمہید کہ وہ بولا تھا،اور پھر اُسے خود سے دور کر کہ چند قدم پیچھے ہٹا تھا۔۔۔۔ نین بے یقینیی کیفیت میں بس اُسے دیکھتی چلی گئی۔اُسے شہریار سے اس قسم کہ الفاظ کی اُمید نا تھی، اتنے بڑے اور پختہ الفاظ وہ اتنی اسانی سے کیسے کہہ گیا تھا۔
تمہی نے کہا تھا نا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، اب اس کڑوے سچ کا کیا جواب ہے تمہارے پاس نین سکندر؟، کہ شہریار ملِک کو تم سے محبت ہو گئی ہے، یہ محبت وقتی جزبات کہ تحت نہیں بلکہ ایک کڑوے سچ کی طرح ہی ہوئی ہے، تم سے پہلے مجھے واقعی محبت کا سہی معنی معلوم ہی نہیں تھا زندگی کو بس ایک سگرٹ کی طرح پی کر ختم کر رہا تھا،لیکن جب سے تم آئی ہو جینے کو دل کرتا ہے زندگی اچھی لگنے لگی ہے، ناہنجار زندگی میں روشن سویرا بن کر آئی ہو، جلتے تپتے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آئی ہو، یہ سب کیسے ہوا میں اس بات سے خود بھی لاتعلق ہوں، محبت تو محبت ہوتی ہے یہ کی نہیں جاتی بس خود بہ خود ہو جاتی ہے۔
کیا ہوا نین سکندر آج تم کچھ نہیں بولو گی، آؤ پکڑو میرا گریباں اور جھنجھوڑ ڈالو اور کہو شہریار تم پہ خوشیاں خرام ہیں تم برباد ہونے کہ لیے پیدا ہوۓ ہو تمہیں محبت کرنے کا کوئی حق نہیں،تمہیں آج تک کسی کی محبت حاصل نہیں ہوئی تم در در بھٹکنے کہ لیے پیدا ہوۓ ہو، محبت کا ہر دروازہ قدرت نے تم پہ بند کر دیا ہے، پھر بھلا تم سے کیسے محبت کا داوا کر سکتا ہوں بولو نین سکندر بولو وہ دیواناوار چِلایا تھا اور وہ جو گم سم ٹکر ٹکر اُسکی آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی ہوش میں آئی اور پھر دوڑتی ہوئی اندر چلی گئی اُسکا نفس تیز تیز چل رہا تھا، اُسکی آنکھوں میں بےبسی کہ آنسو تھے، ایسا نہیں تھا کہ اُسے پہلی بار کسی لڑکے نے پروپوز کیا تھا وہ اپنے کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی ہزاروں کہ دل توڑنے والی پری روح، لیکن آج۔۔۔ آج ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ منا بھی نا کر پائی اور آنسوؤں کا سیلاب لیے وہ شہریار کہ گھر سے نکلی تھی، ایسا کیوں ہو رہا تھا یہ سب سمجھنے سے وہ قاصر تھی، کیا نین سکندر کو شہریار ملِک سے سمپتھی ہو رہی تھی؟؟ یاں اُسکے دل میں بھی کہیں نا کہیں شہریار کے لیے سافٹ کارنر بن چکا تھا
گھر آ کر بیگ ایک طرف اُچھال کر اُس نےواش روم کا رُح کیا ٹھنڈے پانی کہ چھپاکے مار کر وہ باہر نکلی تھی دل کی دھڑکن اب بھی زور زور سے دھڑک رہی تھی، پانی کا گلاس گٹا گٹ چڑھا کر وہ بیڈ پہ نیم دراز ہو گئی اور آنکھیں موند لیں ، بند آنکھوں میں بھی اُسے دو روشن آنکھیں نظر آ رہی تھیں جو مسلسل اُسے دیکھ رہی تھیں،جو مسلسل اُسکا تعاقب کر رہی تھیں، وہ اضطراب سے اُٹھ بیٹھی
شہریار ملِک کیا ہو تم، جب سے میری زندگی میں آۓ ہو میری زندگی کا نقشہ ہی اُلٹ ڈالا ہے تم نے، کیا چاہتے ہو آخر کیوں کرتے ہو ایسے، کتنے رنگ مزید دیکھنے کو ملیں گے تمہارے؟، کبھی اتنے برے بن جاتے ہو کہ لگتا ہے تم سے برا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا،اور کبھی اتنے لاپروا دیکھتے ہو کہ لگتا ہی نہیں کہ تم بھی اسی دنیا کی مخلوق ہو اور کبھی اتنے حساس محبت کرنے والے کہ لگتا ہے تم سے زیادہ اچھا کوئی ہے تو سامنے آۓ، اور آج تم اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہو،،،، پر مجھے تمہارا اظہارے محبت برے کیوں نا لگا؟ فوراً آگے بھڑ کر تمہارا منہ کیوں نہیں نوچ لیا۔ یہ مجھے کیا ہو گیا ہے وہ پگلوں کی طرح سر کو جھٹکتے ہوۓ بولی تھی
نین سکندر تمہیں کہیں شہریار ملِک سے محبت تو نہیں ہو گئی؟؟ اُس کہ اندر سے آواز اُٹھی تھی نین نے سرعت سے سر کو نفی میں ہلایا تھا۔
یہ کیا کر بیٹھی نین۔۔۔ انجان ملک میں انجان بندے سے محبت کر بیٹھی؟ بھول گئی کیا؟ کہ تم یہاں پڑھنے آئی ہو اپنے وطن کا نام روشن کرنے آئی ہو، اگر محبت کہ چکروں میں ہی پڑنا تھا تو وطن کہ نام کو کیوں خطرے میں ڈال آئی ہو۔ کوئی مسلسل اُسکے اندر توڑ پھوڑ کر رہا تھا اور وہ مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھی اور پھر اُندھے منہ گر کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔نین سکندر کو واقعی شہریار ملِک سے محبت ہو گئی تھی کب کیوں کیسے! جیسے ہزاروں سوال اُسکے اندر اُٹھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ بے سُد پڑی رہی اور سیلنگ کو تاکنے لگی۔
******========******
فائنل ٹرم کہ ایگزیمز ہو چکے تھے،دو ماہ کی چٹیاں تھیں سب اسٹوڈنٹس کہیں نا کہیں گھومنے کا پلان بنا رہے تھے، نین جب سے آئی تھی ابھی تک پیرس کو ٹھیک سے دیکھا نہیں تھا، ماما پاپا کہ لاکھ کہینے کہ بعد بھی وہ پاکستان نہیں گئی اُلٹا ماما پاپا اور وجی کو یہاں بلوا لیا، ایک ہفتے کہ لیے وہ آۓ تھے اور اب اُن کی واپسی تھی۔ نین اور لِنڈا اُنہیں ایرپورٹ چھوڑنے آئی تھیں، اور نین آنسوؤں سے بھری آنکھوں کہ ساتھ کھڑی اُنہیں کچھ اور دن ٹھہرنے کا کہہ رہی تھی۔
پاپا پلیز کچھ دن اور رُک جائیں، آپ اتنے کم دنوں کے لیے کیوں آۓ تھے، میں نے آپکو اے۔ جے سے ملوانا تھا، وہ لندن گئیں ہوئی ہیں،پرسوں اُنکی واپسی ہے پرسوں تک کہ لیے رُک جائیں پلیز پاپا، وہ اصرار کرتے ہوۓ بولی تھی۔ نین پاپا کی جان! پاپا کی ضروری میٹنگ نا ہوتی تو ہم سب زیادہ دن کہ لیے رک جاتے، اور تم ایسے ضد کر کہ ہمارا سفر مشکل کر رہی ہو، ایک سال گُزر گیا ہے ایک سال رہ گیا ہے میری بیٹی فتح کا جھنڈا گاڑھ کر آۓ گئی مجھے فخر ہے کہ تم میری بیٹی ہو۔۔۔ نین کا ماتھا چومتے ہوۓ اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا تھا، نین پاپا کہ سینے میں چھپ کر آنسو بہانے لگی۔نین جتنی تعریف تم نے اس ایک ہفتے میں اے۔ جے کی ، کی ہے یقیناً وہ بہت اچھی انسان ہوں گئ، اگر وہ یہاں ہوتیں تو ہمیں اُن سے مل کہ خوشی ہوتی پر کوئی بات نہیں تم کہہ رہی ہو نا کہ وہ پاکستان سے ہیں جب تمہاری ہڑھائی مکمل ہو جاۓ گئ تو ہم اے۔ جے کو خود پاکستان انوائٹ کریں گے۔ ماما نے مسکرا کر نین کو اپنی عاغوش میں لیتے ہوۓ کہا تھا۔ نین بھی ممتا کی عاغوش میں سمٹ سی گئی۔
انکل میری شادی تک رُک جاتے تو مجھے بہت اچھا لگتا، لِنڈا نے ایک دم پٹاحہ چھوڑا تھا، نین رونا بھول کر فوراً اُسکی طرف متوجہ ہوئی اور بے یقینی سے لِنڈا کو دیکھنے لگی۔ شادی؟؟؟؟ تم شادی کر رہی ہو، ؟مگر کب ؟ اور تم اب بتا رہی ہو مجھے وہ رونا دھونا بھول کر لِنڈا کی کلاس لینے لگی تھی
نیکسٹ ویک اینڈ پہ۔۔ سوری نین بس کل رات کو اچانک پلان بنا اور ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔، لِنڈا پچھلے چھ سال سے بنٹی نامی کسی لڑکے کہ ساتھ ریلیشن شپ میں تھی بہت سے اُتار چڑھاؤ کہ بعد بل آخر دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نین نے کھا جانے والی نظروں سے لِنڈا کو گھورا تھا۔جسے لِنڈا نے مسکرا کر قبول کیا تھا
بہت بُری ہو تم لِنڈا شادی کر رہی ہو اور اپنی ہی بیسٹ فرینڈ کو نہیں بتایا ماما پاپا اور وجی کو الوداع کہنے کہ بعد گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ دھاڑی تھی، اور لِنڈا اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوۓ خاموشی سے اُسکی باتیں جو کہ صرف مصنوعی تھیں سنتی گئی۔اچھا بابا غلطی ہو گئی معاف کر دو اور بتاؤ کہاں جانا ہے لِنڈا مسکُراتے ہوۓ ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی تھی جس پہ نین بھی مسکُرا دی اور بولی، غلطی معافی لائک نہیں ہے لیکن پھر بھی معاف کیا اور ابھی مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھلاؤ اور کل ہم بازار جائیں گے مجھے شاپنگ کرنی ہے اور تمہارا ویڈنگ گفٹ بھی تو لینا ہے،وہ پر جوش انداز میں بولی تھی۔ لِنڈا نے مسکراتے ہوۓسر کو ہم کرتے ہو فوراً حکم کی تکمیل کی تھی۔
نین تم میرا ایک کام کرو گی پلیز کھانے سے فارغ ہو کر قافی کا مگ پکڑتے ہوۓ لِنڈا نے بات شروع کی تھی، مجھے ابھی اپنا ویڈنگ ڈریس لینا ہے پارلر سے اپوئنٹمنٹ لینی ہے اور بھی بہت سے کام ہیں ورنہ یہ کام میں خود کرتی ، نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوۓ لِنڈا بولی تھی۔ شیور کیا کام ہے میں ضرور کروں گئ نین نے محبت سے کہا تھا۔ تبھی لِنڈا نے بیگ سے انویٹیشن کارڈز نکال کر نین کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا یہ انویٹیشن کارڈ یونیورسٹی کہ کچھ دوستوں کو دینے ہیں کیا تم میرا یہ کام کر دو گی، سوالیہ آبرو اُٹھاتے ہوۓ دریافت کیا تھا۔
نین کارڈز تھام کر دیکھنے لگی جھبی شہریار کہ نام کا کارڈ دیکھ کر اُسکے ہاتھ تھم گیے، آنکھوں میں سُرخی اُترنے لگی جب سے شریار نے اُسے پروپوز کیا تھا تب سے نین بلکل خاموش ہو گئی تھی کترانے لگی تھی جہاں شہریار کا گرپ بیٹھا ہوتا وہ وہاں سے ابل تو گزرتی نہیں تھی اور جو کبھی گزرنا پڑ جاتا تو خاموشی سے نظریں جھکا کر گُزر جاتی البتہ شیری کی نظروں کی تپش اُسے اپنے اُپر ضرور محسوس ہوتی تھیں، شہریار بھی تب سے دوبارہ نین کہ سامنے نہیں آیا تھا بس اُسے آتے جاتے دیکھتا رہتا اور دل کی تڑپ کو دل کہ اندر ہی کچل ڈالتا۔اور اب تو ویسے بھی چٹیاں تھیں دو ماہ تک ایک دوسرے کا آمنا سامنا نادارد تھا، لیکن اب گارڈ ہاتھوں میں تھامیں نجانے وہ کن خیالوں میں گم ہو گئی کہ لِنڈا کو ہاتھ ہلا کر اُسے مخاطب کرنا پڑا
نین نین تم ٹھیک ہو نا؟ کیا ہوا؟ اٹز اوکے اگر تم نہیں کر سکتی تو آئی ڈو ناٹ مائنڈ اِٹ نین کہ بدلتے تعاثرات دیکھ کر لِنڈا خاصی پریشان ہوئی تھی
ارے نہیں میں تو کارڈز دیکھ رہی تھی بہت خوبصورت ہیں اور میں ضرور دے دوں گی سب کو نین نےمسکراتے ہوۓ پہلو بدلا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ لِنڈا نے پہلی بار کو کام کہا تھا اور وہ اپنی زاتی مسائل کی بنا پر منا کر دے کیونکہ یہ بیڈ ایتھکس ہوتے ہیں
آر یو شیور؟ لِنڈا نے تصدیق چاہی تھی
ارے ہاں بابا میں ٹھیک ہوں ایک دو دن تک سب کو دے دوں گی۔ باقی سب تک تو ٹھیک تھا مسئلہ تو صرف شہریار کا تھا اُسکا سامنا کرنا بغیر کسی غلطی کہ بھی کتنا مشکل امر تھا۔
****========****
شیری میرے بچے میری بات سنو کیوں اپنی ماں کو تنگ کر رہے ہو ایسے، تمہیں کیا لگتا ہے کیا مجھے تمہارے پاپا سے محبت نہیں تھی؟ کیا اُن کہ جانے کا مجھے کوئی دکھ نہیں ہے؟
تمہارےپاپا کا رویہ جیسا بھی تھا وہ میرے سائبان تھے میری زندگی کہ میرے دکھ درد کہ ساتھی تھے۔ اگر میں اُنکی وفادار نا ہوتی یاں تم سے محبت نا ہوتی تو میں اُسی وقت کسی اور کا ہاتھ تھام کر نئی زندگی نا شروع کر لیتی بولو کیا میں ایسا نہیں کر سکتی تھی؟اے۔جے نے سوالیہ نظرعں سے بیٹے کو دیکھا۔۔۔۔ کیکن میں نے ایسا کرنا تو دور کبھی خیال تک نہیں گیا ایسی باتوں کی طرف کیونکہ میری زندگی میں صرف ایک ہی مرد آیا تھا نا اُسے پہلے کبھی کوئی آیا نا بعد میں اور وہ صرف تمہارے پاپا تھے، ہر کہانی کہ دو پہلو ہوتے ہیں تم نے صرف ایک پہلو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کر ڈالا کہ تمیاری ماں بد کردار ہے؟ تم نے ہمیشہ وہی دیکھا جو تمہارے پاپا تمہیں دیکھانا چاہتے تھے، وہ خود تو چلے گیے جاتے جاتے تم سے وابستہ میری ساری خوشیاں بھی ساتھ لے گئے۔۔۔بس کریں پلیز روز روز کی یہ فضول باتیں سن سن کر پک چکا ہوں میں، آپ نے اپنی عیاشیوں کہ لیے پاپا کو مارا ہے میں وہ منظر چاہ کہ بھی بھول نہیں سکتا پاپا خون میں لت پت پڑے تھے اور آپ تماشائی بن کر اُن کے مرنے کا انتظار کر رہی تھیں، آپ نے ہی مارا ہے میرے پاپا کو میں کبھی معاف نہیں کروں گا آپکو۔۔۔ وہ غصے سے غرایا تھا۔
شیری میری بات سنو بیٹا ایسا کچھ نہیں تھا تمہارے پاپا نے غلط بیانی کی تھی تم سے ۔۔۔ہٹ جائیں پیچھے ،کوئی بات نہیں سننی مجھے شیری نے اے۔ جے کو جھٹکا تھا اور اے۔ جے پیچھےکی طرف گری تھیں۔
نین جو کارڈ دینے آئی تھی لیکن ماں بیٹے کی باتیں سن جر چوکھٹ پہ ہی ٹھہر گئی تھی فوراً لپک کر آگے بڑھی تھی اور اے۔ جے کو سمبھالا تھا، شیری نین کو دیکھتے ہی لمبے لمبے ڈاک بھرتا باہر نکل گیا
اے۔ جے آپ ٹھیک تو ہیں نا، اے کو صوفے پہ بیٹھاتے ہوۓ بےچینی سے کہا تھا۔۔۔۔ نین میں ٹھیک ہوں پلیز شیری کو روکو وہ بہت غصے میں گیا ہے وہ کچھ غلط کر بیٹھے گا
پر اے۔ جے آپکو۔۔۔ میں ٹھیک ہوں نین پلیز جاؤ اے۔ جے
ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا تو نین فوراً اُٹھ کہ باہر کو بھاگی
********=========********
انسانیت کی ساری حدیں آج پار کر گۓ ہو تم شہریار ملِک
جانور ہو تم جانور بلکہ جانور سے بھی اُپر کا کوئی لقب دینا چاہیے کیوں کہ جانوروں کو بھی ماں کی محبت اور مقام کا پتہ ہوتا ہے۔۔۔۔ نین کی آواز پہ وہ رکا اور پلٹ کر غصے سے نین کو دیکھا ۔وہ بازو باندھے کھڑی کڑی نظروں سے اُسکا جائزہ لے رہی تھی اور پھر چلتی ہوئی قریب آئی
ادب کا درجہ محبت سے بڑا ہوتا ہے شہریار محبت نا سہی ادب کو تو قائم رکھو اپنے اور اے۔ جے کہ رشتے کا لہاز تو رکھو ۔۔۔ تم ایک خودگرز انسان ہو جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو باقی کوئی جیے یاں مرے تمہاری بلا سے۔۔۔۔ ایک نا کردا گناہ کی سزا دے رہے ہو تم اے۔ جے کو، اُنہوں نے اپنا ساتھی کھویا تھا بجاۓ اُنہیں سمبھالنے کے تم اُنہیں توڑتے چلے گئے۔ مائیں بہت انمول ہوتی ہیں جن کہ پاس نہیں ہیں اُن سے پوچھو۔۔۔۔ لیکن تمہیں یہ سب باتیں کیوں سمجھ آئیں گی تم تو بس اپنے مطلب کا سوچتے ہو۔۔۔ نین نے آنکھوں کہ گیلے گوشے صاف کرتے ہو کہا ۔۔۔ محبت کے دعوے کرنا بہت آسان ہے لیکن اُنہیں نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے اُس دن کے بعد آج اُنکی پہلی براہراست گفتگو تھی۔ ،اسے پہلے کہ وہ پلٹ جاتی شیری نے اُسکا ہاتھ تھام لیا، نین کو نا چاہتے ہوۓ بھی اُسکی طرف گھومنا پڑا شیری کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر وہ بازو باندھ کر کھڑی ہو گئی اور بغور اُسکو دیکھے گئی۔ شیری اُسکی گہری سرمئی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا ۔ جانتی ہو جب میں چھوٹا سا تھا اکثر راتوں کو ڈر کر اُٹھ جاتا تھا، تنہا کمرہ اندھیرے میں ڈوبہ ہوا بہت خوفناک لگتا تھا ،میں خود میں سمٹ کر بیٹھ جاتا تھا میری سسکیاں سب اُس اندھیرے میں ہی کہیں زائل ہو جاتی تھیں میں رونا چاہتا تو آواز ساتھ نا دیتی،کیونکہ میری ماں میرے ساتھ میرے بستر پہ نہیں سوتی تھی نجانے کہاں ہوتی تھیں وہ جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مجھے وہ اندھیرا اچھا لگنے لگا ڈر خوف سب ختم ہو گئے۔۔ سکول میں جب جب کوئی
فنکشن ہوتا تو سب بچوں کے ماں باپ موجود ہوتے بس میرے ماما پاپا کبھی میرے لیے وقت نہیں نکال پائے۔۔۔ماما کہ پاس تو دو پل کا ٹائم نہیں تھا میرے لیے جب مجھے اُن کی اشد ضرورت ہوتی تب وہ میرے پاس ہوتی ہی نہیں تھیں۔ پاپا بہت پیار کرتے تھے مجھ سے میرے ساتھ باتیں کرتے تھے مجھے ٹائم دیتے تھے وہ ٹائم جو ماما کو مجھے دینا چاہے تھا پر ماما کو کہاں پرواہ تھی میری اُنہیں اپنی عیاشیوں سے فرصت ملتی تو میری طرف توجہ دیتں نا۔۔۔ اُس نے نفرت سے منہ پھیرتے ہوۓ کہا ۔۔۔شہریار میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں لیکن تم بھی تو اے۔ جے کی تکلیف سمجھو نا؟ بجاۓ اُنکی تکلیفوں کا مداوا کرنے کے تم اُنہیں تکلیفیں دے رہے ہو ایک پل کہ لیے خود کو اے۔ جے کی جگہ پہ رکھ کر دیکھو اور پھر بتاؤ کہ کیا اُن کے ساتھ اچھا ہوا؟ اگر اُنکی جگہ تم ہوتے اپنے پیرنٹس کا مان توڑ کر اُنکا بھروسہ توڑ کر محبت میں پڑ کر شادی کر لیتے اور شادی کے چند ماہ بعد ہی تمہاری زندگی کا امتحان شروع ہو جاتا تو تم کیا کرتے کیسا فیل ہوتا تمہیں ؟ کیا ایک بار بھی تم نے اے۔ جے کی ہاتھ بڑھایا؟ اُن سے پوچھا کبھی کے وہ اتنی مصروف کہاں ہیں ؟ نین نے سوالیہ آبرو اُٹھا کر شیری کی سُرح آنکھوں میں دیکھا جہاں اب تھوڑی دیر پہلے والا کوئی غصے والا تاثر نہیں تھا بے تاثر آنکھیں تھی
اے۔ جے نے تمہارے پاپا کی محبت میں اپنا گھر بار چھوڑ دیا بدلے میں اُن کو کیا ملا؟ زلت، رسوائی، گالی گلوچ،مار پیٹ کیا یہ سب ہوتا ہے محبت میں؟ تم نے وہ دیکھا جو تمہارے پاپا نے تمہیں دکھایا تمہارے سامنے وہ کچھ ہوتے تھے اور تمہارے پیچھے وہ اے۔ جے کے ساتھ بہت برا رویہ روا رکھتے تھے،لیکن تم کیوں سمجھو گے تمہارے آگے تو بس تہارے دکھ ہی سب کچھ ہیں باقی کسی کے دکھ سے تمہارا کیا لینا دینا۔۔۔نین نے دُکھ سے کہا۔۔۔۔ ۔شیری مسلسل نین کی گلابی پڑتی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا چہرہ اب بھی بے تاثر تھا۔ابھی بھی وقت ہے شیری ماں کی ممتا کو اور مت آزماؤ کہیں ایسا نا ہو کہ ماں کا صبر تمہارے سر آن پڑے جاؤ معافی مانگ لو اے۔ جے سے اُنکی بےقرار ممتا کو قرار دے دو ختم کرو اس بے وجہ انا کی ضد کو۔۔ اسے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔میں یہ کارڈ دینے آئی تھی لِنڈا شادی کر رہی ہے یہ اُسی کا انویٹیشن ہے وہ مصروف تھی اس لیے مجھے آنا پڑا۔ شیری نے ہاتھ بڑھا کر کارڈ پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔کارڈ پکڑا کر نین رکی نہیں خاموشی سے چلی گئی اور شیری دور تک نین کو جاتے ہوۓ دیکھتا رہا۔
****=======*****
بہت خوبصورت ہے ۔۔سفید نیٹ کے لمبے فراق جسکے گلے پہ سُرمئی رنگ کہ انتہائی خوبصورت نغ جڑے تھے کو ہاتھوں میں تھامے ستائش بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ نین نے لِنڈا کہ ویڈنگ ڈریس کی بھرپور تعریف کی تھی جسے لِنڈا نے مسکُراتے ہوۓ قبول کیا ۔
شادی میں دو دن رہ گۓ تھے اور کام بہت تھا لہذا نین کچھ دنوں کے لیے لِنڈا کہ اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئی اور تیاری ساتھ مل کر کروا رہی تھی لِنڈا کی کزن مایا بھی بھرپور مدد کر رہی تھی
نین اس کے ساتھ کون سے آویزے اچھے لگیں گے۔۔ لِنڈا دونوں کانوں پہ دو مختلف آویزے لگا کر نین سے پوچھ رہی تھی
ہمممم۔۔۔۔یہ والے بہت سوٹ کر رہے ہیں ۔نین دونوں کو غور سے دیکھتے ہوۓ دائیں طرف والے جھمکے کو دیکھ کر بولی تھی۔۔ ہاں مجھے بھی یہی اچھے لگے لِنڈا فوراً اثبات
میں سر ہلاتے ہوۓ بولی تھی۔
********=========********
لِنڈا کا چھوٹا سا اپارٹمنٹ رنگین لائٹوں سے روشن تھا باہر لان کو خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا موسم میں ہلکی ہلکی خنکی کا اثر اب بھی موجود تھا ،شادی سے دو دن پہلے گھر پہ ہی چھوٹا سا فنکشن رکھا گیا تھا
لان کی سجاوٹ بہت خوبصورتی سے آراستہ کی گئی تھی، ایک طرف مہمانوں کے لیےفلور بیڈنگ کی گئی تھی اور وسط میں سٹیج بنایا گیا تھا اور ایک طرف کھانے کے دو ٹیبلز لگاۓ گئے تھے۔۔۔ لِنڈا کے فیملی میں سے کچھ لوگ آ چکے تھے اور کچھ نے شادی والے دن آنا تھا۔ شادی سے پہلے یہ چھوٹا سا گیٹ ٹو گیدر فیملی اور یونی کے چند دوستوں تک ہی محدود تھا،جن میں شیری ہیری پیٹر اور شرلے بھی شامل تھے
سب لوگ اپنی اپنی نشتیں سنبھال کر بیٹھ چکے تھے، ڈی۔ جے نے سٹیج سنبھال لیا تھا، سُرتال کا دور چل اُٹھا تھا، لیکن کسی کی بے قرار نظریں سرکشی کے آلم میں گم کسی کو بےتابی سے دونڈھ رہی تھیں
ڈی۔ جے نے ایک گانا شروع کیا تو وہ پری روح بل آخر زمیں پہ اُتر آئی تھی اور کسی کی بےقرار نظروں کو قرار ملا تھا۔۔۔۔۔اُس نے رائل بلو میکسی جس پہ سلور نگینوں سے کام کروایا گیا تھا اور دامن پہ سلور گوٹا کناری کا انتہائی نفیس اور خوبصورت کام کیا گیا تھا پہنا ہوا تھا،اور یہ میکسی اُس نے سب سے زیادہ لاڈ اُٹھانے والے خالہ زاد بلال بھائی کی شادی پہ بنوائی تھی۔۔۔۔بالوں میں آج پہلی بار مینی کرلز کرواۓ تھے دوبٹہ ایک طرف ڈالا ہوا تھا دونوں ہاتھوں سے میکسی کو اُٹھاۓ سہج سہج قدم اُٹھاتی وہ ماحِ روح چلتی آ رہی تھی اور پھر وہ لِنڈا کہ ساتھ بیٹھ گئی،نجانے کتنی نظروں نے اُسکا تعاقب کیا تھا کچھ تو نظریں جھکانا بھول گئے تھے،لِنڈا کی ماما نے تو یہ تک کہہ ڈالا کے اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ یقیناً اُسے اپنی بہو بنا لیتیں اور نین شرما کر مسکرا دی۔۔۔۔۔ کسی کی نظروں کی تپش اُسے اپنے چہرے پہ محسوس ہوئی تو اُس نے نظر اُٹھا کر دور بیٹھے شیری کو دیکھا جو دور بیٹھے ہوۓ بھی نین کے سراپا کو دیکھے جا رہا تھا ، نین کہ یوں اچانک دیکھنے پہ شیری کو اپنی چوری پکڑے جانے پہ شرمندگی ہوئی تبھی وہ نظریں جھکا گیا۔۔ نین نے بھی رُح پھیر لیا لیکن دل کی شریر دھڑکنیں اُتل پُتل ہونے لگی تھیں
ہر طرف خوشی کا سما تھا قہقوں سے محفل سجی تھی ساتھ ساتھ کھانے پینا کا دور بھی جاری تھا۔۔۔ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے جب ڈی۔ جے نے سب کو خاموش کروایا اور چند جوڑیوں کو فلور پہ رنگ بکھیرنے کا کہا تو کئیں پُر جوش جوڑے اُٹھ آۓ، شیری آرام سے بیٹھا تھا جب کسی نے اُسے ڈانس کی آفر کی شیری نے چونک کر سر اُٹھا کر دیکھا تو لِنڈا کی کزن مایا جو کافی دیر سے شیری کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی اور یہ نظریں نین نے بھی دیکھی تھیں شیری کہ سر پہ کھڑی آفر کر رہی تھی۔
شیری نے تعاجب سے مایا کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھا پھر دور بیٹھی نین سکندر کو دیکھا جو اِن دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی پر شیری کے دیکھنے سے نظروں کا زاویہ بدل لیا، کچھ دیر سوچنے کہ بعد اُس نے مایا کا ہاتھ تھام لیا اور اُٹھ کر باقی جوڑیوں کہ ساتھ کھڑا ہو گیا، نین نے بےچینی سے پہلو بدلا ، سب اپنی اپنی پارٹنرز کے ساتھ جھومنے لگے مایا بھی شیری کے ساتھ چپکی بغور اُسے دیکھ رہی تھی نین کو مایا سے ایک دم چڑ سی ہونے لگی، وہ اُٹھنے لگی جب لِنڈا کہ کسی جان پہچان والے نے اُسے ڈانس کی آفر کی لیکن نین نے بڑی سہولت سے منا کر دیا وہ مشرقی خاندان سے تعلق رکھنے والی مشرقی لڑکی تھی اپنے ادبو آداب کیسے بھول سکتی تھی
شیری کہنے کو تو مایا کے ساتھ ڈانس فلور پہ تھا لیکن اُسکی نظریں اور دل مسلسل
نین کی طرف لگا تھا۔، مایا کہ ساتھ ڈانس کرنا تو صرف ایک بہانا تھا در حقیقت وہ نین کی تڑپ دیکھنا چاہتا تھا اور وہ غصہ وہ تڑپ وہ بخوبی دیکھ چکا تھا
نین اُسکے پاس سے گزرنے لگی تو وہ بھی مایا سے بہانا بنا کر اُس کے پیچھے ہو لیا اور پھر راستے میں ہی اُسکی کلائی تھام کر روک لیا
شیری یہ کیا حرکت ہے چھوڑو میرا ہاتھ شیری کی اس حرکت سے وہ تلملا اُٹھی
ارے کیا ہوا تمہاری دوست کی شادی کا فنکشن ہے اور تم بیچ میں ہی چھوڑ کر جا رہی ہو۔ کیا میرا ڈانس اتنا برا تھا؟نین کی کاجل سے اٹی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ شوخی سے بولا تھا
مجھے نا تم میں کوئی انٹرسٹ ہے نا تمہارے ڈانس میں ہاتھ چھوڑو میرا وہ اب بھی غصے میں تھی لیکن یہ غصہ شیری کہ ہاتھ پکڑنے کا نہیں بلکے کسی اور بات کا تھا۔
ویسے جلنے کی بو آ رہی ہےلگتا ہے کسی کا دل جل رہا ہے نین کی کلائی کو اور مضبوطی سے پکڑتے ہوۓ بولا ۔
جلن؟ کیسی جلن؟ اور یہاں ایسا ہے ہی کیا جسے میں جلوں گی تم اپنی خوش فہمیاں دور کر لو تو بہتر ہو گا۔نین اپنی کلائی سختی سے چھڑواتے ہوۓ بولی تھی۔
مان کیوں نہیں لیتی کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔ نین مُڑنے لگی تھی لیکن شیری کے تیر سے تیز لفظوں نے اُسے روک دیا ،نین سکندر دم سادھے کھڑی رہی نا آگے جانے کی سکت تھی نا پیچھے مُڑنے کی ہمت۔۔۔۔ شیری سے اس قسم کی بے بھاکی کی اُمید نا تھی اُسے،
میرے دل میں تمہارے لیے محبت تھی ہے اور رہے گی نین چاہے تم اس بات کو اکسیپٹ کرو یا نا کرو کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔۔وہ اُسکے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا اور نین کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جاۓ اور وہ اُس میں سما جاۓ مارے شرمندگی کہ اُسکا وجود شل ہو رہا تھا، اُسے شیری سے محبت ہو گئی تھی لیکن وہ اس بات کو قبول نہیں کر پا رہی تھی، وہ مسلسل اس بات کی نفی کر رہی تھی اور پھر وہ شیری کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کچھ سخت بولنے لگی تھی جبھی مایا آن وارد ہوئی
نین تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو وہاں لِنڈا تمہیں بلا رہی ہے، مایا یقیناً شیری کو ڈھونڈتی ہوئی وہاں آئی تھی اُسے وہاں پا کر نین کی جان میں جان آئی اور موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہی وہ فوراً وہاں سے چلی گئی،جب کہ شیری مایا کہ ساتھ ۔۔۔وہی کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگا۔۔۔۔۔
اور پھر سارے فنکشن پہ مایا شیری سے چپکی رہی اور نین اسے دیکھ دیکھ کر دانت کچلاتی رہی، آخر وہ ایسا کیوں نا کرتی محبت تو اُسے بھی تھی بس روایت آڑے آ رہی تھی۔
نین کی نظر شیری کی طرف اُٹھی تو شیری نے بھی اسے وقت اسے دیکھا تھا دونوں جی نظریں ملی تھیں اور دل بھی ایک ساتھ دھڑکے تھے۔زبانے کند تھیں لیکن دل گواہی دے رہے تھے نظرین ساکن تھیں لیکن اسکی جلتی بجھتی لوح ساری داستاں بیاں کر رہی تھی۔دلوں کا حال ان کہ چہروں پہ عیاں ہو رہا تھا۔