(Last Updated On: )
وہ حیرت سے ایمان کو دیکھنے لگی ۔۔۔
“انشاء آئندہ خیال رکھنا ان باتوں کا ۔۔۔ اتنا کہے کر وہ ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا اور انشاء اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔
اسے اس کے روڈ رویۓ کا دکھ اپنی جگہ تھا پر جتنا اس کا انشاء بلانے کا تھا کیونکہ وہ تو اس کی ساتھی تھی ۔۔۔ انشاء تو غیر اور اجنبیت سا لگا اس کے منہ سے کتنا غیر شناسا سا لگا تھا اس کو ۔۔۔
“ایسا کیا ہوگیا ہے جو اس طرح بات کررہا ایمان مجھ سے ۔۔۔اس نے دکھ سے سوچا ۔۔۔اور اس کے کمرے سے جانے لگی ۔۔۔ ابھی وہ لاؤنج میں پہنچی تھی کہ عیان کی آواز نے اس کے قدم جکڑے ۔۔۔
“انشاء ۔۔۔ عیان صوفے پر بیٹھا کوئی فائل دیکھ رہا تھا ۔۔
“جی عیان بھائی ۔۔۔ اس نے گھبرائے لہجے میں کہا ۔۔۔
“ایک گلاس پانی ۔۔۔ عیان نے بارعب لہجے میں کہا ۔۔۔
“جی ۔۔۔ وہ حکم ملتے ہی پانی لینے فریج کی طرف بڑھی ۔۔۔
وہ گلاس بھرکے اس کے سامنے آئی پر وہ اپنی فائل میں بزی رہا اور اسے پکارنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی ۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسی روہانسی ہوجاتی تھی ۔۔۔ اول عیان اسے کبھی اپنا کوئی کام نہ کہتا تھا اور اگر کبھی کہے دیتا وہ بگڑ ہی جاتا ۔ ۔ اس وقت بھی انشاء کو جلدی تھی کیونکہ کالج جانا تھا ایمان کے ساتھ وہ اسے ڈراپ کرتا ہوا جاتا تھا ۔۔
کئی منٹ گذر گۓ پر وہ خاموش کھڑی رہی گلاس تھامے ۔۔۔ عیان کی فائل پر سے نظر ہٹی تو اس کے پاؤن پر پڑی تو اس نے ہاتھ بڑھایا گلاس تھامنے کے لیۓ ۔۔۔ وہ اپنے خیال میں تھی اور گلاس اس نے پہلے چھوڑ دیا اور گلاس زمین بوس ہوگیا ۔۔۔ پانی کی کچھ چھینٹین عیان پر تو کچھ انشاء کو لگے ۔ ۔ گلاس تو چھناکے سے ٹوٹ گیا ۔۔۔
“نانسینس , یہ کیا بےوقوفی کی ہے , اب تک ایک گلاس پانی کے دینے کی تمیز نہیں آئی تم میں ۔
عیان کاغصہ عروج پر تھا اور انشاء سہمی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
” انشاء بیٹا تم جاؤ میں صاف کر دوں گی۔۔۔ اسی وقت زینب بی بی نے اکر جلدی سے کہا ۔۔۔ انشاء نے جانے کےلیۓ قدم بڑھاۓ اسی وقت عیان کی غصیلی آواز نے اس کے قدم روکے ۔۔
“رک جاؤ , وہ سوالیہ نظروں سے عیان کو دیکھنے لگی ۔۔۔
“زینب بی بی اپ نہیں یہ خود کرے گی اج تک اپ نے ہی اس کے بگڑے کام کیۓ ہیں اب خود کرنا سیکھے ۔۔۔ جلدی صاف کرو انشاء ۔۔۔
عیان نے غصے سے کہا ۔۔۔ زینب بی بی رک گئیں ۔۔۔ بابا اور ایمان بھی لاؤنج میں اگۓ ۔۔۔ پر عیان کے سامنے کوئی کچھ کہنے کی ہمت نہ کرسکا ۔۔۔
ڈر کے مارے انشاء نے جلدی سے انگلیوں کے پوروں سے کانچ چننے لگی ۔۔۔
ایک دم عیان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ۔۔۔
“پاغل ہو کیا , زینب بی بی اپ ہی کرلیں یہ کام , بابا دیکھیں اپ کی بیٹی کے کام اور اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہے , ہم اس کی شادی کا سوچ رہے ہیں اور بچپنا دیکھیں اس کا ۔۔۔
“چپ کرجاؤ بس بولے جارہے ہو میری بیٹی کو ڈرا دیا تم نے ۔۔۔ جاؤ ایمان فرسٹ ایڈ باکس لاؤ ۔۔۔
عیان نے اسے صوفے پر بٹھایا اپنے ساتھ ۔۔۔ بابا جان اس کے دوسرے طرف بیٹھے ۔۔۔ ایمان جلدی سے باکس لایا اور مہارت سے اس کی پٹی کردی ۔۔۔
“چلو دودھ کے ساتھ یہ دوائی کھالینا ۔۔۔ ایمان نے بڑھائی گولی جو اس کے سامنے دوزانو بیٹھا تھا ۔۔۔
“میں دودھ نہیں پیتی ایمان ۔۔۔ اس نے روتے ہوۓ کہا ۔۔۔
“زینب بی بی دودھ کا گلاس لائیں ۔ عیان نے حکمیہ لہجے میں کہا اور زینب بی بی دو منٹ میں گرم دودھ لے کر اگئی ۔۔۔
“باباجان ۔۔۔ انشاء نے رونی صورت بنا کر کہا ۔۔۔ ابھی بھی وہ عیان اور بابا جان کے بیچ بیٹھی تھی ۔۔۔
“شاباش دودھ کے ساتھ دوائی لو اور ارام کرو , کل چلی جانا کالیج سمجھی ۔۔۔
عیان نے دوٹوک لہجے میں کہا اس کے ایک ہاتھ میں دودھ کا گلاس اور دوسرے میں کچھ گولیان تھیں ۔۔۔ اب انشاء نے مدد طلب نظروں سے سب کو دیکھا پر سب نے نظرین پھیر لیں ۔۔۔ اب کوئی چارہ نہ تھا سواۓ پینے کے ۔
“اب جلدی کرو سب کو اپنے کام پر جانا ہے , ہری اپ ۔ تین گھونٹ میں ختم کرنا ۔۔ عیان نے بچوں کی طرح بچکارا اسے ۔۔۔
ڈر کے مارے اس نے جلدی سے گولیان لے کر اوپر سے دودھ پی لیا ۔۔۔ ایمان اور بابا جان ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراۓ کیونکہ انشاء صرف عیان کی مانتی تھی ۔۔۔ زینب بی بی کو بھی ہنسی آئی اس کے انداز پر ۔
عیان کے حکم پر وہ کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ مریل قدموں سے ۔۔۔
“عیان اتنا کیوں کرتے ہو اس کے ساتھ ۔۔۔ بابا جان نے کہا ۔۔۔
“میں نے صرف ایک گلاس پانی مانگا , میرا سارا وقت خراب کردیا اس لڑکی نے ۔۔۔ وہ اپنی فائل بریفکیس میں ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
“چلتا ہوں دیر ہورہی ہے اپ بھی آفیس ائیۓ گا اج ۔۔۔
“اوکے بیٹا ۔۔۔ وہ اپنے خوبرو بیٹے کو جاتا دیکھنے لگے ۔۔۔ جو بلا کا ہنڈسم اور مغرور مشہور تھا اپنے سرکل میں ۔۔۔ بہت لڑکیوں کا کرش تھا پر اج تک اسنے کسی کو ایک نظر نہ دیکھا ۔۔۔
@@@@@@
“میری بیٹی کیسی ہے اب ۔۔۔ دن کو آفیس سے انے کے بعد بابا جان اس کے کمرے میں آۓ اس کو پوچھنے ۔۔۔
“بابا جان میں تو ٹھیک ہوں پر عیان بھائی سے پوچھین میں اب اٹھ جاؤں ۔۔۔
انشاء نے منہ بنا کر پوچھا ۔۔ اسی وقت ایمان ایا جو اس کی بات سن چکا تھا بابا کے کچھ کہنے سے پہلے بول پڑا ۔۔۔
“تم بھی حد کرتی ہو انشاء بھائی نے کچھ دیر ارام کو کہا تھا تم تو بیڈ ریسٹ پر چلی گئی ۔۔۔ چھوٹی چوٹ ہے چل پھر سکتی ہو۔۔۔
“پھر عیان بھائی غصہ نہ ہوجائیں ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“کچھ نہیں ہوتا اؤ چلو ۔۔۔ پھر وہ باہر اگئی باباجان اور ایمان کے ساتھ ۔۔۔
“زینب بی بی کھانا لگا دیں سب ساتھ میں کھائیں گے ۔۔۔ بابا جان نے کہا ۔۔۔
وہ بابا کے سینے پر سر رکھے تھی ۔۔۔
“کیا بات ہے انشاء بیٹی , کسی بات پر اداس ہو ۔۔۔ انہوں نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا ۔۔ وہ محسوس کررہے تھے وہ کچھ بےچین ہے ۔۔۔
“نہیں بابا جان ۔۔ بس خود سے دور مجھے مت کیجیۓ گا پلیز ۔۔۔ انشاء اور شدت سے رونے لگی ۔۔
وہ سمجھ گۓ وہ عیان کی باتوں پر پریشان ہورہی تھی ۔۔۔
“میں کبھی اپنی بیٹی کو خود سے دور نہیں کروں گا ۔۔۔ باباجان نے اس کے انسو پونچھ کر کہا ۔۔۔
“پر کھانا کھاؤ پہلے ۔۔۔ بابا جان نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا ۔۔۔
“جی بابا جان ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
آج خاموشی تھی ورنہ ہر وقت شور رہتا انشاء اور ایمان کی موجودگی میں اور خاص کر عیان نہ ہو تو اور ہنگامہ برپا کرتے رہتے ۔۔۔
صرف دن کو ہی نہیں رات میں بھی باباجان نے محسوس کیا اس خاموشی کو ۔۔۔
@@@@@
رات کے کھانے کے بعد خاموشی سے انشاء نے قہوہ دیا اور کافی دی عیان کو جانے لگی ۔
“کہان جا رہی ہو بیٹھو ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
انشاء اس کے حکم پر بیٹھ گئی ۔۔۔ ایمان نے بھی انشاء کے اداس چہرے کو دیکھا دونوں کے بیچ بات چیت بند تھی تین دن سے ۔۔۔ پہلی دفعہ تھا دونوں ایک دوسرے کو بتانے سے قاصر تھے نہ انشاء نے وجہ پوچھی نہ ایمان نے پوچھی ۔۔۔ سردمہری دونوں کے تعلق میں اگئی تھی ۔۔۔ خاموشی سے ساتھ جاتے اور واپسی میں اتے ساتھ پر بلا وجہ بغیر ضرورت کے ایک لفظ نہ بولتے ایک دوسرے سے ۔۔
“بھئ تم دونوں کے بیچ کیا ہوا ہے جو اتنی شدید ناراضگی ہوگئی ہے ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہیں ۔۔۔ ہم نے کچھ اور سوچا ہوا تھا پر اب تم دونوں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کررہے ہو ۔۔۔
عیان نے دونوں کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ انشاء بابا کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ دوسری طرف ایمان بیٹھا تھا جبکہ عیان سامنے والے صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔۔
“ایسا کچھ نہیں ۔۔۔ دونوں نے ایک اواز کہا ۔۔ باباجان مسکراۓ اور کہا ۔۔۔
میں تو چاہتا ہوں میری بیٹی اسی گھر میں رہے ہمیشہ اس لیۓ تم دونوں کو ایک خوبصورت رشتے میں باندھ دوں پر تم دونوں کی ناراضگی اب مجھے کچھ اور ۔۔۔۔
“نہیں بابا جان ہم میں کوئی لڑائی نہیں ۔۔۔ پھر دونوں نے ایک ساتھ کہا اور چپ بھی ہوگۓ ۔۔۔ اب کے عیان نے جاندار قہقہ لگایا اور کہا ۔۔۔
“تو تم دونوں نے یہ ڈرامہ اس لیۓ رچایا ہوا ہے کہ ہم اس طرف غور کریں ۔۔۔ انشاء نے نظرین جھکالیں جبکہ ایمان کھل کے مسکرایا اور بابا کو گلے لگایا اور عیان کو بھی ۔۔۔
پر ایمان میں تو اب تم دونوں کی خاموشی پر کچھ اور سوچنے ۔۔۔
پلیز بابا جان جو اپ نے پہلے سوچا وہ بلکل ٹھیک فیصلہ ہے ۔۔۔
انشاء اٹھنے لگی اس چہرہ گلاب کی طرح لال ہوگیا تھا شرم سے اور عیان نے دلچسپی سے دیکھا اور پہلی دفعہ عیان نے کسی لڑکی کو اتنا شرماتے ہوۓ دیکھا تھا ۔۔۔ بابا جان نے انشاء کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بٹھالیا اور اسے دیکھا جس کا سرخ سفید رنگت چہرہ شرم سے لال ہورہا تھا گلابی ہونٹ کپکپا رہے تھے ایمان نے محبت سے دیکھا اسے ۔۔۔ ایمان عیان کے ساتھ بیٹھ گیا تھا اور دونوں بھائی اب باپ بیٹی کو دیکھنے لگے ۔۔۔
“ایمان کا تو پتا چل گیا اب اپنا فیصلا سناؤ انشاء …. انہون نے کہا ۔۔۔” جو اپ کا فیصلا وہی میرا ہے بابا جان ۔۔۔ اتنا کہے کر وہ بھاگ گئی ۔۔۔
سب ہنس دیۓ ۔۔۔ ایمان بھی اس کے پیچھے گیا ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“دیکھا اپ نے بابا جان دونوں کتنے چھپے رستم نکلے ۔۔۔
“تم نے بلکل سہی کہا تھا , بس اللہ دونوں کو ساتھ خوش رکھے ۔ آمین ۔۔۔
“آمین ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
اور اگے کی پلاننگ کرنے لگے ۔۔۔۔
@@@@@@@
اس سے پہلے وہ دروازہ بند کرتی ایمان اس کے پیچھے اگیا پاؤں رکھ کے کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔
” جاؤ یہاں سے ایمان کے بچے ۔۔۔۔
انشاء نے کہا اور منہ پھیر لیا ۔۔۔
“نہیں جاؤں گا ۔۔ پہلے دیکھنے دو مجھے یہ خوبصورت چہرہ ۔۔۔ وہ گلنار ہوتا اس کا چہرہ دیکھنا چاہ رہا تھا ۔۔۔ جو وہ اس سے چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
وہ بےانتہا خوش تھا ایسا لگا سر سے کوئی بوجھ اترا ہو ۔
” ہاتھی میرا ساتھی شرماتی بھی ہے ۔۔ ایمان نے چھیڑا ۔۔
“نہیں ہوں تمہاری ساتھی , اب انشاء کہنا مجھے ۔۔ اس نے روٹھے لہجے میں کہا ۔۔۔
پُرسکون تو انشاء بھی ہوئی تھی ۔۔۔ اسے یقین نہیں ارہا تھا باباجان اسے بہو بنائیں گے بھی کبھی ۔۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کررہی تھی جس نے بغیر رکاوٹ کے ان کو ملا دیا ۔۔۔
“قطعی نہیں اب تو پکی میری ساتھی بنو گی ۔۔۔
ایمان نے کہا ۔۔۔ وہ بھاگ کر ڈریسنگ روم جانے لگی ۔۔۔ ایمان نے کہا ۔۔۔
“رکو تو سہی میری ساتھی ۔۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا ۔۔ وہ رک گئی تھی ۔۔۔
“ساری عمر چاہتا رہوں گا میری آخری سانس تک, تم سے محبت کرتا رہوں گا , خدا سے ابھی مانگنا شروع کیا تھا پر بن مانگے میری جھولی بھردی اللہ نے , بہت مہربان ہے میرا رب ۔۔۔
وہ دل سے اظہار کر رہا تھا اور انشاء کا دل اس کی محبت میں دھڑکنے لگا ۔ ۔
“بےشک ۔۔۔ ایمان میں بھی اج بہت خوش ہوں ۔۔۔ اپنے رب کی شکر گذار ہوں ۔۔۔
“ایسے ہستی مسکراتی رہنا , میری ہنسی خوشی سب تم سے ہے انشاء تم ہی میری ہمسفر اور ہاتھی میری ساتھی ہو ۔۔۔
“اف ایمان اب تو سلم ہوگئی ہوں پھر بھی ہاتھی کہتے ہو ۔۔۔
اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا اور گھوری سے نوازا ۔
“مجھے تو اج تک وہ موٹو یاد ہے جسے ہلانے میں , میں ناکام ہوگیا تھا ۔۔۔
ایمان کے بچے بہت ماروں گی اگر سب کے سامنے اب ہاتھی کہا ۔۔۔
“ایمان کے بچے پیدا کرنے کے بعد تم نے ہاتھی ہو ہی جانا ہے ۔ ایمان نے شرارتی انداز میں کہا ۔۔۔۔
“باباجان دیکھیں کیا کہے رہا ہے مجھے ایمان ۔ ۔
انشاء نے ایک دم کہا , جس پر گھبرا کر اس کا ہاتھ چھوڑا اور ایمان نے دروازے کی طرف دیکھا اور انشاء ہنستی ہوئی ڈریسنگ روم گئی اور دروازہ لاک کرلیا ۔۔۔ پھر دونوں کے قہقہوں سے کمرہ گونجنے لگا ۔۔
“اج تو یہ فاؤل کرگئی آئندہ نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔ ایمان نے وارننگ انداز میں کہا ۔۔۔
“دیکھ لیں گے ۔۔۔ اندر سے آواز آئی ۔۔۔
“ہممم دیکھیں گے ۔۔۔ اور وہ چلا گیا ۔۔ جانتا تھا اب اس کے جانے بعد ہی انشاء نکلے گی ۔۔۔
ٓ@@@@@@
اگلے دن سے ہی تیاریان شروع کردی تھی زینب بی بی نے ۔۔۔ اور سب رشتیداروں میں مٹھائی بانٹ کر سب کو بتا دیا گیا اس رشتے کے بارے میں۔۔۔ گاؤں سے بھی مبارکباد کی کالیں آئیں ۔۔۔
اب تو گھر میں یہی ایک موضوع رہ گیا تھا ۔۔۔
اس وقت بھی عیان اور باباجان کی بات اسی ٹاپک پر ہورہی تھی ۔۔۔
“انشاء کا کالیج کملیٹ ہوجاۓ پھر شادی کردیں گے فلحال تب تک مگنی ٹھیک رہے گی اور ایمان کی بھی پڑھائی مکمل ہوجاۓ گی ۔۔۔ کیا خیال ہے عیان ۔۔۔
“پر بابا جان مجھے لگتا ہے نکاح کردیتے ہیں پھر رخصتی کردینگے دونوں کی پڑھائی مکمل ہوجانے کے بعد ۔۔۔
“بات تو ایک ہی ہے ۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔
“نہیں بابا جان بات الگ الگ ہے کیونکہ مگنی ناپائیدار رشتہ ہے , اس میں لمٹس ہونی چاہیۓ , پر نکاح کردین گے تو دونوں ایک دوسرے کے محرم ہوجائیں گے پھر اس فیز کو انجواۓ کرین گے تو اپ کو اعتراض بھی نہیں ہوگا ۔۔
عیان کی بات پر چپ ہوگۓ تھے حیدرشاہ ۔۔۔
“ٹھیک ہے ۔۔۔ کل تم اور زینب بی بی لے جانا انشاء کو اس کے نکاح کا سوٹ دلوانے ۔۔۔۔
“میں کیوں بابا جان , ایمان اور وہ اپنی پسند کا لیں ۔۔۔ میرا کیا کام ۔۔۔ عیان نے کہا ۔
“عیان تم ہماری روایات کیوں بھول رہے ہو , انشاء میری بیٹی ہے مجھے بیٹی کے باپ کی طرح سوچ اتی ہے ۔۔۔ باباجان نے کچھ سرد لہجے میں کہا , عیان کو اس وقت وہ بالکل ایک بیٹی کے روایتی باپ کی طرح لگے ۔۔۔
پر عیان بھی ان کا بیٹا تھا اور اسی انداز میں کہا ۔۔۔
“تو مجھے ایمان کے باپ کی طرح کے خیالات اتے ہیں اس لیۓ نکاح کی تجویز رکھی میرے پیارے باباجان ایمان اج کا لڑکا ہے وہ ان لمحوں کو انجواۓ کرنا چاہے گا اور ہمیں اس کا بھی سوچنا ہے پیارے باباجان ۔۔۔ عیان نے بھی اسی انداز میں جواب دیا ۔۔۔
“عیان تم تو ۔۔۔۔۔ باباجان کی بات کاٹ کر عیان نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“بسس ٹھیک ہے بابا جان جو اپ کا حکم کل میں خود لے جاؤں گا انشاء اور زینب بی بی کو نکاح کا جوڑا لینے کے لیۓ ۔۔۔
“ہممم یہی ٹھیک رہے گا ۔۔۔ باباجان نے کہا ۔۔۔
وہ عیان کی موجودگی میں پریشان ہورہی تھی ۔۔ پر زینب بی بی کے ساتھ سے تسلی ہورہی تھی ۔۔۔
مال پہنچ کر انشاء اس کے پہچھے چل رہی تھی اہستہ اہستہ ۔۔۔
“اب یہ کیا مری ہوئی چال سے چل رہی ہو ۔۔۔ جلدی کرو اتنا رش ہے ۔۔۔ عیان نے اسے گھورتے ہوۓ کہا ۔۔۔ ویسے بھی وہ بےانتہا بےزار لگا دونوں کو ۔۔۔
“عیان بیٹے , اس طرح نہیں کہتے ۔۔۔ زینب بی بی نے کہا ۔۔
وہ ان کو ملازمہ کم گھر کا فرد سمجھتے تھے اس لیۓ انہوں نے تنبہی کی اور عیان کے چہرے کے زاویۓ کچھ نرم ہوۓ ۔۔۔
“سوری زینب بی بی ۔۔۔ اپ جانتی ہیں میں وقت کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔ اس کی سلو مارجن میرا وقت برباد کرے گی ۔۔۔
انشاء نے نظرین جھکالیں اور زینب بی کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔ چلنے لگی ۔۔۔
“اب اس جلاد ہلاکو کے ساتھ میں اپنے نکاح کا جوڑا لوں , کیا مصیبت ہے , سمجھ نہیں اتا یہ مصیبت وقت کے ساتھ چلتا ہے یا وقت اس کے ساتھ چلتا ہے ۔۔۔ باباجان کس مصیبت میں پھنسا دیا ۔۔۔
وہ منہ ہی منہ میں منمنائی ۔۔ زینب بی کو کچھ سمجھ ایا کچھ سمجھ نہیں ایا ۔۔ پر عیان نے ایک دم کہا ۔۔۔
“کیا کہا تم نے پھر سے کہو ذرہ ۔۔۔ جلاد ہلاکو اور کیا کہا ۔۔۔
اب انشاء کو لگا وہ گئی کام سے ۔۔۔ عیان کا غصہ اور اپنی جان نکلتی سی محسوس ہوئی ۔۔۔ اس سے پہلے دونوں کے بیچ بات بڑھتی کسی نے عیان کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ پلٹا ۔۔۔
وہ اس کے گلے لگا ۔۔۔
“تھینک یو سو مچ بھائی ۔۔۔۔ یو آر بیسٹ ۔۔۔
عیان مسکرایا ایمان کی بات پر اور کہا ۔۔۔۔
“بس جلدی شاپنگ کرو دونوں اور جیسے فری ہو مجھے بتانا میں پک کرلوں گا ان کو ۔۔۔
“پلیز زینب بی , بابا جان کو پتا نہیں چلنا چاہۓ ورنہ ان کو برا لگے گا ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔ ایک سلگتی نظر انشاء پر ڈالنا نہ بھولا وہ جو خوش تھی جان بچی لاکھوں پاۓ پر جلدی سے نظریں جھکا گئی ۔۔۔
“کوئی بات نہیں بچوں , یہ ہماری اپس کی بات ہے ہمارے بیچ ہی رہے گی ۔۔ وہ مسکرائیں ۔۔۔
عیان چلا گیا ۔۔ ایمان اور انشاء نے مل کے شاپنگ کی ۔۔ ان دونوں کا معصوم انداز دیکھ کر وہ دونوں کی نظر دل ہی دل میں اتارتی رہیں ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔ انشاء کا چہرہ گلنار ہوگیا تھا اس کی سنگت میں ۔۔۔
“اللہ بری نظر سے بچاۓ دونوں کو ۔۔ آمین ۔۔ اور ان دونوں پر ایتوں کا ورد کرکے پھونکا ۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے کو مکمل کررہے ہیں , مال میں کئی لوگوں نے پلٹ کر اس کپل کو دیکھا ۔۔۔
کافی دیر بعد ۔۔۔
“جلدی کرو دونوں گھر انتظار کرہے ہونگے تمہارے بابا جان ۔۔۔
زینب بی نے کہا ۔۔۔ دونوں نے ساتھ “جی کہا ۔۔۔ اسی وقت ایمان کے موبائل کی گھنٹی بجی ۔۔۔
“لین عیان بھائی کا بھی فون اگیا ۔۔۔ ایمان نے کال ریسوو کرکے مال کی ایکزٹ کی طرف جانے لگے ۔۔۔ سامنے عیان ہی کھڑا تھا اور دونوں پر نظر ڈالی , دل ہی دل میں “ماشاءاللہ کہا دونوں ساتھ میں اتنے خوبصورت لگ رہے تھے ۔۔۔
انشاء کا چہرہ دمک رہا تھا کچھ نیاپن لگا عیان کو اس پر ڈائمنڈ کی نوز پن کی چمک جو ایک الگ ہی تاثر دیا عیان کو ۔۔۔ شاید پہلی دفعہ اس نے اتنی غور سے دیکھا تھا اس زیور کو ۔۔۔
“بھائی دیکھیں , مجھے اچھی لگی یہ نوزپن ڈائمنڈ کی تو لے لی انشاء کے لیۓ ۔۔ ایمان نے چہک کر کہا ۔۔۔
“ہممنم اچھا کیا ۔۔۔ عیان نے اہستہ سے کہا ۔۔
“اب بابا کے سامنے بات سنبھال لیجیۓ گا پلیز ۔۔ اس نے ریکوئیسٹ کی ۔۔۔
“بےفکر ہوجاؤ ان کو پتا نہیں چلے گا ۔۔۔ عیان نے تسلی دی ۔۔
“اور بھائی کیسی لگ رہی ہے یہ انشاء پر ۔۔۔
“اچھی لگ رہی ہے , اب جاؤ , ہمیں بھی گھر پہچنا ہے بابا پوچھ رہے ہیں ۔۔ عیان نے ہنس کر کہا ۔۔۔
انشاء اور زینب بی کو لے کر وہ گاڑی کی طرف بڑھا ۔۔۔
@@@@@@
آخرکار خوشیوں بھری وہ رات اگئی جس کا بے صبری سے سب کو انتظار تھا ۔۔۔ شہر کا سب سے مہنگا بینکوئیٹ بک کیا تھا عیان نے ۔۔۔ اعلیٰ کوالٹی کی ڈیکوریشن ان کی امارت کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔۔۔ بہترین کھانے کا انتظام تھا ۔ ایک ایسا شخص نہ تھا جس نے تعریف نہ کی ہو اس انتظام کی یا پھر دولہے دلہن کی ۔۔۔
نکاح کا انتظام بھی اسٹائیلش طریقے سے کیا گیا تھا ۔۔۔ سفید پردہ لگا کر دولہے دلہن کو جدا بٹھا کر ایک دوسرے کے سامنے بلکل لکھنوی انداز میں نکاح پڑھایا گیا ۔۔۔ اس انداز کو سب نے سراہا ۔۔۔ ایمان کی طرف عیان اور اس کا بہترین دوست عمر ساتھ میں ایمان کے کئی دوست بیٹھے اور انشاء کی طرف باباجان اور زینب بی بی ساتھ کچھ فیملی فرینڈز بھی ۔۔۔
بابا جان انشاء کے ساتھ بیٹھ کر اسے باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔۔۔ حیدر شاہ نے خود کو بیٹی کا باپ ثابت کیا ۔۔۔ انشاء کتنی دیر ان کا ہاتھ تھام کر روپڑی ۔۔۔ کتنا عزیم تھا یہ شخص جس نے اپنی اولاد سے بڑھ کر اسے چاہا ۔۔۔
انکھ میں انسو کئی لوگوں کے اگۓ محبت کے اس انداز پر ۔۔۔ پھر مشکل سے عیان نے چپ کروایا اور کہا ۔۔۔
“ابھی رخصت نہیں ہوئی اپ کی بیٹی باباجان ۔۔۔۔
بات میں دوسرا لقمہ ایمان نے دیا ۔۔ اور وہ ہنس پڑے ۔۔۔
“اور بےفکر ہوجائیں اپ کے گھر ہی انا ہے جب رخصت ہوگی ۔۔
“ہممم اب چلو دونوں اسٹیج پر ۔۔۔ باباجان نے خود کو سنبھال کر کہا ۔۔۔پھر ایمان اور انشاء کو ساتھ بٹھایا گیا اور سب کے سامنے مگنی کی رسم ادا کی گئی ۔۔۔ ایمان نے انشاء کو اور انشاء نے اسے رنگ پہنائی ۔۔۔
@@@@@@
“ماشاء اللہ بہت خوبصورت کپل لگ رہا ہے دونوں کا کیوں عیان ۔۔۔
عمر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسٹیج کی طرف دیکھا اور کہا ۔۔۔
“ماشاء اللہ ۔۔۔ سہی کہا تم نے ۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچاۓ دونوں کو آمین ۔۔۔ عیان کے کہنے پر عمر نے کہا ۔۔۔
“آمین ۔۔۔
“یار کتنا اچھا ہوتا اگر اس محفل میں تمہارے بچے اپنے چاچا چاچی کو تنگ کررہے ہوتے تو کتنا مکمل لگتا یہ فنکشن ۔۔۔
“اور ہان میں ان کو تمہارے حوالے کرتا اور وہ تمہارے بچے کچے بالوں کو کھینچ کر گنجا کررہے ہوتے تم کو , تو مجھے اور بھی مزا ارہا ہوتا ۔۔۔
“عیان کتنی بار کہا ہے بالوں کا مذاق نہیں ۔۔۔ عمر کو اپنے بالوں سے بڑا لگاؤ تھا جس کی جتنی فکر کرتا اتنے گرتے اور عیان کے گھنے بالوں کو دیکھ کر عمر چڑ جاتا ۔۔۔
“تو عمر یار میں نے کتنی بار کہا مجھ سے شادی کا مذاق نہیں ۔۔۔ عیان نے کہا ۔
“اوکے اوکے یار رہنے دو تمہیں سمجھانا بےکار ہے ۔۔۔ عمر نے شانے جھٹکے اب دونوں تینتیس کے ہونے لگے تھے ۔۔ عمر کے دو بچے تھے اسے عیان کا کنواراپن کھٹکتا تھا جیسے ان کی سرکل کی لڑکیوں کو ۔۔۔ اس وقت ان کے سرکل میں سب سے ڈیمانڈنگ لڑکا عیان تھا ۔۔۔ عمر یا باباجان کے پوچھنے پر ہمیشہ اس کا یہی جواب ہوتا ۔۔۔
“ابھی نہیں سہی وقت انے پر کرلوں گا ۔۔ اتنا دوٹوک انداز کسی کی ہمت نہ ہوتی دوبارہ کہنے کی ۔۔۔
“تو پھر بےکار کی کوشیشین نا کرو ۔۔۔ عیان نے کہا بےپروائی سے ۔۔۔ اور ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔
“میری دعا ہے تجھے شدت والی محبت ہو اور تو شادی کرے اور مجھے چاچا کہنے والے اجائیں ۔۔۔
عمر کا بھی اپنا دکھ تھا چاربہنوں کا اکلوتا بھائی اور اکلوتا بیسٹ فرینڈ بھی کنوارا ۔۔۔
“محبت کو چھوڑو , باقی چاچا بنائیں گے تم کو ایک دو سال صبر میرے یار ۔۔۔
دونوں ہنسنے لگے ۔۔۔ اسی وقت باباجان دونوں کی طرف بڑھے ۔۔
“عیان تم چھوڑ آؤ انشاء کو گھر ۔۔۔ اب مہمانوں کی واپسی ہورہی ہے ۔۔۔
“میں ۔۔۔۔ پر بابا ایمان لے جاۓ , مجھے یہاں سے سب مہمانوں کو رخصت کرکے بلز کلیئر کرنے ہیں ۔۔۔ میری بہت مصروفیات ہیں ۔۔۔
عیان نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کہا ۔۔۔ وہ باپ تھے عیان بھی ان کا بیٹا تھا ۔۔۔ ایمان کے اترے منہ کو دیکھا اس نے ۔۔ وہ جانتا تھا اس کا بھائی ان خوبصورت لمحوں کو اپنی بیوی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے جو غلط بھی نہ تھا ۔۔
“اوکے میں خود لے جاتا ہوں , جانتا ہوں تمہاری سب چالاکیان ۔۔
باباجان نے کہا ۔۔۔۔
عمر منہ پر ہاتھ رکھے یہ فیملی ڈرامہ دیکھنے لگا جس میں سب سے زیادہ قابل رحم حالت ایمان کی تھی ۔۔۔ ہنسی ضبط کرنا مشکل لگا عمر کو ۔۔۔ وہ ان کے گھر اتا جاتا رہتا تھا اور ہر بات سے واقف تھا ۔۔ عیان نے گھورا عمر کو اور بابا کے قریب ہوکر کہا ۔۔۔
“بابا ایک منٹ میری بات سنیں ۔۔۔ وہ سائیڈ لے جاکر ان کو سمجھانے لگا ۔۔۔ کچھ دیر بعد دونوں ساتھ اۓ ۔ ایمان کے کندھےطپر عمر کا ہاتھ تھا ۔۔۔ ایمان نے مدد طلب نظرون سے عیان کو دیکھا ۔
“ہممم انشاء کو تم لے جاؤ ایمان , پر دھیان سے جلدی گھر انا ۔۔ ایمان کا دل چاہا یا ہو کا نعرہ لگاۓ پر کنٹرول کرکے کہا ۔۔۔
“جی بھائی ۔۔۔
زینب بی انشاء کو چادر اوڑھائیں اور ایمان کی گاڑی میں بٹھائیں ۔۔۔
زینب بی اور نازیہ بھابھی (عمر کی بیوی ) نے مدد کی اس کی گاڑی میں بٹھایا ۔۔ اور گاڑی روانہ ہوئی ۔۔۔
@@@@@@
چاندنی رات میں دونوں گاڑی میں بیٹھے آئیسکریم کھا رہے تھے ۔۔۔
“میری زندگی کا سب بہترین دن ہے اج کا , ہمارے نام جڑگۓ , ایسا لگتا ہے مکمل ہوگئی میری زندگی , کبھی کوئی گلہ نہیں رہے گا اب زندگی سے ۔۔۔ ایمان نے محبت سے لبریز لہجے کہا ۔۔۔
“میں بھی اج بہت خوش ہوں , میری زندگی کا خوبصورت ترین دن ہے ۔۔ اس نے دوپٹا سر پر لیا جو سرکنے لگا تھا , اسے عیان کی تنبہی یاد تھی جو گاڑی میں بیٹھنے کے بعد عیان نے دی تھی انشاء کو ۔۔۔
“یہ دوپٹا سر سے سرکنا نہیں چاہیۓ اور دونوں جلدی گھر انا ۔۔۔
اخری لفظ ایمان سے کہے تھے ۔۔۔ جس پر دونوں نے اثبات میں سرہلایا ۔ ۔
“اف یہ عیان بھائی کی سختی بھی نا ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔
جس پر ایمان مسکرایا اور کہا ۔۔
“فکر نہ کرو وہ ہم دونوں سے بہت پیار کرتے ہیں ہماری پرواہ ہے اس لیۓ ۔۔۔
“رہنے دو تمہارے بھائی ہیں اور صرف تمہاری پرواہ ہوگی ۔۔۔انشاء نے ہمیشہ کی طرح منہ بنایا اور ایمان نے کھل کے مسکرا کر کہا ۔۔۔
“تمہاری بےاعتباری میرے پیارے بھائی پر , اج کی خوبصورت رات کے لمحے اس بات پر ضایع نہیں کرسکتا میری جان , یہ ہمارے لمحے ہیں صرف ہمارے ۔۔۔ جنہیں صرف تم پر نچھاور کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔
اتنا کہے کر اس نے خوبصورت ڈائمنڈ کا بریسلیٹ نکال اس کی کلائی کی زینت بنایا ۔۔۔ اور دونوں نے سرشار ہوکر ایک دوسرے کو دیکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی گھر کی طرف روانہ ہونے کے لیۓ ۔۔
@@@@@@@