“اماں۔!” سبکتگین نے دکھ سے ابا جی کو جاتے دیکھا اور ماں کو مدد طلب نظروں سے پکارا۔
“اب تمھارے ابا کو بحث کر کے منانے کا یا ان کی منت کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔” کچھ دیر دائیں بائیں ٹہلنے اور سوچنے کے بعد فوزیہ نے ماحول پہ چھائے سکوت کو توڑا تھا۔
“بہت کر لی انھوں نے من مانی، بہت منوا لی اپنی۔ اب وہی ہو گا جو میں چاہوں گی۔” جوش سے ان کی آواز قدرے بلند ہو گئی لیکن اگلے ہی لمحے شوہر کی واپسی کے خیال سے آہستہ سے دونوں بیٹوں کو اشارہ کرکے قریب بلایا اور دونوں کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگیں۔
“بھئی واہ اماں۔! مان گئے آپ کو۔۔”شاہنواز نے زورا دار تالی بجائی۔
“اب ابا جی کو پتا چلے گا کہ سپر پاور سے پنگا لینے کا کیا نتیجہ ہے۔” اماں کی تجویز سن کر وہ ابھی سے آنے والے وقت کا تصور کرکے خوش ہو رہا تھا۔
“نہیں اماں۔! کچھ الٹا ہی ہو گیا تو۔!؟” سبکتگین کو لیکن اعتراض تھا۔
“ابا جی کا غصہ بھی مشہور ہے، کہیں غصے میں آپ کو ہی کچھ کہہ دیا تو؟” وہ اماں کی تجویز سے متفق نہیں تھا۔
“چھوڑیں، جانے دیں، ابا جی نہیں مانتے تو میں مس حسین کو منع کر دوں گا۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں ابا جی کہ ایک فضول سے شوق کی خاطر کیوں اچھی بھلی نوکری برباد کی جائے۔” فوزیہ کو چائے کا کہنے آتے، شاہد نے سبکتگین کی بات سنی اور وہیں رک گئے۔
“اب یہ بھی تو اچھی بات نہیں ہے کہ میں اپنے معمولی سی شوق کے لیے خاندان کا نام بھی خراب کروں اور اپنا مستقبل بھی۔۔”
“شکر ہے عقل آ گئی اس ناہنجار کو۔” اس کی بات سن کر بجائے جذباتی ہونے کے، سر جھٹک کر، چائے پینے کا ارادہ موقوف کرتے، واپس کمرے میں چلے گئے تھے۔ فوزیہ کی زیرک نگاہوں نے ہلتا پردہ دیکھا تو اپنی تجویز پر عملدرآمد کا ارادہ مزید پختہ ہو گیا تھا۔ وہ سبکتگین کی طرف متوجہ ہوئیں:
“بس ہو گیا؟ بول چکے تم؟ آج کون سی فلم دیکھی تھی جو بادشاۂ جذبات بنے ہوئے ہو؟” شوہر کی بےحسی اور بےجا ضد کا غصہ بیٹے پہ اترنے لگا تھا۔
“کک۔۔ کیا مطلب اماں؟” وہ بےچارا ہکا بکا ماں کو دیکھنے لگا کہ انھیں اچانک غصہ کیوں آ گیا تھا۔ جبکہ شاہنواز بادشاۂ جذبات کا لقب سن کر ہی ہنسی سے بےحال ہوا تھا۔ اس کو پیٹ پکڑ کر دہرا ہوتے دیکھ فوزیہ نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی اور چہرے پہ مصنوعی خفگی طاری کی:
“اب کل وہی ہو گا جو میں تمھیں بتا چکی ہوں۔ میری بات سے ذرا سا بھی انحراف کیا تو۔۔۔”
“تو۔۔؟؟” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
“مجھے اماں مت کہنا۔!” شاہنواز کی ہنسی پھر سے چھوٹی، اب کے وہ بھی کھل کر ہنسیں تو سبکتگین بھی، جو ڈرا ڈرا سا کھڑا تھا، پرسکون سا ہو گیا۔
“کوئی بات نہیں، میں آپ کو امی کہہ لوں گا۔”محبت سے ان کے کندھوں کو تھام کر کہا تھا لیکن انھوں نے پھر بھی سختی سے تنبیہ کی تھی۔
“میں بتا رہی ہوں تمھیں سبکتگین! اگر کل تم نے اپنی زبان کھولی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ اور تم بھی کان کھول کر سن لو شاہنواز۔! میں مذاق نہیں کر رہی۔” انھوں نے دونوں ہی کو لتاڑ دیا، اب صحیح معنوں میں شاہنواز کی ہنسی کو بھی بریک لگے تھے۔ ان دونوں کو ایک آخری تنبیہی گھوری سے نواز کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں۔
“بھائی۔!” اماں کے چلے جانے اور یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ وہ واپس نہیں آئیں گی، شاہنواز نے آہستگی سے اسے بلایا۔
“کل سے اماں نے اپنے منصوبے پہ کام شروع کر دینا ہے، اور دیکھیے گا ابا جی کو بھی مانتے ہی بنے گی”
“ھا۔۔۔ اللہ کرے۔!” وہ ٹھنڈی آہ بھرتے صوفے پر دونوں بازو پھیلا کر بیٹھ گیا۔
“تو میں کہہ رہا تھا کہ جب اماں کا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا اور ابا جی مان جائیں گے تو آپ مجھے کیک بنا کر کھلائیں گے۔” سبکتگین نے سر گھما کر اسے دیکھا اور اگلے لمحے اس کا دایاں کان دبوچا۔
“ندیدے کہیں کے، پہلے کب تمھیں کیک بنا کر نہیں کھلایا میں نے؟ ہاں؟ بتانا ذرا۔!”
“اوئی۔۔۔ کان تو چھوڑیے بھائی!” اس نے اپنا کان اس کی گرفت سے چھڑوانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
“میں نے یہ کب کہا کہ کیک کبھی نہیں کھلایا، میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ ابا جی کے مان جانے کی خوشی میں مجھے کوئی زبردست سا کیک کھلائیں گے۔” سبکتگین نے اس کا کان چھوڑا اور مسکرا دیا، کچھ سوچنے کے بعد بولا:
“چلو پھر پکا ہو گیا، میں نے کل ہی چاکلیٹ شفون کیک چاکلیٹ موس کے ساتھ، کی ترکیب ڈائری میں لکھی تھی۔” شاہنواز کے تو کیک کا نام سنتے ہی منھ میں پانی بھر آیا تھا۔
“چلو اب چل کر سوؤ! صبح کالج بھی جانا ہے۔” سبکتگین خود بھی اٹھا تھا اور اسے بھی اشارہ کیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سورج نے کافی دنوں بعد اپنی جھلک دکھلائی تھی۔ دن خوب روشن اور چمکدار تھا۔ دونوں ہاتھ میں کافی کپ لیے سینٹ جوزف چرچ کے قریب، پارک میں ایک بینچ پہ بیٹھے تھے۔ غزنوی نے ردابہ کو امی سے ہونے والی گفتگو کا لب لباب بتا دیا تھا۔
“اب کیا ہو گا غزنوی!” کافی کا گھونٹ بھرتے اس نے فکرمندی سے پوچھا تھا۔
“وہی جو تمھارے ڈیڈی چاہیں گے۔”
“ڈیڈی کیا چاہتے ہیں وہ تم جانتے ہو۔!”
“تم اپنے ابو سے بات کیوں نہیں کرتے غزنوی؟ ہو سکتا ہے وہ مان جائیں۔” ردابہ نے نئی راہ دکھائی۔ جسے غزنوی نے فوری طور پر رد کیا تھا۔
“جب امی راضی نہیں ہیں تو ابو کیسے راضی ہو سکتے ہیں؟ سبکتگین اگر امی کا بھانجا ہے تو ابو کا بھتیجا بھی ہے، وہ جتنا امی کو عزیز ہے، اس سے کہیں زیادہ ابو کو پیارا ہے۔” غزنوی نے کافی کا خالی کپ قریب موجود، کوڑے دان میں ڈالا اور بات جاری رکھی۔
“حقیقت تو یہ ہے کہ سبکتگین کسی بھی لڑکی کے لیے ایک بہترین انتخاب ہو سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ امی ابو نے اقدس کے لیے اس کا انتخاب کر رکھا ہے۔ ہم دونوں کا معاملہ نہ ہوتا تو میں کبھی سفیر کے سلسلے میں امی سے اقدس کے لیے بات ہی نہ کرتا۔” ردابہ نے اس کی صاف گوئی کی داد دی تھی، ایسے ہی تو وہ اس کا انتخاب نہیں تھا۔
“میرا یقین کرو غزنوی! ڈیڈی نے پہلے کبھی اس وٹے سٹے پہ کوئی بات نہیں کی تھی۔ نہ کبھی ذکر ہوا کہ وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے تو تب بھی نہیں بتایا جب میں نے تمھارے بارے میں بات کی تھی۔” ردابہ دو دن سے پریشان تھی کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔؟
“تم نے دوبارہ بات کی انکل سے؟” غزنوی نے فون پہ آئی میل چیک کرتے، اس سے پوچھا تھا۔
“ابھی تو ڈیڈی ٹورنٹو گئے ہیں، ان سے ملاقات ہی نہیں ہو سکی تھی۔ لیکن میں بات کیے بغیر رہوں گی نہیں۔ یہ میری زندگی کا معاملہ ہے۔ اسے میں ایک فضول سی شرط کے لیے چھوڑ نہیں سکتی۔” غزنوی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
“اور سفیر۔؟ وہ کیا کہتا ہے؟ اس سے بات نہیں کی تم نے؟”
“نہیں۔! اسے بھی ابھی مصروف ہونا تھا۔ ایسا لگتا ہے ڈیڈی اور سفیر کی زندگی میں سب اہم ہے، سوائے میرے،۔۔ کسی کو میری کچھ پڑی ہی نہیں ہے۔” اسے جیسے اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تھا
“ڈیڈی ہیں تو وہ اپنی شرط بیان کرکے آزاد ہو گئے کہ جو کہا وہی ہو گا۔ سفیر ہے تو اسے جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ شادی کسی بکری سے ہو یا گائے سے۔” اس سنجیدہ ماحول میں بھی غزنوی کو ہنسی آ گئی، لیکن ردابہ کی سنجیدگی دیکھ کر ضبط کر گیا تھا۔
“میں نے آج اسے خوب بھڑکتا ہوا، دل جلانے والا میسج کیا ہے کہ رات کو اگر کھانے پہ گھر نہ آیا تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ اسے صرف دھمکی نہ سمجھے۔” غزنوی ایک دم سیدھا ہوا۔
“کیا کرنے والی ہو تم؟ کچھ الٹا سیدھا مت کرنا۔ ورنہ مجھ سے برا بھی کوئی نہیں ہو گا۔” موبائل بند کرکے واپس رکھا تھا۔
“بےفکر رہو خودکشی جیسا کوئی فضول کام نہیں کرنے والی۔ تمھاری جان چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے میرا۔ ہاں مگر۔۔!” اس نے ڈرامائی سے انداز میں بات ادھوری چھوڑی، وہ بےچین ہوا کہ نجانے اس لڑکی نے کیا سوچ رکھا تھا۔
“مگر ساری زندگی کے لیے تمھاری جان پکڑنے کا ارادہ ضرور ہے۔” اس کی آنکھوں میں دیکھتے، وہ نہایت دلفریب انداز میں مسکرائی تھی۔
“تم سے جان چھڑوانی ہوتی تو تم سے شادی کا وعدہ نہ کیا ہوتا۔وہ بھی مسکرا دیا شکر تھا کہ اس لڑکی میں اتنی عقل تو تھی کہ کوئی غلط قدم نہیں اٹھانا۔
“بہرحال! اب جو کرنا ہے تم نے کرنا ہے، انکل کو منانا اور سفیر کا ووٹ اپنی جانب کرنا سب تم پہ ہے۔ باقی مجھ پہ یقین رکھنا کہ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں۔”
“مجھے یقین ہے کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ ہو۔ اور تمھارے اس ساتھ کے حصول کے لیے میں کچھ بھی کروں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔” ردابہ نے پورے یقین سے اس سے کہا تھا۔ غزنوی نے مسکرا کر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“کیا بات ہے شازیہ!؟ میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں بہت غصے میں لگ رہی ہو۔ کیا بات ہے؟ اقدس یا اریبہ نے کچھ کیا ہے کیا؟” فیاض باہر گھر کی ساری بتیاں وغیرہ بجھا کر کمرے میں آئے تو بیوی سے اکھڑے پن کی وجہ پوچھ ہی لی۔
“اقدس یا اریبہ نے کیا کرنا ہے؟ وہ ہے نا ایک آپ کا بیٹا، وہی کم ہے کیا۔؟” ہاتھ میں پکڑی کتاب رکھی اور انھیں ساری بات بتائی تھی۔ سن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گئے۔
“آپ کیا سوچنے لگے؟” شازیہ نے انھیں سوچ میں غلطاں دیکھا تو کھٹک گئیں۔
“دیکھیے! میں آپ کو بتائے دے رہی ہوں کہ سبکتگین کے علاوہ میں اقدس کا رشتہ کسی سے نہیں کروں گی۔ اور اگر کسی نے یہ سوچا کہ اقدس کے لیے سبکتگین کے علاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے تو اسے میری لاش پر سے گزر کر جانا ہو گا۔” آخری جملے پہ وہ چونکے تھے۔ اور سر پیٹ کر بیوی کو سمجھایا۔
“ہیں؟؟ اری خدا کی بندی۔۔ کیا اناپ شناپ بول رہی ہو؟ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں نے اقدس کا رشتہ کہیں اور کرنے کا سوچا ہے؟” شازیہ نے پل بھر ٹھہر کو انھیں دیکھا اور پرسکون ہوئیں:
“جب تم نے اپنی طرف سے غزنوی کو جواب دے دیا تھا تو اب میری طرف سے کیوں پریشان ہو؟” شازیہ کو اپنی جلدبازی پہ افسوس ہوا
“مجھے لگا کہ شاید آپ غزنوی کی خاطر، اس لڑکی ردابہ کے بھائی۔۔”
“کیا ایسا پہلے کبھی ہوا ہے کہ میں نے تمھارے فیصلے کو مقدم نہ جانا ہو؟ مجھے جہاں لگتا ہے کہ میری بیوی نے عقل مندی سے کوئی فیصلہ لیا ہو گا، وہاں میں تمھارا پورا ساتھ دیتا ہوں۔” ان کی برملا تعریف پہ شازیہ پھولے نہیں سمائی تھیں۔
“اور رہی بات سبکتگین اور اقدس کی تو، اپنی بیٹی کے لیے سبکتگین سے بڑھ کر کوئی لڑکا کبھی میری نظر سے گزرا ہی نہیں۔” ان کے الفاظ و انداز میں بھتیجے کے لیے بےحد پیار تھا۔
“ایک بات تو بتائیں!” شازیہ نے کچھ سوچا اور بولیں:
“اسے جو بیکنگ کا شوق ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟”
“رائے کیا ہونی ہے بھئی! بچے کا شوق ہے، کچھ کرنے کی لگن ہے تو میرا تو یہی خیال ہے کہ اسے اسی شعبے میں آگے بڑھنے بھی دینا چاہیے۔جب انسان اپنی خواہش کے مطابق کوئی شعبہ منتخب کرتا ہے تو اپنی ساری قوتیں اور تمام تر توانائی اس شعبہ میں نام بنانے کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ سبکتگین بھی ایسا ہی کچھ کرے گا۔” ان کے خیالات سے شازیہ اگرچہ پہلے بھی واقف تھیں لیکن پھر بھی خدشہ تھا کہیں اقدس کے حوالے سے انھیں اپنے بھائی کی طرح سبکتگین کے بیکنگ کے شوق پہ اعتراض نہ ہو۔
“تمھیں کیا لگا کہ مجھے اعتراض ہو گا؟” وہ جیسے ان کے سوال کا مقصد سمجھ گئے تھے۔
“نہیں شازیہ! مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، حلال رزق کمانے کے لیے حلال اور جائز طریقہ اختیار کرنے میں مجھے کیا اعتراض ہو گا؟ بلکہ مجھے اگر موقع ملے کہ میں اس کے خواب کے حصول میں اس کا ساتھ دے سکوں، تو ہر ممکن ساتھ دوں گا۔” کمبل کھول کر ٹانگوں پہ پھیلاتے، انھوں نے اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔
“پتا نہیں بھائی صاحب کو کیا خرابی نظر آتی ہے۔ اللہ جانے کیا ضد ہے بچے سے۔” شازیہ نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے، شوہر کے خیالات کو سراہا تھا۔ کہ چلو ایک اور ووٹ تو سبکتگین کے حق میں ہوا۔ اب صرف شاہد بھائی اور اقدس کتنا عرصہ سبکتگین کے خلاف محاذ آرائی کر سکتے تھے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
شاہد فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے تو فوزیہ نے جلدی جلدی نماز پڑھ کر اپنا سفری بیگ تیار کیا، اور ہال کمرے میں عین اس جگہ لا کر رکھا، جہاں شاہد بیٹھ کر ناشتہ کرتے تو ان کی نظروں میں آ جاتا۔ گھر کے چاروں افراد ناشتہ اور رات کا کھانا ایک ساتھ ہی کھایا کرتے تھے۔
“فوزیہ! بھئی یہ بیگ کس کا ہے؟ تمھارے بھائی صاحب تشریف لائے ہیں کیا؟” ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ بیگ شاہد کی نظروں میں آ چکا تھا۔
“میرا بیگ ہے۔ بھائی جان نہیں آئے، میں جا رہی ہوں ان کی طرف۔” فوزیہ نے چائے میز پہ رکھی اور کرسی سنبھالتے، نروٹھے پن سے جواب دیا۔ چائے کا گھونٹ بھرتے انھیں زور کا اچھو لگا تھا۔
“تم جا رہی ہو؟ کس سلسلے میں؟ کیوں اور کس سے پوچھ کر؟” چائے کا کپ میز پہ رکھتے انھوں نے ایک ہی سانس میں ڈھیر سارے سوال کر دیے تھے۔
“سبکتگین! میری سیٹ کروا دینا۔”
“سیٹ تو میں خود کروا دوں گا بیگم! بلکہ خود بس میں بٹھا بھی آؤں گا، لیکن پہلے مجھے اچانک لاہور جانے کی وجہ بتاؤ۔” انھیں یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی کہ ان کی زوجہ، اچانک سے، بیٹھے بٹھائے اتنا بڑا فیصلہ کر بیٹھیں، وہ بھی انھیں بتائے بغیر۔
“مجھے اب اس گھر میں نہیں رہنا۔”
“کیا۔۔!!!؟؟؟” مارے حیرت کے وہ اپنی جگہ سے اچھل ہی پڑے تھے۔
“جب اس گھر میں میری کوئی وقعت، کوئی اہمیت نہیں تو مجھے اب یہاں رہنا ہی نہیں ہے۔” شاہد نے اچنبھے سے بیوی کو دیکھا اور سوچنے لگے:
(یہ رات بھر میں اسے کیا ہوا؟ کوئی جھگڑا، کوئی لڑائی نہیں۔ نہ اب میں نے چائے یا پراٹھے میں نقص نکالا، نہ رات ہی کو کھانے پہ کوئی تبصرہ کیا، پھر اچانک کیا ہوا؟)۔
(اماں! بس کریں بہت ہو گیا) سبکتگین نے چپکے سے آنکھوں آنکھوں میں ماں کو اشارہ کیا۔ جواباً انھوں نے اسے زبردست سی گھوری سے نوازا تھا۔ جبکہ شاہنواز ان سب سے بےنیاز، اطمینان سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ تب بیوی کی معنی خیز خاموشی اور بیٹوں کے حد درجہ اطمینان کو محسوس کرکے وہ کھٹک گئے تھے۔
“یہ سب کیا ہو رہا ہے شاہنواز۔!” سب سے پہلے چھوٹے بیٹے کی شامت آئی۔ وہ انجان بنا، اور چونکنے کی کمال اداکاری کرتے ہوئے بولا:
“کیا ابا جی؟ کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ میں تو ناشتہ کر رہا ہوں۔” نوالہ منھ میں رکھتے اس نے باپ کو بنایا۔ فوزیہ نے دل ہی دل میں اس کی بلائیں لی تھیں۔ کتنی شاندار اداکاری کرتا تھا ان کا بچہ۔
“میں ناشتے کا نہیں پوچھ رہا بدتمیز!” انھوں نے جھنجھلا کر میز پہ ہاتھ مارا۔
“یہ تمھاری اماں کو یکایک کیا ہوا؟”
“مجھے کیا معلوم ابا جی! آپ دونوں کا آپس کا معاملہ ہے، میں کیسے آپ دونوں کے درمیان آ سکتا ہوں؟” بات مکمل کرکے اس نے جلدی سے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور
“مجھے کالج کے لیے دیر ہو رہی ہے” کہتا ہوا نکل گیا، مبادا ابا جی کوئی اور سوال پوچھ کر اسے مشکل میں ڈالیں۔
“میں بھی نکلتا ہوں اماں! دیر ہو رہی ہے۔” سبکتگین نے بھی جانے میں عافیت سمجھی تھی۔
“یہ کیا تماشا ہے فوزیہ!؟ کب تمھیں اہمیت نہیں دی گئی اس گھر میں؟ بلا شرکت غیرے اس گھر پہ حکمرانی کرتی ہو۔ پھر بھی شکوہ ہے۔” بچوں کے جانے کے بعد شاہد سنجیدگی سے ان کی طرف متوجہ ہوئے، اس بات سے بے خبر، کہ منصوبے کے مطابق روازے کے اس پار کھڑے دونوں، ان کی باتیں سن رہے تھے۔
“جی بالکل! بلا شرکت غیرے حکمران ہوں، لیکن وہ حکمران جسے کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ جو اپنی مرضی سے کوئی بات بھی منوا نہیں سکتا۔” خفگی ان کی ایک ایک لفظ سے عیاں تھی۔
“ہر فیصلہ تو تم ہی کرتی ہو فوزیہ! اب اور کیا چاہتی ہو؟” وہ ان کی پہیلیوں سے عاجز آ گئے تھے۔
“فیصلہ بےشک میں کرتی ہوں لیکن آپ راضی ہوتے ہیں تبھی اس پہ عمل ہوتا ہے۔ لیکن اب میں نے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور جا کر رہوں گی۔ میرے بھائی کو میری دو روٹیاں بھاری نہیں ہوں گی۔” انھوں نے ڈٹ کر کہا تھا۔
“میں جانتا ہوں کہ تم یہ سب صرف مجھ پر زور ڈالنے کے لیے کہہ رہی ہو، تاکہ میں سبکتگین کو آسٹریلیا جانے کیا اجازت دے دوں۔” بالآخر وہ بات کی تہ تک پہنچ گئے تھے۔
“بہت اچھا ہوا کہ آپ سمجھ گئے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ اپنی اس بےجا ضد کے پیچھے اپنے بیٹے کی خوشی نہیں دیکھ پا رہے۔ وہ اگر آپ کے احترام میں اپنی خواہش سے دستبردار ہو رہا ہے تو بھلے آپ کو اس بات کی خوشی ہو گی لیکن معاف کیجیے گا، مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ اس کا مایوس چہرہ دیکھوں۔” انھوں نے خفگی سے سر جھٹکا تھا۔
“سر جھٹکنے سے کیا ہو گا؟ وہ آپ کے سامنے تو ضبط کر جاتا ہے، لیکن میں ماں ہوں اس کی، مجھے معلوم ہے کہ اس کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔” وہ حد درجہ جذباتی ہو گئیں۔
“بھائی۔! یہ اماں تو کچھ زیادہ ہی نہیں بول رہیں! ملکۂ جذبات بن رہی ہیں۔” شاہنواز نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
“شش۔۔ چپ رہو۔!” سبکتگین نے اسے ٹوکا۔
“جی جی چپ ہوں! لیکن اماں کمال کر رہی ہیں۔” وہ جوش سے بولا۔ سبکتگین نے اسے گھورا تو وہ منھ پہ انگلی رکھ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔
“اسے بگاڑنے میں تمھارا ہی ہاتھ ہے۔”
“بگاڑنے میں؟ کہاں سے بگڑا ہوا لگتا ہے آپ کو میرا بیٹا؟” شاہد کی اس بات پہ تو انھیں خوب مرچیں لگی تھیں۔
“چور ہے، ڈاکو ہے یا لٹیرا ہے؟ بتائیں مجھے!”
“لا حول ولا قوۃ۔۔۔ تم عورتوں سے تو بحث کرنا ہی عبث ہے۔”
“جی ہاں۔! اسی بحث سے آپ کو بچانے کے لیے میں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہوں۔ یہ آخری بار تھا کہ آپ سے بحث کر لی میں نے۔ میری کیا اوقات کہ اس گھر میں، اپنی اولاد کو لے کر میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔” خود سے اونچا اونچا بولتے، برتن سمیٹنے لگیں۔
“ہاں بھئی! مرد ہیں، جو مقام آپ کو حاصل ہے مجھے کہاں؟ گھر آپ کا، بچے آپ کے، مرضی آپ کی۔۔۔ ہمیں تو کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ حق ہا۔۔!! اماں باوا اسی دن کے لیے لڑکیاں بیاہتے ہیں کہ شوہر حضرات تیس اکتیس سالوں کے ساتھ کا بھی لحاظ نہ کریں۔” آخری فقرہ خوب ٹھنڈی آہ کھینچ کر ادا کیا گیا تھا۔
“کاہے بیاہی پردیس ری مائے۔۔۔!” دکھ بھرا ایک اور جملہ۔۔۔ شاہد نے اپنا ماتھا پیٹا، بات اب برداشت سے باہر ہو گئی تھی۔ جذباتیت کی انتہا ہی تو تھی۔
“بس کرو۔! بہت ہو چکا۔” وہ زچ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
“جی بس ہو چکا بہت! اسی لیے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بھائی کے گھر چلی جاؤں گی۔” وہ خالی برتنوں کی ٹرے اٹھا کر اٹھیں۔
“شازیہ بھی ساتھ جا رہی ہے یا صرف تمھاری اکیلی کی سیٹ کروانی ہو گی؟” ٹھنڈا ٹھار، برف سا لہجہ، فوزیہ نے حیرت سے پلٹ کر دیکھا، یہاں تو وہی حال ہوا تھا کہ۔۔
؏ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
“میں اکیلی ہی جاؤں گی۔ ابھی جا کر سیٹ کروا دیجیے۔” خفا سے لہجے میں کہتیں وہ انھیں سوچوں میں گم چھوڑ گئی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...